• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

ایک منصفانہ پیغام-تبلیغی جماعت کے نام

ابو دردا

مبتدی
شمولیت
جنوری 24، 2014
پیغامات
10
ری ایکشن اسکور
5
پوائنٹ
21
محترم بهائى شيخ توصيف الرحمان كو بهى كوئى سمجهاۓ
 

عبدہ

سینئر رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
نومبر 01، 2013
پیغامات
2,038
ری ایکشن اسکور
1,225
پوائنٹ
425
محترم بهائى شيخ توصيف الرحمان كو بهى كوئى سمجهاۓ
محترم بھائی ایک محاورہ ہے کہ
نہ رہے گا بانس نہ بجے گی بانسری
پس میرے خیال میں جب آپ میرا پیغام تبلیغی کو جا کر دیں گے اور وہ خلوص نیت سے اس پر عمل کریں گے تو پھر محترم شیخ توصیف الرحمن حفظہ اللہ کے بجانے کے لئے بانس ہی نہیں رہے گا تو کیسے بانسری بجائیں گے پس آپ انہائی اخلاص کے ساتھ میرے مشوری پر عمل کریں پھر دیکھتے ہیں اللہ مدد کرے گا
مگر تبلیغی جماعت کو اس کام سے روکنا یا توصیف الرحمن کو اس طرح لوگوں کے عیب نکالنے سے روکنا بھی تو ایک طرح سے انکو غلط سمجھنا ہو جائے گا ان کیا حل ہو سکتا ہے
محترم شاکر بھائی یا کوئی اور بھائی میری اور محترم ابو دردا بھائی کی مدد کرے ہمیں ایک مسئلہ درپیش ہے جزاکم اللہ خیرا
 

تلمیذ

مشہور رکن
شمولیت
ستمبر 12، 2011
پیغامات
765
ری ایکشن اسکور
1,506
پوائنٹ
191
تمہید
محترم ، اسلامی تحریکات جب بھی شروع ہوتی ہیں تو ان کا ایک خاص مقصد ہوتا ہے ان سے یہ توقع نہیں رکھی جاسکتی کہ کہ وہ تمام اسلام کو احاطہ کیے ہوئے ہیں ۔
کوئی تحریک ختم نبوت کے عقیدہ کے خلاف سازشووں کا مقابلہ کرنے کے لئيے بنی ، کوئی تحریک روا‌فض کی ریشہ دوانیوں کے لئيے معرض وجود میں آئی
اسی طرح تبلیغی جماعت کا اصل مقصد اعمال کے فضائل بیان کرکے عام مسلمانوں کو ان اعمال کی طرف راغب کرنا ہے ۔ ان اعمال کے مسائل بتانا مقصود نہیں ۔ اسی لئیے ان کی مجالس میں فضائل سے متعلق احادیث بیان کی جارہی ہوتی ہیں مسائل سے متعلق نہیں۔
البتہ چوں کہ توحید کے بغیر کوئی عمل مقبول نہیں تو تبلیغی جماعت سے وابستہ افراد کو توحید سمجھانے کا ایک طریقہ موجود ہے
یہ تمہید اگر مد نظر رکھی جائے گی تو کئی اعتراضات کا خاتمہ ہوجائے گا
اب میں آتا ہوں آپ کے اعتراضات کی طرف
محترم بھائی اللہ آپ کو جزائے خیر دے میرے خیال میں آپ کو اوپر بات صحیح سمجھا نہیں سکا
1-میرا اعتراض اس چیز پر تھا کہ دعوت کس چیز پر دینی ہے اس پر آپکا اتفاق نظر آیا ہے کہ سب سے پہلے توحید کی دعوت ہی دینی ہے
2-اسکے بعد میرا اعتراض تھا کہ نبیوں نے بھی تو یہی کام کیا تھا تو انھوں نے کون سی توحید کی دعوت دی تھی (اس پر بھی آپکا کوئی اعتراض نہیں ہونا چاہیے)
آپ کے دونوں نقاط سے متفق
3-اسکے لئے میں نے توحید کی عمومی طور پر کی جانے والی تین قسموں کا ذکر کیا اور کہا کہ سردست میرا موضؤع پہلی دو قسمیں یعنی توحید ربوبیت اور توحید الوھیت ہے (اس پر بھی کوئی اعتراض نہیں ہو گا ان شاءاللہ)
یہاں ایک بات کی وضاحت کرتا چلوں کہ اعلان و دعوت کے طریقہ کار میں فرق ہوتا ہے ۔ اعلان وہ الفاظ ہوتے ہیں جن کے ساتھ لوگوں کو ایک جگہ اکٹھا کیا جاتا ہے اور افراد کے اکٹھے ہونے کے بعد ان کی اصلاح کے لئيے بیان کیا جاتا ہے ۔ بیان مقصل ہوتا ہے اور اعلان اس کا خلاصہ ۔ اگر بیان کے الفاظ اعلان میں اکٹھے کرنے ہیں تو بیان کی کیا ضرورت۔
اللہ سے ہونے کا یقین اور غیر اللہ سے نہ ہونے کا یقین یہ اعلان ہے ۔ اگر آپ کہیں کہ اس اعلان کو یوں ہونا چاہئیے کہ اللہ سے مانگنے کا یقین اور غیر اللہ سے نہ مانگنے کا یقین تو جب کسی کے دل میں غیر اللہ سے نہ ہونے کا یقین آجائے گا تو وہ غیر اللہ سے کیوں مانگے گا ۔ ہاں یہ وضاحت بیان میں ہونے چاہئیے نہ کہ اعلان میں ۔ نہیں تو کل کوئی اعتراض کرے گا جب غیر اللہ سے نہ ہونے کا بھی اعلان کرتے ہو تو غیر اللہ کو سجدہ نہ کرنے کا بھی اعلان میں اضافہ کولو ۔ تو اگر یہی تبدیلیاں اسی طرح ہوتی رہیں تو اعلان بذات خود بیان ہوجائے گا ۔
4-توحید ربوبیت سے عمومی مراد اللہ سے ہونے کا یقین اور غیر اللہ سے نہ ہونے کا یقین ہے یعنی اللہ کے افعال میں کسی اور کو شریک نہ ٹھہرانا مراد ہے جبکہ توحید الوھیت سے عمومی مراد ہمارے افعال کا کسی اور ذات کے لئے نہ ہونا مراد ہے یعنی اللہ سے مانگنے کا یقین اور غیر اللہ سے نہ مانگنے کا یقین ہمارے دلوں میں آ جائے (اعتراض ہو تو بتا دیں)
یہاں مجھے اعتراض ہے میرے خیال میں اللہ سے ہونے کا یقین اور غیر اللہ سے ہونے کا یقین کا جملہ توحید ربوبیت کو بھی شامل ہے اور توحید الوہیت کو بھی ۔
توحید ربوبیت
اللہ سے ہونے کا یقین اور غیر اللہ (دکان ، زمین ، کاروبار وغیرہ )سے نہ ہونے کا یقین
توحید الوہیت
اللہ سے ہونے کا یقین اور غیر اللہ (نبی ، ولی ، شيخ) سے نہ ہونے کا یقین اور جب غیر اللہ (نبی ، ولی ، شیخ ) سے نہ ہونے کا یقین دل میں آجائے گا تو کوئی انسان کسی نبی ، ولی یا شیخ سے نہ مانگے گا
یہاں آپ غیر اللہ سے مراد صرف دکان و کاروبار کیوں لے رہے ہیں ؟؟؟
5-پھر کہا تھا کہ تمام نبیوں نے عموما توحید الوھیت کی دعوت دی توحید ربوبیت کی دعوت کی بہت کم ضرورت پڑی (اس پر اعتراض ہے تو بتا دیں)
متفق
6-پھر لکھا تھا کہ آج بریلوی بھی توحید ربوبیت کو مانتے ہیں یعنی یہ کہنا کہ دوکان رزق نہیں دیتی اللہ دیتا ہے پس تم دکان کی پروا نہ کرو بلکہ چلہ پر چلو اسی طرح فصل سے کچھ نہیں ملتا اللہ رزق دیتا ہے پس تم فصل کو چھوڑوں اور اللہ پر توکل کر کے سہ روزہ پر چلو تو کوئی بریلوی یا مشرکین مکہ میں سے بھی اسکا انکار نہیں کرے گا کہ اللہ کے علاوہ کسی اور سے ہوتا ہے جیسے اللہ نے کہا قل من یرزقکم من السماء والارض------فسیقولون اللہ- پس آج آپ کو اس پر پتھر نہیں لگیں گے
7-پھر لکھا تھا کہ آج کے بریلوی بھی اور مشرکین مکہ بھی توحید الوھیت کے منکر تھے کہ ہم اللہ کے علاوہ کسی سے کیوں نہیں مانگ سکتے
پس اوپر یہ ثابت کیا تھا کہ ہمارے نبی کا کلمہ لا الہ الا اللہ تھا یعنی توحید الوھیت کی دعوت تھی الہ کی جگہ رب نہیں تھا
1- اگر پتھر لگنا مار کھانا حق کی دلیل ہے تو ایسے بے شمار واقعات پیش آئے جس میں تبلیغی جماعت کو بریلویوں کے ہاتھوں مار کھانا پڑی ہے ۔
2- اگر تبلیغی جماعت والے اپنی جماعت کے افراد کو توحید الوہیت نہیں سکھاتے تو بریلوی حضرات اپنے مسلک والوں کو تبلیغی جماعت کے ساتھ جانے سے کیوں روکتے ہیں
3- اگر تبلیغی جماعت والے اپنی جماعت کے افراد کی توحید الوہیت کی تربیت نہیں کرتے تو پھر نتیجہ یہ نکلا چائہیے کہ بریلوی حضرات اس جماعت سے جڑتے لیکن ساتھ میں عرس بھی مناتے اور تبلیغی جماعت کے ماتحت 12ربیع الاول کے جلوس بھی نکالتے ۔ لیکن ہم دیکھتے ہیں بدعتی افراد اس جماعت کے ساتھ الحاق کے بعد بدعات چھوڑ دیتے ہیں
اب آپ کے اعتراضات کی طرف آتے ہیں
آپ کی بات پر مندرجہ ذیل اعتراضات ہیں
1-توحید الوھیت توحید ربوبیت میں داخل نہیں ہے اگر ایسا سمجھا جائے تو پھر اللہ سے ہونے کا یقین قرآن کہتا ہے کہ مشرکین مکہ بھی رکھتے تھے پھر مشرک کیوں ہوئے
2-مسلمان ہوتے ہوئے خالی کلمہ کے الفاظ سے عیسائی کو کیسے پتا چلتا ہے کہ عیسی خدا نہیں اور قادیانی کو کیسے پتا چلتا ہے کہ مرزا نبی نہیں- اسکی وضاحت بھی تو ہوتی ہے پس کسی قادیانی کو یا عیسائی کو جب تک آپ وضاحت نہ کریں تو اس سے لاکھ کلمے پڑھوا لیں وہ مسلمان نہیں ہو گا اور یہ بھی یاد رکھیں کہ وضاحت دونوں کے پرانے عقیدہ کو مدنظر رکھ کر کی جائے گی پس جب آپ بریلوی کو توحید کی دعوت دیں گے تو انکے مانگنے کے عقیدے کو مدنظر رکھ کر دی جائے گی خالی کلمہ کے الفاظ نہیں پڑھائے جائیں گے
3-خالی کلمہ تو قادیانی بھی یہ پڑھتا ہے کیا آپ اپنے اوپر والے اصول کے تحت انکو دعوت ہی نہیں دیں گے کیونکہ کلمہ تو آپ تبدیل نہیں کر سکتے جسکو وہ بھی پڑھ رہا ہے تو پھر اگر آپ نے اسکو اگر ختم نبوت کی دعوت دی تو آپ نے تو کلمہ ہی تبدیل کر دیا بلکہ آپ کے مولانا اللہ وسایا اور اس طرح کو اور بہت سے علماء کرام نے تو پھر سارے کلمہ کو کب سے تبدیل کر رکھا ہے
(اس پر کوئی اعتراض ہے تو بتائیں)
یہاں شاید میں نے اپنا مدعا صحیح بیان نہیں کر پایا ۔
میرے کہنے کا مقصد یہ تھا کہ جب ایک عام آدمی کو اسلام کی طرف بلایا جائے گا ( اس عام آدمی کے متعلق ہمیں نہیں معلوم کہ وہ بدعتی ہے یا قادیانی ہے یا عیسائی ہے ) تو کیا صرف کلمہ التوحید و الرسالت کا اقرار کافی ہے یا محتلف فتنوں کو مد نظر رکتھے ہوئے ہوئے کلمہ کے ساتھ ختم نبوت کا اقرار اور حضرت عیسی علیہ السلام کو خدا ماننے کا انکار وغیرہ کو بھی کلمہ کا جزو بنادیں گے ۔ واضح ہو کلمہ اسلام کی طرف بلانے کا اعلان ہے اور میری رائے کلمہ پڑھنے کے بعد مذکورہ شخص کو حکمت کے ساتھ ان فتنوں سے بچایا جائے گا ۔ اگر یہ تمام فتنوں کے بارے میں آگاہی اعلان میں رکھنی ہے تو کلمہ تو بہت لمبا ہوجائے گا !!!
جی میں نے اوپر آپ سے اسی بارے ایک الزامی سوال پوچھا ہے کہ اس طرح آپ نے اوپر خود اقرار کیا ہے کہ کلمہ میں ضمنا ختم نبوت کا معاملہ آ جاتا ہے اور کلمہ میں توحید الوھیت کا معاملہ آ جاتا ہے تو کیا اگر کوئی داعی عیسائی یا قادیانی کو کہتا ہے کہ خالی کلمہ کے الفاظ ہی کہ دو تو تم مسلمان ہو جاؤ گے تو کیا وہ درست ہے
آپ کی بار بار ضمنا والی بات کرنے پر دعوت کے لحاظ سے اسکی وضاحت کرتا چلوں
تاکہ قارئین پر یہ بھی گڈ مڈ نہ ہو
دعوت کے پس منظر میں ضمنا والی بات دو طرح کی ہوسکتی ہے
ایک وہ جس کے بارے متکلم اور مخاطب کو سب پتا ہو مثلا متکلم کسی مسلمان کو کہتا ہے کہ نماز پڑھو تو اس میں ضمنا یہ حکم بھی موجود ہے کہ وضو کرو اور اسکا پتا دونوں کو ہے پس یہاں پر ضمنا بات کو بیان نہ بھی کیا جائے تو کوئی حرج نہیں
دوسری وہ جس کے بارے متکلم کو تو پتا ہو مگر مخاطب کو نہ پتا ہو مثلا متکلم کسی غیر مسلم کو کہتا ہے جسکو نماز کا پتا ہی نہیں کہ نماز پڑھو تو چاہے وہ نماز کا پورا طریقہ بھی بتا دے تو جب تک وضو کا نہیں بتائے گا اس وقت تک وضو والی بات ضمنا اس حکم میں شامل نہیں ہو گی
پس توحید الوھیت کبھی بھی ضمنا کسی بریلوی کے لئے توحید ربوبیت میں شمل نہیں ہو سکتی واللہ اعلم
اللہ سے ہونے کا یقین اور غیر اللہ سے نہ ہونے کا یقین میں غیر اللہ میں کیوں نبی یا ولی نہیں ہوسکتے ۔ یہ بات بریلوی علماء اور عوام بھی جانتے ہیں جب غیر اللہ سے نہ ہونے کا یقین تبلیغی جماعت والے کہتے ہیں تو اس میں جہاں غیر اللہ سے مراد دکان و کاروبار ہے اسی طرح غیر اللہ سے مراد ولی اور نبی بھی ہیں اسی لئیے تو بریلوی حضرات اس جماعت کے ساتھ عموما نہیں جاتے اور ان کے علماء اس جماعت کے ساتھ جانے کو اپنی عوام کو منع کرتے ہیں
محترم بھائی یہ کوئی دلیل نہیں ہے یعنی آپ ایک اصول بیان کر رہے ہیں کہ
اگر کوئی شرک نہیں کرتا تو اسکا مطلب ہے کہ وہ توحید کی دعوت بھی لازمی دیتا ہے
کیا آپ اس پر دوبارہ غور کریں گے کہ آپ نے ایک درست اصول بیان کیا ہے میں کوئی تبصرہ نہیں کرتا
اللہ تعالی آپ کو میری بات پڑھنے اور غور کرنے پر جزائے خیر دے امین
میں نے یہ اصول بیان کیا کہ اگر کوئی جماعت شرک میں ملوث نہیں تو یقینا وہ اپنے سے منسلک افراد کی توحید الوہیت کی تربیت کر رہی ہے اسی لئیے تو وہ شرکیات سے بچے ہوئے ہیں
اگر تبلیغی جماعت اپنے سے منسلک افراد کی توحید الوہیت کے حوالہ سے کوئی تربیت نہیں کر رہی تو یہ نتیجہ نکلا چاہیے تھا کہ اس جماعت سے بریلوی ، شیعہ افراد بھی منسلک ہوتے اور اپنی اپنی بدعات و شرکیات پر عامل بھی ہوتے لیکن کیا وجہ ہے کہ یہ نتیجہ نہیں نکلا
میں صرف ایک واقعہ بیان کرکے اپنی بات ختم کرتا ہوں ۔
اس شب جمعہ کو میں تبلیغی جماعت کے مرکز کے بیان میں شرکت کی تھی اور جن صاحب نے بیان کیا وہ کہ رہے تھے کہ ہد ہد پرندہ بھی جانتا تھا کہ سجدہ صرف اللہ کو کیا جاتا ہے اور غیر اللہ کو سجدہ نہیں کرنا چاہئیے ۔ لیکن ہم بات نہ سمجھ سکے۔
اب اس طرح کے کلمات یقینا بریلوی حضرات کا رد ہیں لیکن اگر آپ کہیں کہ یہ الفاظ اعلان میں بھی شامل ہونا چاہئیں تو اگر سب کلمات اعلان میں شامل کرنے ہیں تو مفصل بیان کی کیا ضرورت۔
 

تلمیذ

مشہور رکن
شمولیت
ستمبر 12، 2011
پیغامات
765
ری ایکشن اسکور
1,506
پوائنٹ
191
میرے خیال سے یہ تنقید براے تنقید کا نہ ختم ھونے والا سلسلہ قیامت تک جاری رھے گا اصل میں سچ وہ ھے جو اپنے بارے میں کہا جاے ھمیں اپنا احتساب کرنا چاہئ ھے دیکھو کسی کے نگہبان نہ بنو کسی کے ٹھیکدار نہ بنو کون سہی ھے کون غط ھے یہ فیصلہ تو اللہﷻ نے کرنا ھے کبھی کسی کے عیب نہ دیکھنا ورنہ اللہﷻ بن توبہ کے اٹھا لے گا توبہ کی توفیق نصیب نہ ھوگی اگر اوروں کے عیب دیکھتے دیکھتے زندگی گزر گئی تو ایک بات یاد رکھنا توبہ کے بغیر موت آے گی اپنی عیب دیکھو اوروں کی خوبیاں دیکھو تو ھر پل تمہیں توبہ کی توفیق نصیب ھوگی ھر پل تمہیں اور اچھے نظر ائیں گے اپنے آپ کو برا دیکھو گے اور اگر اوروں کے عیب دیکھے تو ھر پل اپنے آپ کو اچھا دیکھو گے اوروں کو برا دیکھو گے تکبر بھی آے گا حجت بھی آے گا اور توبہ بھی نہیں ھوگا
ابو دردا بھائی
یہاں میرا مقصد تنقید برائے تنقید نہیں میرا عبدہ بھائی کے ساتھ بھی حسن ظن یہی ہے کہ وہ اصلاح کے لئیے پوسٹ کرتے ہیں
اب اگر میں غلطی پر ہوں تو عبدہ بھائی کی پوسٹس سے میر اصلاح ہوجائے گی یا اگر عبدہ بھائی غلطی پر ہیں تو میری پوسٹس سے ان کی اصلاح ہوجائے گی ۔ ثواب دونوں صورتوں میں ملے گا
اگر بات ایسے رخ پر چلی جاتی ہے ہم دونوں میں سے کوئی قائل نہیں ہوتا تو ایسے موقع پر بحث برائے بحث سے بچنے کے لئیے میں اپنا موقف بیان کرکے خاموش ہوجاتا ہوں کیوں کہ ہوسکتا ہے کوئی تیسرا پڑھے اور اس کی اصلاح ہوجائے
تو مذکرات دوسروں کے عیب ظاہر کرنے کے لئیے نہیں ہوتے بلکہ اپنے مسلمان بھائی کی اصلاح کے لئیے ہوتے ہیں
جزاک اللہ خیرا
 

انس

منتظم اعلیٰ
رکن انتظامیہ
شمولیت
مارچ 03، 2011
پیغامات
4,178
ری ایکشن اسکور
15,346
پوائنٹ
800
عبدہاب اگر کوئی قادیانی حضرات کا فتنہ ذھن میں رکھتے ہوئے یہ مطالبہ کرے کہ مسلمانوں کو اپنا کلمہ تبدیل کرلینا چاہئيے کیوں کہ اس میں ہمارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی رسالت کی گواہی تو ہے لیکن ختم النبوہ کا اقرار نہیں تو آپ کیا کہیں گے
الٹا چور کوتوال کو ڈانٹے!
میرے بھائی! کیا مبہم جملہ ’’اللہ سے ہونے کا یقین اور غیر اللہ سے نہ ہونے کا یقین‘‘ مسلمانوں کا کلمہ ہے جس میں عبدہ بھائی تبدیلی کی مطالبہ کر رہے ہیں؟!! یا للعجب!

محترم بھائی! عبدہ بھائی کا مطالبہ یہ ہے کہ دعوت توحید الوہیت کی طرف دینی چاہئے اور یہی ہمارے کلمے لا إله إلا الله محمد رسول الله کا تقاضا بھی ہے۔

وہ کلمہ بدلنے کی نہیں بلکہ کلمہ کی طرف رجوع کی بات کر رہے ہیں۔
 

انس

منتظم اعلیٰ
رکن انتظامیہ
شمولیت
مارچ 03، 2011
پیغامات
4,178
ری ایکشن اسکور
15,346
پوائنٹ
800
ھمیں اپنا احتساب کرنا چاہئ ھے دیکھو کسی کے نگہبان نہ بنو کسی کے ٹھیکدار نہ بنو کون سہی ھے کون غط ھے یہ فیصلہ تو اللہﷻ نے کرنا ھے
انا للہ وانا الیہ راجعون!
کسی پر زبردستی کرنے اور حکمت کے ساتھ اصلاح کرنے میں زمین وآسمان کا فرق ہے۔

اللہ تعالیٰ نے ہمیں امر بالمعروف ونہی عن المنکر اور حکمت ونرمی کے ساتھ اصلاح کرنے کا تو حکم دیا ہے۔ لیکن کسی پر زبردستی کرنے سے روکا ہے۔

اگر آپ کی منطق پر عمل کیا جائے تو پھر کفار وفجار کو دعوت دینے کی ضرورت ہی نہیں۔ پھر نہ جانے انبیاء کس مقصد کیلئے تشریف لائے۔ کس لئے انہوں نے آزمائش سہیں؟!!!

کبھی کسی کے عیب نہ دیکھنا ورنہ اللہﷻ بن توبہ کے اٹھا لے گا توبہ کی توفیق نصیب نہ ھوگی
میرے بھائی! اللہ سے ڈرو! یہ ’افتراء علی اللہ‘ ہے۔ اللہ معاف فرمائیں!

نبی کریمﷺ جب لوگوں میں عیب دیکھتے تو حکمت کے ساتھ ان کی ہر ممکن اصلاح کرنے کی کوشش کرتے۔ کیا یہی بات آپ ان کے متعلق بھی کہیں گے؟!!

نبی کریمﷺ نے امت کو یہی تعلیم دی: من رأى منكم منكرا فليغيره بيده، فإن لم يستطع فبلسانه، فإن لم يستطع فبقلبه، وذلك أضعف الإيمان. رواه مسلم
’’تم میں سے جو بھی (کسی میں) عیب دیکھے تو ہاتھ سے اُسے تبدیل کر دے۔ اگر اس کی طاقت نہ رکھے تو اپنے زبان سے۔ اگر اس کی طاقت بھی نہ رکھے تو اپنے دل سے (یعنی دل میں برا جانے، لیکن) یہ کمزور ترین درجۂ ایمان ہے۔‘‘
 

عبدہ

سینئر رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
نومبر 01، 2013
پیغامات
2,038
ری ایکشن اسکور
1,225
پوائنٹ
425
ٹکڑوں میں کر کے جواب دیتا ہوں
تمہید
محترم ، اسلامی تحریکات جب بھی شروع ہوتی ہیں تو ان کا ایک خاص مقصد ہوتا ہے ان سے یہ توقع نہیں رکھی جاسکتی کہ کہ وہ تمام اسلام کو احاطہ کیے ہوئے ہیں ۔
کوئی تحریک ختم نبوت کے عقیدہ کے خلاف سازشووں کا مقابلہ کرنے کے لئيے بنی ، کوئی تحریک روا‌فض کی ریشہ دوانیوں کے لئيے معرض وجود میں آئی
اسی طرح تبلیغی جماعت کا اصل مقصد اعمال کے فضائل بیان کرکے عام مسلمانوں کو ان اعمال کی طرف راغب کرنا ہے ۔ ان اعمال کے مسائل بتانا مقصود نہیں ۔ اسی لئیے ان کی مجالس میں فضائل سے متعلق احادیث بیان کی جارہی ہوتی ہیں مسائل سے متعلق نہیں۔
1-آپ کی اس بات سے مجھے اختلاف کیسے ہو سکتا ہے کہ مختلف جماعتیں اسلام کے مختلف کام کر رہی ہیں پس کوئی مدرسہ چلا رہا ہے کوئی دعوت کا کام کر رہا ہے کوئی جہاد کر رہا ہے پس اس بات سے تو میں نے اوپر کہیں اختلاف ہی نہیں کیا کہ تبلیغی جماعت صرف دعوت کیوں دے رہی ہے پھر اس تمہید کی کیا ضرورت ہے
2-البتہ اگر آپ کی اس تمہید کا مقصد یہ ہے کہ دعوت میں بھی چونکہ مختلف چیزوں کی دعوت ہو سکتی ہے تو تبلیغی جماعت نے اگر ایک دعوت (توحید کی بجائے فضائل) کا چناؤ کر لیا ہے تو کون سسی غلطی کی ہے تو محترم بھائی اس میں غلطی کی بات یہ ہے کہ آگے آپنے خود کہا ہے کہ سب سے پہلے توحید کی دعوت دینی چاہیے کیونکہ اگر توحید نہیں تو باقی دعوتوں کا چناؤ کا کوئی فائدہ نہیں مثلا اگر کوئی کسی قادیانی کو سب سے پہلے زکوۃ وغیرہ کی دعوت دینا شروع کر دیتا ہے تو وہ غلطی پر ہو گا کیونکہ یہاں پر وہ دعوت میں اپنی مرضی سے چناؤ نہیں کر سکتا
3-اس پر بھی اگ آپ یہ کہیں جیسے نیچے کہا ہے کہ ہمیں تو پتا نہیں ہوتا کہ آگے واقعی مشرک ہیں جو ہم انکو شرک کی دعوت دینا شروع کر دیں تو محترم بھائی اس کے لئے بھی آپ سے عقلی رائے پوچھتا ہوں کہ آپ کسی ایسے ملک میں دعوت دینے جاتے ہیں جہاں اکثریت غیر مسلم کی ہے تو کیا آپ جب سب کو دعوت دے رہے ہوں تو پہلے کس چیز کا انتخآب کریں گے یا سب کو نمازی گمان کر کے دعوت دینا شروع کر دیں گے
4-اگر آپ کہیں کہ میں ان میں سے پہلے مسلم اور غیر مسلم کی تحقیق کروں گا اور پھر اسکی روشنی میں ضرورت کے مطابق دعوت دوں گا تو پھر کیا یہاں ایسا کیا جاتا ہے
5-اگر آپ کہیں کہ میں تو صرف مسلم کو ہی دعوت دوں گا تو پھر بھی پہلے تحقیق کرنی پڑے گی کہ مسلم کون ہے اور مشرک کون ہے
جاری ہے
 

عبدہ

سینئر رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
نومبر 01، 2013
پیغامات
2,038
ری ایکشن اسکور
1,225
پوائنٹ
425
البتہ چوں کہ توحید کے بغیر کوئی عمل مقبول نہیں تو تبلیغی جماعت سے وابستہ افراد کو توحید سمجھانے کا ایک طریقہ موجود ہے
یہ تمہید اگر مد نظر رکھی جائے گی تو کئی اعتراضات کا خاتمہ ہوجائے گا
تبلیغی جماعت دعوت صرف اپنے سے وابستہ افراد کو دیتی ہے یا عام افراد کو بھی دیتی ہے دوسرا یہ بھی پوچھنا ہے کہ وہ طریقہ کیا ہے اب آپ اپنی تمہید پر میری وضآحت کے بعد یہ طریقہ بھی سمجھا دیں اللہ آپ کو جزائے خیر دے امین

یہاں ایک بات کی وضاحت کرتا چلوں کہ اعلان و دعوت کے طریقہ کار میں فرق ہوتا ہے ۔ اعلان وہ الفاظ ہوتے ہیں جن کے ساتھ لوگوں کو ایک جگہ اکٹھا کیا جاتا ہے اور افراد کے اکٹھے ہونے کے بعد ان کی اصلاح کے لئيے بیان کیا جاتا ہے ۔ بیان مقصل ہوتا ہے اور اعلان اس کا خلاصہ ۔ اگر بیان کے الفاظ اعلان میں اکٹھے کرنے ہیں تو بیان کی کیا ضرورت۔
محترم بھائی اس دھاگہ میں میں نے یہ اعتراض بھی نہیں کیا کہ اعلان کو مجمل کیوں رکھا ہے مفصل کیوں نہیں کیا میں نے محترم بھائی یہ کہا ہے کہ اللہ سے ہونے کا یقین کی بجائے اللہ سے مانگنے کا یقین کہا جائے اب آپ بتائیں کہ اس میں اعلان کو میں نے مفصل کیا ہے یا اتنا ہی رکھا ہے
میرا اعتراض یہ ہے کہ انکا مجمل اعلان جس تفصیل پر دلالت کرتا ہے وہ انبیاء کی توحید نہیں ہے اور میں نے جو اسکا متبادل اعلان دیا ہے اگرچہ وہ بھی اسی طرح مجمل ہی ہے مگر وہ جس تفصیل پر دلالت کرتا ہے وہ انبیاء کی دعوت یا آج کی ضرورت کہا جا سکتی ہے آپ کو اس پر اعتراض ہے تو دلائل دیں
آگے میں ان شاءاللہ یہ بھی ثابت کروں گا کہ اس غلط مجمل اعلان کو لینے کی وجہ سے جماعت جب آگے تفصیل بیان کرتی ہے تو اس میں بریلویوں کا رد کہیں بھی نہیں ہوتا

اللہ سے ہونے کا یقین اور غیر اللہ سے نہ ہونے کا یقین یہ اعلان ہے ۔ اگر آپ کہیں کہ اس اعلان کو یوں ہونا چاہئیے کہ اللہ سے مانگنے کا یقین اور غیر اللہ سے نہ مانگنے کا یقین تو جب کسی کے دل میں غیر اللہ سے نہ ہونے کا یقین آجائے گا تو وہ غیر اللہ سے کیوں مانگے گا ۔ ہاں یہ وضاحت بیان میں ہونے چاہئیے نہ کہ اعلان میں ۔ نہیں تو کل کوئی اعتراض کرے گا جب غیر اللہ سے نہ ہونے کا بھی اعلان کرتے ہو تو غیر اللہ کو سجدہ نہ کرنے کا بھی اعلان میں اضافہ کولو ۔ تو اگر یہی تبدیلیاں اسی طرح ہوتی رہیں تو اعلان بذات خود بیان ہوجائے گا
محترم بھائی آپ جس چیز کو اعلان کہ رہے ہیں اسکو اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے دور میں اپلائی کر کے دیکھتے ہیں کہ اگر اللہ کے نبی وہاں دعوت دیتے وقت یہی اعلان کرتے تو مشرکین مکہ کو کوئی اختلاف ہوتا
اللہ تعالی قرآن میں کہتا ہے کہ
قُلْ مَنْ يَرْزُقُكُمْ مِنَ السَّمَاءِ وَالْأَرْضِ أَمَّنْ يَمْلِكُ السَّمْعَ وَالْأَبْصَارَ وَمَنْ يُخْرِجُ الْحَيَّ مِنَ الْمَيِّتِ وَيُخْرِجُ الْمَيِّتَ مِنَ الْحَيِّ وَمَنْ يُدَبِّرُ الْأَمْرَ ۚ فَسَيَقُولُونَ اللَّهُ ۚ فَقُلْ أَفَلَا تَتَّقُونَ

یعنی مشرکین مکہ اللہ کی ذات پر یقین رکھتے تھے اور اسی سے ہونے کا یقین رکھتے تھے بلکہ ذرا آخری ٹکڑے کو پڑھیں کہ فَقُلْ أَفَلَا تَتَّقُونَ یعنی اے محمد صلی اللہ علیہ وسلم ان سے پوچھو کہ اے مشرکین مکہ جب اللہ تعالی کے بارے اتنا اچھا عقیدہ (تبلیغی جماعت والے اعلان والا) رکھتے ہو تو پھر تمھاری عقل کو کیا ہو گیا ہے کہ پھر بھی شرک کرتے ہو
یعنی اس دور میں بھی اس اعلان کا اقرار کرنے کے باوجود بھی شرک کیا جاتا تھا اور آج بھی ایسا ہی ہوتا ہے
اصل میں اس قسم کا اعلان مجمل ہونے کی وجہ سے قابل اعتراض نہیں بلکہ اتنا غیر واضح ہے کہ مشرک بھی اس کا اقرار کر لیتے ہیں آج بھی کوئی بریلوی عالم دکان یا فصل سے ہونے کا اقرار نہیں کرتا (جہاں تک یہ کہنا ہے کہ صرف دکان سے ہونے کا نہیں کہا جاتا بلکہ عبدالقادر جیلانی سے نہ ہونے کا بھی مطلب اس میں شامل ہے تو اس پر نیچے میرا دعوی ہو گا ان شاءاللہ)
جاری ہے
 

عبدہ

سینئر رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
نومبر 01، 2013
پیغامات
2,038
ری ایکشن اسکور
1,225
پوائنٹ
425
یہاں مجھے اعتراض ہے میرے خیال میں اللہ سے ہونے کا یقین اور غیر اللہ سے ہونے کا یقین کا جملہ توحید ربوبیت کو بھی شامل ہے اور توحید الوہیت کو بھی ۔
توحید ربوبیت
اللہ سے ہونے کا یقین اور غیر اللہ (دکان ، زمین ، کاروبار وغیرہ )سے نہ ہونے کا یقین
توحید الوہیت
اللہ سے ہونے کا یقین اور غیر اللہ (نبی ، ولی ، شيخ) سے نہ ہونے کا یقین اور جب غیر اللہ (نبی ، ولی ، شیخ ) سے نہ ہونے کا یقین دل میں آجائے گا تو کوئی انسان کسی نبی ، ولی یا شیخ سے نہ مانگے گا
یہاں آپ غیر اللہ سے مراد صرف دکان و کاروبار کیوں لے رہے ہیں ؟؟؟
ایک تو میں نے اوپر وضاحت آیت کے تحت یہ وضآحت کی ہے کہ اللہ سے ہونے کے یقین میں جو ابہام ہے اسکی وجہ سے مشرکین مکہ بھی اسکو مانتے تھے اب میں آپ کو آج کے بریلوی کا نظریہ بتاتا ہوں
آپ کا دعوی
1-اللہ سے ہونے کے یقین اور غیر اللہ سے نہ ہونے کے یقین کے اندر اللہ سے مانگنے کا یقین اور غیر اللہ سے نہ مانگنے کا یقین بھی شامل ہوتا ہے
2-اس میں اللہ کو سجدہ کرنے کا یقین اور غیر اللہ کو سجدہ نہ کرنے کا یقین بھی شامل ہوتا ہے وغیرہ
3-پس اگر کوئی جماعت یہ دعوت دیتی ہے کہ اللہ سے ہونے کا یقین اور غیر اللہ سے ہونے کا یقین ہمارے دلوں میں آ جائے تو وہ آج کل کے مشرکین کو اصلی توحید کی ہی دعوت دے رہی ہوتی ہے

میرا دعوی
1-اللہ سے ہونے کے یقین اور غیر اللہ سے نہ ہونے کے یقین کی دعوت کے اندر ایسا ابہام ہے کہ جس کی وجہ سے بریلوی اس میں اللہ سے مانگنے کے یقین اور غیر اللہ سے نہ مانگنے کے یقین کی دعوت کو شامل نہیں سمجھتے
2-پس اگر کوئی جماعت ایسی دعوت دیتی ہے کہ اللہ سے ہونے کا یقین اور غیر اللہ سے نہ ہونے کا یقین ہمارے دلوں میں آ جائے تو وہ آج کے مشرک کو اصلی توحید کی دعوت نہیں دے رہی

میرے دعوی کی دلیل
میتھ کے اندر تھیورم (مسئلے) پڑھے ہوں گے کسی چیز کو ثابت کرنا ہوتا تو اسکے غیر (جو اسکا کمپلیمنٹ بھی ہو) کو ممتنع ثابت کر دیتے ہیں پس تلمیذ بھائی کا دعوی میرے دعوی کا غیر (کمپلیمنٹ) ہے اور اسکو خود تبلیغی جماعت نہیں مانتی یعنی وہ کہتی ہے کہ اللہ سے ہونے کے یقین والے نعرہ میں ابہام ہے اور اللہ سے مانگنے والے نعرہ میں واضح توحید ہے یہ میں نے نیچے ثابت کیا ہے پس ثابت ہوا کہ میرا دعوی درست ہے

تبلیغی جماعت کا نظریہ
تبلیغی جماعت سے ہم جب کہتے ہیں کہ اللہ سے ہونے والے نعرہ میں ابہام ہے پس آپ ایک دفعہ اپنے رائیونڈ کے اجتماع میں میرے والا نعرہ کا اعلان کر دیں تو میں آپ کے ساتھ جانے کو تیار ہوں تو ابھی تک تمام بھائیو نے مجھے یہی جواب دیا ہے کہ اس طرح بریلوی ہم سے متنفر ہو جائیں گے کیونکہ یہ نعرہ واضح توحید کی دعوت ہے پھر بریلوی ہماری شب جمعہ میں نہیں آئیں گے پس ہم حکمت کی وجہ سے ایسا نہیں کرتے کیونکہ ہم جوڑ پیدا کرنا چاہتے ہیں توڑ نہیں پس ثابت ہوا کہ تبلیغی جماعت والے بھی یہ یقین رکھتے ہیں کہ اللہ سے ہونے کا یقین اور غیر اللہ سے نہ ہونے کا یقین میں ایسا ابہام ہے کہ جس سے بریلوی کو بیوقوف بنایا جا سکتا ہے

اگر آپ کو تبلیغی جماعت کے نظریہ پر اعتراض ہو تو پھر میرا ایک کام کر دیں انکو ایک دن رائیونڈ میں میرے والا اعلان کروا دیں جسکو ہم ریکارڈ کر سکیں پھر میں اس جماعت کے ساتھ جانے کو تیار ہو جاؤں گا
جاری ہے
 

عبدہ

سینئر رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
نومبر 01، 2013
پیغامات
2,038
ری ایکشن اسکور
1,225
پوائنٹ
425
1- اگر پتھر لگنا مار کھانا حق کی دلیل ہے تو ایسے بے شمار واقعات پیش آئے جس میں تبلیغی جماعت کو بریلویوں کے ہاتھوں مار کھانا پڑی ہے ۔
2- اگر تبلیغی جماعت والے اپنی جماعت کے افراد کو توحید الوہیت نہیں سکھاتے تو بریلوی حضرات اپنے مسلک والوں کو تبلیغی جماعت کے ساتھ جانے سے کیوں روکتے ہیں
3- اگر تبلیغی جماعت والے اپنی جماعت کے افراد کی توحید الوہیت کی تربیت نہیں کرتے تو پھر نتیجہ یہ نکلا چائہیے کہ بریلوی حضرات اس جماعت سے جڑتے لیکن ساتھ میں عرس بھی مناتے اور تبلیغی جماعت کے ماتحت 12ربیع الاول کے جلوس بھی نکالتے ۔ لیکن ہم دیکھتے ہیں بدعتی افراد اس جماعت کے ساتھ الحاق کے بعد بدعات چھوڑ دیتے ہیں
1-چھوٹی موٹی لڑائی تو عام باتوں میں بھی ہو جاتی ہے دوسرا اللہ کے نبی صلی اللہ علی وسلم کے ساتھ زیادہ تر یہ ہوتا تھا کہ مشرکین سے یا تو پتھر لگتے تھے یا پھر وہ دعوت قبول کر لیتے تھے اسکے برعکس آج بغیر مبالغہ کے تبلیغی جماعت کے لاکھ ٹیسٹ کیس لے لیں تو پتھر والہ واقعہ ان میں شاید ایک ہو
2-محترم بھائی اس طرح تو ایک ہی فرقے کے لوگ بھی اسی فرقے کی دوسری جماعت سے اختلاف رکھتے ہوئے لوگوں کو اس میں جانے سے روکتے ہیں حتی کہ اہل حدیث میں بھی جہاد والے جمہوریت والوں سے روکتے ہیں اور جمہوریت میں بھی مرکزی والے اور دوسرے آپس میں متحد نہیں ہوتے اور جہاد والوں میں بھی ایک دوسرے کے سخت دشمن ہیں جو ایک دوسرے کو تکفیری اور مرجیہ جیسے القابات دیتے ہیں مگر کوئی توحید پر ایک دوسرے سے اختلاف نہیں رکھتا
3-آپ کی بات کی حقیقت سے مقع نظر یہ پوچھنا ہے کہ کوئی مشرک ہمارے ساتھ رہتا رہے مگر ہم اسکو دعوت نہ دیں لیکن چونکہ ہم خود شرک نہیں کرتے تو اسکو شرک کرنے کا ماحول ہی میسر نہ ہو تو لگے کہ وہ شرک نہیں کرتا تو کیا ہم کہ سکتے ہیں کہ ہم توحید کے داعی ہیں

یہاں شاید میں نے اپنا مدعا صحیح بیان نہیں کر پایا ۔
میرے کہنے کا مقصد یہ تھا کہ جب ایک عام آدمی کو اسلام کی طرف بلایا جائے گا ( اس عام آدمی کے متعلق ہمیں نہیں معلوم کہ وہ بدعتی ہے یا قادیانی ہے یا عیسائی ہے ) تو کیا صرف کلمہ التوحید و الرسالت کا اقرار کافی ہے یا محتلف فتنوں کو مد نظر رکتھے ہوئے ہوئے کلمہ کے ساتھ ختم نبوت کا اقرار اور حضرت عیسی علیہ السلام کو خدا ماننے کا انکار وغیرہ کو بھی کلمہ کا جزو بنادیں گے ۔ واضح ہو کلمہ اسلام کی طرف بلانے کا اعلان ہے اور میری رائے کلمہ پڑھنے کے بعد مذکورہ شخص کو حکمت کے ساتھ ان فتنوں سے بچایا جائے گا ۔ اگر یہ تمام فتنوں کے بارے میں آگاہی اعلان میں رکھنی ہے تو کلمہ تو بہت لمبا ہوجائے گا !!!
محترم بھائی آپ کی اس بات پر اوپر محترم انس بھائی نے زبردست وضآحت کی ہوئی ہے میری حاجت نہیں رہتی

اللہ سے ہونے کا یقین اور غیر اللہ سے نہ ہونے کا یقین میں غیر اللہ میں کیوں نبی یا ولی نہیں ہوسکتے ۔ یہ بات بریلوی علماء اور عوام بھی جانتے ہیں جب غیر اللہ سے نہ ہونے کا یقین تبلیغی جماعت والے کہتے ہیں تو اس میں جہاں غیر اللہ سے مراد دکان و کاروبار ہے اسی طرح غیر اللہ سے مراد ولی اور نبی بھی ہیں اسی لئیے تو بریلوی حضرات اس جماعت کے ساتھ عموما نہیں جاتے اور ان کے علماء اس جماعت کے ساتھ جانے کو اپنی عوام کو منع کرتے ہیں
یہ میں نے اوپر آپ کے تبلیغی جماعت کے نظریے کے تحت غلط ثابت کیا ہوا ہے اور بریلویوں کے منع کرنے میں اگرچہ ایک وجہ یہ بھی ہوتی ہے کہ آپ عموما شرک نہیں کرتے مگر اور بھی وجویات ہوتی ہیں لیکن محترم بھائی جماعت پر یہ اعتراض میں نہیں کر رہا کہ وہ شرک کرتے ہیں بلکہ یہ کہ رہا ہوں کہ شرک سے درست طریقے سے روکتے نہیں بلکہ مصلحت کا شکار ہیں چاہے وہ نیک نیتی سے مصلحت کا شکار ہوں واللہ اعلم
جاری ہے
 
Top