رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے محبت آپ لوگوں کی کم زیادہ ہوتی ہوگی ہمیں تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اپنی جان سے زیادہ عزیز ہیں اور اس میں کبھی کمی نہیں آنے دیتے۔
چلیں فقرہ کی تصحیح فرمالیں؛
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے محبت آپ لوگوں کی کم زیادہ ہوتی ہوگی ہمیں تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اپنی جان سے زیادہ عزیز ہیں ۔
اب دیکھتے ہیں کہ آپ سلف صالحین سے کتنے زیادہ ایمان والے ہیں.
حافظ ابن حجر رحمہ اللہ فتح الباری میں لکھتے ہیں:
ذهب السلف إلى أن الإيمان يزيد وينقص، وأنكر ذلك أكثر المتكلمين
سلف صالحین کے ہاں ایمان میں کمی اور زیادتی ہوتی ہے اور سلف کے اس موقف کو ماننے سے اکثر متکلمین نے انکار کیا ہے۔
(فتح الباری: 1/64)
ابن مسعود رضی اللہ عنہ کا قول:
اجلسوا بنا نزداد إيمانا
ہمارے ساتھ بیٹھو تاکہ ہم ایمان میں اضافہ کریں.
{رواہ البیہقی فی شعب الایمان: (1/73) (45)}
مزید یہ دعا کرتے تھے:
اللهم زدني إيمانا ويقينا وفقها
اے اللہ ہمارے ایمان، یقین اور (دین کی) فقہ میں اضافہ فرما۔
{طبرانی: 9/105 (8549)، بیہقی فی شعب الایمان: 1/73 (46)}
* قال الهيثمي في مجمع الزوائد (10/188) اسناده جيد
* حافظ ابن حجر رحمہ اللہ کہتے ہیں:
وإسناده صحيح ، وهذا أصرح في المقصود
اس (اثر) کی سند صحیح ہے اور یہ مقصود (یعنی ایمان میں کمی و بیشی ہونے) میں واضح ترین ہے۔
(فتح الباری: 1/66)
جندب بن عبداللہ البجلي رضي اللہ عنہ کہتے ہیں:
كُنَّا مَعَ النَّبِيِّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَنَحْنُ فِتْيَانٌ حَزَاوِرَةٌ، «فَتَعَلَّمْنَا الْإِيمَانَ قَبْلَ أَنْ نَتَعَلَّمَ الْقُرْآنَ، ثُمَّ تَعَلَّمْنَا الْقُرْآنَ فَازْدَدْنَا بِهِ إِيمَانًا»
حضرت جندب بن عبداللہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے، انہوں نے فرمایا: ہمیں نبی ﷺ کا ساتھ نصیب ہوا جب کہ ہم بھر پور جواب تھے، تو ہم نے قرآن کا علم حاصل کرنے سے پہلے ایمان سیکھا ،پھر ہم نے قرآن سیکھا تو اس سے ہمارے ایمان میں اضافہ ہوگیا.
(ابن ماجہ: 61 وصححہ الالبانی)
سعد بن معاذ رضی اللہ عنہ نے کسی صحابی سے کہا تھا:
اجلسوا بنا نؤمن ساعة
ہمارے پاس بیٹھو تاکہ ہم کچھ دیر ایمان لے آئیں.
(امام بخاری رحمہ اللہ نے اسے کتاب الایمان میں تعلیقا ذکر کیا. چونکہ امام بخاری نے اس موقوف روایت کو صیغہ جزم کے ساتھ نقل کیا ہے لہذا یہ صحیح ہے. اسکے علاوہ حافظ ابن حجر رحمہ اللہ نے اس پر حکم لگاتے ہوۓ کہا: موقوف صحیح. مزید اسکی سند کو عمدۃ القاری: 1/190 میں علامہ عینی رحمہ اللہ نے صحیح کہا ہے. اسکے علاوہ علامہ البانی رحمہ اللہ نے بھی اسکی سند کو شیخین کی شرط پر صحیح بتایا ہے)
عمار رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں:
ثَلاَثٌ مَنْ جَمَعَهُنَّ فَقَدْ جَمَعَ الإِيمَانَ: الإِنْصَافُ مِنْ نَفْسِكَ، وَبَذْلُ السَّلاَمِ لِلْعَالَمِ، وَالإِنْفَاقُ مِنَ الإِقْتَارِ
جس نے تین چیزوں کو جمع کر لیا اس نے سارا ایمان حاصل کر لیا۔ اپنے نفس سے انصاف کرنا، سلام کو عالم میں پھیلانا اور تنگ دستی کے باوجود راہ اللہ میں خرچ کرنا۔
(امام بخاری رحمہ اللہ نے اسے کتاب الایمان میں حدیث نمبر 28 سے پہلے تعلیقا ذکر کیا. علامہ البانی رحمہ اللہ طحاویہ کی شرح 343 میں لکھتے ہیں: اسنادہ صحیح موقوفا. وہاں پر الفاظ کچھ اس طرح ہیں: ثلاثٌ من كنَّ فيه فقد استكملَ الإيمانَ)
علقمہ بن قیس النخعی رحمہ اپنے ساتھیوں سے کہا کرتے تھے:
امشوا بنا نزدد إيمانا
ہمارے ساتھ چلو تاکہ ہم اپنے ایمان میں اضافہ کریں.
(الایمان لابن شیبہ.. وحسن الالبانی اسنادہ)
عبد الرزاق صنعانی کہتے ہیں:
سمعت معمرا وسفيان الثوري ومالك بن أنس، وابن جريج، وسفيان بن عيينة يقولون: الإيمان قول وعمل يزيد وينقص
میں نے معمر، سفيان ثوری، مالک ابن انس، ابن جريج اور سفیان ابن عیینہ کو یہ کہتے ہوۓ سنا کہ: ایمان قول و عمل ہے۔ اس میں کمی و بیشی ہوتی ہے.
اور ایک دوسری روایت میں ہے کہ عبد الرزاق رحمہ اللہ نے فرمایا:
وأنا أقول ذلك، الإيمان قول وعمل والإيمان يزيد وينقص، فإن خالفتهم فقد ضللت إذن وما أنا من المهتدين
اور میں بھی یہی کہتا ہوں کہ ایمان قول و عمل ہے۔ اس میں کمی زیادتی ہوتی ہے اور اگر میں نے ان (اَئمہ و فقہا) کی مخالفت کی تو میں گمراہ ہو جاؤں گا او رہدایت یافتہ لوگوں میں سے نہیں ہوں گا۔
(الشریعہ لاآجری: 129، التمہید لابن عبدالبر: 9/252، السنہ لعبداللہ بن احمد: 1/342)
امام بخاری رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
لقيت أكثر من ألف رجل من العلماء بالأمصار فما رأيت أحداً يختلف في أن الإيمان قول وعمل، ويزيد وينقص
میں نے (مختلف) شہروں میں ایک ہزار سے زائد علماے زمانہ سے ملاقات کی ہے۔ ان میں سے کوئی بھی ایمان کے قول و عمل ہونے اور اس کے کم و زیادہ ہونے میں اختلاف نہیں کرتا تھا۔
(فتح الباری)
سہل بن متوکل الشیبانی کہتے ہیں:
أدركت ألف أستاذ وأكثر كلهم يقولون: الإيمان قول وعمل يزيد وينقص..
میں نے ایک ہزار سے زائد اساتذہ کو پایا ہے، وہ سب یہی کہتے تھے کہ ایمان قول و عمل ہے۔ اس میں کمی بیشی ہوتی ہے.
(شرح اصول اعتقاد اہل السنۃ والجماعۃ)
امام سفیان ابن عیینہ سے پوچھا گیا:
الإِيمَانُ يَزِيدُ وَيَنْقُصُ؟ قَالَ " أَلَيْسَ تَقْرَءُونَ الْقُرْآنَ ؟ فَزَادَهُمْ إِيمَانًا فِي غَيْرِ مَوْضِعٍ ، قِيلَ : يَنْقُصُ ؟ قَالَ : لَيْسَ شَيْءٌ يَزِيدُ إِلا وَهُوَ يَنْقُصُ
کیا ایمان میں کمی اور بیشی ہوتی ہے؟ تو اُنہوں نے جواب دیا کہ کیا تم قرآن نہیں پڑھتے ہو؟ (اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں) ﴿فَزادَهُم إيمـنًا﴾ ”اس نے ان کے ایمان میں اِضافہ کردیا.“
پھر ان سے پوچھا گیا کہ کیا ایمان کم بھی ہوتا ہے؟ تو اُنہوں نے جواب دیا کہ جس چیز میں زیادتی واقع ہوتی ہے، اس میں کمی بھی واقع ہوتی ہے۔
(الشریعۃ للآجری)
عبدالرحمن بن عمرو الأوزاعي کہتے ہیں:
الإِيمَانُ قَوْلٌ وَعَمَلٌ ، يَزِيدُ وَيَنْقُصُ فَمَنْ زَعَمَ أَنَّ الإِيمَانَ يَزِيدُ وَلا يَنْقُصُ فَاحْذَرُوهُ، فَإِنَّهُ مُبْتَدِعٌ
ایمان قول وعمل (کا نام) ہے وہ گھٹتا اور بڑھتا ہے. پس جس شخص نے یہ گمان کیا کہ ایمان میں کمی اور زیادتی نہیں ہوتی تو تم اس سے بچو اس لۓ کیونکہ وہ بدعتی ہے.
(الشریعۃ للآجری)
عقبہ بن علقمہ کہتے ہیں کہ میں نے امام اوزاعی سے ایمان کے سلسلے میں سوال کیا کہ کیا ایمان میں زیادتی ہوتی ہے؟؟؟ تو انھوں نے فرمایا:
نَعَمْ ، حَتَّى يَكُونَ كَالْجِبَالِ ، قُلْتُ : فَيَنْقُصُ ؟ قَالَ : نَعَمْ ، حَتَّى لا يَبْقَى مِنْهُ شَيْءٌ
ہاں، یہاں تک کہ پہاڑ کی مانند ہو جاتا ہے۔ میں نے کہا کہ کیا ایمان میں کمی ہوتی ہے؟ تو اُنہوں نے جواب دیا کہ ہاں، یہاں تک کہ (کم ہوتے ہوتے بالآخر) کچھ بھی باقی نہیں رہتا.
(شرح اصول اعتقاد اہل السنۃ والجماعۃ للالکائ)
علامہ ابن تیمیہ رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
وأجمع السلف أن الإيمان قول وعمل، يزيد وينقص
سلف نے اس بات پر اجماع کیا ہے کہ ایمان قول وعمل ہے اور وہ گھٹتا اور بڑھتا ہے
(فتاوی: 7 :672)
اسکے علاوہ علامہ ابن قیم اور حافظ ابن کثیر رحمہ اللہ نے بھی اجماع نقل کیا ہے.
واللہ اعلم بالصواب
یہ اختصار کے ساتھ ذکر کیا ہے. ورنہ اسکے علاوہ کئ صحابہ، تابعین اور ائمہ وغیرہ سے ایمان میں کمی اور زیادتی کا قول ثابت ہے.