• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

ایک بہت بڑا شبہہ ہے تصویر کے حوالے سے اسکا حل بھی سمجھ لیں. شیخ محترم رفیق طاہر صاحب

یوسف ثانی

فعال رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
ستمبر 26، 2011
پیغامات
2,767
ری ایکشن اسکور
5,410
پوائنٹ
562
’’ عکس ‘‘ اور ’’ تصویر ‘‘ میں فرق ہے یا نہیں ، اس پر تو شیخ رفیق طاہر صاحب نے بہترین وضاحت کی ہے ۔
اگر ’’ مصوری ‘‘ اور ’’ فوٹو گرافی ‘‘ میں بھی فرق واضح کردیا جائے تو بات سمجھنے میں آسانی رہے گی ۔
اس احقر کی ناقص رائے کے مطابق:
  1. فن مصوری کا تعلق ”تصویر سازی“ سے ہے، خواہ یہ عام پنسل و برش وغیرہ سے کی جائے یا ڈیجیٹل و کمپیو ٹرائزڈ آلہ کی مدد سے کی جائے (جیسے مشہور ”پینٹ“ سافٹ ویئر میں ماؤس وغیرہ سے ”پینٹنگ“ کی جاتی ہے)۔
  2. فوٹو گرافی کا تعلق قدرتی چیزوں کے ”ہو بہو عکس“ کو کیمیکلز یا دیگر ٹیکنالوجی کی مدد سے ”محفوظ“ کرنے سے ہے۔ آئینہ، چمکدار سطح یا شفاف پانی وغیرہ میں یہ عکس ”غیر مستقل“ اور غیر محفوظ ہوتا ہے۔ جبکہ یہی عکس فوٹو گرافک فلم اور ڈیجیٹل کیمروں میں مستقلاً محفوظ ہوجاتا ہے ۔ فوٹو گرافک عمل میں ”تصویر سازی“ نہیں ہوتی بلکہ ایک قدرتی چیز کے ”قدرتی عکس“ کو تا دیر ”محفوظ“ کرلیا جاتا ہے۔
واللہ اعلم بالصواب
 

محمد فیض الابرار

سینئر رکن
شمولیت
جنوری 25، 2012
پیغامات
3,039
ری ایکشن اسکور
1,234
پوائنٹ
402
اس احقر کی ناقص رائے کے مطابق:
  1. فن مصوری کا تعلق ”تصویر سازی“ سے ہے، خواہ یہ عام پنسل و برش وغیرہ سے کی جائے یا ڈیجیٹل و کمپیو ٹرائزڈ آلہ کی مدد سے کی جائے (جیسے مشہور ”پینٹ“ سافٹ ویئر میں ماؤس وغیرہ سے ”پینٹنگ“ کی جاتی ہے)۔
  2. فوٹو گرافی کا تعلق قدرتی چیزوں کے ”ہو بہو عکس“ کو کیمیکلز یا دیگر ٹیکنالوجی کی مدد سے ”محفوظ“ کرنے سے ہے۔ آئینہ، چمکدار سطح یا شفاف پانی وغیرہ میں یہ عکس ”غیر مستقل“ اور غیر محفوظ ہوتا ہے۔ جبکہ یہی عکس فوٹو گرافک فلم اور ڈیجیٹل کیمروں میں مستقلاً محفوظ ہوجاتا ہے ۔ فوٹو گرافک عمل میں ”تصویر سازی“ نہیں ہوتی بلکہ ایک قدرتی چیز کے ”قدرتی عکس“ کو تا دیر ”محفوظ“ کرلیا جاتا ہے۔
واللہ اعلم بالصواب
تو یوسف ثانی بھائی اس کا مطلب جہاں سے چلے تھے پھر وہاں ہی آپہنچے کہ کیا فوٹو گرافی جسے عکس یا قدرتی عکس یا ہو بہو عکس خواہ کسی بھی طرح حاصل ہو کہا جا رہا ہے اس کا حکم بھی تصویر سازی کے ضمن میں ہو گا یا نہیں اور اگر نہیں تو اس کی کیا دلیل ہے؟
 
شمولیت
اگست 11، 2013
پیغامات
17,117
ری ایکشن اسکور
6,800
پوائنٹ
1,069
حافظ سعید صاحب حفطہ اللہ جو کہ پہلے ویڈیو اور تصویر سے گریز کرتے تھے وہ بھی آج مصلیحت کے تحت اس کے استعمال کو جائز سمجھتے ہیں -

باقی تفصیلی موقف تو @عبدہ بھائی بتا سکتے ہے
 

محمد فیض الابرار

سینئر رکن
شمولیت
جنوری 25، 2012
پیغامات
3,039
ری ایکشن اسکور
1,234
پوائنٹ
402
ویسے میری ذاتی رائے تو اس بارے میں یہ ہے لیکن اسے کوئی فتوی نہ سمجھا جائے
اصل حکم تو یہی ہے کہ عکس وغیرہ تصویر کے حکم میں ہی شامل ہیں یعنی جائز نہیں ہیں اب جن لوگوں کا رجحان اور عمل اس رائے کی طرف ہے اللہ انہیں جزائے خیر دے اور وہ لوگ جو دعوت و تبلیغ دین کے حوالے سے گنجائش کے قائل ہیں تو اس حوالے سے حسن ظن پر محمول کرتے ہوئے ان پر تنقید نہ کی جائے بالخصوص اس وقت جب ان کی جہود کے ثمرات ہمیں اپنے معاشرے میں نظر بھی آ رہے ہوں ۔
لیکن یہ بات واضح رہے کہ کسی بھی عالم دین کا اصل حکم سے ہٹ کر اجتھاد کرنا اصل حکم کو کسی بھی صورت میں منسوخ یا ختم نہیں کرتا اور اسی طرح کسی بھی عالم دین کا ویڈیوز پر دروس یا محاضرات دینے کو اصل حکم کے خلاف دلیل نہ بنایا جائے ، والعلم عند اللہ
 

محمد فیض الابرار

سینئر رکن
شمولیت
جنوری 25، 2012
پیغامات
3,039
ری ایکشن اسکور
1,234
پوائنٹ
402
جزاکم اللہ خیرا اس پوسٹ نے مجھے ایک اور سوال کی طرف منتقل کر دیا کہ فیس بک یا ٹوئٹر وغیرہ پر ذی نفس کی تصاویر شئیر کرنا بھی اس زمرے میں آتا ہے تو میں اپنی حد تک اللہ تعالی سے توبہ کرتا ہوں اور آئندہ کسی بھی سوشل نیٹ ورک پر کسی سیاستدان یا عالم دین کی تصاویر کو شئیر نہیں کروں گا
اور یہ اس لیے کہ دائرہ شبہات سے باہر نکل جاوں
 
شمولیت
اگست 11، 2013
پیغامات
17,117
ری ایکشن اسکور
6,800
پوائنٹ
1,069
ٹريفك حادثات كى تصاوير بنانا جس ميں اشخاص ظاہر ہوں

ہم ٹريفك حادثات كے محكمہ ميں كام كرتے ہيں، اور بعض اوقات ہميں اپنے ملك كے شہريوں حقوق محفوظ ركھنے كے ليے كچھ حادثات كى تصاوير بھى بنانا پڑتى ہيں، اور وہاں موجود كچھ افراد كى تصاوير بھى آ جاتى ہيں، اس عمل كا حكم كيا ہے ؟

الحمد للہ:

اس كام ميں كوئى حرج نہيں، كيونكہ يہ تصوير كسى مصلحت بلكہ ضرورت كى خاطر بنائى گئى ہے، اور جب اس تصوير ميں كوئى ايسا شخص بھى آ جائے جس كا حادثہ سے كوئى تعلق بھى نہيں تو اس ميں كوئى حرج والى بات نہيں...

ليكن اگر انسان كيمرہ سے وہ تصوير اتارے جو وہ اپنے پاس محفوظ ركھے تو يہ ممنوع ہے، اور يہ فى ذاتہ نہيں، بلكہ اس مقصد كى بنا پر جس كى وجہ سے اس نے تصوير بنائى ہے، اور وہ بغير كسى ضرورت كے تصوير اتارنا ہے، اور جس مقصد كے ليے آپ لوگ حادثہ والى جگہ كى تصوير بناتے ہيں وہ مقصد صحيح ہے، اور اس كے بغير كوئى چارہ نہيں.

ديكھيں: لقاء الباب المفتوح ابن عثيمين ( 198 ).

http://islamqa.info/ur/1747
 
شمولیت
اگست 11، 2013
پیغامات
17,117
ری ایکشن اسکور
6,800
پوائنٹ
1,069
تصاوير پر مشتمل كتاب مسجد ميں لے جانے كا حكم ؟؟؟

سكول كى كتابيں جو تصاوير پرمشتمل ہوتى ہيں طالب علموں كو پڑھانے كے ليے مسجد ميں لے جانے كا شريعت ميں كيا حكم ہے، كيونكہ سالانہ امتحانات قريب آ رہے ہيں، كيونكہ بعض ٹيچروں نے مسجد ميں تصاوير پر مشتمل كتابيں پڑھانے سے انكار كر ديا ہے ؟

الحمد للہ:

جائز نہيں، ليكن اگر اس ميں موجود تصاوير اور ہر وہ چيز جس سے تصوير كى تميز ہو مٹا دى جائيں تو پھر جائز ہے، چاہے وہ تصوير ٹائيٹل پر ہو يا پھر كتاب كے اندر.

فضيلۃ الشيخ ابن جبرين

http://islamqa.info/ur/22670
 
شمولیت
اگست 11، 2013
پیغامات
17,117
ری ایکشن اسکور
6,800
پوائنٹ
1,069
موبائل يا ويڈيو كيمرہ كے ساتھ تصوير بنا كر كمپيوٹر ميں منتقل كرنا حكم ؟؟؟

ويڈيو اور فوٹو گرافى كے متعلق ميرے دو سوال ہيں:

كيا ويڈيو يا فوٹو كو كمپيوٹر يا كسى بھى الكٹرانك آلہ پر پيش كرنا تصوير شمار ہوتا ہے ؟

اور اگر تصوير نہيں تو كيا انہيں ديكھنے كے ليے كوئى شرطيں ہيں ؟

كيا آپ مجھے اسے جائز اور ناجائز قرار دينے والے علماء كرام كے ناموں كى لسٹ فراہم كر سكتے ہيں، اس ميں دلائل كا بھى اضافہ ہونا چاہيے ؟

اس موضوع كے متعلق ميں نے آپ كے بہت سارے جوابات كا مطالعہ كيا ہے، ليكن ميں ابھى تك حيران ہوں، اس ليے اس سوال كا جواب دينے پر ميں آپ كا ممنون و مشكور رہونگا.


الحمد للہ:


اول:

انسان، پرندے اور حيوان وغيرہ ذى روح كى تصاوير بنانى حرام ہے، چاہے يہ فوٹو گرافى اور كيمرہ كے ذريعہ ہى ہو، علماء كرام كا صحيح قول يہى ہے، مزيد آپ سوال نمبر ( 10668 ) كے جواب كا مطالعہ ضرور كريں.


دوم:

وہ تصاوير حرام ہيں جو ثابت اور پرنٹ شدہ ہوں اور نظر آئيں جنہيں محفوظ كرنا ممكن ہو، ليكن وہ تصاوير جو ٹيلى ويژن يا ويڈيو يا موبائل ميں سكرين پر ظاہر ہوتى ہيں وہ حرام تصاوير كا حكم نہيں ركھتيں.


شيخ ابن عثيمين رحمہ اللہ كہتے ہيں:

" موجودہ نئے طريقہ سے تصوير كى دو قسميں ہيں:

پہلى قسم:

نہ تو اس تصوير كا كوئى مشہد ہو اور نہ ہى مظہر، جيسا كہ مجھے ويڈيو كى ريل ميں موجود تصاوير كے متعلق بتايا گيا ہے، تو اس كو مطلقا كوئى حكم حاصل نہيں، اور نہ ہى مطلقا يہ حرمت ميں داخل ہوتا ہے، اس ليے جو علماء كاغذ پر فوٹو گرافى سے منع كرتے ہيں ان كا كہنا ہے: اس ميں كوئى حرج نہيں، حتى كہ يہ سوال كيا گيا:


آيا مساجد ميں ديے جانے والے دروس اور ليكچر كى تصوير بنانى جائز ہے ؟

تو اس كے جواب ميں رائے يہى تھى كہ ايسا نہ كيا جائے، كيونكہ ہو سكتا ہے يہ چيز نمازيوں كے ليے تشويش كا باعث ہو، اور ہو سكتا ہے منظر بھى لائق نہ ہو.

دوسرى قسم:

كاغذ پر موجود تصوير.......

ليكن يہ ديكھنا باقى ہے كہ: جب انسان مباح تصوير بنانا چاہے، تو اس ميں مقصد كے اعتبار سے پانچ احكام جارى ہونگے، لہذا اگر اس نے كسى حرام چيز كا قصد كيا تو يہ حرام ہوگى، اور اگر اس سے واجب مقصود ہو تو يہ واجب ہے، كيونكہ بعض اوقات تصوير واجب ہو جاتى ہے، اور خاص كر متحرك تصوير، مثلا جب ہم ديكھيں كہ كوئى شخص جرم كر رہا اور اس جرم كا تعلق حقوق العباد سے ہے يعنى وہ كسى كو قتل كر رہا ہے اور ہم اس كو تصوير كے بغير ثابت ہى نہيں كر سكتے، تو اس وقت تصوير بنانى واجب ہوگى.

اور خاص كر ان مسائل ميں جو معاملات كو مكمل كنٹرول كرتے ہيں، كيونكہ وسائل كو احكام مقاصد حاصل ہيں، اگر ہم اس خوف اور خدشہ كى بنا پر يہ تصوير بنائيں كہ كہيں مجرم كے علاوہ كسى اور كو اس جرم ميں نہ پھنسا ديا جائے تو اس ميں بھى كوئى حرج نہيں بلكہ تصوير بنانا مطلوب ہو گا، اور اگر تفريح كى بنا پر تصوير بنائى جائے تو بلاشك و شبہ يہ حرام ہے. انتہى.


ديكھيں: الشرح الممتع ( 2 / 197 ).

مستقل فتوى كميٹى كے علماء كرام سے درج ذيل سوال كيا گيا:

كيا كيمرہ يا ٹيلى ويژن كى تصوير جائز ہے، اور كيا ٹى وى ديكھنا خاص كر خبريں ديكھنا جائز ہيں ؟

كميٹى كا جواب تھا:

" كيمرہ يا دوسرے آلات تصوير كے ساتھ ذى روح كى تصوير اتارنى جائز نہيں، اور نہ ہى ذى روح كى تصاوير باقى ركھنا جائز ہيں، صرف ضرروت والى مثلا شناختى كارڈ يا پاسپورٹ والى تصوير اتروانى اور اسے ركھنا جائز ہے، كيونكہ اس كى ضرورت ہے.

ليكن ٹى وي ايك ايسا آلہ ہے جسے فى نفسہ كوئى حكم حاصل نہيں، ليكن اس كے استعمال كے اعتبار سے حكم ہو، اس ليے اگر تو يہ حرام يعنى گانے اور گندى فلميں اور ڈرامے ديكھنے، اور پرفتن تصاوير ديكھنے، اور جھوٹ و بہتنا الحاد اور حقيقت كو توڑ موڑ كر بيان كرنے اور فتن و فساد كو ابھارنے والے پروگرام ديكھنے كے استعمال ہو تو يہ حرام ہے.

اور اگراسے خير و بھلائى مثلا قرآن مجيد كى تلاوت اور حق بيان كرنے اور امر بالمعروف و النہى عن المنكر جيسے پروگرام ديكھنے ميں استعمال كيا جائے تو يہ جائز ہے.

اور اگر اسے دونوں قسم كے پروگراموں كے ليے استعمال كيا جائے تو پھر اسے حرام كا حكم ہى ديا جائيگا، چاہے دونوں چيزيں برابر ہوں، يا پھر برائى والى جانب غالب ہو" انتہى.


ديكھيں: فتاوى اللجنۃ الدائمۃ للبحوث العلميۃ والافتاء ( 1 / 458 ).

حاصل يہ ہوا كہ: ويڈيو يا موبائل سے تصوير لے كر اسے كمپيوٹر وغيرہ دوسرے آلات ميں داخل كرنا حرام تصوير كے حكم ميں نہيں آتا.

سوم:

اور ويڈيو يا كمپيوٹر يا موبائل ميں موجود تصاوير كو ديكھنے كے بارہ ميں گزارش يہ ہے كہ: اگر يہ تصاوير حرام پر مشتمل نہ ہوں تو انہيں ديكھنے ميں كوئى حرج نہيں، حرام كى مثال يہ ہے كہ: مرد غير محرم عورتوں كى تصويريں ديكھيں، يا پھر عورت كا عورتوں كى ايسى تصاوير ديكھنا جو پرفتن اعضاء ننگے كيے ہوں، يا پھر ان تقريبات اور محفلوں كى تصاوير ديكھنا جس ميں مرد و عورت كا اختلاط ہو، اور فتنہ پھيلے، كيونكہ اسے ديكھنا حرام ہے، اور اسى طرح جب ويڈيو ميں موسيقى اور گانا بجانا شامل ہو تو بھى ديكھنا حرام ہے.


شيخ ابن جبرين حفظہ اللہ كہتے ہيں:

" ٹى وى يا ويڈيو كے ذريعہ تصوير ديكھنا بھى برائى ميں شامل ہے، ان پرفتن تصاوير كو ديكھنا اور اسے ديكھ راحت محسوس كرنا بھى برائى ہے، وہ تصاوير ويڈيو اور ٹى وى وغيرہ كے ذريعہ فلموں ميں دكھائى جاتى ہيں، جن ميں بےپردہ عورتيں پيش كى جاتى ہيں، اور خاص كر وہ فلميں جو دوسرے ممالك سے پيش كى جاتى ہيں، اور جسے آج كل ڈش كہا جاتا ہے كے ذريعہ براہ راست پيش كيا جا رہا ہے اللہ كى قسم يہ فتنہ ہے.

ايسا فتنہ كہ جو بھى ان تصاوير كو ديكھتا ہے خطرہ ہے كہ اس فاحشہ اور زانى كى تصوير اس كے دل ميں گھر كر جائے، يا پھر اس كى آنكھوں كے سامنے سكرين پر جو فحش كام ہو رہا ہے ديكھنے والا اس تك پہنچنے كا طريقہ ڈھونڈتا پھرے، اور اپنى شہوت پورى كرے بغير كوئى چارہ نہ ہو اور وہ خواہشات ميں پڑ جائے، جو فحش كام ميں پڑنے كا سبب اور باعث بنے.

تو جب وہ يہ تصاوير ديكھ رہا ہے اس وقت اس كے ساتھ ايمان نہيں رہتا چاہے وہ تصوير ہاتھ سے بنى ہوں يا پھر اخبارات اور ميگزين ميں چھپى ہوئى ہوں، يا پھر براہ راست ڈش پر دكھائى جا رہى ہو، يا پھر فلموں وغيرہ ميں پيش كى جا رہى ہوں.

يہ گناہ و معاصى اور حرام كام بہت زيادہ پھيل چكے ہيں، اور اس كى كثرت ہو چكى ہے، اور يہى نہيں بلكہ يہ دوسرے فحش كام كى بھى دعوت ديتا ہے، جب عورت ان غير محرم مردوں كو ديكھتى ہے تو پھر اس كا دل فحاشى كى طرف مائل ہونے لگےگا.

اور جب عورت ان بےپرد اور فاحشہ عورتوں كئى قسم كے فتنہ و فساد ميں پڑى ہوئى عورتوں كو ديكھے گى تو خطرہ ہے كہ دوسرى عورتيں اس كى نقل كرتے ہوئے وہ بھى ايسا كرينگى، تو يہ عورت خيال كريگے كى وہ ان عورتوں سے زيادہ عقلمند ہے، اور اس سے طاقت و قوت ميں بہتر ہے، تو يہ اس كے حياء كا پردہ اتارنے كا باعث بن جائے اور اپنا چہرہ ننگا كر بيٹھے، اور اپنى زيبائش و زينت اجنبى اور غير محرم مردوں كے سامنے ظاہر كرنے لگے، اور فتنہ و خرابى كا باعث بن جائے، اس سے بڑھ كر اور كيا فتنہ ہو گا " انتہى


ماخوذ از: شيخ ابن جبرين كى ويب سائٹ.

شيخ نے جو كچھ ٹى وى كے بارہ ميں كہا ہے ويڈيو كے بارہ ميں بھى وہى كہا جائيگا.


واللہ اعلم .

الاسلام سوال و جواب

http://islamqa.info/ur/101257
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,585
ری ایکشن اسکور
6,763
پوائنٹ
1,207
دورِجدید میں 'ڈیجیٹل سسٹم' کے نام سے ایک نیانظام متعارف ہواہے۔ یہ نظام اپنی فنی تکنیک میں سابقہ تصویر ی نظام سے قدرے مختلف ہے،کیونکہ پرانے نظام میں پہلے کیمرے کے ذریعے کسی منظرکاعکس لے کرریل پر محفوظ کیاجاتاتھااورپھراسے کیمیائی عمل سے گذاراجاتا اور پھر کسی پردے یاکاغذوغیرہ پرتصویر کوحاصل کیا جاتاتھا۔ جب کہ اس نئے نظام میں کسی منظرکی روشنیوں کو ہندسوں کی صورت میں محفوظ کرلیاجاتاہے اورپھراس محفوظ شدہ معلومات کی مدد سے نئی روشنیاں پیداکرکے اصل جیسامنظرپیداکیاجاتاہے ۔

قدیم اور جدید نظام کا فرق
کوئی بھی کیمرہ ہو، خواہ ڈیجیٹل ہو یا نان ڈیجیٹل؛ تصویرکشی کرتے وقت پہلے مرحلے میں شبیہ حاصل کی جاتی ہے، جب کہ دوسرے مرحلے میں محفوظ کی جاتی ہے اورتیسرے مرحلے میں اسکرین یاپردے پرظاہرکی جاتی ہے ۔گویا حصولِ شبیہ ،حفظ ِشبیہ اور اظہارِ شبیہ ان تین مراحل سے گذر کر تصویر مکمل ہو تی ہے۔

ڈیجیٹل کیمرہ ہویاروایتی کیمرہ، شبیہ حاصل ہونے کابنیادی سائنسی اُصول آج بھی وہی ہے جواوّلین کیمرے کی ایجاد کے وقت تھا،اس میں سرمو فرق نہیں آیا۔ البتہ وقت گذرنے کے ساتھ ساتھ طریقۂ حفاظت میں یہ تبدیلی آئی ہے کہ پرانے طریقہ تصویر سازی میں عکس لے کر اسے فیتے پرنقش کرکے محفوظ کیاجاتاتھا،جب کہ ڈیجیٹل سسٹم میں کیمرے میں داخل ہونے والی روشنیوں کاعلم اعداد کی صورت میں محفوظ کرلیاجاتاہے اورپھرجس طرح کی روشنیوں کو بصورتِ اعداد محفوظ کرلیا گیا ہو، اسی طرح کی نئی روشنیاں پیداکی جاتی ہیں۔ یہ روشنیاں جب اسکرین پر جمع ہو تی ہیں تو ان کے اجتماع سے اسکرین پرتصویرنظر آتی ہے ۔

اب تک جوکچھ بیان ہوا،اس کاخلاصہ یہ ہے کہ ڈیجیٹل تکنیک کے ذریعے پہلے ہندسوں کی صورت میں ڈیٹا (معلومات) محفوظ کیا جاتا ہے اورپھران معلومات کی مددسے اصل کے مشابہ شکل وجود میں لائی جاتی ہے ۔

حکم:
ہماری تحقیق کے مطابق ڈیجیٹل ٹیکنالوجی کے تحت بنائے گئے مناظرکو 'تصاویر' کہاجائے گا،جس کی وجوہات درج ذیل ہیں :
شریعت کا منشا جاندار کی شبیہ محفوظ کرنے سے روکنا ہے، یہی 'مناط' اور علت ہے۔کیونکہ طویل انسانی تاریخ بتلاتی ہے کہ یہی چیز فتنے کا باعث بنتی ہے۔ ڈیجیٹل سسٹم میں بھی شبیہ کو محفوظ کرنے کی قباحت پائی جاتی ہے۔

تصویر سازی کی روح اصل کی نقل و حکایت اور اصل جیسا منظر پیش کرنا ہے، انسانی تاریخ میں اس مقصد کے حصول کے لئے مختلف طریقے استعمال کئے گئے، ان طریقوں میں سے ڈیجیٹل سسٹم اب تک کی سب سے ترقی یافتہ اور اعلیٰ شکل ہے۔ گو یا نظام نے ترقی کی ہے، آلات کی شکلیں بدلی ہیں ، طریقہ کار مختلف ہو اہے، لیکن بنیادی حقیقت اور مرکزی نقطہ اب بھی و ہی ہے کہ اصل کی مانند منظر پیش کیا جائے ۔

نئے اور پرانے نظام میں فرق صرف طریقۂ حفاظت کا ہے، تصویر سازی کی روح اور حقیقت دونوں میں مشترک ہے۔ جب پرانے نظام کے تحت بنائے گئے مناظر کو اکابر نے تصویر قرار دیا تو جدید نظام کے تحت بنائے گئے مناظر کو بھی 'تصویر' کہا جائے گا، کیونکہ جب حقیقت میں دونوں مشترک ہیں تو حکم میں بھی دونوں کومشترک ہو نا چاہیے۔

ڈیجیٹل مناظرکے پس پشت بھی تصویرسازی کے جذبات اورمحرکات ہیں اورنتائج ومقاصد کے حصول میں بھی ڈیجیٹل نظام پرانے طریقہ کار کے برابرہے بلکہ اس سے کہیں بڑھ کرہے۔ اس لئے دونوں نظاموں کے تحت بنائے گئے مناظر کو تصویر کہا جائے گا۔

عرف ایک دلیل شرعی ہے، کیونکہ اجماعِ عملی کی ایک قسم ہے۔ عام لوگ اپنی بول چال میں کمپیوٹر،ٹی وی اورموبائل پر ظاہر ہونے والی شکلوں کو تصویرکہتے اور سمجھتے ہیں۔شریعت نے عرفِ متفاہم کو حجت قراردیا ہے، اس لئے عام عرف کو دیکھتے ہوئے یہ مناظر بھی 'تصویر' کہلائیں گے ۔یہ ایک بدیہی حقیقت ہے اور اس کاانکاربداہت کاانکارہے !

عرف کی طرف رجوع کی ضرورت اس بنا پر ہے کہ جاندارکی تصویرکی حرمت تو ہے، مگرتصویر ہے کیا؟... شریعت نے تصویرکی کوئی نپی تلی تعریف نہیں کی ہے ۔ایسے اُمورجن کی شریعت نے تحدید و تعیین نہ کی ہو،ان میں عرف کو دیکھاجاتاہے اورعرف میں ٹی وی؍ مانیٹروغیرہ پر ظاہر ہونے والی شبیہ کو 'تصویر' ہی کہا جاتا ہے اور عوام و خواص دونوں ہی اسے تصویرہی سمجھتے ہیں۔

کتب ِلغت کے مطالعہ سے پتہ چلتاہے کہ تصویرکی حقیقت اصل کے مشابہ ہیئت اورشبیہ بناناہے ۔تصویر کی یہ حقیقت جدید ڈیجیٹل سسٹم میں بدرجہ اتم پائی جاتی ہے کہ تصویر پر حقیقت کا اور نقل پر اصل کا گمان ہو تا ہے۔

اس دلیل کا حاصل یہ ہے کہ لغت کی رو سے ڈیجیٹل تصویر، تصویر ہی ہے۔ اگر کسی صاحب علم کو اسے لغت کی رو سے تصویر کہنے میں تامل ہو تو کوئی حرج نہیں، ہمارا استدلال پھر بھی قائم رہتا ہے ۔پہلے گذر چکا کہ عرف میں ٹی وی، مانیٹر اور موبائل پر ظاہر ہونے والی شکلوں کو تصویر سمجھا جاتا ہے اور جب لغت اور عرف میں ٹکرائو ہو تو پلہ عرف کا بھاری رہتا ہے ۔عرف کو لغت پر فوقیت حاصل ہے ۔ اُصولِ فقہ کے علما نے تو یہ بھی صراحت کی ہے کہ قیاس کے ذریعے تو لغت کا اثبات جائز نہیں، مگر عرف کے ذریعے جائز ہے۔ اس لئے ہم کہہ سکتے ہیں کہ از روے لغت بھی ڈیجیٹل طریقے کے مطابق بنایا گیا منظر' تصویر' ہے ۔

امریکہ میں ایک شخص پر اس بنا پر فردِ جرم عائد کی گئی کہ اس نے بچوں کی کچھ فحش ڈیجیٹل تصاویرمحفو ظ کر رکھی تھیں ،اورکچھ کو بذریعہ کمپیوٹر نشرکر دیا تھا۔ ملز م نے ا علیٰ عدالت میں اپیل کی اور یہ عذر پیش کیا کہ ایسی تصاویرقانون کی رو سے ممنوع تصاویر نہیں، لیکن عدالت ِاپیل نے اس کا یہ موقف مسترد کیا اور اپنے فیصلے میں 'کمپیوٹر تصاویر' کو تصویرہی قرار دیا۔

٭ علاوہ ازیں اسکرین پر جو صورت نمودار ہو تی ہے وہ یاتو عکس ہے یا تصویر ہے،لیکن اسے عکس کہنا درست نہیں کیونکہ:
الف) عکس صاحب ِ عکس کے تابع ہو تا ہے۔جب کہ ڈیجیٹل تصویر ایک مرتبہ بننے کے بعد اصل کے تابع نہیں رہتی، یہی وجہ ہے کہ جو لوگ مر کھپ گئے ہیں، ان کی تصویر یں دیکھنا آج بھی ممکن ہے ۔جب کہ عکس صاحب ِ عکس کے ہٹتے ہی غائب ہو جاتا ہے۔

ب)عکس کی حقیقت یہ ہے کہ کسی چیز پر جو روشنی پڑتی ہے، وہی روشنی اپنی حالت کو برقرار رکھتے ہوئے ہماری آنکھوں تک پہنچتی ہے۔ جب کہ ڈیجیٹل سسٹم کے تحت تصویر سازی کرتے وقت روشنیوں کو برقی لہروں میں بدل دیا جاتا ہے، یہ لہریں رموز کی صورت میں پوشیدہ رہتی ہیں اور جب منظر کے اِظہار کا وقت آتا ہے تو انہی رموز کی مدد سے کم و بیش قوت کی نئی برقی لہریں پیدا کی جاتی ہیں اور اصل منظر کے مشابہ منظر وجود میں لایاجاتاہے۔

اس تجزیئے سے واضح ہوا کہ ڈیجیٹل سسٹم کے تحت جو روشنی ہماری آنکھوں تک پہنچتی ہے، وہ روشنی اصل منظر پر پڑ کر منعکس ہونے والی روشنی نہیں ہو تی اور نہ ہی وہ روشنی اپنی حالت پر برقرار رہتی ہے۔اس لئے ڈیجیٹل سسٹم کے تحت بنائے گئے مناظر میں اور عکس میں فنی وجوہ سے فرق ہے، ایسے مناظر کو عکس کہنا درست نہیں۔

ج) جس طرح کی تصویر سازی جس زمانے میں رائج تھی، فقہا نے اسی کے مطابق تصویر کی تعریف کی ہے۔فقہا کی تعریفات کا قدرِ مشترک یہی ہے کہ اصل منظر جیسی شبیہ بنانا تاکہ اصل کا تصور حاصل ہو جائے۔ لہٰذا اس مقصد کو حاصل کرنے کے لئے جو بھی طریقہ کاراختیار کیا جائے گا یا جو بھی آلات استعمال کئے جائیں گے، اس سے حکم شرعی میںکوئی فرق نہیں پڑے گا،کیونکہ آلات اور ذرائع غیر مقصود ہوتے ہیں۔

٭ کمپیوٹر پہلے پہل صرف حساب و کتاب کے لئے ڈیزائن کیا گیاتھا، خود کمپیوٹر کا مطلب بھی حساب کتاب یا گننا و شمار کرنا ہے ۔یہی وجہ ہے کہ کا فی عرصے تک کمپیوٹر کا ماحول تحریر Text رہا یعنی ہم کمپیوٹر پر صرف اَعداد و حروف ہی دیکھ سکتے تھے ۔مگر جب سے Windows کے پروگرام آئے ہیں، کمپیوٹر، آواز اور تصویر کی رنگ برنگی دنیا میں پہنچ گیا ہے ۔

سوال یہ ہے کہ کمپیوٹر پر تحریر ہو یا تصویر، دونوں روشنی کے چھوٹے چھوٹے نکات کا مجموعہ ہیں ۔ او ر دونوں کی پائیداری اورنا پائیداری یکساں ہے تو پھر کیا وجہ ہے کہ کمپیوٹر اور موبائل پر لکھی جانی والی تحریر تو تحریر ہے، مگر ٹی وی اور موبائل پربنائی جانے والی تصویر، تصویر نہیں!

ایک شخص اپنی بیوی کو بذریعہ'ایس ایم ایس' یا 'ای میل' طلاق بھیجتا ہے تو کوئی بھی فقیہ اس کی تحریر کو پانی یا ہوا پر لکھی جانے والی تحریر قرار دیکر غیر مؤثر نہیں کہتا ۔

اس مثال سے یہ نقطہ بھی خوب واضح ہوگیا کہ جس طرح پرانے زمانے میں کتابت کے لئے کاغذ، لکڑی،چمڑا، اور ہڈی وغیرہ ٹھوس اشیا استعمال ہو تی تھیں اور آج کمپیوٹر اور موبائل پر بھی تحریر لکھی جاتی ہے، اسی طرح زمانۂ قدیم میں کاغذ، دیوار یا کپڑے وغیر ہ ٹھوس اشیا پر تصویر بنائی جاتی تھی اور آج ڈیجیٹل ٹیکنالوجی کے تحت ٹی وی اور موبائل پر بھی بنائی جاتی ہے۔

جدید طریقہ تصویر سازی کا حکم
 

یوسف ثانی

فعال رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
ستمبر 26، 2011
پیغامات
2,767
ری ایکشن اسکور
5,410
پوائنٹ
562
تو یوسف ثانی بھائی اس کا مطلب جہاں سے چلے تھے پھر وہاں ہی آپہنچے کہ کیا فوٹو گرافی جسے عکس یا قدرتی عکس یا ہو بہو عکس خواہ کسی بھی طرح حاصل ہو کہا جا رہا ہے اس کا حکم بھی تصویر سازی کے ضمن میں ہو گا یا نہیں اور اگر نہیں تو اس کی کیا دلیل ہے؟
فیض بھائی !اگر آپ غور کریں تو آپ کے سوال ہی میں جواب بھی موجود ہے ۔ ”تصویر سازی“ کا مطلب ہے، تصویر بنانا، تصویر تخلیق کرنا، تصویر کو عدم سے وجود میں لانا وغیرہ وغیرہ۔ کیا یہ سب کچھ فوٹو گرافی کے عمل میں پایا جاتا ہے ؟ ہر گز نہیں۔ یہ سب کچھ ”مصوری یا پینٹنگ“ میں تو ہوتا ہے، فوٹو گرافی میں نہیں۔
 
Top