• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

ایک سانس میں 200 مرتبہ لا الہ الا اللہ کا ورد' میرے تبلیغی جماعت کے بھا ئیوں تم خود کوشش کیوں نہیں ؟

شمولیت
اگست 11، 2013
پیغامات
17,117
ری ایکشن اسکور
6,800
پوائنٹ
1,069
بعض امور کی حیثیت انتطامی ہوتی ہے ۔ مثلا قول رسول صلی اللہ علیہ و سلم کا جاننا تو شرعی دلائل سے ثابت ہے مگر جو مدارس میں حصص مقرر ہیں فلاں سال بخاری کی احادیث پڑھنی ہے اور فلاں سال ترمذی کا یا بخاری کی احادیث کے فلاں فلاں دن اتنے پریڈ ہوں گے تو یہ انتطامی امور میں سے ہے اور ان پریڈ کا مقصد قول رسول صلی اللہ علیہ و سلم کو جاننا ہے جو اصل مقصود و مطلوب ہے ، اگر کوئي اپ حضرات سے پوچھنا شروع کردے کہ فلاں فلاں دن جو تم بخاری پڑھتے ہو تو کتاب و سنت سے اس کو ثابت کرو تو آپ کا جواب کیا ہو گا ۔
اسی طرح ذکر اللہ تو کتاب و سنت سے ثابت ہے لیکن بعض مشايخ نے اپنے مریدین میں اللہ کی طرف توجہ بڑھانے اور ان کے دل کو اللہ کی یاد سے منور کرنے کے لئیے اذکار کی تعداد مقرر کی ہے اور کچھ طریق مقرر کیے ہیں ۔ ان تعداد اور طریق کی حیثیت انتظامی امور کی سی ہے اور اصل مقصد و مطلوب اللہ کی یاد سے دل کو منور کرنا ہے ۔
اگر کسی نے ایک سانس میں دو سو مرتبہ کلمہ ورد کیا بطور انتظامی حیثیت کے تو آپ کیا اعتراض ہے آپ یہ کہیں سے ثابت نہیں کر سکتے کہ علماء نے کبھی ایک سانس میں دو سو مرتبہ کلمہ کے ورد کو سنت کہا ہو !!!

تلمیذ بھائی جواب طویل ہے مگر موزوں سے ہیں :
یہ تو جواب ہے تعداد مقرر کا
1) ایک سانس میں 200 بار لا الہ الا اللہ کہنے کا

2) فضائل اعمال ۔۔ صفحہ نمبر 484 پر ابو قرطوبی فرماتے ہیں ۔۔ "کہ ہم نے سُنا کہ جو شخص ستر ہزار مرتبہ کلمہ طیبہ پڑھ لے اس پر جہنم کی آگ حرام ہو جاتی ہے ۔ وہاں ایک نوجوان رہتا تھا جس کے بارے میں مشہور تھا کہ اسے کشف ہو جاتا ہے اور اس کو جنت اور جہنم کے معاملات کے بارے میں خبر ہوجاتی ہے ایک دن ہمارے پاس کھانا کھاتے ہوئے اس نے رونا شروع کر دیا میں نے ان سے پوچھا کہ کہ کیوں رو رہے ہو تو اس نے کہا کہ میری ماں کو جہنم میں ڈال دیا گیا ہے ابو یزید کہتے ہیں میں نے جو ستر ہزار مرتبہ کلمہ طیبہ پڑھ رکھا تھا اور دل میں محفوظ کر رکھا تھا میں نے اس کی والدہ کے نام کردیا میں نے یہ سب کچھ دل ہی دل میں کیا .اس نوجوان نے مُسکرانا شروع کردیا اور فرمایا پیر صاحب میری والدہ کو جنت میں داخل کیا جا رہا ہے"



اسع بادت ميں كوئى خير نہيں جو نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم اور صحابہ نے نہيں كى


الحمد للہ:
جس غرض و غايت كے ليے ہم سب پيدا كيے گئے ہيں وہ اللہ وحدہ لا شريك كى عبادت ہے، جيسا كہ اللہ سبحانہ و تعالى كا فرمان ہے:
{ اور ميں نے تو جن و انس كو صرف اپنى عبادت كے ليے پيدا كيا ہے }الذاريات ( 56 ).
اللہ تعالى نے ہميں ويسے ہى نہيں چھوڑ ديا كہ ہم ميں سے ہر ايك عبادت كے ليے كوئى خاص طريقہ اختيار كر لے، بلكہ اللہ تعالى نے اپنے رسول محمد صلى اللہ عليہ وسلم كو مبعوث فرمايا اور اپنى عظيم كتاب قرآن مجيد نازل فرمائى تا كہ لوگوں كے ليے بيان و راہنمائى بنے، تو جو بھى عبادت اور خير و بھلائى اور ہدايت تھى جسے اللہ سبحانہ و تعالى پسند كرتا تھا وہ رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے بيان فرما دى ہے.
كوئى بھى مسلمان اس ميں اختلاف نہيں كرتا كہ محمد صلى اللہ عليہ وسلم سب لوگوں سے افضل اور متقى ہيں، اور ان ميں سب سے زيادہ عبادت و رجوع كرنے والے ہيں، اسى ليے توفيق و ہدايت پر وہى ہے جو نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم كے طريقہ كو اپنائے اور آپ كى راہ پر بالكل اسى طرح چلے جس طرح آپ چلے تھے.
اور پھر نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم كے طريقہ پر چلنا اور اس كا التزام كرنا اختيارى نہيں كہ جو چاہے اختيار كرے اور جو چاہے اسے ترك كر دے، ليكن اللہ سبحانہ و تعالى نے اپنے بندوں پر اسے فرض كرتے ہوئے فرمايا:
{ اور رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم تمہيں جو ديں وہ لے لو اور جس سے روكيں اس سے رك جاؤ، اور اللہ كا تقوى اختيار كرو يقينا اللہ تعالى سخت سزا دينے والا ہے }الحشر ( 7 ).
اور ايك مقام پر رب ذوالجلال كا فرمان ہے:
{ اور ( ديكھو ) كسى مومن مرد و عورت كو اللہ اور اس كے رسول كے فيصلہ كے بعد اپنے كسى امر كا كوئى اختيار باقى نہيں رہتا( ياد ركھو ) اللہ تعالى اور اس كے رسول كى جو بھى نافرمانى كريگا وہ صريح گمراہى ميں پڑيگا }الاحزاب ( 36 ).
اور ايك مقام پر ارشاد بارى تعالى كچھ اس طرح ہے:
{ يقينا تمہارے ليے رسول اللہ ( صلى اللہ عليہ وسلم ) ميں عمدہ نمونہ موجود ہے ہر اس شخص كے ليے جو اللہ تعالى اور قيامت كے دن كى توقع ركھتا ہے اور بكثرت اللہ تعالى كى ياد كرتا ہے }الاحزاب ( 21 ).
اور نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے بيان كيا ہے كہ ہر نئى ايجاد كردہ عبادت مردود ہے چاہے وہ كتنى بھى ہو عائشہ رضى اللہ تعالى عنہا بيان كرتى ہيں كہ رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے فرمايا:
" جس كسى نے بھى كوئى ايسا عمل كيا جس پر ہمارا امر اور حكم نہيں تو وہ مردود ہے "
صحيح مسلم حديث نمبر ( 1718 ).
اس ليے عمل قابل قبول اس وقت ہو گا جب وہ خالصتاً اللہ كے ليے ہو اور نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم كى سنت اور طريقہ كے مطابق ہو، اور اللہ كے درج ذيل فرمان سے بھى يہى مراد ہے:
{ تا كہ تمہيں آزمائے كہ تم ميں سے اچھے عمل كون كرتا ہے }.
فضيل بن عياض رحمہ اللہ كہتے ہيں: اخلصہ و اصوبہ تو لوگوں نے عرض كيا: اے ابو على اخلصہ و اصوبہ سے كيا مراد ہے ؟
انہوں نے جواب ديا:
اگر عمل خالصتا اللہ كے ليے ليكن سنت كے مطابق نہ ہو تو قبول نہيں ہو گا، اور اگر سنت كے مطابق ہوا ليكن خالص نہ ہوا تو بھى قبول نہيں ہو گا، قبول اس صورت ميں ہے جب وہ خالص بھى ہو اور صواب و صحيح يعنى سنت كے مطابق بھى ہو.
خالص سے مراد يہ ہے كہ وہ كام اللہ كے ليے ہو، اور صواب سے مراد يہ ہے كہ وہ سنت كے مطابق ہو.
اس ليے جو كوئى بھى اللہ كى رضا و خوشنودى تك پہنچنا چاہتا ہے اس كے ليے سنت رسول صلى اللہ عليہ وسلم كا التزام كرنا ضرورى ہے، اس راہ كے علاوہ اللہ كى جانب باقى سب راہ بند ہيں صرف نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم كا راہ ہى اللہ كى جانب جاتا ہے.
اور جب نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم اپنى امت كے ليے رحيم و شفيق اور ان پر حريص ہيں تو انہوں نے كوئى بھى ايسا كام نہيں چھوڑا جو خير و بھلائى والا تھا اسے امت كے ليے بيان كر ديا ہے، لہذا جو كوئى بھى آج عبادت يا ذكر يا ورد ايجاد كرے اور يہ گما نركھے كہ اس ميں خير ہے تو اس نے نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم پر ـ اسے اس كا شعور ہو يا نہ ہو ـ يہ تہمت لگائى ہے كہ آپ صلى اللہ عليہ وسلم نے دين كو اس طرح نہيں پہنچايا جس طرح اللہ نے حكم ديا تھا.
اسى ليے امام مالك رحمہ اللہ كہا كرتے تھے:
" جس نے بھى اسلام ميں كوئى بدعت ايجاد كى اور وہ اسے اچھا اور حسن سمجھتا ہو تو اس نے گمان و خيال كيا كہ نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے رسالت ميں خيانت كى ہے؛ كيونكہ اللہ سبحانہ و تعالى كا فرمان ہے:
{ آج ميں نے تمہارے ليے تمہارے دين كو مكمل كر ديا }.
تو جو چيز اس دن دين نہ تھى وہ آج بھى دين نہيں بن سكتى.
بدعات كى اختراع و ايجاد سے بچنے كا صحابہ كرام اور تابعين اور آئمہ كى كلام ميں بہت ذكر ملتا ہے:
حذيفہ بن يمان رضى اللہ تعالى عنہ كہتے ہيں:
" ہر وہ عبادت جو رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم كے صحابہ نے نہيں كى تم بھى اس كو مت كرو "
ابن مسعود رضى اللہ تعالى عنہما كہتے ہيں:
" تم اتباع و پيروى كرو اور بدعات كى ايجاد مت كرو، تمہارے ليے وہى كافى ہے تم پرانے حكم كو لازم پكڑو "
اس دعاء اور ذكر كى اختراع كرنے والے سے يہ دريافت كرنا چاہيے كہ:
آيا رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے ايسا كيا ہے ؟
آيا رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم كے صحابہ كرام نے ايسا كيا ؟
اس كا جواب سب كو معلوم ہے كہ:
مذكورہ سورتيں اس عدد يعنى سو بار اور سات بار اور اناسى مرتبہ پڑھنا نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم سے ثابت نہيں اور نہ ہى اس كا ثبوت كسى صحابى سے ملتا ہے، اور اسى طرح دعائيں بھى اس كيفيت ميں تكرار كے ساتھ پڑھنے كا ثبوت نہيں.
اس اختراع كرنے والے بدعتى كو يہ كہا جائے كہ: كيا تمہارا خيال ہے كہ تم اس خير و بھلائى كى طرف سبقت كر رہے ہو جس كا علم نہ تو رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم كو تھا اور نہ ہى صحابہ جانتے تھے ؟
يا تمہارا خيال ہے كہ تمہيں يا تمہارے پير اور شيخ كو شريعت بنانے اور اذكار كى تحديد اور اس كے ليے وقت مقرر كرنے اور عدد متعين كرنے كا حق حاصل ہے جس طرح رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم كو حق حاصل تھا ؟
بلاشك و شبہ يہ اور وہ سب واضح گمراہى ہے.
ہم درج ذيل واقعہ كو معتبر سمجھيں اور اس پر عمل كريں:
ابو موسى اشعرى رضى اللہ تعالى عنہ نے عبد اللہ بن مسعود رضى اللہ تعالى عنہما سے عرض كي اے ابو عبد الرحمن ميں نے ابھى ابھى مسجد ميں ايك كام ديكھا ہے اور اس سے انكار نہيں اور الحمد للہ وہ اچھا ہى معلوم ہوتا ہے، ابن مسعود رضى اللہ تعالى عنہما نے دريافت كيا وہ كيا ؟
تو ابو موسى اشعرى رضى اللہ تعالى عنہ نے كہنے لگے اگر تم زندہ رہے تو ديكھو گے، وہ بيان كرنے لگے:
ميں نے مسجد ميں لوگوں كو نماز كا انتظار كرتے ہوئے ديكھا كہ وہ حلقے باندھ كر بيٹھے ہيں اور ہر حلقے ميں لوگوں كے ہاتھوں ميں كنكرياں ہيں اور ايك شخص كہتا ہے سو بار تكبير كہو، تو وہ سو بار اللہ اكبر كہتے ہيں، اور وہ كہتا ہے سو بار لا الہ الا اللہ كہو تو وہ سو بار لا الہ الا اللہ كہتے ہيں، وہ كہتا ہے سو بار سبحان اللہ كہو تو وہ سو بار سبحان اللہ كہتے ہيں.
ابن مسعود رضى اللہ تعالى عنہ كہتے ہيں: تو پھر آپ نے انہيں كيا كہا ؟
ابو موسى اشعرى رضى اللہ تعالى عنہ نے جواب ديا:
ميں نے انہيں كچھ نہيں كہا ميں آپ كى رائے اور حكم كا انتظار كر رہا ہوں.
ابن مسعود رضى اللہ تعالى عنہما كہنے لگے:
تم نے انہيں يہ حكم كيوں نہ ديا كہ وہ اپنى برائياں شمار كريں اور انہيں يہ ضمانت كيوں نہ دى كہ ان كى نيكياں ضائع نہيں كى جائيگى ؟
پھر وہ چل پڑے اور ہم بھى ان كے ساتھ گئے حتى كہ وہ ان حلقوں ميں سے ايك حلقہ كے پاس آ كر كھڑے ہوئے اور فرمانے لگے: يہ تم كيا كر رہے ہو ؟
انہوں نے جواب ديا: اے ابو عبد الرحمن كنكرياں ہيں ہم ان پر اللہ اكبر اور لا الہ الا اللہ اور سبحان اللہ پڑھ كر گن رہے ہيں.
ابن مسعود رضى اللہ تعالى عنہما نے فرمايا:
تم اپنى برائيوں كو شمار كرو، ميں تمہارى نيكيوں كا ضامن ہوں وہ كئى ضائع نہيں ہو گى، اے امت محمد صلى اللہ عليہ وسلم افسوس ہے تم پر تم كتنى جلدى ہلاكت ميں پڑ گئے ہو، نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم كے صحابہ كتنے وافر مقدار ميں تمہارے پاس ہيں، اور ابھى تو نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم كے كپڑے بھى بوسيدہ نہيں ہوئے اور نہ ہى ان كے برتن ٹوٹے ہيں، اس ذات كى قسم جس كے ہاتھ ميرى جان ہے كيا تم ايسى ملت پر ہو جو ملت محمد صلى اللہ عليہ وسلم اور طريقہ سے زيادہ ہدايت پر ہے يا كہ تم گمراہى كا دروازہ كھولنے والے ہو.
انہوں نے جواب ديا: اے ابو عبد الرحمن ہمارا ارادہ تو صرف خير و بھلائى كا ہى ہے.
ابن مسعود رضى اللہ تعالى عنہما نے جواب ديا:
اور كتنے ہى خير و بھلائى كا ارادہ ركھنے والے اسے پا نہيں سكتے.
تو ہر خير و بھلائى كا ارادہ ركھنے والا اسے پا نہيں سكتا اور ہر عبادت اس وقت تك قبول نہيں ہو سكتى جب تك وہ محمد صلى اللہ عليہ وسلم كے طريقہ اور سنت پر نہ ہو"
سنن دارمى حديث نمبر ( 206 ).
ابن مسعود رضى اللہ تعالى عنہ كا يہ انكار اور انہيں اس كام سے روكنا بدعتيوں اور اختراعات كرنے والوں كا رد اور قطعى حجت كا متقاضى ہے جو ہميشہ يہ كہتے ہيں كہ نماز اور قرآن اور اذكار ميں كيا چيز مانع ہے ؟! ہم تو صرف خير و بھلائى كے ليے اور اللہ كا قرب حاصل كرنے كے ليے ايسا كرتے ہيں.
انہيں اس كا جواب يہ ديا جائيگا كہ:
عبادت كے ليے واجب ہے كہ وہ اصل اور كيفيت اور ہيئت ميں مشروع ہو، اور جو چيز شريعت ميں عدد كے ساتھ مقيد ہے اس سے تجاوز كرنا جائز نہيں، اور جو شريعت ميں مطلق ہے اسے كسى بدعتى شخص كے ليے بھى محدود كرنا جائز نہيں ہے كيونكہ ايسا كرنے سے تو شريعت كا مقابلہ ہو گا.
اس مسئلہ كى تائيد سعيد بن مسيب رحمہ اللہ كے اس قصہ سے بھى ہوتى ہے انہوں نے ايك شخص كو طلوع فجر كے بعد دو ركعت سے زائد نماز ادا كرتے ہوئے ديكھا تو اسے ايسا كرنے سے منع كيا تو وہ شخص كہنے لگا:
اے ابو محمد كيا اللہ تعالى مجھے نماز ادا كرنے پر عذاب دے گا ؟
تو انہوں نے جواب ديا: نہيں، ليكن تجھے سنت كى مخالفت كرنے پر عذاب دے گا"
آپ اس جليل القدر تابعى رحمہ اللہ كى فقہ اور سمجھ ديكھيں كيونكہ سنت تو يہى ہے كہ طلوع فجر كے بعد نماز فجر كى سنت مؤكدہ دو ركعت ادا كى جائيں يہى سنت ہے، اس سے زائد نہيں اور پھر فجر كے فرض ادا كيےجائيں.
اور امام مالك رحمہ اللہ سے بھى ايسا ہى واقعہ ملتا ہے ان كے پاس ايك شخص آيا اور كہنے لگا:
اے ابو عبد اللہ ميں احرام كہاں سے باندھوں ؟
تو انہوں نے جواب ديا: ذى الحليفہ سے احرام باندھو جہاں سے رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے احرام باندھا تھا.
تو شخص كہنے لگا: ميں مسجد نبوى سے نبى صلى اللہ عليہ وسلم كى قبر كے پاس احرام باندھنا چاہتا ہوں.
امام مالك رحمہ اللہ كہنے لگے: ايسا مت كرنا مجھے خدشہ ہے كہ تم فتنہ ميں نہ پڑ جاؤ.
وہ شخص كہنے لگا: يہ كونسا فتنہ ہے ؟ بلكہ صرف چند ميل ہى ميں زيادہ كر رہا ہوں.
تو امام مالك رحمہ اللہ كہنے لگے:
اس سے بڑا فتنہ اور كيا ہو سكتا ہے كہ تم يہ سمجھ رہے ہو كہ اس فضيلت كى طرف سبقت لے جا رہے ہو جسے نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے نہيں پايا اور كوتاہى كى ہے ؟!
ميں نے اللہ كا يہ فرمان سنا ہے:
﴿ ان لوگوں كو ڈرتے رہنا چاہيے جو اللہ كے رسول كى مخالفت كرتے ہيں كہ كہيں انہيں فتنہ يا پھر عذاب اليم نہ پہنچ جائے ﴾النور ( 63 ).
صحابہ كرام اور تابعين عظام اور آئمہ كى فقاہت و سمجھ تو يہ تھى، ليكن يہ بدعتى لوگ كہتے ہيں كونسا فتنہ بلكہ يہ تو نماز اور ذكر اور چند ميل ہى ہيں جن سے ہم اللہ كا قرب حاصل كر رہے ہيں.
اس ليے كسى بھى عقلمند كو ان لوگوں كى باتوں كے دھوكہ ميں نہيں آنا چاہيے، كيونكہ شيطان نے ان كے ليے اعمال كو مزين كر ركھا ہے، اور وہ اپنے مشائخ اور پيروں اور بزرگوں كى مخالفت كرنا پسند نہيں كرتے اور وہ اپنے بزرگوں كےطريقہ كو نہيں چھوڑنا چاہتے.
سفيان بن عيينہ رحمہ اللہ كہتے ہيں:
" ابليس كو معصيت سے زيادہ بدعت پيارى اور محبوب ہے كيونكہ معصيت و گناہ سے توبہ كى جا سكتى ہے، اور بدعت سے نہيں.
يہ جان لو كہ انسان جو بھى بدعت كرتا ہے اس كے مقابلہ ميں اس طرح كى يا اس سے بہتر كوئى نہ كوئى سنت ضرور ترك كرتا ہے، اس ليے ان ايجاد كردہ اذكار اور دعاؤں كو پڑھنے والے نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم سے ثابت شدہ اذكار اور دعاؤں سے سب سے بڑے جاہل ہوتے ہيں، ان ميں بہت ہى كم ايسے لوگ ہونگے جنہيں صبح اور شام كى دعائيں ياد ہوں اور وہ صبح اور شام سو بار سبحان اللہ و بحمدہ كہتا ہو،

باقی جواب بعد میں انشااللہ
 
شمولیت
اگست 11، 2013
پیغامات
17,117
ری ایکشن اسکور
6,800
پوائنٹ
1,069
آپ نے مندرجہ ذیل واقعہ جو فضائل اعمال میں درج ہے اس سے یہ نتیجہ اخذ کیا ہے کہ وہ علم الغیب جو اللہ تبارک و تعالی کی صفت ہے اسے لوگوں میں تقسیم کیا جارہا ہے جس کی وجہ سے آپ نے تبلیغی جماعت کو تکفیری جماعت کہا ہے

میرا سوال صرف یہ ہے کہ کیا اللہ تبارک و تعالی ازل سے واحد عالم الغیب ہے یا معاذ اللہ کبھی علم الغیب صرف اللہ تبارک و تعالی کا خاصہ نہیں تھا لیکن نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی آمد کے ساتھ یہ صفت صرف اللہ تبارک و تعالی کی ہوگئی ۔
غیر مقلدین کی پرانی روش کو دیکھتے ہوئے میں اپنا عقیدہ بیان کردوں ، کیوں غیر مقلدین جواب دینے سے کتراتے ہیں اور مخالف پر سوال کی بوچھاڑ کردیتے ہیں
میرا عقیدہ ہے کہ اللہ تبارک و تعالی کے عالم الغیب ہونے میں کوئی اس کے ساتھ شریک نہیں اور اللہ تبارک و تعالی کی یہ صفت ہمیشہ سے ہے اور ہمیشہ رہے گی ، اس صفت میں کوئی اور نہ کبھی شامل ہوا اور نہ کبھی شامل ہو سکتا ہے ۔
آپ کا کیا عقیدہ اس بارے میں ، جواب دیں پھر آپ کے اعتراض پر بات شروع کرتے ہیں


تبلیغی جماعت علم غیب اور کشف !!!

السلام علیکم پیارے مسلمان بھائیو!
آج میرے اس مضمون کا عنوان تبلیغی جماعت کی تحقیق کے اطراف گھومتا ہے، اس میں کوئی شک نہیں کہ یہ جماعت اللہ کے دین کی سربلندی کے لیے کوشاں ہے مگر اس میں کچھ چیزیں ایسی ہیں جن کا براہ راست واسطہ عقائد پر ہے اور جیسا کہ آپ جانتے ہین کہ جس کسی مسلمان یا کسی دینی جماعت کے عقائد اصل شریعت کے رو سے صحیح نہیں تو وہ مسلمان یا جماعت کسی طرح بھی حقیقی اسلام کی نمائدگی نہیں کرسکتی۔
جب تک عقیدہ شریعت محمدی ۖ کے مطابق نہیں تب تک اسلام مکمل نہیں ہوتا، دین کے ہر پہلو کا دارومدار عقیدے پر ہوتا ہے جو کہ خلص قرآن اور صحیح احادیث پہ مبنی ہے اور اس میں کسی طرح کی ملاوٹ جیسا کہ بدعت یا شرک نہیں ہے۔
یہی چيز تبلیغی جماعت کے اندر موجود نہیں ہے یعنی عقیدہ خالص نہیں ہے تو ایسے مسلمانوں یا ایسی جماعت کی کوئی ضرورت نہیں ہے۔
یہ جماعت صوفی ازم کی پرچار کرتی ہے اور اس میں علم غیب اور قبروں سے مدد مانگنا اور قبر والوں سے فیض ملنے کے عقیدے پر قائم ہے تو یقینن یہ کسی بھی قیمت پر صحیح اسلام کی تعلیمت پر مبنی ہو نہیں سکتی۔
اس سلسلہ میں ان کی ایک کتاب ہے جس کا نام فضائل اعمال ہے جو وہ قرآن اور حدیث سے بھی زیادہ اس کی تبلیغ کرتے ہین اور اسی ہی کی تلقین بھی کرتے ہیں جو مولانہ ذکریا صاحب نے مرتب کی ہے۔
مگر حیرت کی بات یہ ہے کہ جب مولانا ذکریا صاحب کی دماغی حالت خراب تھی تب جاکے انہوں نے یہ کتاب تحریر کی تھی، اب آپ بتائيں کہ ایک شخص جس کی دماغی حالت ٹھیک نہیں ہو اس کی لکھی ہوئی تحریر پر بلا شک و شبہ ایمان لانا اور اس کی تبلیغ کرنا کس طرح جائز ہے؟
شاید یہی وجہ ہے کہ اس کتاب میں قرآن و حدیث کے خلاف بےشمار قصے من گھڑت کہانیاں اور مصنف کی اپنے موقف سے بہت زیادہ تضاد پایا جاتا ہے۔
اس کا ثبوت بھی انہی صاحب کی زبانی آپ پڑھ لیں تو بہتر ہوگا۔
" اللہ تعالی کے ایک برگزیدہ بندے اور میرے مربی و محسن کا ارشاد 1353ھ میں ہوا کہ صحابہ کرام رض کے چند قصے بالخصوص کم سن صحابہ اور عورتوں کی دینداری کے کچھ حالات اردو میں لکھی جائے۔۔۔۔۔۔۔۔ اس ارشاد کی تعمیل بہت ضروری تھی کہ احسانات کے ڈوبے ہوئے ہونے کے علاوہ اللہ والوں کی خوشنودی دو جہاں میں فلاح کا سجج ہوتی ہے- مگر اس کے باوجود اپنی کم مائگی سے یہ امید نہ ہوئی کہ میں اس خدمت کو مرضی کے موافق ادا کرسکتا ہوں- اس لیے 4 سال برس تک اس ارشاد کو سنتا رہا اور اپنی نااہلیت سے شرمندہ ہوتا رہا کہ صفر 1357ھ میں ایک مرض کی وجہ سے چند روز کے لیے دماغی کام سے روک دیا گیا- تو مجھے خیال ہوا کہ ان خالی ایام کو بابرکت مشغلہ میں گزاردوں کہ اگر یہ اوراق پسند خاطر نہ ہوئے تب بھی میرے لیے یہ خالی اوقات بہترین اوربابرکت مشغلہ میں گزر ہی جائيں گے۔"
( فضائل اعمال= رحمانہ: 7، فیضی 8، قدیمی 6)
اس کا مطلب کہ صاحب موصوف کو خود بھی اندازہ نہیں تھا کہ میری تحریر کو لوگ جوق در جوق آنکھوں پر لگائيں گے اور اس پر اندھا اعتماد کریں گے ورنہ اس طرح کا شک پیدا نہیں ارتے کیونکہ انہین یقن تھا کہ دماغی مرض سے کون سا علمی خزانہ تحریر ہوگا۔۔۔۔؟؟؟!!!
چلیں یہ تو پتہ چل گیا کہ جس تبلیغی جماعت کی بنیاد ہے " فضائل اعمال" وہ دماغی مرض کے دوراں تخلیق کی گئي اب آگے چل کے دیکھنا ہے کہ اس میں آخر کیا غیر شرعی باتیں ہیں جو ایک دماغی مرض والا انسان ہی ترتیب دے سکتا ہے نہ کہ ایک دینی عالم۔۔۔۔۔۔۔۔ان شاءاللہ

علم غیب
"
علم غیب" یا اللہ تعالی کی ایک صفت ہے اور قران میں اس کی کھلے لفظوں میں وضاحت کی گئی ہے:
"غیب کی چابیاں اللہ تعالی کے پاس ہیں ان کو کوئی نہیں جانتا مگر وہی اور وہی جانتا ہے جو کچھ خشکی میں ہے اور پانی میں ہے اور پتا حرکت نہیں کرتا مگر وہ اس کو جانتا ہے اور کوئی دانہ زمین کی اندھیروں میں یا کسی خشکی یا تری میں ہو تو وہ جانتا ہے۔"
( الانعام: 59)
" اللہ تعالی نے ایک اور جگہ پر نبی پاکۖ کو اپنے متعلق عالم غیب کی نفی کرنے کا حکم فرمایا:
"کہدیجیے! میں نہیں کہتا کہ میرے پاس اللہ تعالی کے خزانے ہیں اور نہ ہی میں غیب جانتا ہوں اور نہ میں کہتا ہوں کہ میں فرشتہ ہوں اور میں وحی کے سوا کسی چيز کی پیروی نہیں کرتا۔"
(الانعام: 50)
جبکہ تبلیغی جماعت اپنے بزرگوں کی بابت غیب دانی کی دعویدار ہے:
1/ " جو لوگ اہل کشف ہوتے ہیں ان کو گناہوں کا زائل ہوجانا محسوس ہوجاتا ہے جیسے امام اعظم رح کا قصہ مشھور ہے کہ وہ وضو کا پانی گرتے ہوئے یہ محسوس فرمالیتے تھے کہ کون سا گناھ اس میں دھل گیا"۔
(فضائل اعمال= رحمانیہ:330، فیضی:304، قدیمی:208)
2/ " امام ابو حنیفہ کو یہ بھی معلوم ہوجاتا تھا کہ کبیرہ گناھ ہے یہ صغیرہ، مکروہ فعل ہے یا خلاف اولی- ایک دفعہ کوفہ کی جامع مسجد میں وضو خانہ تشریف فرما تھے کہ ایک جوان وضو کررہا تھا اس کے وضو کا پانی گرتے ہوئے آپ نے دیکھا۔۔۔۔اس کو چپکے سے نصیحت فرمائی کہ بیٹا وکلدین کی نافرمانی سے توبہ کرلے اس نے توبہ کرلی"-
3/ " ایک اور شخص کو دیکھا تو اس ک ونصیحت فرمائی کہ بھائی زنا نہ کیا کر بہت برا عیب ہے، اس وقت اس نے بھی توبہ کرلی۔
4/ ایک اور شخص ک ودیکھا کہ شراب خوی اور لہو و لعب کا کا پانی گرہا تھا اس کو بھی نصیحت فرمائی اس نے بھی توبہ کرلی-
الغرض اس کے بعد امام صاحب نے اللہ تعالی سے دعا کی کہ اے اللہ تعالی اس چيز کو مجھ سے دور فرمادے کہ میں ہوگوں کی برائیوں سے مطلع ہونا نہیں چاہتا- اللہ تعالی نے دعا قبول فرمائی اور یہ چيز زائل ہوگئی۔
( فضائل اعمال= رحمانیہ: 648، فیضی: 560، قدیمی: 466)
غور فرمائيے!!!
1/ امام صاحب جھڑتے ہوئے گناہوں کو دیکھ کر لوگوں کو نصیحت فرماتے اور لوگ اپنی اصلاح کرلیتے- یہ ایک نفع بخش کام تھا جسے جاری رہنا چاہیے تھا مگر امام صاحب نے اس کو پسند نہیں فرمایا-
2/ جھڑتے گناھ کو دیکھنا یہ امام صاحب پر اللہ تعالی کی طرف سے انعام بھی تھا۔
3۔ مگر مام صاحب نے کفران نعمت کرتے ہوئے اللہ تعالی سے کہ دیا کہ یہ اپنی نعمت واپس لے لے مجھے اس کی ضرورت نہیں- یہ کتنی بڑی گستاخی ہے خود سوچ لیں؟
4/اب لوگوں کی اصلاح کا یہ سلسلہ نعمت کے واپس ہوتے ہی ختم ہوگیا۔
اللہ تعالی کے انبیاء اور صلحاء کی یہ صفت تھی کہ وہ اللہ تعالی کے انعامات کا شکر ادا کرتے ہیں جس کی وجہ سے اللہ تعالی اور زیادا انعامات عطا فرماتا ہے- اور یہ اللہ تعالی کا واعدہ بھی ہے:
" اگر تم شکر کرو گے تو میں تمہیں اور زیادہ دوں گا اور اگر کفر کرو گے تو میرا عذاب سخت ہے"
( ابراھیم 14/7)
5/ سوچیے! جھڑتے گناھ دیکھ لینا اگر یہ نعمت تھی تو واپس کیوں کی؟؟ او راگر لوگوں کی اصلاح ہو رہی تھی تو چھوڑی کیوں؟؟ اور اگر یہ نعمت نہیں تھی تو پھر اس کو کرامت بنا کر "فضائل اعمال" میں کیوں لکھ دیا گیا- حقیقت یہ ہے کہ یہ بات بلکل غلط ہے اور اس لحاظ سے بھی غلط ہے کہ یہ اعزاز کسی صحابی کونہیں ملا اور نہ کبھی نبی پاک ۖ کو کسی کے جھڑتے گناھ نظر آئے۔
" غزوہ "بنی المصطلق" سے واپسی پر ایک مہاجر اور انصاری میں جھگڑا ہوگیا- رسول اللہۖ نے دونوں میں صلح کرادی- مگر عبداللہ بن ابی منافق نے اس موقع سے فائدہ اٹھانے کی کوشش کی اور مہاجرین اور انصاری کو بڑھاکر فتنہ پیدا کرنا چاہا اور کہا کہ یہ ذلیل مہاجر اب معززین مدینہ کو تنگ کرنے لگے ہیں ہم مدینہ پہنچ کر ان ذلیلوں کو نکال دیں گے- سیدنا زید رض جو کم عمر مگر بہت غیور تھے- انہوں نے یہ گفتگو رسول اللہۖ تک پہنچائی- عبداللہ بن ابی نے قسمیں کھائيں اور نبی پاکۖ کو یقین دلایا کہ میں نے ایسی کوئی بات نہیں کی- بعض صحابہ رض نے اس کی قسموں کی وجہ سے کہا کہ زید کم عمر ہے ہوسکے بات کوصحیح نمونے سمجھ نہ سکا ہو- رسول اللہۖ خاموش ہوگئے- سیدنا زید بن ارقم رض پریشان تھے کہ سچا ہونے کے باوجود صحابہ کرام رض اور رسول اللہۖ کی نگاھ میں میری حیثیت خراب ہوگئی ہے- اللہ تعالی نے آیات نازل فرما کر سیدنا زید بن اارقم رض کی سچائی اور عبداللہ بن ابی کے جھوٹے ہونے کا اعلان کردیا-
یہ سورۃ منافقون کی آیت نمبر 8 ہے اور اس کی تفصیل کتب احادیث میں بھی موجود ہے- عبد اللہ بن ابی اور سیدنا زید بن ارقم رض بھی نبی پاکۖ کے سامنے وضو کرتے رہے- ان میں سے ایک سچا تھا اور دوسرا جھوٹا منافق تھا مگر رسول اللہۖ کو ان میں سے کسی کے وضو سے کوئی چيز نظر نہیں آئی- مگر فضائل اعمال میں یہ مقام امام ابو حنیفہ رح کو دے دیا گیا-
فضائل اعمال میں ایک اور خلاف حقیقت واقعہ:
صوفیاء کو بھی اکثر یہ چيز مجاہدوں (مشقت کی عبادتوں) کی کثرت سے حاصہ ہوجاتی ہے جس کی وجہ سے وہ جمادات اورحیوانات کی تسبیح، ان کا کلام اور ان کی گفتگو سمجھ لیتے ہیں-
محققین مشائخ کے نزدیک چونکہ یہ چيز نہ دلیل کمال ہے نہ موجب قرب جو بھی اس قسم کے مجاہدے کرتا ہے وہ حاصہ کرلیتا ہے خواہ اے اللہ تعالی کا قرب حاصل ہو یا نہ ہو۔
(فضائل اعمال= رحمانیہ:648، فیضی: 561، قدیمی: 465)
بھائیو! غور فرمائیں یہ عقیدہ ہے مولانا زکریا صاحب کا اور تبلیغ والے پڑھ پڑھ کر لوگوں کو سناتے ہیں- جو بھی اس قسم کے مجاہدے کرے وہ حیوانات کی بولی سمجھ سکتا ہے- یہ چيز اللہ تعالی کے مقرب بھی حاصل کر سکتے ہیں اور نافرمان بھی- یہ چيز کمال کی دلیل بھی نہیں ہے- مگر فضائل اعمال کی زینت بھی ہے۔۔ ۔ ۔ ۔۔ ۔ کیا خوب فضیلت ہے؟؟؟
جمادات و حیوانات کے متعلق اسلام تعلیمات:
اللہ تعالی اپنے بندوں میں سے جس کو چاہے بطور معجزہ یا کرامت حیوانات و جمادات کی تسبیح بتادے یا سنادے مگر یہ چيز ان کے اختیار میں ہر گز نہیں ہوتی کہ مجاہدے کرنے والے جب چآہیں وہ سن لیں-
رسول اللہ ۖ کے ساتھ پیش آنے والا ایک واقعہ:
غزوہ بنی المصطلق میں دوراں سفر سیدہ عائشہ رض کا ہار گم ہوگیا تلاش میں صحابہ کرام کو رسول اللہ ۖ نے روانہ کیا۔ (قریب ہی گم شدہ ہار اونٹ کے نیچے اللہ تعالی کا ذکر کرتا رہا ہوگا۔ ۔ ۔ ۔۔ نہ صحابہ نے اس کے ذکر کی آواز سنی اور نہ ہی رسول اللہۖ کو اس کا علم ہوسکا) سارا قافلہ پریشان تھا، نماز کا وقت ہوچکا تھا، قریب کہیں پانی کا نام و نشان نہیں تھا، اب لوگ باتیں کرنے لگے کہ عائشہ رض کی غفلت کی وجہ سے سارا قافلہ پریشان ہے ادھر سیدنا ابوبکر رض لوگوں کی باتیں سن سن کر مزید پریشان ہورہے تھے اور غصہ بڑرہا تھا- بیٹی کے پاس اسی عالم میں پہنچے خوب ڈانٹا- اور عائشہ رض کی کوکھ میں مکہ مارا۔ ۔ ۔۔ ۔ اتنے میں جبرائيل علیہ السلام تیمّم ک ےاحکامت لے کر اترے اور اللہ تعالی کا حکم نبی پاک ۖ تک پہنچایا کہ:
" جب تم میں سے کوئی بیمار ہو یا سفر میں اور تم پانی ہ نہ پاؤ تو پاک مٹی پر تیمم کرلو"
(المائدہ 6/6) [ تفصیل کے لیے دیکھیے بخاری کتاب التفسیر]
بھائیو! آپ خود فیصلہ کریں کا کیا صوفیاء۔ ۔ ۔ ۔۔ صحابہ کرام رض اور رسول اللہ ۖ سے زیادہ مجاہدے کرتے ہیں کہ یہ صوفی تو جمادات کی بولی سمجھ لیں اور صحابہ رض جن کی ساری زندگیاں ہی میدان جہاد میں گزر گئيں وہ جمادات کی بولی نہ سمجھ سکے بتائيے تبلیغی بھائیوں کے نزدیک فضیلت کس کی ثابت ہوئی؟ صوفیاء کی یا رسول اللہۖ کی اور صحابہ رض کی؟؟
روٹی کی کہانی فضائل اعمال کی زبانی:
شیخ ابو الخیر اقطع فرماتے ہیں میں مدینہ منورہ میں آیا۔ ۔ ۔ ۔ ۔5 دن وہاں قیام کیا۔ کچھ مجھ کو ذوق و لطف حاصل نہ ہوا۔ میں قبر شریف کے پاس حاضر ہوا اور جناب رسول اللہۖ اور سیدنا ابوبکر اور سیدنا عمر رض کو سلام کیا اور عرض کیا اے رسول اللہۖ آج میں آپ کا مہمان ہوں پھر وہاں سے ہٹ کر منبر کے پیچھے سوگیا- خواب میں حضور ۖ کو دیکھا- سیدنا ابوبکر رض آپ کے داہنی حانب اور سیدنا عمر رض آپ کے بائيں جانب تھے اور سیدنا علی رض اپ کے آگے تھے۔ سیدنا علی رض نے مجھ کو ہلایا اور فرمایا کہ رسول اللہۖ تشریف لائے ہیں- میں اٹھا اور آپ7 کی دونوں آآنکھوں کے درمیان چوما حضور ۖ نے مجھے ایک روٹی عنایت فرمائی- میں نے آدھی کھالی اور جاگا تو آدھی میرے ہاتھ میں تھی۔
(فضائل اعمال= رحمانیہ: 797، قدیمی:835)
روٹی لے کر نبیۖ کی روح آسمان سے اتری:
1/ شاھ ولی اللہ اپنے یا اپنے والد کے متعلق لکھتے ہیں کہ ایک روز مجھے بہت ہی بھک لگی (نا معلوم کتنے روز کا فاقہ تھا) میں نے اللہ جل شانہ سے دعا کی تو میں دیکھا کا نبی ۖ کی روح آسمان سے اتری اور حضورۖ کے ساتھ ایک روٹی تھی گویا اللہ تعالی نے نبی پاکۖ کو ارشاد فرمایا تھا کہ یہ روٹی مجھے مرحمت فرمائيں۔
(فضائل اعمال= رحمانیہ: 797، قدیمی:835)
2/ ایک بھوکے کو حضور ۖ نے دودھ کا پیالہ بھیجا۔
(فضائل اعمال= رحمانیہ: 797، قدیمی:835)
3/ اور اور قصے مین لکھا ہے کہ شاھ جی کو حضور ۖ نے خواب میں روٹی دی جاگنے پر زعفران کی خوشبو آرہی تھی۔
(فضائل اعمال= رحمانیہ: 799، قدیمی: 836)
4/ ایک قصہ اس طرح لکھا ہوا ہے کہ شاھ جی بیمار ہوگئے خواب میں حضور کریم ۖ کی زیارت ہوئی آپ ۖ نے فرمایا: " بیٹے کیسی طبیعت ہے اس کے بعد شفا کی بشارت فرمائی اور اپنی داڑھی مبارک میں سے دو بال مجھے عطا فرمائے میری اس وقت صحت ٹھیک ہوگئی اور جب میری آنکھ کھلی تو دونوں بال میرے ہاتھ میں تھے۔
(فضائل اعمال= رحمانیہ: 798، قدیمی:835)
5/ ان واقعات کو لکھ کر مولانا ذکریا مزید کہتے ہیں کہ جب اکابر صوفیا کی توجہات معروف و متواتر ہیں تو سید الاولین و الآخرین کی توجہ کا کیا پوچھنا۔
(فضائل اعمال= رحمانیہ: 797، قدیمی: 834)
بھائیو توجہ فرمائيں:
ان واقعات میں قبر والوں سے سوال کرنے کی ترغیب دی گئی ہے۔ سماء موتی کے عقیدے کی دعوت پیش کی گئی ہے۔
سماع موتی کا عقیدہ شرک کی طرف کھلنے والا چور دروازہ ہے- جسے تبلیغی بورگوں نے فضائل اعمال کے ذریعے کھولا ہوا ہے- یہ لوگ کہتے ہیں:
" اللہ تعالی سے سب کچھ ہونے کا یقین اور غیروں سے کچھ نہ ہونے کا یقین"-
مگر یہاں اس دعوی کی حقیقت کھل کے سامنے آگئی ہے ان کے عقیدے کے مطابق:
1/ نبی ۖاپنی قبر پر آنے والے ضرورتمندوں کی ضرورت کو جانتے اور ضرورتیں پوری بھی کرتے ہیں۔
2/ (اگر قبر مبارک میں راشن کی کمی ہوجائے تو) روح مبارک آسمان جگر لگا کر سائل کی ضرورت کا سامان خوراک پہنچاتی ہے اور سائل جاگتے جاگتے یہ سب منطر دیکھ رہا ہوتا ہے۔
3/ خواب میں داڑھی مبارک کے بال دیے تو جاگنے پر ہاتھ میں موجود تھے۔
4/خواب میں روٹی دی تو جاگنے پر وہ بھی ہاتھ میں تھی۔
روزی دینے والا صرف اللہ تعالی ہے:
1/ اللہ تعالی کے سوا جن کی تم عبادت کرتے ہو وہ تمہین روزی دینے کا اختیار نہیں رکھتے۔ رزق اللہ تعالی کے پاس تلاش کرو اسی کی عبادت کرو اور اسی کا شکر کرو، کیونکہ پلٹ کر اسی کی طرف جانا ہے۔
(العنکبوت: 29/17)
بھوک میں صرف اللہ تعالی کھلاتا پلاتا ہے:
1/ (ابراھیم علیہ السلام نے کہا) اور وہی اللہ تعالی مجھے کھالاتا اور پلاتا ہے اور جب میں بیمار ہوتا ہوں شفا بھی وہی عطا کرتا ہے۔
(الشعرا= 26/ 79-80)
2/ اگر اللہ تعالی رزق روک لے تو کوئی ہے جو تم کو روزی دے سکے۔
( ملک: 67/21)

بھائیو! یہ ہے اسلامی عقیدہ جس سے صاف پتہ چلتا ہے ہے کہ پکارنے والے کی پکار، ضرورتمندوں کی ضرورتیں، بھوکوں کو رزق، بیماروں کو شفاء صرف اللہ تعالی عطا کرتا ہے اس کے علاوہ کوئی نبی، ولی، قبر والے کی پکار نہیں سن سکتے- اگر بالفرض سن بھی لیں تو مدد نہیں کرسکتے۔ لہذا اپنی ضرورتین لے کر اللہ تعالی کے سامنے پیش کرنا چاہیے نہ کہ بے اختیار قبر والوں کے پاس۔ (قبر کسی نبی کی ہو یا کسی ولی کی)
بھائیو! فضائل اعمال میں اس قسم کے بہت سے واقعات ہیں۔ یہاں میں نے صرف چند کو مثال کے طور پر بیان کیا ہے اللہ ایسے مشرکانہ عقیدے سے بچائے اور ہمیں اللہ تعالی کے حکموں اور نبی ۖ کے طریقوں پر عمل کرنے کی توفیق دے۔ آمین
والسلام علیکم
 
شمولیت
اگست 11، 2013
پیغامات
17,117
ری ایکشن اسکور
6,800
پوائنٹ
1,069
تلمیذ بھائی تکفیر کا مسلہ آپ اس سے سمجھ لے

ایک کفن چورکے متعلق لکھا ہے کہ اس نے ایک قبر کھودی تو اندر سے ایک شخص تخت پر بیٹھے قرآن پاک سامنے رکھے تلاوت میں مصروف نظر آئے نیچے نہر چل رہی تھی یہ بے ہوش ہو کر گر پڑا ۔لوگوںنے اسے قبر سے نکالا تین دن بعد ہوش آیا اور قصہ سنایا بعض لوگوں نے اسکی قبر دیکھنے کی تمنا کی ۔اس سے پوچھا کہ قبر بتا دے ۔اس نے ارادہ بھی کیا کہ ان کو لیجا کر قبر دکھاؤں۔ رات کو خواب میں ان قبر والے بزرگ کو دیکھا کہہ رہے ہیں اگر تو نے میری قبر بتائی تو ایسی آفتوں میں پھنس جائے گا کہ یاد کرے گا۔
(فضائل صدقات حصہ دوم ص 659)
اس قصہ کا جھوٹ ہونا خود اسی قصہ سے ظاہر ہو رہا ہے ۔ایک طرف لوگوں نے اسے قبر سے نکالا اور دوسری طرف لوگوں نے اس سے قبر کا پتہ پوچھا ۔
مشہور بزرگ ابن الجلاءفرماتے ہیں میرے والد کا انتقال ہوا ۔انہیں نہلانے کیلئے تختہ پر رکھا گیا تو وہ ہنسنے لگے نہلانے والے چھوڑ کر چل دیئے ۔
( فضائل صدقات حصہ دوم ص660)
ایک بزرگ کہتے ہیں کہ میں نے ایک مرید کو غسل دیا اس نے میرا انگوٹھا پکڑلیا۔میں نے کہا میرا انگوٹھا چھوڑ دو مجھے معلوم ہے کہ تو مرا نہیں بلکہ یہ ایک مکان سے دوسرے مکان میں انتقال ہے ۔ اس نے میر ا انگوٹھا چھوڑ دیا ۔
( فضائل صدقات حصہ دوم ص660)
غور فرمائیں کیا دین اسلام میں روایت کرنے کا یہی طریقہ ہے کہ ایک بزرگ فرماتے ہیں ان بزرگ کا نام و نشان تک نہیں آخر روایت بیان کرنے کیلئے کو ئی تو اصول ہونا چاہئے ۔
شیخ ابو یعقوب سنو سی کہتے ہیں میرے پاس ایک مرید آیا اور کہنے لگا میں کل ظہر کے وقت مر جاؤں گا ۔ چنانچہ وہ واقعی مر گیا میں نے اسے غسل دیا اور دفن کیا ۔جب میں نے اسے قبر میں رکھا تو اس نے آنکھیں کھول دیں میںنے کہا مرنے کے بعد بھی زندگی ہے کہنے لگا میں زندہ ہوں اور اللہ کا ہر عاشق زندہ ہی رہتا ہے ۔
( فضائل صدقات حصہ دوم ص660)
ابو سعید خزار کہتے ہیں مکہ مکرمہ میں باب بنی شیبہ کے باہر مجھے خوبصورت آدمی کی میت پڑی نظر آئی۔میں نے اسے غور سے دیکھا تو وہ ہنسنے لگا ۔
فضائل صدقات حصہ دوم ص671)
کیا ان واقعات کو ماننے سے قرآن کریم کا انکار لازم نہیں آتا ؟ فیصلہ قارئین پر ہے ۔
اللہ سے سب کچھ ہونے کا یقین اور غیروں سے کچھ نہ ہونے کا یقین دلوں میں کیسے آتا ہے ؟
سفیان ثوری ایک شخص سے ملتے ہیں اور اس سے ہر قدم پر درود پڑھنے کی وجہ پوچھتے ہیں تو وہ بتاتا ہے کہ میں اور میرے والد حج کو جارہے تھے راستے میں ان کا انتقال ہو گیا اور منہ کالا ہو گیا میں دیکھ کر بڑا رنجیدہ ہوااور انا للہ پڑھی اور کپڑے سے انکا منہ ڈھک دیا اتنے میںمیری آنکھ لگ گئی ۔میں نے خواب میں دیکھا کہ ایک صاحب بہت زیادہ حسین ' صاف ستھرا لباس اور بہترین خوشبو میں تیزی سے قدم بڑھائے چلے آرہے ہیں۔انہوں نے میرے باپ کے منہ پر سے کپڑا ہٹایا اور اسکے چہرے پر ہاتھ پھیرا تو اس کا چہرہ سفید ہو گیا۔واپس جانے لگے تو میں نے انکا جلدی سے کپڑا پکڑ لیا اور میں نے کہا اللہ تعالیٰ آپ پر رحم کرے آپ کو ن ہیں کہ آپ کی وجہ سے اللہ تعالیٰ نے میرے باپ پر مسافرت میں احسان فرمایا ۔ وہ کہنے لگے تو مجھے نہیں پہنچانتا ؟ میں محمد بن عبداللہ صلی اللہ علیہ وسلم صاحب قرآن ہوں یہ تیرا باپ بڑا گنہگار تھا لیکن مجھ پر کثرت سے درود بھیجا کرتا تھا جب اس پر یہ مصیبت نازل ہوئی تو میں اسکی فریاد کو پہنچا اور میں ہراس شخص کی فریاد کو پہنچتا ہوں جو مجھ پرکثرت سے درود بھیجے ۔
( فضائل درود فصل پنجم واقعہ نمبر 43ص 102)
سفیان ثوری ایک نوجوان سے ملتے ہیں اور اس سے ہر قدم پر درود پڑھنے کی وجہ پوچھتے ہیں تو وہ بتاتا ہے کہ میں اور میری والدہ حج کو جارہے تھے ۔میری ماں وہیں رہ گئی (یعنی مر گئی ) اور اسکامنہ کالا ہو گیا اور اس کا پیٹ پھول گیا جس سے مجھے یہ اندازہ ہو گیا کہ کوئی سخت گناہ ہو گیا ۔ اس سے میں نے اللہ جل شانہ کی طرف دعا کے لئے ہاتھ اٹھائے تو میںنے دیکھا کہ تہامہ (حجاز ) سے ایک ابر آیا اس سے ایک آدمی ظاہر ہوا اس نے اپنا مبارک ہاتھ میری ماں کے منہ پر پھیرا جس سے وہ بالکل روشن ہو گیا اور پیٹ پر ہاتھ پھیرا تو ورم بالکل جاتا رہا۔میں نے ان سے عرض کیا آپ کون ہیں ؟ کہ میری اور میری ماں کی مصیبت دور کی۔انہوں نے فرمایا میں تیرا نبی صلی اللہ علیہ وسلم ہوں ۔
( فضائل درود فصل پنجم واقعہ46 ص104)
ان واقعات سے تبلیغی جماعت اور بریلویت ایک ہو جاتے ہیں ۔نیز گستاخی کی بھی حد کر دی کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مردہ عورت کے منہ اور پیٹ پر ہاتھ پھیرا۔(استغفراللہ)

بھائی اللہ ھم سب کو دین کی صحیح سمجھ دیں آمین
 

lovelyalltime

سینئر رکن
شمولیت
مارچ 28، 2012
پیغامات
3,735
ری ایکشن اسکور
2,899
پوائنٹ
436

فضائل اعمال میں جو من گھڑت اور بیہودہ واقعات درج ہیں - ان کو نکال کیوں نہیں دیا جاتا - اگر بابوں نے غلط لکھ دیا ہے تو اس کو تحفظ دینے کے بجانے اس کا رد کرنا چاہیے - لکن تبلیغی جماعت ابھی بھی اپنی بغلوں میں اس کتاب کو دبائے درس وتدریس میں مشغول ہے


کیا یہ والے عقائد اسلام میں ہیں
کیا یہ لوگ اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ وسلم
دشمن نہیں

 

عزمی

رکن
شمولیت
جون 30، 2013
پیغامات
190
ری ایکشن اسکور
304
پوائنٹ
43
ایک سانس والی بات میں 100٪ اتفاق کرتا ہوں۔ کیونکہ میں ایسے صاحب کو جانتا ہوں بوجہ مجبوری انکا نام نہیں لے سکتا، اس کے لیے معذرت وہ ایک سانس میں سورۃ المزمل پڑھ لیتے ہیں۔ ایک بار نہیں بلکہ ایک سے زائد بار
اگر بندہ سورۃ المزمل پڑھ سکتا ہے ایک سانس میں تو دو سومرتبہ لا الہ الا اللہ بھی پڑھ سکتا ہے۔
اصل میں حسن بھائی معترض کو کچھ علم کی ہوا بھی نہیں لگی ہے ،ان جہلاء کو تو اتنا بھی پتا نہیں سانس سے ذکر نہیں ہو سکتا ،وہ جو بات ہے ،اصل میں شاہ ولی اللہؒ کی ہے ،اور پاس انفاس طریقہ کا ذکر ہے۔ان کا تو نہ کچھ مطالعہ اور نہ تحقیق ۔بس کئی پیسٹ کر لیتے ہیں ۔
 

حسن شبیر

مشہور رکن
شمولیت
مئی 18، 2013
پیغامات
802
ری ایکشن اسکور
1,834
پوائنٹ
196
اصل میں حسن بھائی معترض کو کچھ علم کی ہوا بھی نہیں لگی ہے ،ان جہلاء کو تو اتنا بھی پتا نہیں سانس سے ذکر نہیں ہو سکتا ،وہ جو بات ہے ،اصل میں شاہ ولی اللہؒ کی ہے ،اور پاس انفاس طریقہ کا ذکر ہے۔ان کا تو نہ کچھ مطالعہ اور نہ تحقیق ۔بس کئی پیسٹ کر لیتے ہیں ۔
بس جی کل کا یہی کچھ دیکھ رہے ہیں۔ایک دوسرے کو غلظ ثابت کرنے کی بھرپور کوشش کی جا رہی ہے۔ اللہ ہم پر رحم کرے بس۔
 

عزمی

رکن
شمولیت
جون 30، 2013
پیغامات
190
ری ایکشن اسکور
304
پوائنٹ
43
تلمیذ بھا ئی اس کو بھی پڑھ لے -

استاد محترم شیخ حافظ زبیر علی زئی حفظہ اللہ نے بے شمار مقامات پر وضاحت کی ہے کہ کوئی میری غلط بات کی طرف میری رہنمائی کرے اگر اس کی بات صحیح ہوئی تو مجھے علانیہ رجوع کرنے میں عار نہیں ہو گی ۔
اور وہ بے شمار تحقیقات سے رجوع اکثر کرتے رہتے ہیں ۔یہی وصف ہونا چاہئے اہل علم میں ۔
استاد محترم کے رجوع اس قدر زیادہ ہیں کہ مستقل کتاب جمع کی جا سکتی ہے اللھم یسر لاحد
اچھا آپ مقلد زبیر علی زی ہیں ۔تو پھر جو چاہو لکھو ،آپکا قصور نہیں ،جیسا استاد ویسا شاگرد ہوگا۔
 

تلمیذ

مشہور رکن
شمولیت
ستمبر 12، 2011
پیغامات
765
ری ایکشن اسکور
1,506
پوائنٹ
191
عرض ہے کہ اگر واقعہ جھوٹا نہیں ہے تو اس کی سند تو ضرور ہی ہونی چاہئے۔ سند کا اہتمام نہ کرنے کا ہی یہ نتیجہ ہے کہ لوگوں کا جو دل آتا ہے نقل کئے جاتے ہیں۔ جیسا کسی محدث کا ہی قول ہے (نام مجھے فی الوقت یاد نہیں) کہ اگر سند نہ ہو تو جس کے جو جی میں آئے بیان کر دے لیکن جب بیان کرنے والے سے سند پوچھی جاتی ہے تو وہ خاموش ہو جاتا ہے۔ اگر تو ثقہ سے ثقہ روایت کرے تو واقعہ بھی حجت اور دلیل ہو گا لیکن بیان کرنے والے اور جس سے بیان کیا جا رہا ہے دونوں کی توثیق ثابت نہ ہو تو ایسے واقعے کو کیا کہیں گے؟؟
محترم ایک واقعہ کے سلسلے میں کچھ موقف ہوتے ہیں
اول واقعہ کو صحیح سمجھنا اس صورت میں واقعہ کو حجت سمجھا جاتا ہے
دوم ظن غالب رکھنا کہ واقعہ صحیح ہو گآ
سوم سکوت یعنی واقعہ کو صحیح نہ سمجھنا ۔ لیکن اس صورت میں واقعہ کو جھوٹا بھی نہیں قرار دیا جاتا
چہارم واقعہ کو من گھڑت سمجھنا ۔
اب میں سمجھنے سے قاصر ہوں کہ آپ قرطبی والے واقعہ کو کس درجہ میں رکھ رہے ہیں ، وضاحت فرمادیں

ایک بار اس کو آپ نے من گھڑت کہا تو میں نے دلیل مانگی تو آپ نے کہا
جہاں تک فضائل اعمال کے واقعے کا تعلق ہے تو اس کو صحیح ماننے سے میں اس لئے عاجز ہوں کہ میرے پاس اس کو صحیح ماننے کی کوئی دلیل نہیں۔
اگر تو آپ اس کو درجہ سوم میں رکھتے ہیں تو مجھے آپ سے کوئی تعارض نہیں اس صورت میں آپ اسے من گھڑت نہیں کہ سکتے
اگر درجہ چہارم میں رکھیں گے تو آپ سے دلیل مانگی جائے گي
لیکن جہاں تک آپ نے اسے حجت اور دلیل کہا ہے تو یہ نتیجہ آپ نے کہاں سے اخذ کیا کہ ہم اس واقعہ سے حجت یا دلیل پکڑ رہیں ۔ ذرا بتائيں گے ہم نے کون سی فرض یا واجب یا سنت اس واقعہ سے اخذ کی ؟؟؟


الحمد للہ میری ذاتی کوشش یہ ہوتی ہے کہ یا تو موضوع کے مطابق جواب دیا جائے یا پھر خاموش رہا جائے۔
میں نے جو یہ کہا تھا کہ
یا اپنے من پسند نظریات کشید کرکے مخالف پر لگئے جائيں جیسے صاحب مضمون نے تبلیغی جماعت پر مذکورہ واقعہ سے تکفیریت کا الزام لگایا اور اپنے الزام کو ثابت نہ کرکے بوکھلا گے اور مزکورہ واقعہ سے متعلق کوئی جواب نہ دے سکے اور موضوع سے ہٹ کر دیگر پوسٹ کرنا شروع کردیں
یہ میں نے صاحب مضمون کے متعلق کہا تھا جو ابھی جس موضوع پر تھریڈ شروع ہوا تھا اس سے غیر متعلق پوسٹ کاپی پیسٹ کیے جارہے ہیں ۔ آپ کی ابھی تک پوسٹس موضوع سے متعلق ہیں ، اس لئیے جواب دے رہا ہوں
 

تلمیذ

مشہور رکن
شمولیت
ستمبر 12، 2011
پیغامات
765
ری ایکشن اسکور
1,506
پوائنٹ
191
کیا سنت سے ثابت اذکار کو اپنے بنائے ہوئے طریقوں سے کرنا جائز ہو جائے گا؟ جبکہ سنن دارمی کی حدیث جس میں کچھ لوگوں کا ذکر ہے جو حلقہ بنا کر مسجد نبوی میں ذکر کیا کرتے تھے، آپکی اس بات کے خلاف ہے۔ وہاں تو حضرت عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ نے ان کو بڑے سخت الفاظ میں تنبیہ فرمائی ہے۔ آپ رضی اللہ عنہ کے الفاظ یہ ہیں
"یا تو تم نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے بھی عمل میں بڑح گئے ہو یا پھر تم گمراہ ہو گئے ہو"
محترم جن لوگوں کو عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ نے تنبیہ کی تھی انہوں نے اپنے طریق کو سنت اور شرعیت سمجھ لیا تھا اور یہاں ایک سانس میں دو سو بار ذکر کرنے کو کسی نے شریعت کا حصہ نہیں قرار دیا بلکہ یہ ایک انتظامی صورت تھی جیسا کہ پہلے وضاحت کی گئی ہے ۔
قول رسول کو جاننا شریعت کا حصہ ہے لیکن بخاری و ترمذی وغیرہ کے لغيے حصص بانٹنا اس شریعت کے حصول کو ذریعہ ہے ۔ اسی طرح ذکر کے مقرر کردہ طریق و تعداد اللہ کی یاد کو منور کو کرنے کا ذریعہ ہے سنت نہیں ، یہ انتظامی امور میں سے ہیں

اگر یہ سنت نہیں تو پھر بدعت ہے؟؟ اور اگر یہ بدعت نہیں تو پھر کس چیز کو بدعت کہیں گے؟؟
محترم جس عمل کو شریعت کا حصہ قرار دیا جا رہا ہو اس عمل کے متعلق تو ہم کہ سکتے ہیں اگر یہ سنت نہیں تو بدعت ہو گا جو انتظامی امور سے متعلق ہوں ان کے متعلق اس طرح کہنا صرف وساوس پھیلانا ہے
مدارس میں جو بخاری اور ترمذی یا دوسری حدیث کی کتب کے لئیے جو سال اور حصص مقرر ہیں ۔ یہ تقرری کیا سنت ہے اگر ہے تو اس تقرری کو حدیث سے ثابت کریں اگر سنت نہ ثابت نہ کر سکیں تو کیا میں یہ کہوں کہ اگر یہ سنت نہیں تو پھر بدعت ہے؟؟ اور اگر یہ بدعت نہیں تو پھر کس چیز کو بدعت کہیں گے؟؟ فما کان جوابکم فھو جوابنا
 
شمولیت
اگست 11، 2013
پیغامات
17,117
ری ایکشن اسکور
6,800
پوائنٹ
1,069
محترم جن لوگوں کو عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ نے تنبیہ کی تھی انہوں نے اپنے طریق کو سنت اور شرعیت سمجھ لیا تھا اور یہاں ایک سانس میں دو سو بار ذکر کرنے کو کسی نے شریعت کا حصہ نہیں قرار دیا بلکہ یہ ایک انتظامی صورت تھی جیسا کہ پہلے وضاحت کی گئی ہے ۔
قول رسول کو جاننا شریعت کا حصہ ہے لیکن بخاری و ترمذی وغیرہ کے لغيے حصص بانٹنا اس شریعت کے حصول کو ذریعہ ہے ۔ اسی طرح ذکر کے مقرر کردہ طریق و تعداد اللہ کی یاد کو منور کو کرنے کا ذریعہ ہے سنت نہیں ، یہ انتظامی امور میں سے ہیں


محترم جس عمل کو شریعت کا حصہ قرار دیا جا رہا ہو اس عمل کے متعلق تو ہم کہ سکتے ہیں اگر یہ سنت نہیں تو بدعت ہو گا جو انتظامی امور سے متعلق ہوں ان کے متعلق اس طرح کہنا صرف وساوس پھیلانا ہے
مدارس میں جو بخاری اور ترمذی یا دوسری حدیث کی کتب کے لئیے جو سال اور حصص مقرر ہیں ۔ یہ تقرری کیا سنت ہے اگر ہے تو اس تقرری کو حدیث سے ثابت کریں اگر سنت نہ ثابت نہ کر سکیں تو کیا میں یہ کہوں کہ اگر یہ سنت نہیں تو پھر بدعت ہے؟؟ اور اگر یہ بدعت نہیں تو پھر کس چیز کو بدعت کہیں گے؟؟ فما کان جوابکم فھو جوابنا
ذِکر و اذکار میں گنتی متعین کرنا!!!

دین اسلام میں ذکر الٰہی کی بہت زیادہ فضیلت و اہمیت ہے۔ بہت ساری نصوص میں ذاکرین کی تعریف اور ان کے لیے بہت سے سارے دنیوی و اخروی انعامات کا وعدہ کیا گیا ہے۔ ذکر کرنے کے سلسلے میں دین اسلام نے ہمیں کچھ اصول بھی دئیے ہیں جن کا لحاظ رکھنا از حد ضروری ہے۔ لیکن اس سلسلہ میں بدقسمتی یہ ہے کہ مسلمانوں میں صاحبان جبہ و دستار ذکر کے نام پر بدعات کے فروغ میں مصروف عمل ہیں۔ کوئی روزانہ اکتالیس بار سورۃ یٰسین پڑھنے کو امتحان میں کامیاب ہونے کی ضمانت قرار دے رہا ہوتا ہے تو کوئی ایک ہزار مرتبہ روزانہ درود پڑھنے پر گھر بسنے کے نوید سنا رہا ہوتا ہے۔اور تو اور کئی دفعہ ایسے ذکر بھی سننے کو مل جاتے ہیں جن میں ایسے الفاظ شامل ہوتے ہیں جن کا عربی میں وجود ہی نہیں ہے۔ ذکر و اذکار میں گنتی متعین کر لینے سے متعلق حافظ ثناء اللہ مدنی حفظہ اللہ کا ایک فتویٰ نقل کر رہا ہوں جو اگرچہ مختصر سا ہے لیکن قابل غور ہے۔
حافظ صاحب سے سوال کیا گیا کہ ذکر میں اپنی طرف سے گنتی متعین کرنےکا کیا حکم ہے؟
تو آپ کا جواب تھا:
ذکر و اذکار اور ورد و وظائف کے سلسلہ میں اصل یہ ہے کہ کتاب و سنت کی نصوص میں جہاں کہیں تعداد اور وقت کا تعین ہے، وہاں ان کا اہتمام ہونا چاہیےاور جس جگہ ان کو مطلق چھوڑا گیا ہے وہاں اپنی طرف سے متعین کرنا بدعت کے زمرہ میں شامل ہے۔ صحیح حدیث میں ہے:
''من أحدث في أمرنا هذا ما ليس منه فهو رد''
''جو دین میں اضافہ کرے وہ اضافہ ناقابل قبول ہے۔''
مسنون وِرد و وظائف میں گنتی سو سے زیادہ منقول نہیں ہے۔ علامہ البانی نے سلسلۃ الاحادیث الصحیحۃ میں اس امر کی تصریح کی ہے۔
[ماہنامہ محدث : اگست 1999]
 
Top