• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

بابرکت و باسعادت بڑھاپا

شمولیت
اکتوبر 25، 2014
پیغامات
350
ری ایکشن اسکور
29
پوائنٹ
85
تمام مسلمانوں کے لیے دعائیں کرنا

اگر میں یہ کہوں کہ ہمارے آباؤ اجداد کی تعداد ایک ارب سے تجاوز کرتی ہے تو شاید آپ ہنس دیں اور اسے مضحکہ خیز سمجھیں۔ لیکن حقیقت یہی ہے۔ ہم میں سے ہر ایک کے آباو اجداد کی تعداد اربوں میں ہے۔ تو آئیے آج ہم اپنے آباؤ اجداد کا حساب لگاتے ہیں اور دیکھتے ہیں ہماری رگوں میں کتنے لوگوں کا لہو محو گردش ہے۔

1 ۔ ۔ باپ ماں ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔تعداد -- 2 - - - - - - 1^2
2 ۔ ۔ دادا دادی ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔تعداد -- 4 - - - - - - 2^2
3 ۔ ۔ پڑ دادا پڑ دادی ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔تعداد -- 8 - - - - - - 3^2
4 ۔ ۔ سگڑ دادا سگڑ دادی (1) ۔ ۔ ۔ ۔تعداد -- 16 - - - - - 4^2
5 ۔ ۔ سگڑ دادا سگڑ دادی (2) ۔ ۔ ۔ ۔تعداد -- 32 - - - - - 5^2
6 ۔ ۔ سگڑ دادا سگڑ دادی (3) ۔ ۔ ۔ ۔تعداد -- 64 - - - - - 6^2
7 ۔ ۔سگڑ دادا سگڑ دادی (4) ۔ ۔ ۔ تعداد -- 128 - - - - 7^2
8 ۔ ۔سگڑ دادا سگڑ دادی (5) ۔ ۔ ۔ تعداد -- 256 - - - - 8^2
9 ۔ ۔سگڑ دادا سگڑ دادی (6) ۔ ۔ ۔ تعداد -- 512 - - - - 9^2
10 ۔ سگڑ دادا سگڑ دادی (7) ۔ ۔ ۔ تعداد -- 1024 - - - 10^2
11 ۔ سگڑ دادا سگڑ دادی (8) ۔ ۔ ۔ تعداد -- 2048 - - - 11^2
اس طرح اگر پیچھے چلتے ہوئے 30 ویں سگڑ دادا سگڑ دادی تک جائیں تو
33۔ ۔سگڑ دادا سگڑ دادی (30) ۔ ۔ تعداد۔ 8,589,934,592 - - - 33^2

ہمارے آباؤ اجداد کی تعداد بنتی ہے 33^2 = 8.6 بلین یعنی 8 ارب 60 کروڑجو کہ دنیا کی موجودہ آبادی سے بھی زیادہ ہوئی۔ اگر کزنز کے درمیان شادی کا حساب لگالیں تو یہ تعداد کچھ کم ہو جائے گی، تو اسے آدھا کر لیتے ہیں تب بھی یہ تعداد 4 ارب 30 کروڑ کی بنتی ہے۔ اس سے پتہ چلتا ہے کہ ہمارے جیسے ایک انسان کی پیدائش کے پیچھے کتنے بے شمار لوگوں نے اپنا کردار ادا کیا ہے اور ہم پر ہمارے اتنے زیادہ آباؤاجداد کے احسانات ہیں جنہیں ہم گن بھی نہیں سکتے۔

ذرا غور کیجيے کہ اگر ہمارے یہ بے شمار آباؤاجداد آج زندہ ہوتے تو ہم کتنے مشکل میں پڑ جاتے۔ ہم کس کس کا حق ادا کرتے جبکہ آج ہم اپنے حقیقی والدین کے حقوق ادا کرنے سے بھی قاصر ہیں۔ ایک بار اور تصور کیجيے کہ اگر ہمارے یہ سارے آباؤاجداد آج زندہ ہوتے تو کیا ہوتا؟ تو ہر طرف بستر پر پڑے دکھ درد سے کراہتے، پاخانہ پیشاب کرتے، کھانستے اور تھوکتے، ضعیف و لاغر، چلنے پھرنے اٹھنے بیٹھنے سے قاصر، بولنے اور سننے سے معذور صرف بوڑھے ہی بوڑھے نظر آتے اور دنیا میں زندگی مفلوج ہوکر رہ جاتی۔

ایک دفعہ ایک بادشاہ نے اپنے وزیر کے ساتھ اپنی وسیع سلطنت کے بارے میں خوش گپی کرتے ہوئے کہا: کاش! کہ موت نہ ہوتی۔ تو وزیر نے مسکراتے ہوئے جواب دیا: حضور والا! اگر موت نہ ہوتی تو یہ سلطنت آپ تک کیسے پہنچتی؟ یہ موت ہی تو ہے جس کے ذریعہ یہ بادشاہی اور یہ نعمتیں آپ تک پہنچی ہیں، ورنہ یہ وسیع سلطنت آپ کے آباؤ اجداد تک ہی محدود رہتی۔

موت ایک اٹل حقیقت ہے۔ ہمیں بھی مرنا ہے اور اس دنیا سے جانا ہے۔ جس طرح ہمارے اربوں آباؤاجداد موت کو گلے لگا کر اس دنیا سے رخصت ہوگئے اور ہمارے لیے یہ نعمتوں سے بھری دنیا چھوڑ گئے اسی طرح ہمیں بھی اپنی آئندہ نسلوں کی بقا کے لیے اس دنیا سے جانا ہے۔

موت ہے تو زندگی ہے۔ موت کی وجہ سے ہی دنیا میں زندگی رواں دواں ہے۔ موت اللہ تعالیٰ کی نشانیوں میں سے ایک نشانی ہے۔ موت سے اللہ تعالیٰ کی قدرتِ کاملہ اور تمام مخلوقات پر اس کی مکمل تسلط کا پتہ چلتا ہے۔ جب کوئی بوڑھا ہوجائے تو ناکارہ ہونے سے پہلے اچھی اور آسان موت کا آجانا اللہ تعالیٰ کی بڑی رحمت ہے، جس کی دعا ہم سب کو کرنی چاہیے اور ارذل العمر سے پناہ مانگنا چاہیے۔

موت رحمت ہونے کے ساتھ ساتھ نعمت بھی ہے۔ موت دنیاوی زندگی کی انتہا اور اخروی زندگی کی ابتدا ہے۔ موت مومن کے لیے جنت کا دروازہ ہے لیکن اس کے لیے موت کو یاد رکھنا اور اس کی تیاری کرنا ضروری ہے۔

عقل مند شخص موت سے پہلے موت کی تیاری کرتا ہے ،اپنے آپ کو قبر کے لیے تیار کرتا ہے، اپنی قبر کو ایمان کی روشنی سے منور کرتا ہے اور اسے نیک اعمال سے بھر دیتا ہے تا کہ اس کی قبر جنت کا باغیچہ بن جائے اور اس کے ساتھ ساتھ ایسے اعمال بھی کرتا ہے جس کا اجر و ثواب اسے موت کے بعد بھی تا قیامت ملتا رہے۔

رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:آدمی جب مر جاتا ہے تو اس کا عمل موقوف ہو جاتا ہے مگر تین چیزوں کا ثواب جاری رہتا ہے: (1) ایک صدقۂ جاریہ کا، (2) دوسرے علم کا جس سے لوگ فائدہ اٹھائیں، اور (3) تیسرے نیک و صالح اولاد جو دعا کرے اس کے لیے۔ (صحيح مسلم: 1631)

اسلام ایک ایسا بابرکت دین ہے جس کی برکتوں کی کوئی انتہا نہیں۔ ہم جتنا اس کی برکتوں پر غور کرتے ہیں اتنا ہی اس کی برکتیں وسیع تر ہوتی جاتی ہیں۔ جہاں اس دین پر زندہ رہنے والے اس کی برکتیں سمیٹتے ہیں وہیں اس دین پر چلتے ہوئے دنیا سے گزر جانے والے مومن بندے کو بھی اس کی برکتیں احاطہ کیے رہتی ہیں۔ اوپر دیے گئے حساب کے مطابق ہمارے اربوں آباؤاجداد اس دنیا سے رخصت ہو چکے ہیں۔ ہمیں نہیں معلوم کہ ان میں سے کتنوں کو ان کے کیے گئے صدقۂ جاریہ کا ثواب اب بھی مل رہا ہے لیکن ان میں جو مومن تھے ہماری دعاؤں میں آج بھی وہ سب شامل ہیں۔ یہ دین اسلام کی برکت ہے کہ جب ہم دعا کرتے ہیں:
---------------1---------------
رَبَّنَا اغْفِرْ لَنَا وَلِإِخْوَانِنَا الَّذِينَ سَبَقُونَا بِالْإِيمَانِ وَلَا تَجْعَلْ فِي قُلُوبِنَا غِلًّا لِّلَّذِينَ آمَنُوا رَبَّنَا إِنَّكَ رَءُوفٌ رَّحِيمٌ ‎(١٠) سورة الحشر
’’ اے ہمارے پروردگار ہمیں بخش دے اور ہمارے ان بھائیوں کو بھی جو ہم سے پہلے ایمان لاچکے ہیں اور ایمان داروں کی طرف سے ہمارے دل میں کینہ (اور دشمنی) نہ ڈال، اے ہمارے رب بیشک تو شفقت ومہربانی کرنے والا ہے‘‘

رَبَّنَا اغْفِرْ لِي وَلِوَالِدَيَّ وَلِلْمُؤْمِنِينَ يَوْمَ يَقُومُ الْحِسَابُ (٤١) سورة ابراهيم
’’اے ہمارے رب مجھے بخش دے اور میرے ماں باپ کو اور تمام مومنوں کو جس دن حساب قائم ہوگا‘‘

اَللّٰهُمَّ اغْفِرْلَنَا وَلِوَالِدَيْنَا وَ لِلْمُؤْمِنِيْنَ وَالْمُؤْمِنَاتِ
’’اے اللہ! تو ہمیں ہمارے والدین اور تمام مومن مردوں اور عورتوں کو بخش دے‘‘

اللّٰھُمَّ اغْفِرْ لِیْ وَلِکُلِّ مُؤْمِنٍ وَّمُؤْمِنَۃٍ
’’اےاللہ! میری اور تمام مومن ومومِنہ کی مغفِرت فرما‘‘

تو ہم حضرت آدم علیہ السلام سے لے کر دنیا میں آنے والے آخری مومن تک کو اپنی ان دعاؤں میں یا اس جیسی دوسری دعاؤں میں شامل کرتے ہیں، اور اس طرح ان تمام گزرے ہوئے اور آنے والے مومنین کی دعائیں بھی ہم تک پہنچتی رہیں گی، ان شاء اللہ تعالیٰ ۔
---------------2---------------
اسی طرح رَحْمَةً لِّلْعَالَمِينَ ﷺ نے فرمایا: جب تم میں سے کوئی نماز پڑھے اور کہے:

التَّحِيَّاتُ لِلَّهِ وَالصَّلَوَاتُ وَالطَّيِّبَاتُ السَّلَامُ عَلَيْكَ أَيُّهَا النَّبِيُّ وَرَحْمَةُ اللَّهِ وَبَرَكَاتُهُ السَّلَامُ عَلَيْنَا وَعَلَى عِبَادِ اللَّهِ الصَّالِحِينَ، أَشْهَدُ أَنْ لَا إِلَهَ إِلَّا اللَّهُ وَأَشْهَدُ أَنَّ مُحَمَّدًا عَبْدُهُ وَرَسُولُهُ
’’تمام زبانی، بدنی، اور مالی عبادات اللہ تعالیٰ کے لیے ہیں، اے نبی! آپ پر سلام ہو اور اﷲ کی رحمت اور برکتیں ہوں، سلامتی ہو ہم پر اور اللہ تعالیٰ کے تمام نیک بندوں پر، میں گواہی دیتا ہوں کہ اللہ کے سوا کوئی معبود نہیں اور گواہی دیتا ہوں کہ محمد ﷺاس کے بندے اور رسول ہیں‘‘ ، تو زمین و آسمان میں موجود اللہ کے ہر نیک و صالح بندے کو یہ دعا پہنچتی ہے۔ (صحيح البخاري: 1202)

اس طرح ہر مومن بندے کی نماز میں اور نماز کے بعد کی گئی دعاؤں میں ہم بھی شامل ہو جاتے ہیں اور یہ سلسلہ اس وقت تک جاری رہے گا جب تک نماز پڑھی جاتی رہے گی۔ لہذا جو نماز نہیں پڑھتے وہ اس خیر و برکت سے محروم رہتے ہیں۔
---------------3---------------
اسی طرح جب ہم کسی کی نماز جنازہ ادا کرتے ہیں اور دعا کرتے ہیں:

اَللّٰهُمَّ اغْفِرْ لِحَيِّنَا وَمَيِّتِنَا وَشَاهِدِنَا وَغَائِبِنَا وَصَغِيْرِنَا وَکَبِيْرِنَا وَذَکَرِنَا وَاُنْثَانَا. اَللّٰهُمَّ مَنْ اَحْيَيْتَه مِنَّا فَاَحْيِه عَلَی الْاِسْلَامِ وَمَنْ تَوَفَّيْتَه مِنَّا فَتَوَفَّه عَلَی الإِيْمَانِ
’’اے اللہ تو بخش دے ہمارے زندوں اور ہمارے مردوں کو، اور ہمارے حاضر اور ہمارے غائب کو اور ہمارے چھوٹوں اور ہمارے بڑوں کو اور ہمارے مردوں اور ہماری عورتوں کو۔ اے اللہ! ہم میں سے جسے تو زندہ رکھے تو اسے اسلام پر زندہ رکھ اور ہم میں سے جسے تو موت دے تو اسے ایمان پر موت دے‘‘ ۔

تو اس دعا میں ہم (1) زندہ (2) مردہ (3) حاضر (4) غائب (5) چھوٹے (6) بڑے (7) مرد و (8) عورت یعنی ان آٹھ قسم کی لوگوں کو اپنی دعا میں شامل کرتے ہیں یعنی نماز جنازہ میں صرف میت کے لیے ہم دعا نہیں کرتے بلکہ ان تمام مسلمانوں کے لیے دعا کرتے ہیں جو حضرت آدم علیہ السلام سے لے کر اب تک اس دنیا میں آچکے ہیں اور آئندہ قیامت تک اس دنیا میں آنے والے ہیں اور اسی طرح ہمارے مرنے کے بعد جب بھی کسی کا جنازہ پڑھا جائے گا تو اس میں ہماری بخشش کی دعا بھی کی جائے گی اور یہ سلسلہ قیامت تک جاری رہے گا۔

یہ دعا بہت عظیم اور شاندار ہے، جو سامنے موجود میت کے علاوہ مسلمانوں میں سے زندہ و مردہ، چھوٹے و بڑے ،مرد و عورت ،اور موجود و غائب سب کو شامل ہے ؛ کیونکہ محتاج و ضرورت مند صرف مرنے والا یا مرنے والی ہی نہیں بلکہ سب ہی محتاج و ضرورت مند ہیں اور اللہ کی مغفرت، معافی اور اس کی رحمت کی سبھی کو ضرورت ہے ۔
---------------4---------------
جب ہم مسلمانوں کے کسی قبرستان میں جاتے ہیں یا اس کے قریب سے گزرتے ہیں تب بھی تمام مرحوم مومنین و مسلمین کے لیے سلامتی اور عافیت کی دعا کرتے ہیں:

اَلسَّلَامُ عَلَيْكُمْ أَهْلَ الدِّيَارِ مِنَ الْمُؤْمِنِيْنَ وَالْمُسْلِمِيْنَ، وَإِنْ شَاءَ اللهُ بِكُمْ لَاحِقُوْنَ، أَسْأَلُ اللهَ لَنَا وَلَكُمُ الْعَافِيَةَ - - - ’’ اے گھروں کے مومن اور مسلمان مکینوں تم پر سلامتی ہو، اور ان شاء اللہ ہم بھی تم سے ملنے والے ہیں، میں اللہ تعالیٰ سے اپنے اور تمہارے لیے عافیت کا طلب گار ہوں ‘‘۔ (صحيح مسلم: 975)
اسی طرح ہماری موت کے بعد ہماری قبروں کے قریب سے گزرنے والے اللہ کے مومن بندے بھی ہمارے لیے دعائیں کریں گے اور یہ سلسلہ بھی تا قیامت جاری رہے گا، ان شاء اللہ۔
---------------5---------------
اور سب سے بڑی بات یہ کہ جب ہم درود ابراہیمی کے ذریعے اپنے پیارے نبی کریم ﷺ پر اللہ تعالیٰ سے رحمتیں اور برکتیں بھیجنے کی دعا کرتے ہیں تو اس میں بھی ساری کی ساری امت محمدیہ ﷺشامل ہوتی ہے کیونکہ ساری کی ساری امت محمدیہ ﷺ اٰل محمد ﷺہے، توآئیے درود بھیجیں اپنے نبی ﷺ پر اور اس میں شامل کریں آل محمد ﷺ کو:

ٱللَّٰهُمَّ صَلِّ عَلَىٰ مُحَمَّدٍ وَعَلَىٰ اٰلِ مُحَمَّدٍ كَمَا صَلَّيْتَ عَلَىٰ إِبْرَاهِيمَ وَعَلَىٰ اٰلِ إِبْرَاهِيمَ إِنَّكَ حَمِيدٌ مَجِيدٌ
ٱللَّٰهُمَّ بَارِكْ عَلَىٰ مُحَمَّدٍ وَعَلَىٰ اٰلِ مُحَمَّدٍ كَمَا بَارَكْتَ عَلَىٰ إِبْرَاهِيمَ وَعَلَىٰ اٰلِ إِبْرَاهِيمَ إِنَّكَ حَمِيدٌ مَجِيدٌ


’’اے ﷲ! رحمتیں نازل فرما حضرت محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر اور ان کی اٰل پر، جس طرح تونے رحمتیں نازل کیں حضرت ابراہیم علیہ السلام پر اور ان کی آل پر، بے شک تو تعریف کا مستحق بڑی بزرگی والا ہے۔ اے ﷲ! تو برکتیں نازل فرما حضرت محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر اور ان کی آل پر، جس طرح تونے برکتیں نازل فرمائیں حضرت ابراہیم علیہ السلام پر اور ان کی آل پر، بے شک تو تعریف کا مستحق بڑی بزرگی والا ہے‘‘ ۔

تمام مسلمان مردوں اور عورتوں کے لیے دنیا اور آخرت کی بھلائی کے لیے دعا کرنا ایک ایسا عمل ہے جس کی برکات اور فضائل بہت وسیع ہیں۔ اپنے بڑھاپے کو بابرکت و باسعادت بنانے کے لیے اپنے بوڑھے لرزتے ہاتھوں کو اٹھا کر دعائیں کیجيے اور اپنی دعاؤں میں حضرت آدم علیہ السلام سے لے کر قیامت تک آنے والے تمام مومن و مومنات اور مسلم و مسلمات کو شامل کرلیجیے، اس طرح آپ خود بھی ان سب لوگوں کی دعاؤں میں شامل رہیں گے جن میں انبیاء، صدیقین، شہداء ، صالحین اور ہر امت کے اچھے لوگ بھی ہیں۔

اللہ تعالیٰ ہمیں اس کی توفیق عطا فرمائے اور ہمار بڑھاپا بابرکت و باسعادت بنائے۔ ہماری مغفرت فرمائے، ہمارے والدین کی مغفرت فرمائے اور تمام مسلمانوں کی مغفرت فرمائے۔ ہمارے اولاد کو نیک اور صالح بنائے اور ہماری آئندہ آنے والی نسلوں کو ہمارے لیے صدقۂ جاریہ بنائے۔ آمین۔
(ماخوذ: کتاب بابرکت و باسعادت بڑھاپا، اس کتاب کی پرنٹیڈ ہارڈ کاپیاں موجود ہیں جولینا چاہتے ہوں وہ مجھ سے رابطہ کرسکتے ہیں۔
۔
 
شمولیت
اکتوبر 25، 2014
پیغامات
350
ری ایکشن اسکور
29
پوائنٹ
85
حجت اور عذر ختم کرنے والی عمر

ساٹھ سال کی عمر لمبی عمر ہے۔ جو ساٹھ سال کی عمر کو پہنچ گیا وہ لمبی عمر پا گیا۔ ابوہریرہ رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ اللہ کے رسول ﷺ نے فرمایا : میری امت کی عمریں ساٹھ اور ستر کے درمیان ہوں گی اور تھوڑے ہی لوگ ایسے ہوں گے جو اس حد کو پار کریں گے۔ )ترمذی: 3550، ابن ماجہ: 4236)

اور سیدنا انس بن مالک ﷛ سے مروی ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: میری امت کے کم ہی لوگ ستر (برس کی عمر) تک پہنچیں گے۔ (سلسلہ احاديث صحيحہ ترقیم البانی: 1517)

اپنے رب کو پہچاننے کے لیے، اللہ تعالیٰ کی معرفت حاصل کرنے کے لیے، دین اسلام کو سمجھنے اور اس پر عمل کرنے کے لیے ساٹھ سال ایک طویل عرصہ ہے۔ اس لیے جو لوگ ساٹھ سال کی عمر کو پہنچ جاتے ہیں، اللہ تعالیٰ ان بندوں کے عذر، حجت اور بہانے کو ختم کر دیتا ہے۔ جیسا کہ نبی کریم ﷺ نے فرمایا ہے کہ ’’ اللہ تعالیٰ نے اس آدمی کے لیے عذر کا کوئی موقع باقی نہیں رکھا جس کو ساٹھ برس تک (دنیا میں) مہلت دی‘‘ ۔ (صحيح البخاري:6419)

اس حدیث میں اس بات کا ثبوت ہے کہ اللہ تعالیٰ اپنے بندوں کے خلاف حجت رکھتا ہے اور یہ اس لیے ہے کہ اللہ تعالیٰ نے ان کو عقل دی، انہیں سمجھ عطا کی، ان میں اپنے رسول بھیجے اور اپنا کلام ہدایت نازل کیا اور اپنے رسول ﷺ کی سنت کو محفوظ کیا جو ہمیشہ رہے گی۔ اللہ تعالیٰ اپنے حجت کی دلیل دیتے ہوئے قرآن مجید میں فرماتا ہے:

وَمَن نُّعَمِّرْهُ نُنَكِّسْهُ فِي الْخَلْقِ ۖ أَفَلَا يَعْقِلُونَ ‎(٦٨) سورة يس
’’جس شخص کو ہم لمبی عمر دیتے ہیں اس کی ساخت کو ہم الٹ ہی دیتے ہیں، کیا (یہ حالات دیکھ کر) انہیں عقل نہیں آتی؟‘‘

اب جس شخص کو اللہ تعالیٰ ساٹھ سال تک کی لمبی عمر عطا کر دیتا ہے اور اتنے طویل زمانہ تک اس کو مہلت دے دیتا ہے، اس کے باوجود وہ اپنے خالق حقیقی کو نہیں پہچان پاتا اور رب کریم کی طرف رجوع نہیں کرتا، توبہ کرکے گناہوں سے باز نہیں آتا تو اب اس کے لیے عذر خواہی کا وہ کون سا موقع رہ گیا ہے جس کے سہارے وہ قیامت کے دن اپنے رب سے عفو و بخشش کی امید رکھتا ہے۔

اگر کوئی جوان شخص گناہ و معصیت اور بے عملی کی راہ اختیار کیے ہوئے ہے تو وہ کہہ سکتا ہے کہ جب بڑھاپا آئے گا تو اپنی بدعملیوں اور اپنے گناہوں سے توبہ کر لوں گا اور اپنی زندگی کےآخری حصہ کو اللہ کی رضا جوئی اور اس کی عبادت میں صرف کروں گا، لیکن جو شخص بڑھاپے کی منزل میں پہنچ چکا ہے تو اب یہ اس کے پاس توبہ وانابت اور نیک عمل کرنے کا آخری موقع ہے، اگر اب بھی وہ بے عملی اور گناہوں کی روش پر چلتا رہا تو کل اللہ تعالیٰ کو کیا جواب دے گا؟

ہائے! کتنے بدنصیب ہیں وہ لوگ جو عمر کے آخری منزل پر پہنچ کر بھی گناہ و معصیت میں ڈوبے ہوئے ہیں۔ اس بڑھاپے میں بھی جب کہ موت ان کے سر پر کھڑی ہے، انہیں گناہ و معصیت کی زندگی سے توبہ کرکے اپنے رحیم و کریم پروردگار کا دامن عفو و کرم پکڑ لینے کی توفیق نہیں ہوتی۔ پھر جب اسی حالت میں موت انہیں آ دبوچے گی اور یہ لوگ جہنم میں جا گریں گے تو اللہ تعالیٰ کے حضور معذرتیں پیش کریں گے، وہاں کہا جائے گا کہ ’’اے کفر اختیار کرنے والو! آج معذرتیں پیش نہ کرو، تمہیں تو ویسا ہی بدلہ دیا جا رہا ہے جیسے تم عمل کر رہے تھے‘‘ (٧) سورة التحريم

پھر جب لمبی عمر پانے والے کفار کا جہنم کے درد ناک عذاب جھیلنے کے سوا اور کچھ نہ بن پڑے گا: ’’تو وه لوگ اس میں چلائیں گے، چیخ چیخ کر کہیں گے کہ اے ہمارے پروردگار! ہم کو نکال لے ہم اچھے کام کریں گے برخلاف ان کاموں کے جو کیا کرتے تھے، (اللہ تعالیٰ کہے گا) کیا ہم نے تم کو اتنی عمر نہیں دی تھی کہ جس کو سمجھنا ہوتا وه سمجھ سکتا اور تمہارے پاس ڈرانے والا بھی پہنچا تھا، سو مزه چکھو کہ (ایسے) ظالموں کا کوئی مددگار نہیں‘‘۔(٣٧) سورة فاطر

یہاں اس آیت میں جو فرمایا: ’’کیا ہم نے تم کو اتنی عمر نہ دی تھی کہ جس کو سمجھنا ہوتا وه سمجھ سکتا اور تمہارے پاس ڈرانے والابھی پہنچا تھا ‘‘، اگرچہ یہ خطاب کفار کو ہے مگر سب کو نصیحت کرنا مقصود ہے اس لیے کہ اصل علت غفلت ہے جس میں آج مسلمان بھی پڑے ہوئے ہیں۔

جب انسان بوڑھا ہوجاتا ہے تب اس کے پاس بہت تھوڑا سرمایہ (وقت) باقی رہتا ہے، وہ بھی نہ جانے کب ختم ہوجائے۔ لہذا بوڑھے شخص پر اللہ تعالیٰ کی طرف سے یہ واجب ہے کہ وہ برابر اپنے پروردگار کی بارگاہ میں عذر خواہی اور توبہ و استغفار، تسبیح و تہلیل، دعا و درود کی کثرت کرتا رہے اور اس میں قطعاً کوئی کمی و کوتاہی نہ کرے۔ جیسا کہ فرمانِ الٰہی ہے:

يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا تُوبُوا إِلَى اللَّهِ تَوْبَةً نَّصُوحًا عَسَىٰ رَبُّكُمْ أَن يُكَفِّرَ عَنكُمْ سَيِّئَاتِكُمْ ‎(٨) سورة التحريم
’’اے ایمان والو! اللہ کے حضور توبہ کرو، سچی توبہ، امید ہے کہ وہ تمہاری برائیاں تم سے دور کر دے گا ‘‘

یہاں اس آیت میں اللہ تعالیٰ نے ایمان والوں کو مخاطب کیا ہے اور انہیں خالص توبہ کرنے کا حکم دیا ہے۔ لہذا ایمان والوں کو خالص توبہ ہی کرنا چاہیے۔ بڑھاپے میں خالص توبہ کرنا تو بہت آسان ہے کہ اس عمر میں گناہ کی طرف یوں بھی میلان کم ہوتا ہے پھر گناہ کرنے کے اسباب بھی کم ہوتے ہیں اور زندگی کے ایام بھی ختم ہونے کے قریب ہوتے ہیں۔ لہذا انتظار نہ کرے، ندامت کے آنسو بہائے اور سچی توبہ کرلے کہ ناجانے کب روح حلق میں آ پھنسے، اور توبہ کی قبولیت کا وقت ختم ہوجائے۔

بڑھاپے کی وجہ سے عمر رسیدہ لوگوں کی اکثریت چڑچڑے پن کا شکار رہتی ہے، جس کی وجہ سے ان کے لیے ان کے گھر کا ماحول سازگار نہیں ہوتا جبکہ ریٹائرمنٹ اور بڑھاپے کی وجہ سے گھر میں رہنا بھی ان کی مجبوری ہوتی ہے۔ چڑچڑے پن سے بچنے اور اپنے گھر کے ماحول کو ساز گار رکھنے کے لیے ایسے لوگوں کا ہمہ وقت عبادت میں مصروف رہنا بہت ضروری ہے۔ جو بزرگ لوگ اپنا زیادہ تر وقت خدمت خلق میں اور مسجدوں میں گزارتے ہیں وہ چڑچڑے پن اور بد مزاجی سے محفوظ رہتے ہیں، ان کے مزاج اور کردار میں شائستگی پائی جاتی ہے اور ان کے اخلاق بھی درست رہتے ہیں، سو اس طرح وہ بابرکت و باسعادت بڑھاپا پالیتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ ہم سب کو اس کی توفیق عطا فرمائے۔ آمین
(ماخوذ: کتاب بابرکت و باسعادت بڑھاپا، اس کتاب کی پرنٹیڈ ہارڈ کاپیاں موجود ہیں جولینا چاہتے ہوں وہ مجھ سے رابطہ کرسکتے ہیں ، واٹس اپ 03262366183 پر۔
۔
 
شمولیت
اکتوبر 25، 2014
پیغامات
350
ری ایکشن اسکور
29
پوائنٹ
85
نیا
معزز قارئین! واضح رہے کہ کہ یہاں کتاب ’’بابرکت و باسعادت بڑھاپا‘‘ سے جو مضامین پیش کیے جارہے ہیں وہ کتاب کے مطابق ترتیب وار اور مکمل نہیں ہیں۔ مکمل ترتیب وار مضامین پڑھنے کے لیے آپ پرنٹیڈ کتاب حاصل کرسکتے ہیں۔
 
Last edited:
شمولیت
اکتوبر 25، 2014
پیغامات
350
ری ایکشن اسکور
29
پوائنٹ
85
زندگی میں برکت ٹائم مینجمنٹ سے

حضرت آدم علیہ السلام کی اولاد میں سب سے بابرکت زندگی ہمارے پیارے نبی ﷺ کو ملی۔ ایسی دوسری کوئی بابرکت ہستی نہ ہی دنیا نے کبھی دیکھی ہے اور نہ ہی دیکھے گی۔ پھر بعد میں آپ ﷺ کے نقش قدم پر چلنے والوں کی زندگی بابرکت ہوئی اور امت آج تک آپ ﷺ سے اور آپ کے نقش قدم پر چلنے والی ان بابرکت ہستیوں سے فیض یاب ہورہی ہے اور قیامت تک ہوتی رہے گی۔ آپ ﷺ اور آپ ﷺ کے صحابہ کرام رضی اللہ عنہم اجمعین اور بعد میں آنے والے امت کے اچھے لوگوں نے وقت کی قدر و قیمت کو سمجھتے ہوئے اپنی زندگی گزاری، اور دنیا میں تاریخ رقم کی۔

وقت کی قدر و قیمت
اللہ تعالیٰ کی لاتعداد نعمتوں میں سے بنیادی اور اہم ترین نعمت ' وقت ' ہے۔ ہماری زندگی وقت کی زنجیروں میں جکڑی ہوئی ہے۔ وقت کے لامحدود بہتے ہوئے سمندر سے ہمیں زندگی کی تشکیل کے لیے جتنا وقت ملتا ہے وہ بہت کم اور انمول ہے۔ اسے کوئی خرید نہیں سکتا، جو وقت گزر جائے اسے دوبارہ واپس لایا نہیں جا سکتا۔ یہ زندگی کا سرمایہ ہے، بہترین وسیلہ ہے، وقت ہے تو زندگی ہے۔ جب ہمارا وقت ختم ہوجاتا ہے تب ہم اس دنیا میں نہیں رہتے، کوئی نیک عمل نہیں کر سکتے۔

پھر یہ ایک کائناتی حقیقت ہے کہ وقت کو نہ تو پھیلایا جا سکتا ہے اور نہ ہی کم کیا جا سکتا ہے، البتہ اس کو منظم کیا جا سکتا ہے۔ وقت کی اہمیت کا اندازہ نبی کریم ﷺ کے اس فرمان سے لگایا جا سکتا ہے: اگر قیامت قائم ہو جائے اور تم میں سے کسی کے ہاتھ میں کھجور کا ایک چھوٹا پودا ہو تو اگر وہ اسے لگا سکتا ہو تو جلدی سے اسے زمین میں لگا دے۔ (سلسلہ احاديث صحيحہ ترقیم البانی: 9)

اس حدیث کے ذریعے بندۂ مومن کو وقت کی اہمیت بتائی گئی ہے کہ قیامت کی ہولناکی کے وقت بھی وہ وقت ضائع نہ کرے بلکہ قیامت کے قائم ہونے سے پہلے جو نیک کام کر سکتا ہو وہ کر لے۔

وقت کی اہمیت کا اندازہ اس بات سے بھی لگایا جا سکتا ہے کہ کل قیامت کے دن سب سے پہلے جو پانچ سوالات کیے جائیں گے ان میں دو سوالات وقت کے بارے میں ہوں گے، جیسا کہ سیدنا عبداللہ بن مسعود ﷛ سے روایت ہے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”روز قیامت ابن آدم کے پاؤں اس وقت تک اللہ تعالیٰ کے پاس سے نہیں ہٹے گا، جب تک اس سے پانچ چیزوں کے بارے پوچھ گچھ نہ کر لی جائے گی،
(1) اس نے اپنی عمر کہاں فنا کی؟
(2) اپنی نوجوانی کہاں کھپائی؟
(3) مال کہاں سے اور کیسے کمایا؟
(4) (کمایا ہوا) مال کہاں خرچ کیا؟
(5) اور اس نے اپنے علم کے مطابق کتنا عمل کیا؟“۔ (سلسلہ احادیث صحیحہ ترقیم البانی: 946)​

چونکہ قیامت کے دن بندوں سے وقت کے بارے میں پوچھا جائے گا، اس لیے اللہ تعالیٰ نے قرآن کریم میں وقت کی اہمیت اور صحیح استعمال کے بارے میں بیان کیا ہے اور اپنے نبی ﷺ کے ذریعے قولی اور عملی طور پر بھی اس کی وضاحت فرمائی ہے۔
اللہ تعالیٰ ہمیں وقت کی اہمیت کو سمجھنے اور اس کا صحیح استعمال کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔ آمین
(ماخوذ: کتاب بابرکت و باسعادت بڑھاپا، اس کتاب کی پرنٹیڈ ہارڈ کاپیاں موجود ہیں جولینا چاہتے ہوں وہ مجھ سے رابطہ کرسکتے ہیں ، واٹس اپ 03262366183 پر۔
 
شمولیت
اکتوبر 25، 2014
پیغامات
350
ری ایکشن اسکور
29
پوائنٹ
85
پنجگانہ نماز کے لیے ٹائم مینجمنٹ

وقت کا صحیح اور موثر استعمال کرنے کا طریقہ سیکھنا ہر مسلمان کی اولین ذمہ داری ہے۔ ایک مسلمان کو پنجگانہ نماز کے ذریعے روزمرہ کی زندگی میں حقیقی نظم و ضبط اور ٹائم مینجمنٹ کا بہترین طریقہ سکھایا گیا ہے۔ جب نماز باجماعت کا وقت ہوجاتا ہے تو دنیا کے کسی بادشاہ کے لیے بھی اس میں تاخیر نہیں کی جاتی۔ ہر مسلمان کو اس طرح وقت کی اہمیت سمجھایا گیا ہے اور وقت پر نماز ادا کرنے کا پابند کیا گیا ہے،

إِنَّ الصَّلَاةَ كَانَتْ عَلَى الْمُؤْمِنِينَ كِتَابًا مَّوْقُوتًا ﴿١٠٣﴾‏ سورة النساء
’’بے شک نماز اپنے مقررہ وقتوں میں مسلمانوں پر فرض ہے ‘‘

«ایک مسلمان کا سب سے اہم کام وقت مقررہ پر نماز ادا کرنا ہے» اور جو نماز کا وقت ہے اس میں صرف نماز ہی ادا کرنا ہے۔ اس طرح ہر کام کو وقت مقررہ پر کرنا سکھایا گیا ہے جو کہ«ٹائم مینجمنٹ»کی بہترین مثال ہے۔ پنجگانہ نماز کے ذریعے«ٹائم مینجمنٹ» کی تربیت ذیل میں پیش کی جارہی ہے:
.
 
شمولیت
اکتوبر 25، 2014
پیغامات
350
ری ایکشن اسکور
29
پوائنٹ
85
نمازِ فجر سے ٹائم مینجمنٹ

اللہ تعالیٰ نے سورۃ الفجر میں فجرکے وقت کی قسم کھائی ہے : «وَالْفَجْرِ- قسم ہے فجر کی»۔ فجر کا وقت ایک مسلمان کا روزانہ کا پرائم ٹائم ہے اور یہ اتنا برکت والا وقت ہے کہ قرآن کریم میں اللہ رب العزت فجر کے وقت پر قسم کھا رہے ہیں اور اللہ کے رسول ﷺ اپنے رب سے اپنی امت کے لیے صبح وقت میں برکت کی دعا مانگ رہے ہیں: « اللَّهُمَّ بَارِكْ لِأُمَّتِي فِي بُكُورِهَا ۔۔۔ اے اللہ! میری امت کو صبح کے وقت میں برکت دے »۔(سنن ابي داود: 2606، سنن ترمذي: 1212)

اور ام المومنین سیدہ عائشہ صدیقہ ﷝ روایت کرتی ہیں کہ پیارے نبی ﷺ نے فرمایا :’’فجر کی دو رکعت پوری دنیا اور جو کچھ اس میں ہے، اس سے بہتر ہیں ‘‘۔ (صحيح مسلم: 725)

اللہ تعالیٰ نے یہ بھی فرماتا ہے:

أَقِمِ الصَّلَاةَ لِدُلُوكِ الشَّمْسِ إِلَىٰ غَسَقِ اللَّيْلِ وَقُرْآنَ الْفَجْرِ ۖ إِنَّ قُرْآنَ الْفَجْرِ كَانَ مَشْهُودًا ‎(٧٨) سورة الإسراء
’’آپ سورج ڈھلنے سے لے کر رات کی تاریکی تک نماز قائم فرمایا کریں اور نمازِ فجر کا قرآن پڑھنا بھی (لازم کر لیں)، بیشک نمازِ فجر کے قرآن میں (فرشتوں کی) حاضری ہوتی ہے‘‘

«لِدُلُوكِ الشَّمْسِ» سے لے کر «غَسَقِ اللَّيْل» تک کے وقت سے مراد (ظہر، عصر، مغرب اور عشاء کی) چار نمازیں ہیں جبکہ «قُرْآنَ الْفَجْرِ» سے مراد فجر کی نماز ہے۔ چونکہ فجر کی نماز میں قرآن پاک کی طویل تلاوت کا حکم ہے اسلیے اسے« قُرْآنَ الْفَجْرِ» کہا گیا ہے۔

اور سیدنا ابن عمر رضی اللہ عنہما نے کہا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”اللہ تعالیٰ کے ہاں سب سے افضل نماز جمعہ کے دن کی نماز فجر ہے، جسے باجماعت ادا کیا جائے“۔ (سلسلہ احاديث صحيحہ ترقیم البانی: 1566)

ہر چند کہ یہ پانچوں نمازیں وہ گلدستہ ہیں جن کے ہر پھول کی اپنی خوشبو ہے مگر فجر کی نماز کا مقامِ شرف یابی بلند تر ہے۔ اس ملکوتی وقت میں اللہ سے محبت کرنے والے بندے ہی بیدار ہوتے ہیں کہ یہ وقت خیر و برکت، کشائشِ رزق اور آسودگی کا باعث ہے۔ صبح کے وقت عبادت کا اپنا لطف ہے کیونکہ ہر طرف یک گونہ یکسوئی، اطمینان اور سپیدۂ سحر کے نور بکھرے ہوتے ہیں۔ لہذا زندگی میں خیر و برکت حاصل کرنے اور بڑھاپے کو بابرکت و باسعادت بنانے کے لیے فجر کی نماز کا باجماعت اہتمام بہت ضروری ہے، سونے جاگنے کی ٹائم مینجمنٹ کے سے ہی اسے ممکن بنایا جاسکتا ہے۔
(ماخوذ: بابرکت و باسعادت بڑھاپا، اس کتاب کی پرنٹیڈ ہارڈ کاپیاں موجود ہیں جولینا چاہتے ہوں وہ رابطہ کرسکتے ہیں ، واٹس اپ 03363780896 پر)۔
 
شمولیت
اکتوبر 25، 2014
پیغامات
350
ری ایکشن اسکور
29
پوائنٹ
85
نمازِ ظہرکے لیے ٹائم مینجمنٹ

صبح کی سنت، فرض اور اشراق و چاشت کی نمازوں کے بعد انسان اپنی دنیاوی معمولات میں لگ جاتا ہے اور تقریباً چھ سے آٹھ (٦-٨) گھنٹے کے بعد نماز ظہر کا وقت ہوجاتا ہے۔ ایک مسلمان کو اپنے اوقات کار کو اس طرح ترتیب دینے کی ضرورت ہے کہ وہ ٦-٨ گھنٹے بعد سب سے اہم فریضےکے لیے اپنے آپ کو دوبارہ فارغ کرلے اور مسجد میں آکر نماز ظہر ادا کرے۔

وَ النَّہَارِ اِذَا تَجَلیٰ ۙ۔۔۔ (2) سورة الليل
’’اور قسم ہے دن کی جب روشن ہو‘‘

ظہر کے وقت کی اہمیت بتانے کے لیے اس آیت میں قسم کھائی گئی ہے۔ ظہر کی نماز کی فضیلت کے بارے میں رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:’’جس نے ظہر سے پہلے اور ظہر کے بعد چار رکعتیں پڑھنے کی پابندی کی، اللہ اس پر جہنم کی آگ حرام کر دے گا‘‘۔(سنن ترمذي: 428، سنن نسائي: 1817)

لیکن جو وقت کی پابندی نہیں کرتا اس کے لیے نماز کی پابندی کرنا بھی مشکل ہوتا ہے۔ اس لیے ہر مسلمان کو اپنے تمام کام کی اوقات بندی ( ٹائم مینجمنٹ) کرنا لازمی اور اہم ہے، تب ہی وہ اپنے رب کے لیے مسجد میں وقت پر نمازیں ادا کرنے جاسکتا ہے۔
(ماخوذ: بابرکت و باسعادت بڑھاپا، اس کتاب کی پرنٹیڈ ہارڈ کاپیاں موجود ہیں جولینا چاہتے ہوں وہ رابطہ کرسکتے ہیں ، واٹس اپ 03363780896 پر)۔
۔
 
شمولیت
اکتوبر 25، 2014
پیغامات
350
ری ایکشن اسکور
29
پوائنٹ
85
قیلولہ کے لیے ٹائم مینجمنٹ

مسلمانوں میں نمازِ ظہر کے بعد کھانا کھانا اور پھر تھوڑی دیر کے لیے قیلولہ کرنا سنت ہے۔ سیدنا انس ﷛ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:’’ قیلولہ کیا کرو کیونکہ شیاطین قیلولہ نہیں کرتے‘‘۔ (سلسلہ احاديث صحيحہ ترقیم البانی: 1647)

قیلولہ بہت ساری ذہنی و جسمانی بیماریوں سے محفوظ رکھنے اور کارکردگی میں اضافہ کرنے کا باعث ہے۔ اس لیے قیلولہ کرنے کے لیے اوقات بندی (ٹائم مینجمنٹ کرنا) بھی ضروری ہے تاکہ دن کے بقیہ حصے کا کام بہتر طریقے سے انجام دیا جا سکے اور رات کو عبادت کرنا آسان ہو۔اس لیے آپ ﷺ نے یہ بھی فرمایا: ’’دن کے روزے میں سحری کھانے سے مدد لو، اور قیلولہ سے رات کی عبادت میں مدد لو‘‘۔ (سنن ابن ماجہ: 1693)

دین اسلام ہر معاملے میں راہ اعتدال اپنانے کی ترغیب دیتا ہے۔ عبادت میں مشغول ہوکر دنیا کے لیے بیکار ہونا بھی نہیں ہے اور نہ ہی دنیاوی کام کاج میں مصروف ہوکر اپنے آپ کو اتنا تھکا دینا ہے کہ انسان صحیح وقت پر عبادت بھی نہ کر سکے۔ اس لیے دنیاوی کام کاج سے فراغت حاصل کرکے آرام کرنا ضروری ہے تاکہ عبادت میں مدد مل سکے۔ یہ سارے معاملات اوقات بندی ( ٹائم مینجمنٹ) سے ہی ممکن ہے۔

(ماخوذ: بابرکت و باسعادت بڑھاپا، اس کتاب کی پرنٹیڈ ہارڈ کاپیاں موجود ہیں جولینا چاہتے ہوں وہ رابطہ کرسکتے ہیں ، واٹس اپ 03363780896 پر)۔
 
شمولیت
اکتوبر 25، 2014
پیغامات
350
ری ایکشن اسکور
29
پوائنٹ
85
نماز عصر کی اہمیت اور ٹائم مینجمنٹ کی تربیت

ظہر کے بعد نمازِ عصر کا وقت آتا ہے۔ ایک مسلمان کے روزانہ کے معمولات میں یہ دوسرا پرائم ٹائم (Prime Time) ہے کیونکہ دوپہر میں قیلولہ کے بعد انسان پھر سے تروتازہ اور متحرک ہو جاتا ہے۔ نماز عصر کی بڑی اہمیت، شدید تاکید اور بڑی فضیلت ہے۔ اللہ سبحانہ وتعالیٰ نے اپنی پاک کلام میں جہاں دیگر نمازوں کی پابندی کا حکم دیا ہے، وہیں ایک مسلمان کو نماز عصر کا خاص اہتمام کرنے کا حکم جاری کیا ہے۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے:

حَافِظُوا عَلَى الصَّلَوَاتِ وَالصَّلَاةِ الْوُسْطَىٰ وَقُومُوا لِلَّهِ قَانِتِينَ ‎﴿٢٣٨﴾ سورة البقرة
’’تمام نمازوں کی حفاظت کرو، بالخصوص درمیان والی (یعنی عصر کی) نماز کی اور اللہ تعالیٰ کے لیے باادب کھڑے رہا کرو‘‘ ۔

اور اسی طرح اللہ تعالیٰ نے سورۃ العصر میں جو قسم کھائی ہے، وہ ہے: « وَالْعَصْرِ ۔ ’’قسم ہے عصر کی‘‘»، بعض مفسرین کے قول کے مطابق یہاں بھی نماز عصر مراد ہے-

نماز عصر اتنی اہم نماز ہے کہ اس کی اہمیت کا اندازہ اس روایت سے لگایا جا سکتا ہے کہ پیارے رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:’’ جس کی نماز عصر چھوٹ گئی گویا اس کا گھر اور مال سب لٹ گیا‘‘۔ (صحيح البخاري: 552)

یعنی عصر جیسی مبارک نماز کا فوت ہونا بربادیٔ اعمال میں سے ہے-

اسی طرح آپ ﷺ نے فرمایا:’’ رات اور دن میں فرشتوں کی ڈیوٹیاں بدلتی رہتی ہیں جبکہ فجر اور عصر کی نمازوں میں (ڈیوٹی پر آنے والوں اور رخصت پانے والوں کا) اجتماع ہوتا ہے۔ پھر تمہارے پاس رہنے والے فرشتے جب اوپر چڑھتے ہیں تو اللہ تعالیٰ پوچھتا ہے حالانکہ وہ ان سے بہت زیادہ اپنے بندوں کے متعلق جانتا ہے، کہ میرے بندوں کو تم نے کس حال میں چھوڑا تو وہ جواب دیتے ہیں کہ ہم نے جب انہیں چھوڑا تو وہ (فجر کی) نماز پڑھ رہے تھے اور جب ان کے پاس گئے تب بھی وہ (عصر کی) نماز پڑھ رہے تھے‘‘۔ (صحيح البخاري: 555)

سیدنا علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے مروی ہے کہ جنگ خندق کے موقعے پر جب ایک دن آپ ﷺ عصر کی نماز وقت پر ادا نہ کر سکے تو آپ ﷺ نے کافروں کے حق میں بددعا کی اور فرمایا: ’’ان کافروں نے ہمیں صلوٰة وسطی (یعنی نماز عصر) سے روک دیا، اللہ ان کے گھروں اور قبروں کو جہنم کی آگ سے بھر دے‘‘ ۔ (صحيح مسلم: 627، سنن أبي داؤد: 409)

نماز ععصر کی اہمیت کا اندازہ اس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ رحمۃ للعالمین اور رحیم وشفیق پیغمبر ﷺ بھی عصر کی نماز کے قضا ہوجانے کی وجہ سے مشرکین کے لیے بددعا کررہے ہیں۔ اس لیے ہمیں اس نماز کی محافظت کے لیے خوب کوشش کرنی چاہیے کیونکہ یہ وقت ایسا ہوتا ہے کہ تاجر اپنے کاروبار میں مشغول رہتے ہیں اور دیگر لوگ اپنے اپنے کاموں میں مصروف ہوتے ہیں، اس لیے سارے ہی سستی کرجاتے ہیں لیکن بوڑھے اور ریٹائرڈ افراد چونکہ فارغ البال ہوتے ہیں اس لیے ان کی سستی کا کوئی بہانا نہیں ہوسکتا۔ لہذا اس نماز کی اہمیت کی پیشِ نظر ایسی سستی سے جان چھڑائی جائے اور اس اہم نماز کے لیے اوقات بندی یعنی ٹائم مینجمنٹ کا خاص خیال رکھا جائے۔ اللہ تعالیٰ ہم سب کو اس کی توفیق عطا فرمائے۔ آمین (ماخوذ: بابرکت و باسعادت بڑھاپا، عمدہ کاغذ کلر پرنٹیڈ کتاب ریاعتی ہدیہ پر دستیاب ہے، جنہیں لینا ہووہ واٹس اپ 03363780896 کریں)۔
۔
 
شمولیت
اکتوبر 25، 2014
پیغامات
350
ری ایکشن اسکور
29
پوائنٹ
85
نمازمغرب کی اہمیت اور ٹائم مینجمنٹ کی تربیت

نماز مغرب کا وقت بہت اہم ہے کہ اس میں تاخیر کی گنجائش بہت کم ہے۔ سلمہ بن اکوع ﷛ نے فرمایا کہ ہم نماز مغرب نبی کریم ﷺ کے ساتھ اس وقت پڑھتے تھے جب سورج پردے میں چھپ جاتا۔ (صحيح البخاري: 561)

اور رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کہ: میری امت ہمیشہ بھلائی یا فطرت پر رہے گی جب تک وہ مغرب میں اتنی تاخیر نہ کرے گی کہ ستارے چمکنے لگ جائیں۔ (سنن ابي داود: 418)

نمازِ مغرب میں تاخیر کی کوئی گنجائش نہیں، اس لیے ٹائم مینجمنٹ بہت ضروری ہے۔
 
Top