((كُنَّا نُعْفِي السِّبَالَ إِلَّا فِي حَجٍّ أَوْ عُمْرَةٍ) سنن أبوداود:رقم:4203)
حضرت جابر رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں کہ ہم لوگ (صحابہ کرام رضوان اللہ عنہم اجمعین ) داڑھی کے بالوں کوچھوڑ دیا کرتے تھے، مگر حج یا عمرہ میں(مشت سے زائد) کٹوایا کرتے تھے۔
قال المباركفوري في (تحفة الأحوذي)(8/38): سنده حسن، وكذلك قال قبله الحافظ في(فتح الباري)(10/350) والحديث سكت عنه المنذري:
عون المعبود شرح سنن أبي داود:
(4 / 136)
اس روایت کی سند یوں ہے :
حَدَّثَنَا ابْنُ نُفَيْلٍ، حَدَّثَنَا زُهَيْرٌ قَرَأْتُ عَلَى عَبْدِ الْمَلِكِ بْنِ أَبِي سُلَيْمَانَ وَقَرَأَهُ عَبْدُ الْمَلِكِ عَلَى أَبِي الزُّبَيْرِ وَرَوَاهُ أَبُو الزُّبَيْرِ، عَنْ جَابِرٍ، قَالَ
اب اس پر شیخ شعیب ارناؤط کا حاشیہ ملاحظہ کریں :
سنن أبي داود ت الأرنؤوط (6/ 265)
إسناده ضعيف، وفي متنه اضطراب. أبو الزبير -وهو محمد بن مسلم بن تدرُس المكي- مدلس وقد عنعن. ابن نُفيل: هو عبد الله بن محمد بن علي بن نُفيل الحراني أبو جعفر.
وأخرجه الرامهرمزي في "المحدّث الفاصل" ص 433، وابن عدي في "الكامل" 5/ 1940 من طريق أبي جعفر النُّفيلي، بهذا الإسناد.
وأخرجه الخطيب البغدادي في "الكفاية" ص 265 عن أحمد بن عبد الملك الحراني، عن زهير بن معاوية، به لكن بلفظ: ما كنا نُعفي السِّبال إلا في حج أو عُمرة. فعكس المعنى.
وأخرجه ابن أبي شيبة 8/ 567، والبيهقي 5/ 33 من طريق أشعث بن سَوَّار، عن أبي الزبير، عن جابر. ولفظه عند ابن أبي شيبة: كنا نؤمر أن نوفي السّبال ونأخذ من الشوارب، ولفظه عند البيهقى: كنا نؤمر أن نوفر السّبال في الحج والعمرة.
وأخرجه الطبراني في "الأوسط" (8908) من طريق عبد الله بن لهيعة، عن أبي الزبير، عن جابر: أن النبي - صلَّى الله عليه وسلم - نهى عن جَزّ السِّبال. وابن لهيعة سيئ الحفظ.
یعنی ایک تو اس کی سند میں ابو الزبیر کا عنعنہ پایا جاتا ہے ، دوسرا متن میں مخالفت ہے ۔
صاحب تحفہ نے حافظ ابن حجر کی ہی عبارت نقل کی ہے ، لیکن وجوہ ضعف واضح ہیں ، ان کی موجودگی میں روایت کو حسن کہنا محل نظر ہے ۔ اگر ان دونوں علماء کرام یا کسی اور نے ان وجوہ ضعف کی تردید کی ہے تو بیان فرمادیں ۔
کیا اس روایت میں اس عمل کو تمام صحابہ کرام کی جانے منسوب نہیں کیا گیا،یہ سادہ سی آپ بات بھی آپ کو سمجھ نہیں آ رہی ہے،کیا آپ نے اس روایت کو نہیں پڈھا جس میں تابعین سے اس عمل کو اپنے وقت کے تمام لوگوں کی جانب منسوب کیاہے:حَدَّثَنَا غُنْدَرٌ محمد بن جعفر الهذلي ، عَنْ شُعْبَةَ بن الحجاج بن الورد، عَنْ منصور بن المعتمر بن عبد الله بن ربيعة بن حريث بن مالك بن رفاعة بن الحارث بن بهثة بن سليم ، قَالَ: سَمِعْتُ عَطَاءَ بْنَ أَبِي رَبَاحٍ، قَالَ: «كَانُوا يُحِبُّونَ أَنْ يُعْفُوا اللِّحْيَةَ إِلَّا فِي حَجٍّ أَوْ عُمْرَةٍ» (مصنف ابن ابي شيبة:الرقم: 25482، سنده صحيح )
تابعی جلیل جناب عطا بن ابی رباح(م 114 ه) بیان کرتے ہیں کہ وہ (ہمارے زمانے کے لوگ یعنی صحابہ کرام و تابعین عظام) صرف حج و عمرے کے موقع پر اپنی مشت سے زائدداڑیاں کاٹنا پسند کیا کرتے تھے۔
اس میں آپ کے موقف کی دلیل ہے ہی نہیں ، جو لوگ ایک مشت داڑھی رکھتے ہیں ، ان میں سے کتنے ہیں جو حج اور عمرہ کرنے کے کاٹنے کا فریضہ سرانجام دیتے ہیں ؟
محدث کبیر امام ابن ابی شیبہ بیان کرتے ہیں:
حَدَّثَنَا عَائِذُ بْنُ حَبِيبٍ، عَنْ أَشْعَثَ، عَنِ الْحَسَنِ، قَالَ: «كَانُوا يُرَخِّصُونَ فِيمَا زَادَ عَلَى الْقَبْضَةِ مِنَ اللِّحْيَةِ أَنْ يُؤْخَذَ مِنْهَا»
(مصنف ابن ابي شيبة:الرقم: 25484، سنده حسن )
محدث کبیر امام ابن ابی شیبہ تابع جلیل جناب ابراہیم بن یزید نخعی(متوفی۹۵ھ) سے بیان کرتے ہیں:
''كانوا يأخذون من جوانبها، وينظفونها. يعني: اللحية'' (مصنف ابن ابي شيبة: (8/564) :الرقم
25490
، سنده صحيح )
وہ (ہمارے زمانے کے لوگ یعنی صحابہ کرام و تابعین عظام)داڑی کے اطراف سے(مشت سے زائد) بال لیتے تھے اور اس میں کانٹ چھانٹ کیا کرتے تھے ۔
آپ نے دو طرح کے آثار نقل کیے ہیں ، ایک میں ہے کہ حج و عمرہ کے موقعہ پر ایک مشت سے زائد کاٹتے تھے ، دوسرے میں مطلقا جواز کی بات ہے ، دونوں میں سے کس کو صحیح سمجھتے ہیں ؟ اگر مطلقا صحیح سمجھتے ہیں تو حج وعمرہ والی قید کا کیا جواب ہے ؟
جو دلیل آپ نے پیش کی ہے اس سے بھی میرا موقف ہی ثابت ہوتا ہے نہ کہ آپ کا کیوں کہ اعفاء کا معنی تکثیر ہے جیسا کہ اوپر بیان کیا گیا،اور تکثیر کو اصحاب رسول ﷺ نے ایک مشت کے ساتھ مقید کیا ہے،
اعفاء کا اصلی معنی تکثیر نہیں ہے محترم ، یہ تاویل ہے سلف میں سے ان لوگوں کے عمل کی جو داڑھی کاٹتے تھے ، تو اعفاء کا معنی تکثیر کرکے ان کے لیے عذر تلاش کیا گیا ہے ۔
حقیقت اور تاویل میں فرق ہوتا ہے ۔ آپ تاویلی معنی لیکر اس کو اصل بنار ہے ہیں ۔
اللہ تعالی قرآن مجید میں فرماتے ہیں : ثم عفونا عنکم من بعد ذلک لعلکم تشکرون
یہاں آپ والا معنی کیسے مراد لیا جائے گا ؟
قرآنی دعا واعف عنا کا کیا معنی کریں گے ؟
اعفاء سے مراد تکثیر اور پھر تکثیر سے مراد ایک مشت ، حالانکہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم سے صرف اعفاء ثابت ہے ، اگلی دونوں قیدیں بعد والوں کا اضافہ ہے ۔
یہ تمام صحابہ کرام کا عمل ہے اور اس پر کسی کی کوئی نکیر نہیں ہے،یہ سادی سی بات آپ کے من میں کیوں نہیں اترتی؟
اثبت العرش ثم انقش
آپ کا دعوی ہے کہ ڈاڑھی کتنی بھی لمبی ہوجائے اس کو چھیڑنا نہیں چاہیے،اس دعوے کے لیے آپ کے پاس کوئی ایسی صریح روایت ہونی چاہیے کہ جس میں کسی صحابی کا یہ قول ہو کہ ایک مشت سے زائد ڈاڑھی کاٹنا حرام ہے۔اب تک آپ نے کسی صحابی سے کوئی بھی ایسا قول ذکر نہیں کیا جس سے میں یہ صراحت ہو کہ ایک مشت سے زائد کاٹنا ممنوع ہے۔
کیونکہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ فرمان ہے ۔ اور یہی دلیل کافی ہے ، اگر ہم صحابہ کے کسی قول کو چھوڑ رہے ہیں تو اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے فرمان کے مقابلے میں چھوڑ رہے ہیں ، اور ان صحابہ کے مقابلے میں چھوڑ رہے ہیں ، جن سے مطلقا اعفاء پر عمل کرنا منقول ہے ۔
میرا مقصد یہ ہے کہ کوئی ایسی حدیث پیش کریں کہ جس میں یہ وضاحت موجود ہو کہ رسول اللہ نے کبھی اپنی ڈاڑھی کو چھیڑا ہی نہیں۔ پھر میں یہ ثابت کیا ہے کہ رسول اللہ ﷺ کی ڈاڑھی بڑی نہیں تھی اب آپ یہ ثابت کریں کہ آپ کی ڈاڑھی مبارک اتنی لمبی تھی کہ اسے کاٹنے کی ضرورت پیش آتی۔
مان لیں ، اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی داڑھی بڑھی نہیں ، کیا ایک لاکھ صحابہ کرام میں سے بھی کسی نہیں بڑھی تھی ؟ کیا اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے کسی کو کہا تھا کہ ایک قبضہ سے زائد کاٹ لیا کرو ؟!
آپ یہ کہہ سکتے ہیں کہ اللہ کے رسول سے منع بھی تو نہیں کیا ؟
کیا وجہ ہے کہ آپ کو یہ معنی نظر کیوں نہیں آ رہا ہے:
لسان العرب: (عفا القوم كثروا، وفي التنزيل: {حتى عفوا} أي كثروا، وعفا النبت والشعر وغيره يعفو فهو عاف: كثُر وطال، وفي الحديث: أنه - صلى الله عليه وسلم - أمر بإعفاء اللحى، هو أن يوفَّر شعرها ويُكَثَّر، ولا يقص كالشوارب، من عفا الشيء إذا كثر وزاد
(لسان العرب:75/15)
ابن دقیق العید نے اعفاء کے معنی تکثیر لکھے ہیں:
تَفْسِيرُ الْإِعْفَاءِ بِالتَّكْثِيرِ
(فتح الباری:351/10)
وقال القرطبي في (المفهم) (1/512) قال أبو عبيد: (يقال عفا الشيء إذا كثر وزاد)
شارح بخاری امام ابن بطال نے بھی اعفاء اللحیۃ کے معنی تکثیر اللحیۃ کیے ہیں۔
(شرح ابن بطال:146/9)
شارح بخاری حافظ ابن حجر توفیر کےمعنی بیان کرتے ہوئے لکھتے ہیں:
(وَفِّرُوا فَهُوَ بِتَشْدِيدِ الْفَاءِ مِنَ التَّوْفِيرِ وَهُوَ الْإِبْقَاءُ أَيِ اتْرُكُوهَا وَافِرَةً)
(فتح الباری:350/10)
توفیر کا معنی باقی رکھنا ہے،یعنی داڑی کو وافر مقدار میں باقی رکھو۔
شارح مشکوۃشرف الدین طیبی( یک مشت سے زائد داڑی کو کاٹنے کے قائل) نے اعفاء کے معنی یوں بیان کے ہیں:
(فالمراد بالإعفاء التوفير منه ، كما في الرواية الأخرى (وفروا اللحى)
(الكاشف عن حقائق السنن2930/9:)
''یہاں اعفاء کے معنی توفیر یعنی کثرت کے ہیں،جیسا کہ دوسری روایت (وفروااللِحا) میں یہ وضاحت موجود ہے۔''
حافظ ابن حجر نے تو یہاں تک لکھ دیا ہے:
(وَذَهَبَ الْأَكْثَرُ إِلَى أَنَّهُ بِمَعْنَى وَفِّرُوا أَوْ كَثِّرُوا وَهُوَ الصَّوَابُ)
اکثر علماء کا یہ موقف ہے کہ یہاں اعفاء کے معنی توفیر یا تکثیر کے ہیں اور یہی بات درست ہے۔''
اتنے حوالے ہونے کے باوجود بھی آپ اس کے معنی معاف کرنا لیں تو یہ آپ کی مرضی ہے۔
مجھے یہ بتائیں ’ اعفاء ‘ اور ’ تکثیر ‘ میں کوئی تضاد ہے ، جو بندہ داڑھی کو اس کی حالت پر چھوڑتا ہے ، کیا اس کی داڑھی زیادہ نہیں ہوتی ، یا اس کے حال پر چھوڑنے سے داڑھی کم ہوجاتی ہے ؟
ان معانی میں تضاد ہے،کیا بڑھانے اور معاف کرنے میں کوئی اختلاف نہیں ہے؟َ
نہیں ۔
یہ آپ کی رائے ہے لاکھوں میں کسی ایک کے ساتھ یہ مسئلہ ہے،ہمارے ہاں تو ایسی بہت سے لوگ جن کی ڈاڑھیاں حد سے زیادہ بڑھی ہوئی ہیں، ان میں سے بعض تو یہ ہیں
ان میں سے کتنے لوگ ہیں ، جن سے آپ کی ملاقات ہوئی ہے ؟ یا جن کی تصویریں آپ نے خود لی ہیں ، یا آپ کے کسی جاننے والے نے لی ہیں ؟
کیا اس استثنا کی آپ کے پاس کوئی ایسی دلیل ہے کہ جس میں یہ وضاحت موجود ہو کہ جس کی داڑی زیادہ لمبی ہوجائے وہ واعفوا اللحا پر عمل نہیں کرے گا،آپ کا دعوی تو یہی ہے کہ داڑی چاہے زمین سے ٹکرائے بس اس کو بڑھاتے جاؤ،کاٹنا نہیں ہے،چاہے سکھوں جیسی ہوجائے یا یہودیوں جیسا چہرہ ہوجائے۔
اصل حکم پر پہلے بات کریں ، استثنائی صورت پر بعد میں بات کرلیں گے ۔
دوسری بات : جب ہماری دلیل سنت رسول صلی اللہ علیہ وسلم ہے تو پھر اختلاف اپنی جگہ لیکن اسے یہودیوں سکھوں کے ساتھ تشبیہ دینا درست نہیں ۔ امید ہے آئندہ آپ گریز کریں گے ۔