• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

ایک مشت سے زائد ڈاڑھی کٹانےکے جواز پر صحابہ کا اجماع

حافظ عمران الہی

سینئر رکن
شمولیت
اکتوبر 09، 2013
پیغامات
2,100
ری ایکشن اسکور
1,460
پوائنٹ
344
[QUOTE
دوسری بات : داڑھی کا حکم نبوی فرض کا درجہ رکھتا ہے ، جبکہ ابن عمر کا فعل آپ کے نزدیک وجوب یا فرض پر دلالت نہیں کرتا ، حالانکہ مفسَر اور مفسِر کا درجہ ایک ہی ہونا چاہیے ۔[/QUOTE]

داڑھی کا حکم نبوی فرض کا درجہ رکھتا ہے ، جبکہ ابن عمر کا فعل تمام صحابہ ،تابعین،تبع تابعین اور تمام امت کے نزدیک وجوب یا فرض پر دلالت کرتا ہے،لیکن علی الاطلاق کسی کے نزدیک وجوب یا فرض پر دلالت نہیں رکھتا اور جہاں تک مفسِر کی بات ہے تو ان ﷺ سے یہی ثابت ہے کہ ان کی داڑھی لمبی نہیں تھی بلکہ معتدل تھی،ان کو داڑھی کاٹنے کے ضرورت ہی پیش نہ آئی،پھر اس کی تفسیر ابن عباس سے اس طرح منقول ہے:
حدَّثنا مُحَمَّد بن إِسْحَاق السِّنْدي قَالَ: حَدثنَا عَلِي بن خَشْرَم عَن عِيسَى عَن عبد الْملك عَن عَطاءِ عَن ابْن عَبَّاس فِي قَوْله: {ثُمَّ لْيَقْضُواْ تَفَثَهُمْ} (الْحَج: 29)
قَالَ: التَّفَثُ الحَلْق والتّقصير والأخذُ من اللّحية والشّارب والإبط، والذّبْح وَالرَّمْي.

سیدنا عبد اللہ بن عباس سے اللہ تعالی کے اس فرمان
:{ثُمَّ لْيَقْضُواْ تَفَثَهُمْ}
کی تفسیر اس طرح منقول ہے:تفث سے مراد حلق،تقصیر اور داڑی،مونچھ اوربغلوں کے بال کاٹنا ، قربانی اور رمی کرنا ہے۔
( تهذيب اللغة لمحمد بن أحمد (المتوفى: 370هـ)190/14 ) (سنده صحیح)
میں سمجھتا ہوں کہ اس آیت کی یہ تفسیر ابن عباس نے رسول اللہ ﷺ سے اخذ کی ہے۔جب کہ ابن عباس اعفاء اللحیہ کے مشہور و معروف راوی بھی ہیں۔
اعفاء اللحیۃ کے مطلق معنی کی دلیل اب بھی آپ کے ذمہ ہے۔
 

خضر حیات

علمی نگران
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 14، 2011
پیغامات
8,771
ری ایکشن اسکور
8,496
پوائنٹ
964
بہ ایں صورت پھر یہ معنی بھی ثابت نہیں ہوتا کہ داڑھی کو اس کے حال پر ہی چھوڑ دیا جائے. بلکہ تکثیر ثابت ہوتی ہے. اور تکثیر ایک "مجمل" لفظ ہے. مجملات کی تاویل کی جاتی ہے اس لیے اس کی حد (1) اجتہادا اور (2) نصا عن الراوی ایک مشت مقرر کی جا "سکتی" ہے.
آپ تکثیر کی کیا تحدید کریں گے اس صورت میں؟
حکم میں ہی تو اختلاف ہے کہ اس کا معنی کیا ہے. اگر اس کا معنی متعین ہوتا اور پھر اس کی تفسیر میں کوئی اضافی چیز آ جاتی تو ہم کہتے کہ مفسِر کو مفسَر کے برابر ہونا چاہیے.
یہاں اگر حکم کی تفسیر لغت سے کی جائے گی تو اس پر بھی یہ اعتراض وارد ہو جائے گا کہ لغت فرض و واجب نہیں ہے. اس طرح تو کسی روایت کا کوئی مطلب نہیں رہ جائے گا.
کم از کم معاملہ میری سمجھ سے باہر ہے کہ ’ اعفاء ‘ کا لفظ کس طرح ایک مشت پر دلالت کرتا ہے ؟ مان لیں اس کا معنی ’ تکثیر ‘ ہے ، تکثیر سے یہ مراد کیسے متعین ہو جاتی ہے کہ جو بھی ’ اعفاء ‘ کرتے تھے ، وہ ایک قبضہ سے زائد داڑھی کترواتے تھے ؟
دوسری جو بات میں نے حکم والی کی ، اس سے مراد یہ ہے کہ داڑھی رکھنا فرض ہے ( یا اس میں بھی آپ کو اختلاف ہے ؟ ) پھر داڑھی کیسی رکھنی ہے ؟ ایک مشت یا اس کو اس کے حال پر چھوڑنا ہے ؟ اس میں جو حضرات کہتے ہیں کہ ابن عمر رضی اللہ عنہ کا فعل تشریح کرتا ہے ، فعل رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی ، ان کے نزدیک درست موقف یہ بنتا ہے کہ داڑھی ایک مشت رکھنا ہی سنت رسول ہے ، اور یہی فرض ہے ، جو اس سے کم یا زیادہ کرے گا وہ سنت کا مخالف ہے ، حالانکہ اس قول قائلین ایسا کہتے نہیں ، بلکہ ان کے نزدیک ایک مشت سےزائد کتروانا جائز ، اور اس کو اس کے حال پر چھوڑنا افضل ہے ۔ ایک ہی بات سے جواز اور افضلیت بیک وقت کیسے ثابت ہوتے ہیں ؟!
محترم خضر بھائی !
آپ اس لفظ کے معنی کو صرف ابن عمر تک محدود کیوں کر رہے ہیں،جب کہ میں نے تو یہ ثابت کیاہے کہ تمام صحابہ کرام کے نزدیک اعفاء،توفیر،ایفاء وغیرہ کا معنی یک مشت ہے،اور آپ کا دعوی تھا کہ اعفاء کا معنی مطلق ڈاڑھی کو چھوڑ دینا ہے،اور آپ کا یہ بھی دعوی تھا کہ امت کی اکثریت نے اعفا کے مطلق معنی کو قبول کیا ہے،میں نے کہا تھا کہ یہ ایک وہم اس سے زیادہ کچھ بھی نہیں،اس دعوے کی دلیلاب بھی آپ کے ذمہ ہے۔
آپ نے پانچ صحابہ سے اعفا کی دلیل دی حالاں کہ وہ مطلق اعفا کی دلیل نہیں ہے،اگر مطلق اعفا ثابت بھی ہوجائے تو وہ استحباب پر محمول ہوگا نہ کہ وجوب پر،وجوب تب ہی ثابت ہوگا جب یک مشت ڈاڑھی پر کسی صحابی کی نکیر ثابت ہوجائے۔
’ مطلق اعفاء ‘ کیسے ثابت ہوگا ؟
اللہ کے رسول سے بھی ’ اعفاء ‘ ثابت ہے ، جس نے صحابہ کرام کا فعل نقل کیا ہے ، اس میں بھی ’ اعفاء ‘ کا لفظ بلا کسی قید کے موجود ہے ۔ کیا اس سے مطلق اعفاء ثابت نہیں ہوتا ؟
’ اعفاء ‘ کی تاویلیں آپ کر رہے ہیں ، آپ کو اسے ’ مقید اعفاء ‘ ثابت کرنے کی دلیل پیش کرنی چاہیے ۔ ابھی تک آپ نے جو ثابت کیا ہے ، وہ صرف اتنا ہے کہ اعفاء سے مراد تکثیر بھی ہوسکتی ہے ، اور تکثیر کا اطلاق ایک مشت پر بھی ہوسکتا ہے ، یہاں تک مجھے کوئی اختلاف نہیں ۔ اختلاف اس سے آگے ہے کہ آپ اس ممکنہ معنی کو ہر جگہ بلا دلیل مراد لے رہے ہیں ۔
مثال کے طور پر میں نے داڑھی کو اس کے حال پر چھوڑا ہوا ہے ، کیا میرا یہ فعل اعفاء کہلائے گا یا نہیں ؟ اگر ہاں تو پھر آپ ہر جگہ اس سے ایک مشت ہی ثابت کیوں کرنا چاہتے ہیں ؟
 

حافظ عمران الہی

سینئر رکن
شمولیت
اکتوبر 09، 2013
پیغامات
2,100
ری ایکشن اسکور
1,460
پوائنٹ
344
[QUOTE
اللہ کے رسول سے بھی ’ اعفاء ‘ ثابت ہے ، جس نے صحابہ کرام کا فعل نقل کیا ہے ، اس میں بھی ’ اعفاء ‘ کا لفظ بلا کسی قید کے موجود ہے ۔ کیا اس سے مطلق اعفاء ثابت نہیں ہوتا ؟
’ اعفاء ‘ کی تاویلیں آپ کر رہے ہیں ، آپ کو اسے ’ مقید اعفاء ‘ ثابت کرنے کی دلیل پیش کرنی چاہیے ۔ ابھی تک آپ نے جو ثابت کیا ہے ، وہ صرف اتنا ہے کہ اعفاء سے مراد تکثیر بھی ہوسکتی ہے ، اور تکثیر کا اطلاق ایک مشت پر بھی ہوسکتا ہے ، یہاں تک مجھے کوئی اختلاف نہیں ۔ اختلاف اس سے آگے ہے کہ آپ اس ممکنہ معنی کو ہر جگہ بلا دلیل مراد لے رہے ہیں ۔
مثال کے طور پر میں نے داڑھی کو اس کے حال پر چھوڑا ہوا ہے ، کیا میرا یہ فعل اعفاء کہلائے گا یا نہیں ؟ اگر ہاں تو پھر آپ ہر جگہ اس سے ایک مشت ہی ثابت کیوں کرنا چاہتے ہیں ؟[/QUOTE]
خضر بھائی حدیث میں مزید کئی الفاظ کا ذکر ہے،ان کی بات بھی کر لیں مثلا:
توفیر،ارخا،ارجا،ایفا
رسو اللہ سے اعفا کہاں ثابت ہے؟ اس اعفا کا معنی کیا ہے؟کیا آپ کے پاس کوئی ایسی صحیح صریح حدیث ہے جس میں اس بات کی صراحٹ ہو کہ آپ کی ڈارھی ایک مشت سے بڑی تھی اور پھرصحابہ اس توفیر والے قول رسول ﷺ کے پہلے مخاطب ہیں،آپ ہی بتائیں کہ اصحاب رسول نے اس اعفا کے معنی کیا مراد لیے ہیں؟ایک معنی وہ ہیں جو آپ کی مراد ہے اور ایک معنی وہ جو صحابہ کرام کی مراد ہے،اب ہم کس معنی کو معتبر قرار دیں؟
میں نے پہلے بھی یہ ثابت کیا ہے کہ تمام صحابہ نے اعفا،توفیر،ارخا،ارجا،ایفا کا معنی ایک مشت لیا ہے،جیسا کہ میں نے داڑی والی حدیث کے راویوں سے اس معنی کا ثبوت فراہم کر دیا ہے،اب بھی یہی گزارش ہے کہ آپ کے اس خودساختہ فہم کی زد میں رسول اللہ کے صحابی ہی آ رہے ہیں، اس حدیث کی تاویل کا فتوی اصحاب رسول پر لگائیں کیوں میں نے تو ان کا فہم ہیش کیا ہے،جہاں تک میری تاویل کی بات ہے تو اس کی کوئی حیثیت نہیں ہے،اصحاب نبی کے اسی فہم کو تمام اصحاب اور تابعین نے قبول کیا،ائمہ اربعہ نے قبول کیا محدثین نے تسلیم کیا،ابن تیمیہ،ابن حجروغیرہ اور دور حاضر کے اکثر اہل حدیث علمائے کرام نے اسی معنی کو مانا ہے۔
اب آپ بتائیں کہ صحابہ کے فہم کو مانیں گے یا نہیں مانے گے؟ کیوں کہ
الرَّاوِي أدرى بِمَا يرويهِ وَأعرف
یعنی راوی اپنی بیان کردہ روایت کا معنی دوسروں سے بہتر جانتا ہے۔ چناں چہ اس روایت کے راوی ابن عمر،ابن عباس،ابن جابر اور سیدنا ابو ہریرہ ہیں اور وہ اس کے معنی دوسروں سے بہتر جانتے ہیں۔
ہم تو وہی فہم معتبر سمجھتے ہیں جوصحابہ کرام ،تابعین عظام،تبع تابعین اور محدثین سے ثابت اور قابل اعتماد علمائے امت سے ثابت ہے،ہمارے علم کے مطابق کسی صحابی،تابعی یا تبع تابعی سے بسند صحیح نے ایک مٹھی سے زائد داڑی کٹوانے کو حرام یا ناجائز قرار نہیں دیا۔
حافظ عبد اللہ روپڑی رحمہ اللہ رقم طراز ہیں:
خلاصہ کلام یہ ہے کہ ہم تو ایک ہی بات جانتے ہیں وہ یہ ہے کہ سلف کاخلاف جائز نہیں ہے،کیوں کہ وہ لغت اور اصطلاحات سے غافل نہ تھے۔(فتاوی اہل حدیث:111/1
اس لیے میری آپ سے گزارش ہے کہ فہم سلف کو مان لو تمام پریشانیوں سے جان چھوٹ جائے گی اور اگر ان کے فہم کو رد کر کے کسی اور کے فہم کو ترجیح دو گے تو یہی گمراہی کا پہلا باب ہے، اللہ تعالی ہم سب کو فہم سلف کی پیروی کی توفیق عطا فرمائے۔آمین یا رب العالمین!
 

حافظ عمران الہی

سینئر رکن
شمولیت
اکتوبر 09، 2013
پیغامات
2,100
ری ایکشن اسکور
1,460
پوائنٹ
344
ایک تو آپ کی دونوں پوسٹوں کو ایک جگہ اکٹھا کردیا گیا ہے ۔
دوسرا : آپ کی تحریر حد اعتدال سے ذرا آگے کی ہے ، کیونکہ امت کی اکثریت اعفاء لحیہ کی قائل و فاعل ہے ، جنہیں آپ نے مخالفین اجماع کہہ کر اتباع غیر سبیل المؤمنین کے ساتھ منسلک کردیا ہے ۔ حالانکہ اختلافی مسائل میں بحث کا یہ طریقہ کار درست نہیں ۔
تیسری بات : فورم پر ہی کسی جگہ کچھ صحابہ کرام کا حوالہ موجود ہے ، جن سے اعفاء لحیہ بصراحت ثابت ہے ۔
محترم خضر بھائی!
آپ نے ایک دعوی کیا ہے جو کہ میں نے اوپر ہائی لائیٹ کیا ہے،اس دعوے کی دلیل اب تک نہیں آئی کہ امت کی اکثریت اعفاء اللحیہ کی قائل و فاعل ہے براہِ مہربانی دلیل دے کر عبد اللہ ماجور ہوں۔
 

حافظ عمران الہی

سینئر رکن
شمولیت
اکتوبر 09، 2013
پیغامات
2,100
ری ایکشن اسکور
1,460
پوائنٹ
344
اللہ کے رسول سے بھی ’ اعفاء ‘ ثابت ہے ، جس نے صحابہ کرام کا فعل نقل کیا ہے ، اس میں بھی ’ اعفاء ‘ کا لفظ بلا کسی قید کے موجود ہے ۔ کیا اس سے مطلق اعفاء ثابت نہیں ہوتا ؟
’ اعفاء ‘ کی تاویلیں آپ کر رہے ہیں ، آپ کو اسے ’ مقید اعفاء ‘ ثابت کرنے کی دلیل پیش کرنی چاہیے ۔ ابھی تک آپ نے جو ثابت کیا ہے ، وہ صرف اتنا ہے کہ اعفاء سے مراد تکثیر بھی ہوسکتی ہے ، اور تکثیر کا اطلاق ایک مشت پر بھی ہوسکتا ہے ، یہاں تک مجھے کوئی اختلاف نہیں ۔ اختلاف اس سے آگے ہے کہ آپ اس ممکنہ معنی کو ہر جگہ بلا دلیل مراد لے رہے ہیں ۔
مثال کے طور پر میں نے داڑھی کو اس کے حال پر چھوڑا ہوا ہے ، کیا میرا یہ فعل اعفاء کہلائے گا یا نہیں ؟ اگر ہاں تو پھر آپ ہر جگہ اس سے ایک مشت ہی ثابت کیوں کرنا چاہتے ہیں ؟
رسول اللہ ﷺ سے اعفاء کہاں ثابت ہے،اس کی دلیل کیا ہے؟اب آپ یہ ثابت کریں کہ اعفا،توفیر،ارخا،ایفا کے معنی کیا ہیں،صحابہ کرام،تابعین،امامان دین اور محدثین نے توفیر ارخا اور ایفا کے کیامعنی لیے ہیں،اس کے ساتھ ساتھ دیگر الفاظ کی بھی تشریح فرمادیں،اگر ایک شخص کی داڑھی گھٹنوں تک چلی جائے اور وہ اپنی ڈاڑھی کو مشت سے زائد کاٹ دے تو کیا اس کا یہ فعل حرام ہے،اس حرمت کی دلیل بھی عنایت فرمادیں، یہ بھی آپ ہی کا دعوی ہے کہ امت کی اکثریت آپ کے بیان کردہ معنی کی قائل و فاعل ہے،اس دعوے کی دلیل کیا ہے۔
محترم اشماریہ صاحب
محترم خضر صاحب
آپ سے گزارش ہے کہ اس حدیث کا ترجمہ تحریر کردیں:
(إِنَّهُمْ يُوفُونَ سِبَالَهُمْ، وَيَحْلِقُونَ لِحَاهُمْ، فَخَالِفُوهُمْ)
 
Last edited:

خضر حیات

علمی نگران
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 14، 2011
پیغامات
8,771
ری ایکشن اسکور
8,496
پوائنٹ
964
محترم خضر بھائی!
آپ نے ایک دعوی کیا ہے جو کہ میں نے اوپر ہائی لائیٹ کیا ہے،اس دعوے کی دلیل اب تک نہیں آئی کہ امت کی اکثریت اعفاء اللحیہ کی قائل و فاعل ہے براہِ مہربانی دلیل دے کر عبد اللہ ماجور ہوں۔
آپ نے اپنے موقف پر کتنے صحابہ کے نام گنوائے ہیں ، اور میں نے کتنے نام پیش کیے ہیں ؟ صراحتا ناموں کی بات کر رہا ہوں ، باقی جن صحابہ کرام سے صراحتا کچھ بھی ثابت نہیں ، ان کو چاہے رہنے ہی دیں ۔
رسول اللہ ﷺ سے اعفاء کہاں ثابت ہے،اس کی دلیل کیا ہے؟
اعفوا اللحی کے واضح الفاظ ہیں ، کیا یہ بات بھی محتاج ثبوت ہے ؟
اب آپ یہ ثابت کریں کہ اعفا،توفیر،ارخا،ایفا کے معنی کیا ہیں
اعفاء کا معنی معاف کرنا ، چھوڑنا
توفیر کا مطلب بڑھانا
ارخاء کا مطلب چھوڑنا ، ڈھیل دینا
ایفاء کا مطلب مکمل کرنا ، پورا کرنا
تابعین،امامان دین اور محدثین نے توفیر ارخا اور ایفا کے کیامعنی لیے ہیں
لغت میں ان الفاظ کے جو معانی ہیں ، وہی مراد لیے جائیں گے ، اور سلف کے بارے میں یہی نظریہ رکھا جائے گا ، الا کہ کسی جگہ کسی لفظ کا خصوصی معنی بیان کیا گیا ہو ، یا کسی سلف کی داڑھی کی خصوصی کیفیت بیان کی گئی ہو ۔
اگر ایک شخص کی داڑھی گھٹنوں تک چلی جائے اور وہ اپنی ڈاڑھی کو مشت سے زائد کاٹ دے تو کیا اس کا یہ فعل حرام ہے
کتنے لوگوں کی داڑھی گھٹنوں تک جاتی ہے ؟ لاکھوں میں سے اگر ایک کی داڑھی ایسی ہے تو پھر اسے استثنائی حالت سمجھا جائے گا نہ کہ اصل سمجھ کر اس پر مسائل کی بنیاد رکھی جائے گی ۔
 

حافظ عمران الہی

سینئر رکن
شمولیت
اکتوبر 09، 2013
پیغامات
2,100
ری ایکشن اسکور
1,460
پوائنٹ
344
آپ نے اپنے موقف پر کتنے صحابہ کے نام گنوائے ہیں ، اور میں نے کتنے نام پیش کیے ہیں ؟ صراحتا ناموں کی بات کر رہا ہوں ، باقی جن صحابہ کرام سے صراحتا کچھ بھی ثابت نہیں ، ان کو چاہے رہنے ہی دیں ۔
مجھے تو اس بات پہ حیرانی ہو رہی ہے کہ ایک سیددھی سی بات آپ کیوں نہیں سمجھ رہے ہیں میں اس عمل کو تمام صحابہ کی طرف منسوب کیا ہے،اور آپ اس عمل کو صرف چار اصحاب رسول کا عمل گمان کر رہے ہیں اس کے دلائل یہ ہیں:
((كُنَّا نُعْفِي السِّبَالَ إِلَّا فِي حَجٍّ أَوْ عُمْرَةٍ) سنن أبوداود:رقم:4203)
حضرت جابر رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں کہ ہم لوگ (صحابہ کرام رضوان اللہ عنہم اجمعین ) داڑھی کے بالوں کوچھوڑ دیا کرتے تھے، مگر حج یا عمرہ میں(مشت سے زائد) کٹوایا کرتے تھے۔
قال المباركفوري في (تحفة الأحوذي)(8/38): سنده حسن، وكذلك قال قبله الحافظ في(فتح الباري)(10/350) والحديث سكت عنه المنذري:
عون المعبود شرح سنن أبي داود:
(4 / 136)
کیا اس روایت میں اس عمل کو تمام صحابہ کرام کی جانے منسوب نہیں کیا گیا،یہ سادہ سی آپ بات بھی آپ کو سمجھ نہیں آ رہی ہے،کیا آپ نے اس روایت کو نہیں پڈھا جس میں تابعین سے اس عمل کو اپنے وقت کے تمام لوگوں کی جانب منسوب کیاہے:حَدَّثَنَا غُنْدَرٌ محمد بن جعفر الهذلي ، عَنْ شُعْبَةَ بن الحجاج بن الورد، عَنْ منصور بن المعتمر بن عبد الله بن ربيعة بن حريث بن مالك بن رفاعة بن الحارث بن بهثة بن سليم ، قَالَ: سَمِعْتُ عَطَاءَ بْنَ أَبِي رَبَاحٍ، قَالَ: «كَانُوا يُحِبُّونَ أَنْ يُعْفُوا اللِّحْيَةَ إِلَّا فِي حَجٍّ أَوْ عُمْرَةٍ» (مصنف ابن ابي شيبة:الرقم: 25482، سنده صحيح )
تابعی جلیل جناب عطا بن ابی رباح(م 114 ه) بیان کرتے ہیں کہ وہ (ہمارے زمانے کے لوگ یعنی صحابہ کرام و تابعین عظام) صرف حج و عمرے کے موقع پر اپنی مشت سے زائدداڑیاں کاٹنا پسند کیا کرتے تھے۔
محدث کبیر امام ابن ابی شیبہ بیان کرتے ہیں:
حَدَّثَنَا عَائِذُ بْنُ حَبِيبٍ، عَنْ أَشْعَثَ، عَنِ الْحَسَنِ، قَالَ: «كَانُوا يُرَخِّصُونَ فِيمَا زَادَ عَلَى الْقَبْضَةِ مِنَ اللِّحْيَةِ أَنْ يُؤْخَذَ مِنْهَا»

(مصنف ابن ابي شيبة:الرقم: 25484، سنده حسن )
محدث کبیر امام ابن ابی شیبہ تابع جلیل جناب ابراہیم بن یزید نخعی(متوفی۹۵ھ) سے بیان کرتے ہیں:
''كانوا يأخذون من جوانبها، وينظفونها. يعني: اللحية'' (مصنف ابن ابي شيبة: (8/564) :الرقم

25490
، سنده صحيح )
وہ (ہمارے زمانے کے لوگ یعنی صحابہ کرام و تابعین عظام)داڑی کے اطراف سے(مشت سے زائد) بال لیتے تھے اور اس میں کانٹ چھانٹ کیا کرتے تھے ۔
جو دلیل آپ نے پیش کی ہے اس سے بھی میرا موقف ہی ثابت ہوتا ہے نہ کہ آپ کا کیوں کہ اعفاء کا معنی تکثیر ہے جیسا کہ اوپر بیان کیا گیا،اور تکثیر کو اصحاب رسول ﷺ نے ایک مشت کے ساتھ مقید کیا ہے،
یہ تمام صحابہ کرام کا عمل ہے اور اس پر کسی کی کوئی نکیر نہیں ہے،یہ سادی سی بات آپ کے من میں کیوں نہیں اترتی؟

آپ کیا یہ چاہتے کہ ایک لاکھ چالیس ہزار صحابہ کرام کا عمل ایک ایک کرکے آپ کے سامنے بیان کیا جائے،پھر آپ اس کو تسلیم کریں گے۔
جہاں تک صراحتا ناموں کی بات ہے ، جن صحابہ کرام سے صراحتا کچھ بھی ثابت نہیں ، ان کو چاہے رہنے ہی دیں ؟
آپ کا دعوی ہے کہ ڈاڑھی کتنی بھی لمبی ہوجائے اس کو چھیڑنا نہیں چاہیے،اس دعوے کے لیے آپ کے پاس کوئی ایسی صریح روایت ہونی چاہیے کہ جس میں کسی صحابی کا یہ قول ہو کہ ایک مشت سے زائد ڈاڑھی کاٹنا حرام ہے۔اب تک آپ نے کسی صحابی سے کوئی بھی ایسا قول ذکر نہیں کیا جس سے میں یہ صراحت ہو کہ ایک مشت سے زائد کاٹنا ممنوع ہے۔
آپ کی تحریر حد اعتدال سے ذرا آگے کی ہے ، کیونکہ امت کی اکثریت اعفاء لحیہ کی قائل و فاعل ہے ،
کیا اس کی کوئی دلیل بھی ہے آپ کے پاس؟
اور اس حدیث کا ترجمہ آپ سے مانگا گیا ہے:
(إِنَّهُمْ يُوفُونَ سِبَالَهُمْ، وَيَحْلِقُونَ لِحَاهُمْ، فَخَالِفُوهُمْ)
اعفوا اللحی کے واضح الفاظ ہیں ، کیا یہ بات بھی محتاج ثبوت ہے ؟
میرا مقصد یہ ہے کہ کوئی ایسی حدیث پیش کریں کہ جس میں یہ وضاحت موجود ہو کہ رسول اللہ نے کبھی اپنی ڈاڑھی کو چھیڑا ہی نہیں۔ پھر میں یہ ثابت کیا ہے کہ رسول اللہ ﷺ کی ڈاڑھی بڑی نہیں تھی اب آپ یہ ثابت کریں کہ آپ کی ڈاڑھی مبارک اتنی لمبی تھی کہ اسے کاٹنے کی ضرورت پیش آتی۔
اعفاء کا معنی معاف کرنا ، چھوڑنا
توفیر کا مطلب بڑھانا
ارخاء کا مطلب چھوڑنا ، ڈھیل دینا
ایفاء کا مطلب مکمل کرنا ، پورا کرنا
لغت میں ان الفاظ کے جو معانی ہیں ، وہی مراد لیے جائیں گے ، اور سلف کے بارے میں یہی نظریہ رکھا جائے گا ، الا کہ کسی جگہ کسی لفظ کا خصوصی معنی بیان کیا گیا ہو ، یا کسی سلف کی داڑھی کی خصوصی کیفیت بیان کی گئی ہو ۔
کیا وجہ ہے کہ آپ کو یہ معنی نظر کیوں نہیں آ رہا ہے:
لسان العرب: (عفا القوم كثروا، وفي التنزيل: {حتى عفوا} أي كثروا، وعفا النبت والشعر وغيره يعفو فهو عاف: كثُر وطال، وفي الحديث: أنه - صلى الله عليه وسلم - أمر بإعفاء اللحى، هو أن يوفَّر شعرها ويُكَثَّر، ولا يقص كالشوارب، من عفا الشيء إذا كثر وزاد
(لسان العرب:75/15)

ابن دقیق العید نے اعفاء کے معنی تکثیر لکھے ہیں:
تَفْسِيرُ الْإِعْفَاءِ بِالتَّكْثِيرِ
(فتح الباری:351/10)

وقال القرطبي في (المفهم) (1/512) قال أبو عبيد: (يقال عفا الشيء إذا كثر وزاد)
شارح بخاری امام ابن بطال نے بھی اعفاء اللحیۃ کے معنی تکثیر اللحیۃ کیے ہیں۔
(شرح ابن بطال:146/9)
شارح بخاری حافظ ابن حجر توفیر کےمعنی بیان کرتے ہوئے لکھتے ہیں:

(وَفِّرُوا فَهُوَ بِتَشْدِيدِ الْفَاءِ مِنَ التَّوْفِيرِ وَهُوَ الْإِبْقَاءُ أَيِ اتْرُكُوهَا وَافِرَةً)
(فتح الباری:350/10)

توفیر کا معنی باقی رکھنا ہے،یعنی داڑی کو وافر مقدار میں باقی رکھو۔
شارح مشکوۃشرف الدین طیبی( یک مشت سے زائد داڑی کو کاٹنے کے قائل) نے اعفاء کے معنی یوں بیان کے ہیں:

(فالمراد بالإعفاء التوفير منه ، كما في الرواية الأخرى (وفروا اللحى)

(الكاشف عن حقائق السنن2930/9:)
''یہاں اعفاء کے معنی توفیر یعنی کثرت کے ہیں،جیسا کہ دوسری روایت (وفروااللِحا) میں یہ وضاحت موجود ہے۔''

حافظ ابن حجر نے تو یہاں تک لکھ دیا ہے:
(وَذَهَبَ الْأَكْثَرُ إِلَى أَنَّهُ بِمَعْنَى وَفِّرُوا أَوْ كَثِّرُوا وَهُوَ الصَّوَابُ)

اکثر علماء کا یہ موقف ہے کہ یہاں اعفاء کے معنی توفیر یا تکثیر کے ہیں اور یہی بات درست ہے۔''
اتنے حوالے ہونے کے باوجود بھی آپ اس کے معنی معاف کرنا لیں تو یہ آپ کی مرضی ہے۔
امام بخاری بھی عبد اللہ بن عمر کی روایت اسی لیے لے کر ہیں کہ اعفا کے معنی یک مشت کے ہیں۔
اعفاء کا معنی معاف کرنا ، چھوڑنا
توفیر کا مطلب بڑھانا
ارخاء کا مطلب چھوڑنا ، ڈھیل دینا
ایفاء کا مطلب مکمل کرنا ، پورا کرنا
ان معانی میں تضاد ہے،کیا بڑھانے اور معاف کرنے میں کوئی اختلاف نہیں ہے؟َ
کتنے لوگوں کی داڑھی گھٹنوں تک جاتی ہے ؟ لاکھوں میں سے اگر ایک کی داڑھی ایسی ہے تو پھر اسے استثنائی حالت سمجھا جائے گا نہ کہ اصل سمجھ کر اس پر مسائل کی بنیاد رکھی جائے گی ۔
یہ آپ کی رائے ہے لاکھوں میں کسی ایک کے ساتھ یہ مسئلہ ہے،ہمارے ہاں تو ایسی بہت سے لوگ جن کی ڈاڑھیاں حد سے زیادہ بڑھی ہوئی ہیں، ان میں سے بعض تو یہ ہیں:
اہل حدیث کی داڑھی.jpg
غیرمقلد داڑھی.jpg
غیرمقلد داڑھی.jpg
غیرمقلدین کی داڑھی کا مذاق.jpg
6.-Weird-Beard-and-Mustache-Designs.jpg
6WlViVY.jpg
6caad30cb0196128b4efab0145ebceb0.jpg
dari.jpg
beard42.jpg
younghans2.jpg

 
Last edited by a moderator:
شمولیت
ستمبر 21، 2015
پیغامات
2,697
ری ایکشن اسکور
762
پوائنٹ
290
"ہمارے یہاں" کی دلیل کم ازکم ان تصاویر سے نہیں دی جاسکتی ، ان تصاویر پر انٹرنیٹ پر مختلف عناوین سے بیشمار باتیں ہیں ۔ بات سنت پر هو تو غیر مسلموں کی تصاویر پیش کرنے کیا مقصد؟
اس سادہ سے سوال کا سادہ سا جواب دیں ۔
 

حافظ عمران الہی

سینئر رکن
شمولیت
اکتوبر 09، 2013
پیغامات
2,100
ری ایکشن اسکور
1,460
پوائنٹ
344
کتنے لوگوں کی داڑھی گھٹنوں تک جاتی ہے ؟ لاکھوں میں سے اگر ایک کی داڑھی ایسی ہے تو پھر اسے استثنائی حالت سمجھا جائے گا نہ کہ اصل سمجھ کر اس پر مسائل کی بنیاد رکھی جائے گی ۔
کیا اس استثنا کی آپ کے پاس کوئی ایسی دلیل ہے کہ جس میں یہ وضاحت موجود ہو کہ جس کی داڑی زیادہ لمبی ہوجائے وہ واعفوا اللحا پر عمل نہیں کرے گا،آپ کا دعوی تو یہی ہے کہ داڑی چاہے زمین سے ٹکرائے بس اس کو بڑھاتے جاؤ،کاٹنا نہیں ہے،چاہے سکھوں جیسی ہوجائے یا یہودیوں جیسا چہرہ ہوجائے۔
 
شمولیت
ستمبر 21، 2015
پیغامات
2,697
ری ایکشن اسکور
762
پوائنٹ
290
کیا اس استثنا کی آپ کے پاس کوئی ایسی دلیل ہے کہ جس میں یہ وضاحت موجود ہو کہ جس کی داڑی زیادہ لمبی ہوجائے وہ واعفوا اللحا پر عمل نہیں کرے گا،آپ کا دعوی تو یہی ہے کہ داڑی چاہے زمین سے ٹکرائے بس اس کو بڑھاتے جاؤ،کاٹنا نہیں ہے،چاہے سکھوں جیسی ہوجائے یا یہودیوں جیسا چہرہ ہوجائے۔
یہ تشبیہات بهی ناقابل قبول ہیں ۔ داڑهی جیسی سنت کو اس طرح کیوں تشبیہ دے رہے ہیں؟
 
Top