• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

ایک مشت سے زائد ڈاڑھی کٹانےکے جواز پر صحابہ کا اجماع

شمولیت
ستمبر 21، 2015
پیغامات
2,697
ری ایکشن اسکور
762
پوائنٹ
290
محترم شیخ!
کیا آپ مجھ سے مخاطب ہیں؟؟؟
یقین جانۓ آپ کی بات سمجھ میں نہیں آئ. اصلاح کی ضرورت ہو تو ضرور اصلاح کریں.
میری دانست میں آپ سے تخاطب نہیں کیا گیا ۔
 

حافظ عمران الہی

سینئر رکن
شمولیت
اکتوبر 09، 2013
پیغامات
2,100
ری ایکشن اسکور
1,460
پوائنٹ
344
میں یا تو سیدھا اعتراض نقل کر دیتا ہوں. یا پھر غیر متفق ریٹ کرتا ہوں. یعنی دونوں چیزیں ایک ساتھ نہیں کرتا. الا ما شاء اللہ. امید ہے کہ اب آپ اپنے طنزیہ جملوں سے مجھے الگ کردیں گے.
جزاکم اللہ خیرا
معاف کیجیے گا مجھے آپ کے اس خود ساختہ اصول کا علم نہیں تھا ورنہ میں ایسی گستاخی قطعا نہ کرتا
 

حافظ عمران الہی

سینئر رکن
شمولیت
اکتوبر 09، 2013
پیغامات
2,100
ری ایکشن اسکور
1,460
پوائنٹ
344
حد اعتدال سے تجاوز سے میری مراد عدم جواز کے قائلین کو مخالفین اجماع سمجھنا تھا ۔

شرجیل بن مسلم بیان کرتے ہیں:
” رَأَيْتُ خَمْسَةً مِنْ أَصْحَابِ رَسُولِ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَقُمُّونَ شَوَارِبَهُمْ وَيُعْفُونَ لِحَاهُمْ وَيَصُرُّونَهَا: أَبَا أُمَامَةَ الْبَاهِلِيَّ، وَالْحَجَّاجَ بْنَ عَامِرٍ الثُّمَالِيَّ، وَالْمِقْدَامَ بْنَ مَعْدِيكَرِبَ، وَعَبْدَ اللهِ بْنَ بُسْرٍ الْمَازِنِيَّ، وَعُتْبَةَ بْنَ عَبْدٍ السُّلَمِيَّ، كَانُوا يَقُمُّونَ مَعَ طَرَفِ الشَّفَةِ ”
’’ میں نے پانچ صحابہ کرام کو دیکھا کہ وہ مونچھوں کو کاٹتے تھے اور
داڑھیوں کو چھوڑتے تھے اور ان کو رنگتے تھے ،سیدنا ابو امامہ الباہلی،سیدنا حجاج بن عامر الشمالی،سیدنا معدام بن معدی کرب،سیدنا عبداللہ بن بسر المازنی،سیدنا عتبہ بن عبد السلمی،وہ سب ہونٹ کے کنارے سے مونچھیں کاٹتے تھے۔‘‘
(المعجم الکبیر للطبرانی:۱۲،۳۲۱۸؍۲۶۲،مسند الشامین للطبرانی:۵۴۰،وسندہ حسن)

کاٹنے کاثبوت صرف دو صحابیوں سے دیا جاتا ہے ، جبکہ نہ کاٹنے کی صراحت اوپر پانچ صحابہ کرام سے پیش کی گئی ہے ۔ یہی حال بعد والے طبقات اور ازمنہ کا ہے ۔
خضر بھائی میرے خیال میں آپ نے میرے دلائل کوپڈھا نہیں،اعفاء کا معنی ایک مشت ہے، اور یہ معنی تمام صحابہ کرام نے مراد لیا ہے،پہلے میں اس کا لغوی معنی ذکر کرتا ہوں اس کے بعد صحابہ کرام کا عمل پیش کرتا ہوں:
پیش کی گئی روایت میں اعفاء کےمعنی کثرت اور توفیر کے ہیں، جیسا کہ اہل لغت نے اس کی نشان دہی کی ہے :
لسان العرب: (عفا القوم كثروا، وفي التنزيل: {حتى عفوا} أي كثروا، وعفا النبت والشعر وغيره يعفو فهو عاف: كثُر وطال، وفي الحديث: أنه - صلى الله عليه وسلم - أمر بإعفاء اللحى، هو أن يوفَّر شعرها ويُكَثَّر، ولا يقص كالشوارب، من عفا الشيء إذا كثر وزاد

(لسان العرب:75/15)

ابن دقیق العید نے اعفاء کے معنی تکثیر لکھے ہیں:
تَفْسِيرُ الْإِعْفَاءِ بِالتَّكْثِيرِ
(فتح الباری:351/10)
وقال القرطبي في (المفهم) (1/512) قال أبو عبيد: (يقال عفا الشيء إذا كثر وزاد)
شارح بخاری امام ابن بطال نے بھی اعفاء اللحیۃ کے معنی تکثیر اللحیۃ کیے ہیں۔
(شرح ابن بطال:146/9)
شارح بخاری حافظ ابن حجر توفیر کےمعنی بیان کرتے ہوئے لکھتے ہیں:
(وَفِّرُوا فَهُوَ بِتَشْدِيدِ الْفَاءِ مِنَ التَّوْفِيرِ وَهُوَ الْإِبْقَاءُ أَيِ اتْرُكُوهَا وَافِرَةً)
(فتح الباری:350/10)
توفیر کا معنی باقی رکھنا ہے،یعنی داڑی کو وافر مقدار میں باقی رکھو۔
شارح مشکوۃشرف الدین طیبی( یک مشت سے زائد داڑی کو کاٹنے کے قائل) نے اعفاء کے معنی یوں بیان کے ہیں:

(فالمراد بالإعفاء التوفير منه ، كما في الرواية الأخرى (وفروا اللحى)
(الكاشف عن حقائق السنن2930/9:)
''یہاں اعفاء کے معنی توفیر یعنی کثرت کے ہیں،جیسا کہ دوسری روایت (وفروااللِحا) میں یہ وضاحت موجود ہے۔''
حافظ ابن حجر نے تو یہاں تک لکھ دیا ہے:

(وَذَهَبَ الْأَكْثَرُ إِلَى أَنَّهُ بِمَعْنَى وَفِّرُوا أَوْ كَثِّرُوا وَهُوَ الصَّوَابُ)
(فتح الباری:350/10)

اکثر علماء کا یہ موقف ہے کہ یہاں اعفاء کے معنی توفیر یا تکثیر کے ہیں اور یہی بات درست ہے۔''
ماہر لغت اور شارحین حدیث کے اقوال سے یہ بات بالکل واضح ہو جاتی ہے کہ اعفاء کا معنی ڈاڑھی کو اس کے حال پر چھوڑ دینا نہیں ہے، بلکہ ڈاڑھی کی مقدار کو بڈھانا مراد ہے، اس کے وہی معنی معتبر مانے جائیں گے جنھیں،محدثین،ائمہ دین اور شارحین حدیث اور ماہرین لغت نے درست قرار دیا ہے۔ کیا صحابہ کرام کو رسول اللہ کے حکم اعفاء کے معنی کو علم نہیں تھا؟یہ ہو ہی نہین سکتا کہ صحابہ کرام کو اس کے معنی معلوم نہ ہوں کیوں کہ وہ ماہر لغت اور فصیح و بلیغ تھے۔داڑی والی روایات میں صحابہ نے بھی ان الفاظ کےمعنی کثرت اور بہتات ہی کے لیے ہیں

جن صحابہ نے داڑی کی روایت بیان کی ہے ان عمل کیا ہے؟

1-
حدَّثنا مُحَمَّد بن إِسْحَاق السِّنْدي قَالَ: حَدثنَا عَلِي بن خَشْرَم عَن عِيسَى عَن عبد الْملك عَن عَطاءِ عَن ابْن عَبَّاس فِي قَوْله: {ثُمَّ لْيَقْضُواْ تَفَثَهُمْ} (الْحَج: 29)
قَالَ: التَّفَثُ الحَلْق والتّقصير والأخذُ من اللّحية والشّارب والإبط، والذّبْح وَالرَّمْي.
سیدنا عبد اللہ بن عباس سے اللہ تعالی کے اس فرمان
{ثُمَّ لْيَقْضُواْ تَفَثَهُمْ}
کی تفسیر اس طرح منقول ہے:تفث سے مراد حلق،تقصیر اور داڑی،مونچھ اوربغلوں کے بال کاٹنا ، قربانی اور رمی کرنا ہے۔
( تهذيب اللغة لمحمد بن أحمد (المتوفى: 370هـ)190/14 ) (سنده صحیح)
ابن عباس کی تفسیر اس جگہ حدیث مرفوع کے حکم میں ہے
2-
اور سیدنا عبد اللہ بن عمر کا یہ عمل تو بخاری اور موطا میں موجود ہے: (( وكان ابن عمر إذا حج أو اعتمر قبض على لحيته فما فضل أخذها )) (صحیح البخاری:رقم الحدیث:
5892)
سیدنا عبد اللہ بن عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ جب حج یا عمرہ کا ارادہ کرتے تو اپنی داڑھی مبارک مٹھی میں لیتے جو مٹھی سے زیادہ ہوتی تو اس کو کاٹ ڈالتے ۔
(( أن عبد الله بن عمر كان إذا أفطر من رمضان وهو يريد الحج لم يأخذ من رأسه ولا من لحيته شيأ حتى يحج )) (موطأ امام مالک:رقم الحدیث:
1396
سيدنا عبد اللہ بن عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ جب رمضان المبارک سےفارغ ہوتے اور حج کا ارادہ بھی ہوتا تو اپنی داڑھی اور سر کے بال نہ کاٹتےتھے یہاں تک کہ حج مبارک سے فارغ ہوتے۔
3-
ابو ہریرہ کا عمل مصنف ابن ابی شیبہ میں اس طرح بیان ہوا ہے:
عن أبي زرعة: ((كَانَ أَبُو هُرَيْرَةَ يَقْبِضُ عَلَى لِحْيَتِهِ، ثُمَّ يَأْخُذُ مَا فَضَلَ عَنِ الْقُبْضَةِ))
سیدنا ابو ہریرہ اپنی داڑی کو مٹھی میں لیتے پھر مٹھی سے زاید داڑی کو پکڑ کاٹ دیتے تھے۔
أخرجه ابن أبي شيبة(5/225)(رقم:25481) بسند صحيح.
قال الألباني في (الضعيفة): (إسناده صحيح على شرط مسلم:رقم الحدیث: 6203)
4-
اسی طرح جابر بن عبد اللہ بیان کرتے ہیں:
((كُنَّا نُعْفِي السِّبَالَ إِلَّا فِي حَجٍّ أَوْ عُمْرَةٍ) سنن أبوداود:رقم:4203)
حضرت جابر رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں کہ ہم لوگ (صحابہ کرام رضوان اللہ عنہم اجمعین ) داڑھی کے بالوں کوچھوڑ دیا کرتے تھے، مگر حج یا عمرہ میں(مشت سے زائد) کٹوایا کرتے تھے۔
قال المباركفوري في (تحفة الأحوذي)(8/38): سنده حسن، وكذلك قال قبله الحافظ في(فتح الباري)(10/350) والحديث سكت عنه المنذري:
عون المعبود شرح سنن أبي داود:
(4 / 136)

تابعین صحابہ کا عمل بیان کرتے ہیں
حَدَّثَنَا غُنْدَرٌ محمد بن جعفر الهذلي ، عَنْ شُعْبَةَ بن الحجاج بن الورد، عَنْ منصور بن المعتمر بن عبد الله بن ربيعة بن حريث بن مالك بن رفاعة بن الحارث بن بهثة بن سليم ، قَالَ: سَمِعْتُ عَطَاءَ بْنَ أَبِي رَبَاحٍ، قَالَ: «كَانُوا يُحِبُّونَ أَنْ يُعْفُوا اللِّحْيَةَ إِلَّا فِي حَجٍّ أَوْ عُمْرَةٍ» (مصنف ابن ابي شيبة:الرقم: 25482، سنده صحيح )
تابعی جلیل جناب عطا بن ابی رباح(م 114 ه) بیان کرتے ہیں کہ وہ (ہمارے زمانے کے لوگ یعنی صحابہ کرام و تابعین عظام) صرف حج و عمرے کے موقع پر اپنی مشت سے زائدداڑیاں کاٹنا پسند کیا کرتے تھے۔
محدث کبیر امام ابن ابی شیبہ بیان کرتے ہیں:

حَدَّثَنَا عَائِذُ بْنُ حَبِيبٍ، عَنْ أَشْعَثَ، عَنِ الْحَسَنِ، قَالَ: «كَانُوا يُرَخِّصُونَ فِيمَا زَادَ عَلَى الْقَبْضَةِ مِنَ اللِّحْيَةِ أَنْ يُؤْخَذَ مِنْهَا»
(مصنف ابن ابي شيبة:الرقم: 25484، سنده حسن )

محدث کبیر امام ابن ابی شیبہ تابع جلیل جناب ابراہیم بن یزید نخعی(متوفی۹۵ھ) سے بیان کرتے ہیں:
''كانوا يأخذون من جوانبها، وينظفونها. يعني: اللحية'' (مصنف ابن ابي شيبة: (8/564) :الرقم
25490
، سنده صحيح )
وہ (ہمارے زمانے کے لوگ یعنی صحابہ کرام و تابعین عظام)داڑی کے اطراف سے(مشت سے زائد) بال لیتے تھے اور اس میں کانٹ چھانٹ کیا کرتے تھے ۔
جو دلیل آپ نے پیش کی ہے اس سے بھی میرا موقف ہی ثابت ہوتا ہے نہ کہ آپ کا کیوں کہ اعفاء کا معنی تکثیر ہے جیسا کہ اوپر بیان کیا گیا،اور تکثیر کو اصحاب رسول ﷺ نے ایک مشت کے ساتھ مقید کیا ہے،
عبد اللہ بن عمر کے نزدیک اعفاء کے معنی ہی ا یک مشت کے ہیں،یہی بات امام خلال نے کتاب الترجل میں بیان کی ہے،وہ فرماتے ہیں کہ امام احمد بن حنبل سے اعفاءکے بارے میں سوال ہوا تو انہوں جواب دیا :کان هذا عنده الإعفاء،عبد الله بن عمر کے نزدیک ایک مشت داڑی ہی اعفاء ہے۔ الترجل " (ص 11 - مصورة)
یہ تمام صحابہ کرام کا عمل ہے اور اس پر کسی کی کوئی نکیر نہیں ہے
 

حافظ عمران الہی

سینئر رکن
شمولیت
اکتوبر 09، 2013
پیغامات
2,100
ری ایکشن اسکور
1,460
پوائنٹ
344
آپ کے اقوال سے متفق نا هو کر غیر متفق کا کم از کم بٹن دبا دینا بهی اللہ کی گرفت سے بچنے کا سبب بن سکتا ۔ شدت سے گریز کریں ۔ آپ کے اقوال اور دعوے اپنی جگہ اور کسی (طالب علم) کا اس سے عدم موافقت کا اظہار اپنی جگہ ۔ محترم خضر حیات کے الفاظ میں گہرائی هے آپ کو انتہائی هلکے انداز میں انهوں نے سمجهانا چاہا ۔ آپ ہینکہ ایک عالم کے مشورے کو سمجهنے کے بجائے غیر متفق کا بٹن دبانے پر اعتراض کر رہے ہیں ۔ علماء کی آراء موجود ہیں ۔ آپ ان میں سے حسب توفیق جو مناسب سمجہیں ، وہیں آپ سے اتفاق نا کرنیوالے جو مناسب سمجہیں لے لیں ۔ اس سے زیادہ کیا کہا جاسکتا هے ۔ جس کی جیسی فہم ۔
اللہ کا واسطہ ہے!،میں نے اب تک اپنے کسی قول کو دلیل نہیں بنایا،بہر حال میری نظر میں یہ مروت کے خلاف ہے کہ غیر متفق ہونے کی وجہ بیان نہ کی جائے،میرا تو یہ خیال ہے کہ خضر صاحب کا موقف کمزور ہے،فہم سلف کے منافی ہے۔
 

اشماریہ

سینئر رکن
شمولیت
دسمبر 15، 2013
پیغامات
2,682
ری ایکشن اسکور
752
پوائنٹ
290
وَيُعْفُونَ لِحَاهُمْ

اسی طرح احادیث میں ''اعفاء'' کا لفظ بھی استعمال ہوا ہے ،اس کے معنی بھی کثرت اور توفیر کے ہیں، جیسا کہ اہل لغت نے اس کی نشان دہی کی ہے :لسان العرب: (عفا القوم كثروا، وفي التنزيل: {حتى عفوا} أي كثروا، وعفا النبت والشعر وغيره يعفو فهو عاف: كثُر وطال، وفي الحديث: أنه - صلى الله عليه وسلم - أمر بإعفاء اللحى، هو أن يوفَّر شعرها ويُكَثَّر، ولا يقص كالشوارب، من عفا الشيء إذا كثر وزاد
(لسان العرب:75/15)

ابن دقیق العید نے اعفاء کے معنی تکثیر لکھے ہیں:
تَفْسِيرُ الْإِعْفَاءِ بِالتَّكْثِيرِ
(فتح الباری:351/10)
وقال القرطبي في (المفهم) (1/512) قال أبو عبيد: (يقال عفا الشيء إذا كثر وزاد)
شارح بخاری امام ابن بطال نے بھی اعفاء اللحیۃ کے معنی تکثیر اللحیۃ کیے ہیں۔
(شرح ابن بطال:146/9)
شارح بخاری حافظ ابن حجر توفیر کےمعنی بیان کرتے ہوئے لکھتے ہیں:

(وَفِّرُوا فَهُوَ بِتَشْدِيدِ الْفَاءِ مِنَ التَّوْفِيرِ وَهُوَ الْإِبْقَاءُ أَيِ اتْرُكُوهَا وَافِرَةً) (فتح الباری:350/10)
توفیر کا معنی باقی رکھنا ہے،یعنی داڑی کو وافر مقدار میں باقی رکھو۔
شارح مشکوۃشرف الدین طیبی( یک مشت سے زائد داڑی کو کاٹنے کے قائل) نے اعفاء کے معنی یوں بیان کے ہیں:

(فالمراد بالإعفاء التوفير منه ، كما في الرواية الأخرى (وفروا اللحى)
(الكاشف عن حقائق السنن2930/9:)

''یہاں اعفاء کے معنی توفیر یعنی کثرت کے ہیں،جیسا کہ دوسری روایت (وفروااللِحا) میں یہ وضاحت موجود ہے۔''
حافظ ابن حجر نے تو یہاں تک لکھ دیا ہے:
(وَذَهَبَ الْأَكْثَرُ إِلَى أَنَّهُ بِمَعْنَى وَفِّرُوا أَوْ كَثِّرُوا وَهُوَ الصَّوَابُ)
اکثر علماء کا یہ موقف ہے کہ یہاں اعفاء کے معنی توفیر یا تکثیر کے ہیں اور یہی بات درست ہے۔''
 

خضر حیات

علمی نگران
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 14، 2011
پیغامات
8,771
ری ایکشن اسکور
8,496
پوائنٹ
964
محترم شیخ!
کیا آپ مجھ سے مخاطب ہیں؟؟؟
یقین جانۓ آپ کی بات سمجھ میں نہیں آئ. اصلاح کی ضرورت ہو تو ضرور اصلاح کریں.
اگر ریٹنگ کے معاملے میں آپ بھی حساس ہیں تو آپ بھی اس میں شامل ہیں ۔ :)
 

خضر حیات

علمی نگران
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 14، 2011
پیغامات
8,771
ری ایکشن اسکور
8,496
پوائنٹ
964
صحابہ کرام کا عمل پیش کرتا ہوں:
پیش کی گئی روایت میں اعفاء کےمعنی کثرت اور توفیر کے ہیں، جیسا کہ اہل لغت نے اس کی نشان دہی کی ہے :
لسان العرب: (عفا القوم كثروا، وفي التنزيل: {حتى عفوا} أي كثروا، وعفا النبت والشعر وغيره يعفو فهو عاف: كثُر وطال، وفي الحديث: أنه - صلى الله عليه وسلم - أمر بإعفاء اللحى، هو أن يوفَّر شعرها ويُكَثَّر، ولا يقص كالشوارب، من عفا الشيء إذا كثر وزاد
’ تکثیر ‘ والا معنی بھی لے لیں ، اس سے ابن عمر رضی اللہ عنہ کے فعل کی توجیہ اور اس کے لیے تاویل تو ممکن ہے ، کہ وہ فرمان رسول کے مخالف نہ تھے ، لیکن یہ بات ثابت نہیں ہوتی کہ اعفاء کا اصل معنی ہی یہ ہے کہ ایک مشت تک داڑھی کو رکھا جائے ۔
دوسری بات : داڑھی کا حکم نبوی فرض کا درجہ رکھتا ہے ، جبکہ ابن عمر کا فعل آپ کے نزدیک وجوب یا فرض پر دلالت نہیں کرتا ، حالانکہ مفسَر اور مفسِر کا درجہ ایک ہی ہونا چاہیے ۔
 

اشماریہ

سینئر رکن
شمولیت
دسمبر 15، 2013
پیغامات
2,682
ری ایکشن اسکور
752
پوائنٹ
290
’ تکثیر ‘ والا معنی بھی لے لیں ، اس سے ابن عمر رضی اللہ عنہ کے فعل کی توجیہ اور اس کے لیے تاویل تو ممکن ہے ، کہ وہ فرمان رسول کے مخالف نہ تھے ، لیکن یہ بات ثابت نہیں ہوتی کہ اعفاء کا اصل معنی ہی یہ ہے کہ ایک مشت تک داڑھی کو رکھا جائے ۔
بہ ایں صورت پھر یہ معنی بھی ثابت نہیں ہوتا کہ داڑھی کو اس کے حال پر ہی چھوڑ دیا جائے. بلکہ تکثیر ثابت ہوتی ہے. اور تکثیر ایک "مجمل" لفظ ہے. مجملات کی تاویل کی جاتی ہے اس لیے اس کی حد (1) اجتہادا اور (2) نصا عن الراوی ایک مشت مقرر کی جا "سکتی" ہے.
آپ تکثیر کی کیا تحدید کریں گے اس صورت میں؟

دوسری بات : داڑھی کا حکم نبوی فرض کا درجہ رکھتا ہے ، جبکہ ابن عمر کا فعل آپ کے نزدیک وجوب یا فرض پر دلالت نہیں کرتا ، حالانکہ مفسَر اور مفسِر کا درجہ ایک ہی ہونا چاہیے ۔
حکم میں ہی تو اختلاف ہے کہ اس کا معنی کیا ہے. اگر اس کا معنی متعین ہوتا اور پھر اس کی تفسیر میں کوئی اضافی چیز آ جاتی تو ہم کہتے کہ مفسِر کو مفسَر کے برابر ہونا چاہیے.
یہاں اگر حکم کی تفسیر لغت سے کی جائے گی تو اس پر بھی یہ اعتراض وارد ہو جائے گا کہ لغت فرض و واجب نہیں ہے. اس طرح تو کسی روایت کا کوئی مطلب نہیں رہ جائے گا.
 

حافظ عمران الہی

سینئر رکن
شمولیت
اکتوبر 09، 2013
پیغامات
2,100
ری ایکشن اسکور
1,460
پوائنٹ
344
’ تکثیر ‘ والا معنی بھی لے لیں ، اس سے ابن عمر رضی اللہ عنہ کے فعل کی توجیہ اور اس کے لیے تاویل تو ممکن ہے ، کہ وہ فرمان رسول کے مخالف نہ تھے ، لیکن یہ بات ثابت نہیں ہوتی کہ اعفاء کا اصل معنی ہی یہ ہے کہ ایک مشت تک داڑھی کو رکھا جائے ۔
دوسری بات : داڑھی کا حکم نبوی فرض کا درجہ رکھتا ہے ، جبکہ ابن عمر کا فعل آپ کے نزدیک وجوب یا فرض پر دلالت نہیں کرتا ، حالانکہ مفسَر اور مفسِر کا درجہ ایک ہی ہونا چاہیے ۔
محترم خضر بھائی !
آپ اس لفظ کے معنی کو صرف ابن عمر تک محدود کیوں کر رہے ہیں،جب کہ میں نے تو یہ ثابت کیاہے کہ تمام صحابہ کرام کے نزدیک اعفاء،توفیر،ایفاء وغیرہ کا معنی یک مشت ہے،اور آپ کا دعوی تھا کہ اعفاء کا معنی مطلق ڈاڑھی کو چھوڑ دینا ہے،اور آپ کا یہ بھی دعوی تھا کہ امت کی اکثریت نے اعفا کے مطلق معنی کو قبول کیا ہے،میں نے کہا تھا کہ یہ ایک وہم اس سے زیادہ کچھ بھی نہیں،اس دعوے کی دلیلاب بھی آپ کے ذمہ ہے۔
آپ نے پانچ صحابہ سے اعفا کی دلیل دی حالاں کہ وہ مطلق اعفا کی دلیل نہیں ہے،اگر مطلق اعفا ثابت بھی ہوجائے تو وہ استحباب پر محمول ہوگا نہ کہ وجوب پر،وجوب تب ہی ثابت ہوگا جب یک مشت ڈاڑھی پر کسی صحابی کی نکیر ثابت ہوجائے۔
 
Top