حد اعتدال سے تجاوز سے میری مراد عدم جواز کے قائلین کو مخالفین اجماع سمجھنا تھا ۔
شرجیل بن مسلم بیان کرتے ہیں:
” رَأَيْتُ خَمْسَةً مِنْ أَصْحَابِ رَسُولِ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَقُمُّونَ شَوَارِبَهُمْ وَيُعْفُونَ لِحَاهُمْ وَيَصُرُّونَهَا: أَبَا أُمَامَةَ الْبَاهِلِيَّ، وَالْحَجَّاجَ بْنَ عَامِرٍ الثُّمَالِيَّ، وَالْمِقْدَامَ بْنَ مَعْدِيكَرِبَ، وَعَبْدَ اللهِ بْنَ بُسْرٍ الْمَازِنِيَّ، وَعُتْبَةَ بْنَ عَبْدٍ السُّلَمِيَّ، كَانُوا يَقُمُّونَ مَعَ طَرَفِ الشَّفَةِ ”
’’ میں نے پانچ صحابہ کرام کو دیکھا کہ وہ مونچھوں کو کاٹتے تھے اور داڑھیوں کو چھوڑتے تھے اور ان کو رنگتے تھے ،سیدنا ابو امامہ الباہلی،سیدنا حجاج بن عامر الشمالی،سیدنا معدام بن معدی کرب،سیدنا عبداللہ بن بسر المازنی،سیدنا عتبہ بن عبد السلمی،وہ سب ہونٹ کے کنارے سے مونچھیں کاٹتے تھے۔‘‘
(المعجم الکبیر للطبرانی:۱۲،۳۲۱۸؍۲۶۲،مسند الشامین للطبرانی:۵۴۰،وسندہ حسن)
کاٹنے کاثبوت صرف دو صحابیوں سے دیا جاتا ہے ، جبکہ نہ کاٹنے کی صراحت اوپر پانچ صحابہ کرام سے پیش کی گئی ہے ۔ یہی حال بعد والے طبقات اور ازمنہ کا ہے ۔
خضر بھائی میرے خیال میں آپ نے میرے دلائل کوپڈھا نہیں،اعفاء کا معنی ایک مشت ہے، اور یہ معنی تمام صحابہ کرام نے مراد لیا ہے،پہلے میں اس کا لغوی معنی ذکر کرتا ہوں اس کے بعد صحابہ کرام کا عمل پیش کرتا ہوں:
پیش کی گئی روایت میں اعفاء کےمعنی کثرت اور توفیر کے ہیں، جیسا کہ اہل لغت نے اس کی نشان دہی کی ہے :
لسان العرب: (عفا القوم كثروا، وفي التنزيل: {حتى عفوا} أي كثروا، وعفا النبت والشعر وغيره يعفو فهو عاف: كثُر وطال، وفي الحديث: أنه - صلى الله عليه وسلم - أمر بإعفاء اللحى، هو أن يوفَّر شعرها ويُكَثَّر، ولا يقص كالشوارب، من عفا الشيء إذا كثر وزاد
(لسان العرب:75/15)
ابن دقیق العید نے اعفاء کے معنی تکثیر لکھے ہیں:
تَفْسِيرُ الْإِعْفَاءِ بِالتَّكْثِيرِ
(فتح الباری:351/10)
وقال القرطبي في (المفهم) (1/512) قال أبو عبيد: (يقال عفا الشيء إذا كثر وزاد)
شارح بخاری امام ابن بطال نے بھی اعفاء اللحیۃ کے معنی تکثیر اللحیۃ کیے ہیں۔
(شرح ابن بطال:146/9)
شارح بخاری حافظ ابن حجر توفیر کےمعنی بیان کرتے ہوئے لکھتے ہیں:
(وَفِّرُوا فَهُوَ بِتَشْدِيدِ الْفَاءِ مِنَ التَّوْفِيرِ وَهُوَ الْإِبْقَاءُ أَيِ اتْرُكُوهَا وَافِرَةً)
(فتح الباری:350/10)
توفیر کا معنی باقی رکھنا ہے،یعنی داڑی کو وافر مقدار میں باقی رکھو۔
شارح مشکوۃشرف الدین طیبی( یک مشت سے زائد داڑی کو کاٹنے کے قائل) نے اعفاء کے معنی یوں بیان کے ہیں:
(فالمراد بالإعفاء التوفير منه ، كما في الرواية الأخرى (وفروا اللحى)
(الكاشف عن حقائق السنن2930/9:)
''یہاں اعفاء کے معنی توفیر یعنی کثرت کے ہیں،جیسا کہ دوسری روایت (وفروااللِحا) میں یہ وضاحت موجود ہے۔''
حافظ ابن حجر نے تو یہاں تک لکھ دیا ہے:
(وَذَهَبَ الْأَكْثَرُ إِلَى أَنَّهُ بِمَعْنَى وَفِّرُوا أَوْ كَثِّرُوا وَهُوَ الصَّوَابُ)
(فتح الباری:350/10)
اکثر علماء کا یہ موقف ہے کہ یہاں اعفاء کے معنی توفیر یا تکثیر کے ہیں اور یہی بات درست ہے۔''
ماہر لغت اور شارحین حدیث کے اقوال سے یہ بات بالکل واضح ہو جاتی ہے کہ اعفاء کا معنی ڈاڑھی کو اس کے حال پر چھوڑ دینا نہیں ہے، بلکہ ڈاڑھی کی مقدار کو بڈھانا مراد ہے، اس کے وہی معنی معتبر مانے جائیں گے جنھیں،محدثین،ائمہ دین اور شارحین حدیث اور ماہرین لغت نے درست قرار دیا ہے۔ کیا صحابہ کرام کو رسول اللہ کے حکم اعفاء کے معنی کو علم نہیں تھا؟یہ ہو ہی نہین سکتا کہ صحابہ کرام کو اس کے معنی معلوم نہ ہوں کیوں کہ وہ ماہر لغت اور فصیح و بلیغ تھے۔داڑی والی روایات میں صحابہ نے بھی ان الفاظ کےمعنی کثرت اور بہتات ہی کے لیے ہیں
جن صحابہ نے داڑی کی روایت بیان کی ہے ان عمل کیا ہے؟
1-
حدَّثنا مُحَمَّد بن إِسْحَاق السِّنْدي قَالَ: حَدثنَا عَلِي بن خَشْرَم عَن عِيسَى عَن عبد الْملك عَن عَطاءِ عَن ابْن عَبَّاس فِي قَوْله: {ثُمَّ لْيَقْضُواْ تَفَثَهُمْ} (الْحَج: 29)
قَالَ: التَّفَثُ الحَلْق والتّقصير والأخذُ من اللّحية والشّارب والإبط، والذّبْح وَالرَّمْي.
سیدنا عبد اللہ بن عباس سے اللہ تعالی کے اس فرمان
{ثُمَّ لْيَقْضُواْ تَفَثَهُمْ}
کی تفسیر اس طرح منقول ہے:تفث سے مراد حلق،تقصیر اور داڑی،مونچھ اوربغلوں کے بال کاٹنا ، قربانی اور رمی کرنا ہے۔
( تهذيب اللغة لمحمد بن أحمد (المتوفى: 370هـ)190/14 ) (سنده صحیح)
ابن عباس کی تفسیر اس جگہ حدیث مرفوع کے حکم میں ہے
2-
اور سیدنا عبد اللہ بن عمر کا یہ عمل تو بخاری اور موطا میں موجود ہے: (( وكان ابن عمر إذا حج أو اعتمر قبض على لحيته فما فضل أخذها )) (صحیح البخاری:رقم الحدیث:
5892)
سیدنا عبد اللہ بن عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ جب حج یا عمرہ کا ارادہ کرتے تو اپنی داڑھی مبارک مٹھی میں لیتے جو مٹھی سے زیادہ ہوتی تو اس کو کاٹ ڈالتے ۔
(( أن عبد الله بن عمر كان إذا أفطر من رمضان وهو يريد الحج لم يأخذ من رأسه ولا من لحيته شيأ حتى يحج )) (موطأ امام مالک:رقم الحدیث:
1396
سيدنا عبد اللہ بن عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ جب رمضان المبارک سےفارغ ہوتے اور حج کا ارادہ بھی ہوتا تو اپنی داڑھی اور سر کے بال نہ کاٹتےتھے یہاں تک کہ حج مبارک سے فارغ ہوتے۔
3-
ابو ہریرہ کا عمل مصنف ابن ابی شیبہ میں اس طرح بیان ہوا ہے:
عن أبي زرعة: ((كَانَ أَبُو هُرَيْرَةَ يَقْبِضُ عَلَى لِحْيَتِهِ، ثُمَّ يَأْخُذُ مَا فَضَلَ عَنِ الْقُبْضَةِ))
سیدنا ابو ہریرہ اپنی داڑی کو مٹھی میں لیتے پھر مٹھی سے زاید داڑی کو پکڑ کاٹ دیتے تھے۔
أخرجه ابن أبي شيبة(5/225)(رقم:25481) بسند صحيح.
قال الألباني في (الضعيفة): (إسناده صحيح على شرط مسلم:رقم الحدیث: 6203)
4-
اسی طرح جابر بن عبد اللہ بیان کرتے ہیں:
((كُنَّا نُعْفِي السِّبَالَ إِلَّا فِي حَجٍّ أَوْ عُمْرَةٍ) سنن أبوداود:رقم:4203)
حضرت جابر رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں کہ ہم لوگ (صحابہ کرام رضوان اللہ عنہم اجمعین ) داڑھی کے بالوں کوچھوڑ دیا کرتے تھے، مگر حج یا عمرہ میں(مشت سے زائد) کٹوایا کرتے تھے۔
قال المباركفوري في (تحفة الأحوذي)(8/38): سنده حسن، وكذلك قال قبله الحافظ في(فتح الباري)(10/350) والحديث سكت عنه المنذري:
عون المعبود شرح سنن أبي داود:
(4 / 136)
تابعین صحابہ کا عمل بیان کرتے ہیں
حَدَّثَنَا غُنْدَرٌ محمد بن جعفر الهذلي ، عَنْ شُعْبَةَ بن الحجاج بن الورد، عَنْ منصور بن المعتمر بن عبد الله بن ربيعة بن حريث بن مالك بن رفاعة بن الحارث بن بهثة بن سليم ، قَالَ: سَمِعْتُ عَطَاءَ بْنَ أَبِي رَبَاحٍ، قَالَ: «كَانُوا يُحِبُّونَ أَنْ يُعْفُوا اللِّحْيَةَ إِلَّا فِي حَجٍّ أَوْ عُمْرَةٍ» (مصنف ابن ابي شيبة:الرقم: 25482، سنده صحيح )
تابعی جلیل جناب عطا بن ابی رباح(م 114 ه) بیان کرتے ہیں کہ وہ (ہمارے زمانے کے لوگ یعنی صحابہ کرام و تابعین عظام) صرف حج و عمرے کے موقع پر اپنی مشت سے زائدداڑیاں کاٹنا پسند کیا کرتے تھے۔
محدث کبیر امام ابن ابی شیبہ بیان کرتے ہیں:
حَدَّثَنَا عَائِذُ بْنُ حَبِيبٍ، عَنْ أَشْعَثَ، عَنِ الْحَسَنِ، قَالَ: «كَانُوا يُرَخِّصُونَ فِيمَا زَادَ عَلَى الْقَبْضَةِ مِنَ اللِّحْيَةِ أَنْ يُؤْخَذَ مِنْهَا»
(مصنف ابن ابي شيبة:الرقم: 25484، سنده حسن )
محدث کبیر امام ابن ابی شیبہ تابع جلیل جناب ابراہیم بن یزید نخعی(متوفی۹۵ھ) سے بیان کرتے ہیں:
''كانوا يأخذون من جوانبها، وينظفونها. يعني: اللحية'' (مصنف ابن ابي شيبة: (8/564) :الرقم
25490
، سنده صحيح )
وہ (ہمارے زمانے کے لوگ یعنی صحابہ کرام و تابعین عظام)داڑی کے اطراف سے(مشت سے زائد) بال لیتے تھے اور اس میں کانٹ چھانٹ کیا کرتے تھے ۔
جو دلیل آپ نے پیش کی ہے اس سے بھی میرا موقف ہی ثابت ہوتا ہے نہ کہ آپ کا کیوں کہ اعفاء کا معنی تکثیر ہے جیسا کہ اوپر بیان کیا گیا،اور تکثیر کو اصحاب رسول ﷺ نے ایک مشت کے ساتھ مقید کیا ہے،
عبد اللہ بن عمر کے نزدیک اعفاء کے معنی ہی ا یک مشت کے ہیں،یہی بات امام خلال نے کتاب الترجل میں بیان کی ہے،وہ فرماتے ہیں کہ امام احمد بن حنبل سے اعفاءکے بارے میں سوال ہوا تو انہوں جواب دیا :کان هذا عنده الإعفاء،عبد الله بن عمر کے نزدیک ایک مشت داڑی ہی اعفاء ہے۔ الترجل " (ص 11 - مصورة)
یہ تمام صحابہ کرام کا عمل ہے اور اس پر کسی کی کوئی نکیر نہیں ہے