اس سے ثابت ہو گیا کہ اور سند سے مبہم راوی کی شناحت کی جا سکتی ہے اور امام ابو اسحاق نے اپنی دوسری مضبوط سند میں اس مبہم راوی کی نام کی تصریح بھی کردی جس سے یہ حدیث سنی تھی وہ امام بخاری کی ادب المفرد والی سند جو یہ ہے۔
حَدَّثَنَا أَبُو نُعَيْمٍ قَالَ: حَدَّثَنَا سُفْيَانُ، عَنْ أَبِي إِسْحَاقَ، عَنْ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ سَعْدٍ قَالَ: خَدِرَتْ رِجْلُ ابْنِ عُمَرَ، فَقَالَ لَهُ رَجُلٌ: اذْكُرْ أَحَبَّ النَّاسِ إِلَيْكَ، فَقَالَ: يَا مُحَمَّدُ
اس سے ثابت ہو گیا وہ مبہم راوی عبدالرحمن بن سعد ہے اور وہ ثقہ تابعی ہے۔ لہذا اس حدیث میں تمام شک و شبہ کا قلع قمع ہوا لہذا اس کی سند صحیح ثابت ہو گئی(الحمد اللہ)
السلام علیکم ورحمة الله وبركاته
ارسلان بھائی ، وہ مضبوط سند کہاں ہے جہاں سے آپ نے اُس مبھم راوی کو ڈھونڈ نکالا ؟
آپ کی مذکورہ مضبوط سند میں تو امام سفیان ثوری کا عنعنہ بھی موجود ہے ، اور خود ابو اسحاق کا عنعنہ بھی اسی میں موجود ھے،
جبکہ آپ کے امام احمد رضا خان لکھتے ہیں۔
’’اور عنعنہ مدلس جمہور محدثین کے مذہب مختار و معتمد میں مردود و نا مستند ہے۔‘‘ [فتاویٰ رضویہ:ج۵ص۲۴۵]
نیز
عباس رضوی بریلوی لکھتے ہیں:
’’ایک راوی امام اعمش ہیں جو اگرچہ بہت بڑے امام ہیں لیکن مدلس ہیں اور مدلس راوی جب عن سے روایت کرے تو اس کی روایت بالاتفاق مردود ہو گی۔‘‘ [آپ زندہ ہیں واللہ:ص۲۵۱]۔۔
امید ہے آپ اپنے اکابرین کی صراحت کے بعد بات کو سمجھنے کی کوشش کرینگے۔
اور یہ کیسے علم ہوا کہ وہ مبھم راوی
عبد الرحمٰن بن سعد ہی ہیں؟ جبکہ ابو اسحاق (مدلس) نے تین شیخون سے یہ روایت معنعن کر رکھی ہے۔
* عبدالرحمٰن بن سعد
*ھثیم بن حنس
*ابو شعبه
۔ بالفرض کچھ لمحے کے لیئے مان بھی لیا جائے کہ وہ عبد الرحمٰن بن سعد ہی ہیں۔ تو پھر بھی یہاں ابو اسحاق کا وہی عنعنہ موجود ہے۔ اور مدلس کے عنعنے پر احمد رضا خان صاحب اور عباس رضوی کے اقوال آپ کو دکھائے جاچکے ہیں۔۔۔۔۔۔
نیز
امام ابن حبان ؒ نے فرمایا:
’’وہ مدلس راوی جو ثقه عادل ہیں ھم ان کی صرف ان روایات سے حجت پکڑتے ہیں جن میں وہ سماع کی تصریح کریں،
مثلاً سفیان ثوری ، الاعمش اور ابواسحاق وغیرہ جو کہ زبردست ثقہ امام تھے۔‘‘
[صحیح ابن حبان(الاحسان):ج۱ص۹۰]
اصول حدیث کے امام ابن الصلاحؒ فرماتے ہیں:
’’حکم یہ ہے کہ مدلس کی صرف وہی روایت قبول کی جائے جس میں وہ
سماع کی تصریح کرے۔‘‘
[علوم الحدیث للامام ابن الصلاح:ص۹۹]
امام شافعی ؒ فرماتے ہیں:
’’ہم مدلس کی کوئی حدیث اس وقت تک قبول نہیں کریں گے جب تک وہ
حدثنی یا سمعت نہ کہے۔‘‘
[الرسالہ:ص۵۳]
حافظ ابن القطان الفاسی ؒ اعمش کی عن والی روایت کے بارے واضح فرمایا:
’’اور اعمش کی عن والی روایت
انقطاع کا نشانہ ہے کیونکہ وہ
مدلس تھے۔‘‘
[بیان الوہم و الایہام:ج۲ ص۳۵]