آپ ابھی تک اسی جذباتی گفتگو کو بنیاد بنا کر طویل تحریریں پیش کر رہے ہیں۔ آپ کی ساری گفتگو کا خلاصہ صرف اتنا ہے کہ ’حضرت عمر بھلا سنت سے ثابت شدہ کسی حکم کی مخالفت میں کوئی حکم کیسے جاری کر سکتے ہیں؟
جزاک اللہ راجا بھائی، یہی میرا مقصود ہے۔ مگر جذباتیت کی بات غلط ہے ، میری ساری تحریریں ٹھوس دلائل کے ساتھ موجود ہیں۔
دو مثالیں پہلے دے چکا ہوں۔ جن کا کوئی جواب آپ کے پاس نہیں کہ متعہ جیسے سنگین مسئلے پر ایک صحابی فتویٰ دیتے ہیں۔
اس کا جواب دے چکا ہوں کہ اس حدیث پر بے شمار اعتراضات ہیں، اور یہ دلیل رافضی حضرات کی تو ہو سکتی ہے آپ کی نہیں اگر یہ آپ کی دلیل ہے تو اس کی وجہ سے آپ کا ایک مجلس کی تین طلاق والا موقف بھی کمزور ثابت ہوتا ہے، کیونکہ دونوں روایات میں بہت مماثلت ہے۔
١۔ آپ کیونکر دو ایک جیسے مضمون والی روایات میں سے ایک تو چن لیتے ہیں اور ایک کو چھوڑ دیتے ہیں؟
۲۔دونوں روایات میں فیصلہ کن کردار سیدنا عمر رضی اللہ عنہ کا نظر آتا ہے؟
۳۔آپ کیوں ایک میں تو سیدنا عمر رضی اللہ عنہ کے فیصلے کو تسلیم کرتے نظر آتے ہیں اور دوسری کو خلاف سنت قرار دیتے ہیں؟
۴۔ رافضیت کے آزمودہ دلائل دے کر آپ کیا ثابت کرنا چاہتے ہیں کہ میں آپ سے متعہ کی حرمت پر بات چیت کروں ؟
۵۔ حقیقت یہ ہے کہ ایک مجلس کی تین طلاق کو ایک کہنا سب سے پہلے رافضیت کا ہی شعار تھا اور یہ بعینہ انہی کے دلائل ہیں جو آپ دے رہے ہیں ؟ جس کا درحقیقت مجھے دکھ ہے ؟
٦۔ آپ کے بیان کردہ تمام دلائل اجماع صحابہ و امت سے متصادم ہیں، اور اہل سنت والجماعت کے نزدیک ان میں سے کوئی مسئلہ اختلافی نہیں رہا، نہ متعہ، نہ جمع قرآن اور کیا قرآن ہے اور کیا نہیں،اور نہ ہی جنگ جمل و صفین یہ تمام مسائل اہل سنت والجماعت کے نزدیک طے شدہ ہیں اور اجماع سے ان کا ایک طے شدہ موقف موجود ہے لہذا ان پر بات رافضی حضرات تو کرتے ہیں اہل سنت والجماعت کا کوئی فرد نہیں کرتا۔
۷۔ اللہ کے فضل و کرم سے مسئلہ متعہ پر ایک معاصر فورم میں رافضی حضرات سے تفصیلا گفتگو ہو چکی ہے ، جس میں آپ کے پیش کردہ تمام دلائل پر سیر حاصل بحث ہو چکی ہے جہاں باذوق نے بھی شرکت کی تھی ، اور اس کا دفاع کیا تھا ، اور الحمد للہ اہل سنت والجماعت کا موقف حق ثابت ہوا ، سبحان اللہ کیا خبر تھی کہ وہاں رافضیت کو دیے گئے جوابات ایک اہل سنت کے فورم پر بھی دینے پڑیں گے۔
حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ پر حرمت متعہ کا فتویٰ دینے کا رافضی اتہام
متعہ والی بحث میں معاصر فورم پر نکاح المتعہ کا تعارف والے دھاگہ کے صفحہ 5 پر باذوق بھائی کا جواب اللہ انہیں جزائے خیر دے۔
ایک بات آپ کو یہ ضرور یاد دلا دوں کہ : متعہ کے موضوع پر اہل سنت کے تمام ائمہ و فقہا کا اجماع ہے کہ یہ اب قیامت تک کے لیے حرام قرار دیا جا چکا ہے۔ یقین رکھئے کہ کسی کی ہزار لاکھ صفحات والی تحقیق نہ اہل سنت کو پریشان کر سکتی ہے اور نہ کنفیوز۔محققینِ فورم بےشک اپنی "مرضی کی تحقیق" جاری رکھیں۔
باقی مزید تفصیل درج ذیل ہے۔
علامہ نیشا پوری المتوفی 728ھ فرماتے ہیں:
ان الناس لما ذکروا الاشعار فی فتیا ابن عباس فی المتعۃ قال قاتلھم اللہ الی ما افتیت با باحتھا علی الاطلاق لکنی قلت انھا تحل للمضطر کما تحل المیتۃ والدم ولحم الخنزیر۔
"جب لوگوں نے ابن عباس کے فتویٰ کی وجہ سے ان کی ہجو میں اشعار کہے تو انہوں نے کہا: خدا ان کو ہلاک کرے،میں نے علی الاطلاق متعہ کی اباحت کا فتوی نہیں دیا، بلکہ میں نے کہا تھا کہ متعہ مضطر کے لیے حلال ہے جیسے مُردار،خنزیر اور خون کا حکم ہے۔
اس روایت کو ابو بکر رازی الجصاص نے "احکام القرآن"ج2ص147 پر اور ابن ہمام المتوفی 861ھ نے "فتح القدیر" ج2ص386 اور علامی آلوسی المتوفی 1270ھ نے "روح المعانی" جز5ص6پر ذکر کیا ہے۔
حضرت ابن عباس کا مضطر کے لیے اباحت متعہ کا فتویٰ دینا بھی ان کی اجتہادی خطاء پر مبنی تھا اور جب ان پر حق واضح ہوگیا تو انہوں نے اس فتویٰ سے رجوع کرلیا اور اللہ تعالی سے توبہ کی، چنانچہ علامہ نیشاپوری لکھتے ہیں:
انہ رجع عن ذالک عند موتہ وقال انی اتوب الیک فی الصرف والمتعۃ (غرآئب القرآن جز5ص16﴾
"ابن عباس نے اپنے مرنے سے پہلے اپنے فتویٰ سے رجوع کیا اور کہا:میں صرف اور متعہ سے رجوع کرتا ہوں۔
"فالصحح حکایت من حکی عنہ الرجوع عنھا" "صحیح روایت یہ ہے کہ حضرت ابن عباس نے جواز متعہ سے رجوع کرلیا تھا"۔
نیز فرماتے ہیں:
"نزل عن قولہ فی الصرف و قولہ فی المتعۃ"(احکام القرآن ج6ص147-179)"ابن عباس سے صرف اور متعہ سے رجوع کرلیا تھا""۔
علامہ بدر الدین عینی المتوفی 855ھ نے “عمدۃ القاری“ جز 17 ص 246 پر اور علامہ ابن حجر عسقلانی المتوفی 852ھ نے “فتح الباری“ ج11 ص77 پر حضرت ابن عباس کا متعہ سے رجوع بیان فرمایا ہے
اور اہلسنت کے تمام محقیقین نے اسی پر اعتماد کا اظہار فرمایا ہے، پھر کس قدر حیرت اور افسوس کی بات ہے کہ جس بات سے حضرت ابن عباس رجوع فرماچکے ہیں اسے ان کا مسلک قراردے کر اس کی بنیاد پر اپنے مسلک کی دیوار استوار کی جائے۔
میرا خیال اتنا کافی اگر اب بھی آپ کہیں کہ میں نے ان دلائل کا جواب نہیں دیا تو خادم حاضر ہے ، مگر میرے خیال میں باذوق بھائی کا جواب ان تمام دلائل کا شافی و کافی جواب ہے۔
ابو الحسن علوی بھائی نے آپ کو سمجھایا کہ شریعت کا مذاق اڑانے والے کے لئے یہ حکم بیان کیا گیا ہے۔ اور وہ بھی اس دور میں جب یہ مذاق اڑانا لوگوں کا معمول بن گیا تھا۔ آپ ان کے سمجھانے کے باوجود مانع کی اصطلاح کو حلال و حرام سمجھ رہے ہیں۔ اور پھر مطالبہ کر رہے ہیں کہ حلال عورت حرام ہوئی یا نہیں۔ ارے بھائی، حلال بکری بھی چوری کے گناہ کے ساتھ حرام ہو جاتی ہے۔ اگر حلال عورت شریعت کا مذاق اڑانے جیسے سنگین گناہ کی وجہ سے حرام قرار دی جائے تو ؟؟
سبحان اللہ جو بات قرون خیر میں معمول بن گئی تھی کہ بقول آپ کے مانع کی اصطلاح کی زد میں آ گئی وہ اس موجودہ دور فتن میں خیر میں کس طرح تبدیل ہو گئی، اور کیا اس دور میں یہ مذاق اڑانا لوگوں کو معمول بن گیا تھا اور اب مذاق نہیں اڑایا جاتا،
تو کیا ایک خلیفہ راشد کی سنت و اجماع صحابہ کو ختم کرنے والی اتھارٹی کے بارے میں آپ بتا سکتے ہیں؟؟؟
یاد رہے ہمیں حکم دیا گیا ہے کہ خلفاء راشدین مہدیین کی سنت کو دانتوں سے پکڑے رہیں۔
باقی اس جذباتی فضا سے باہر نکل کر دیکھیں گے تو ١٩٧١ میں تمام مکاتب فکر کے علمائے کرام کی اس موضوع پر ایک کانفرنس ہو چکی ہے۔
تو کیا یہ اجماع امت ہو گیا جس سے کہ بقول آپ کے حضرت عمر رضی اللہ عنہ کا فتویٰ جو کہ شریعت کا مذاق اڑانے والوں کے لیے تھا ختم ہو گیا۔
اور کیا آپ کے اس اجماع امت کے مقابلے میں ائمہ اربعہ کا اجماع زیادہ وزنی نہیں ؟؟؟؟؟؟
یعنی قرآن و صحیح حدیث سے اگر یہ ثابت ہو جائے کہ ایک مجلس کی تین طلاقیں تین ہی واقع ہوتی ہیں تو اسے مان لیا جائے ورنہ ایک طلاق والے موقف کو مان لیں۔ اگر آپ متفق ہیں تو اپنا موقف قرآن اور صحیح احادیث سے پیش کیجئے۔
پھر وہی بات کہ قرآن و سنت سے ثابت کریں؟
تو کیا آپ کے خیال میں خلیفہ راشد کا فیصلہ قرآن و سنت سے ثابت نہیں؟
ثابت تو وہ چیز کی جائے کہ جس میں تحقیق نہ ہوئی ہو اور جس میں ہمارے سامنے کوئی مثال یا عمل نہ ہو اب دیکھیے میرے پاس دلائل کیا ہیں ؟
١۔ سنت نبوی صلی اللہ علیہ وسلم
۲۔ خلیفہ راشد سیدنا عمر رضی اللہ عنہ کا نفاذ سنت کا فیصلہ۔
۳۔ اجماع صحابہ۔
۴۔پورے دور عمر رضی اللہ عنہ اور بعد میں سکوت صحابہ۔
۵۔ خلفائے بعد عثمان و علی رضی اللہ عنہم کا عمل۔
٦۔ ائمہ اربعہ کا اجماع۔
۷۔ جمہور علمائے امت کا موقف۔
آپ ان میں سے کس کس دلیل کا رد کرتے ہیں ، اس اس کا واضح ذکر کریں میں ان شاء اللہ سب کا جواب دوں گا۔
اور طالب نور بھائی
ورنہ کیا صحابہ کرام کے عدول ہونے کا مطلب یہ ہے کہ وہ معصوم تھے۔۔۔؟اور ان سے غلطی ممکن نہ تھی۔۔۔؟ تو یہ اہلسنت کا مسلک و مذہب ہرگز نہیں ۔
غلطی سے آپ کی کیا مراد ہے، کیا ایسے فیصلے کو غلطی کہا جا سکتا ہے کہ جو بے شمار صحابہ کی موجودگی میں پورے دور عمر میں جاری و ساری رہی، اور کسی کو احساس نہ ہو سکا کہ غلطی ہو گئی، اور اس کی تردید جاری کی جائے۔
اب آخر میں یہ بھی عرض کرتا چلوں کہ سیدنا عمر رضی اللہ عنہ کا اپنے دور میں حج تمتع پر پابندی عائد کرنا انتہائی مشہور و معروف ہے۔
پھر معذرت کے ساتھ کے یہ مسئلہ بھی رافضی حضرات کی پسندیدہ دلیل ہے اور اہل سنت والجماعت کے نزدیک طے شدہ ہے اورکوئی فریق بھی اس کے خلاف بات نہیں کرتا ۔
آپ ان کے سمجھانے کے باوجود مانع کی اصطلاح کو حلال و حرام سمجھ رہے ہیں۔ اور پھر مطالبہ کر رہے ہیں کہ حلال عورت حرام ہوئی یا نہیں۔ ارے بھائی، حلال بکری بھی چوری کے گناہ کے ساتھ حرام ہو جاتی ہے۔ اگر حلال عورت شریعت کا مذاق اڑانے جیسے سنگین گناہ کی وجہ سے حرام قرار دی جائے تو ؟
افسوس کے ساتھ مگر آ پ کا یہ جواب حقائق سے بہت دور اور موضوع سے میل نہیں کھاتا۔ مانع کیا ہے میں آپ سے قرآن و سنت سے دلائل مانگتا ہوں، کہ کس کو حق ہے یہ کہنے کا کہ یہ حلال ہے یہ حرام، کون ہے جس نے مظطر کو بقدر ضرورت مردار کھانے کی اجازت دی۔
اور میں نے نہایت تفصیل سے جواب دیا کہ اس مانع سے اللہ کی مقرر کی ہوئی حلت متاثر ہوتی ہے اور حرمت میں تبدیل ہو جاتی ہے، لہزا یہ مانع قرآن و سنت کی تعلمیات کے خلاف ہے، کوئی بھی ایسا حکم جاری نہیں کر سکتا کہ جس سے اللہ کے حلال و حرام میں تبدیلی واقع ہو،۔
دوسری بات کہ مجھے حیرت ہے کہ آپ بکری کی کیسے بیچ میں لے آئے ، بھائی جان عورت کو اگر بکری کی طرح کھانے پر قیاس کیا جائے تو پھر تو وہ ہر صورت میں حرام ہی حرام ہے، اور پھر یہ حرام کس نے کیا میں کر رہا ہوں یا کوئی اور امتی نہیں یہ اللہ کا حرام کیا ہوا ہے۔ اور پھر چوری کے گناہ کے ساتھ بکری حرام ہوتی ہے تو یہ حرام کس نے کیا؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟ خدارا کچھ تو دلیل و منطق کا سہارا لیں ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ یہ حرام بھی اللہ کا کیا ہوا ہے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔اور یہی میرا موقف ہے کہ کوئی امتی کوئی نبی بھی ایسا حکم دینے کا مجاز نہیں کہ جس سے شریعت کا حلال حرام ہو یا حرام حلال ہو۔
اللہ کے نبی کا فرمان ہے حرام بھی واضح ہے اور حلال بھی واضح۔