• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

ایمان گھٹتا اور بڑھتا ہے !!!

عمر اثری

سینئر رکن
شمولیت
اکتوبر 29، 2015
پیغامات
4,404
ری ایکشن اسکور
1,137
پوائنٹ
412
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے محبت آپ لوگوں کی کم زیادہ ہوتی ہوگی ہمیں تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اپنی جان سے زیادہ عزیز ہیں اور اس میں کبھی کمی نہیں آنے دیتے۔
چلیں فقرہ کی تصحیح فرمالیں؛
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے محبت آپ لوگوں کی کم زیادہ ہوتی ہوگی ہمیں تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اپنی جان سے زیادہ عزیز ہیں ۔
آپ خود تذبذب کے شکار معلوم ہوتے ہیں.
یہ صرف حیلہ ہے. بے وجہ تاویل ہے. میں نے دلائل دے دۓ تھے. باقی آپکی مرضی.
 

عمر اثری

سینئر رکن
شمولیت
اکتوبر 29، 2015
پیغامات
4,404
ری ایکشن اسکور
1,137
پوائنٹ
412
یہ ایسے ہی ہے جیسے اللہ تعالیٰ کے فرمان کے مطاق کفار کی دشمنی مین کمی بیشی ہوتی ہے۔ فرمانِ باری تعالیٰ ہے؛
إِنَّ الَّذِينَ كَفَرُوا بَعْدَ إِيمَانِهِمْ ثُمَّ ازْدَادُوا كُفْرًا لَنْ تُقْبَلَ تَوْبَتُهُمْ وَأُولَئِكَ هُمُ الضَّالُّونَ (سورۃ آلِ عمران آیت 90)
اب اس آیت سے یہ مراد و نہیں لی جاسکتی کہ کفر میں بھی کوئی کمی بیشی ہوتی ہے۔ کیونکہ اللہ تعالیٰ نے ایمان کے مقابلہ میں صرف کفر کا تذکرہ کیا پھر جو بیان آیا وہ بے یقینی میں بڑھنے کا آیا۔ یہ اس لئے ہؤا کہ پہلے ایمان لایا پھر اس کا یقین متذبذب ہؤا تو کفر میں داخل ہوگیا اور پھر اس کا کفر میں یقین بڑھتا چلا گیا۔ جیسا کہ فرمانِ باری تعالیٰ ہؤا۔ منافقین کے بارے ان آیات میں بھی غور و خوض کرنے سے بھی یہی معلوم ہوتا ہے۔
وَإِذَا قِيلَ لَهُمْ آَمِنُوا كَمَا آَمَنَ النَّاسُ قَالُوا أَنُؤْمِنُ كَمَا آَمَنَ السُّفَهَاءُ أَلَا إِنَّهُمْ هُمُ السُّفَهَاءُ وَلَكِنْ لَا يَعْلَمُونَ (13) وَإِذَا لَقُوا الَّذِينَ آَمَنُوا قَالُوا آَمَنَّا وَإِذَا خَلَوْا إِلَى شَيَاطِينِهِمْ قَالُوا إِنَّا مَعَكُمْ إِنَّمَا نَحْنُ مُسْتَهْزِئُونَ (14) اللَّهُ يَسْتَهْزِئُ بِهِمْ وَيَمُدُّهُمْ فِي طُغْيَانِهِمْ يَعْمَهُونَ (15) أُولَئِكَ الَّذِينَ اشْتَرَوُا الضَّلَالَةَ بِالْهُدَى فَمَا رَبِحَتْ تِجَارَتُهُمْ وَمَا كَانُوا مُهْتَدِينَ (16)
مَثَلُهُمْ كَمَثَلِ الَّذِي اسْتَوْقَدَ نَارًا فَلَمَّا أَضَاءَتْ مَا حَوْلَهُ ذَهَبَ اللَّهُ بِنُورِهِمْ وَتَرَكَهُمْ فِي ظُلُمَاتٍ لَا يُبْصِرُونَ (17) صُمٌّ بُكْمٌ عُمْيٌ فَهُمْ لَا يَرْجِعُونَ (18) أَوْ كَصَيِّبٍ مِنَ السَّمَاءِ فِيهِ ظُلُمَاتٌ وَرَعْدٌ وَبَرْقٌ يَجْعَلُونَ أَصَابِعَهُمْ فِي آَذَانِهِمْ مِنَ الصَّوَاعِقِ حَذَرَ الْمَوْتِ وَاللَّهُ مُحِيطٌ بِالْكَافِرِينَ (19) يَكَادُ الْبَرْقُ يَخْطَفُ أَبْصَارَهُمْ كُلَّمَا أَضَاءَ لَهُمْ مَشَوْا فِيهِ وَإِذَا أَظْلَمَ عَلَيْهِمْ قَامُوا وَلَوْ شَاءَ اللَّهُ لَذَهَبَ بِسَمْعِهِمْ وَأَبْصَارِهِمْ إِنَّ اللَّهَ عَلَى كُلِّ شَيْءٍ قَدِيرٌ (20)
یہ میرے سوال کا جواب نہیں ہے. میں نے آپ سے کہا تھا کہ آپ یقین کے معنی میں کیوں استعمال کر رہے ہیں. قرینہ کیا ہے؟؟؟
ان آیات میں ایمان کا ترجمہ کرنا غلط ہو جاۓ گا.
؟؟؟؟؟
 

ابن داود

فعال رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
نومبر 08، 2011
پیغامات
3,416
ری ایکشن اسکور
2,733
پوائنٹ
556
السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ!
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے محبت آپ لوگوں کی کم زیادہ ہوتی ہوگی ہمیں تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اپنی جان سے زیادہ عزیز ہیں اور اس میں کبھی کمی نہیں آنے دیتے۔
چلیں فقرہ کی تصحیح فرمالیں؛
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے محبت آپ لوگوں کی کم زیادہ ہوتی ہوگی ہمیں تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اپنی جان سے زیادہ عزیز ہیں ۔
اتنی نہ بڑھا پاکئی داماں کی حکایت
دامن کوذرا دیکھ، ذرا اپنی فقہ دیکھ


(قَوْلُهُ وَلَا يَنْتَقِضُ عَهْدُهُ بِالْإِبَاءِ عَنْ الْجِزْيَةِ وَالزِّنَا بِمُسْلِمَةٍ وَقَتْلِ مُسْلِمٍ وَسَبِّ النَّبِيِّ - صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ -)

۔۔۔۔۔
۔۔۔۔۔

نَعَمْ نَفْسُ الْمُؤْمِنِ تَمِيلُ إلَى قَوْلِ الْمُخَالِفِ فِي مَسْأَلَةِ السَّبِّ لَكِنَّ اتِّبَاعَنَا لِلْمَذْهَبِ وَاجِبٌ


جو (ذمی کافر) جزیہ دینے کا انکار کردے یا کسی مسلمان عورت سے زنا کرے یا مسلمان کو قتل کردے یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو گالی دے تو اس کا عہد نہیں ٹوٹتا
۔۔۔۔
۔۔۔۔

جی ہاں (رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو) گالی دینے کے مسئلہ میں مؤمن کا دل (ہمارے) مخالف کی طرف مائل ہوتا ہے لیکن ہمارے لئے مذہب (یعنی فقہ حنفیہ) کی اتباع (یعنی تقلید) کرنا واجب ہے۔
ملاحظہ فرمائیں: صفحہ 192 – 195 جلد 05 البحر الرائق شرح كنز الدقائق - زين الدين بن إبراهيم، المعروف بابن نجيم المصري (المتوفى: 970هـ) - دار الكتب العلمية، بيروت
ملاحظہ فرمائیں: صفحہ 124 – 125 جلد 05 البحر الرائق شرح كنز الدقائق - زين الدين بن إبراهيم، المعروف بابن نجيم المصري (المتوفى: 970هـ) - دار الكتب العربية الكبرى

فقہ حنفیہ میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو گالی دینے والے یعنی شاتم رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے لئے کوئی سزا مقرر نہیں ہے بلکہ فقہ حنفیہ میں شاتم رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی جان ومال کی حفاظت کی جائے گی، (یعنی اس کا ذمہ برقرار رہے گا) اس بات سے آپ اندازہ لگا سکتے ہیں کہ احناف کا اسلام اور قرآن وحدیث سے کتنا تعلق ہے!!!
ملاحظہ فرمائیں کہ فقہ حنفی کے محرر جنہیں محرر مذہب نعمانی کا لقب حاصل ہے اور احناف میں ابو حنیفہ ثانی کہلاتے ہیں کس دیدہ دلیری کے ساتھ اعلان کرتے ہیں کہ:
جی ہاں (رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو) گالی دینے کے مسئلہ میں مؤمن کا دل (ہمارے) مخالف کی طرف مائل ہوتا ہے لیکن ہمارے لئے مذہب (یعنی فقہ حنفیہ) کی اتباع (یعنی تقلید) کرنا واجب ہے۔

انہیں دین اسلام اور قرآن پر ایمان کی کوئی فکر نہیں ہے، ایمان جاتا ہے جائے، اسلام لٹتا ہے لٹے، لیکن فقہ حنفی ہاتھ سے نہ جائے، اس کو آنچ نہ آنے پائے!!!، ان کے نزدیک قرآن وسنت کا حکم ماننا لازم نہیں، بلکہ اپنی فقہ کی بات ماننی لازم ہے۔
إنا لله وإنا إليه راجعون
دین اسلام میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی گستاخی کرنے والے کی سزا قتل ہے۔
حَدَّثَنَا عَلِيُّ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ، حَدَّثَنَا سُفْيَانُ، قَالَ: عَمْرٌو سَمِعْتُ جَابِرَ بْنَ عَبْدِ اللَّهِ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمَا، يَقُولُ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «مَنْ لِكَعْبِ بْنِ الأَشْرَفِ، فَإِنَّهُ قَدْ آذَى اللَّهَ وَرَسُولَهُ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ»، فَقَالَ مُحَمَّدُ بْنُ مَسْلَمَةَ: أَنَا، فَأَتَاهُ، فَقَالَ: أَرَدْنَا أَنْ تُسْلِفَنَا، وَسْقًا أَوْ وَسْقَيْنِ، فَقَالَ: ارْهَنُونِي نِسَاءَكُمْ، قَالُوا: كَيْفَ نَرْهَنُكَ نِسَاءَنَا وَأَنْتَ أَجْمَلُ العَرَبِ؟ قَالَ: فَارْهَنُونِي أَبْنَاءَكُمْ، قَالُوا: كَيْفَ نَرْهَنُ أَبْنَاءَنَا، فَيُسَبُّ أَحَدُهُمْ، فَيُقَالُ: رُهِنَ بِوَسْقٍ، أَوْ وَسْقَيْنِ؟ هَذَا عَارٌ عَلَيْنَا، وَلَكِنَّا نَرْهَنُكَ اللَّأْمَةَ - قَالَ سُفْيَانُ: يَعْنِي السِّلاَحَ - فَوَعَدَهُ أَنْ يَأْتِيَهُ، فَقَتَلُوهُ، ثُمَّ أَتَوُا النَّبِيَّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَأَخْبَرُوهُ
ہم سے علی بن عبداللہ نے بیان کیا، کہا ہم سے سفیان بن عیینہ نے بیان کیا کہ عمرو بن دینار نے بیان کیا کہ میں نے جابر بن عبداللہ رضی للہ عنہما سے سنا وہ کہہ رہے تھے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کعب بن اشرف کا کام کون تمام کرتا ہے کہ اس نے اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کو بہت تکلیف دے رکھی ہے۔ محمد بن مسلمہ رضی اللہ عنہ نے کہا کہ میں ( یہ خدمت انجام دوں گا ) چنانچہ وہ اس کے پاس گئے اور کہا کہ ایک یا دو وسق غلہ قرض لےنے کے ارادے سے آیا ہوں۔ کعب نے کہا لیکن تمہیں اپنی بیویوں کو میرے یہاں گروی رکھنا ہوگا۔ محمد بن مسلمہ اور اس کے ساتھیوں نے کہا کہ ہم اپنی بیویوں کو تمہارے پاس کس طرح گروی رکھ سکتے ہیں جب کہ تم سارے عرب میں خوبصورت ہو۔ اس نے کہا کہ پھر اپنی اولاد گروی رکھ دو۔ انہوں نے کہا کہ ہم اپنی اولاد کس طرح رہن رکھ سکتے ہیں اسی پر انہیں گالی دی جایا کرے گی کہ ایک دو وسق غلے کے لیے رہن رکھ دیے گئے تھے تو ہمارے لیے بڑی شرم کی بات ہوگی۔ البتہ ہم اپنے ہتھیار تمہارے یہاں رہن رکھ سکتے ہیں۔ سفیان نے کہا کہ مراد لفظ” لامہ “ سے ہتھیار ہیں۔ پھر محمد بن مسلمہ رضی اللہ عنہ اس سے دوبارہ ملنے کا وعدہ کرکے ( چلے آئے اور رات میں اس کے یہاں پہنچ کر ) اسے قتل کردیا۔ پھر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئے اور آپ کو خبر دی۔
ملاحظہ فرمائیں: صحيح البخاري»» كِتَابُ الرَّهْنِ»» بَابُ رَهْنِ السِّلاَحِ
 

عبدالرحمن بھٹی

مشہور رکن
شمولیت
ستمبر 13، 2015
پیغامات
2,435
ری ایکشن اسکور
293
پوائنٹ
165
(قَوْلُهُ وَلَا يَنْتَقِضُ عَهْدُهُ بِالْإِبَاءِ عَنْ الْجِزْيَةِ وَالزِّنَا بِمُسْلِمَةٍ وَقَتْلِ مُسْلِمٍ وَسَبِّ النَّبِيِّ - صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ -)
جو (ذمی کافر) جزیہ دینے کا انکار کردے یا کسی مسلمان عورت سے زنا کرے یا مسلمان کو قتل کردے یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو گالی دے تو اس کا عہد نہیں ٹوٹتا
فقہ حنفیہ میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو گالی دینے والے یعنی شاتم رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے لئے کوئی سزا مقرر نہیں ہے
یا تو آپ کی ذہنی استعداد کم ہے یا اس کو صرف منفی سوچ کے لئے مختص کر رکھا ہے۔
عربی میں ”سبّ“ کا معنیٰ ”گالی“ نہیں ہوتا۔ مزید یہ کہ ”یعنی“ کی اوڑھنی دے کر اسے ”شاتم“ بنا دیا اور ان چیزوں میں آپ نے کمال حاصل کر لیا ہے۔
اسی لئے میں نے آپ سے کئی بار معذرت کی ایک بار پھرمعذرت۔
 

عبدالرحمن بھٹی

مشہور رکن
شمولیت
ستمبر 13، 2015
پیغامات
2,435
ری ایکشن اسکور
293
پوائنٹ
165
درج ذیل آیات کریمہ کی ایمان کی زیادتی ثابت ہوتی ہے:

﴿ الَّذينَ قالَ لَهُمُ النّاسُ إِنَّ النّاسَ قَد جَمَعوا لَكُم فَاخشَوهُم فَزادَهُم إيمـٰنًا وَقالوا حَسبُنَا اللَّـهُ وَنِعمَ الوَكيلُ ١٧٣ ﴾ ۔۔۔ سورة آل عمران
وه لوگ کہ جب ان سے لوگوں نے کہا کہ کافروں نے تمہارے مقابلے پر لشکر جمع کر لئے ہیں، تم ان سے خوف کھاؤ تو اس بات نے انہیں ایمان میں اور بڑھا دیا اور کہنے لگے ہمیں اللہ کافی ہے اور وه بہت اچھا کارساز ہے (173)

﴿ إِنَّمَا المُؤمِنونَ الَّذينَ إِذا ذُكِرَ اللَّـهُ وَجِلَت قُلوبُهُم وَإِذا تُلِيَت عَلَيهِم ءايـٰتُهُ زادَتهُم إيمـٰنًا وَعَلىٰ رَبِّهِم يَتَوَكَّلونَ ٢ ﴾ ۔۔۔ سورۃ الأنفال
بس ایمان والے تو ایسے ہوتے ہیں کہ جب اللہ تعالیٰ کا ذکر آتا ہے تو ان کے قلوب ڈر جاتے ہیں اور جب اللہ کی آیتیں ان کو پڑھ کر سنائی جاتیں ہیں تو وه آیتیں ان کے ایمان کو اور زیاده کردیتی ہیں اور وه لوگ اپنے رب پر توکل کرتے ہیں۔

﴿ وَإِذا ما أُنزِلَت سورَةٌ فَمِنهُم مَن يَقولُ أَيُّكُم زادَتهُ هـٰذِهِ إيمـٰنًا ۚ فَأَمَّا الَّذينَ ءامَنوا فَزادَتهُم إيمـٰنًا وَهُم يَستَبشِرونَ ١٢٤ ﴾ ۔۔۔ سورة التوبة
اور جب کوئی سورت نازل کی جاتی ہے تو بعض منافقین کہتے ہیں کہ اس سورت نے تم میں سے کس کے ایمان کو زیاده کیا ہے، سو جو لوگ ایمان والے ہیں اس سورت نے ان کے ایمان کو زیاده کیا ہے اور وه خوش ہورہے ہیں (124)

﴿ وَلَمّا رَءَا المُؤمِنونَ الأَحزابَ قالوا هـٰذا ما وَعَدَنَا اللَّـهُ وَرَسولُهُ وَصَدَقَ اللَّـهُ وَرَسولُهُ ۚ وَما زادَهُم إِلّا إيمـٰنًا وَتَسليمًا ٢٢ ﴾ ۔۔۔ سورۃ الأحزاب
اور ایمان والوں نے جب (کفار کے) لشکروں کو دیکھا (بے ساختہ) کہہ اٹھے! کہ انہیں کا وعده ہمیں اللہ تعالیٰ نے اور اس کے رسول نے دیا تھا اور اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول نے سچ فرمایا، اور اس (چیز) نے ان کے ایمان میں اور شیوہٴ فرماں برداری میں اور اضافہ کر دیا (22)

﴿ هُوَ الَّذى أَنزَلَ السَّكينَةَ فى قُلوبِ المُؤمِنينَ لِيَزدادوا إيمـٰنًا مَعَ إيمـٰنِهِم ۗ وَلِلَّـهِ جُنودُ السَّمـٰوٰتِ وَالأَرضِ ۚ وَكانَ اللَّـهُ عَليمًا حَكيمًا ٤ ﴾ ۔۔۔ سورۃ الفتح
وہی ہے جس نے مسلمانوں کے دلوں میں سکون (اور اطیمنان) ڈال دیا تاکہ اپنے ایمان کے ساتھ ہی ساتھ اور بھی ایمان میں بڑھ جائیں، اور آسمانوں اور زمین کے (کل) لشکر اللہ ہی کے ہیں۔ اور اللہ تعالیٰ دانا باحکمت ہے (4)

ظاہر ہے ایمان میں پہلے کچھ کمی ہوتی ہے تو پھر ان مبارک ونیک اعمال کی وجہ سے ایمان میں اضافہ ہوتا ہے۔ لہٰذا ثابت ہوا کہ ایمان یکساں نہیں رہتا، بلکہ اس میں کمی وبیشی ہوتی رہتی ہے۔
یہ جتنی بھی آیات ہیں ان میں ”ایمان“ بمعنیٰ ”یقین“ ہی استعمال ہؤا ہے۔
دین کے لحاظ سے انسانوں کی صرف دو قسمیں ہیں یعنی وہ مسلم ہے یا کافر۔ اس کے بیچ میں کوئی ایسی قسم نہیں کہ کوئی مسلم، برے اعمال کے سبب تھوڑا یا زیادہ کافر بھی ہو مسلم ہوتے ہوئے (یاد رہے منافق حقیقتاً کافر ہے وہ صرف مسلم باور کراتا ہے)۔ اس طرح کوئی کافر، اچھے اعمال کے سبب تھوڑا یا بہت مسلم ہو کافر ہوتے ہوئے۔
مسلم شامتِ اعمال سے کافر ہونے کے نزدیک تو کہلا سکتا ہے مگر کافر نہیں ہوتا۔ کافر اچھے اعمال کے سبب اسلام کے قریب تو کہلا سکتا ہے مگر مسلم نہیں۔
اس آیت میں ”ایمان“ بمقابلہ ”کفر“ استعمال ہؤا ہے؛
وَدَّ كَثِيرٌ مِنْ أَهْلِ الْكِتَابِ لَوْ يَرُدُّونَكُمْ مِنْ بَعْدِ إِيمَانِكُمْ كُفَّارًا ۔۔۔۔ الآیۃ (سورۃ البقرۃ آیت 109)
جیسا کہ فرمان باری تعالیٰ ہے؛
قَالَتِ الْأَعْرَابُ آَمَنَّا قُلْ لَمْ تُؤْمِنُوا وَلَكِنْ قُولُوا أَسْلَمْنَا وَلَمَّا يَدْخُلِ الْإِيمَانُ فِي قُلُوبِكُمْ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ الآیۃ (سورۃ الحجرات آیت 14)
جب ”اعراب“ نے یہ کہا کہ ہم ایمان لے آئے تو جواب میں اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ ان سے کہدو کہ تم ایمان نہیں لائے (یعنی تمہارا ابھی یقین نہیں بنا وہ تو وقت کے ساتھ بنے گا) بلکہ یہ کہو کہ ہم اسلام لائے۔
تسلیم فوراً ممکن ہوتی ہے مگر یقین محکم وقت چاہتا ہے۔ اسی بات کو اللہ تعالیٰ یوں فرماتے ہیں؛
يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آَمَنُوا آَمِنُوا بِاللَّهِ وَرَسُولِهِ وَالْكِتَابِ الَّذِي نَزَّلَ عَلَى رَسُولِهِ وَالْكِتَابِ الَّذِي أَنْزَلَ مِنْ قَبْلُ وَمَنْ يَكْفُرْ بِاللَّهِ وَمَلَائِكَتِهِ وَكُتُبِهِ وَرُسُلِهِ وَالْيَوْمِ الْآَخِرِ فَقَدْ ضَلَّ ضَلَالًا بَعِيدًا (سورۃ النساء آیت 136)

یہاں بڑی دلچسپ بات یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ فرمارہے ہیں کہ ”اے ایمان والو“ اور پھر انہی کو کہ رہے ہیں ”ایمان لے آؤ“۔ جب اللہ تعالیٰ نے ان کو ایمان والے کہدیا تو ان کے ایمان میں شک نہ رہا۔ پھر ”ایمان“ لانے کا حکم بے معنیٰ ہو گیا اور اللہ تعالیٰ اس سے مبرا ہیں۔ یہاں ”ایمان“ لے آنے کا جو حکم ہے وہ ”یقین“ بڑھانے کا ہے۔
اسی طرح قرآنِ پاک میں ہے؛
وَلَا تَجْعَلُوا اللَّهَ عُرْضَةً لِأَيْمَانِكُمْ ۔۔۔۔ الآیۃ (سورۃ البقرۃ آیت 224)
قسم کیا ہے؟ اپنی بات کا کسی کو یقین دلانا۔
 

عمر اثری

سینئر رکن
شمولیت
اکتوبر 29، 2015
پیغامات
4,404
ری ایکشن اسکور
1,137
پوائنٹ
412
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے محبت آپ لوگوں کی کم زیادہ ہوتی ہوگی ہمیں تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اپنی جان سے زیادہ عزیز ہیں اور اس میں کبھی کمی نہیں آنے دیتے۔
چلیں فقرہ کی تصحیح فرمالیں؛
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے محبت آپ لوگوں کی کم زیادہ ہوتی ہوگی ہمیں تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اپنی جان سے زیادہ عزیز ہیں ۔
اب دیکھتے ہیں کہ آپ سلف صالحین سے کتنے زیادہ ایمان والے ہیں.
حافظ ابن حجر رحمہ اللہ فتح الباری میں لکھتے ہیں:
ذهب السلف إلى أن الإيمان يزيد وينقص، وأنكر ذلك أكثر المتكلمين
سلف صالحین کے ہاں ایمان میں کمی اور زیادتی ہوتی ہے اور سلف کے اس موقف کو ماننے سے اکثر متکلمین نے انکار کیا ہے۔ (فتح الباری: 1/64)

ابن مسعود رضی اللہ عنہ کا قول:
اجلسوا بنا نزداد إيمانا
ہمارے ساتھ بیٹھو تاکہ ہم ایمان میں اضافہ کریں. {رواہ البیہقی فی شعب الایمان: (1/73) (45)}
مزید یہ دعا کرتے تھے:
اللهم زدني إيمانا ويقينا وفقها
اے اللہ ہمارے ایمان، یقین اور (دین کی) فقہ میں اضافہ فرما۔ {طبرانی: 9/105 (8549)، بیہقی فی شعب الایمان: 1/73 (46)}
*
قال الهيثمي في مجمع الزوائد (10/188) اسناده جيد
* حافظ ابن حجر رحمہ اللہ کہتے ہیں:
وإسناده صحيح ، وهذا أصرح في المقصود
اس (اثر) کی سند صحیح ہے اور یہ مقصود (یعنی ایمان میں کمی و بیشی ہونے) میں واضح ترین ہے۔ (فتح الباری: 1/66)

جندب بن عبداللہ البجلي رضي اللہ عنہ کہتے ہیں:
كُنَّا مَعَ النَّبِيِّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَنَحْنُ فِتْيَانٌ حَزَاوِرَةٌ، «فَتَعَلَّمْنَا الْإِيمَانَ قَبْلَ أَنْ نَتَعَلَّمَ الْقُرْآنَ، ثُمَّ تَعَلَّمْنَا الْقُرْآنَ فَازْدَدْنَا بِهِ إِيمَانًا»
حضرت جندب بن عبداللہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے، انہوں نے فرمایا: ہمیں نبی ﷺ کا ساتھ نصیب ہوا جب کہ ہم بھر پور جواب تھے، تو ہم نے قرآن کا علم حاصل کرنے سے پہلے ایمان سیکھا ،پھر ہم نے قرآن سیکھا تو اس سے ہمارے ایمان میں اضافہ ہوگیا. (ابن ماجہ: 61 وصححہ الالبانی)

سعد بن معاذ رضی اللہ عنہ نے کسی صحابی سے کہا تھا:

اجلسوا بنا نؤمن ساعة
ہمارے پاس بیٹھو تاکہ ہم کچھ دیر ایمان لے آئیں. (امام بخاری رحمہ اللہ نے اسے کتاب الایمان میں تعلیقا ذکر کیا. چونکہ امام بخاری نے اس موقوف روایت کو صیغہ جزم کے ساتھ نقل کیا ہے لہذا یہ صحیح ہے. اسکے علاوہ حافظ ابن حجر رحمہ اللہ نے اس پر حکم لگاتے ہوۓ کہا: موقوف صحیح. مزید اسکی سند کو عمدۃ القاری: 1/190 میں علامہ عینی رحمہ اللہ نے صحیح کہا ہے. اسکے علاوہ علامہ البانی رحمہ اللہ نے بھی اسکی سند کو شیخین کی شرط پر صحیح بتایا ہے)

عمار رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں:
ثَلاَثٌ مَنْ جَمَعَهُنَّ فَقَدْ جَمَعَ الإِيمَانَ: الإِنْصَافُ مِنْ نَفْسِكَ، وَبَذْلُ السَّلاَمِ لِلْعَالَمِ، وَالإِنْفَاقُ مِنَ الإِقْتَارِ
جس نے تین چیزوں کو جمع کر لیا اس نے سارا ایمان حاصل کر لیا۔ اپنے نفس سے انصاف کرنا، سلام کو عالم میں پھیلانا اور تنگ دستی کے باوجود راہ اللہ میں خرچ کرنا۔ (امام بخاری رحمہ اللہ نے اسے کتاب الایمان میں حدیث نمبر 28 سے پہلے تعلیقا ذکر کیا. علامہ البانی رحمہ اللہ طحاویہ کی شرح 343 میں لکھتے ہیں: اسنادہ صحیح موقوفا. وہاں پر الفاظ کچھ اس طرح ہیں: ثلاثٌ من كنَّ فيه فقد استكملَ الإيمانَ)

علقمہ بن قیس النخعی رحمہ اپنے ساتھیوں سے کہا کرتے تھے:
امشوا بنا نزدد إيمانا
ہمارے ساتھ چلو تاکہ ہم اپنے ایمان میں اضافہ کریں. (الایمان لابن شیبہ.. وحسن الالبانی اسنادہ)

عبد الرزاق صنعانی کہتے ہیں:
سمعت معمرا وسفيان الثوري ومالك بن أنس، وابن جريج، وسفيان بن عيينة يقولون: الإيمان قول وعمل يزيد وينقص
میں نے معمر، سفيان ثوری، مالک ابن انس، ابن جريج اور سفیان ابن عیینہ کو یہ کہتے ہوۓ سنا کہ: ایمان قول و عمل ہے۔ اس میں کمی و بیشی ہوتی ہے.
اور ایک دوسری روایت میں ہے کہ عبد الرزاق رحمہ اللہ نے فرمایا:
وأنا أقول ذلك، الإيمان قول وعمل والإيمان يزيد وينقص، فإن خالفتهم فقد ضللت إذن وما أنا من المهتدين
اور میں بھی یہی کہتا ہوں کہ ایمان قول و عمل ہے۔ اس میں کمی زیادتی ہوتی ہے اور اگر میں نے ان (اَئمہ و فقہا) کی مخالفت کی تو میں گمراہ ہو جاؤں گا او رہدایت یافتہ لوگوں میں سے نہیں ہوں گا۔ (الشریعہ لاآجری: 129، التمہید لابن عبدالبر: 9/252، السنہ لعبداللہ بن احمد: 1/342)

امام بخاری رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
لقيت أكثر من ألف رجل من العلماء بالأمصار فما رأيت أحداً يختلف في أن الإيمان قول وعمل، ويزيد وينقص
میں نے (مختلف) شہروں میں ایک ہزار سے زائد علماے زمانہ سے ملاقات کی ہے۔ ان میں سے کوئی بھی ایمان کے قول و عمل ہونے اور اس کے کم و زیادہ ہونے میں اختلاف نہیں کرتا تھا۔ (فتح الباری)

سہل بن متوکل الشیبانی کہتے ہیں:
أدركت ألف أستاذ وأكثر كلهم يقولون: الإيمان قول وعمل يزيد وينقص..
میں نے ایک ہزار سے زائد اساتذہ کو پایا ہے، وہ سب یہی کہتے تھے کہ ایمان قول و عمل ہے۔ اس میں کمی بیشی ہوتی ہے. (شرح اصول اعتقاد اہل السنۃ والجماعۃ)

امام سفیان ابن عیینہ سے پوچھا گیا:
الإِيمَانُ يَزِيدُ وَيَنْقُصُ؟ قَالَ " أَلَيْسَ تَقْرَءُونَ الْقُرْآنَ ؟ فَزَادَهُمْ إِيمَانًا فِي غَيْرِ مَوْضِعٍ ، قِيلَ : يَنْقُصُ ؟ قَالَ : لَيْسَ شَيْءٌ يَزِيدُ إِلا وَهُوَ يَنْقُصُ
کیا ایمان میں کمی اور بیشی ہوتی ہے؟ تو اُنہوں نے جواب دیا کہ کیا تم قرآن نہیں پڑھتے ہو؟ (اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں) ﴿فَزادَهُم إيمـنًا﴾ ”اس نے ان کے ایمان میں اِضافہ کردیا.“
پھر ان سے پوچھا گیا کہ کیا ایمان کم بھی ہوتا ہے؟ تو اُنہوں نے جواب دیا کہ جس چیز میں زیادتی واقع ہوتی ہے، اس میں کمی بھی واقع ہوتی ہے۔ (الشریعۃ للآجری)

عبدالرحمن بن عمرو الأوزاعي کہتے ہیں:
الإِيمَانُ قَوْلٌ وَعَمَلٌ ، يَزِيدُ وَيَنْقُصُ فَمَنْ زَعَمَ أَنَّ الإِيمَانَ يَزِيدُ وَلا يَنْقُصُ فَاحْذَرُوهُ، فَإِنَّهُ مُبْتَدِعٌ
ایمان قول وعمل (کا نام) ہے وہ گھٹتا اور بڑھتا ہے. پس جس شخص نے یہ گمان کیا کہ ایمان میں کمی اور زیادتی نہیں ہوتی تو تم اس سے بچو اس لۓ کیونکہ وہ بدعتی ہے. (الشریعۃ للآجری)

عقبہ بن علقمہ کہتے ہیں کہ میں نے امام اوزاعی سے ایمان کے سلسلے میں سوال کیا کہ کیا ایمان میں زیادتی ہوتی ہے؟؟؟ تو انھوں نے فرمایا:
نَعَمْ ، حَتَّى يَكُونَ كَالْجِبَالِ ، قُلْتُ : فَيَنْقُصُ ؟ قَالَ : نَعَمْ ، حَتَّى لا يَبْقَى مِنْهُ شَيْءٌ
ہاں، یہاں تک کہ پہاڑ کی مانند ہو جاتا ہے۔ میں نے کہا کہ کیا ایمان میں کمی ہوتی ہے؟ تو اُنہوں نے جواب دیا کہ ہاں، یہاں تک کہ (کم ہوتے ہوتے بالآخر) کچھ بھی باقی نہیں رہتا. (شرح اصول اعتقاد اہل السنۃ والجماعۃ للالکائ)

علامہ ابن تیمیہ رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
وأجمع السلف أن الإيمان قول وعمل، يزيد وينقص
سلف نے اس بات پر اجماع کیا ہے کہ ایمان قول وعمل ہے اور وہ گھٹتا اور بڑھتا ہے (فتاوی: 7 :672)

اسکے علاوہ علامہ ابن قیم اور حافظ ابن کثیر رحمہ اللہ نے بھی اجماع نقل کیا ہے.
واللہ اعلم بالصواب

یہ اختصار کے ساتھ ذکر کیا ہے. ورنہ اسکے علاوہ کئ صحابہ، تابعین اور ائمہ وغیرہ سے ایمان میں کمی اور زیادتی کا قول ثابت ہے.
 

عمر اثری

سینئر رکن
شمولیت
اکتوبر 29، 2015
پیغامات
4,404
ری ایکشن اسکور
1,137
پوائنٹ
412
یا تو آپ کی ذہنی استعداد کم ہے یا اس کو صرف منفی سوچ کے لئے مختص کر رکھا ہے۔
مجھے تو یہ صفات آپکے اندر ہی معلوم ہوتی ہیں. بھٹی صاحب!
ذاتیات پر حملے کے بجاۓ کچھ اچھی باتیں بھی کر لیا کریں پلیز.
عربی میں ”سبّ“ کا معنیٰ ”گالی“ نہیں ہوتا۔
سچ میں؟؟؟
مجھے تو نہیں معلوم تھا. ذرا ایک نظر ادھر بھی ڈال لیں:
IMG_20160816_232813.jpg
IMG_20160816_232813.jpg
IMG_20160816_232944.jpg
 

عمر اثری

سینئر رکن
شمولیت
اکتوبر 29، 2015
پیغامات
4,404
ری ایکشن اسکور
1,137
پوائنٹ
412
یہ جتنی بھی آیات ہیں ان میں ”ایمان“ بمعنیٰ ”یقین“ ہی استعمال ہؤا ہے۔
بھٹی صاحب!
آپ سے پہلے بھی کہا تھا:
آیت کے ظاہری معنی سے ہٹ کر دوسرا معنی کیوں؟؟؟
یہ یقین کے معنی میں کیسے ہے؟؟؟؟
آیت بالکل واضح ہے. تاویلات سے کام نہ لیں.
یہ میرے سوال کا جواب نہیں ہے. میں نے آپ سے کہا تھا کہ آپ یقین کے معنی میں کیوں استعمال کر رہے ہیں. قرینہ کیا ہے؟؟؟
ان آیات میں ایمان کا ترجمہ کرنا غلط ہو جاۓ گا.
لہذا وقت کے ضیاع سے بچیں.
اس آیت میں ”ایمان“ بمقابلہ ”کفر“ استعمال ہؤا ہے؛
وَدَّ كَثِيرٌ مِنْ أَهْلِ الْكِتَابِ لَوْ يَرُدُّونَكُمْ مِنْ بَعْدِ إِيمَانِكُمْ كُفَّارًا ۔۔۔۔ الآیۃ (سورۃ البقرۃ آیت 109)
پتہ نہیں آپ اس آیت سے کیا ثابت کرنا چاہتے ہیں. تعجب کہ آپ زبردستی دلیل بنانے پر تلے ہیں
قَالَتِ الْأَعْرَابُ آَمَنَّا قُلْ لَمْ تُؤْمِنُوا وَلَكِنْ قُولُوا أَسْلَمْنَا وَلَمَّا يَدْخُلِ الْإِيمَانُ فِي قُلُوبِكُمْ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ الآیۃ (سورۃ الحجرات آیت 14)
جب ”اعراب“ نے یہ کہا کہ ہم ایمان لے آئے تو جواب میں اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ ان سے کہدو کہ تم ایمان نہیں لائے (یعنی تمہارا ابھی یقین نہیں بنا وہ تو وقت کے ساتھ بنے گا) بلکہ یہ کہو کہ ہم اسلام لائے۔
تسلیم فوراً ممکن ہوتی ہے مگر یقین محکم وقت چاہتا ہے۔ اسی بات کو اللہ تعالیٰ یوں فرماتے ہیں؛
کیوں بلا وجہ زبردستی دلیل بنا رہے ہیں؟؟؟
ایمان نہیں لاۓ یعنی ایمان ابھی مضبوط ومستحکم نہیں ہوا. ابھی اس میں کمی ہے. لہذا اعرابیوں کو نصیحت کی گئ ہے کہ ایمان کا اصل مدار قلبی تصدیق پر ہے اس کے بغیر محض زبان سے خود کو مومن کہنا صحیح نہیں ہے۔
يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آَمَنُوا آَمِنُوا بِاللَّهِ وَرَسُولِهِ وَالْكِتَابِ الَّذِي نَزَّلَ عَلَى رَسُولِهِ وَالْكِتَابِ الَّذِي أَنْزَلَ مِنْ قَبْلُ وَمَنْ يَكْفُرْ بِاللَّهِ وَمَلَائِكَتِهِ وَكُتُبِهِ وَرُسُلِهِ وَالْيَوْمِ الْآَخِرِ فَقَدْ ضَلَّ ضَلَالًا بَعِيدًا (سورۃ النساء آیت 136)
یہاں بڑی دلچسپ بات یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ فرمارہے ہیں کہ ”اے ایمان والو“ اور پھر انہی کو کہ رہے ہیں ”ایمان لے آؤ“۔ جب اللہ تعالیٰ نے ان کو ایمان والے کہدیا تو ان کے ایمان میں شک نہ رہا۔ پھر ”ایمان“ لانے کا حکم بے معنیٰ ہو گیا اور اللہ تعالیٰ اس سے مبرا ہیں۔ یہاں ”ایمان“ لے آنے کا جو حکم ہے وہ ”یقین“ بڑھانے کا ہے۔
افسوس کا مقام ہے. اپنے مقصد کی تکمیل کے لئے آپ اور نجانے کیا کیا کریں گے.
اس آیت میں ایمان والوں کو حکم دیا جارہا ہے کہ ایمان میں پورے پورے داخل ہو جائیں تمام احکام کو کل شریعت کو ایمان کی تمام جزئیات کو مان لیں، یہ خیال نہ ہو کہ اس میں تحصیل حاصل ہے نہیں بلکہ تکمیل کامل ہے۔ ایمان لائے ہو تو اب اسی پر قائم رہو اللہ جل شانہ کو مانا ہے تو جس طرح وہ منوائے مانتے چلے جاؤ۔ یہی مطلب ہر مسلمان کی اس دعا کا ہے کہ ہمیں صراط مستقیم کی ہدایت کر، یعنی ہماری ہدایت کو ثابت رکھ مدام رکھ اس میں ہمیں مضبوط کر اور دن بدن بڑھاتا رہ، اسی طرح یہاں بھی مومنوں کو اپنی ذات پر اور اپنے رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پر ایمان لانے کو فرمایا ہے اور آیت میں ایمانداروں سے خطاب کر کے فرمایا اللہ سے ڈرو اور اس کے رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پر ایمان لاؤ۔
مزید اسمیں کچھ لوگوں نے خطاب اہل شرک کو مانا ہے.
وَلَا تَجْعَلُوا اللَّهَ عُرْضَةً لِأَيْمَانِكُمْ ۔۔۔۔ الآیۃ (سورۃ البقرۃ آیت 224)
قسم کیا ہے؟ اپنی بات کا کسی کو یقین دلانا۔
محل استشہاد سمجھ میں نہیں آیا

واللہ اعلم بالصواب
 
Top