• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

ایک حدیث کے متعلق اہل حدیث حضرات سے ایک سوال

تلمیذ

مشہور رکن
شمولیت
ستمبر 12، 2011
پیغامات
765
ری ایکشن اسکور
1,506
پوائنٹ
191
اس کو سمجھنے کے لیے آپ کو استثنائی صورت کو سمجھنا ہوگا ۔
اسی استثنائی صورت کی دلیل مانگی ہے
مکرر عرض ہے کہ نماز کے متعلق نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا حکم ہے
صَلُّوا کَمَا رَاَیْتُمُونِی أُصَلِّیْ
( البخاری )
تم اس طرح نماز پڑھو، جس طرح مجھے پڑھتے دیکھتے ہو۔
اسی حدیث کی وجہ اہل حدیث علماء مرد و خواتیں کی نماز میں فرق کے مخالف ہیں ، کچھ جگہوں پر جو استثناء ہے مثلا مردوں اور عورتوں کی صف کی ترتیب وغیرہ تو وہ حدیث سے ثابت ہیں باقی آپ حضرات کہتے ہیں جس طرح مرد سجدہ کرے عورت بھی کرے کیوں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا تم اس طرح نماز پڑھو، جس طرح مجھے پڑھتے دیکھتے ہو۔، جس طرح قیام میں مرد ہاتھ باندھے عورت بھی باندھے کیوں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا تم اس طرح نماز پڑھو، جس طرح مجھے پڑھتے دیکھتے ہو۔ و علی ھذا القییاس ، لیکن جب امامت کی بات آتی ہے تو نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے مردوں ، بچوں و خواتین کی امامت کی تو عورت کو اس اجازت نہیں دی جاتی بلکہ اس کو صرف عورتوں کی امامت اجازت دی جاتی ہے ، یہاں پر جو استثنائی صورت ہے اس کی دلیل کیا ہے ، واضح صرف قرآن و حدیث سے پیش کریں ، ائمہ و مجتھدین کے اقوال تو آپ کے نذدیک حجت نہیں ، اس کو پیش کرنے سے گریز کریں
 

تلمیذ

مشہور رکن
شمولیت
ستمبر 12، 2011
پیغامات
765
ری ایکشن اسکور
1,506
پوائنٹ
191
نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ’’ تم اس طرح نماز پڑھو، جس طرح مجھے پڑھتے دیکھتے ہو‘، مطلب یہ ہے میرے بھائی کہ جس طرح نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے نماز پڑھی ہے، کیسے تکبیر کہی؟ کیسے رفع الیدین کیا؟ ہاتھ کہاں اور کیسے باندھے ؟ کیسے رکوع کیا؟ کیسے سجود کیے۔ وغیرہ وغیرہ۔ تم بھی سیم اسی طرح نماز پڑھو، جیسے میں نے پڑھی ہے۔
طریقہ نماز جو مردوں کاہے۔ وہی عورتوں کا ہے۔ کیونکہ دلائل صحیحہ سے بھی یہی ثابت ہوتا ہے کہ جیسی مرد کی نماز یعنی جس طریقہ پر مرد نماز پڑھے۔ اسی طریقہ پر عورت بھی نماز پڑھے۔۔۔ اور ہمارے علماء بھی اس لیے کہتے ہیں کیونکہ شریعت اسلامیہ سے اسی طرح ہی ثابت ہے
لیکن جب امامت کی بات آتی ہے تو آپ حضرات عورت و مرد کی امامت میں فرق کرتے ہیں اور عورت کی مردوں کی امامت کو جائز قرار نہیں دیتے ، اگر عورت اور مرد کی نماز میں کوئی فرق نہیں تو امامت میں کہاں سے فرق آگيا ،

محترم تلمیذ صاحب آپ نے جو اوپر حدیث کوٹ کی، وہ کچھ اور بتلا رہی ہے۔ اور آپ کی یہ بات اور ہے۔ برائے مہربانی کم از کم وجہ جاننے کےلیے یہ تو دیکھ لیتے کہ حدیث اور وجہ کی مناسبت بھی ہے کہ نہیں ؟
جناب ایک مسئلہ ہے عورت کا طریقہ نماز کیسا ہونا چاہیے؟ دوسرا مسئلہ ہے کہ عورت امامت کروا سکتی ہے یا نہیں ؟ اگر کرواسکتی ہے تو کس کی ؟ مردوں کی یا عورتوں کی ؟ اگر کروائے گی تو کہاں کھڑی ہوگی ؟ آگے یا صف کے وسط میں ؟
آپ دونوں مسئلوں کو خلط ملط کررہے ہیں۔ حدیث طریقہ کی پیش کررہے ہیں۔ اور مسئلہ امامت کا چھیڑ رہے ہیں۔
نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا تم اس طرح نماز پڑھو، جس طرح مجھے پڑھتے دیکھتے ہو۔
جیسے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے تکبیر کہی امتی بھی ویسے ہی تکبیر کہے گا ، جیسے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے رکوع کیا امتی بھی ویسے ہی رکوع کرے گا ، لیکن جب بات امامت کی آتی ہے تو آپ حضرات کے ہاں سے جو جواب آرہا ہے اس کا مطلب ہے کہ یہ حدیث امامت کو شامل نہیں ، تو جس طرح نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے امامت کی تو امتی ویسے امامت نہیں کرے گا ، انا للہ و انا الیہ راجعون

اور پھر مزے کی بات یہ ہے کہ یہی مسلک آپ کا بھی ہے۔
، بقول آپ کے ہم حضرات تو اپنے ائمہ کی تقلید کرتے ہیں اور آپ حضرات قرآن وحدیث پر عمل کرتے ہیں تو کیا آپ نے بھی تقلید شروع کردی ہے جو ہمارا موقف اپنا لیا
 

شاکر

تکنیکی ناظم
رکن انتظامیہ
شمولیت
جنوری 08، 2011
پیغامات
6,595
ری ایکشن اسکور
21,397
پوائنٹ
891
لیکن جب امامت کی بات آتی ہے تو آپ حضرات عورت و مرد کی امامت میں فرق کرتے ہیں اور عورت کی مردوں کی امامت کو جائز قرار نہیں دیتے ، اگر عورت اور مرد کی نماز میں کوئی فرق نہیں تو امامت میں کہاں سے فرق آگيا ،
تلمیذ بھائی،
آپ کی پہلی پوسٹ سے آپ کی بات درست طور پر سمجھ نہیں آئی تھی۔ اب آپ کے جوابات سے اندازہ ہو گیا کہ آپ خود ذہنی طور پر الجھے ہوئے ہیں۔ طریقہ نماز میں امامت ہم داخل ہی نہیں سمجھتے کہ استثناء کی ضرورت پیش آئے۔ جیسے صف کی ترتیب کا تعلق آداب نماز سے ہو سکتا ہے، اذان نماز کے لئے لوازمات یا واجبات میں سے کہلائی جا سکتی ہے۔ لیکن اگر کوئی صفوں کی ترتیب کو "طریقہ نماز" میں داخل سمجھ کر خواتین کے لئے استثناء کا حدیث سے مطالبہ کرے تو غلط ہے۔ یا اذان کو " طریقہ نماز" میں داخل کرے اور پھر عورتوں کا مردوں سے استثناء کا حدیث سے ثبوت مانگے تو غلط ہے۔

لہٰذا نوٹ کیجئے کہ اہلحدیث صحیح بخاری کی اس حدیث کی بنا پر مردوں اور خواتین کے "طریقہ نماز" میں فرق کو نادرست قرار دیتے ہیں۔ نا کہ نماز سے متعلق تمام لوازمات بشمول لباس، افضل صف، اذان، مکبر، امامت وغیرہ کے مسائل میں بھی خواتین اور مردوں میں تفریق کے قائل ہیں۔

بعینہٖ یہی معاملہ امامت کا بھی ہے۔ امام یا مقتدی ہونا، امامت یا مقتدی کے وظائف ، "طریقہ نماز" میں داخل ہی نہیں کہ استثناء کی ضرورت پڑے۔ آپ کو ویسے دلائل درکار ہوں کہ خواتین مردوں کی امامت کیوں نہیں کر سکتیں تو حاضر کئے جا سکتے ہیں۔ لیکن صحیح بخاری کی جس حدیث کی بنیاد پر آپ اس ذہنی الجھن کا شکار ہیں، وہ طریقہ نماز یا نماز کی ادائیگی سے متعلق ہے، اس کے باہر کی چیزیں اس میں شامل نہیں۔ اور طریقہ نماز تکبیر تحریمہ سے سلام تک کا عمل ہے۔ اس میں آپ کو خواتین کے استثناء کی کوئی دلیل ملے یا اہلحدیث کے عمل میں خواتین و مردوں کا کچھ فرق نظر آئے تو بیان کیجئے۔
 

گڈمسلم

سینئر رکن
شمولیت
مارچ 10، 2011
پیغامات
1,407
ری ایکشن اسکور
4,912
پوائنٹ
292
لیکن جب امامت کی بات آتی ہے تو آپ حضرات عورت و مرد کی امامت میں فرق کرتے ہیں اور عورت کی مردوں کی امامت کو جائز قرار نہیں دیتے ، اگر عورت اور مرد کی نماز میں کوئی فرق نہیں تو امامت میں کہاں سے فرق آگيا ،
بھائی دلیل پہلی ہی پوسٹ میں ذکر کردی گئی تھی۔ دوبارہ ریوائز بھی کردیتا ہوں۔

1۔ سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا گھر کی خواتین کو ان کے درمیان کھڑے ہو کر فرض نماز کی امامت کرواتی تھیں۔ (عبد الرزاق (۵۰۸۶)، بیھقی (۳/۱۳۱، ح : ۵۳۵۵)، آثار السنن (۵۱۴)، ابن أبی شیبۃ (۲/۸۹) ظفر احمد تھانوی نے اعلاء السنن (۴/۲۴۳) میں اس کی سند کو صحیح اور حسن قرار دیا ہے۔

2۔ ام سلمہ رضی اللہ عنہا نے صف کے درمیان میں کھڑے ہو کر عصر کی نماز عورتوں کو پڑھائی تھی۔ (عبدالرزاق (۵۰۸۲)، الأوسط لابن المنذر (۴/۲۲۷) ابن أبی شیبۃ (۲/۸۸)، بیھقی (۳/۱۳۱، ح : ۵۳۵۷)

اب آپ کے پاس اس کے مخالف کوئی دلیل ہے، تو ذکر کریں۔ ورنہ اسی کو ہی تسلیم کریں۔اور پھر جب اس مسئلہ میں آپ بھی ہمارےساتھ متفق ہیں۔ تو میرے خیال میں مزید رولا ڈالنے کی ضرورت ہی نہیں ہے۔


کیا عورت اِمامت کروا سکتی ہے؟
کیا حافظہ عورت عورتوں کی امامت کرواسکتی ہے؟
 
شمولیت
اگست 11، 2013
پیغامات
17,117
ری ایکشن اسکور
6,800
پوائنٹ
1,069
پہلے سوال کو سمجھیں
آپ حضرات جو عورتوں کو مردوں کی امامت سے روکتے ہیں اس کی کیا دلیل ہے ۔ میں یہ نہیں پوچھا اگر عورت عورتوں کی امامت کرے تو کہاں کھڑی ہو



ایک طرف تو کہتے ہیں ہم صرف اپنے امام محمد رسول اللہ صلی علیہ وسلم کے علاوہ کسی امام کی بات نہیں مانتے اور جب کسی موضوع پر بخث کی جائے تو ائمہ کے اقوال آنا شروع ہوجاتے ہیں

بھائی خیانت نہ کیا کریں کٹ کریں تو پوری بات کریں دلیل اس پوسٹ میں موجود ہیں تقلید کی پٹی اتارے نظر آ جائے گی -

اس كى دليل عائشہ اور ام سلمہ رضى اللہ تعالى عنہما كى حديث ہے:
" وہ دونوں جب امامت كرواتيں تو ان كى صف ميں كھڑى ہوتيں "

يہ صحابيہ كا فعل ہے، جب اس كى مخالفت ميں كوئى نص نہيں تو صحيح يہى ہے كہ يہ حجب ہے، اور عورت ايك عورت كے ساتھ ہو تو وہ ايك مرد كے ساتھ كھڑا ہونے كى طرح ہى عورت كے پہلو ميں كھڑى ہو گى "
ديكھيں: الشرح الممتع لابن عثيمين ( 4 / 387 ).



واللہ اعلم .
 

حافظ عمران الہی

سینئر رکن
شمولیت
اکتوبر 09، 2013
پیغامات
2,100
ری ایکشن اسکور
1,460
پوائنٹ
344

آپ حضرات جو عورتوں کو مردوں کی امامت سے روکتے ہیں اس کی کیا دلیل ہے ۔
عَنِ الثَّوْرِيِّ، عَنِ الْأَعْمَشِ، عَنْ إِبْرَاهِيمَ، عَنْ أَبِي مَعْمَرٍ، عَنِ ابْنِ مَسْعُودٍ قَالَ: كَانَ الرِّجَالُ وَالنِّسَاءُ فِي بَنِي إِسْرَائِيلَ يُصَلُّونَ جَمِيعًا، فَكَانَتِ الْمَرْأَةُ لَهَا الْخَلِيلُ تَلْبَسُ الْقَالَبَيْنِ تَطَوَّلُ بِهِمَا لِخَلِيلِهَا، فَأُلْقِيَ عَلَيْهِنَّ الْحَيْضُ، فَكَانَ ابْنُ مَسْعُودٍ يَقُولُ: «أَخِّرُوهُنَّ حَيْثُ أَخَّرَهُنَّ اللَّهُ»، فَقُلْنَا لِأَبِي بَكْرٍ: مَا الْقَالَبَيْنِ؟ قَالَ: «رَفِيصَيْنِ مِنْ خَشَبٍ»
قَالَ أَبُو بَكْرٍ: الْخَبَرُ مَوْقُوفٌ غَيْرُ مُسْنَدٍ


[التعليق] 1700 - قال الألباني: إسناده صحيح موقوف ويبدو أن في المتن سقط
 

حافظ عمران الہی

سینئر رکن
شمولیت
اکتوبر 09، 2013
پیغامات
2,100
ری ایکشن اسکور
1,460
پوائنٹ
344
آپ حضرات جو عورتوں کو مردوں کی امامت سے روکتے ہیں اس کی کیا دلیل ہے
نا عَبْدُ الْجَبَّارِ بْنُ الْعَلَاءِ، حَدَّثَنَا سُفْيَانُ، ثنا الْأَعْمَشُ، عَنْ عُمَارَةَ وَهُوَ ابْنُ عُمَيْرٍ، عَنْ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ يَزِيدَ، أَنَّ عَبْدَ اللَّهِ بْنَ مَسْعُودٍ، كَانَ إِذَا رَأَى النِّسَاءَ قَالَ: أَخِّرُوهُنَّ حَيْثُ جَعَلَهُنَّ اللَّهُ، وَقَالَ: إِنَّهُنَّ مَعَ بَنِي إِسْرَائِيلَ يَصْفُفْنَ مَعَ الرِّجَالِ، كَانَتِ الْمَرْأَةُ تَلْبَسُ الْقَالِبَ فَتَطَالُ لِخَلِيلِهَا، فَسُلِّطَتْ عَلَيْهِنَّ الْحَيْضَةُ، وَحُرِّمَتْ عَلَيْهِنَّ الْمَسَاجِدُ. وَكَانَ عَبْدُ اللَّهِ إِذَا رَآهُنَّ قَالَ: أَخِّرُوهُنَّ حَيْثُ جَعَلَهُنَّ اللَّهُ. قَالَ أَبُو بَكْرٍ: الْخَبَرُ مَوْقُوفٌ غَيْرُ مُسْنَدٍ
[التعليق] 1700 - قال الألباني: إسناده صحيح موقوف ويبدو أن في المتن سقطا
 

حافظ عمران الہی

سینئر رکن
شمولیت
اکتوبر 09، 2013
پیغامات
2,100
ری ایکشن اسکور
1,460
پوائنٹ
344

وَلِذَا قَالَ ابْنُ الْهُمَامِ عِنْدَ قَوْلِ صَاحِبِ الْهِدَايَةِ، وَلَنَا الْحَدِيثُ الْمَشْهُورُ لَا يَثْبُتُ رَفْعُهُ، فَضْلًا عَنْ شُهْرَتِهِ، وَالصَّحِيحُ أَنَّهُ مَوْقُوفٌ عَلَى ابْنِ مَسْعُودٍ، لَكِنَّهُ فِي حُكْمِ الْمَرْفُوعِ.
 

تلمیذ

مشہور رکن
شمولیت
ستمبر 12، 2011
پیغامات
765
ری ایکشن اسکور
1,506
پوائنٹ
191
تلمیذ بھائی،
آپ کی پہلی پوسٹ سے آپ کی بات درست طور پر سمجھ نہیں آئی تھی۔ اب آپ کے جوابات سے اندازہ ہو گیا کہ آپ خود ذہنی طور پر الجھے ہوئے ہیں۔ طریقہ نماز میں امامت ہم داخل ہی نہیں سمجھتے کہ استثناء کی ضرورت پیش آئے۔ جیسے صف کی ترتیب کا تعلق آداب نماز سے ہو سکتا ہے، اذان نماز کے لئے لوازمات یا واجبات میں سے کہلائی جا سکتی ہے۔ لیکن اگر کوئی صفوں کی ترتیب کو "طریقہ نماز" میں داخل سمجھ کر خواتین کے لئے استثناء کا حدیث سے مطالبہ کرے تو غلط ہے۔ یا اذان کو " طریقہ نماز" میں داخل کرے اور پھر عورتوں کا مردوں سے استثناء کا حدیث سے ثبوت مانگے تو غلط ہے۔
اہل حدیث سے جب نماز کی جزئی تفصیل کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ اس کو حدیث سے ثابت کرو تو اس وقت وہ مقتدی ، امام اور منفرد کا فرق بھول جاتے ہیں ۔ جب اہل حدیث سے سوال کیا جاتا ہے کہ ثابت کرو منفرد کو ثناء آہستہ پڑھنی چاہئيے تو جو حدیث پیش کی جاتی اس میں نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے بطور امام ثناء آہستہ پڑھی ، پوچھا جائے یہ تو امام کا فعل ہے منفرد کا فعل ثابت کرو تو بخاری کی مذکورہ حدیث پیش کی جاتی ہے اور کہا جاتا ہے کہ اس حدیث کی روشنی میں مقتدی ، امام اور منفرد کا ایک ہی وظیفہ ہے ۔ آج میں جب یہی سوال امام کے حوالہ سے پوچھا تو جواب ملا یہ حدیث امامت کے لئيے نہیں

لہٰذا نوٹ کیجئے کہ اہلحدیث صحیح بخاری کی اس حدیث کی بنا پر مردوں اور خواتین کے "طریقہ نماز" میں فرق کو نادرست قرار دیتے ہیں۔ نا کہ نماز سے متعلق تمام لوازمات بشمول لباس، افضل صف، اذان، مکبر، امامت وغیرہ کے مسائل میں بھی خواتین اور مردوں میں تفریق کے قائل ہیں۔
بعینہٖ یہی معاملہ امامت کا بھی ہے۔ امام یا مقتدی ہونا، امامت یا مقتدی کے وظائف ، "طریقہ نماز" میں داخل ہی نہیں کہ استثناء کی ضرورت پڑے۔ آپ کو ویسے دلائل درکار ہوں کہ خواتین مردوں کی امامت کیوں نہیں کر سکتیں تو حاضر کئے جا سکتے ہیں۔ لیکن صحیح بخاری کی جس حدیث کی بنیاد پر آپ اس ذہنی الجھن کا شکار ہیں، وہ طریقہ نماز یا نماز کی ادائیگی سے متعلق ہے، اس کے باہر کی چیزیں اس میں شامل نہیں۔ اور طریقہ نماز تکبیر تحریمہ سے سلام تک کا عمل ہے۔ اس میں آپ کو خواتین کے استثناء کی کوئی دلیل ملے یا اہلحدیث کے عمل میں خواتین و مردوں کا کچھ فرق نظر آئے تو بیان کیجئے۔
جب نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کہ رہے ہیں جس طرح میں نماز پڑھوں تم بھی اسی طرح پڑھو تو ہم احادیث کی روشنی میں دیکھتے ہیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے جو نماز بطور امام پڑھی اس میں انہوں نے مرد ، بچوں و خواتین کی امامت کی تو آخر یہ حدیث امامت کو احاطہ کیوں نہیں کر رہی ، واضح دلیل چاہئيے کہیں یہ آپ کا ذاتی اجتھاد تو نہیں
 

تلمیذ

مشہور رکن
شمولیت
ستمبر 12، 2011
پیغامات
765
ری ایکشن اسکور
1,506
پوائنٹ
191
بھائی خیانت نہ کیا کریں کٹ کریں تو پوری بات کریں دلیل اس پوسٹ میں موجود ہیں تقلید کی پٹی اتارے نظر آ جائے گی -

اس كى دليل عائشہ اور ام سلمہ رضى اللہ تعالى عنہما كى حديث ہے:
" وہ دونوں جب امامت كرواتيں تو ان كى صف ميں كھڑى ہوتيں "
يہ صحابيہ كا فعل ہے، جب اس كى مخالفت ميں كوئى نص نہيں تو صحيح يہى ہے كہ يہ حجب ہے، اور عورت ايك عورت كے ساتھ ہو تو وہ ايك مرد كے ساتھ كھڑا ہونے كى طرح ہى عورت كے پہلو ميں كھڑى ہو گى "
ديكھيں: الشرح الممتع لابن عثيمين ( 4 / 387 ).
واللہ اعلم .
اگر اللہ تبارک و تعالی نے سوچنے ، سمجھنے کی صلاحیت سے متصف نہیں کیا تو خوامخواہ بیچ میں کودنے سے پرھیز کیا کریں
میرا سوال یہ تھا
نماز کے متعلق نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا حکم ہے

صَلُّوا کَمَا رَاَیْتُمُونِی أُصَلِّیْ
( البخاری )
تم اس طرح نماز پڑھو، جس طرح مجھے پڑھتے دیکھتے ہو۔
اسی حدیث کی وجہ اہل حدیث علماء مرد و خواتیں کی نماز میں فرق کے مخالف ہیں ، کچھ جگہوں پر جو استثناء ہے مثلا مردوں اور عورتوں کی صف کی ترتیب وغیرہ تو وہ حدیث سے ثابت ہیں باقی آپ حضرات کہتے ہیں جس طرح مرد سجدہ کرے عورت بھی کرے کیوں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا تم اس طرح نماز پڑھو، جس طرح مجھے پڑھتے دیکھتے ہو۔، جس طرح قیام میں مرد ہاتھ باندھے عورت بھی باندھے کیوں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا تم اس طرح نماز پڑھو، جس طرح مجھے پڑھتے دیکھتے ہو۔ و علی ھذا القییاس ، لیکن جب امامت کی بات آتی ہے تو نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے مردوں ، بچوں و خواتین کی امامت کی تو عورت کو اس اجازت نہیں دی جاتی بلکہ اس کو صرف عورتوں کی امامت اجازت دی جاتی ہے ، یہاں پر جو استثنائی صورت ہے اس کی دلیل کیا ہے ، واضح صرف قرآن و حدیث سے پیش کریں

آپ نے جو روایت پیش کی اس میں عورت کا خواتین کی امامت کرنے کی دلیل ہے ، اس میں اس بات کی کوئي دلیل نہیں عورت مردوں کی امامت نہیں کرسکتی
اگر عدم ذکر ممانعت کی دلیل ہے تو یہ اصول آپ نے کہاں سے اخذ کیا ذرا تفصیل سے سمجھائیے گا
 
Top