اطاعتِ رسول صلی اللہ علیہ وسلم کا معنی و مفہوم اور شرعی حکم
اطاعت سے کیا مراد ہے ؟معروف لغوی ابن سیدہ نے اطاعت کی تعریف
'لَانَ وَانْقَادَ' سے کی ہے،یعنی نرم و لچکدارہونا اور تابع بننا۔دوسرے الفاظ میں ہم یوں کہہ سکتے ہیں کہ مزاحمت (resistance) ترک کرکے کسی کی بات ماننا اور اس کا فرماں بردار ہونا اطاعت ہے۔
حضرت عمررضی اللہ عنہ نے جب اپنے بیٹے حضرت عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہ کو حکم دیا کہ وہ اپنی بیوی کو طلاق دے دیں تو حضرت عبد اللہ بن عمر نے انکار کر دیا۔ اس پر حضرت عمر رضی اللہ عنہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس گئے ۔آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت عبد اللہ بن عمرکو بلوا کر کہا:
أَطِعْ أَبَاکَ یعنی مزاحمت ترک کر کے اپنے اندر لچک پیدا کر اور اپنے باپ کی بات مان لے۔ لہٰذا اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی اطاعت سے مراد آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے مقابلے میں ہر قسم کی مزاحمت ترک کرکے آپ صلی اللہ علیہ وسلم پر ایمان لانااورآپ صلی اللہ علیہ وسلم کی بات ماننا ہے۔
قرآن میں اطاعت کا لفظ کفار اور اہل ایمان دونوں کے لیے استعمال ہوا ہے،لیکن دونوں کے لیے اس کے معنی میں باریک فرق ہے ۔قرآن میں جب کفار ،مشرکین،اہل کتاب اور منافقین سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی اطاعت کا مطالبہ کیا جاتا ہے تو اس سے مراد رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے بالمقابل مزاحمت ترک کر کے ان پر ایمان لانے میں ان کی بات ماننا ہے۔ جیسا کہ حضرت نوح،حضرت صالح،حضرت ہود،حضرت لوط اور حضرت شعیب علیہم السلامنے اپنی اپنی قوم کو
(فَاتَّقُوا اللّٰہَ وَاَطِیْعُوْنِ4)(الشُّعراء:١٠٨'١١٠' ١٢٦' ١٣١' ١٤٤' ١٥٠' ١٦٣' ١٧٩) کا حکم جاری کیا۔ان آیات میں اطاعت سے مرادنبی پر ایمان لانے میںاس کی بات ماننا ہے 'کیونکہ ایک شخص رسول کو رسول مانتا ہی نہ ہو تو اس سے اس چیز کا مطالبہ کرنا کہ وہ رسول کے احکامات پر عمل کرے،عبث ہے، اور اس میں کوئی شک نہیں ہے کہ کسی بھی رسول کی ایسیاطاعت کا منکر کافر ہے۔
سورہ آل عمران کی آیت
(قُلْ اَطِیْعُوا اللّٰہَ وَاَطِیْعُوا الرَّسُوْلَج فَاِنْ تَوَلَّوْا فَاِنَّ اللّٰہَ لَا یُحِبُّ الْکٰفِرِیْن)(آل عمران) میں اطاعت سے مراد رسول کے ایمان لانے کے مطالبے میں اس کی اطاعت ہے۔امام سیوطی نے'تفسیر جلالین' میں اس آیت کی تقدیر عبارت یوں بیان کی ہے:
'قُلْ( لھم) اَطِیْعُوا اللّٰہَ وَاَطِیْعُوا الرَّسُوْلَ (فیما یأمرکم بہ من التوحید) فَاِنْ تَوَلَّوْا (أعرضوا عن الطاعة) فَاِنَّ اللّٰہَ لَا یُحِبُّ الْکٰفِرِیْنَ۔
جمہور مفسرین امام ابن جریر طبری' امام رازی ' امام قرطبی ' امام بیضاوی' امام بغوی' امام ابن عطیہ ' علامہ ابن جوزی ' امام ابو حیان الاندلسی' علامہ آلوسی اور علامہ ابو بکر الجزائری رحمہم اللہ نے اپنی تفاسیر میں اس آیت کے شان نزول کے بارے میں لکھا ہے کہ یہ آیت مبارکہ نجران کے عیسائی وفد کے بارے میں نازل ہوئی ہے جو کہ اللہ سے محبت کرنے کے دعوے دار تھے ۔بعض مفسرین نے یہ بھی لکھا ہے یہ آیت مبارکہ ان یہود کے بارے میں نازل ہوئی جنہوں نے
(نَحْنُ اَبْنَائُ اللّٰہِ وَاَحِبَّاوُہ) کا دعویٰ کیا ہے ۔
(فَاِنْ تَوَلَّوْا فَاِنَّ اللّٰہَ لَا یُحِبُّ الْکٰفِرِیْنَ) کے بارے میں حضرت عبد اللہ بن عباس رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ یہ عبد اللہ بن ابی اور اس کے ان ساتھیوں کے بارے میں نازل ہوئی جو صرف اللہ کی اطاعت کا دعویٰ کرتے تھے اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی اطاعت کے انکاری تھے۔
ہمارے خیال میں یہ تینوں ہی اس آیت کے شان نزول ہو سکتے ہیں اور اس کے مصداقات بنتے ہیں۔اگر اس آیت میں اہل کتاب سے خطاب مراد لیا جائے،جیسا کہ جمہور مفسرین کی رائے ہے،تو پھر
'فَاِنْ تَوَلَّوْا' سے مراد ان کا اللہ اور اس کے رسول کے مطالبۂ ایمان میں ان کی بات نہ ماننا ہے
۔اور جو شخص اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے ایمان کے مطالبے میں ان کی بات سے اعراض کرے تو ایسا شخص بلاشہ کافر ہے۔اسی طرح اگر کوئی شخص منافقین کی طرح صرف اللہ کی اطاعت کا قائل ہو اور اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی اطاعت کا مطلقًا انکاری ہو اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو مُطَاع نہ سمجھتا ہو تو ایسا شخص بھی بلا شبہ دائرئہ اسلام سے خارج اور زندیق ہے۔لیکن کیا یہ آیت مبارکہ اس شخص کو بھی کافر قرار دیتی ہے جو کہ مؤمن صادق ہے اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی اطاعت کو بھی اللہ کی اطاعت کی طرح فرض سمجھتا ہے لیکن بعض جزوی مسائل میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی عملا اطاعت نہیں کرتا ؟ اس مسئلے میں اہل سنت کے ہاں تفصیل ہے جس کو ہم جابجا اس مضمون میں واضح کریں گے۔ مفسرین نے اپنی تفاسیر میں واضح کیا ہے کہ'
فَاِنَّ اللّٰہَ لَا یُحِبُّ الْکٰفِرِیْنَ' میں اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کانافرمان مؤمن صادق داخل نہیں ہے ۔
ایک شخص اگر اللہ کی طرح اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کو بھی ہر اعتبار سے مُطاع مانتا ہے لیکن پھر بھی بعض ضروری معاملات میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی عملا اطاعت نہیں کرتا تو ایسا شخص تمام اہل سنت کے نزدیک کافر نہیں ہے،ہاں گناہ گار اور فاسق ہو
گا۔بعض اوقات یوں بھی ہوتا ہے کہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں: میری فلاں بات پر عمل کرو،اگر عمل نہیں کرو گے تو کافر ہو جاؤ گے۔ اب اگر کوئی شخص آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے اس حکم میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی اطاعت کا قائل تو ہو لیکن آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی اطاعت نہ کرے تو کیا یہ شخص کافر ہو گا؟اس کو ایک سادہ سی مثال سے سمجھیں کہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
((لَا تَرْجِعُوْا بَعْدِیْ کُفَّارًا یَضْرِبُ بَعْضُکُمْ رِقَابَ بَعْضٍ)) (٢٨)
''میرے بعد کافر نہ بن جانا کہ ایک دوسرے کی گردنیں مارنے لگ جاؤ''۔
اس حدیث میں اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے کہ مسلمانوں کے جو گروہ میری وفات کے بعدآپس میں قتال کریں گے تو وہ کافر ہو جائیں گے ۔اسی طرح
'مَنْ حَلَفَ بِغَیْرِ اللّٰہِ فَقَدْ کَفَرَ'اور 'بَیْنَ الْمُسْلِمِ وَبَیْنَ الْکُفْرِ تَرْکُ الصَّلَاةِ ' اور
'اِذَا قَالَ الرَّجُلُ لِاَخِیْہِ یَا کَافِرُ فَقَدْ بَائَ بِھَا أَحَدُھُمَا' اور
'سِبَابُ الْمُسْلِمِ فُسُوْق وَقِتَالُہ کُفْر' وغیرہ کی طرح کی بہت سی ایسی احادیث مبارکہ موجود ہیں جن میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے کسی حکم کی خلاف ورزی کوکفر قرار دیا ہے ۔تو کیاان احکامات میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی نافرمانی کرنے والا شخص کافر ہے؟
اہل سنت کا اس بات پر اتفاق ہے کہ اس طرح کا شخص ایسا کافر نہیں ہے کہ وہ دائرہ اسلام سے خارج ہوجائے اور دائمی جہنمی ہو۔ اہل سنت کا ایک گروہ اس کو 'کُفْر دُوْنَ کُفْرٍ'' قرار دیتا ہے اور کہتا ہے کہ ایسے شخص کا کفر 'عملی کفر' ہے۔ائمہ ثلاثہ یعنی امام مالک،امام شافعی،امام احمد اور محدثین رحمہم اللہ کا قول یہی ہے ۔جبکہ اہل سنت کا دوسرا گروہ یہ کہتا ہے کہ یہ 'کفر مجازی 'ہے 'یعنی حقیقی نہیں ہے۔ امام ابوحنیفہ رحمہ اللہ اور بعض فقہاء کا یہی قول ہے ۔لہٰذ ایسے شخص کو عملی کافر کہیں یا مجازی کافر ' بہر حال اس بات پر جمیع اہل سنت کا اتفاق ہے کہ ایسا شخص 'کافر حقیقی' نہیں ہے کہ جس سے وہ دائرہ اسلام سے خارج ہو یا آخرت میں دائمی جہنم کا مستحق ہو۔(٢٩)
اس کے برعکس خوارج اور معتزلہ کا اس بات پر اتفاق ہے کہ ان احادیث کی وجہ سے گناہ کبیرہ کامرتکب دائرہ اسلام سے خارج ہو جاتا ہے ۔ خوارج اس کو کافر بھی قرار دیتے ہیں جبکہ معتزلہ کافر نہیں کہتے،لیکن یہ دونوں گروہ اس بات پر متفق ہیں کہ وہ دائمی جہنمی ہے ۔یہی وجہ ہے کہ خوارج نے صحابہ کرام پر کفر کے فتوے لگائے اورحضرت علی و معاویہ رضی اللہ عنہما جیسے جلیل القدر صحابہ کے خون کو مباح قرار دیا ۔اگر خوارج اور معتزلہ کا نظریہ مان لیا جائے پھر تو معاذ اللہ! جنگ جمل اور جنگ صفین میں شامل تمام صحابہ کافر ہو گئے تھے؟ کیونکہ انہوں نے
((لَا تَرْجِعُوْا بَعْدِیْ کُفَّارًا یَضْرِبُ بَعْضُکُمْ رِقَابَ بَعْضٍ))میں اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی اطاعت نہ کی تھی۔
اب اس بات کو سمجھنے کی ضرورت ہے کہ اگر بعض مفسرین مثلاً ابن کثیر وغیرہ نے
'فَاِنْ تَوَلَّوْا فَاِنَّ اللّٰہَ لاَ یُحِبُّ الْکٰفِرِیْنَ' سے مراد مسلمانوں کا ایک گروہ لیا ہے تو اس سے ان کی مراد یہ نہیں ہے کہ مسلمان آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی جزوی عدم اطاعت سے حقیقی کافر ہو جاتے ہیں 'بلکہ ان کی مراد یہاں پر
'کفر دون کفر' اور عملی کفر ہے۔ امام ابن کثیر کے شاگرد ابن ابی العز الحنفی رحمہما اللہ نے 'شرح عقیدہ طحاویہ' میں
'لاَ نُکَفِّرُ اَحَدًا بِذَنْبٍ' کےتحت اس موضوع پر کافی مفصل بحث کی ہے ۔ یہ بھی ذہن میں رہے کہ 'کفر دون کفر'کی اصطلاح مابعد کے زمانوں کی نہیں ہے ،بلکہ اسے سب سے پہلے حضرت عبد اللہ بن عباس رضی اللہ عنہ نے استعمال کیا تھا۔
اوپر ہم اس مسئلے کو زیر بحث لائے ہیں کہ ایک شخص اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے ایک حکم کو لازمی حکم مانتا ہے 'لیکن آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی اس حکم میں اطاعت نہیں کرتاتو اس کا کیا حکم ہے ؟صحیح روایات اور ائمہ اہل سنت کی رائے سے یہ ثابت ہوا ہے کہ ایسا شخص عدم اطاعت کے باوجود کافر نہیں ہے۔ اور اگر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس مسئلے میں اپنی عدم اطاعت کو کفر قرار دیا ہے تو پھر بھی وہ شخص حقیقی کافر نہ ہو گا بلکہ مجازی یا عملی کافر ہو گا،جیسا کہ صحابہ بعض ایسے احکامات میں عدم اطاعت کے مرتکب ہوئے ہیں جن کے ارتکاب کو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے کفر قرار دیا تھا۔ اب دوسرے مسئلے کی طرف آتے ہیں کہ کوئی مسلمان اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے کسی لازمی حکم کا انکار کر دے تو اس کا کیا حکم ہے۔اب اس انکار کی کئی صورتیں ہو سکتی ہیں ۔یہ بھی ممکن ہے کہ وہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے اس لازمی حکم کو منسوخ سمجھتا ہو یا اس کی کوئی ایسی تأویل کرتا ہو کہ وہ لازمی حکم اس کے نزدیک لازمی نہ رہے، مستحب یا مباح کے دائرے میں چلا جائے۔ یا وہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے اس حکم کوبعض حالات یا اسباب کے ساتھ خاص قرار دیتا ہویا کوئی بھی وجہ نہ ہو اور وہ اس کا انکار کر دے وغیرہ۔اگر کوئی شخص کسی سنت کو منسوخ سمجھے یا اس کی تأویل کرے یا اس کو بعض حالات و اسباب سے خاص قرار دے،تو ایسی صورت میں اس سنت کا منکر اہل سنت کے نزدیک بالاتفاق کافر نہ ہو گا۔
حال ہی میں ایک نیا فلسفہ یہ بھی متعارف ہوا ہے کہ کسی فرض کی ادائیگی کا جو طریقہ ہمیں بذریعہ سنت ملتا ہے،فرض کی ادائیگی میں ہر صورت اس طریقے کی پیروی اُمت مسلمہ کے لیے لازم ہے۔ اور اگر کوئی شخص اس طریقے سے کسی فرض کو ادا نہیں کرتا جس طرح سے سنت میں اس کی ادائیگی کا طریقہ ملتا ہے تو ایسے شخص کا نہ تو وہ فرض اداہو گا اور نہ ہی وہ اُخروی نجات حاصل کر سکے گاکیونکہ فرض کی ادائیگی کا جو طریقہ سنت سے ملتا ہے وہ اطاعت ہے اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی عدم اطاعت کو
'فَاِنْ تَوَلَّوْا فَاِنَّ اللّٰہَ لَا یُحِبُّ الْکٰفِرِیْنَ' میں کفر قرار دیا گیا ہے۔
اس نظریہ کے حامل حضرات اس کے لیے ایک مثال بیان کرتے ہیں کہ نماز فرض ہے اور اس کی ادائیگی کا طریقہ سنت سے ملتا ہے 'لہٰذ ااگر کوئی سنت کے مطابق یہ فرض ادا نہیں کرتاتو اس کی نماز قبول نہیں ہے اور نہ ہی اس کی نجات ہو گی ۔اسی طرح اقامت دین، نفاذ شریعت اور جہاد کی جدوجہد فرض ہے۔ اس کی ادائیگی کا طریقہ سنت سے ملتا ہے،اور جو کوئی (مِن وعَن) اس منہج کے مطابق اقامتِ دین کی جدوجہد کا فریضہ سرانجام نہیں دے رہا جیسے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی سیرت سے ملتا ہے تو ایسے شخص کا یہ فریضہ ادا نہ ہو گا او ر نہ ہی اُخروی نجات ہو گی(مثلاً جماعت اسلامی 'تبلیغی جماعت' حزب التحریر' علمائے دیوبند ' جماعت اہل حدیث'جماعۃ الدعوۃ اور دیگر جہادی تحریکیں وغیرہ) ۔کیونکہ ان حضرات کے نزدیک یہ تمام گروہ یا تو اقامت دین کا فرض ادا ہی نہیں کر رہے یا اگر ادا کر رہے ہیں تو سیرت کے طریقے کے مطابق ادا نہیں کر رہے ۔
اس نقطۂ نظر کے حاملین کو ہمارا جواب یہ ہے کہ جہاں تک نماز کاتعلق ہے تو نماز کو جس طرح فرض قرار دیا گیا ہے اسی طرح اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے
((صَلُّوْا کَمَا رَاَیْتُمُوْنِیْ اُصَلِّیْ)) کے ذریعے اس کا سنت کے مطابق پڑھنا بھی فرض قرار دیا ہے۔ اسی طرح کا معاملہ حج کا بھی ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے حج کی فرضیت پر زور دینے کے ساتھ ساتھ اس کو اس طریقے کے مطابق ادا کرنا بھی لازم قرار دیا ہے جس طریقے پرآپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے ادا کیاہے۔ مثلاً آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے حجة الوداع کے موقع پر فرمایا
: ((خُذُوْا عَنِّیْ مَنَاسِکَکُمْ))' یعنی مجھ سے حج کے مناسک سیکھ لو۔
لیکن بہت سے فرائض ایسے ہیں جن کی ادائیگی کو تولازم قرار دیا گیا ہے لیکن ان کو اس طریقے پر ادا کرنا جیسے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ادا کیا ہے ،شریعت اسلامیہ میں لازم نہیں کیا گیا ہے۔مثلاً مسلمانوںپر فرمانِ الٰہی (کُتِبَ عَلَیْکُمُ الْقِصَاصُ)کے ذریعے قصاص کو لازم کیا گیا ۔آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانے میں قصاصاًقتل کرنے کے لیے تلوار سے گردن اڑائی جاتی تھی۔ اب اس کی جگہ پھانسی کے طریقے نے لے لی ہے۔اب کون سا عالم دین ایسا ہے جو یہ فتویٰ جاری کرے گا کہ بذریعہ پھانسی قصاص لینے سے قصاص کا فریضہ ادا نہیں ہوتا اور اگر کوئی اسلامی ریاست قصاص کے حکم کی ادائیگی کے لیے پھانسی کا طریقہ اختیار کرتی ہے تو اس کی اُخروی نجات ممکن نہیں ہے ؟
حق بات یہ ہے کہ جس فرض کی ادائیگی کے ساتھ ساتھ اس کے طریقے کو بھی لازم قرار دیا گیا ہو اُس فرض کو اس طریقے کے مطابق ادا کرنا لازم ہے 'لیکن جن فرائض میں صر ف فرض کی ادائیگی پر زور دیا گیا ہے' کوئی طریقہ لازم نہیں کیا گیا ان فرائض کی ادائیگی کے لیے سیرت النبی صلی اللہ علیہ وسلم سے رہنمائی لیتے ہوئے کوئی بھی ایساطریقہ اختیار کیا جا سکتا ہے جس سے اس فرض کی ادائیگی بہتر طریقے سے ہو سکے 'بشرطیکہ وہ طریقہ کسی شرعی نص کے خلاف نہ ہو۔مثلاً اللہ سبحانہ وتعالیٰ نے ظلم کے خاتمے اور عدل کے قیام کے لیے قتال کو اُمت مسلمہ پر فرض قرار دیا ہے۔اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے زمانے کے حالات و واقعات ا ور اسباب و وسائل کو مدنظر رکھتے ہوئے اس فریضہ کی ادائیگی کے لیے کبھی صلح کی اور کبھی جنگ' آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے تلواروں سے جنگ لڑی اور گھوڑوں ' اونٹوں وغیرہ پر سفر کیا'اپنے دفاع کے لیے کبھی خندق کھودی تو کبھی آگے بڑھ کر اقدام کیا'آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ہجرت بھی کی اوراللہ کے دشمنوں کو قتل بھی کیا اور معاف بھی کیا۔
اب اگر کوئی شخص یہ کہے کہ ہم نے بھی کسی مسلمان معاشرے مثلاً پاکستان میں ظلم کے خاتمے ' اللہ کے دین کی سر بلندی اور نظامِ عدل کے قیام کے لیے بعینہ اسی منہج کو اختیار کرنا ہے جس کو اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے دَور میں اختیار کیاتھا تو گویا وہ یہ کہہ رہاہے کہ ہمیں لازماً ہجرت بھی کرنی ہو گی، جس کے لیے شایدافغانستان مناسب جگہ ہو٭ اورپاکستانی افواج سے قتال بھی کرنا ہو گا'غزوئہ بد ر کی طرح حکومت کے سرکاری خزانوں کو لوٹنے کے لیے اقدام بھی کرنا ہو گا اور غزوہ اُحد کی طرح پاکستانی افواج سے لڑائی بھی'ہمیں اپنے دفاع کے لیے خندق بھی کھودنی ہوگی اور صلح حدیبیہ کی طرح اللہ کے دشمنوں یعنی حکومت پاکستان سے صلح بھی کرنی ہو گی ۔غزوہ خیبر کی طرح اسرائیل پر بھی حملہ کرنا ہوگا اور فتح مکہ کی طرح دس ہزار کا لشکر لے کر حکومت پاکستان پر چڑھائی بھی ۔یہ وہ نتائج ہیں جو اس طرزِ فکر سے لازماً برآمد ہوتے ہیں اور ظاہر ہے کہ اس قول کے قائلین ان نتائج کو بقائمی ہوش و حواس قبول نہیں کریں گے۔
اس میں کوئی شک نہیں ہے کہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی سیرت بحیثیت مجموعی ہمارے لیے ایک نمونہ ہے۔ یعنی ہم سیرت نبوی صلی اللہ علیہ وسلم کی جزئیات اور تفصیلات سے قطع نظر اس سے من جملہ رہنمائی لے سکتے ہیں'جیسا کہ ارشادِ باری تعالیٰ ہے :
(لَقَدْ کَانَ لَکُمْ فِیْ رَسُوْلِ اللّٰہِ اُسْوَة حَسَنَة) (الاحزاب:٢١)
''تمہارے لیے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم صلی اللہ علیہ وسلم( کی زندگی )میں بہترین اسوہ ہے''۔
اس آیت کے معنی و مفہوم پر ہم آگے چل کر تفصیلی بحث کریں گے ۔لہٰذا اقامت دین یا نفاذ شریعت یا جہاد وقتال کے فرض کی ادائیگی کے لیے سیر ت نبوی صلی اللہ علیہ وسلم سے ایک مجموعی رہنمائی لیتے ہوئے عصر حاضر میں کوئی منہج اختیار کرنا تو درست بھی ہو گا اور مطلوب بھی 'لیکن اس فرض کی ادائیگی کے لیے سیرت کو بالتفصیل یا جزئی طور پر حجت قرار دینا سوائے غلو فی الدین اور شرعی نصوص کی خلاف ورزی کے اور کچھ نہیں ہے۔آپ کا ارشاد ہے:
((مَنْ قَالَ فِی الْقُرْآنِ بِرَأْیِہ فَاَصَابَ فَقَدْ اَخْطَأَ)) (٣٠)
''جس نے قرآن کی تفسیر میں اپنی رائے سے کوئی بات کہی' پس اگر وہ صحیح بھی ہو پھر بھی وہ خطاکار ہے''۔
امام ابن حجر نے اس روایت کو حسن کہا ہے۔(٣١)امام ابن الصلاح نے اس کو 'دون الحسن' کہا ہے۔(٣٢) علامہ احمد شاکر نے اس کو 'صحیح 'کہا ہے۔(٣٣) علامہ البانی نے اس کو 'ضعیف 'کہا ہے۔ (٣٤)
شارحینِ حدیث نے وضاحت کی ہے کہ اس روایت سے مراد وہ افراد ہیں جو کہ قرآن کی تفسیر کی اہلیت نہیں رکھتے اور پھر بھی اس کی تفسیر کرتے ہیں ۔تو گویا یہ حضرات قرآن کی تفسیر اپنی رائے سے کرتےہیں۔اب اگر کوئی شخص ضروری علومِ اسلامیہ سے ناواقف ہواور وہ قرآنی آیات کی تطبیق اسلامی معاشروں پر شروع کر دے اورمسلمانوں کے سوادِ اعظم کوکافر' مشرک اور منافق بنا دے توایسا شخص بھی اس حدیث کا مصداق ہے۔اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے اس فعل کی اس قدر مذمت کی ہے کہ اگر اس کی رائے درست بھی ہو جائے تو پھر بھی وہ خطا کار ہے 'یعنی آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایسے تمام مختصر راستے( short cuts)بند کرنے کی کوشش کی ہے جو کہ علومِ اسلامیہ کو سیکھے بغیر قرآن کی تفسیر و تعبیر کی طرف لے جانے والے ہوں ۔
پس عامی اگر کسی پر کفر کا فتویٰ لگائے تو وہ درحقیقت اپنے اوپر کفر کا فتویٰ لگا رہا ہوتاہے۔اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے:
((اِذَا قَالَ الرَّجُلُ لِاَخِیْہِ یَا کَافِرُ فَقَدْ بَائَ بِہ أَحَدُھُمَا)) (٣٥)
''جب کوئی آدمی اپنے کسی مسلمان بھائی کو کہے :اے کافر! تو ان دونوں میں سے ایک کافر ہو جاتاہے''۔
اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے فرمان سے مقصود یہ ہے اگر تو جس کو اس نے کافر کہا وہ واقعتا کافر ہوا تو یہ کہنے والا سچا ہے 'اور اگرجس کو اس نے کافر کہا ہے وہ اللہ کے نزدیک کافر نہیں ہے توکہنے والا شخص خود کافر بن جاتا ہے۔یہی وجہ ہے کہ علماء کفر کا فتویٰ لگانے میں بہت محتاط ہیں ۔
جہاں تک اُخروی نجات کا معاملہ ہے تو اس کے بارے میں اہل سنت کا متفق علیہ عقیدہ یہی ہے کہ ہم کسی بھی مسلمان پرکسی فرض کی ادائیگی کے ترک یا حرام کے ارتکاب کی وجہ سے یہ فتویٰ نہیں جاری کریں گے کہ اس کی نجات نہیں ہوگی ۔اہل سنت کے نزدیک ایسا فتویٰ جاری کرنا شرک ہے ۔مثلاً ایک صحیح روایت میں ہے کہ حضرت ابوہریرہ نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سنا کہ بنی اسرائیل میں دو دوست تھے ۔ان میں ایک بڑا متقی اور پر ہیز گارتھا جبکہ دوسرا عرصۂ دراز سے کسی گناہ کبیرہ میں مبتلا تھا۔اس متقی کا جب بھی اپنے گناہ گار بھائی کے پاس سے گزر ہوتا تو وہ اس کو اس گناہ سے منع کرتا تھا ۔اسی طرح سالہا سال گزر گئے ۔ایک دن وہ گناہ گار آدمی اپنے متقی بھائی کی تبلیغ کے جواب میں کہنے لگا :
((… خَلِّنِیْ وَرَبِّیْ اَبُعِثْتَ عَلَیَّ رَقِیْبًا؟ قَالَ وَاللّٰہِ لَا یَغْفِرُ اللّٰہُ لَکَ ]أَوْ لاَ یُدْخِلُکَ اللّٰہُ الْجَنَّةَ[ فَقَبَضَ أَرْوَاحَھُمَا فَاجْتَمَعَا عِنْدَ رَبِّ الْعَالَمِیْنَ' فَقَالَ لِھٰذَا الْمُجْتَھِدِ أَ کُنْتَ بِیْ عَالِمًا أَوْ کُنْتَ عَلٰی مَا فِیْ یَدِیْ قَادِرًا؟ وَقَالَ لِلْمُذْنِبِ اذْھَبَ فَادْخُلِ الْجَنَّةَ بِرَحْمَتِیْ وَقَالَ لِلْآخَرِ اذْھَبُوْا بِہ اِلَی النَّارِ)) (٣٦)
''میرا معاملہ میرے ربّ پر چھوڑ دے۔ کیا تجھے میرے اوپر نگران بنایا گیا ہے ؟تو متقی آدمی نے کہا:اللہ کی قسم! اللہ تجھے معاف نہیں کرے گا [یا یوں کہا کہ تجھے جنت میں داخل نہیں کرے گا]۔ تو اللہ تعالیٰ نے ان دونوں کی ارواح قبض کیں اور وہ دونوں اپنے ربّ کے دربار میں جمع ہو گئے تو اللہ تعالیٰ نے متقی آدمی سے کہا :کیا تو میرے بارے میں مجھ سے زیادہ جانتا ہے یا جو میرے ہاتھ میں ہے (یعنی مغفرت اور جنت میں داخل کرنا)کیا تو اس پر قادر ہے؟اللہ تعالیٰ نے گناہ گار سے کہا:تو جنت میں داخل ہوجا اورمتقی کے بارے میں فرشتوں کو حکم دیا: اس کو آگ کی طرف لے جاؤ''۔
علامہ البانی رحمہ اللہ نے اس حدیث کو صحیح کہا ہے(٣٧)۔شیخ احمد شاکر رحمہ اللہ نے بھی اس کی سندکو صحیح کہا ہے۔(٣٨)