محمد عامر یونس
خاص رکن
- شمولیت
- اگست 11، 2013
- پیغامات
- 17,117
- ری ایکشن اسکور
- 6,800
- پوائنٹ
- 1,069
بعض امور کی حیثیت انتطامی ہوتی ہے ۔ مثلا قول رسول صلی اللہ علیہ و سلم کا جاننا تو شرعی دلائل سے ثابت ہے مگر جو مدارس میں حصص مقرر ہیں فلاں سال بخاری کی احادیث پڑھنی ہے اور فلاں سال ترمذی کا یا بخاری کی احادیث کے فلاں فلاں دن اتنے پریڈ ہوں گے تو یہ انتطامی امور میں سے ہے اور ان پریڈ کا مقصد قول رسول صلی اللہ علیہ و سلم کو جاننا ہے جو اصل مقصود و مطلوب ہے ، اگر کوئي اپ حضرات سے پوچھنا شروع کردے کہ فلاں فلاں دن جو تم بخاری پڑھتے ہو تو کتاب و سنت سے اس کو ثابت کرو تو آپ کا جواب کیا ہو گا ۔
اسی طرح ذکر اللہ تو کتاب و سنت سے ثابت ہے لیکن بعض مشايخ نے اپنے مریدین میں اللہ کی طرف توجہ بڑھانے اور ان کے دل کو اللہ کی یاد سے منور کرنے کے لئیے اذکار کی تعداد مقرر کی ہے اور کچھ طریق مقرر کیے ہیں ۔ ان تعداد اور طریق کی حیثیت انتظامی امور کی سی ہے اور اصل مقصد و مطلوب اللہ کی یاد سے دل کو منور کرنا ہے ۔
اگر کسی نے ایک سانس میں دو سو مرتبہ کلمہ ورد کیا بطور انتظامی حیثیت کے تو آپ کیا اعتراض ہے آپ یہ کہیں سے ثابت نہیں کر سکتے کہ علماء نے کبھی ایک سانس میں دو سو مرتبہ کلمہ کے ورد کو سنت کہا ہو !!!
تلمیذ بھائی جواب طویل ہے مگر موزوں سے ہیں :
یہ تو جواب ہے تعداد مقرر کا
1) ایک سانس میں 200 بار لا الہ الا اللہ کہنے کا
2) فضائل اعمال ۔۔ صفحہ نمبر 484 پر ابو قرطوبی فرماتے ہیں ۔۔ "کہ ہم نے سُنا کہ جو شخص ستر ہزار مرتبہ کلمہ طیبہ پڑھ لے اس پر جہنم کی آگ حرام ہو جاتی ہے ۔ وہاں ایک نوجوان رہتا تھا جس کے بارے میں مشہور تھا کہ اسے کشف ہو جاتا ہے اور اس کو جنت اور جہنم کے معاملات کے بارے میں خبر ہوجاتی ہے ایک دن ہمارے پاس کھانا کھاتے ہوئے اس نے رونا شروع کر دیا میں نے ان سے پوچھا کہ کہ کیوں رو رہے ہو تو اس نے کہا کہ میری ماں کو جہنم میں ڈال دیا گیا ہے ابو یزید کہتے ہیں میں نے جو ستر ہزار مرتبہ کلمہ طیبہ پڑھ رکھا تھا اور دل میں محفوظ کر رکھا تھا میں نے اس کی والدہ کے نام کردیا میں نے یہ سب کچھ دل ہی دل میں کیا .اس نوجوان نے مُسکرانا شروع کردیا اور فرمایا پیر صاحب میری والدہ کو جنت میں داخل کیا جا رہا ہے"
اسع بادت ميں كوئى خير نہيں جو نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم اور صحابہ نے نہيں كى
الحمد للہ:
جس غرض و غايت كے ليے ہم سب پيدا كيے گئے ہيں وہ اللہ وحدہ لا شريك كى عبادت ہے، جيسا كہ اللہ سبحانہ و تعالى كا فرمان ہے:
{ اور ميں نے تو جن و انس كو صرف اپنى عبادت كے ليے پيدا كيا ہے }الذاريات ( 56 ).
اللہ تعالى نے ہميں ويسے ہى نہيں چھوڑ ديا كہ ہم ميں سے ہر ايك عبادت كے ليے كوئى خاص طريقہ اختيار كر لے، بلكہ اللہ تعالى نے اپنے رسول محمد صلى اللہ عليہ وسلم كو مبعوث فرمايا اور اپنى عظيم كتاب قرآن مجيد نازل فرمائى تا كہ لوگوں كے ليے بيان و راہنمائى بنے، تو جو بھى عبادت اور خير و بھلائى اور ہدايت تھى جسے اللہ سبحانہ و تعالى پسند كرتا تھا وہ رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے بيان فرما دى ہے.
كوئى بھى مسلمان اس ميں اختلاف نہيں كرتا كہ محمد صلى اللہ عليہ وسلم سب لوگوں سے افضل اور متقى ہيں، اور ان ميں سب سے زيادہ عبادت و رجوع كرنے والے ہيں، اسى ليے توفيق و ہدايت پر وہى ہے جو نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم كے طريقہ كو اپنائے اور آپ كى راہ پر بالكل اسى طرح چلے جس طرح آپ چلے تھے.
اور پھر نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم كے طريقہ پر چلنا اور اس كا التزام كرنا اختيارى نہيں كہ جو چاہے اختيار كرے اور جو چاہے اسے ترك كر دے، ليكن اللہ سبحانہ و تعالى نے اپنے بندوں پر اسے فرض كرتے ہوئے فرمايا:
{ اور رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم تمہيں جو ديں وہ لے لو اور جس سے روكيں اس سے رك جاؤ، اور اللہ كا تقوى اختيار كرو يقينا اللہ تعالى سخت سزا دينے والا ہے }الحشر ( 7 ).
اور ايك مقام پر رب ذوالجلال كا فرمان ہے:
{ اور ( ديكھو ) كسى مومن مرد و عورت كو اللہ اور اس كے رسول كے فيصلہ كے بعد اپنے كسى امر كا كوئى اختيار باقى نہيں رہتا( ياد ركھو ) اللہ تعالى اور اس كے رسول كى جو بھى نافرمانى كريگا وہ صريح گمراہى ميں پڑيگا }الاحزاب ( 36 ).
اور ايك مقام پر ارشاد بارى تعالى كچھ اس طرح ہے:
{ يقينا تمہارے ليے رسول اللہ ( صلى اللہ عليہ وسلم ) ميں عمدہ نمونہ موجود ہے ہر اس شخص كے ليے جو اللہ تعالى اور قيامت كے دن كى توقع ركھتا ہے اور بكثرت اللہ تعالى كى ياد كرتا ہے }الاحزاب ( 21 ).
اور نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے بيان كيا ہے كہ ہر نئى ايجاد كردہ عبادت مردود ہے چاہے وہ كتنى بھى ہو عائشہ رضى اللہ تعالى عنہا بيان كرتى ہيں كہ رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے فرمايا:
" جس كسى نے بھى كوئى ايسا عمل كيا جس پر ہمارا امر اور حكم نہيں تو وہ مردود ہے "
صحيح مسلم حديث نمبر ( 1718 ).
اس ليے عمل قابل قبول اس وقت ہو گا جب وہ خالصتاً اللہ كے ليے ہو اور نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم كى سنت اور طريقہ كے مطابق ہو، اور اللہ كے درج ذيل فرمان سے بھى يہى مراد ہے:
{ تا كہ تمہيں آزمائے كہ تم ميں سے اچھے عمل كون كرتا ہے }.
فضيل بن عياض رحمہ اللہ كہتے ہيں: اخلصہ و اصوبہ تو لوگوں نے عرض كيا: اے ابو على اخلصہ و اصوبہ سے كيا مراد ہے ؟
انہوں نے جواب ديا:
اگر عمل خالصتا اللہ كے ليے ليكن سنت كے مطابق نہ ہو تو قبول نہيں ہو گا، اور اگر سنت كے مطابق ہوا ليكن خالص نہ ہوا تو بھى قبول نہيں ہو گا، قبول اس صورت ميں ہے جب وہ خالص بھى ہو اور صواب و صحيح يعنى سنت كے مطابق بھى ہو.
خالص سے مراد يہ ہے كہ وہ كام اللہ كے ليے ہو، اور صواب سے مراد يہ ہے كہ وہ سنت كے مطابق ہو.
اس ليے جو كوئى بھى اللہ كى رضا و خوشنودى تك پہنچنا چاہتا ہے اس كے ليے سنت رسول صلى اللہ عليہ وسلم كا التزام كرنا ضرورى ہے، اس راہ كے علاوہ اللہ كى جانب باقى سب راہ بند ہيں صرف نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم كا راہ ہى اللہ كى جانب جاتا ہے.
اور جب نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم اپنى امت كے ليے رحيم و شفيق اور ان پر حريص ہيں تو انہوں نے كوئى بھى ايسا كام نہيں چھوڑا جو خير و بھلائى والا تھا اسے امت كے ليے بيان كر ديا ہے، لہذا جو كوئى بھى آج عبادت يا ذكر يا ورد ايجاد كرے اور يہ گما نركھے كہ اس ميں خير ہے تو اس نے نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم پر ـ اسے اس كا شعور ہو يا نہ ہو ـ يہ تہمت لگائى ہے كہ آپ صلى اللہ عليہ وسلم نے دين كو اس طرح نہيں پہنچايا جس طرح اللہ نے حكم ديا تھا.
اسى ليے امام مالك رحمہ اللہ كہا كرتے تھے:
" جس نے بھى اسلام ميں كوئى بدعت ايجاد كى اور وہ اسے اچھا اور حسن سمجھتا ہو تو اس نے گمان و خيال كيا كہ نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے رسالت ميں خيانت كى ہے؛ كيونكہ اللہ سبحانہ و تعالى كا فرمان ہے:
{ آج ميں نے تمہارے ليے تمہارے دين كو مكمل كر ديا }.
تو جو چيز اس دن دين نہ تھى وہ آج بھى دين نہيں بن سكتى.
بدعات كى اختراع و ايجاد سے بچنے كا صحابہ كرام اور تابعين اور آئمہ كى كلام ميں بہت ذكر ملتا ہے:
حذيفہ بن يمان رضى اللہ تعالى عنہ كہتے ہيں:
" ہر وہ عبادت جو رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم كے صحابہ نے نہيں كى تم بھى اس كو مت كرو "
ابن مسعود رضى اللہ تعالى عنہما كہتے ہيں:
" تم اتباع و پيروى كرو اور بدعات كى ايجاد مت كرو، تمہارے ليے وہى كافى ہے تم پرانے حكم كو لازم پكڑو "
اس دعاء اور ذكر كى اختراع كرنے والے سے يہ دريافت كرنا چاہيے كہ:
آيا رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے ايسا كيا ہے ؟
آيا رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم كے صحابہ كرام نے ايسا كيا ؟
اس كا جواب سب كو معلوم ہے كہ:
مذكورہ سورتيں اس عدد يعنى سو بار اور سات بار اور اناسى مرتبہ پڑھنا نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم سے ثابت نہيں اور نہ ہى اس كا ثبوت كسى صحابى سے ملتا ہے، اور اسى طرح دعائيں بھى اس كيفيت ميں تكرار كے ساتھ پڑھنے كا ثبوت نہيں.
اس اختراع كرنے والے بدعتى كو يہ كہا جائے كہ: كيا تمہارا خيال ہے كہ تم اس خير و بھلائى كى طرف سبقت كر رہے ہو جس كا علم نہ تو رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم كو تھا اور نہ ہى صحابہ جانتے تھے ؟
يا تمہارا خيال ہے كہ تمہيں يا تمہارے پير اور شيخ كو شريعت بنانے اور اذكار كى تحديد اور اس كے ليے وقت مقرر كرنے اور عدد متعين كرنے كا حق حاصل ہے جس طرح رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم كو حق حاصل تھا ؟
بلاشك و شبہ يہ اور وہ سب واضح گمراہى ہے.
ہم درج ذيل واقعہ كو معتبر سمجھيں اور اس پر عمل كريں:
ابو موسى اشعرى رضى اللہ تعالى عنہ نے عبد اللہ بن مسعود رضى اللہ تعالى عنہما سے عرض كي اے ابو عبد الرحمن ميں نے ابھى ابھى مسجد ميں ايك كام ديكھا ہے اور اس سے انكار نہيں اور الحمد للہ وہ اچھا ہى معلوم ہوتا ہے، ابن مسعود رضى اللہ تعالى عنہما نے دريافت كيا وہ كيا ؟
تو ابو موسى اشعرى رضى اللہ تعالى عنہ نے كہنے لگے اگر تم زندہ رہے تو ديكھو گے، وہ بيان كرنے لگے:
ميں نے مسجد ميں لوگوں كو نماز كا انتظار كرتے ہوئے ديكھا كہ وہ حلقے باندھ كر بيٹھے ہيں اور ہر حلقے ميں لوگوں كے ہاتھوں ميں كنكرياں ہيں اور ايك شخص كہتا ہے سو بار تكبير كہو، تو وہ سو بار اللہ اكبر كہتے ہيں، اور وہ كہتا ہے سو بار لا الہ الا اللہ كہو تو وہ سو بار لا الہ الا اللہ كہتے ہيں، وہ كہتا ہے سو بار سبحان اللہ كہو تو وہ سو بار سبحان اللہ كہتے ہيں.
ابن مسعود رضى اللہ تعالى عنہ كہتے ہيں: تو پھر آپ نے انہيں كيا كہا ؟
ابو موسى اشعرى رضى اللہ تعالى عنہ نے جواب ديا:
ميں نے انہيں كچھ نہيں كہا ميں آپ كى رائے اور حكم كا انتظار كر رہا ہوں.
ابن مسعود رضى اللہ تعالى عنہما كہنے لگے:
تم نے انہيں يہ حكم كيوں نہ ديا كہ وہ اپنى برائياں شمار كريں اور انہيں يہ ضمانت كيوں نہ دى كہ ان كى نيكياں ضائع نہيں كى جائيگى ؟
پھر وہ چل پڑے اور ہم بھى ان كے ساتھ گئے حتى كہ وہ ان حلقوں ميں سے ايك حلقہ كے پاس آ كر كھڑے ہوئے اور فرمانے لگے: يہ تم كيا كر رہے ہو ؟
انہوں نے جواب ديا: اے ابو عبد الرحمن كنكرياں ہيں ہم ان پر اللہ اكبر اور لا الہ الا اللہ اور سبحان اللہ پڑھ كر گن رہے ہيں.
ابن مسعود رضى اللہ تعالى عنہما نے فرمايا:
تم اپنى برائيوں كو شمار كرو، ميں تمہارى نيكيوں كا ضامن ہوں وہ كئى ضائع نہيں ہو گى، اے امت محمد صلى اللہ عليہ وسلم افسوس ہے تم پر تم كتنى جلدى ہلاكت ميں پڑ گئے ہو، نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم كے صحابہ كتنے وافر مقدار ميں تمہارے پاس ہيں، اور ابھى تو نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم كے كپڑے بھى بوسيدہ نہيں ہوئے اور نہ ہى ان كے برتن ٹوٹے ہيں، اس ذات كى قسم جس كے ہاتھ ميرى جان ہے كيا تم ايسى ملت پر ہو جو ملت محمد صلى اللہ عليہ وسلم اور طريقہ سے زيادہ ہدايت پر ہے يا كہ تم گمراہى كا دروازہ كھولنے والے ہو.
انہوں نے جواب ديا: اے ابو عبد الرحمن ہمارا ارادہ تو صرف خير و بھلائى كا ہى ہے.
ابن مسعود رضى اللہ تعالى عنہما نے جواب ديا:
اور كتنے ہى خير و بھلائى كا ارادہ ركھنے والے اسے پا نہيں سكتے.
تو ہر خير و بھلائى كا ارادہ ركھنے والا اسے پا نہيں سكتا اور ہر عبادت اس وقت تك قبول نہيں ہو سكتى جب تك وہ محمد صلى اللہ عليہ وسلم كے طريقہ اور سنت پر نہ ہو"
سنن دارمى حديث نمبر ( 206 ).
ابن مسعود رضى اللہ تعالى عنہ كا يہ انكار اور انہيں اس كام سے روكنا بدعتيوں اور اختراعات كرنے والوں كا رد اور قطعى حجت كا متقاضى ہے جو ہميشہ يہ كہتے ہيں كہ نماز اور قرآن اور اذكار ميں كيا چيز مانع ہے ؟! ہم تو صرف خير و بھلائى كے ليے اور اللہ كا قرب حاصل كرنے كے ليے ايسا كرتے ہيں.
انہيں اس كا جواب يہ ديا جائيگا كہ:
عبادت كے ليے واجب ہے كہ وہ اصل اور كيفيت اور ہيئت ميں مشروع ہو، اور جو چيز شريعت ميں عدد كے ساتھ مقيد ہے اس سے تجاوز كرنا جائز نہيں، اور جو شريعت ميں مطلق ہے اسے كسى بدعتى شخص كے ليے بھى محدود كرنا جائز نہيں ہے كيونكہ ايسا كرنے سے تو شريعت كا مقابلہ ہو گا.
اس مسئلہ كى تائيد سعيد بن مسيب رحمہ اللہ كے اس قصہ سے بھى ہوتى ہے انہوں نے ايك شخص كو طلوع فجر كے بعد دو ركعت سے زائد نماز ادا كرتے ہوئے ديكھا تو اسے ايسا كرنے سے منع كيا تو وہ شخص كہنے لگا:
اے ابو محمد كيا اللہ تعالى مجھے نماز ادا كرنے پر عذاب دے گا ؟
تو انہوں نے جواب ديا: نہيں، ليكن تجھے سنت كى مخالفت كرنے پر عذاب دے گا"
آپ اس جليل القدر تابعى رحمہ اللہ كى فقہ اور سمجھ ديكھيں كيونكہ سنت تو يہى ہے كہ طلوع فجر كے بعد نماز فجر كى سنت مؤكدہ دو ركعت ادا كى جائيں يہى سنت ہے، اس سے زائد نہيں اور پھر فجر كے فرض ادا كيےجائيں.
اور امام مالك رحمہ اللہ سے بھى ايسا ہى واقعہ ملتا ہے ان كے پاس ايك شخص آيا اور كہنے لگا:
اے ابو عبد اللہ ميں احرام كہاں سے باندھوں ؟
تو انہوں نے جواب ديا: ذى الحليفہ سے احرام باندھو جہاں سے رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے احرام باندھا تھا.
تو شخص كہنے لگا: ميں مسجد نبوى سے نبى صلى اللہ عليہ وسلم كى قبر كے پاس احرام باندھنا چاہتا ہوں.
امام مالك رحمہ اللہ كہنے لگے: ايسا مت كرنا مجھے خدشہ ہے كہ تم فتنہ ميں نہ پڑ جاؤ.
وہ شخص كہنے لگا: يہ كونسا فتنہ ہے ؟ بلكہ صرف چند ميل ہى ميں زيادہ كر رہا ہوں.
تو امام مالك رحمہ اللہ كہنے لگے:
اس سے بڑا فتنہ اور كيا ہو سكتا ہے كہ تم يہ سمجھ رہے ہو كہ اس فضيلت كى طرف سبقت لے جا رہے ہو جسے نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے نہيں پايا اور كوتاہى كى ہے ؟!
ميں نے اللہ كا يہ فرمان سنا ہے:
﴿ ان لوگوں كو ڈرتے رہنا چاہيے جو اللہ كے رسول كى مخالفت كرتے ہيں كہ كہيں انہيں فتنہ يا پھر عذاب اليم نہ پہنچ جائے ﴾النور ( 63 ).
صحابہ كرام اور تابعين عظام اور آئمہ كى فقاہت و سمجھ تو يہ تھى، ليكن يہ بدعتى لوگ كہتے ہيں كونسا فتنہ بلكہ يہ تو نماز اور ذكر اور چند ميل ہى ہيں جن سے ہم اللہ كا قرب حاصل كر رہے ہيں.
اس ليے كسى بھى عقلمند كو ان لوگوں كى باتوں كے دھوكہ ميں نہيں آنا چاہيے، كيونكہ شيطان نے ان كے ليے اعمال كو مزين كر ركھا ہے، اور وہ اپنے مشائخ اور پيروں اور بزرگوں كى مخالفت كرنا پسند نہيں كرتے اور وہ اپنے بزرگوں كےطريقہ كو نہيں چھوڑنا چاہتے.
سفيان بن عيينہ رحمہ اللہ كہتے ہيں:
" ابليس كو معصيت سے زيادہ بدعت پيارى اور محبوب ہے كيونكہ معصيت و گناہ سے توبہ كى جا سكتى ہے، اور بدعت سے نہيں.
يہ جان لو كہ انسان جو بھى بدعت كرتا ہے اس كے مقابلہ ميں اس طرح كى يا اس سے بہتر كوئى نہ كوئى سنت ضرور ترك كرتا ہے، اس ليے ان ايجاد كردہ اذكار اور دعاؤں كو پڑھنے والے نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم سے ثابت شدہ اذكار اور دعاؤں سے سب سے بڑے جاہل ہوتے ہيں، ان ميں بہت ہى كم ايسے لوگ ہونگے جنہيں صبح اور شام كى دعائيں ياد ہوں اور وہ صبح اور شام سو بار سبحان اللہ و بحمدہ كہتا ہو،
باقی جواب بعد میں انشااللہ