• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

ایک روایت " یا محمدٌ کی تحقیق

عدیل سلفی

مشہور رکن
شمولیت
اپریل 21، 2014
پیغامات
1,718
ری ایکشن اسکور
426
پوائنٹ
197
عدیل سلفی صاحب یہ لو اور جا کر پڑھ لو...

https://www.islamimehfil.com//topic/25131-فقہ-حنفی-میں-وسیلہ-کا-رد-اعتراض/?do=embed


Sent from my GT-I9505 using Tapatalk
لنک بھی بریلویوں کی طرح فارغ ہے ۔۔۔۔
1.png


عمرو بن عبد الله السبيعي الكوفي مشهور بالتدليس وهو تابعي ثقة وصفه النسائي وغيره بذلك
وہ تدلیس میں مشہور ہے اور ثقہ تابعی ہے امام نسائی رحمتہ اللہ وغیرہ نے اسے مدلس کہا ہے

عنوان الكتاب: تعريف أهل التقديس بمراتب الموصوفين بالتدليس
المؤلف: أحمد بن علي بن حجر العسقلاني أبو الفضل شهاب الدين
المحقق: عاصم بن عبد الله القريوتي
حالة الفهرسة: غير مفهرس
الناشر: مكتبة المنار - الأردن


أفسد حديث أهل الكوفة الأعمش وأبو إسحاق يعني للتدليس
اعمش اور ابو اسحاق نے تدلیس کی بنا پر اہل کوفہ کی روایات کو نقصان پہنچایا ہے۔
عنوان الكتاب: تهذيب التهذيب (ط. الهند)
المؤلف: أحمد بن علي بن حجر العسقلاني أبو الفضل شهاب الدين
حالة الفهرسة: غير مفهرس
الناشر: دارئة المعارف النظامية - الهند


إنما أفسد حديث أهل الكوفة أبو إسحاق، والأعمش
عنوان الكتاب: ميزان الاعتدال فى نقد الرجال (ت: البجاوي)
المؤلف: محمد بن أحمد بن عثمان بن قايماز الذهبي شمس الدين أبو عبد الله
المحقق: علي محمد البجاوي
حالة الفهرسة: غير مفهرس


وکذلک حدیث شعبۃ عن ابی اسحاق محمول علی السماع۔
ترجمہ: اور اسی طرح شعبہ کی حدیث ابو اسحاق سے سماع پر محمول ہوگی۔
( فتح المبین علی تحقیق طبقات المدلسین صفحہ#110)
ان تمام دلائل سے ثابت ہوا کہ اس حدیث کو امام ابو اسحاق نے اپنے شیخ سے سماع کی ہے لہذااس میں تدلیس کا شبہ باطل ثابت ہو گیا۔(الحمدللہ)

علامہ ماردینی حنفی لکھے ہیں:
ان ابا اسحاق قال فيه حدثنى عبد الرحمن فزال بذلك تهمة تدليسه
ابو اسحاق نے یہاں حدثنى عبد الرحمن کہا ہے پس اس سے یہاں تدلیس کا الزام مرتفع ہوگیا۔
الجوهر النقي

(احناف) دیوبند کے علامہ حبیب الرحمن اعظمی لکھتے ہیں:
قال البوصيري اسناده حسن قلت فيه ابو اسحاق السبيعي وهو مدلس ولم يصرح بالسماع
علامہ بوصیری نے اس حدیث کی سند کو حسن کہا ہے مگر میں کہتا ہوں کہ اس میں ابو اسحاق مدلس ہے اور اس نے سماع کی صراحت نہیں کی۔
تعليق علي المطالب العاليه ص 333 ج 4
 

عدیل سلفی

مشہور رکن
شمولیت
اپریل 21، 2014
پیغامات
1,718
ری ایکشن اسکور
426
پوائنٹ
197
اضطراب ملاحظہ ہو:

غیر مقلد زبیر زئی نے امام یحیی بن سعید القطان کی اس بات کی سند کو صحیح قرار دےدیا۔(فتح المبین علی تحقیق طبقات المدلسین صفحہ#224)
امام شعبہ بن الحجاج خود فرماتے ہیں:
كل شئ حدثتكم به فذلك الرجل حدثني به أنه سمعه من فلان إلا شيئا أبينه لكم
ترجمہ: ہر ایسی (حدیث کی تمام) شئ جو میں نے تم سے بیان کی ہو کسی مرد سے تو وہ مرد ہے جس نے مجھے بیان کیا ہے کہ اس نے فلاں سے سنا ہے۔
الجرح التعدیل لابی حاتم (1/173)
غیر مقلد زبیر زئی نے امام شعبہ بن الحجاج کی اس بات کی سند کو صحیح قرار دےدیا۔(فتح المبین علی تحقیق طبقات المدلسین صفحہ#224)
خود گستاخ المحدثین والفقہاء نام نہاد اہل حدیث وہابی زبیر زئی اوپر دی گئی دلیل کو لکھ کر کہتا ہے۔
قلت : فیہ دلیل علی ان حدیث شعبۃ عن المدلسین محمول علی السماع۔
ترجمہ: میں (یعنی غالی وہابی زبیر زئی) کہتا ہوں اس میں اس بات پر دلیل ہے کہ امام شعبہ کی حدیث مدلسین سے وہ محمول علی السماع ہوتی ہیں۔( فتح المبین علی تحقیق طبقات المدلسین صفحہ#224)
اور گستاخ المحدثین والفقہاء نام نہاد اہل حدیث وہابی زبیر زئی امام شعبہ کی امام ابو اسحاق سے عن والی روایت کے بارے میں لکھتا ہے۔
وکذلک حدیث شعبۃ عن ابی اسحاق محمول علی السماع۔
ترجمہ: اور اسی طرح شعبہ کی حدیث ابو اسحاق سے سماع پر محمول ہوگی۔
( فتح المبین علی تحقیق طبقات المدلسین صفحہ#110)
ان تمام دلائل سے ثابت ہوا کہ اس حدیث کو امام ابو اسحاق نے اپنے شیخ سے سماع کی ہے لہذااس میں تدلیس کا شبہ باطل ثابت ہو گیا۔(الحمدللہ)
ایک طرف وہابی پر اعتماد نہیں اور دوسری طرف حجت بھی ہیں (سبحان اللہ)

اور الحمد للہ کا ورد بھی کر رہے ہیں :)

(نوٹ: تیسیر اصول حدیث کے نام سے تیسیر مصطلح الحدیث کا ترجمہ وہابی ابو عمار عمر فاروق سعیدی نے کیا ہے۔اور یہ سعیدی سنی نہیں ہے لہذا خیال سے اس کی کتابوں کو خریدہ کریں )
 
Last edited:
شمولیت
جون 06، 2017
پیغامات
240
ری ایکشن اسکور
27
پوائنٹ
40
بہنا! سفیان ثوریؒ کی روایت بھی جب تک مدلس ثابت نہیں ہو جائے وہ فسویؒ کے قول کے مطابق حجت بنتی ہے۔ ویسے بھی سفیان دوسرے طبقے کے مدلس ہیں جو صرف ثقہ سے ہی تدلیس کرتے ہیں۔
آپ اس کے علاوہ کوئی دلیل ہے تو پیش فرمائیے۔
السلام علیکم ورحمة الله وبركاته
Zahabi-And-SUfiyan-_03B-768x829.jpg
Ibn-Habban-_04B-768x752.jpg
Zahabi-And-SUfiyan-_03B-768x829.jpg
Ibn-Habban-_04B-768x752.jpg
Zahabi-And-SUfiyan-_03B-768x829.jpg Ibn-Habban-_04B-768x752.jpg

بھائی جی، امام سفیان ثوری رحمه الله کے بارے تو علم حدیث جاننے والے چھوٹے طالبعلم بھی جانتے ہونگے کہ وہ ضعفاء اور مجھولین سے تدلیس کرنے میں مشھور سے بھی مشھور ہیں۔
 
شمولیت
جون 06، 2017
پیغامات
240
ری ایکشن اسکور
27
پوائنٹ
40
الس
جناب والا اگر تھوڑی سی محنت کر لیتے اور میری دی ہوئی تحقیق غور سے پڑھ لیتے تو شائد یہ سوال بہ کرتے...
ایک بار پھر دیکھ لے اوپر جا کر
السلام علیکم ورحمة الله وبرکاته...
جی آپ کی تحقیق سے متعلق ہی اوپر اعتراضات نقل کیئے ہیں۔ جن کا جواب دینے کے بجائے آپ پھر سے "اپنی" تحقیق کو پڑھنے کا مشورہ دے رہے ہیں۔

ویسے اک بات تو بتائیں۔ مقلدین نے بھی تحقیق کرنی شروع کردی ہوئی ہے؟ ماشاء الله۔ اھلحدیثوں کے آس پاس رہیں گے تو ان شاء الله تقلید چھوڑ کر محقق متبع ہی بنیں گے۔ بشرطیکہ غیر جانبدار ہوکر تحقیق کی جائے تو۔
لیکن عرض یہ ھے کہ ، آپ کی تحقیق ، پہلے سے بنائے ہوئے مذھب (حنفیہ) کو سچ ثابت کرنے کے لیئے ہے۔
بحرحال۔ بجائے اپنی تحقیق کو بار بار پڑھوانے کے ، جو اشکالات آپ کی تحقیق پر پیش کیئے گئے ہیں اُن کو رفع کرنے کی کوشش کریں۔
 

اشماریہ

سینئر رکن
شمولیت
دسمبر 15، 2013
پیغامات
2,684
ری ایکشن اسکور
751
پوائنٹ
290
السلام علیکم ورحمة الله وبركاته19800 اٹیچمنٹ کو ملاحظہ فرمائیں 19801 اٹیچمنٹ کو ملاحظہ فرمائیں 19800 اٹیچمنٹ کو ملاحظہ فرمائیں 19801 اٹیچمنٹ کو ملاحظہ فرمائیں 19800 اٹیچمنٹ کو ملاحظہ فرمائیں 19801 اٹیچمنٹ کو ملاحظہ فرمائیں

بھائی جی، امام سفیان ثوری رحمه الله کے بارے تو علم حدیث جاننے والے چھوٹے طالبعلم بھی جانتے ہونگے کہ وہ ضعفاء اور مجھولین سے تدلیس کرنے میں مشھور سے بھی مشھور ہیں۔
جزاک اللہ بہن جی۔ چھوٹے طالب علم تو یقیناً یہ جانتے ہوں گے۔ بہر حال۔۔۔ ہم تو ان سے بھی چھوٹے طالب علم ہیں۔
اس بارے میں کچھ مزید گزارشات ہیں۔
پہلی بات یہ کہ سفیان ثوریؒ کی تدلیس بہت ہی کم ہے۔ اس لیے امام ترمذیؒ امام بخاریؒ سے نقل فرماتے ہیں:
وقال البخاري، فيما حكاه عنه الترمذي في علله: لا أعرف لسفيان، يعني الثوري، عن حبيب بن أبي ثابت، ولا عن سلمة بن كهيل، ولا عن منصور، وذكر شيوخاً كثيرة، لا أعرف لسفيان عن هؤلاء تدليساً، ما أقل تدليسه.
(العلل الکبیر)
"میں ان سے سفیان کی تدلیس نہیں جانتا۔ کتنی کم تدلیس ہے ان کی!"
ظاہر ہے یہ تعریف کے الفاظ ہیں۔

دوسری بات اس کم تدلیس میں بھی سفیان ثوریؒ یہ ملکہ رکھتے تھے کہ وہ صحیح حدیث کو روایت کریں اگرچہ اس کا آخری راوی یعنی سفیان کے شیخ ضعیف ہوں۔ چنانچہ علامہ ذہبیؒ فرماتے ہیں:
سفيان بن سعيد الحجة الثبت، متفق عليه، مع أنه كان يدلس عن الضعفاء، ولكن له نقد وذوق، ولا عبرة لقول من قال: يدلس ويكتب عن الكذابين.
(میزان الاعتدال)
"سفیان بن سعید حجت ثبت ہیں، ان پر اتفاق ہے باوجود اس بات کے کہ یہ ضعفاء سے تدلیس کرتے تھے۔ لیکن ان میں پرکھنے کی صلاحیت اور (حدیث کا) ذوق تھا۔ اور اس شخص کی بات کا کوئی اعتبار نہیں ہے جس نے یہ کہا ہے: یہ تدلیس کرتے تھے اور جھوٹوں سے لکھ لیا کرتے تھے۔"
اس آخری جملے کا پچھلی بات سے تعلق نہیں ہے جیسا کہ امیر صنعانیؒ سے تسامح ہوا ہے بلکہ یہ مستقل طور پر کسی قائل کی بات کو رد کیا ہے۔ باقی ضعفاء سے ان کی تدلیس کے بارے میں ذہبیؒ نے ان کا دفاع کیا ہے۔اسی طرح تنقیح الانظار میں محمد بن ابراہیم الوزیرؒ نے بھی ان کا دفاع کیا ہے۔
غالباً یہی وجہ ہے کہ حافظ ابن حجرؒ نے انہیں دوسرے مرتبے میں ذکر کیا ہے جن کی روایات مقبول ہوتی ہیں۔

لیکن میں در اصل یہ عرض کر رہا تھا کہ علم جرح و تعدیل کا قاعدہ یہ ہے کہ جرح مبہم پر تعدیل مفسر کو ترجیح حاصل ہوتی ہے۔ کسی پر مطلقاً تدلیس کا الزام جرح مبہم ہے اور اس کے مقابلے میں فسویؒ کا قول کہ" ان کی روایت قبول کی جائے گی جب تک تدلیس والی ثابت نہ ہو" تعدیل مفسر ہے۔ اس بنیادی اصول کے مطابق تو ان کی اور ابو اسحاق سبیعیؒ کی روایات مقبول ہونی چاہئیں۔
ان گزارشات پر توجہ کی درخواست ہے۔
 

اشماریہ

سینئر رکن
شمولیت
دسمبر 15، 2013
پیغامات
2,684
ری ایکشن اسکور
751
پوائنٹ
290
حَدَّثَنَا عَفَّانُ , حَدَّثَنَا شُعْبَةُ , عَنْ أَبِي إِسْحَاقَ , عَمَّنْ سَمِعَ ابْنَ عُمَرَ , قَالَ: خَدِرَتْ رِجْلُهُ , فَقِيلَ: اذْكُرْ أَحَبَّ النَّاسِ , قَالَ: يَا مُحَمَّدُ
ایک اور بات بھی برائے توجہ و غور ہے:
یہ جو روایت ہے جسے شعبہؒ نے ابو اسحاق سبیعی سے روایت کیا ہے، یہ تدلیس سے پاک ہے شعبہ کی وجہ سے۔ یہ تو ٹھیک ہے کہ اس میں ابو اسحاق سبیعیؒ کے استاد کا نام مذکور نہیں ہے لیکن اس میں ایک اور چیز مذکور ہے۔ وہ یہ کہ ابو اسحاق سبیعی کے جو بھی استاد ہیں انہوں نے حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہ سے ڈائریکٹ سنا ہے۔ یہاں یہ طے نہیں ہے کہ ابو اسحاق کے استاد کا نام شعبہ نے نہیں لیا یا انہوں نے خود نہیں لیا۔ لیکن ان کی سماعت کا ذکر موجود ہے۔ لہذا اس کا اطلاق ہر اس استاد پر ہوگا جو ابو اسحاق کے براہ راست استاد ہوں اور ان کا ابن عمر رضی اللہ عنہ سے سماع بھی ہو۔
اب اگر کسی دوسری سند میں ایسے کوئی استاد آ جاتے ہیں تو اس بات کو ترجیح ہونی چاہیے کہ ابو اسحاق اور ان استاد کے درمیان اور کوئی ضعیف چھپا ہوا نہیں ہے۔ مثال کے طور پر:
حدثنا أبو نعيم ، قال : حدثنا سفيان ، عن أبي إسحاق ، عن عبد الرحمن بن سعد , قال : خدرت رجل ابن عمر ، فقال له رجل : اذكر أحب الناس إليك ، فقال " يا محمد".
اس طریق میں ابو اسحاق کے استاد عبد الرحمان بن سعد ہیں جنہوں نے ابن عمر رضی اللہ عنہ سے سنا ہے۔ شعبہ نے تو پہلے ہی وضاحت کی ہوئی ہے کہ ابو اسحاق کی اس روایت میں ان کے اور ابن عمر رضی اللہ عنہ کے درمیان صرف ایک واسطہ ہے اور سفیان کی یہ روایت صرف وہ واسطہ بتا رہی ہے۔
اصل میں تدلیس کی وجہ سے روایت کو قبول نہ کرنا ایک "احتمال" کی بنیاد پر ہوتا ہے کہ "ممکن ہے" اس راوی نے بیچ میں سے ایک ضعیف واسطے کو حذف کر رکھا ہو۔ لیکن جب اس احتمال کی مخالف سمت کو ترجیح مل جائے کہ بیچ سے واسطہ غائب نہیں ہے تو یہ روایت قوی ہو جانی چاہیے۔
 

خضر حیات

علمی نگران
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 14، 2011
پیغامات
8,773
ری ایکشن اسکور
8,472
پوائنٹ
964
اس روایت کو وسیلہ کی دلیل بنانے پر ’ وہابیوں ‘ کی طرف سے تین اعتراض ہیں ، دو تحقیقی اور ایک الزامی ۔
1۔ سند ضعیف ہے، ابو اسحاق السبیعی مدلس اور مختلط ہیں ۔
2۔ اس روایت میں وسیلہ کا کہیں ذکر ہی نہیں ، کیونکہ پاؤں کی موچ وغیرہ کا یہ علاج عرب کے ہاں مجرب تھا ، کہ اپنے کسی بھی محبوب شخص کو پکارتے تھے ، اور خون کی گردش رواں ہوجاتی تھی ، جاہلی اشعار میں اس کی بکثرت مثالیں موجود ہیں ۔
3۔ الزامی اعتراض یہ ہے کہ یہ روایت صحیح بھی ہو ، تو خبر واحد ہے ، اور اس روایت کو وسیلہ کی دلیل بنانے والوں کےہاں یہ قاعدہ ہے کہ عقائد میں خبر واحد حجت نہیں ہوتی ۔
احمد رضا بریلوی صاحب کے فتاوی رضویہ میں لکھا ہوا ہے :
(حدیث سے ثبوت ہونے میں مطالب تین قسم ہیں)جن باتوں کا ثبوت حدیث سے پایا جائے وہ سب ایک پلّہ کی نہیں ہوتیں بعض تو اس اعلٰی درجہ قوت پر ہوتی ہیں کہ جب تک حدیث مشہور، متواتر نہ ہو اُس کا ثبوت نہیں دے سکتے احاد اگرچہ کیسے ہی قوت ِسند ونہایت ِصحت پر ہوں اُن کے معاملہ میں کام نہیں دیتیں۔(عقائد میں حدیث احاد اگرچہ صحیح ہو کافی نہیں)یہ اصول عقائد اسلامیہ ہیں جن میں خاص یقین درکار، علّامہ تفتازانی رحمہ اللہ تعالٰی شرح عقائد نسفی میں فرماتے ہیں:خبر الواحد علی تقدیر اشتمالہ علٰی جمیع الشرائط المذکورۃ فی اصول الفقہ لایفید الا الظن ولاعبرۃ بالظن فی باب الاعتقادات حدیث احاد اگرچہ تمام شرائط صحت کی جامع ہو ظن ہی کا فائدہ دیتی ہے اور معاملہ اعتقادمیں ظنیات کاکچھ اعتبار نہیں۔
مولاناعلی قاری منح الروض الازہر میں فرماتے ہیں: الاحاد لاتفید الاعتماد فی الاعتقاد (احادیث احاد دربارہ اعتقاد ناقابلِ اعتماد)۔ ( فتاوى رضویہ ج 5 ص 477 ، 478 ط رضا فاؤنڈیشن لاہور ، پاکستان)

اس بریلوی حوالے اور اس کے ضمن میں دیگر احناف کے حوالہ جات سے یہ ثابت ہوا کہ ان کے عقائد کے باب میں اعلی درجہ[1] کی خبر واحد بھی کوئی کام نہیں دے سکتی ۔
اوپر جتنی بھی تحریریں میری نظر سے گزری ہیں ، ان میں صرف پہلے اعتراض ( اس میں بھی اختلاط کا جواب شاید کہیں مذکور نہیں ) جواب دیا گیا ہے ، جبکہ باقی دو باتوں کی طرف سرے سے توجہ ہی نہیں کی گئی ۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔​
[1] اس اعلی درجہ کی وضاحت ایک اور جگہ پر فتاوی رضویہ میں موجود ہے ایگ جگہ ایک مسئلہ کی چند صور بیان کرنے کے بعد لکھتے ہیں : ‘‘یہ سب کا سب باب عقاید سے ہے جس میں ضعاف درکنار بخاری ومسلم کی صحیح حدیثیں بھی مردود ہیں جب تک متواتر وقطعی الدلالۃ نہ ہوں ’’ ( فتاوی رضویہ ج 5 ص 576 )
 

arslanmasoom2

رکن
شمولیت
ستمبر 24، 2017
پیغامات
56
ری ایکشن اسکور
3
پوائنٹ
30
اس روایت کو وسیلہ کی دلیل بنانے پر ’ وہابیوں ‘ کی طرف سے تین اعتراض ہیں ، دو تحقیقی اور ایک الزامی ۔
1۔ سند ضعیف ہے، ابو اسحاق السبیعی مدلس اور مختلط ہیں ۔
2۔ اس روایت میں وسیلہ کا کہیں ذکر ہی نہیں ، کیونکہ پاؤں کی موچ وغیرہ کا یہ علاج عرب کے ہاں مجرب تھا ، کہ اپنے کسی بھی محبوب شخص کو پکارتے تھے ، اور خون کی گردش رواں ہوجاتی تھی ، جاہلی اشعار میں اس کی بکثرت مثالیں موجود ہیں ۔

#جناب یہ آپ کا اعتراض ہے؟؟؟
جناب یہ تو مانئے کی یا کاصیغہ لگانا صرف زندہ کے لئے نہیں آپ وہابیوں کا دعوہ ہے کی یا کے ساتھ صرف زندہ کو پکارو اور صرف یا اللہ کہو... یارسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نہ کہو... اعتراض تو اصل یہ لکھنا تھا جناب نے پتہ نہیں بھول ہو گی ہو آپ سے. .

3۔ الزامی اعتراض یہ ہے کہ یہ روایت صحیح بھی ہو ، تو خبر واحد ہے ، اور اس روایت کو وسیلہ کی دلیل بنانے والوں کےہاں یہ قاعدہ ہے کہ عقائد میں خبر واحد حجت نہیں ہوتی ۔
احمد رضا بریلوی صاحب کے فتاوی رضویہ میں لکھا ہوا ہے :
(حدیث سے ثبوت ہونے میں مطالب تین قسم ہیں)جن باتوں کا ثبوت حدیث سے پایا جائے وہ سب ایک پلّہ کی نہیں ہوتیں بعض تو اس اعلٰی درجہ قوت پر ہوتی ہیں کہ جب تک حدیث مشہور، متواتر نہ ہو اُس کا ثبوت نہیں دے سکتے احاد اگرچہ کیسے ہی قوت ِسند ونہایت ِصحت پر ہوں اُن کے معاملہ میں کام نہیں دیتیں۔(عقائد میں حدیث احاد اگرچہ صحیح ہو کافی نہیں)یہ اصول عقائد اسلامیہ ہیں جن میں خاص یقین درکار، علّامہ تفتازانی رحمہ اللہ تعالٰی شرح عقائد نسفی میں فرماتے ہیں:خبر الواحد علی تقدیر اشتمالہ علٰی جمیع الشرائط المذکورۃ فی اصول الفقہ لایفید الا الظن ولاعبرۃ بالظن فی باب الاعتقادات حدیث احاد اگرچہ تمام شرائط صحت کی جامع ہو ظن ہی کا فائدہ دیتی ہے اور معاملہ اعتقادمیں ظنیات کاکچھ اعتبار نہیں۔
مولاناعلی قاری منح الروض الازہر میں فرماتے ہیں: الاحاد لاتفید الاعتماد فی الاعتقاد (احادیث احاد دربارہ اعتقاد ناقابلِ اعتماد)۔ ( فتاوى رضویہ ج 5 ص 477 ، 478 ط رضا فاؤنڈیشن لاہور ، پاکستان)

اس بریلوی حوالے اور اس کے ضمن میں دیگر احناف کے حوالہ جات سے یہ ثابت ہوا کہ ان کے عقائد کے باب میں اعلی درجہ[1] کی خبر واحد بھی کوئی کام نہیں دے سکتی ۔
اوپر جتنی بھی تحریریں میری نظر سے گزری ہیں ، ان میں صرف پہلے اعتراض ( اس میں بھی اختلاط کا جواب شاید کہیں مذکور نہیں ) جواب دیا گیا ہے ، جبکہ باقی دو باتوں کی طرف سرے سے توجہ ہی نہیں کی گئی ۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔​
[1] اس اعلی درجہ کی وضاحت ایک اور جگہ پر فتاوی رضویہ میں موجود ہے ایگ جگہ ایک مسئلہ کی چند صور بیان کرنے کے بعد لکھتے ہیں : ‘‘یہ سب کا سب باب عقاید سے ہے جس میں ضعاف درکنار بخاری ومسلم کی صحیح حدیثیں بھی مردود ہیں جب تک متواتر وقطعی الدلالۃ نہ ہوں ’’ ( فتاوی رضویہ ج 5 ص 576 )
وسیلہ پے بھی بات کر لیں گے جناب ابھی یارسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کہنا تو جائز کیو[emoji3][emoji3][emoji3]

Sent from my GT-I9505 using Tapatalk
 

اشماریہ

سینئر رکن
شمولیت
دسمبر 15، 2013
پیغامات
2,684
ری ایکشن اسکور
751
پوائنٹ
290
اس روایت کو وسیلہ کی دلیل بنانے پر ’ وہابیوں ‘ کی طرف سے تین اعتراض ہیں ، دو تحقیقی اور ایک الزامی ۔
1۔ سند ضعیف ہے، ابو اسحاق السبیعی مدلس اور مختلط ہیں ۔
2۔ اس روایت میں وسیلہ کا کہیں ذکر ہی نہیں ، کیونکہ پاؤں کی موچ وغیرہ کا یہ علاج عرب کے ہاں مجرب تھا ، کہ اپنے کسی بھی محبوب شخص کو پکارتے تھے ، اور خون کی گردش رواں ہوجاتی تھی ، جاہلی اشعار میں اس کی بکثرت مثالیں موجود ہیں ۔
3۔ الزامی اعتراض یہ ہے کہ یہ روایت صحیح بھی ہو ، تو خبر واحد ہے ، اور اس روایت کو وسیلہ کی دلیل بنانے والوں کےہاں یہ قاعدہ ہے کہ عقائد میں خبر واحد حجت نہیں ہوتی ۔
احمد رضا بریلوی صاحب کے فتاوی رضویہ میں لکھا ہوا ہے :
(حدیث سے ثبوت ہونے میں مطالب تین قسم ہیں)جن باتوں کا ثبوت حدیث سے پایا جائے وہ سب ایک پلّہ کی نہیں ہوتیں بعض تو اس اعلٰی درجہ قوت پر ہوتی ہیں کہ جب تک حدیث مشہور، متواتر نہ ہو اُس کا ثبوت نہیں دے سکتے احاد اگرچہ کیسے ہی قوت ِسند ونہایت ِصحت پر ہوں اُن کے معاملہ میں کام نہیں دیتیں۔(عقائد میں حدیث احاد اگرچہ صحیح ہو کافی نہیں)یہ اصول عقائد اسلامیہ ہیں جن میں خاص یقین درکار، علّامہ تفتازانی رحمہ اللہ تعالٰی شرح عقائد نسفی میں فرماتے ہیں:خبر الواحد علی تقدیر اشتمالہ علٰی جمیع الشرائط المذکورۃ فی اصول الفقہ لایفید الا الظن ولاعبرۃ بالظن فی باب الاعتقادات حدیث احاد اگرچہ تمام شرائط صحت کی جامع ہو ظن ہی کا فائدہ دیتی ہے اور معاملہ اعتقادمیں ظنیات کاکچھ اعتبار نہیں۔
مولاناعلی قاری منح الروض الازہر میں فرماتے ہیں: الاحاد لاتفید الاعتماد فی الاعتقاد (احادیث احاد دربارہ اعتقاد ناقابلِ اعتماد)۔ ( فتاوى رضویہ ج 5 ص 477 ، 478 ط رضا فاؤنڈیشن لاہور ، پاکستان)

اس بریلوی حوالے اور اس کے ضمن میں دیگر احناف کے حوالہ جات سے یہ ثابت ہوا کہ ان کے عقائد کے باب میں اعلی درجہ[1] کی خبر واحد بھی کوئی کام نہیں دے سکتی ۔
اوپر جتنی بھی تحریریں میری نظر سے گزری ہیں ، ان میں صرف پہلے اعتراض ( اس میں بھی اختلاط کا جواب شاید کہیں مذکور نہیں ) جواب دیا گیا ہے ، جبکہ باقی دو باتوں کی طرف سرے سے توجہ ہی نہیں کی گئی ۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔​
[1] اس اعلی درجہ کی وضاحت ایک اور جگہ پر فتاوی رضویہ میں موجود ہے ایگ جگہ ایک مسئلہ کی چند صور بیان کرنے کے بعد لکھتے ہیں : ‘‘یہ سب کا سب باب عقاید سے ہے جس میں ضعاف درکنار بخاری ومسلم کی صحیح حدیثیں بھی مردود ہیں جب تک متواتر وقطعی الدلالۃ نہ ہوں ’’ ( فتاوی رضویہ ج 5 ص 576 )
جزاک اللہ خیرا
یہ اس روایت کی درایت اور اس سے استدلال پر جرح ہے اور یہ درست ہے۔ بات یہی ہے۔
اوپر میں نے بات صرف اس روایت کی سند کی کی ہے۔ اگر کوئی روایت مسلک کے خلاف ہو لیکن اس کی سند درست ہو تو سند کو صحیح مانتے ہوئے اس کے مخالف دلائل پیش کرنے چاہئیں۔ ہم لوگوں کا یہ عام دستور بنتا جا رہا ہے کہ ہم سند کے پیچھے لٹھ لے کر پڑ جاتے ہیں۔
بہرحال یہ سند کو صحیح ماننا نہ ماننا خود ایک اجتہادی معاملہ ہے۔ و اللہ اعلم
 
Top