ایک اصلاحی مشورہ ہے کہ فتوی دینا ۔۔ سنت اللہ اور سنت رسول ۔۔۔ نہیں ہے بلکہ اللہ اور اسکے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کا حکم ہوتا ہے اسکے مطابق علما اکرام فتوی دیتے ہین
فتویٰ دینا اللہ تعالیٰ اور رسول کریمﷺ کی مبارک سنت ہے۔ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نبی کریمﷺ سے سوال کرتے تو کبھی اس سوال کا جواب اللہ رب العٰلمین ڈائریکٹ قرآن کریم میں اُتار دیتے اور کبھی نبی کریمﷺ بذات خود سوال کا جواب وحی الٰہی کی روشنی میں دیتے تھے۔
﴿ يَسْتَفْتُونَكَ قُلِ اللَّـهُ يُفْتِيكُمْ فِي الْكَلَالَةِ ۔۔۔ الآية ١٧٦ ﴾ سورة المائدة
آپ سے فتویٰ پوچھتے ہیں، آپ کہہ دیجیئے کہ
اللہ تعالیٰ (خود) تمہیں کلالہ کے بارے میں فتویٰ دیتا ہے۔
﴿ يَسْأَلُونَكَ عَنِ الْأَنفَالِ ۖ قُلِ الْأَنفَالُ لِلَّـهِ وَالرَّسُولِ ۔۔۔ الآية ١ ﴾ سورة الأنفال
یہ لوگ آپ سے غنیمتو ں کا حکم دریافت کرتے ہیں،
آپ فرما دیجئے! کہ یہ غنیمتیں اللہ کی ہیں اور رسول کی ہیں۔
اسی طرح صحیحین میں حدیث جبریل مشہور ہے جس میں سیدنا جبریل علیہ السلام بصورت بشر نبی کریمﷺ سے سوال پوچھتے رہے اور آپﷺ جواب دیتے رہے۔