arslanmasoom2
رکن
- شمولیت
- ستمبر 24، 2017
- پیغامات
- 56
- ری ایکشن اسکور
- 3
- پوائنٹ
- 30
عدیل سلفی صاحب یہ لو اور جا کر پڑھ لو...
https://www.islamimehfil.com//topic/25131-فقہ-حنفی-میں-وسیلہ-کا-رد-اعتراض/?do=embed
Sent from my GT-I9505 using Tapatalk
عدیل سلفی صاحب یہ لو اور جا کر پڑھ لو...
لنک بھی بریلویوں کی طرح فارغ ہے ۔۔۔۔عدیل سلفی صاحب یہ لو اور جا کر پڑھ لو...
https://www.islamimehfil.com//topic/25131-فقہ-حنفی-میں-وسیلہ-کا-رد-اعتراض/?do=embed
Sent from my GT-I9505 using Tapatalk
وکذلک حدیث شعبۃ عن ابی اسحاق محمول علی السماع۔
ترجمہ: اور اسی طرح شعبہ کی حدیث ابو اسحاق سے سماع پر محمول ہوگی۔
( فتح المبین علی تحقیق طبقات المدلسین صفحہ#110)
ان تمام دلائل سے ثابت ہوا کہ اس حدیث کو امام ابو اسحاق نے اپنے شیخ سے سماع کی ہے لہذااس میں تدلیس کا شبہ باطل ثابت ہو گیا۔(الحمدللہ)
غیر مقلد زبیر زئی نے امام یحیی بن سعید القطان کی اس بات کی سند کو صحیح قرار دےدیا۔(فتح المبین علی تحقیق طبقات المدلسین صفحہ#224)
امام شعبہ بن الحجاج خود فرماتے ہیں:
كل شئ حدثتكم به فذلك الرجل حدثني به أنه سمعه من فلان إلا شيئا أبينه لكم
ترجمہ: ہر ایسی (حدیث کی تمام) شئ جو میں نے تم سے بیان کی ہو کسی مرد سے تو وہ مرد ہے جس نے مجھے بیان کیا ہے کہ اس نے فلاں سے سنا ہے۔
الجرح التعدیل لابی حاتم (1/173)
غیر مقلد زبیر زئی نے امام شعبہ بن الحجاج کی اس بات کی سند کو صحیح قرار دےدیا۔(فتح المبین علی تحقیق طبقات المدلسین صفحہ#224)
خود گستاخ المحدثین والفقہاء نام نہاد اہل حدیث وہابی زبیر زئی اوپر دی گئی دلیل کو لکھ کر کہتا ہے۔
قلت : فیہ دلیل علی ان حدیث شعبۃ عن المدلسین محمول علی السماع۔
ترجمہ: میں (یعنی غالی وہابی زبیر زئی) کہتا ہوں اس میں اس بات پر دلیل ہے کہ امام شعبہ کی حدیث مدلسین سے وہ محمول علی السماع ہوتی ہیں۔( فتح المبین علی تحقیق طبقات المدلسین صفحہ#224)
ایک طرف وہابی پر اعتماد نہیں اور دوسری طرف حجت بھی ہیں (سبحان اللہ)اور گستاخ المحدثین والفقہاء نام نہاد اہل حدیث وہابی زبیر زئی امام شعبہ کی امام ابو اسحاق سے عن والی روایت کے بارے میں لکھتا ہے۔
وکذلک حدیث شعبۃ عن ابی اسحاق محمول علی السماع۔
ترجمہ: اور اسی طرح شعبہ کی حدیث ابو اسحاق سے سماع پر محمول ہوگی۔
( فتح المبین علی تحقیق طبقات المدلسین صفحہ#110)
ان تمام دلائل سے ثابت ہوا کہ اس حدیث کو امام ابو اسحاق نے اپنے شیخ سے سماع کی ہے لہذااس میں تدلیس کا شبہ باطل ثابت ہو گیا۔(الحمدللہ)
(نوٹ: تیسیر اصول حدیث کے نام سے تیسیر مصطلح الحدیث کا ترجمہ وہابی ابو عمار عمر فاروق سعیدی نے کیا ہے۔اور یہ سعیدی سنی نہیں ہے لہذا خیال سے اس کی کتابوں کو خریدہ کریں )
السلام علیکم ورحمة الله وبركاتهبہنا! سفیان ثوریؒ کی روایت بھی جب تک مدلس ثابت نہیں ہو جائے وہ فسویؒ کے قول کے مطابق حجت بنتی ہے۔ ویسے بھی سفیان دوسرے طبقے کے مدلس ہیں جو صرف ثقہ سے ہی تدلیس کرتے ہیں۔
آپ اس کے علاوہ کوئی دلیل ہے تو پیش فرمائیے۔
السلام علیکم ورحمة الله وبرکاته...جناب والا اگر تھوڑی سی محنت کر لیتے اور میری دی ہوئی تحقیق غور سے پڑھ لیتے تو شائد یہ سوال بہ کرتے...
ایک بار پھر دیکھ لے اوپر جا کر
جزاک اللہ بہن جی۔ چھوٹے طالب علم تو یقیناً یہ جانتے ہوں گے۔ بہر حال۔۔۔ ہم تو ان سے بھی چھوٹے طالب علم ہیں۔السلام علیکم ورحمة الله وبركاته19800 اٹیچمنٹ کو ملاحظہ فرمائیں 19801 اٹیچمنٹ کو ملاحظہ فرمائیں 19800 اٹیچمنٹ کو ملاحظہ فرمائیں 19801 اٹیچمنٹ کو ملاحظہ فرمائیں 19800 اٹیچمنٹ کو ملاحظہ فرمائیں 19801 اٹیچمنٹ کو ملاحظہ فرمائیں
بھائی جی، امام سفیان ثوری رحمه الله کے بارے تو علم حدیث جاننے والے چھوٹے طالبعلم بھی جانتے ہونگے کہ وہ ضعفاء اور مجھولین سے تدلیس کرنے میں مشھور سے بھی مشھور ہیں۔
ایک اور بات بھی برائے توجہ و غور ہے:حَدَّثَنَا عَفَّانُ , حَدَّثَنَا شُعْبَةُ , عَنْ أَبِي إِسْحَاقَ , عَمَّنْ سَمِعَ ابْنَ عُمَرَ , قَالَ: خَدِرَتْ رِجْلُهُ , فَقِيلَ: اذْكُرْ أَحَبَّ النَّاسِ , قَالَ: يَا مُحَمَّدُ
اس طریق میں ابو اسحاق کے استاد عبد الرحمان بن سعد ہیں جنہوں نے ابن عمر رضی اللہ عنہ سے سنا ہے۔ شعبہ نے تو پہلے ہی وضاحت کی ہوئی ہے کہ ابو اسحاق کی اس روایت میں ان کے اور ابن عمر رضی اللہ عنہ کے درمیان صرف ایک واسطہ ہے اور سفیان کی یہ روایت صرف وہ واسطہ بتا رہی ہے۔حدثنا أبو نعيم ، قال : حدثنا سفيان ، عن أبي إسحاق ، عن عبد الرحمن بن سعد , قال : خدرت رجل ابن عمر ، فقال له رجل : اذكر أحب الناس إليك ، فقال " يا محمد".
وسیلہ پے بھی بات کر لیں گے جناب ابھی یارسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کہنا تو جائز کیو[emoji3][emoji3][emoji3]اس روایت کو وسیلہ کی دلیل بنانے پر ’ وہابیوں ‘ کی طرف سے تین اعتراض ہیں ، دو تحقیقی اور ایک الزامی ۔
1۔ سند ضعیف ہے، ابو اسحاق السبیعی مدلس اور مختلط ہیں ۔
2۔ اس روایت میں وسیلہ کا کہیں ذکر ہی نہیں ، کیونکہ پاؤں کی موچ وغیرہ کا یہ علاج عرب کے ہاں مجرب تھا ، کہ اپنے کسی بھی محبوب شخص کو پکارتے تھے ، اور خون کی گردش رواں ہوجاتی تھی ، جاہلی اشعار میں اس کی بکثرت مثالیں موجود ہیں ۔
#جناب یہ آپ کا اعتراض ہے؟؟؟
جناب یہ تو مانئے کی یا کاصیغہ لگانا صرف زندہ کے لئے نہیں آپ وہابیوں کا دعوہ ہے کی یا کے ساتھ صرف زندہ کو پکارو اور صرف یا اللہ کہو... یارسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نہ کہو... اعتراض تو اصل یہ لکھنا تھا جناب نے پتہ نہیں بھول ہو گی ہو آپ سے. .
3۔ الزامی اعتراض یہ ہے کہ یہ روایت صحیح بھی ہو ، تو خبر واحد ہے ، اور اس روایت کو وسیلہ کی دلیل بنانے والوں کےہاں یہ قاعدہ ہے کہ عقائد میں خبر واحد حجت نہیں ہوتی ۔
احمد رضا بریلوی صاحب کے فتاوی رضویہ میں لکھا ہوا ہے :
(حدیث سے ثبوت ہونے میں مطالب تین قسم ہیں)جن باتوں کا ثبوت حدیث سے پایا جائے وہ سب ایک پلّہ کی نہیں ہوتیں بعض تو اس اعلٰی درجہ قوت پر ہوتی ہیں کہ جب تک حدیث مشہور، متواتر نہ ہو اُس کا ثبوت نہیں دے سکتے احاد اگرچہ کیسے ہی قوت ِسند ونہایت ِصحت پر ہوں اُن کے معاملہ میں کام نہیں دیتیں۔(عقائد میں حدیث احاد اگرچہ صحیح ہو کافی نہیں)یہ اصول عقائد اسلامیہ ہیں جن میں خاص یقین درکار، علّامہ تفتازانی رحمہ اللہ تعالٰی شرح عقائد نسفی میں فرماتے ہیں:خبر الواحد علی تقدیر اشتمالہ علٰی جمیع الشرائط المذکورۃ فی اصول الفقہ لایفید الا الظن ولاعبرۃ بالظن فی باب الاعتقادات حدیث احاد اگرچہ تمام شرائط صحت کی جامع ہو ظن ہی کا فائدہ دیتی ہے اور معاملہ اعتقادمیں ظنیات کاکچھ اعتبار نہیں۔
مولاناعلی قاری منح الروض الازہر میں فرماتے ہیں: الاحاد لاتفید الاعتماد فی الاعتقاد (احادیث احاد دربارہ اعتقاد ناقابلِ اعتماد)۔ ( فتاوى رضویہ ج 5 ص 477 ، 478 ط رضا فاؤنڈیشن لاہور ، پاکستان)
اس بریلوی حوالے اور اس کے ضمن میں دیگر احناف کے حوالہ جات سے یہ ثابت ہوا کہ ان کے عقائد کے باب میں اعلی درجہ[1] کی خبر واحد بھی کوئی کام نہیں دے سکتی ۔
اوپر جتنی بھی تحریریں میری نظر سے گزری ہیں ، ان میں صرف پہلے اعتراض ( اس میں بھی اختلاط کا جواب شاید کہیں مذکور نہیں ) جواب دیا گیا ہے ، جبکہ باقی دو باتوں کی طرف سرے سے توجہ ہی نہیں کی گئی ۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔[1] اس اعلی درجہ کی وضاحت ایک اور جگہ پر فتاوی رضویہ میں موجود ہے ایگ جگہ ایک مسئلہ کی چند صور بیان کرنے کے بعد لکھتے ہیں : ‘‘یہ سب کا سب باب عقاید سے ہے جس میں ضعاف درکنار بخاری ومسلم کی صحیح حدیثیں بھی مردود ہیں جب تک متواتر وقطعی الدلالۃ نہ ہوں ’’ ( فتاوی رضویہ ج 5 ص 576 )
جزاک اللہ خیرااس روایت کو وسیلہ کی دلیل بنانے پر ’ وہابیوں ‘ کی طرف سے تین اعتراض ہیں ، دو تحقیقی اور ایک الزامی ۔
1۔ سند ضعیف ہے، ابو اسحاق السبیعی مدلس اور مختلط ہیں ۔
2۔ اس روایت میں وسیلہ کا کہیں ذکر ہی نہیں ، کیونکہ پاؤں کی موچ وغیرہ کا یہ علاج عرب کے ہاں مجرب تھا ، کہ اپنے کسی بھی محبوب شخص کو پکارتے تھے ، اور خون کی گردش رواں ہوجاتی تھی ، جاہلی اشعار میں اس کی بکثرت مثالیں موجود ہیں ۔
3۔ الزامی اعتراض یہ ہے کہ یہ روایت صحیح بھی ہو ، تو خبر واحد ہے ، اور اس روایت کو وسیلہ کی دلیل بنانے والوں کےہاں یہ قاعدہ ہے کہ عقائد میں خبر واحد حجت نہیں ہوتی ۔
احمد رضا بریلوی صاحب کے فتاوی رضویہ میں لکھا ہوا ہے :
(حدیث سے ثبوت ہونے میں مطالب تین قسم ہیں)جن باتوں کا ثبوت حدیث سے پایا جائے وہ سب ایک پلّہ کی نہیں ہوتیں بعض تو اس اعلٰی درجہ قوت پر ہوتی ہیں کہ جب تک حدیث مشہور، متواتر نہ ہو اُس کا ثبوت نہیں دے سکتے احاد اگرچہ کیسے ہی قوت ِسند ونہایت ِصحت پر ہوں اُن کے معاملہ میں کام نہیں دیتیں۔(عقائد میں حدیث احاد اگرچہ صحیح ہو کافی نہیں)یہ اصول عقائد اسلامیہ ہیں جن میں خاص یقین درکار، علّامہ تفتازانی رحمہ اللہ تعالٰی شرح عقائد نسفی میں فرماتے ہیں:خبر الواحد علی تقدیر اشتمالہ علٰی جمیع الشرائط المذکورۃ فی اصول الفقہ لایفید الا الظن ولاعبرۃ بالظن فی باب الاعتقادات حدیث احاد اگرچہ تمام شرائط صحت کی جامع ہو ظن ہی کا فائدہ دیتی ہے اور معاملہ اعتقادمیں ظنیات کاکچھ اعتبار نہیں۔
مولاناعلی قاری منح الروض الازہر میں فرماتے ہیں: الاحاد لاتفید الاعتماد فی الاعتقاد (احادیث احاد دربارہ اعتقاد ناقابلِ اعتماد)۔ ( فتاوى رضویہ ج 5 ص 477 ، 478 ط رضا فاؤنڈیشن لاہور ، پاکستان)
اس بریلوی حوالے اور اس کے ضمن میں دیگر احناف کے حوالہ جات سے یہ ثابت ہوا کہ ان کے عقائد کے باب میں اعلی درجہ[1] کی خبر واحد بھی کوئی کام نہیں دے سکتی ۔
اوپر جتنی بھی تحریریں میری نظر سے گزری ہیں ، ان میں صرف پہلے اعتراض ( اس میں بھی اختلاط کا جواب شاید کہیں مذکور نہیں ) جواب دیا گیا ہے ، جبکہ باقی دو باتوں کی طرف سرے سے توجہ ہی نہیں کی گئی ۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔[1] اس اعلی درجہ کی وضاحت ایک اور جگہ پر فتاوی رضویہ میں موجود ہے ایگ جگہ ایک مسئلہ کی چند صور بیان کرنے کے بعد لکھتے ہیں : ‘‘یہ سب کا سب باب عقاید سے ہے جس میں ضعاف درکنار بخاری ومسلم کی صحیح حدیثیں بھی مردود ہیں جب تک متواتر وقطعی الدلالۃ نہ ہوں ’’ ( فتاوی رضویہ ج 5 ص 576 )