محمد اجمل خان
رکن
- شمولیت
- اکتوبر 25، 2014
- پیغامات
- 350
- ری ایکشن اسکور
- 30
- پوائنٹ
- 85
تمام مسلمانوں کے لیے دعائیں کرنا
اگر میں یہ کہوں کہ ہمارے آباؤ اجداد کی تعداد ایک ارب سے تجاوز کرتی ہے تو شاید آپ ہنس دیں اور اسے مضحکہ خیز سمجھیں۔ لیکن حقیقت یہی ہے۔ ہم میں سے ہر ایک کے آباو اجداد کی تعداد اربوں میں ہے۔ تو آئیے آج ہم اپنے آباؤ اجداد کا حساب لگاتے ہیں اور دیکھتے ہیں ہماری رگوں میں کتنے لوگوں کا لہو محو گردش ہے۔
1 ۔ ۔ باپ ماں ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔تعداد -- 2 - - - - - - 1^2
2 ۔ ۔ دادا دادی ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔تعداد -- 4 - - - - - - 2^2
3 ۔ ۔ پڑ دادا پڑ دادی ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔تعداد -- 8 - - - - - - 3^2
4 ۔ ۔ سگڑ دادا سگڑ دادی (1) ۔ ۔ ۔ ۔تعداد -- 16 - - - - - 4^2
5 ۔ ۔ سگڑ دادا سگڑ دادی (2) ۔ ۔ ۔ ۔تعداد -- 32 - - - - - 5^2
6 ۔ ۔ سگڑ دادا سگڑ دادی (3) ۔ ۔ ۔ ۔تعداد -- 64 - - - - - 6^2
7 ۔ ۔سگڑ دادا سگڑ دادی (4) ۔ ۔ ۔ تعداد -- 128 - - - - 7^2
8 ۔ ۔سگڑ دادا سگڑ دادی (5) ۔ ۔ ۔ تعداد -- 256 - - - - 8^2
9 ۔ ۔سگڑ دادا سگڑ دادی (6) ۔ ۔ ۔ تعداد -- 512 - - - - 9^2
10 ۔ سگڑ دادا سگڑ دادی (7) ۔ ۔ ۔ تعداد -- 1024 - - - 10^2
11 ۔ سگڑ دادا سگڑ دادی (8) ۔ ۔ ۔ تعداد -- 2048 - - - 11^2
اس طرح اگر پیچھے چلتے ہوئے 30 ویں سگڑ دادا سگڑ دادی تک جائیں تو
33۔ ۔سگڑ دادا سگڑ دادی (30) ۔ ۔ تعداد۔ 8,589,934,592 - - - 33^2
ہمارے آباؤ اجداد کی تعداد بنتی ہے 33^2 = 8.6 بلین یعنی 8 ارب 60 کروڑجو کہ دنیا کی موجودہ آبادی سے بھی زیادہ ہوئی۔ اگر کزنز کے درمیان شادی کا حساب لگالیں تو یہ تعداد کچھ کم ہو جائے گی، تو اسے آدھا کر لیتے ہیں تب بھی یہ تعداد 4 ارب 30 کروڑ کی بنتی ہے۔ اس سے پتہ چلتا ہے کہ ہمارے جیسے ایک انسان کی پیدائش کے پیچھے کتنے بے شمار لوگوں نے اپنا کردار ادا کیا ہے اور ہم پر ہمارے اتنے زیادہ آباؤاجداد کے احسانات ہیں جنہیں ہم گن بھی نہیں سکتے۔
ذرا غور کیجيے کہ اگر ہمارے یہ بے شمار آباؤاجداد آج زندہ ہوتے تو ہم کتنے مشکل میں پڑ جاتے۔ ہم کس کس کا حق ادا کرتے جبکہ آج ہم اپنے حقیقی والدین کے حقوق ادا کرنے سے بھی قاصر ہیں۔ ایک بار اور تصور کیجيے کہ اگر ہمارے یہ سارے آباؤاجداد آج زندہ ہوتے تو کیا ہوتا؟ تو ہر طرف بستر پر پڑے دکھ درد سے کراہتے، پاخانہ پیشاب کرتے، کھانستے اور تھوکتے، ضعیف و لاغر، چلنے پھرنے اٹھنے بیٹھنے سے قاصر، بولنے اور سننے سے معذور صرف بوڑھے ہی بوڑھے نظر آتے اور دنیا میں زندگی مفلوج ہوکر رہ جاتی۔
ایک دفعہ ایک بادشاہ نے اپنے وزیر کے ساتھ اپنی وسیع سلطنت کے بارے میں خوش گپی کرتے ہوئے کہا: کاش! کہ موت نہ ہوتی۔ تو وزیر نے مسکراتے ہوئے جواب دیا: حضور والا! اگر موت نہ ہوتی تو یہ سلطنت آپ تک کیسے پہنچتی؟ یہ موت ہی تو ہے جس کے ذریعہ یہ بادشاہی اور یہ نعمتیں آپ تک پہنچی ہیں، ورنہ یہ وسیع سلطنت آپ کے آباؤ اجداد تک ہی محدود رہتی۔
موت ایک اٹل حقیقت ہے۔ ہمیں بھی مرنا ہے اور اس دنیا سے جانا ہے۔ جس طرح ہمارے اربوں آباؤاجداد موت کو گلے لگا کر اس دنیا سے رخصت ہوگئے اور ہمارے لیے یہ نعمتوں سے بھری دنیا چھوڑ گئے اسی طرح ہمیں بھی اپنی آئندہ نسلوں کی بقا کے لیے اس دنیا سے جانا ہے۔
موت ہے تو زندگی ہے۔ موت کی وجہ سے ہی دنیا میں زندگی رواں دواں ہے۔ موت اللہ تعالیٰ کی نشانیوں میں سے ایک نشانی ہے۔ موت سے اللہ تعالیٰ کی قدرتِ کاملہ اور تمام مخلوقات پر اس کی مکمل تسلط کا پتہ چلتا ہے۔ جب کوئی بوڑھا ہوجائے تو ناکارہ ہونے سے پہلے اچھی اور آسان موت کا آجانا اللہ تعالیٰ کی بڑی رحمت ہے، جس کی دعا ہم سب کو کرنی چاہیے اور ارذل العمر سے پناہ مانگنا چاہیے۔
موت رحمت ہونے کے ساتھ ساتھ نعمت بھی ہے۔ موت دنیاوی زندگی کی انتہا اور اخروی زندگی کی ابتدا ہے۔ موت مومن کے لیے جنت کا دروازہ ہے لیکن اس کے لیے موت کو یاد رکھنا اور اس کی تیاری کرنا ضروری ہے۔
عقل مند شخص موت سے پہلے موت کی تیاری کرتا ہے ،اپنے آپ کو قبر کے لیے تیار کرتا ہے، اپنی قبر کو ایمان کی روشنی سے منور کرتا ہے اور اسے نیک اعمال سے بھر دیتا ہے تا کہ اس کی قبر جنت کا باغیچہ بن جائے اور اس کے ساتھ ساتھ ایسے اعمال بھی کرتا ہے جس کا اجر و ثواب اسے موت کے بعد بھی تا قیامت ملتا رہے۔
رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:آدمی جب مر جاتا ہے تو اس کا عمل موقوف ہو جاتا ہے مگر تین چیزوں کا ثواب جاری رہتا ہے: (1) ایک صدقۂ جاریہ کا، (2) دوسرے علم کا جس سے لوگ فائدہ اٹھائیں، اور (3) تیسرے نیک و صالح اولاد جو دعا کرے اس کے لیے۔ (صحيح مسلم: 1631)
اسلام ایک ایسا بابرکت دین ہے جس کی برکتوں کی کوئی انتہا نہیں۔ ہم جتنا اس کی برکتوں پر غور کرتے ہیں اتنا ہی اس کی برکتیں وسیع تر ہوتی جاتی ہیں۔ جہاں اس دین پر زندہ رہنے والے اس کی برکتیں سمیٹتے ہیں وہیں اس دین پر چلتے ہوئے دنیا سے گزر جانے والے مومن بندے کو بھی اس کی برکتیں احاطہ کیے رہتی ہیں۔ اوپر دیے گئے حساب کے مطابق ہمارے اربوں آباؤاجداد اس دنیا سے رخصت ہو چکے ہیں۔ ہمیں نہیں معلوم کہ ان میں سے کتنوں کو ان کے کیے گئے صدقۂ جاریہ کا ثواب اب بھی مل رہا ہے لیکن ان میں جو مومن تھے ہماری دعاؤں میں آج بھی وہ سب شامل ہیں۔ یہ دین اسلام کی برکت ہے کہ جب ہم دعا کرتے ہیں:
---------------1---------------
رَبَّنَا اغْفِرْ لَنَا وَلِإِخْوَانِنَا الَّذِينَ سَبَقُونَا بِالْإِيمَانِ وَلَا تَجْعَلْ فِي قُلُوبِنَا غِلًّا لِّلَّذِينَ آمَنُوا رَبَّنَا إِنَّكَ رَءُوفٌ رَّحِيمٌ (١٠) سورة الحشر
’’ اے ہمارے پروردگار ہمیں بخش دے اور ہمارے ان بھائیوں کو بھی جو ہم سے پہلے ایمان لاچکے ہیں اور ایمان داروں کی طرف سے ہمارے دل میں کینہ (اور دشمنی) نہ ڈال، اے ہمارے رب بیشک تو شفقت ومہربانی کرنے والا ہے‘‘
رَبَّنَا اغْفِرْ لِي وَلِوَالِدَيَّ وَلِلْمُؤْمِنِينَ يَوْمَ يَقُومُ الْحِسَابُ (٤١) سورة ابراهيم
’’اے ہمارے رب مجھے بخش دے اور میرے ماں باپ کو اور تمام مومنوں کو جس دن حساب قائم ہوگا‘‘
اَللّٰهُمَّ اغْفِرْلَنَا وَلِوَالِدَيْنَا وَ لِلْمُؤْمِنِيْنَ وَالْمُؤْمِنَاتِ
’’اے اللہ! تو ہمیں ہمارے والدین اور تمام مومن مردوں اور عورتوں کو بخش دے‘‘
اللّٰھُمَّ اغْفِرْ لِیْ وَلِکُلِّ مُؤْمِنٍ وَّمُؤْمِنَۃٍ
’’اےاللہ! میری اور تمام مومن ومومِنہ کی مغفِرت فرما‘‘
تو ہم حضرت آدم علیہ السلام سے لے کر دنیا میں آنے والے آخری مومن تک کو اپنی ان دعاؤں میں یا اس جیسی دوسری دعاؤں میں شامل کرتے ہیں، اور اس طرح ان تمام گزرے ہوئے اور آنے والے مومنین کی دعائیں بھی ہم تک پہنچتی رہیں گی، ان شاء اللہ تعالیٰ ۔
---------------2---------------
اسی طرح رَحْمَةً لِّلْعَالَمِينَ ﷺ نے فرمایا: جب تم میں سے کوئی نماز پڑھے اور کہے:
التَّحِيَّاتُ لِلَّهِ وَالصَّلَوَاتُ وَالطَّيِّبَاتُ السَّلَامُ عَلَيْكَ أَيُّهَا النَّبِيُّ وَرَحْمَةُ اللَّهِ وَبَرَكَاتُهُ السَّلَامُ عَلَيْنَا وَعَلَى عِبَادِ اللَّهِ الصَّالِحِينَ، أَشْهَدُ أَنْ لَا إِلَهَ إِلَّا اللَّهُ وَأَشْهَدُ أَنَّ مُحَمَّدًا عَبْدُهُ وَرَسُولُهُ
’’تمام زبانی، بدنی، اور مالی عبادات اللہ تعالیٰ کے لیے ہیں، اے نبی! آپ پر سلام ہو اور اﷲ کی رحمت اور برکتیں ہوں، سلامتی ہو ہم پر اور اللہ تعالیٰ کے تمام نیک بندوں پر، میں گواہی دیتا ہوں کہ اللہ کے سوا کوئی معبود نہیں اور گواہی دیتا ہوں کہ محمد ﷺاس کے بندے اور رسول ہیں‘‘ ، تو زمین و آسمان میں موجود اللہ کے ہر نیک و صالح بندے کو یہ دعا پہنچتی ہے۔ (صحيح البخاري: 1202)
اس طرح ہر مومن بندے کی نماز میں اور نماز کے بعد کی گئی دعاؤں میں ہم بھی شامل ہو جاتے ہیں اور یہ سلسلہ اس وقت تک جاری رہے گا جب تک نماز پڑھی جاتی رہے گی۔ لہذا جو نماز نہیں پڑھتے وہ اس خیر و برکت سے محروم رہتے ہیں۔
---------------3---------------
اسی طرح جب ہم کسی کی نماز جنازہ ادا کرتے ہیں اور دعا کرتے ہیں:
اَللّٰهُمَّ اغْفِرْ لِحَيِّنَا وَمَيِّتِنَا وَشَاهِدِنَا وَغَائِبِنَا وَصَغِيْرِنَا وَکَبِيْرِنَا وَذَکَرِنَا وَاُنْثَانَا. اَللّٰهُمَّ مَنْ اَحْيَيْتَه مِنَّا فَاَحْيِه عَلَی الْاِسْلَامِ وَمَنْ تَوَفَّيْتَه مِنَّا فَتَوَفَّه عَلَی الإِيْمَانِ
’’اے اللہ تو بخش دے ہمارے زندوں اور ہمارے مردوں کو، اور ہمارے حاضر اور ہمارے غائب کو اور ہمارے چھوٹوں اور ہمارے بڑوں کو اور ہمارے مردوں اور ہماری عورتوں کو۔ اے اللہ! ہم میں سے جسے تو زندہ رکھے تو اسے اسلام پر زندہ رکھ اور ہم میں سے جسے تو موت دے تو اسے ایمان پر موت دے‘‘ ۔
تو اس دعا میں ہم (1) زندہ (2) مردہ (3) حاضر (4) غائب (5) چھوٹے (6) بڑے (7) مرد و (8) عورت یعنی ان آٹھ قسم کی لوگوں کو اپنی دعا میں شامل کرتے ہیں یعنی نماز جنازہ میں صرف میت کے لیے ہم دعا نہیں کرتے بلکہ ان تمام مسلمانوں کے لیے دعا کرتے ہیں جو حضرت آدم علیہ السلام سے لے کر اب تک اس دنیا میں آچکے ہیں اور آئندہ قیامت تک اس دنیا میں آنے والے ہیں اور اسی طرح ہمارے مرنے کے بعد جب بھی کسی کا جنازہ پڑھا جائے گا تو اس میں ہماری بخشش کی دعا بھی کی جائے گی اور یہ سلسلہ قیامت تک جاری رہے گا۔
یہ دعا بہت عظیم اور شاندار ہے، جو سامنے موجود میت کے علاوہ مسلمانوں میں سے زندہ و مردہ، چھوٹے و بڑے ،مرد و عورت ،اور موجود و غائب سب کو شامل ہے ؛ کیونکہ محتاج و ضرورت مند صرف مرنے والا یا مرنے والی ہی نہیں بلکہ سب ہی محتاج و ضرورت مند ہیں اور اللہ کی مغفرت، معافی اور اس کی رحمت کی سبھی کو ضرورت ہے ۔
---------------4---------------
جب ہم مسلمانوں کے کسی قبرستان میں جاتے ہیں یا اس کے قریب سے گزرتے ہیں تب بھی تمام مرحوم مومنین و مسلمین کے لیے سلامتی اور عافیت کی دعا کرتے ہیں:
اَلسَّلَامُ عَلَيْكُمْ أَهْلَ الدِّيَارِ مِنَ الْمُؤْمِنِيْنَ وَالْمُسْلِمِيْنَ، وَإِنْ شَاءَ اللهُ بِكُمْ لَاحِقُوْنَ، أَسْأَلُ اللهَ لَنَا وَلَكُمُ الْعَافِيَةَ - - - ’’ اے گھروں کے مومن اور مسلمان مکینوں تم پر سلامتی ہو، اور ان شاء اللہ ہم بھی تم سے ملنے والے ہیں، میں اللہ تعالیٰ سے اپنے اور تمہارے لیے عافیت کا طلب گار ہوں ‘‘۔ (صحيح مسلم: 975)
اسی طرح ہماری موت کے بعد ہماری قبروں کے قریب سے گزرنے والے اللہ کے مومن بندے بھی ہمارے لیے دعائیں کریں گے اور یہ سلسلہ بھی تا قیامت جاری رہے گا، ان شاء اللہ۔
---------------5---------------
اور سب سے بڑی بات یہ کہ جب ہم درود ابراہیمی کے ذریعے اپنے پیارے نبی کریم ﷺ پر اللہ تعالیٰ سے رحمتیں اور برکتیں بھیجنے کی دعا کرتے ہیں تو اس میں بھی ساری کی ساری امت محمدیہ ﷺشامل ہوتی ہے کیونکہ ساری کی ساری امت محمدیہ ﷺ اٰل محمد ﷺہے، توآئیے درود بھیجیں اپنے نبی ﷺ پر اور اس میں شامل کریں آل محمد ﷺ کو:
ٱللَّٰهُمَّ صَلِّ عَلَىٰ مُحَمَّدٍ وَعَلَىٰ اٰلِ مُحَمَّدٍ كَمَا صَلَّيْتَ عَلَىٰ إِبْرَاهِيمَ وَعَلَىٰ اٰلِ إِبْرَاهِيمَ إِنَّكَ حَمِيدٌ مَجِيدٌ
ٱللَّٰهُمَّ بَارِكْ عَلَىٰ مُحَمَّدٍ وَعَلَىٰ اٰلِ مُحَمَّدٍ كَمَا بَارَكْتَ عَلَىٰ إِبْرَاهِيمَ وَعَلَىٰ اٰلِ إِبْرَاهِيمَ إِنَّكَ حَمِيدٌ مَجِيدٌ
’’اے ﷲ! رحمتیں نازل فرما حضرت محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر اور ان کی اٰل پر، جس طرح تونے رحمتیں نازل کیں حضرت ابراہیم علیہ السلام پر اور ان کی آل پر، بے شک تو تعریف کا مستحق بڑی بزرگی والا ہے۔ اے ﷲ! تو برکتیں نازل فرما حضرت محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر اور ان کی آل پر، جس طرح تونے برکتیں نازل فرمائیں حضرت ابراہیم علیہ السلام پر اور ان کی آل پر، بے شک تو تعریف کا مستحق بڑی بزرگی والا ہے‘‘ ۔
تمام مسلمان مردوں اور عورتوں کے لیے دنیا اور آخرت کی بھلائی کے لیے دعا کرنا ایک ایسا عمل ہے جس کی برکات اور فضائل بہت وسیع ہیں۔ اپنے بڑھاپے کو بابرکت و باسعادت بنانے کے لیے اپنے بوڑھے لرزتے ہاتھوں کو اٹھا کر دعائیں کیجيے اور اپنی دعاؤں میں حضرت آدم علیہ السلام سے لے کر قیامت تک آنے والے تمام مومن و مومنات اور مسلم و مسلمات کو شامل کرلیجیے، اس طرح آپ خود بھی ان سب لوگوں کی دعاؤں میں شامل رہیں گے جن میں انبیاء، صدیقین، شہداء ، صالحین اور ہر امت کے اچھے لوگ بھی ہیں۔
اللہ تعالیٰ ہمیں اس کی توفیق عطا فرمائے اور ہمار بڑھاپا بابرکت و باسعادت بنائے۔ ہماری مغفرت فرمائے، ہمارے والدین کی مغفرت فرمائے اور تمام مسلمانوں کی مغفرت فرمائے۔ ہمارے اولاد کو نیک اور صالح بنائے اور ہماری آئندہ آنے والی نسلوں کو ہمارے لیے صدقۂ جاریہ بنائے۔ آمین۔
(ماخوذ: کتاب بابرکت و باسعادت بڑھاپا، اس کتاب کی پرنٹیڈ ہارڈ کاپیاں موجود ہیں جولینا چاہتے ہوں وہ مجھ سے رابطہ کرسکتے ہیں۔
۔