محمد اجمل خان
رکن
- شمولیت
- اکتوبر 25، 2014
- پیغامات
- 350
- ری ایکشن اسکور
- 30
- پوائنٹ
- 85
نماز عشاء کی اہمیت اور ٹائم مینجمنٹ کی تربیت
مغرب کے بعد عشاء کی نماز کا وقت شروع ہوجاتا ہے۔ عشاء کی نماز اس قدر اہم ہے کہ مسلمان اور منافق ہونے میں فرق اس کے پڑھنے اور نہ پڑھنے میں ہے۔
حضرت ابوہریرہ سے روایت ہے کہ نبی کریم ﷺ نے فرمایا کہ’’ منافقوں پر فجر اور عشاء کی نماز سے زیادہ اور کوئی نماز بھاری نہیں اور اگر انہیں معلوم ہوتا کہ ان کا ثواب کتنا زیادہ ہے (اور چل نہ سکتے) تو گھٹنوں کے بل گھسیٹ کر آتے اور میرا تو ارادہ ہو گیا تھا کہ مؤذن سے کہوں کہ وہ تکبیر کہے، پھر میں کسی کو نماز پڑھانے کے لیے کہوں اور خود آگ کی چنگاریاں لے کر ان سب کے گھروں کو جلا دوں جو ابھی تک نماز کے لیے نہیں نکلے‘‘۔ (صحيح البخاري: 657)
نماز کے معاملے میں کاہلی و سستی منافقت کی علامت ہے۔ فجر اور عشاء یہ دو وقت ایسے ہیں جو اول تو آرام و استراحت اور نیند کی لذت حاصل کرنے کے ہیں۔ اس لیے منافق اور کمزور ایمان کے مسلمان ان دونوں نمازوں میں سستی کر جاتے ہیں کیونکہ یہ دونوں اوقات مسجد میں جانا ان بدبختوں پر بہت گراں ہوتے ہیں۔ لہٰذا یہ حدیث اس طرف اشارہ کر رہی ہے کہ مخلص و صادق مومنین کو چاہیے کہ سستی و کاہلی نہ کریں اور وقت پر باجماعت نمازیں ادا کریں۔
عشاء اور فجر کی نمازوں کو وقت پر ادا کرنے کے لیے نبی اکرم ﷺ ’’ عشاء سے پہلے سونے اور اس کے بعد بات چیت کرنے کو ناپسند فرماتے تھے‘‘۔ (صحیح بخاری: 568، صحيح مسلم: 647، سنن ترمذي: 168)
عشاء سے پہلے سونے کی کراہت کی وجہ یہ ہے کہ اس سے عشاء فوت ہو جانے کا خدشہ رہتا ہے، اور عشاء کے بعد بات کرنا اس لیے ناپسندیدہ ہے کہ اس سے سونے میں تاخیر ہوتی ہے جس کی وجہ سے انسان کے لیے تہجد یا فجر کے لیے اٹھنا مشکل ہو جاتا ہے۔
اکثر اہل علم نے نماز عشاء سے پہلے سونے اور اس کے بعد بات کرنے کو مکروہ کہا ہے، اور بعض نے نماز عشاء کے بعد جاگنا صرف دینی کام یعنی تعلیم و تعلم یا وعظ و تذکیر وغیرہ کے لیے جائز و مستحب قرار دیا ہے وہ بھی اس شرط پر کہ نماز فجر وقت پر ادا کی جائے، لیکن اگر نماز فجر وقت پر ادا کرنا ممکن نہ ہوسکے تو یہ جائز نہیں ہوگا۔ رہے ایسے کام جن میں کوئی دینی اور علمی فائدہ یا کوئی شرعی غرض نہ ہو مثلاً ٹیلی ویژن بینی، نیٹ سرفنگ، کھیل کود، فضول گپ شپ وغیرہ تو یہ سب ویسے بھی لغو، مکروہ اور حرام کام ہیں، عشاء کے بعد ان میں مصروف رہنے سے ان کی حرمت یا کراہت اور بڑھ جاتی ہے۔ رات میں دیر تک جاگنا طبی نقطہ نظر سے بھی انسان کے لیے کئی نقصانات کا باعث ہے۔
وقت ایک نہایت قیمتی اور بیش بہا نعمت ہے جو ایک مرتبہ فوت ہوگئی تو دوبارہ اس کا حصول ناممکن ہے۔ رات دیر تک جاگنا صبح دیر سے اٹھنا وقت کی بربادی ہے جبکہ وقت کی حفاظت کرنے اور اس کو غنیمت جاننے کی اسلام میں سخت تاکید کی گئی۔
غور کیجيے صبح نماز فجر کے لیے اٹھنے سے لے کر رات نماز عشاء کے فوراً بعد سونے تک دین اسلام نے ہر مسلمان کو کیسے بہترین اوقات بندی (ٹائم مینجمنٹ) اور وقت کو بابرکت بنانا سکھایا ہے لیکن افسوس کہ ساری دنیا میں آج امت مسلمہ ہی وہ امت ہے جو ٹائم مینجمنٹ کرنے، اپنے وقت کو کارآمد اور بابرکت بنانے میں دنیا کی تمام اقوام سے پیچھے ہے جبکہ دین اسلام کے مطابق ایک انسان کا وقت ہی اس کا سب سے قیمتی اثاثہ ہے جس کا اسے اپنے رب کے دربار میں کھڑے ہوکر حساب دینا ہوگا۔ اگر اس زندگی میں وقت کی قدر نہیں کی جائے اور اسے غفلت، شر اور سیئات کی نذر کر دیا جائے تو پھر عذابِ جہنم سے کیسے بچا جاسکتا ہے، جب فرمایا جائے گا:
أَوَلَمْ نُعَمِّرْكُم مَّا يَتَذَكَّرُ فِيهِ مَن تَذَكَّرَ وَجَاءَكُمُ النَّذِيرُ ۖ فَذُوقُوا فَمَا لِلظَّالِمِينَ مِن نَّصِيرٍ ﴿٣٧﴾ سورة فاطر
’’کیا ہم نے تمہیں اتنی عمر نہیں دی تھی کہ اس میں جو شخص نصیحت حاصل کرنا چاہتا، وہ نصیحت حاصل کر سکتا تھا اور (پھر) تمہارے پاس ڈرانے والا بھی آچکا تھا، پس اب (عذاب کا) مزہ چکھو سو ظالموں کے لیے کوئی مددگار نہ ہوگا ‘‘
لیکن اگر ہم اس زندگی میں اپنے وقت کی قدر کریں اور اسے خیر و بھلائی کے کاموں میں صرف کریں تو (ان شاء اللہ ) کل قیامت کے دن ہمیں نیکی اور بھلائی کا بہترین اجر ملے گا،
كُلُوا وَاشْرَبُوا هَنِيئًا بِمَا أَسْلَفْتُمْ فِي الْأَيَّامِ الْخَالِيَةِ (٢٤) سورة الحاقة
(ا ور کہا جائے گا) ’’ خوب لطف اندوزی کے ساتھ کھاؤ اور پیو اُن (اَعمال) کے بدلے جو تم گزشتہ ( دنیاوی زندگی کے) اَیام میں آگے بھیج چکے تھے‘‘۔
سیدنا عبادہ بن صامت نے کہا: میں گواہی دیتا ہوں کہ میں نے رسول اللہ ﷺ کو یہ فرماتے ہوئے سنا: میرے پاس اللہ تعالیٰ کی طرف سےجبریل آئے اور کہا: ’’ اے محمد! اللہ تعالیٰ نے آپ سے فرمایا ہے: میں نے آپ کی امت پر پانچ نمازیں فرض کی ہیں، جو آدمی وضو، اوقات اور سجود وغیرہ سمیت ان کا پورا حق ادا کرے گا، اس سے میرا معاہدہ ہے کہ میں اسے جنت میں داخل کروں گا، اور جو آدمی ان کی ادائیگی میں کمی کر کے مجھے ملے گا تو اس کے لیے میرے ہاں کوئی عہد نہیں ہے، چاہوں تو عذاب دوں اور چاہوں تو رحم کر دوں ‘‘۔ (سلسلہ احاديث صحيحہ ترقیم البانی: 842)
عبداللہ بن مسعود کہتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ ﷺ سے پوچھا کہ اللہ تعالیٰ کو کون سا عمل زیادہ محبوب ہے؟ تو آپ ﷺ نے فرمایا: ’’وقت پر نماز پڑھنا، والدین کے ساتھ حسن سلوک کرنا، اور اللہ کی راہ میں جہاد کرنا ‘‘۔ (صحيح البخاري: 7534، سنن نسائي: 611)
اسود بن یزید نے حضرت عائشہ سے پوچھا کہ گھر میں نبی کریم ﷺ کیا کیا کرتے تھے؟ ام المؤمنین نے بیان کیا کہ ’’نبی کریم ﷺ اپنے گھر کے کام کاج یعنی اپنے گھر والیوں کی خدمت کیا کرتے تھے اور جب نماز کا وقت ہوتا تو فوراً (کام کاج چھوڑ کر) نماز کے لیے چلے جاتے تھے‘‘۔ (صحيح البخاري: 676)
وقت پر نماز ادا کرنے سے ہمیں توانائی ملتی ہے اور بامقصد زندگی گزارنے کی قوت ارادی مضبوط ہوتی ہے۔ ایک بار جب ہم اپنا سب سے اہم فریضہ (نماز) وقت پر ادا کر لیتے ہیں تو باقی سارے کام آسان ہو جاتے ہیں کیونکہ اس طرح اللہ تعالیٰ کی رحمت سے ہمارے وقت میں برکت پیدا ہوجاتی ہے۔
ایک عام مسلمان کے لیے مسجد میں جاکر پنجگانہ نمازیں باجماعت ادا کرنا وقت کا بہترین استعمال ہے جوکہ وقت کی بہترین منصوبہ بندی (ٹائم مینجمنٹ) سے ہی ممکن ہوتا ہے یعنی ہر مسلمان کو پنجگانہ نمازوں کے ذریعے ٹائم مینجمنٹ سکھایا گیا ہے۔ پس اس تربیت سے فائدہ اٹھاتے ہوئے ہمیں زندگی کے ہر شعبے میں اپنی تمام تر سرگرمیوں کے لیے ٹائم مینجمنٹ کرنا چاہیے تاکہ ہم اپنے وقت کا بہترین استعمال کرسکیں جو کہ دین و دنیا دونوں میں کامیابی لیے ضروری ہے۔
یہ تو رہی ایک عام مسلمان کی بات لیکن جو لوگ اللہ تعالیٰ کے خاص بندوں میں اپنا نام لکھوانا چاہتے ہیں، انہیں اپنے وقت کو اور بہتر طریقے سے استعمال کرنے کی ضرورت ہے۔ جس کے لیے خاص وقت کی خاص نفل نمازوں کا اہتمام کرنا لازمی ہے جن میں اشراق، چاشت، اوابین اور تہجد کی نمازیں اہم ہیں۔
اللہ تعالیٰ مجھے اور آپ کو اس کی توفیق عطا فرمائے۔ آمین۔
(ماخوذ: بابرکت و باسعادت بڑھاپا، عمدہ کاغذ کلر پرنٹیڈ کتاب ریاعتی ہدیہ پر دستیاب ہے، جنہیں لینا ہووہ واٹس اپ 03363780896 کریں)۔
۔