• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

اہل سنت کا تصور سنت

سٹیٹس
مزید جوابات پوسٹ نہیں کیے جا سکتے ہیں۔

ابوالحسن علوی

علمی نگران
رکن انتظامیہ
شمولیت
مارچ 08، 2011
پیغامات
2,521
ری ایکشن اسکور
11,552
پوائنٹ
641
سوال:اس مضمون میں اہل سُنّت کا لفظ جب آپ استعمال کرتے ہیں تو اس سے آپ کی مراد کون سی جماعت ہوتی ہے ؟
جواب: ہم یہ بات پہلے بیان کر چکے ہیں کہ فقہی مباحث میں جب اہل سُنّت کا لفظ استعمال ہوتا ہے تو اس سے مراد صحابہ ''تابعین'' تبع تابعین'' حنفیہ' شافعیہ' مالکیہ ' حنابلہ ' اہل الحدیث اور اہل الظواہر ہوتے ہیں اور ہمارے اس مضمون میں بھی اہل سُنّت سے مراد یہی گروہ ہیں۔یہ واضح رہے کہ عقائد کے باب میں اہل سنت کے مفہوم میں علیحدہ سے تفصیل موجود ہے۔
سوال: اہل سُنّت کے ہاں'سُنّت' کے لفظ کا اصطلاحی معنی کیا ہے؟
جواب: جمیع اہل سُنّت کے نزدیک 'سُنّت' سے مراد اللہ کے رسولۖ کے اقوال 'افعال و تقریرات ہیں۔معروف حنفی فقہاء علامہ کمال الدین ابن الہمام ( متوفی٨٦١ھ) اورعلامہ ابن امیر الحاج (متوفی٨٧١ھ) لکھتے ہیں:
(السنة) و ھی لغة (الطریقة المعتادة) محمودة کان أو لا...( و فی الأصول قولہ علیہ السلام و فعلہ و تقریرہ) مما لیس من الأمور الطبیعیة(٢)
'' 'سُنّت 'کا لغوی معنی ایسا طریقہ ہے جس کے لوگ عادی ہوں چاہے وہ اچھاہو یا برا...اور اصولِ فقہ میں 'سُنّت ' سے مراد رسول اللہۖ کا وہ قول' فعل اور تقریر ہے جو طبعی امور کے علاوہ ہیں''۔
شافعی فقیہ امام زرکشی (متوفی٧٩٤ھ) فرماتے ہیں:
المراد ھنا ما صدر من الرسول ۖ من الأقوال والأفعال والتقریر و الھم وھذا الأخیر لم یذکرہ الأصولیون(٣)
''یہاں یعنی اصولِ فقہ میں سُنّت سے مراد رسول اللہۖ کے اقوال' افعال' تقریرات اور کسی کام کو کرنے کا ارادہ ہیں۔اس آخری قسم کو 'سُنّت' کی تعریف میںعموماً اصولیین نے بیان نہیں کیا ہے''۔
مالکی فقیہ امام شاطبی (متوفی٧٩٥ھ) لکھتے ہیں:
واذا جمع ما تقدم تحصل منہ فی الاطلاق أربعة أوجہ قولہ علیہ الصلاة والسلام و فعلہ و تقریرہ وکل ذلک اما متلقی بالوحی أو بالاجتھاد بناء علی صحة الاجتھاد فی حقہ وھذہ الثلاثة والرابع ما جاء عن الصحابة أو الخلفاء(٤)
' 'سُنّت کے بارے میں ہم نے جو پیچھے بحث کی ہے اس کا خلاصہ یہ ہے کہ 'سُنّت' سے مطلق طور پر مراد رسول اللہۖ کا قول' فعل اور تقریر ہے اور یہ تینوں یا تو وحی کی بنیاد پر ہوں گے یا آپۖ کا اجتہاد ہو گا'بشرطیکہ آپ کے لیے اجتہاد کرنے کا قول صحیح ہو۔یہ 'سُنّت' کی تین صورتیں ہیں اور اس کی چوتھی صورت صحابہ اور خلفائے راشدین کی سُنّت ہے''۔
حنبلی فقیہ و مجتہد امام ابن تیمیہ (متوفی ٧٢٨ھ) فرماتے ہیں:
الحدیث النبوی ھو عند الاطلاق ینصرف علی ماحدث بہ عنہ بعد النبوة من قولہ و فعلہ واقرارہ فان سُنّتہ ثبتت من ھذہ الوجوہ الثلاثة (٥)
''حدیث نبویۖ سے مراد آپۖ کا وہ قول' فعل اور تقریر ہے جوکہ آپۖ سے نبوت کے بعد صادر ہوا ہو۔پس آپۖ کی' سُنّت' ان تین صورتوں سے ثابت ہوتی ہے''۔
سلفی فقیہ و مجتہد امام شوکانی ( متوفی١٢٥٠ھ) ٭ لکھتے ہیں:
واما معناھا شرعا أی فی اصطلاح أھل الشرع فھی قول النبیۖ وفعلہ وتقریرہ(٦)
''اور سُنّت کا شرعی معنی یعنی اہل شرع کی اصطلاح میں' سُنّت' نبی مکرمۖ کے قول' فعل اور تقریر کوکہتے ہیں''۔
٭محققین کے نزدیک پہلے یہ زیدی تھے 'بعد میں انہوں نے زیدیہ (اہل تشیع کا ایک معتدل فرقہ) کے عقائد و فروعات سے رجوع کر لیا تھا۔ شروع میں یہ زیدی تھے جبکہ بالآخر یہ سلفی المسلک کے پرجوش داعی و مبلغ تھے۔ان کی کتاب ''التحف بمذھب السلف'' اور ''کشف الشبھات عن المشتبھات“اس بات پر دلیل ہیں کہ وہ عقیدے میں سلفی تھے۔ اسی طرح ان کی کتاب ''القول المفید فی ادلة الاجتھاد والتقلید'' اور ''السیل الجرار'' یہ واضح کرتی ہے کہ وہ فقہی آراء کے اختیار میں امام زید بن علی کے مذہب کو چھوڑ کر اہل الحدیث کے منہج کو اختیار کر چکے تھے۔
 

ابوالحسن علوی

علمی نگران
رکن انتظامیہ
شمولیت
مارچ 08، 2011
پیغامات
2,521
ری ایکشن اسکور
11,552
پوائنٹ
641
سوال: بعض علماء نے سُنّت کے اصطلاحی مفہوم سے مراد 'سُنّت مؤکدہ و غیر مؤکدہ ' بھی لیا ہے۔ لہٰذا آپ کی اس بات کاکیا مطلب ہے کہ' 'سُنّت کا اصطلاحی مفہوم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کاقول' فعل اور تقریر ہے اور سُنّت کے اس مفہوم پر امت کا اتفاق بھی ہے''؟
جواب: ہم یہ وضاحت پہلے کر چکے ہیں کہ فقہ کی کتابوں میں' سُنّت' کا لفظ سُنّت مؤکدہ' سُنّت غیر مؤکدہ اور سُنّت زائدہ کے معنی میں بھی استعمال ہوا ہے ۔اسی طرح عقائد کی کتب میں کسی عقیدے کو 'سُنّت' کہنے سے عموماً مراد یہ ہوتی ہے کہ یہ عقیدہ بدعت نہیں ہے۔لیکن اہل سُنّت جب' سُنّت' کے لفظ کو مصدرِ شریعت اورقانونی ماخذکے طور پر بیان کرتے ہیں تو ان سب کی مراد ایک ہی مفہوم ہوتا ہے اور وہ آپ کا قول ' فعل اور تقریر ہے۔یہ بھی واضح رہے کہ مصادرِ شریعت و مآخذ قانون اسلامی کی بحث فقہاء و علماء اصولِ فقہ کی کتابوں میں کرتے ہیں نہ کہ فقہ یا عقائد پر مبنی تصانیف میں۔ لہٰذ ا اہل سُنّت میں جب بھی کوئی حنفی' شافعی' مالکی ' حنبلی ' ظاہری یا سلفی عالم دین 'سُنّت' کے لفظ کو مصدر شریعت کے معنی میں استعمال کرے گا تو اس کی مراد فی الواقع آپ کا قول ' فعل اور تقریر ہی ہو گا۔
سوال: بعض عوام الناس کے ذہنوں میں یہ بات بھی بیٹھی ہوئی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی سُنّت سے مراد محض آپ کی عملی زندگی ہے ۔یہ بات کس حد تک درست ہے؟
جواب:یہ ایک تصور ہے جو مولانا اصلاحی مرحوم کی بعض عبارتوں سے مترشح ہوتا ہے۔ بعد ازاں جناب غامدی صاحب نے اپنے استاد اصلاحی صاحب کی عبارتوں پراستوار' سُنّت' کا ایک بالکل جدید و مذموم تصور متعارف کروایا۔ہمارے ہاں بعض مذہبی حلقوں میں بھی یہ تصور اصلاحی صاحب سے استفادے کے نتیجے میں غیر شعوری طور پر نفوذ پذیر ہواہے۔غامدی صاحب کے اس تصور کے مطابق جب 'سُنّت' کے لفظ کو بطور مصدر شریعت استعمال کیا جاتا ہے تو اس سے مراد صرف رسالت مآب کی عملی زندگی ہوتی ہے اور آپ کے اقوال و تقریرات اور اخبار احاد کو،کیونکہ ان کا تعلق عموماً عملی زندگی سے نہیں ہوتا،غامدی صاحب مستقل بالذات مصدر شریعت یا ماخذ قانون نہیں سمجھتے۔
دوسری اور اہم بات یہ ہے کہ اس مضمون میں ہمارا موضوعِ بحث سُنّت کی اتباع ہے اور قرآن و حدیث میں جب اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی سُنّت یا آپ کی بذاتہ اتباع کا حکم دیا جاتا ہے تو کون صاحب عقل یہ کہنے کی جرأت کرے گا کہ آیت قرآنی(قُلْ اِنْ کُنْتُمْ تُحِبُّوْنَ اللّٰہَ فَاتَّبِعُوْنِیْ)میں 'فَاتَّبِعُوْنِیْ' سے مرادصرف آپ کی عملی زندگی میں آپ کی اتباع ہے نہ کہ آپ ۖ کے اقوال و تقریرات میں؟ واقعہ یہ ہے کہ آپ کی عملی زندگی آپ کی سُنّت کاایک جزو ہے نہ کہ کل سُنّت ہے۔کل سُنّت سے مراد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسل مکے اقوال ' افعال اور تقریرات ہیں۔ ہم یہ بھی واضح کر چکے ہیں کہ اتباع سے مراد صرف عمل کی پیروی نہیں ہوتی بلکہ قول کی پیروی بھی اس میں داخل ہے۔ جیساکہ ارشادِ باری تعالیٰ(فَاتَّبَعُوْا اَمْرَ فِرْعَوْنَ) (ھود: ٩٧)میں اللہ سبحانہ و تعالیٰ نے فرعون کے امر و حکم یعنی قول کی پیروی کو اتباع قرار دیا ہے ۔
سوال: آپ نے اہل سُنّت کے حوالے سے یہ موقف بیان کیا ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا ہر ہر قول ' فعل یا تقریر سُنّت نہیں ہے بلکہ آپۖ کے بعض اقوال ' افعال یا تقریرات سُنّت ہیں۔بظاہر یہ موقف بھی تو استخفاف سُنّت یا حدیث ہی کی ایک قسم نہیں بن جاتا؟
جواب: آپ ہماری بات کو ایک دوسرے زاویے سے سمجھنے کی کوشش کریں ۔اہل سُنّت کا کہنا یہ ہے کہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کا ہر ہر قول' فعل یا تقریر سُنّت اور قابل اتباع ہے بشرطیکہ اس کا تعلق شریعت سے ہو۔اس کی مزید وضاحت اس طرح سے ہے کہ آپ اصلاً تو اللہ کے رسول و نبی تھے لیکن اس کے ساتھ ساتھ آپۖ کی ایک بشری زندگی بھی تھی جس کے تقاضوں کے تحت آپ بعض اوقات کوئی دنیاوی بات بھی فرما لیتے تھے یا کو ئی ایسا کام بھی کرلیتے تھے جس کا تعلق ان جائز امور سے ہوتا تھاجو براہِ راست دین کا موضوع نہیں ہیں۔ مثال کے طور پر آپ خلوت میں اپنی ازواجِ مطہرات رضی اللہ عنہن سے کیا باتیں فرمایا کرتے تھے ' کسی بھی صحابی نے نہ تو ان کو نقل کیا ہے اور نہ ہی ان کے جاننے کی کوشش کی ہے۔آپ ذرا غورکریں کہ اگر کوئی شخص اتباع سُنّت کے جذبے میں غلو کرتے ہوئے آپ کے زمانے میں یہ حرکت کر گزرتا کہ آپ کے حجر ے کے باہر کھڑے ہو کر آپ ۖکی وہ باتیں سُنّتا جو آپ خلوت میں اپنی ازواج سے فرمایا کرتے تھے تا کہ وہ شخص بھی خلوت میں اپنی بیوی سے وہی باتیں کرے اور سُنّت کا اجر پائے 'تو اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم صحابہ یا آج کے ایک غیرت مند مسلمان کی اس ''متبع سُنّت'' شخص کے بار ے میں کیا رائے ہو گی؟ اس کو ایک اور مثال سے یوں سمجھیں کہ آپ نے روزے کی حالت میں اپنی بیوی کا بوسہ لیا تو اب ایک نوجوان رمضان کے مہینے میں روزانہ اپنی بیوی کا پچاس دفعہ بوسہ اس لیے لے کہ ہر بوسے پر سُنّت کا اجر و ثواب ملے گا تو آپ کی اس شخص کے بارے میں کیارائے ہو گی' جبکہ اس کا اپنی بیوی کے ساتھ ملوث ہونے کا قوی اندیشہ بھی موجود ہو؟اس ضمن میں ایک اور مثال یہ ہے کہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے ضرورت کے تحت گدھے کی سواری کی ' اور اس میں کوئی شک نہیں ہے کہ یہ ایک جائز امر ہے۔اب ایک مدرسہ یا دار العلوم والے ایک گدھا خرید کر اپنے پاس رکھ لیں اورروزانہ صبح تمام کلاسز کے طالب علم اور اساتذہ اس گدھے پر باری باری سوار ہوں اور اس عمل کو باعث اجر و ثواب سمجھتے ہوئے اس پر پابندی کریں تو ان ''متبعین سُنّت'' کے بارے میں آپ کی کیا رائے ہو گی؟اس کو ایک مزید مثال سے سمجھیں کہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے کسی وجہ سے یا بغیر کسی عذر کے اپنی نواسی امامہ بنت زینب کو کندھے پر اٹھا کر جماعت کروائی ۔اب کسی مسجد میں تمام نمازی اور امام صاحب اپنے شیر خوار بچوں کو روزانہ مسجد میں لے آئیں اور کندھے پر اٹھا کر نماز پڑھیں تو آپ کی ان نمازیوں کے بارے میں کیا رائے ہو گی؟ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کا خلوت میں اپنی ازواجِ مطہرات رضی اللہ عنہن سے پیار و محبت کی باتیں کرنا' روزے کی حالت میں بوسہ دینا'اتفاقاً گدھے کی سواری کرنا' نماز کی حالت میں اپنی نواسی کو کندھوں پر بٹھانا' یہ سب کام اس امر کی طرف متوجہ کرنے کے لیے تھے کہ یہ جا ئز و مباح امور ہیں ۔اگر تو یہ کہاجائے کہ آپ نے یہ کام اس لیے کیے تا کہ اُمت کو معلوم ہو کہ یہ جائز امور ہیں اور اس اعتبار سے یہ دین کاموضوع ہیں توہمیں اس نقطہ نظر سے کوئی اختلاف نہیں ہے۔لیکن اِس مضمون میں ہمارا موضوعِ بحث 'اتباع سُنّت' تھا ۔جب سُنّت کی اتباع کی بحث کی جاتی ہے تو آپ کے بہت سے ایسے اقوال و اعمال بھی ہوتے ہیں جن میں اللہ کی طرف سے آپ کی اتباع کا مطالبہ اُمت سے نہیں ہوا ہوتا 'اسی کو اہل سُنّت آپ کی بشری زندگی کا نام دیتے ہیں۔یعنی ایک آپ کی شرعی زندگی ہے اور ایک بشری زندگی ہے۔آپ کی شرعی زندگی کا ہر ہر قول' فعل اور تقریر شریعت و قابل اتباع ہے جبکہ آپ کی بشری زندگی کا معاملہ اس سے مختلف ہے۔ اس میں اُمت سے آپ ۖکی اتباع کا مطالبہ نہیں ہے۔
 

ابوالحسن علوی

علمی نگران
رکن انتظامیہ
شمولیت
مارچ 08، 2011
پیغامات
2,521
ری ایکشن اسکور
11,552
پوائنٹ
641
سوال: یہ کیسے معلوم ہو گا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا فلاں قول یا فعل آپ کی بشری زندگی سے متعلق ہے یا شرعی زندگی سے ؟
جواب: یہ بہت ہی اہم سوال ہے اور اسی سوال کا جواب ہم نے اس مضمون کی پچھلی دو اقساط میں تفصیلاً دیاہے۔فقہائے اہل سُنّت نے کچھ ایسے اصول بیان کر دیے ہیں جن کی روشنی میں آپ کی شرعی و بشری زندگی سے متعلق اقوال و افعال میں فرق کیا جا سکتا ہے۔مثال کے طور پر ایک اصول یہ ہے کہ اتفاقی امور کا تعلق آپ کی بشری زندگی سے ہوتا ہے ۔جیسا کہ آپ کا گدھے کی سواری کرنا یا اونٹ پر طواف کرنا ایک اتفاقی امر تھا۔
سوال: کیا فقہاء نے کوئی ایسی فہرست مرتب کی ہے جس سے یہ معلوم ہو جائے کہ آپ کی فلاں سنن آپ کی بشری زندگی سے متعلق ہیں اور فلاں کا تعلق شریعت سے ہے؟
جواب: فقہاء یا علماء نے اس قسم کی کوئی فہرست مرتب نہیں کی ہے ۔ ہم یہ بھی دیکھتے ہیں کہ کوئی ایسی فہرست بھی آج تک فقہاء یا علماء نے مرتب نہیں کی ہے جس میں تمام سنن کا احاطہ کر لیا گیا ہو'بلکہ علماء اور محدثین نے ایسی کتب احادیث کو مرتب و مدوّن کیا ہے جن میں ان سنن کا بیان تھا۔
اس فہرست کو مرتب نہ کرنے میں کیا حکمت کارفرما ہے' اب ہم اس کا جائزہ لیتے ہیں۔اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلمکے بعض اقوال و افعال کے بارے میں تو فقہاء کا اجماع ہے کہ ان کا تعلق آپۖ کی شرعی زندگی سے ہے'جیسا کہ آپ کا دن میں پانچ نمازیں پڑھنا۔اور آپ کے بعض اقوال و افعال کے بارے میں فقہاء کا اتفاق یہ ہے کہ ان کا تعلق آپۖ کی بشری زندگی سے ہے' جیسا کہ آپ کا اونٹ پر طواف کرنا۔طواف کرنا تو ایک شرعی حکم ہے لیکن اونٹ پر سوار ہو کر طواف کرنا ایک بشری تقاضے کے تحت تھا۔لہٰذا افضل یہی ہے کہ پیدل طواف کیا جائے چاہے اونٹ پر طواف کی سہولت موجود بھی کیوں نہ ہو۔امام نووی نے شرح مسلم میں اس بات پر اُمت کا اجماع نقل کیا ہے کہ پیدل طواف افضل ہے۔ یعنی آپ کا اونٹ پر طواف کرنا ایک شرعی سُنّت نہ تھا بلکہ ایک بشری تقاضا تھا جس میں آپۖ کی اتباع کا مطالبہ اُمت سے نہیں ہے۔ اور اسی بات کو حضرت عبد اللہ بن عباس نے بھی ایک روایت میں واضح کیاہے جوصحیح مسلم میں موجود ہے۔جبکہ آپ کے بعض اقوال و افعال ایسے ہیں جن کے بارے میں فقہاء کے مابین اختلاف ہو جاتا ہے کہ ان کا تعلق بشری زندگی سے ہے یا شرعی زندگی سے ۔جیسا کہ آپۖ کے لباس مثلاً عمامے کے بارے میں برصغیر پاک و ہند کے حنفی علماء کاموقف یہ ہے کہ عمامہ پہنناآپ کی شرعی زندگی سے متعلق تھا لہٰذا عمامہ باندھنا ایک شرعی سُنّت ہے' جبکہ سعودی عرب اور بعض دوسرے عرب ممالک کے حنبلی' شافعی ' مالکی اور سلفی علماء کی اکثریت کا کہنا یہ ہے کہ آپ کا عمامہ باندھنا عرب کے رسوم و رواج کے مطابق تھا اور یہ کوئی شرعی حکم نہیں ہے 'لہٰذا یہ سُنّت ِشرعیہ بھی نہیں ہے۔ہمارا موقف بھی یہی ہے۔ علماء کا یہ اختلاف دلائل و قرائن کی بنیاد پر ہوتا ہے اور جس طرف قوی استدلال موجود ہو گا وہ موقف راجح ہو گا۔پس اس مسئلے میں علماء کا یہ اختلاف ایک ایسا امر ہے جو سنن کی اس قسم کی فہرستیں مرتب کرنے میں مانع ہے۔
آج تک مختلف علماء و مفسرین نے قرآن کی آیاتِ احکام سے شرعی احکام کی جو فہرستیں مرتب کی ہیں ان کی تعداد میں بھی اختلاف ہے 'کیونکہ منہجِ استنباطِ احکام' اصولِ فقہ' طریقۂ استدلال اور فہم و فراست کا فرق ہوتا ہے ۔ایک فقیہہ کو بظاہر ایک آیت سے کوئی حکم اخذ ہوتا نظر نہیں آتا لیکن دوسرا فقیہ اسی آیت سے دس قسم کے احکام مستنبط کر لیتا ہے ۔پس احادیث سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی سنن کی فہرست مرتب کرنے میں بھی اس قسم کا اختلاف ہو سکتا ہے۔لہٰذا سنن کے مصادرمحدثین نے کتب احادیث کی صورت میں مرتب کر دیے ہیں جن سے علماء قیامت تک انسانی زندگی کے جمیع گوشوں کے لیے رہنمائی فراہم کرتے رہیں گے۔
 

ابوالحسن علوی

علمی نگران
رکن انتظامیہ
شمولیت
مارچ 08، 2011
پیغامات
2,521
ری ایکشن اسکور
11,552
پوائنٹ
641
سوال: علماء تو اپنے اصول و ضوابط کی روشنی میںرسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی شرعی و بشری زندگی میں فرق کر لیں گے لیکن ایک عامی کو کیسے معلوم ہو گا کہ یہ شرعی سُنّت ہے یا بشری زندگی ہے؟
جواب: ہم یہ بات پہلے بھی بیان کر چکے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی اصل زندگی شرعی زندگی ہے اور آپۖ کی یہ زندگی آپۖ کی بشری زندگی پر حاوی ہے ۔اصل الاصول یہی ہے کہ آپ کے ہر قول ' فعل یا تقریر کو شرعی زندگی سے متعلق ہی سمجھا جائے اِلاّ یہ کہ کسی قول یا فعل کے بارے میں کوئی قرینہ یا دلیل پائی جائے کہ اس قول یا فعل کا تعلق بشری زندگی سے ہے۔ پس آپ کے اکثر و بیشتر اقوال و افعال شرعی زندگی سے متعلق ہیں جن کی اتباع مطلوب ہے ۔ہاں بعض اقوال و افعال ایسے ہیں جو بشری زندگی میں داخل ہیں لیکن یہ بشری زندگی ' آپۖ کی شرعی زندگی کے بالمقابل نسبتاً کم ہے۔پس ایک عامی جب آپ کے کسی قول ' فعل یا تقریر کی پیروی کرتا ہے تو آپ کی شرعی زندگی ہی کی پیروی کر رہا ہوتا ہے اور آپ کے جن اقوال و افعال کا تعلق بشری زندگی سے ہو تو عموماً معاشرے میں علماء کی ان کے بارے میں بحث جاری رہتی ہے اور ایک عامی بھی اگر دین سے تھوڑا بہت تعلق رکھتا ہو تو اسے عموماً معلوم ہوتا ہی ہے کہ اس مسئلے میں علماء کی یہ رائے ہے یا فلاںاختلاف ہے۔ جیسا کہ پاکستان میں نماز کی حالت میں پہلی و تیسری رکعت میں جلسۂ استراحت کے بارے میں حنفی علماء کا کہنا یہ ہے کہ یہ بشری زندگی سے متعلق تھا 'یعنی آپ نے بڑھاپے کی وجہ سے جلسۂ استراحت کیاہے جبکہ اہل حدیث علماء اسے سُنّت ِشرعیہ مانتے ہیں۔اسی طرح اکثر سلفی علماء کے ہاں عمامہ باندھنا سُنّت نہیں ہے جبکہ حنفی علماء اس کو سُنّت قرار دیتے ہیں۔لہٰذا جو شخص سُنّت کی اتباع کرنا چاہتا ہے تو و ہ آپ کے اکثرو بیشتر اقوال و افعال کی پیروی کرے گا او رآپ کے ان اقوال و افعال کے بارے میں بھی علماء کے اختلاف سے کسی قدر واقف ہو گاجن میں بشری یا شرعی زندگی کا تنازع سلف صالحین ہی سے نقل ہوتا چلا آرہا ہے۔
پس ایک عامی کو ہم یہ نصیحت ضرور کریں گے کہ وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ایسے اقوال و افعال کی پیروی و اتباع پر زور نہ دے جن کے بارے میں اُمت کا اتفاق ہے کہ ان میں آپ کی اتباع مطلوب نہیں ہے یا ان کے بارے میں امت کا اختلاف ہے کہ وہ اقوال و افعال بشری معاملات سے متعلق ہیں یا شرعی حیثیت سے وارد ہوئے ہیں 'اور کوئی ایسے صریح قرائن یا دلائل بھی موجود نہ ہوں جو ان اقوال یا افعال کے شرعی ہونے میں نص قطعی یا ظن غالب کا درجہ رکھتے ہوں۔ ٰ
 

ابوالحسن علوی

علمی نگران
رکن انتظامیہ
شمولیت
مارچ 08، 2011
پیغامات
2,521
ری ایکشن اسکور
11,552
پوائنٹ
641
سوال:بعض لوگ آپ کے بارے میں یہ بات مشہور کر رہے ہیں کہ آپ نے اپنے سابقہ مضمون میں یہ لکھا ہے کہ عمامہ پہننا بدعت ہے۔ کیا یہ درست ہے؟
جواب: ہم ایسا بہتان لگانے والوں سے اللہ کی پناہ چاہتے ہیں۔ہمارا نقطۂ نظر تویہ ہے کہ جو عمامہ پہننے کو بدعت کہے وہ خود بدعتی ہے ۔صحیح احادیث میں یہ ذکر موجود ہے کہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے عمامہ پہنا تو آپ معاذ اللہ ! کوئی بدعت کیسے کر سکتے ہیں؟در حقیقت ہمارے بعض ناراض دوستوں نے جب ہمارا موقف اپنی عینک سے دیکھنا شروع کیا تو انہوں نے ایسی چیزیں کھینچ تان کر ہمارے مضمون سے نکالنے کی کوشش کی جو ہمارا مقصود نہ تھیں۔آپ ہماری بات کو غور سے سمجھیں ۔ہم یہ کہتے ہیں کہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے عمامہ باندھا 'کیونکہ عمامہ آپ کے زمانے کا ایک معروف و مروّج لباس تھا' لیکن آپ نے عمامہ تقرب الی اللہ یا عبادت یا ثواب کی نیت سے نہیں باندھا۔لہٰذا عمامہ باندھنے کا تعلق آپ کی بشری زندگی سے ہے۔پس عمامہ باندھنا ایک مباح امر ہے ۔اگر کوئی شخص عمامہ باندھنا چاہتا ہے تو ضرور باندھے۔ہمیں اس پر کیا اعتراض ہو سکتاہے!لیکن اگر کوئی شخص یہ کہے کہ آپ نے عمامہ تقرب الی اللہ یا عبادت کی نیت سے باندھا تھا تو ہمیں اس سے اختلاف ہے۔خلاصۂ کلام یہ ہے کہ ہمارے نزدیک عمامہ باندھنا اور نہ باندھنا برابر ہے۔نہ عمامہ باندھنے پر کوئی اجر و ثواب ہے اور نہ ہی عمامہ نہ باندھنے پر۔عمامہ باندھنا اور نہ باندھناایک مباح امر ہے اور مباح کی تعریف علمائے اہل سُنّت کے ہاں یہی ہے کہ جس کے کرنے یا نہ کرنے پر کوئی اجر و ثواب نہ ہو۔ عمامے کی مثال ایسے ہی ہے جیسا کہ آپ نے تہبند باندھا۔لہٰذا تہبند باندھنا اور نہ باندھنا اور عمامہ باندھنا یا نہ باندھنا یہ کوئی دین کا موضوع نہیں ہے 'بلکہ اس کا تعلق آپ کی بشری زندگی سے ہے جس میں آپۖ کی اتباع کا امت سے کوئی تقاضا نہیں ہے۔
سوال: آپ نے اپنے مضمون میں اہل بدعت کا لفظ استعمال کیا تھا تو اس سے آپ کی کیا مراد تھی؟آپ اپنی مندرجہ بالا بات کو ذرا مزیدو اضح کریں۔
جواب:یہ ایک انتہائی باریک نکتہ ہے جو کہ حضرت عمررضی اللہ عنہ نے اور امام ابن تیمیہ نے بیان کیا ہے۔اس کو ایک مثال سے سمجھیں۔اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے گدھے کی سواری کی۔ظاہری بات ہے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ کام اتفاقاً یا ضرورتاً کیا تھا۔کوئی بھی صاحب ِعقل یہ نہیں کہہ سکتا کہ آپ تقرب الی اللہ یا عبادت یا ثواب کی نیت سے گدھے پر سوار ہوئے۔یعنی ایسا معاملہ نہیں تھا کہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ وحی ہوئی ہو کہ گدھے کی سواری اللہ کے ہاں باعث اجر و ثواب ہے لہٰذا آپ نے اجر و ثواب کی نیت سے گدھے کی سواری کی ہو'بلکہ آپۖ کو سواری کی ضرورت تھی 'لہٰذاجو سواری میسر آئی آپ اس پر سوار ہو گئے۔پس گدھے پر سواری ایک دینی مسئلہ نہیں ہے بلکہ اس کا تعلق آپۖ کی بشری زندگی سے ہے۔چنانچہ گدھے پر سواری ایک جائز امر ہے' لیکن اس فعل میں امت سے آپۖ کی اتباع کا مطالبہ نہیں ہے۔ اس واقعے کا اگر ہم تجزیہ کریں تو درج ذیل ممکنہ موقف ہمارے سامنے آتے ہیں:
(١) گدھے کی سواری ایک مباح و جائز امر ہے ۔اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے گدھے کی سواری ثواب کی نیت سے نہیں کی 'لہٰذا ایک مسلمان کو بھی جب گدھے کی سواری کی ضرورت پیش آئے تو وہ بھی اسی نیت کے ساتھ اس کی سواری کرے جس نیت کے ساتھ آپۖ نے اس کی سواری کی تھی۔یعنی آپ نے اگر ایک کام کو مباح(بغیر اجر و ثواب کی نیت کے) سمجھ کر کیا تو آپۖ کی ا تباع یہی ہے کہ اُمت بھی اس کو مباح سمجھ کر کرے ۔اگر آپ نے ایک کام مباح سمجھ کر کیا اور کوئی امتی اس کام کو مستحب(باعث اجر و ثواب) سمجھ کرکرے تو ایسا امتی آپ کا متبع نہیں ہے ۔یہ موقف علمائے اہل سُنّت کا ہے۔
(٢) گدھے کی سواری ایک سُنّت ِشرعیہ ہے ۔پس گدھے پر سوار ہونا باعث عبادت و اجر و ثواب ہے اور آپ کی اس اتباع میں شامل ہے جس کا حکم ہمیں(قُلْ اِنْ کُنْتُمْ تُحِبُّوْنَ اللّٰہَ فَاتَّبِعُوْنِیْ)میں دیا گیا ہے۔حضرت عمررضی اللہ عنہ اور امام ابن تیمیہ کے نزدیک یہ موقف ایک بدعتی موقف ہے ۔
میں پھر یہ کہوں گا کہ میں یہ نہیں کہتا بلکہ حضرت عمر اور امام ابن تیمیہ نے اس موقف کو بدعت کہا ہے اور ان ہی بزرگوں کے حوالے ہم نے اپنے اصل مضمون میں نقل کیے تھے۔ میں تو دین کا ایک ادنی سا طالب علم ہوں۔ میری کیامجال کہ اتنی بڑی بات کہوں!اگر کسی شخص کو اعتراض ہو تو وہ ان دلائل کا جواب دے جو کہ حضرت عمر اور امام ابن تیمیہ نے اس مسئلے میں بیان کیے ہیں۔
سوال: ہمارے ہاں حنفی فقہ کے پیروکاروں کی اکثریت ہے ۔اگر آپ اس مسئلے کی وضاحت میں کچھ حنفی فقہاء کے اقوال پیش کر دیں تو شاید ہمیں اطمینان ہو جائے۔
جواب: متقدمین حنفی فقہاء نے اس مسئلے پر مفصل بحث کی ہے جو ان کی اصول کی کتابوں میں موجود ہے۔امام ابوبکر جصاص الحنفی (متوفی ٣٧٠ھ) لکھتے ہیں:
فمعلوم أنہ ان کان فعلہ علی وجہ الاباحة والندب ثم فعلناہ نحن علی وجہ الوجوب لم نکن متبعین لہ لأن شرط الاتباع ایقاعہ علی الوجہ الذی أوقعہ علیہ و متی خالفناہ فی ھذا الوجہ خرجنا من حد الاتباع. ألاتری أن من فعل فعلا ففعل غیرہ مثلہ علی وجہ المعارضة لہ و المضاھاة لفعلہ قاصدا المعارضة و مباراتہ لم یکن متبعا لہ و ان کان قد أوقع فعلا مثل فعلہ فی الظاھر(٧)
''یہ بات معلوم شدہ ہے کہ اگر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک کام کومباح یا مستحب سمجھ کر کیاہے اور ہم اسے واجب سمجھ کر کریں تو آپۖ کے متبع شمار نہ ہوں گے' کیونکہ اتباع کی یہ لازمی شرط ہے کہ کسی کام کو اسی نیت و ارادے سے کیا جائے جس نیت و ارادے سے آپ نے اس کام کو کیا ہے ۔اور اگر(کسی سُنّت پر عمل کرتے ہوئے) ہم نیت و ارادے میں آپ کی مخالفت کریں گے تو ہم اتباع کی تعریف سے نکل جائیں گے۔کیا آپ غور نہیں کرتے کہ ایک شخص ایک کام کرتاہے اور ایک دوسرا شخص بظاہرویسا ہی کام کرتا ہے لیکن اس کا مقصود پہلے شخص کی مخالفت اور اس سے علیحدگی ہے 'تو بظاہر دونوں کے کام میں کتنی ہی مشابہت کیوں نہ ہو دوسرا شخص پہلے کا متبع نہ ہوگا''۔
اس سے معلوم ہوا کہ فقہائے احناف کے ہاں اگر کوئی شخص کسی ایسے فعل کو جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے حق میں مباح ہو' مستحب سمجھ کر اس پر عمل پیراہو تو وہ امتی آپ کا متبع نہیں ہے۔پس ہم بھی یہی بات کرتے ہیں کہ آپ کے جو اقوال و افعال باتفاقِ اُمت مباح درجے کے ہیں ان کو مستحب یا مندوب نہ بنا لیا جائے۔
 

ابوالحسن علوی

علمی نگران
رکن انتظامیہ
شمولیت
مارچ 08، 2011
پیغامات
2,521
ری ایکشن اسکور
11,552
پوائنٹ
641
سوال: مباح و مندوب میںاہل سُنّت کے نزدیک کیا فرق ہے؟حنفی فقہاء کے حوالے سے بیان کریں!
جواب:اہل سُنّت کے نزدیک مباح سے مراد وہ امور ہیں جن کا کرنا اور نہ کرنا برابر ہو اوران کے کرنے اور نہ کرنے میں کوئی اجرو ثواب نہ ہو۔جبکہ مندوب سے مراد وہ افعال ہیں جن کے کرنے پر اجر و ثواب کا وعدہ ہولیکن ان کا کرنا لازم نہ ہو۔علامہ علاؤ الدین بخاری (متوفی ٧٣٠ھ) فرماتے ہیں:
''ہمارے فقہاء کی بعض اصول کی کتابوں میں اس بات کا تذکرہ موجود ہے کہ مکلف سے صادر ہونے والے فعل میں دو ہی صورتیں ممکن ہیں۔ یا تو اس فعل کی ادائیگی کا پہلو راجح ہو گا یا ترک کا 'یا ان دونوں میں سے کوئی بھی نہ ہوگا ۔پہلی قسم میں (جبکہ کسی مکلف کے فعل کی ادائیگی کا پہلو راجح ہو)ایک صورت تو یہ بنے گی کہ اس کے منکر کی تکفیر کی جائے اور اس کو گمراہ ٹھہرایا جائے اور یہ فرض ہے۔دوسری صورت یہ ہے کہ اس کے منکر کی تکفیر نہ ہو لیکن اس کو چھوڑنے پر عذاب کی وعید ہو تویہ واجب ہے۔تیسری صورت یہ ہے کہ اس کے چھوڑنے پر سزا بھی نہ ہو ۔اور اس کی پھر دو صورتیں ہیں ۔یا تو آپۖ نے اس پر مواظبت اختیار کی ہو تو یہ سُنّت مشہورہ ہے اور اگر آپ نے اس پر مواظبت اختیار نہیں کی تویہ نفل یا مندوب یا تطوع ہے۔ دوسری قسم (جس میں مکلف کے فعل میں ترک کا پہلو راجح ہو) میں پہلی صورت تو یہ ہے کہ اس کے کرنے میں عذاب ہو اور یہ حرام ہے۔اور دوسری صورت یہ ہے کہ اس کے کرنے پر عذاب نہ ہو اور یہ مکروہ ہے۔تیسری قسم مباح ہے جس کیادائیگی میں نہ تو کوئی ثواب ہے اور نہ ہی اس کے چھوڑنے پرکوئی عذاب ہے''۔(٨)
سوال: آپ کی باتوں سے یہ محسوس ہوتا ہے کہ ہمیں عمامہ وغیرہ نہیں باندھنا چاہیے۔ کیا یہ درست ہے؟
جواب: میں نے یہ کب کہا ہے کہ ہمیں عمامہ نہیں باندھنا چاہیے؟میں نے تو یہ کہا ہے کہ عمامہ باندھنے کو دین کامسئلہ نہیں بنانا چاہیے۔علاوہ ازیں ہم نے پہلے بھی یہ لکھا تھا اور اب بھی یہ کہہ رہے ہیں کہ مذہبی حلقوں ' دینی تحریکوں اور علماء کو اپنے سر کو ڈھانپ کر رکھنا چاہیے ۔چاہے عمامہ باندھیں یاٹوپی استعمال کریں۔
سوال: آپ یہ بھی کہتے ہیں کہ عمامہ باندھنا دین کامسئلہ نہیں ہے اور پھر یہ بھی کہتے ہیں کہ مذہبی لوگوں کو عمامہ باندھنا چاہیے ۔یہ تضاد بیانی نہیں ہے؟
جواب:یہ بالکل بھی تضاد نہیں ہے۔ جب ہم یہ کہتے ہیں کہ دینی تحریکوں کے کارکنان کو اپنا سر ڈھانپ کر رکھنا چاہیے تو وہ اس وجہ سے ہے کہ ہمارے مسلمان معاشروں کا یہ عرف و رواج ہے کہ علماء اپنے سر کو ڈھانپ کر رکھتے ہیں۔اس کو ایک سادہ سی مثال سے سمجھیں کہ اگر ہم کسی شخص سے یہ سوال کریں کہ کپڑے استری کر کے پہننے چاہئیں یا بغیر استری کے؟ تواس کا جواب ہوگا کہ استری کر کے پہننے چاہئیں ۔لیکن اگر اسی شخص سے یہ بھی سوال کیا جائے کہ کیا استری شدہ کپڑے پہننا ایک دینی مسئلہ ' یعنی باعث اجر و ثواب ہے؟ تو اس کا جواب نفی میں ہو گا۔لہٰذا کسی کام کے کرنے کا مطلب یہ بالکل بھی نہیں ہے کہ ہم اسے صرف اسی صورت کرتے ہیں جبکہ وہ ہمار ے دین ہی کا مطالبہ ہو۔یہ مسئلہ اصولی طور پرعرف کی بحث کا ہے۔
 

ابوالحسن علوی

علمی نگران
رکن انتظامیہ
شمولیت
مارچ 08، 2011
پیغامات
2,521
ری ایکشن اسکور
11,552
پوائنٹ
641
سوال: متقدمین حنفی فقہاء نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے افعال کی جو قسمیں بیان کی ہیں ان پر ذراتفصیل سے روشنی ڈالیں۔
جواب:احناف نے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے افعال کی چھ قسمیں بنائی ہیں:
پہلی قسم
فقہائے احناف کے نزدیک اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے افعال کی ایک قسم وہ ہے جو کہ 'غیر ارادی افعال' پر مشتمل ہے ۔غیر ارادی افعال کئی قسم کے ہوتے ہیں جن میں ایک کو فقہائے احناف نے 'زلة' یعنی بھول چوک کانام دیا ہے۔'زلة'کے علاوہ غیر ارادی افعال کی ایک دوسری قسم کے طور پر فقہائے احناف نے آپ کے ان افعال کو بھی بیان کیا ہے جو آپ سے نیند یا بے ہوشی کی حالت میں سرزد ہوئے ہوں۔فقہائے احناف کے نزدیک اس قسم کے افعال میں اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی اقتداء کسی بھی امتی کے لیے جائز نہیں ہے۔ فخر الاسلام امام بزدوی (متوفی ٤٨٣ھ) لکھتے ہیں:
''اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے افعال کی اقسام میں مباح' مستحب' واجب اور فرض شامل ہیں۔آپۖ کے افعال کی ایک اور قسم'زلة' بھی ہے۔'زلة'کا تعلق اس باب(یعنی اتباع ) سے نہیں ہے 'کیونکہ 'زلة' میں کسی بھی نبی و رسول کی اقتداء و پیروی درست نہیں ہے۔(قرآن و سُنّت میں)اس قسم کے افعال کے تذکرہ کے ساتھ ہی خود فاعل یا اللہ کی طرف سے ایک بیان متصل بعدہوتا ہے (جو کہ اس کے قابل اقتداء نہ ہونے کی طرف اشارہ کر رہاہوتا ہے)۔جیسا کہ ارشاد باری تعالیٰ ہے: ''اور حضرت آدم نے نافرمانی کی''۔ایک اور جگہ اللہ سبحانہ و تعالیٰ نے ایک قبطی کے قتل ہونے پر حضرت موسیٰ علیہ السلام کا قول بیان کرتے ہوئے ارشاد فرمایا:''حضرت موسٰی نے کہا یہ تو شیطان کاکام ہے''۔'زلة' سے مراد وہ فعل ہے جس کے کرنے کا فاعل نے ارادہ نہ کیا ہو لیکن فاعل نے ایک دوسرے مباح فعل کا قصد کیا ہو اور اس مباح فعل کے ارتکاب نے فاعل کو 'زلة' تک پہنچا دیا ہو''۔ پس وہ شخص ایک مقصود بعینہ حرام فعل(یعنی ایسا حرام فعل کہ اس کے ارتکاب کا قصد کیا گیا ہو) میں مشغول ہونے کی وجہ سے پھسل گیا''۔ (٩)
شمس الائمہ امام سرخسی(متوفی ٤٨٣ھ) فرماتے ہیں:
''جان لو کہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے وہ افعال جو کہ قصد و ارادے سے ہوں 'ان کی چار اقسام ہیں: مباح' مستحب' واجب اور فرض۔ایک پانچویں قسم 'زلة' کی بھی ہے لیکن وہ اس باب(یعنی اتباع کے باب) میں داخل نہیں ہے 'کیونکہ 'زلة' میں آپ کی اقتداء جائز نہیں ہے۔اس باب میں ان افعال کے حکم کو بیان کیا جائے گا جن میں آپ کی اقتداء ہو گی۔ اسی لیے نیند یا بے ہوشی کے عالم میں آپ سے صادر ہونے والے افعال کا تذکرہ اس جگہ نہیں ہو گا 'کیونکہ ان حالتوں میں آپ سے صادر ہونے والے افعال میں آپ کا قصد وا رادہ شامل نہیں ہوتا ہے 'لہٰذا ان حالتوں میں آپ سے صادر ہونے والے افعال حکم شرعی میں داخل نہ ہوں گے۔جہاں تک 'زلة' کا معاملہ ہے تو اس میں عین فعل کا قصد نہیں ہوتا لیکن اصل فعل کی طرف قصد موجود ہوتا ہے''۔(١٠)
علامہ علاؤ الدین بخاری (متوفی ٧٣٠ھ) لکھتے ہیں:
''بنیادی طور پرافعال کی دو ہی قسمیں ہیں۔ایک قسم تو ان افعال کی ہے جن کا صرف وجود ہواور کوئی زائد صفت(مثلاً ارادہ وغیرہ) ان کے ساتھ متصل نہ ہو۔ جیساکہ کسی سوتے ہوئے یا بھولے ہوئے آدمی کا فعل ہے۔یہ افعال نہ تو حسن ہوں گے اورنہ ہی قبیح ہوسکتے ہیں ۔ دوسری قسم میں وہ افعال شامل ہیں جن کے وجود کے ساتھ کوئی زائد صفت(مثلاً ارادہ وغیرہ) بھی شامل ہو' جیسا کہ مکلفین کے افعال ہیں۔ان افعال کی دو قسمیں ہیں۔ایک قسم 'حسن' کہلاتی ہے اور دوسری 'قبیح' ۔ 'حسن' کی آگے مزید تین قسمیں ہیں' یعنی واجب' مندوب اور مباح۔ اور 'قبیح' کی دوقسمیں ہیں' یعنی حرام و مکروہ۔اور ان تمام افعال کا صدور سوائے آخری قسم(یعنی قبیح) کے تمام مکلفین سے ممکن ہے' چاہے وہ انبیاء ہوں یا عام انسان ۔جہاں تک آخری قسم(یعنی قبیح) کا تعلق ہے تو انبیاء کے سوا تمام لوگوں سے اس کا وقوع ممکن ہے جبکہ انبیاء سے ان افعال کا صدور ممکن نہیں ہے جو کہ معصیت ہوں' کیونکہ عام مسلمانوں کا عقیدہ یہی ہے کہ انبیاء کبیرہ گناہوں کے ارتکاب سے معصوم ہوتے ہیں۔ ہمارے اصحاب (یعنی حنفیہ) کا عقیدہ یہ ہے کہ انبیاء صغائر سے بھی پاک ہوتے ہیں اگرچہ وہ 'زلة‘ کا ارتکاب کر سکتے ہیں 'جبکہ بعض اشعریہ کا عقیدہ اس کے برعکس ہے(یعنی ان کے نزدیک انبیاء 'زلة' کے علاوہ صغائر کے بھی مرتکب ہو سکتے ہیں)۔پس یہ بات واضح ہو گئی ہے کہ اس باب میںافعال سے مرادآپ کے وہ افعال ہیں جو قصد وارادے سے واقع ہوں اور 'زلة' کی قبیل سے نہ ہوں'کیونکہ اس باب میں آپ کی اتباع کا مسئلہ زیر بحث ہے اور آپ کے جو افعال بھول چوک میں سے ہوں یابے ہوشی و نیند کی حالت میں آپ سے صادر ہو ئے ہوں تو ان میں آپ کی اقتداء درست نہیں ہے…'زلة' میں عین فعل کا ارادہ نہیں ہوتا لیکن اصل فعل کا قصد ضرور ہوتا ہے… ابوالحسن الاشعری رحمہ اللہ نے عصمت انبیاء کا تذکرہ کرتے ہوئے لکھاہے کہ 'زلة' کا معنی یہ نہیں ہے کہ وہ حق سے باطل اور اطاعت سے معصیت کی طرف پھسل گئے'بلکہ اس کا اصل معنی یہ ہے کہ وہ افضل سے مفضول اور زیادہ صحیح سے صحیح کی طرف مائل ہو گئے''۔ (١١)
٭ علامہ علاؤ الدین بخاری(متوفی ٧٣٠ھ) کی اس مذکورہ بالا عبارت میں ایک قابل غور اہم نکتہ یہ ہے کہ انہوں نے مباح کو 'قبیح ' کے بالمقابل'حسن' کی ایک قسم قرار دیا ہے۔پس'مباح'اگرچہ 'حسن' ہوتاہے لیکن اس پر کوئی اجر و ثواب نہیں ہوتا ہے۔علامہ صاحب اپنی کتاب میں مباح کی تعریف بیان کرتے ہوئے لکھتے ہیں:
و أما الثالث فھو المباح ذ لیس فی أدائہ ثواب' و لا فی ترکہ عقاب(١٢)
''تیسری قسم مباح ہے جس کی ادائیگی میں نہ تو کوئی ثواب ہے اور نہ ہی اس کے چھوڑنے پر کوئی سزا ہے''۔
٭ مذکورہ بالا بحث سے ایک اہم سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ 'مباح ' پر اگر اجر و ثواب نہیں ہے تو اس کو 'حسن' کس پہلو سے کہا گیا ہے؟بعض اصولیین نے 'مباح' کے 'حسن' ہونے کی بحث کو مستقل طور پر بیان کیا ہے اور اس میں اس نکتے کی بھی وضاحت کی ہے۔ امام غزالی (متوفی٥٠٥ھ) لکھتے ہیں:
''اگر یہ کہا جائے کہ کیا مباح 'حسن' ہے؟ تو ہم کہیں گے کہ اگر تو 'حسن' سے مراد یہ ہے کہ فاعل کو اس کو کرنے کی اجازت ہے تو اس اعتبار سے مباح'حسن' ہے۔اور اگر'حسن' سے مراد یہ ہے کہ اس کے فاعل کی تعظیم کی جائے اور اس کا فاعل قابل تعریف ہو اوراسی طرح 'قبیح' سے مرا د یہ ہے کہ اس کے فاعل کی مذمت یا سزا کا اعتقاد ہو توا س معنی میں مباح'حسن' نہیں ہے''۔(١٣)
 

ابوالحسن علوی

علمی نگران
رکن انتظامیہ
شمولیت
مارچ 08، 2011
پیغامات
2,521
ری ایکشن اسکور
11,552
پوائنٹ
641
دوسری قسم
اس قسم میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے وہ افعال شامل ہیں جو جبلی امور سے متعلق ہیں۔ فقہائے احناف کے نزدیک یہ افعال بالاتفاق مباح ہیں ۔علامہ علاؤ الدین بخاری لکھتے ہیں:
''علماء نے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے ان تمام افعال کی شرعی حیثیت کے بارے میں اختلاف کیا ہے جو بھول چوک یا سہوکے علاوہ ہیں ــــ مثلاً آپ کا ظہر کی دو رکعتوں کے بعد سلام پھیر دینا یہاں تک کہ ذو الیدین نے کہا: اے نبی صلی اللہ علیہ وسلم! کیا نماز کم ہوگئی ہے یا آپ بھول گئے ہیں ؟ ــــ اور ایسے طبعی افعال کے علاوہ ہیں جن سے کوئی بھی ذی روح مخلوق خالی نہیں ہوتی ۔مثلاً سانس لینا' کھڑا ہونا' بیٹھنا' کھانا' پینا وغیرہ۔یہ تمام افعال آپ اور اُمت کے حق میں مباح ہیں اور ان کے مباح ہونے میں کسی کا بھی اختلاف نہیں ہے''۔ (١٤)
علامہ ابن الہمام (متوفی ٨٦١ھ) اورابن امیر حاج الحنفی (متوفی ٨٧١ھ )لکھتے ہیں:
(مسألة الاتفاق فی أفعالہ الجبلیة) أی الصادرة بمقتضی طبیعتہ ۖ فی أصل خلقتہ کالقیام و القعود و النوم و الأکل و الشرب(الباحة لنا و لہ)(١٥)
''رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے جبلی افعال جو کہ آپ سے بتقاضائے طبیعت صادر ہوئے ہیں 'جیسا کہ کھڑاہونا' بیٹھنا' سونا' کھانا اور پینا وغیرہ' تو اس کے بارے میں علماء کااتفاق ہے کہ یہ تمام افعال آپ اور امت کے حق میں مباح ہیں''۔
پہلا نکتہ
اس بحث میں پہلا نکتہ تو یہ ہے کہ مباح کی تعریف احناف کے نزدیک بالاتفاق یہ ہے کہ جس کے کرنے پر کوئی ثواب نہ ہو اور نہ ہی اس کے ترک پر عذاب ہو۔علامہ علاؤ الدین بخاری فرماتے ہیں:
''تیسری قسم مباح ہے جس کی ادائیگی میں نہ تو کوئی ثواب ہے اور نہ ہی اس کے چھوڑنے پر کوئی سزا ہے''۔(١٦)
پس احناف کے نزدیک اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے جبلی افعال کی مطلق پیروی پر کوئی ثواب نہیں ہے۔
دوسرا نکتہ
دوسرا نکتہ یہ ہے کہ امام جصاص (متوفی ٣٧٠ھ) کے نزدیک رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ایسے افعال جو کہ امت کے حق میں 'مباح' ہیں 'ان کے لیے لفظ' سُنّت' بھی استعمال نہیں ہو سکتا ہے۔
قال أبو بکر: و أحکام السنة علی ثلاثة أنحائ: فض' و واجب' و ندب' و لیس یکاد یطلق علی المباح لفظ السنة' لأن قد بینا: أن معنی السنة: أن یفعل' أو یقول' لیقتدی بہ فیہ' و یداوم علیہ' و یستحق بہ الثواب' و ذلک معدوم فی قسم المباح(١٧)
''امام ابوبکر جصاص فرماتے ہیں کہ: سُنّت کے احکام تین قسم پر ہیں۔فرض' واجب اور مندوب۔اور مباح فعل پر لفظ 'سُنّت' کا اطلاق درست نہیں ہے' کیونکہ ہم یہ بات واضح کر چکے ہیں کہ 'سُنّت' کامعنی یہ ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کوئی کام کریں یا کوئی حکم اس لیے دیں کہ اس میں آپ کی اقتداء کی جائے 'اس پرعمل میں دوام اختیار کیا جائے اور اس پر عمل سے ثواب حاصل ہو 'اور یہ تینوں باتیں مباح میں معدوم ہیں''۔
تیسرا نکتہ
تیسرا نکتہ یہ ہے کہ بعض فقہائے احناف نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے جبلی امور کی پیروی کو 'حسن' کہا ہے تو اس سے ان کی یہ مراد نہیں ہے کہ وہ ان افعال کو 'مباح' بھی کہتے ہیں اور باعث اجر و ثواب بھی سمجھتے ہیں ۔ہم یہ واضح کر چکے ہیں کہ فقہائے احناف کے نزدیک واجب اور مندوب کی طرح مباح بھی 'حسن' کی ایک قسم ہے ۔اور'حسن' سے مراد بعض اوقات ایسے افعال بھی ہوتے ہیں جو کسی اخروی اجر و ثواب کے وعدے کے بغیر بھی کسی اور پہلو سے'حسن' ہوتے ہیں۔ علامہ ابن الہمام اورابن امیر الحاج الحنفی لکھتے ہیں:
''سُنّت دو حصوں میں تقسیم ہوتی ہے۔سُنّت الہدیٰ جس کو قائم کرنا تکمیل دین کے لیے ہوتا ہے اور اس کے بلاعذر تارک' جبکہ وہ اس کے ترک پر مصر بھی ہو' کو گمراہ قرار دیا جائے گا اور وہ قابل مذمت ہوگا۔ جیسا کہ فرض نمازوں کے لیے اذان کی مثال ہے…اور سُنّت کی دوسری قسم سُنّت الزائدة ہے۔ جیسا کہ آپ کا کھانا' بیٹھا اور لباس پہننا۔فقہاء کا کہنا یہ ہے کہ سنن الزوائدکو اختیار کرنا 'حسن' ہے اور ان کے چھوڑنے میں کوئی حرج نہیں ہے 'یعنی ان کو چھوڑنا ناپسندیدہ یا برا نہیں ہے''۔(١٨)
یہ وہی انداز ہے جو ہم نے عمامے کی بحث میں اختیار کیا ہے کہ اگر کوئی شخص ہم سے یہ سوال کرے کہ عمامہ باندھنا چاہیے یا نہیں ' تو ہم اسے یہی جواب دیں گے کہ باندھنا چاہیے 'لیکن اس کا باندھنادین کا موضوع نہیں ہے کہ جس کے چھوڑنے کو ناپسندیدگی یا بری نظروں سے دیکھا جائے۔ڈاکٹر وہبہ الزحیلی لکھتے ہیں:
''کیا مباح 'حسن' ہے یا نہیں'تواس مسئلے میں راجح مسلک تفصیل ہے۔اور وہ یہ کہ مباح اس اعتبار سے تو 'حسن' ہے کہ اس کے فاعل کو اس کے کرنے کی اجازت ہے یا اس اعتبار سے بھی'حسن' ہو سکتا ہے کہ اس کی اپنے مقصود سے موافقت ہے۔لیکن مباح اس اعتبار سے بالکل بھی'حسن' نہیں ہے کہ اس کا فاعل قابل تعریف ہو''۔(١٩)
چوتھا نکتہ
آخری نکتہ یہ ہے کہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے بعض وہ جبلی افعال جو قرآن کی کسی ایسی نص کا بیان بن رہے ہوں جس کااصل حکم وجوب یا استحباب کے درجے میں ہو تو پھر یہ جبلی افعال کم از کم مستحب ضرور ہوں گے اور ان کی اتباع باعث اجر و ثواب ہو گی ۔امام ابوبکر جصاص (متوفی ٣٧٠ھ) لکھتے ہیں:
''اور اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے ایسے افعال جو ہر شخص کو پیش آتے ہیں اور کوئی بھی عادتاً ان سے مستغنی نہیں ہو سکتا ہے 'مثلاً کھانا ' پینا' کھڑاہونا' بیٹھنا اور سونا وغیرہ جیساکہ آپ کے بارے میں مروی ہے کہ جب آپ اپنے گھر میں ہوتے تو اپنا جوتا خودگانٹھ لیتے تھے اور اپنا کپڑا خود سِی لیتے تھے۔آپ کے ایسے افعا ل وجوب کے درجے کے نہیں ہیں۔کیونکہ ہم یہ بات پہلے بیان کر چکے ہیں کہ آپ ان افعال سے علیحدہ نہیںرہ سکتے تھے اور ان افعال کو کرنے کی حاجت ہر کسی کوپیش آتی ہے۔ اور اس کے ساتھ یہ مسئلہ بھی ہے کہ ان افعال میں ہر کسی کے لیے آپ کی اقتداء ممکن بھی نہیں ہے کیونکہ ان افعال کا ہر حال میں کرنا محال ہے۔جوتے کو گانٹھ لینے اور کپڑے کو سی لینے کے عمل کے ظاہری فعل سے یہ واضح ہوتا ہے کہ آپ نے ان افعال کو ہمارے حق میں واجب کرنے کا ارادہ نہیں فرمایا تھا۔یہ بھی امکان ہے کہ آپ سے اس قسم کے افعال تقرب الی اللہ کی نیت سے وارد ہوئے ہوں کیونکہ ان افعال کو کرتے وقت آپ نے تواضع' ترکِ تکبر' گھروالوں کے ساتھ مساوات کا ارادہ کیاتاکہ اس پر اللہ کی طرف سے اجر و ثواب ہو اور آپ کی امت بھی آپ کی اس مسئلے میں اقتداء کرے''۔(٢٠)
 

ابوالحسن علوی

علمی نگران
رکن انتظامیہ
شمولیت
مارچ 08، 2011
پیغامات
2,521
ری ایکشن اسکور
11,552
پوائنٹ
641
تیسری قسم
یہ قسم سہو و جبلی افعال کے علاوہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ارادی افعال پر مشتمل ہے۔آپ کے ارادی افعال کی بھی فقہائے احناف نے دو قسمیں بنائی ہیں ۔ پہلی قسم آپ کے ان افعال پر مشتمل ہے جن کی صفت اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے حق میں واضح ہو 'یعنی ان افعال کاآپ ۖکے حق میں فرض' واجب' مستحب یا مباح ہونا معلوم ہو ۔امام سرخسی (متوفی٤٨٣ھ) فرماتے ہیں:
وکان أبو الحسن الکرخی رحمہ اللہ یقول: ان علم صفة فعلہ أنہ فعلہ واجبا أو ندبا أو مباحا فنہ یتبع فیہ بتلک الصفة(٢١)
''ابو الحسن کرخی فرماتے تھے کہ اگر آپ کے کسی فعل کی صفت معلوم ہو جائے کہ آپ نے اس کو واجب' مندوب یامباح سمجھ کر کیا ہے تو آپۖ کی اس فعل میں پیروی اسی صفت (یعنی وجوب' ندب یا اباحت) کے ساتھ کی جائے گی''۔
علامہ علاؤ الدین بخاری(متوفی ٧٣٠ھ) لکھتے ہیں:
ثم بعد ذلک ما أن علمت صفة ذلک الفعل فی حقہ علیہ السلام أو لم تعلم' فن علمت فالجمھور علی أن أمتہ مثلہ… وذھب شرذمة الی أن حکم ما علمت صفتہ کحکم مالم تعلم صفتہ ھکذا ذکر بعض الأصولیین(٢٢)
''پھر اس کے بعد یا تو اس فعل کی صفت(یعنی اس کا واجب' مندوب یا مباح ہونا) آپ کے حق میں معلوم ہو گا یا نہیں۔اگر تو آپ کے حق میں اس فعل کی صفت معلوم ہے تو جمہور علماء کا قول یہ ہے کہ آپ کی امت بھی(اس فعل پر عمل کرنے میں) آپ کی مانند ہو گی…اور ایک چھوٹی جماعت کا کہنا یہ ہے کہ آپ کے جن افعال کی صفت معلوم ہو ان کا حکم بھی ان افعال جیسا ہی ہے جن کی صفت معلوم نہ ہو۔بعض اصولیین نے اسی طرح اس کا ذکر کیا ہے''۔
و الاتباع: أن یفعل مثل فعلہ' و فی حکمہ' فذا فعلہ واجبا' فعلنا علیالوجوب' و ذا فعلہ ندبا' أو مباحا' فعلناہ کذلک' لنکون قد وفینا الاتباع حقہ… فکان الاتباع و التأسی: أٔن نفعل مثل ما فعلہ' علی الوجہ الذی فعلہ علیہ(٢٣)
''اتباع سے مراد یہ ہے کہ کوئی امتی ویسا ہی کام کرے جو کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے کیاہے اور اس کام کے حکم میں بھی آپ کی اتباع کرے ۔یعنی جب آپ نے ایک کام کو واجب سمجھ کر کیا ہے تو ہم بھی اس کو واجب سمجھ کر کریں اور اگر آپ نے کسی فعل کو مندوب یا مباح سمجھ کر کیا ہو تو ہم بھی اسے مندوب یا مباح سمجھ کر کریں 'تاکہ ہم اتباع کا صحیح معنی میں حق ادا کرنے والے ہو جائیں…پس اتباع اور پیروی سے مراد ہے کہ ہم وہ کام کریں جو آپ نے کیا ہے اور اس ارادہ و نیت کے ساتھ کریں جس ارادہ و نیت سے آپ نے کیاہے''۔
پس رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے وہ افعال جن کی صفت آپ کے حق میں معلوم ہو'ان افعال کی پیروی و اتباع اسی صفت کے ساتھ جائز ہے ۔یعنی اگر واجب کو واجب ' مندوب کو مندوب اور مباح کو مباح سمجھ کر کیا جائے ۔
امام ابوبکر جصاص (متوفی ٣٧٠ھ) کی مذکورہ بالا عبارت میں ایک اہم نکتہ جو بیان ہوا ہے وہ متابعت یا اتباع کی تعریف ہے ۔امام صاحب کے بقول آپ نے جس فعل کو مباح سمجھ کر ادا کیا تو امت کے لیے بھی یہ لازم ہے کہ اسے مباح سمجھ کر ادا کرے اور جس فعل کو آپ نے مستحب جانتے ہوئے ادا کیا تو امت بھی اس فعل کی ادائیگی کے وقت اس کے مستحب ہونے کا عقیدہ رکھے۔اگر آپ نے کسی فعل کو مباح سمجھا اور امت نے اس کو مستحب بنادیا یا آپ نے کسی فعل کو مستحب سمجھ کر ادا کیا اور امت نے اسے واجب بنا تے ہوئے اس پر عمل شروع کر دیا تو یہ آپ کی اتباع یا متابعت تصور نہیں ہوگی۔اس کا واضح معنی و مفہوم یہی ہے کہ اگر آپۖ نے کدو تقرب الی اللہ یا ثواب کی نیت سے نہیں کھائے بلکہ مباح سمجھ کر کھائے ہیں تو اگر کوئی امتی کدو کھانے کے فعل کو مستحب بنا لے اور اس کے کھانے کو باعث ثواب سمجھے تو اس نے ایک ایسے فعل کو مستحب بنا دیا جو کہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے نزدیک مباح تھا۔اسی کوحضرت عمر رضی اللہ عنہ کی اتباع میں امام ابن تیمیہ نے'مجموع الفتاویٰ' میں ب دعت کانام دیا ہے ۔امام ابن تیمیہ فرماتے ہیں کہ کسی امتی کو یہ اختیار کس نے دیا ہے کہ وہ اس فعل کو مستحب(یعنی باعث اجر و ثواب) قرار دے جس کو اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے فعل سے مباح قرار دیا ہے؟ فافھم و تأمل !
دوسرا اہم نکتہ اس بحث میں یہ ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے اس قسم کے تمام افعال کو بھی علمائے احناف نے واجب یا مستحب قرار نہیں دیا ہے بلکہ ان افعال میں بھی ایک قسم مباح ہے جس کے ارتکاب پر کسی امتی کے لیے اجر و ثواب کا کوئی عقیدہ رکھنا درست نہیں ہے۔امام ابوبکر جصاص فرماتے ہیں:
''اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے افعال جو آپ سے قصدو ارادے سے صادر ہوئے ہوں' تین قسم پر ہیں:واجب' مندوب اور مباح' سوائے ان افعال کے جن کے بارے میں کوئی دلیل ہو کہ وہ ان صغائر میں سے ہیں جن کی معافی ہو چکی ہے''۔(٢٤)
تیسرا نکتہ یہ ہے کہ امام جصاص ( متوفی ٣٧٠ھ) اور تقریباًتمام اصولیین نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ارادی افعال کی تین قسمیں بنائی ہیں اور فرض و واجب کو علیحدہ علیحدہ بیان نہیں کیا جبکہ امام سرخسی (متوفی٤٨٣ھ) اور امام بزدوی (متوفی٤٨٣ھ) نے فرض اور واجب کے فرق کو بیان کرتے ہوئے آپۖ کے ارادی افعال کی چار قسمیں بنائی ہیں۔علامہ علاؤا لدین بخاری ( متوفی ٧٣٠ھ) لکھتے ہیں:
ثم الشیخ و شمس الأئمة رحمھما اللہ قسما أفعالہ علیہ السلام سوی الزلة و ما لیس عن قصد علی أربعة أقسام فرض و واجب و مستحب و مباح و القاضی المام و سائر الأصولیین قسموھا علی ثلاثة أقسام واجب' مستحب و مباح(٢٥)
''پھر امام بزدوی اور امام سرخسی نے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے ان افعال کے علاوہ جو کہ بھول چوک میں سے ہیں یا قصد اً نہیں ہیں 'باقی افعال کو چار قسموںفرض' واجب' مستحب اور مباح میں تقسیم کیا ہے'جبکہ امام ابوبکر جصاص اور باقی اصولیین نے ان کو واجب ' مستحب اور مباح میں تقسیم کیا ہے''۔
 

ابوالحسن علوی

علمی نگران
رکن انتظامیہ
شمولیت
مارچ 08، 2011
پیغامات
2,521
ری ایکشن اسکور
11,552
پوائنٹ
641
چوتھی قسم
یہ قسم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ان ارادی افعال پر مشتمل ہے جن کی صفت یعنی ان کا فرض' واجب ' سُنّت یا مباح ہونا واضح نہ ہو'نہ آپ کے حق میں اور نہ ہی امت کے حق میں۔امام سرخسی فرماتے ہیں:
وکان أبو الحسن الکرخی رحمہ اللہ یقول: ان علم صفة فعلہ أنہ فعلہ واجبا أو ندبا أو مباحا فنہ یتبع فیہ بتلک الصفة' وان لم یعلم فنہ یثبت فیہ صفة الباحة' ثم لا یکون الاتباع فیہ ثابتا لا بقیام الدلیل وکان الجصاص رحمہ اللہ یقول بقول الکرخی رحمہ اللہ لا أنہ یقول: اذا لم یعلم فالاتباع لہ فی ذلک ثابت حتی یقوم الدلیل علی کونہ مخصوصا وھذا ھو الصحیح.(٢٦)
''اور امام ابو الحسن کرخی فرماتے تھے کہ اگر آپ کے فعل کی صفت معلوم ہو کہ وہ واجب ہے یا مندوب یا مباح' تو ا س فعل میں آپ کی اتبا ع اسی صفت کے ساتھ ہو گی اور اگر اس فعل کی صفت آپ کے حق میں معلوم نہ ہو تو آپ کا وہ فعل مباح متصور ہو گااور اس فعل میں (امت کے لیے) آپ کی اتباع اسی وقت ثابت ہو گی جبکہ اس کی کوئی دلیل ہو۔امام جصاص کا بھی وہی موقف ہے جوکہ امام کرخیکاہے(یعنی آپ کے جن افعال کی صفت معلوم نہ ہو وہ مباح افعال متصور ہوں گے) لیکن وہ یہ کہتے ہیں کہ اگر آپ کے کسی فعل کی صفت معلوم نہ ہو (تو وہ مباح تو ہوگا) لیکن اس میں آپ کی اتباع ثابت ہے الا یہ کہ اس فعل کے آپ کے ساتھ مخصوص ہونے کی کوئی دلیل ہو''۔
علامہ علاؤ الدین بخاری(متوفی ٧٣٠ھ) لکھتے ہیں:
''اگر آپ کے کسی فعل کی صفت معلوم نہ ہو(کہ وہ واجب ہے یا مندوب یا مباح) اور اس فعل کا تعلق معاملات سے ہو تو بالاجماع وہ فعل مباح ہے۔ابو الیسر نے اسی طرح کہا ہے۔اور اگر وہ فعل (جس کی صفت معلوم نہ ہو) عبادات سے متعلق ہوتو اس کے بارے میں علماء کا اختلاف ہے۔بعض علماء کا کہنا یہ ہے کہ آپ کے ایسے افعال کے بارے میں توقف کیاجائے گااور ان پر وجوب' ندب یا اباحت میں سے کوئی بھی حکم نہ لگایا جائے گااور ہمارے لیے آپ کے ایسے افعال میں اتباع اس وقت تک ثابت نہ ہوگی جب تک کہ کوئی ایسی دلیل نہ ہو جو اس فعل کے وصف (یعنی وجوب ' ندب یا اباحت) کو ظاہر کر دے اور امت کی اس فعل میں آپ کے ساتھ شرکت کو بھی ثابت کرے۔عام اشاعرہ اور شوافع کی ایک جماعت امام غزالی ' ابوبکر دقاق اور ابو القاسم بن کج رحمہم اللہ وغیرہ کا یہی موقف ہے۔جبکہ علماء کی ایک دوسری جماعت کا کہنا یہ ہے کہ ہمارے لیے آپ کے ایسے افعال میں آپ کی اتباع واجب ہے اور ان افعال کا کرنا آپ پر بھی واجب ہے اور امت پر بھی ۔یہ امام مالک کا مذہب ہے اور شوافع میں سے ابو العباس' اصطخری'ابن ابی ہریرةاورابن خیران رحمہم اللہ کابھی یہی موقف ہے۔حنابلہ اور معتزلہ کی ایک جماعت نے بھی اسی موقف کو اختیار کیاہے''۔ (٢٧)
امام جصاص ( متوفی ٣٧٠ھ) احناف کے اس موقف کے دلائل کا تذکرہ کرتے ہوئے لکھتے ہیں:
''اگر یہ کہا جائے کہ اگرتم نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے ایسے فعل (کہ جس کی صفت وجوب' ندب یا اباحت معلوم نہ ہو)کو مباح سمجھ کر عمل کر لیاتو تم اس اندیشے سے بے خوف نہیں ہو سکتے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلمے اس فعل کو مندوب یاواجب سمجھ کر کیا ہواور تم نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی مخالفت کی ہو۔ایسے شخص کو یہ جواب دیا جائے گا:اگر آپ نے اس فعل (کہ جس کی صفت معلوم نہ ہو) کو مندوب یا واجب سمجھ کر کیا ہوتا تو آپ اپنے اس فعل کی اس صفت کو ضرور بیان کرتے 'کیونکہ ہم اس کے محتاج ہیں۔پس جب آپ نے اپنے کسی فعل کی صفت واضح نہیں کی تو ہمیں یہ معلوم ہو گیا کہ آپ نے ہمیں یہ فعل کرنے کی اجازت مرحمت فرمائی ہے اور آپ کا یہ فعل ہمارے حق میں مباح ہے۔پس اگر کوئی شخص یہ اعتراض کرے کہ آپ نے اگر اس فعل(کہ جس کی صفت واضح نہیں ہے) کو مباح سمجھ کر کیا تھا توآپ اس کی اباحت کو ہی واضح کر دیتے(لیکن آپ نے اس کی اباحت کو واضح نہیں کیا)پس جس طرح آپ کے لیے یہ جائز تھا کہ آپۖ ایک مباح کام کریں اور اس کی اباحت کو بیان نہ کریں تو اسی طرح آپ کے لیے یہ بھی جائز ہے کہ آپ کسی کام کو مندوب یا واجب سمجھ کر کریں اور اس کے ندب یا وجوب کو بیان نہ کریں۔ہم اس کو شخص کو یہ جواب دیں گے:یہ لازم نہیں ہے کہ ایساہی ہو۔ آپ کے لیے یہ تو جائز تھا کہ آپۖ تمام کے تمام مباحات کو بیان نہ کریں جبکہ ہمارے دین میں تمام مباحات سے واقفیت ضروری نہیں ہے 'کیونکہ مباحات کے ارتکاب پر نہ تو کوئی ثواب ہے اور نہ ہی ان کے انکار پر کوئی سزا ہے۔جہاں تک مندوب و واجب کا تعلق ہے تو اس کے بیان کو ترک کرنا آپۖ کے لیے جائز نہیں تھاکیونکہ ہم مندوب و واجب کی معرفت کے محتاج ہیں تاکہ مندوب کے کرنے سے ثواب ہو اور واجب کو ترک کرنے سے ہم محرمات میں نہ جا پڑیں ''۔ (٢٨)
٭ جیسا کہ امام جصاص نے بیان کیا ہے 'ایک اہم نکتہ اس بحث میں یہ ہے کہ آپ کے اس قسم کے تمام افعال کو بھی علمائے احناف نے واجب یا مستحب قرار نہیں دیا ہے بلکہ ان افعال میں بھی ایک قسم 'مباح' ہے کہ جس کے ارتکاب پر کسی امتی کے لیے اجر و ثواب کا کوئی عقیدہ رکھنا درست نہیں ہے۔
٭دوسرا اہم نکتہ یہ ہے کہ قرآن کی وہ عمومی آیات کہ جن میں اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی مطلق اتباع کا تذکرہ ہے ' ان سے تو یہ محسوس ہوتا ہے کہ شاید آپ ۖ کی یہ اتباع آپ کے ہر ہر فعل میں امت کے حق میں واجب یا فرض ہے ۔
امام سرخسی (متوفی٤٨٣ھ) ان آیات کی وضاحت کرتے ہوئے بیان فرماتے ہیں:
ففی قولہ: (لَقَدْ کَانَ لَکُمْ فِیْ رَسُوْلِ اللّٰہِ اُسْوَة حَسَنَة) دلیل علی أن التأسی بہ فی أفعالہ لیس بواجب' لأنہ لو کان واجبا لکان من حق الکلام أن یقول علیکم' ففی قولہ''لکم'' دلیل علی أن ذلک مباح لنا لا أن یکون لازما علینا والأمر بالاتباع التصدیق و الاقرار بما جاء بہ' فان الخطاب بذلک لأھل الکتاب وذلک بین فی سیاق الآیة(٢٩)
''اللہ کے اس قول''البتہ تحقیق تمہارے لیے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی زندگی میں بہترین نمونہ ہے'' میں اس بات پر دلیل ہے کہ آپ کے افعال میں آپ کی پیروی واجب نہیں ہے'کیونکہ اگر آپ کے افعال میں آپ کی پیروی واجب ہوتی تو پھر آیت مبارکہ میں 'لکم' کی بجائے 'علیکم' کے الفاظ ہوتے۔پس اللہ تعالیٰ کے الفاظ 'لکم' میں اس بات کی دلیل ہے کہ آپۖ کے افعال کی اتباع امت کے حق میں مباح ہے نہ کہ لازم ۔اور 'فَاتَّبِعُوْنِیْ' میں اتباع سے مراد اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم جس کو لے کر آئے ہیں اس کی تصدیق و اقرار کرنا ہے(یعنی اتباع سے مراد آپ کی باتوں پر ایمان لانا ہے)کیونکہ آیت کے سیاق میں یہ بات واضح طور پر موجود ہے کہ ان آیات میں اصل خطاب اہل کتاب سے ہے''۔
 
سٹیٹس
مزید جوابات پوسٹ نہیں کیے جا سکتے ہیں۔
Top