• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

بابرکت و باسعادت بڑھاپا

شمولیت
اکتوبر 25، 2014
پیغامات
350
ری ایکشن اسکور
29
پوائنٹ
85
نماز عشاء کی اہمیت اور ٹائم مینجمنٹ کی تربیت

مغرب کے بعد عشاء کی نماز کا وقت شروع ہوجاتا ہے۔ عشاء کی نماز اس قدر اہم ہے کہ مسلمان اور منافق ہونے میں فرق اس کے پڑھنے اور نہ پڑھنے میں ہے۔

حضرت ابوہریرہ ﷛ سے روایت ہے کہ نبی کریم ﷺ نے فرمایا کہ’’ منافقوں پر فجر اور عشاء کی نماز سے زیادہ اور کوئی نماز بھاری نہیں اور اگر انہیں معلوم ہوتا کہ ان کا ثواب کتنا زیادہ ہے (اور چل نہ سکتے) تو گھٹنوں کے بل گھسیٹ کر آتے اور میرا تو ارادہ ہو گیا تھا کہ مؤذن سے کہوں کہ وہ تکبیر کہے، پھر میں کسی کو نماز پڑھانے کے لیے کہوں اور خود آگ کی چنگاریاں لے کر ان سب کے گھروں کو جلا دوں جو ابھی تک نماز کے لیے نہیں نکلے‘‘۔ (صحيح البخاري: 657)

نماز کے معاملے میں کاہلی و سستی منافقت کی علامت ہے۔ فجر اور عشاء یہ دو وقت ایسے ہیں جو اول تو آرام و استراحت اور نیند کی لذت حاصل کرنے کے ہیں۔ اس لیے منافق اور کمزور ایمان کے مسلمان ان دونوں نمازوں میں سستی کر جاتے ہیں کیونکہ یہ دونوں اوقات مسجد میں جانا ان بدبختوں پر بہت گراں ہوتے ہیں۔ لہٰذا یہ حدیث اس طرف اشارہ کر رہی ہے کہ مخلص و صادق مومنین کو چاہیے کہ سستی و کاہلی نہ کریں اور وقت پر باجماعت نمازیں ادا کریں۔

عشاء اور فجر کی نمازوں کو وقت پر ادا کرنے کے لیے نبی اکرم ﷺ ’’ عشاء سے پہلے سونے اور اس کے بعد بات چیت کرنے کو ناپسند فرماتے تھے‘‘۔ (صحیح بخاری: 568، صحيح مسلم: 647، سنن ترمذي: 168)

عشاء سے پہلے سونے کی کراہت کی وجہ یہ ہے کہ اس سے عشاء فوت ہو جانے کا خدشہ رہتا ہے، اور عشاء کے بعد بات کرنا اس لیے ناپسندیدہ ہے کہ اس سے سونے میں تاخیر ہوتی ہے جس کی وجہ سے انسان کے لیے تہجد یا فجر کے لیے اٹھنا مشکل ہو جاتا ہے۔

اکثر اہل علم نے نماز عشاء سے پہلے سونے اور اس کے بعد بات کرنے کو مکروہ کہا ہے، اور بعض نے نماز عشاء کے بعد جاگنا صرف دینی کام یعنی تعلیم و تعلم یا وعظ و تذکیر وغیرہ کے لیے جائز و مستحب قرار دیا ہے وہ بھی اس شرط پر کہ نماز فجر وقت پر ادا کی جائے، لیکن اگر نماز فجر وقت پر ادا کرنا ممکن نہ ہوسکے تو یہ جائز نہیں ہوگا۔ رہے ایسے کام جن میں کوئی دینی اور علمی فائدہ یا کوئی شرعی غرض نہ ہو مثلاً ٹیلی ویژن بینی، نیٹ سرفنگ، کھیل کود، فضول گپ شپ وغیرہ تو یہ سب ویسے بھی لغو، مکروہ اور حرام کام ہیں، عشاء کے بعد ان میں مصروف رہنے سے ان کی حرمت یا کراہت اور بڑھ جاتی ہے۔ رات میں دیر تک جاگنا طبی نقطہ نظر سے بھی انسان کے لیے کئی نقصانات کا باعث ہے۔

وقت ایک نہایت قیمتی اور بیش بہا نعمت ہے جو ایک مرتبہ فوت ہوگئی تو دوبارہ اس کا حصول ناممکن ہے۔ رات دیر تک جاگنا صبح دیر سے اٹھنا وقت کی بربادی ہے جبکہ وقت کی حفاظت کرنے اور اس کو غنیمت جاننے کی اسلام میں سخت تاکید کی گئی۔

غور کیجيے صبح نماز فجر کے لیے اٹھنے سے لے کر رات نماز عشاء کے فوراً بعد سونے تک دین اسلام نے ہر مسلمان کو کیسے بہترین اوقات بندی (ٹائم مینجمنٹ) اور وقت کو بابرکت بنانا سکھایا ہے لیکن افسوس کہ ساری دنیا میں آج امت مسلمہ ہی وہ امت ہے جو ٹائم مینجمنٹ کرنے، اپنے وقت کو کارآمد اور بابرکت بنانے میں دنیا کی تمام اقوام سے پیچھے ہے جبکہ دین اسلام کے مطابق ایک انسان کا وقت ہی اس کا سب سے قیمتی اثاثہ ہے جس کا اسے اپنے رب کے دربار میں کھڑے ہوکر حساب دینا ہوگا۔ اگر اس زندگی میں وقت کی قدر نہیں کی جائے اور اسے غفلت، شر اور سیئات کی نذر کر دیا جائے تو پھر عذابِ جہنم سے کیسے بچا جاسکتا ہے، جب فرمایا جائے گا:

أَوَلَمْ نُعَمِّرْكُم مَّا يَتَذَكَّرُ فِيهِ مَن تَذَكَّرَ وَجَاءَكُمُ النَّذِيرُ ۖ فَذُوقُوا فَمَا لِلظَّالِمِينَ مِن نَّصِيرٍ ‎﴿٣٧﴾‏ سورة فاطر
’’کیا ہم نے تمہیں اتنی عمر نہیں دی تھی کہ اس میں جو شخص نصیحت حاصل کرنا چاہتا، وہ نصیحت حاصل کر سکتا تھا اور (پھر) تمہارے پاس ڈرانے والا بھی آچکا تھا، پس اب (عذاب کا) مزہ چکھو سو ظالموں کے لیے کوئی مددگار نہ ہوگا ‘‘

لیکن اگر ہم اس زندگی میں اپنے وقت کی قدر کریں اور اسے خیر و بھلائی کے کاموں میں صرف کریں تو (ان شاء اللہ ) کل قیامت کے دن ہمیں نیکی اور بھلائی کا بہترین اجر ملے گا،

كُلُوا وَاشْرَبُوا هَنِيئًا بِمَا أَسْلَفْتُمْ فِي الْأَيَّامِ الْخَالِيَةِ ‎(٢٤) سورة الحاقة
(ا ور کہا جائے گا) ’’ خوب لطف اندوزی کے ساتھ کھاؤ اور پیو اُن (اَعمال) کے بدلے جو تم گزشتہ ( دنیاوی زندگی کے) اَیام میں آگے بھیج چکے تھے‘‘۔

سیدنا عبادہ بن صامت ﷝نے کہا: میں گواہی دیتا ہوں کہ میں نے رسول اللہ ﷺ کو یہ فرماتے ہوئے سنا: میرے پاس اللہ تعالیٰ کی طرف سےجبریل آئے اور کہا: ’’ اے محمد! اللہ تعالیٰ نے آپ سے فرمایا ہے: میں نے آپ کی امت پر پانچ نمازیں فرض کی ہیں، جو آدمی وضو، اوقات اور سجود وغیرہ سمیت ان کا پورا حق ادا کرے گا، اس سے میرا معاہدہ ہے کہ میں اسے جنت میں داخل کروں گا، اور جو آدمی ان کی ادائیگی میں کمی کر کے مجھے ملے گا تو اس کے لیے میرے ہاں کوئی عہد نہیں ہے، چاہوں تو عذاب دوں اور چاہوں تو رحم کر دوں ‘‘۔ (سلسلہ احاديث صحيحہ ترقیم البانی: 842)

عبداللہ بن مسعود ﷛ کہتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ ﷺ سے پوچھا کہ اللہ تعالیٰ کو کون سا عمل زیادہ محبوب ہے؟ تو آپ ﷺ نے فرمایا: ’’وقت پر نماز پڑھنا، والدین کے ساتھ حسن سلوک کرنا، اور اللہ کی راہ میں جہاد کرنا ‘‘۔ (صحيح البخاري: 7534، سنن نسائي: 611)

اسود بن یزید نے حضرت عائشہ ﷝ سے پوچھا کہ گھر میں نبی کریم ﷺ کیا کیا کرتے تھے؟ ام المؤمنین ﷝ نے بیان کیا کہ ’’نبی کریم ﷺ اپنے گھر کے کام کاج یعنی اپنے گھر والیوں کی خدمت کیا کرتے تھے اور جب نماز کا وقت ہوتا تو فوراً (کام کاج چھوڑ کر) نماز کے لیے چلے جاتے تھے‘‘۔ (صحيح البخاري: 676)

وقت پر نماز ادا کرنے سے ہمیں توانائی ملتی ہے اور بامقصد زندگی گزارنے کی قوت ارادی مضبوط ہوتی ہے۔ ایک بار جب ہم اپنا سب سے اہم فریضہ (نماز) وقت پر ادا کر لیتے ہیں تو باقی سارے کام آسان ہو جاتے ہیں کیونکہ اس طرح اللہ تعالیٰ کی رحمت سے ہمارے وقت میں برکت پیدا ہوجاتی ہے۔

ایک عام مسلمان کے لیے مسجد میں جاکر پنجگانہ نمازیں باجماعت ادا کرنا وقت کا بہترین استعمال ہے جوکہ وقت کی بہترین منصوبہ بندی (ٹائم مینجمنٹ) سے ہی ممکن ہوتا ہے یعنی ہر مسلمان کو پنجگانہ نمازوں کے ذریعے ٹائم مینجمنٹ سکھایا گیا ہے۔ پس اس تربیت سے فائدہ اٹھاتے ہوئے ہمیں زندگی کے ہر شعبے میں اپنی تمام تر سرگرمیوں کے لیے ٹائم مینجمنٹ کرنا چاہیے تاکہ ہم اپنے وقت کا بہترین استعمال کرسکیں جو کہ دین و دنیا دونوں میں کامیابی لیے ضروری ہے۔

یہ تو رہی ایک عام مسلمان کی بات لیکن جو لوگ اللہ تعالیٰ کے خاص بندوں میں اپنا نام لکھوانا چاہتے ہیں، انہیں اپنے وقت کو اور بہتر طریقے سے استعمال کرنے کی ضرورت ہے۔ جس کے لیے خاص وقت کی خاص نفل نمازوں کا اہتمام کرنا لازمی ہے جن میں اشراق، چاشت، اوابین اور تہجد کی نمازیں اہم ہیں۔
اللہ تعالیٰ مجھے اور آپ کو اس کی توفیق عطا فرمائے۔ آمین۔
(ماخوذ: بابرکت و باسعادت بڑھاپا، عمدہ کاغذ کلر پرنٹیڈ کتاب ریاعتی ہدیہ پر دستیاب ہے، جنہیں لینا ہووہ واٹس اپ 03363780896 کریں)۔
۔
 
شمولیت
اکتوبر 25، 2014
پیغامات
350
ری ایکشن اسکور
29
پوائنٹ
85
نماز تہجد کی اہمیت اور ٹائم مینجمنٹ کی تربیت

پھر جو لوگ عام سے خاص بننا چاہتے ہیں ان کو نماز تہجد کے لیے بھی ٹائم مینجمنٹ کرنے کی ضرورت ہوتی ہے۔ تنہائی میں پڑھی جانے والی یہ نماز اللہ کے خاص بندوں کے لیے ہے اور اللہ تعالیٰ سے ملاقات اور مناجات کا دروازہ ہے۔ احادیث نبوی ﷺ میں اس کی بہت زیادہ فضیلت بیان ہوئی ہے۔

رسول اللہ ﷺ مدینہ طیبہ پہنچ کر اپنے پہلے خطبے میں فرمایا: ’’اے لوگو! سلام عام کرو، لوگوں کو کھانا کھلاؤ، رحموں کو ملاؤ (‏‏‏‏یعنی رشتہ داریوں کے حقوق ادا کرو) اور اس وقت اٹھ کر (‏‏‏‏تہجد کی) نماز پڑھو جب لوگ سوئے ہوئے ہوں، تم جنت میں سلامتی کے ساتھ داخل ہو جاؤ گے‘‘۔ (سلسلہ احاديث صحيحہ ترقیم البانی: 569)

اور آپ ﷺ نے یہ بھی فرمایا: ’’مومن کا اعزاز رات کی نماز (تہجد) میں ہے اور اس کی عزت و آبرو اس چیز سے بے نیاز ہو جانے میں ہے جو (دنیا کی صورت میں) لوگوں کے ہاتھ میں ہے‘‘۔ (سلسلہ احاديث صحيحہ ترقیم البانی: 1903)

حضرت عبداللہ بن عمرو ﷟ سے روایت ہے کہ نبی اکرم ﷺ نے فرمایا : ’’اللہ تعالیٰ کو تمام نفل نمازوں میں سب سے زیادہ محبوب نماز، صلاۃِ داؤد علیہ السلام ہے۔ وہ آدھی رات سوتے (پھر اٹھ کر) تہائی رات عبادت کرتے اور پھر چھٹے حصے میں سو جاتے‘‘۔ (صحيح مسلم: 1159)

نمازِ تہجد کی کم از کم دو رکعات ہیں اور زیادہ سے زیادہ بارہ رکعات ہیں۔ بعد نمازِ عشاء بسترِ خواب پر لیٹ جائیں اور سو کر رات کے کسی بھی وقت اٹھ کر نمازِ تہجد پڑھ لیں، بہتر وقت نصف شب اور آخر شب ہے۔ تہجد کے لیے اٹھنے کا یقین ہو تو آپ عشاء کے وتر چھوڑ سکتے ہیں، اس صورت میں وتر کو نماز تہجد کے ساتھ آخر میں پڑھیں یوں بشمول آٹھ نوافلِ تہجد کل گیارہ رکعات بن جائیں گی۔ رات کا اٹھنا یقینی نہ ہو تو وتر نماز عشاء کے ساتھ پڑھ لینا بہتر ہے۔

اُمّ المومنین حضرت عائشہ صدیقہ رضی ﷲ عنہا روایت کرتی ہیں کہ حضور نبی اکرم ﷺ ہمیشہ رات کو گیارہ رکعات پڑھتے تھے، ایک رکعت کے ساتھ تمام رکعات کو طاق بنا لیتے، نماز سے فارغ ہونے کے بعد دائیں کروٹ لیٹ جاتے حتی کہ آپ کےپاس مؤذن آتا پھر آپ دو رکعت (سنت فجر) مختصرًا پڑھتے ۔ (صحيح مسلم: 736)

جو لوگ رات کو اٹھ کر تہجد کی نماز ادا کرتے ہیں وہ لوگ بے شک اپنے وقت کا صحیح استعمال کرتے ہیں اور یہ ایک مسلمان کی ٹائم مینجمنٹ کی بہترین مثال ہے۔ اللہ تعالیٰ مجھے اور آپ سب کو بھی اس کی توفیق عطا فرمائے۔ آمین۔ (ماخوذ: بابرکت و باسعادت بڑھاپا، عمدہ کاغذ کلر پرنٹیڈ کتاب ریاعتی ہدیہ پر دستیاب ہے، جنہیں لینا ہووہ واٹس اپ 03363780896 کریں)۔
۔
 
شمولیت
اکتوبر 25، 2014
پیغامات
350
ری ایکشن اسکور
29
پوائنٹ
85
اشراق و چاشت کی نمازیں اور ٹائم مینجمنٹ

اللہ تعالیٰ نے سورۃ الضحیٰ میں ’چاشت کے وقت اور رات‘ کی قسم کھاتے ہوئے ارشاد فرمایا :

وَالضُّحَىٰ ‎(١) وَاللَّيْلِ إِذَا سَجَىٰ ‎(٢) سورة الضحى
’’ قَسم ہے الضحیٰ کے وقت کی (جب آفتاب بلند ہوتا ہے)، اور قَسم ہے رات کی جب وہ چھا جائے ‘‘

نماز اشراق طلوعِ آفتاب اور اس کے بعد سورج کے قدرے بلند ہونے کے بعد ادا کی جاتی ہے، ایسا شخص جو فجر کی نماز باجماعت مسجد میں ادا کرے، پھر اپنی نماز کی جگہ میں نماز اشراق پڑھنے تک بیٹھ کر ذکر الہی میں مشغول رہے اس کی فضیلت کے بارے میں نبی ﷺ نے فرمایا کہ:’’ جس شخص نے فجر کی نماز با جماعت ادا کی، پھر سورج طلوع ہونے تک ذکر الٰہی میں مشغول رہا، پھر اس نے دو رکعتیں پڑھیں، تو یہ اس کے لیے مکمل، مکمل، مکمل حج اور عمرے کے اجر کے برابر ہونگی ‘‘۔(سنن ترمذی: 586)

اور ابوہریرہ ﷛ نے فرمایا کہ مجھے میرے جانی دوست (نبی کریم ﷺ) نے تین چیزوں کی وصیت کی ہے کہ موت سے پہلے ان کو نہ چھوڑوں:’’ ہر مہینہ میں تین دن روزے، چاشت کی نماز اور وتر پڑھ کر سونا‘‘۔ (صحيح البخاري: 1178، صحيح مسلم: 721)۔

(نوٹ: صلاة الضحى میں اشراق اور چاشت دونوں نمازیں شامل ہیں۔ سورج کے نیزے کے برابر بلند ہونے کے بعد فوراً ہی ادا کریں تو یہ نمازِ اشراق ہے اور اگر تھوڑی تاخیر سے ادا کریں تو یہ چاشت کی نماز کہلاتی ہے، ہر حال ہر دو صورت میں یہ نمازِ ضحی ہے؛ کیونکہ اہل علم کہتے ہیں: نمازِ ضحی کا وقت سورج کے نیزے کے برابر طلوع ہونے سے لیکر زوال سے کچھ پہلے تک ہوتا ہے)

یہ نماز مستحب ہے، واجب نہیں ہے، لیکن اس کے باوجود ذرا ان احادیث سے اندازہ لگائیے کہ جو لوگ صبح دیر سے اٹھتے ہیں، وہ کس قدر خیر اور برکتوں سے محروم رہتے ہیں۔

لہذا اب بڑھاپے میں اگرچہ ہماری زندگی کے ایام بہت کم بچے ہوئے ہیں لیکن اس کے باوجود وقت کے صحیح استعمال یعنی ٹائم مینجمنٹ کرکے اگر ہم ان نمازوں کی پابندی کرتے ہیں تو اپنی بقیہ زندگی کو بابرکت و باسعادت بنا سکتے ہیں اور اپنی آخرت کے لیے زیادہ سے زیادہ نیکیاں جمع کر سکتے ہیں۔
اللہ تعالیٰ مجھے اور آپ سب کو اس کی توفیق عطا فرمائے۔ آمین
(ماخوذ: بابرکت و باسعادت بڑھاپا، عمدہ کاغذ کلر پرنٹیڈ کتاب ریاعتی ہدیہ پر دستیاب ہے، جنہیں لینا ہووہ واٹس اپ 03363780896 کریں)۔
 
شمولیت
اکتوبر 25، 2014
پیغامات
350
ری ایکشن اسکور
29
پوائنٹ
85
نمازِ جمعہ اور ٹائم مینجمنٹ


ٹائم مینجمنٹ بہتر طریقے سے سکھانے کے لیے ہفتے میں ایک دن اس کا شیڈول بدل دیا گیا ہے کہ تمام تجارت و کاروبار چھوڑ کر جمہ کے دن نہانے دھونے اور اذان ہوتے ہی نماز کے لیے مسجد کی طرف جانے کا حکم دیا گیا ہے:

يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا إِذَا نُودِيَ لِلصَّلَاةِ مِن يَوْمِ الْجُمُعَةِ فَاسْعَوْا إِلَىٰ ذِكْرِ اللَّهِ وَذَرُوا الْبَيْعَ ۚ ذَٰلِكُمْ خَيْرٌ لَّكُمْ إِن كُنتُمْ تَعْلَمُونَ ‎(٩) فَإِذَا قُضِيَتِ الصَّلَاةُ فَانتَشِرُوا فِي الْأَرْضِ وَابْتَغُوا مِن فَضْلِ اللَّهِ وَاذْكُرُوا اللَّهَ كَثِيرًا لَّعَلَّكُمْ تُفْلِحُونَ ‎(١٠) سورة الجمعة
’’اے ایمان والو جب جمعہ کے دن نماز کے لیے اذان دی جائے تو ذکر الہیٰ (نماز جمعہ) کی طرف لپکو اور خرید و فروخت چھوڑ دو، تمہارے لیے یہی بات بہتر ہے اگر تم علم رکھتے ہو ۔ (اور ساتھ ہی فرمایا) پھر نمازِ جمعہ کی ادائیگی کے بعد زمین میں چلو پھرو اور الله کا فضل تلاش کرو اور الله کو بہت یاد کرو تاکہ تم فلاح پاؤ ‘‘

« وَابْتَغُوا مِن فَضْلِ اللَّهِ ۔۔۔ ’’اور الله کا فضل تلاش کرو‘‘» سے مراد رزق تلاش کرنا ہے۔ یعنی نماز جمعہ سے فارغ ہو کر تم اپنے اپنے کاروبار اور دنیا کے مشاغل میں مصروف ہو جاؤ۔ مقصد اس امر کی وضاحت ہے کہ جمعہ کے دن کاروبار بند رکھنے کی ضرورت نہیں، صرف نماز کے وقت ایسا کرنا ضروری ہے۔

اگرچہ یہ حکم جمعہ کی نماز کے ساتھ دیا جا رہا ہے لیکن یہی حکم پنجگانہ نمازوں پر بھی لاگو ہوتا ہے کہ بندہ نماز سے فارغ ہوکر بے کار لہو و لعب میں اپنا وقت ضائع نہ کرے بلکہ «فَضْلِ اللَّهِ ۔ ’’اور الله کا فضل‘‘» یعنی رزق کی تلاش میں، علم و ہنر سیکھنے میں اور دیگر دینی و دنیاوی ضروریات کے لیے تگ و دو کرے اور جو وقت میسر ہے اسے مثبت کاموں میں استعمال کرے اور اس سے فائدہ اٹھائے۔

یومِ جمعہ اور نمازِ جمعہ کی فضیلت
حضرت ابو ہریرۃ ﷛ سے رو یت کی کہ نبی کریم ﷺ نے فرمایا:’’ بہتر ان دنوں میں کا جن میں سورج نکلتا ہے، جمعہ کا دن ہے کہ اسی میں آدم علیہ السلام پیدا ہوئے اور اسی میں جنت میں گئے اور اسی میں وہاں سے نکلے اور قیامت نہ ہو گی مگر اسی دن‘‘۔ (صحيح مسلم: 854)

اسی طرح سیدنا ابوہریرہ ﷛ سے یہ بھی مروی ہے کہ رسول اللہ ﷺنے فرمایا: ”اللہ تعالیٰ کے نزدیک جمعہ کا دن سب سے افضل ہے“۔ ‏‏‏‏ (سلسلہ احاديث صحيحہ ترقیم البانی: 1502)

اور سلمان فارسی ﷛ نے کہا کہ نبی اکرم ﷺ نے فرمایا:’’ جس شخص نے جمعہ کے دن اچھی طرح غسل کیا، اچھی طرح وضو کیا، سب سے اچھا کپڑا پہنا، اور اس کے گھر والوں کو اللہ نے جو خوشبو میسر کی اسے لگایا، پھر جمعہ کے لیے آیا اور کوئی لغو اور بیکار کام نہیں کیا، اور دو مل کر بیٹھنے والوں کو الگ الگ کر کے بیچ میں نہیں گھسا تو اس کے اس جمعہ سے دوسرے جمعہ تک کے گناہ معاف کر دیئے جائیں گے‘‘۔ (صحيح البخاري: 883، سنن ابن ماجہ: 1097)

سیدنا ابوہریرہ ﷛ نے یہ بھی بیان کیا ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:’’ نماز (جمعہ) کی طرف جلدی آنے والے کی مثال اس آدمی کی طرح ہے جو اونٹ کا صدقہ پیش کرتا ہے، اس کے بعد آنے والے کی مثال اس طرح ہے جو گائے کا صدقہ پیش کرتا ہے، اس کے بعد آنے کی مثال اس طرح ہے جو دنبے کا صدقہ پیش کرتا ہے، اس کے بعد آنے کی مثال اس کی طرح ہے جو مرغی کا صدقہ پیش کرتا ہے اور اس کے بعد آنے کی مثال اس طرح ہے جو انڈے کا صدقہ پیش کرتا ہے‘‘۔ (سلسلہ احاديث صحيحہ ترقیم البانی: 3576)

اسی طرح آپ ﷛ سے یہ بھی روایت ہے کہ نبی کریم ﷺ نے فرمایا:’’ پانچوں نمازیں اور جمعہ، دوسرے جمعہ تک اور ماہ رمضان، اگلے رمضان تک ان تمام گناہوں کا کفارہ بن جاتے ہیں، جو ان کے درمیانی وقفوں میں سرزد ہو جاتے ہیں، جب تک کبیرہ گناہوں سے اجتناب کیا جائے ‘‘۔ (سلسلہ احاديث صحيحہ ترقیم البانی: 3322)

صغیرہ گناہ نیکیوں کی برکت سے معاف ہوجاتے ہیں۔ کبیرہ گناہ صرف توبہ سے معاف ہوتےہیں۔ بعض کبیرہ گناہ ایسے ہوتے ہیں جن کی موجودگی میں نیک اعمال کرنے کے باوجود صغیرہ گناہ معاف نہیں ہوتے۔ اس لیے بندۂ مومن کو ہر کبیرہ اور صغیرہ گناہ سے بچنا چاہیے کہ نجانے کس گناہ کی پکڑ ہوجائے۔ اللہ تعالیٰ ہمیں ہرطرح کی گناہ و معصیت سے بچنے کی توفیق عطا فرمائے۔ آمین۔

(ماخوذ: بابرکت و باسعادت بڑھاپا، عمدہ کاغذ کلر پرنٹیڈ کتاب ریاعتی ہدیہ پر دستیاب ہے، جنہیں لینا ہووہ واٹس اپ 03363780896 کریں)۔
۔
 
شمولیت
اکتوبر 25، 2014
پیغامات
350
ری ایکشن اسکور
29
پوائنٹ
85
رمضان المبارک میں ٹائم مینجمنٹ


قرآن مجید میں اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں:
يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا كُتِبَ عَلَيْكُمُ الصِّيَامُ كَمَا كُتِبَ عَلَى الَّذِينَ مِن قَبْلِكُمْ لَعَلَّكُمْ تَتَّقُونَ ‎۔(١٨٣) سورة البقرة
’’اے ایمان والو! تم پر روزے رکھنا فرض کیا گیا جس طرح تم سے پہلے لوگوں پر فرض کیے گئے تھے، تاکہ تم تقویٰ اختیار کرو ‘‘​

بس ابھی ابھی رمضان کی چاند نظر آنے کا اعلان کیا گیا ہے۔ اب فکر ہے نماز عشا کے لیے مسجد جانے کی اور پھر نماز عشا اور تراویح پڑھنے کی۔ پھر صبح سحری کے لیے اٹھنا ہے اور سحری میں تھوڑا جلدی اٹھنا ہے تاکہ تہجد بھی ادا کی جاسکے، پھر نماز فجر پڑھنا ہے اور صبح کے اذکار وغیرہ سے مستفید ہونا ہے، اشراق و چاشت پڑھ کر اپنے دن کو روشن کرنا ہے۔ تھوڑی سی نیند لینی ہے اور رزق کی تلاش میں نکل جانا ہے۔ کام دھندے میں جت جانا ہے، ساتھ میں ذکر بھی کرتے رہنا ہے۔ اسی طرح 4-5 گھنٹے گزر جاتے ہیں اور ظہر کا وقت ہوجاتا ہے تو ظہر کی نماز کے لیے مسجد میں جانا اور نماز ادا کرنا ہے۔ اس کے بعد اللہ تعالیٰ جس بندے کے ساتھ آسانی کی ہو اسے تھوڑا آرام/قیلولہ کرنے کا موقعہ مل جاتا ہے ورنہ اکثریت تو ایسوں کی ہے جو سارا دن نان نفقہ کے لیے محنت مزدوری کرتے رہتے ہیں۔ اسی دوران نمازِ عصر بھی ادا کر لیتے ہیں۔ پھر دنیاوی معمولات سے تھک کر غروب سورج کے قریب اپنے گھر پہنچتے ہیں۔ بعض عصر کے وقت بھی پہنچ جاتے ہیں۔ وقت مل جائے تو تھوڑی دیر آرام کرلیتے ہیں یا پھر اپنے رب کی خوش نودی حاصل کرنے کے لیے قرآن مجید کی تلاوت یا ذکر اذکار میں مشغول ہوجاتے ہیں۔ آخر میں غروب آفتاب کے ساتھ روزہ افطار کرتے ہیں اور نماز مغرب ادا کرنے کے لیے مسجد کی طرف چل پڑتے ہیں۔

رمضان المبارک میں ایک مسلمان کو روزانہ اسی طرح کے سخت نظام الاوقات کا پابند ہونا پڑتا ہے اور اس طرح زبردست ٹائم مینجمنٹ کی ضرورت پڑتی ہے۔ لیکن افسوس کہ رمضان المبارک میں اتنا زبردست ٹائم مینجمنٹ کرنے والی امت دنیاوی معاملات میں غفلت برتتی ہے اور اسی بنا پر آج دنیا کی تمام اقوام سے پیچھے ہے۔ لوگ روزہ اور نماز کو تو عبادت سمجھتے ہیں لیکن دینی اور دنیاوی معاملات کے لیے اپنے وقت کا صحیح اور موثر استعمال (ٹائم مینجمنٹ) کرنا عبادت نہیں سمجھتے حالانکہ ساری عبادات وقت ہی کی مرہون منت ہے۔ اگر ہمارے ہاتھ میں وقت ہے تو ہم کچھ کر سکتے ہیں اور اگر وقت نہیں تو کچھ کرنے کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔ ٹائم مینجمنٹ کرنا اتنی بڑی عبادت ہے کہ آخرت میں سب سے پہلے وقت کے بارے میں ہی سوال ہوگا۔

اب ہم سب بڑھاپے میں آچکے ہیں۔ جوانی کیسے گزاری اس سوال کا جواب تیار کرنے کا وقت ہاتھ سے نکل گیا ہے لیکن ابھی زندگی کے کچھ دن باقی ہیں، جن کا حساب دینے کے لیے وقت کا صحیح اور موثر استعمال (ٹائم مینجمنٹ) کرنا چاہیے تاکہ ہم اپنا بڑھاپا بابرکت اور باسعادت بنا سکیں۔ اللہ تعالیٰ ہم سب کو اس کی توفیق عطا فرمائے۔ آمین
(ماخوذ: بابرکت و باسعادت بڑھاپا، عمدہ کاغذ کلر پرنٹیڈ کتاب ریاعتی ہدیہ پر دستیاب ہے، جنہیں لینا ہووہ واٹس اپ 03262366183 کریں)۔
 
شمولیت
اکتوبر 25، 2014
پیغامات
350
ری ایکشن اسکور
29
پوائنٹ
85
شب قدر کے لیے ٹائم مینجمنٹ
اللہ تعالیٰ نے اس امت کو جن لاتعداد نعمتوں سے نوازا ہے ان میں ایک بڑی نعمت شبِ قدر ہے، جس کے بارے میں اللہ تعالیٰ نے خود ہی فرمایا ہے:

إِنَّا أَنزَلْنَاهُ فِي لَيْلَةِ الْقَدْرِ ‎(١) وَمَا أَدْرَاكَ مَا لَيْلَةُ الْقَدْرِ ‎(٢) لَيْلَةُ الْقَدْرِ خَيْرٌ مِّنْ أَلْفِ شَهْرٍ ‎(٣) تَنَزَّلُ الْمَلَائِكَةُ وَالرُّوحُ فِيهَا بِإِذْنِ رَبِّهِم مِّن كُلِّ أَمْرٍ ‎(٤) سَلَامٌ هِيَ حَتَّىٰ مَطْلَعِ الْفَجْرِ ‎(٥) سورة القدر
’’بیشک ہم نے اس (قرآن) کو شبِ قدر میں نازل کیا ہے، اور آپ کیا جانیں کہ شبِ قدر کیا ہے، شبِ قدر (فضیلت و برکت اور اَجر و ثواب میں) ہزار مہینوں سے زیادہ بہتر ہے، اس (رات) میں فرشتے اور روح اپنے رب کے حکم سے ہر کام کے (انتظام کے) لیے اترتے ہیں، یہ (رات) طلوعِ فجر تک سراسر سلامتی ہے ‘‘​

اس مبارک رات کو اللہ تعالیٰ نے کیونکہ ہزار مہینوں سے افضل قرار دیا ہے اور ہزار مہینے کے تراسی برس چار ماہ بنتے ہیں، پھر «خَيْرٌ مِّنْ أَلْفِ شَهْرٍ‎» کہہ کر اس بات کی طرف اشارہ فرمایا گیا ہے کہ اللہ کریم جتنا زیادہ اجر عطا فرمانا چاہے گا، فرما ئے گا۔ اس اجر کا اندازہ انسان کے بس سے باہر ہے۔

اس رات کے بارے میں رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ’’ شب قدر کو رمضان کے آخری عشرہ کی طاق راتوں میں ڈھونڈو (یعنی 21-23-25-27-29 کی راتیں )‘‘۔ (صحيح البخاري: 2017)

انسان چونکہ کمزور ہے اور یہ بات اس کا خالق بہتر جانتا ہے، اس لیے اس معاملے میں بھی انسانوں پر آسانی فرمادیا ہے کہ ایک رات جاگ کر عبادت کرو اور ایک رات سو کر آرام کرلو۔لہذا اس طرح وہ آسانی سے ٹائم مینجمنٹ کر پائے گا اور شبِ قدر کی برکات حاصل کر لے گا۔

لہذا اب جو لوگ بڑھاپے میں آچکے ہیں وہ یوں بھی کام کاج سے فارغ ہیں تو اس رات کو پانے کا اور اس میں عبادت کرکے اپنے نامۂ اعمال میں ایک ہزار مہینوں یعنی تراسی برس چار مہینوں سے زیادہ کا اجر و ثواب پانے کے لیے اپنے وقت کا صحیح استعمال (ٹائم مینجمنٹ) بڑی آسانی سے کر سکتے ہیں۔ شب قدر کو پانے کا آسان نسخہ مسجد میں آخری عشرہ کا اعتکاف ہے۔ اس طرح اگر زندگی کے اس آخری مرحلے یعنی بڑھاپے میں بھی چند شب قدر میں ہم عبادت کر لیتے ہیں تو ہمارے نامۂ اعمال میں اَن گنت مہینوں کی عبادات لکھی جائے گی جس سے ہمارا بڑھاپا بابرکت و باسعادت ہو جائے گا، ہمارے گناہوں کی بخشش، دخول جنت اور بلندیٔ درجات کا باعث ہو گا لیکن ان سب کے لیے بھی ہمیں ٹائم مینجمنٹ کرنا ہوگا۔ اللہ تعالیٰ ہمیں اس کی توفیق عطا فرمائے۔ آمین
(ماخوذ: بابرکت و باسعادت بڑھاپا، عمدہ کاغذ کلر پرنٹیڈ کتاب ریاعتی ہدیہ پر دستیاب ہے، جنہیں لینا ہووہ واٹس اپ 03262366183 کریں)۔
۔
 
شمولیت
اکتوبر 25، 2014
پیغامات
350
ری ایکشن اسکور
29
پوائنٹ
85
معزز قارئین! واضح رہے کہ کہ یہاں کتاب ’’بابرکت و باسعادت بڑھاپا‘‘ سے جو مضامین پیش کیے جارہے ہیں وہ کتاب کے مطابق ترتیب وار اور مکمل نہیں ہیں۔ مکمل ترتیب وار مضامین پڑھنے کے لیے آپ پرنٹیڈ کتاب حاصل کرسکتے ہیں۔
 
شمولیت
اکتوبر 25، 2014
پیغامات
350
ری ایکشن اسکور
29
پوائنٹ
85
ذوالحجہ میں ٹائم مینجمنٹ

اللہ سبحانہ وتعالیٰ نے اپنے کمال رحمت کی بدولت اپنے بندوں کو اپنی رضا و خوشنودی کے بیش بہا مواقع نصیب فرمائے ہیں تاکہ بندے ان میں اللہ سبحانہ و تعالیٰ کے حضور نیکیاں اور اطاعت کے کام بجا لا کر اپنے گناہوں کی بخشش، اس کی رحمت و مودت اور بلندئ درجات کا انعام پا سکیں، اب بندوں کو چاہیے کہ ان اوقات کو غنیمت جانتے ہوئے ان کا صحیح اور موثر استعمال (ٹائم مینجمنٹ) کرکے اپنے تعلق کو خالق و مالک سے مضبوط کرے اور سعادت وکامرانی کا حصول ممکن بنائے۔انہی مواقع میں سے ایک عشرہ ذوالحجہ بھی ہے جس کی فضیلت و اہمیت اور احکام، قرآن و حادیث کتب میں مختلف انداز سے بیان کیے گئے ہیں۔ اللہ تعالیٰ نے قرآن مجید میں دس راتوں کی قسم کھائی ہے۔

وَالْفَجْرِ ‎﴿١﴾‏ وَلَيَالٍ عَشْرٍ ‎﴿٢﴾‏ سورة الفجر
’’ قسم ہے فجر کی اور دس (مبارک) راتوں کی ‘‘

اس قسم کھانے کا سبب بیان کرتے ہوئے حافظ ابن حجر رحمہ اللہ فرماتے ہیں: ’’عشرہ ذی الحجہ کے باقی ایام سے ممتاز ہونے کی ایک وجہ یہ معلوم ہوتاہے کہ اس میں بڑی بڑی عبادات جمع ہو جاتی ہیں جیسے نماز، روزہ، صدقہ اور حج- عبادات کا یہ اجتماع باقی ایام میں نہیں ہوتا‘‘ ۔(فتح الباري 460/2)

مفسرین نے لکھا ہے کہ جب اللہ تعالیٰ کسی مخلوق کی قسم کھاتے ہیں تو اس قسم سے اس شے کا مقام اور اہمیت بتانا مقصود ہوتا ہے۔ یہاں اللہ تعالیٰ فجر کی اور دس (مبارک) راتوں کی کھائی ہے جس سے ان وقتوں کی اہمیت بتانا ہی مقصود ہے۔ بعض مفسرین نے فجر سے عام فجر نہیں بلکہ یوم النحر یا عید الاضحیٰ کی فجر مراد لی ہے اور دس راتوں سے مراد یکم ذی الحجہ سے دس ذی الحجہ تک کی راتیں ہیں اور یہ دس راتیں بڑی فضیلت والی اور اہم ہیں۔ جبکہ میری رائے یہ ہے کہ یہاں الفجر سے مراد ان دس راتوں سے جڑی ہر رات کی فجر ہے۔ اس طرح عشرہ ذوالحجہ کہنے سے اس میں مکمل دس دن اور دس راتیں آجاتی ہیں کیونکہ ذیل کی حدیث میں صرف دس راتوں کا نہیں بلکہ عشرہ ذوالحجہ میں کیے گئے اعمال صالحہ کا ذکر ہے جس میں صرف رات نہیں بلکہ دن کے اعمال بھی شامل ہیں، (واللہ اعلم)۔

عبداللہ بن عباس رضی الله عنہما کہتے ہیں کہ نبی کریم نے فرمایا :عشرہ ذوالحجہ میں کیے گئے اعمال صالحہ اللہ کو سب سے زیادہ محبوب ہیں، حتی کہ جہاد فی سبیل اللہ بھی اتنا پسندیدہ نہیں سوائے اس جہاد کے جس میں میں آدمی اپنی جان اور مال لے کر نکلے، اور پھر لوٹ کر نہ آئے(یعنی شہید ہوجائے) ۔(صحيح البخاري: 969)

حضرت عثمان بن عفان رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”جس نے عشاء جماعت سے پڑھی، گویا اس نے آدھی رات تک قیام کیا، اور جس نے عشاء اور فجر دونوں جماعت سے پڑھیں، اس نے گویا پوری رات قیام کیا“۔ (سنن ابي داود: 555، صحيح مسلم: 656)

عشرہ ذی الحجہ میں کچھ نہیں تو عشاء اور فجر کی نمازیں باجماعت ادا کرنے کے لیے ٹائم مینجمنٹ کیجیے اور اپنی زندگی کو بابرکت و باسعادت بنائیے۔ اور اگر ہم یہ نمازیں باجماعت پڑھنے کے بعد رات کو قیام بھی کرتے ہیں تو ہمارا مقام بہت ہی اونچا ہو گا، جو کہ بڑھاپے میں کرنا بہت آسان ہے۔ اللہ تعالیٰ ہمیں اس کی توفیق عطا فرمائے، آمین۔
۔
 
شمولیت
اکتوبر 25، 2014
پیغامات
350
ری ایکشن اسکور
29
پوائنٹ
85
عشرہ ذوالحجہ کا سب سے عظیم عمل حج کے لیے ٹائم مینجمنٹ

فرمان الٰہی ہے:
وَلِلَّهِ عَلَى النَّاسِ حِجُّ الْبَيْتِ مَنِ اسْتَطَاعَ إِلَيْهِ سَبِيلًا ۚ (٩٧) سورة آل عمران
’’اور اللہ کے لیے لوگوں پر اس گھر کا حج (فرض) ہے جو اس تک پہنچنے کی طاقت رکھے‘‘​

اور ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ سول اللہ ﷺنے فرمایا: ”حج مبرور (مقبول) کا ثواب جنت کے سوا اور کچھ نہیں ہے“۔ (صحیح البخاري: 1773، صحیح مسلم: 1349)

ذرا غور کیجيے! اللہ تعالیٰ نے ان عظیم عبادات کے اوقات کا نام لے لے کر قسم کھائی ہے اور نبی کریم ﷺ نے ان کے فضائل بیان کر دیے ہیں۔ لہذا ہمیں ان عبادات کی اہمیت کو سمجھنا چاہیے اور اپنے وقت کا صحیح اور موثر استعمال یعنی ٹائم مینجمنٹ کرکے ان عبادات کو ادا کرنا چاہیے۔ خاص کر جو لوگ بڑھاپے میں پہنچ چکے ہیں، انہیں اس بارے میں سوچنا چاہیے کیونکہ اب ان کے پاس وقت بہت کم ہے۔ اگر ساری زندگی وقت کی اہمیت نہیں سمجھا اور اپنے وقت کی موثر اوقات بندی (ٹائم مینجمنٹ) نہیں کیاتو اب کر لیں عبادات کے لیے اپنے وقت کا صحیح اور موثر استعمال کریں تاکہ آپ کا بڑھاپا بابرکت و باسعادت ہو جائے جس سے آخرت میں نجات مل جائے اور اللہ تعالیٰ کی سب سے عظیم نعمت جنت میں داخلے کا سبب بنے۔ اللہ تعالیٰ مجھے اور آپ سب کو اس کی توفیق عطا فرمائے۔ آمین یا رب العالمین۔

بہت سے معاملات میں ٹائم مینجمنٹ کرنا مسلمانوں پر فرض ہے جیسے وقت مقررہ پر نماز پڑھنا، وقت مقررہ پر تمام دنیوی معمولات ترک کرکے مسجد کی طرف نمازِ جمعہ کے لیے چل دینا، ماہ رمضان میں وقت کی پابندی کے ساتھ روزہ رکھنا، سحری و افطار کرنا، مخصوص کیے گئے وقت کے اندر لیلۃ القدر کو تلاش کرنا، مخصوص وقت کے اندر زکوٰۃ اور فطرانہ ادا کرنا، حج کے لیے وقت مقررہ پر منیٰ، عرفات اور مزدلفہ میں قیام کرنا، رمی جمار اور قربانی کرنا، بال کٹوانا، عشرہ ذوالحجہ کی عبادات، عیدین اور ایام تشریق منانا وغیرہ۔ یہ تمام عبادتیں ٹائم مینجمنٹ کی بدولت ہی ممکن ہے۔ لیکن افسوس کہ جس دین میں ٹائم مینجمنٹ کا اتنا زبردست تصور (کنسیپٹ) دیا گیا ہو اور پھر عملی طور پر کروایا بھی گیا ہو، اس کے ماننے والے دور جدید میں ٹائم مینجمنٹ کرنے سے قاصر ہیں۔ جس کی وجہ سے دنیا کے تمام اقوام سے پیچھے ہیں اور ذلت و مسکنت ان پر چھا گئی ہے۔ یہ تو دنیا کی رسوائی ہے، آخرت کی جو رسوائی ہے وہ تو کچھ زیادہ ہی بھیانک ہے جس کا تصور بھی دنیا میں رہتے ہوئے نہیں کیا جاسکتا ہے۔

میرے پیارے عمر رسیدہ دوستو! زندگی کا پرائم ٹائم (جوانی) ہم غفلت میں گزار چکے ہیں۔ اب جو وقت ہے یہ ہمیں بونس کے طور پہ ملا ہوا ہے۔ لہذا اپنی بقیہ زندگی کو زیادہ نتیجہ خیز، بامعنی، پرلطف، بابرکت اور باسعادت بنانا صرف ٹائم مینجمنٹ کے ذریعہ وقت کے درست استعمال پر منحصر ہے ۔
دعا ہے کہ اللہ تعالیٰ ہم سب کو اس کی توفیق عطا فرمائے اور ہمارے نوجوانوں کو اپنے پرائم ٹائم کی قدر کرنے اور اس کی مثبت استعمال کی توفیق عطا فرمائے۔ آمین

(ماخوذ: بابرکت و باسعادت بڑھاپا، عمدہ کاغذ کلر پرنٹیڈ کتاب ریاعتی ہدیہ پر دستیاب ہے، جنہیں لینا ہووہ واٹس اپ 03262366183 کریں)۔
۔
 
شمولیت
اکتوبر 25، 2014
پیغامات
350
ری ایکشن اسکور
29
پوائنٹ
85
بڑھاپے میں شرعی رخصتیں اور رعایتیں

يُرِيدُ اللَّهُ بِكُمُ الْيُسْرَ وَلَا يُرِيدُ بِكُمُ الْعُسْرَ ﴿١٨٥﴾‏ سورة البقرة
’’اللہ تمہارے حق میں آسانی چاہتا ہے اور سختی نہیں چاہتا‘‘​

اور رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ’’بے شک اللہ کا دین آسانیوں والا ہے، بے شک اللہ کا دین آسانیوں والا ہے، بے شک اللہ کا دین آسانیوں والا ہے ‘‘۔ (صحيح البخاري: 39)

وَمَا جَعَلَ عَلَيْكُمْ فِي الدِّينِ مِنْ حَرَجٍ ۚ مِّلَّةَ أَبِيكُمْ إِبْرَاهِيمَ ۚ (٧٨) سورة الحج
’’ اور اس (اللہ) نے تم پر دین میں کوئی تنگی نہیں رکھی، (یہی) تمہارے باپ ابراہیم (علیہ السلام) کا دین ہے‘‘​

اور رسوال اللہ ﷺ نے یہ بھی فرمایا: ’’اللہ تعالیٰ نے اس امت کے لیے آسانی کو پسند اور تنگی کو ناپسند کیا ہے (آپ ﷺ نے یہ بات تین دفعہ ارشاد فرمائی)‘‘ ۔(سلسلہ احاديث صحيحہ ترقیم البانی: 1635)

اسلام کی بے شمار خوبیوں میں سے ایک خوبی یہ ہے کہ شریعت کے احکام پر عمل کرنے والوں کو ان کی استطاعت کے مطابق ہی انہیں مکلف ٹھہرایا گیا ہے اور ان پر اسی قدر مشقت ڈالی گئی ہے جتنی وہ آسانی سے برداشت کرسکیں اور عمل کرنے کے دوران انہیں سختی اور بے جا مشقت نہ سہنی پڑے۔

لَا يُكَلِّفُ اللَّهُ نَفْسًا إِلَّا وُسْعَهَا ۚ﴿٢٨٦﴾‏سورة البقرة
’’اﷲ کسی جان کو اس کی طاقت سے زیادہ تکلیف نہیں دیتے ‘‘​

یہ عمومی طور پر تمام مسلمانوں کے لیے ہے اور خصوصی طور پر اللہ تعالٰی بوڑھے، معذور ،کمزور اور بیمار لوگوں پر زیادہ بوجھ نہیں ڈالا۔ شریعتِ اسلامیہ میں معاشرے کے کمزور طبقہ یعنی بوڑھے و معذور اور لاچار و بیمار افراد کے لیے بہت ساری رعایتیں دی گئی ہیں اور خصوصی آسانیاں پیدا کی گئی ہیں۔

عمر بڑھنے کے ساتھ ساتھ انسان چونکہ ذہنی و جسمانی طور پر کمزور ہوجاتا ہے۔ لہذا جن عبادات میں جسم کو محنت و مشقت کرنی پڑتی ہے کمزوروں، بیماروں اور بوڑھوں کے لیے ان میں کچھ رعایتیں دی گئی ہیں لیکن اس کے ساتھ ساتھ مالی عبادات کے معاملے میں مالداروں پر کوئی رعایت نہیں دی گئی، چاہے وہ بوڑھے ہوں، بیمار ہوں یا کمزور ہوں۔
(ماخوذ: بابرکت و باسعادت بڑھاپا، عمدہ کاغذ کلر پرنٹیڈ کتاب ریاعتی ہدیہ پر دستیاب ہے، جنہیں لینا ہووہ واٹس اپ 03262366183 کریں)۔
 
Top