• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

بابرکت و باسعادت بڑھاپا

شمولیت
اکتوبر 25، 2014
پیغامات
350
ری ایکشن اسکور
29
پوائنٹ
85
گناہ اور صغیرہ و کبیرہ گناہ کی تعریف
آسان لفظوں میں شریعتِ اسلامی میں جس کام کے کرنے کا حکم دیا گیا ہے اسے نہ کرنا اور جس کام سے منع کیا گیا ہے اسے کرنا گناہ ہے۔ اللہ تعالیٰ اور رسول اللہ ﷺ نے جن اعمال کے کرنے کا حکم دیا ہے اُن کے کرنے میں انسان کے لیے بھلائی ہے اور نہ کرنے میں برائی ہے۔ اسی طرح جن کاموں سے منع کیا ہے ان میں کوئی بھلائی نہیں بلکہ ان میں برائی ہی ہے۔ البتہ یہ برائی سب میں برابر نہیں، کسی میں زیادہ ہےاور کسی میں کم ہے۔ جن میں کم ہے انہیں صغیرہ گناہ کہا جاتا ہے جو قدرے ہلکے ہوتے ہیں اور نیکی کرنے سے مٹ جاتے ہیں، بشرطیکہ ان پر اصرار نہ کیا جائے کیونکہ صغیرہ پر اصرار اسے کبیرہ بنا دیتا ہے۔ اور جن کاموں میں برائی زیادہ ہیں انہیں کبیرہ گناہ کہا جاتا ہے، پھر یہ بھی سزا کے لحاظ سے برابر نہیں یعنی ان کی سزا ایک جیسی نہیں بلکہ مختلف ہیں، مثلاً:
(‌أ) بعض گناہ اس قدر شدید ہیں کہ روز قیامت کلام الٰہی اور نظر رحمت سے محرومی کا سبب ہوں گے، جیسے بڑھاپے میں زنا کرنا، بادشاد کا جھوٹ بولنا، فقیر کا متکبر ہونا وغیرہ۔
(‌ب) بعض گناہ عذاب قبر کا باعث بنتے ہیں، جیسے چغلی کھانا، پاکی کا خیال نہ رکھنا غیرہ۔
(‌ج) ایسے گناہ جن کی سزا دنیا میں مقرر ہے، اگر دنیا میں نہ ملی تو جہنم مقدر بنے گا، جیسے زنا کی سزا۔​
ایسے گناہ جو نیکیوں کو نیست و نابود کردیتے ہیں، ان کی دو قسمیں ہیں:
 وہ گناہ جس کی وجہ سے تمام نیکیاں ضائع ہوجائے اور انسان ایمان سے خارج ہوجائے، نتیجتاً وہ ہمیشہ کے لیے جہنمی بن جائے۔ جیسے کفر، شرک، ارتداد وغیرہ ہے۔
 وہ گناہ جس کی وجہ سے انسان کی کوئی عبادت ضائع ہوجائے یا اس کے اجر و ثواب میں کمی آجائے اور اس عمل کا اجر و ثواب اسے ضرورت کے وقت کام نہ دے، البتہ اصل ایمان باقی رہے۔
 
شمولیت
اکتوبر 25، 2014
پیغامات
350
ری ایکشن اسکور
29
پوائنٹ
85
گناہ کی شدت میں اضافہ
بعض گناہ ایسے ہوتے ہیں جو موقع و محل کے لحاظ سے مزید شدت اختیار کر جاتے ہیں۔ مثلاً لوگوں کا مال ناجائز طریقے سے کھانا کبیرہ گناہ ہے مگر یتیم کا مال کھانا اور بھی بڑا گناہ ہے یا دھوکہ دہی سے مال بیچنا گناہ ہے مگر جھوٹی قسم کھا کر مال بیچنا اور بڑا گناہ بن جاتا ہے۔ عام عورتوں پر تہمت لگانا بھی بڑا گناہ ہے مگر بھولی بھالی انجان عورتوں پر تہمت لگانا مزید شدت اختیار کرجاتا ہے، اولاد کا قتل بڑا گناہ ہے مگر مفلسی کے ڈر سے اولاد کا قتل اور بھی بڑا گناہ بن جاتا ہے۔ اسی طرح زنا ایک کبیرہ گناہ ہے مگر جب یہ زنا اپنی ماں، بیٹی، بہن یا دیگر محرمات سے کیا جائے تو یہ گناہ مزید شدید ہوجائے گا۔ اسی طرح اگر شادی شدہ عورت یا مرد زنا کرے گا تو یہ گناہ کنوارے مرد یا عورت سے زیادہ شدید ہوجائے گا۔ ایسے ہی ہمسایہ کی بیوی سے زنا کرنا کسی دوسری عورت سے زنا کرنے کی بہ نسبت شدید ہوگا۔ یا بوڑھے آدمی کا زنا کرنا جوان آدمی کے زنا کرنے کی نسبت زیادہ شدید ہوگا اور اگر بوڑھا زانی اپنے ہمسایہ کی بیوی سے زنا کرے تو کسی دوسری عورت سے زنا کرنے کی بہ نسبت اس کا گناہ مزید بڑھ جائے گا۔ یہی صورت باقی گناہوں کی ہوتی ہیں۔
ذیل میں ہم ہلاک کردینے والے چند ایسے گناہوں کا ذکر کریں گے جنہیں عام طور پر لوگ نہیں جانتے لیکن ان کی شدت عام کبیرہ گناہوں سے بہت زیادہ ہوتی ہیں۔
 
شمولیت
اکتوبر 25، 2014
پیغامات
350
ری ایکشن اسکور
29
پوائنٹ
85
نمبر (۱) ہبہ، عطیہ و تحفہ دینے میں ناانصافی

ایک ہے ہبہ اور دوسرا ترکہ یا میراث، ان دونوں صورتوں میں مسلمانوں کی اکثریت سے قصداً یا لاعلمی کی بنا پر غلطی اور کوتاہی سرزد ہوجاتی ہے۔

میراث اور ہبہ
وہ تمام منقولہ یا غیر منقولہ جائیداد جو مورث ( میت)کو ورثہ میں ملی ہو یا خود کمائی ہو بشمول تمام قابل وصولی قرضہ جات ترکہ یا میراث کہلاتی ہے جو شرعی اصول و قوانین کے مطابق میت کے ورثہ میں تقسیم کی جاتی ہے ۔

لیکن ایک شخص کا اپنی زندگی میں اپنی اولاد کو مال یا جائیداد وغیرہ دینا عطیہ یا ہبہ کہلاتا ہے، اس پر میراث کا حکم لاگو نہیں ہوتا اور یہ لڑکا اور لڑکی دونوں کو برابر دینے کا حکم ہے۔ اولاد پر خرچ کرنا ہبہ یا عطیہ نہیں ہے اور نہ ہی اس پر ہبہ کا قانون لاگو ہوتا ہے۔ ہبہ کرنے کے معاملے میں اولاد کے مابین برابری نہ کرنا گناہ ہے۔ اس کی دلیل مندجہ ذيل حدیث ہے:

عامرشعبی بیان کرتے ہیں کہ میں نے نعمان بن بشیر ﷟ سے سنا وہ منبر پر بیان کر رہے تھے کہ میرے باپ نے مجھے ایک عطیہ دیا، تو عمرہ بنت رواحہ ﷝ (نعمان کی والدہ) نے کہا کہ جب تک آپ رسول اللہ ﷺ کو اس پر گواہ نہ بنائیں میں راضی نہیں ہو سکتی۔ چنانچہ میرے والد میرا ہاتھ پکڑ کر نبی کریم ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوئے اور انہوں نے عرض کیا کہ عمرہ بنت رواحہ سے اپنے بیٹے کو میں نے ایک عطیہ دیا تو انہوں نے کہا کہ پہلے میں آپ کو اس پر گواہ بنا لوں، آپ ﷺ نے دریافت فرمایا کہ اسی جیسا عطیہ تم نے اپنی تمام اولاد کو دیا ہے؟ انہوں نے جواب دیا کہ نہیں، اس پر آپ ﷺ نے فرمایا کہ اللہ سے ڈرو اور اپنی اولاد کے درمیان انصاف کو قائم رکھو۔ چنانچہ وہ واپس ہوئے اور ہدیہ واپس لے لیا۔ (صحيح البخاري: 2587)

اس حدیث میں لفظ«ولد» کا استعمال ہے جس کا اطلاق لڑکے اور لڑکی دونوں پر ہوتا ہے۔ نیز اس حدیث میں نبی کریم ﷺ نے ساری اولاد کے لیے «مثل» (ایک جیسے مال) کا لفظ استعمال کیا ہے چنانچہ کہا: اسی جیسا عطیہ تم نے اپنی تمام اولاد کو دیا ہے؟

اورسنن نسائی وغیرہ کے الفاظ ہیں: کیا تم نے اپنی ساری اولاد کو اسی جیسا ہبہ کیا ہے جیسا ہبہ اپنے اس بیٹے کو کیا ہے ؟ (سنن النسائي: 3711)

حدیث کے یہ الفاظ اس بارے میں بالکل صریح ہیں کہ عطیہ وتحفہ میں ساری اولاد لڑکے اور لڑکیوں کو ایک جیسا مال دینا لازم ہے۔ یعنی عطیہ وتحفہ میں لڑکے اور لڑکیوں میں فرق نہیں کیا جائے گا۔نیز سنن ابی داؤد کی اسی روایت میں ہے: ’’ کیا تمہیں پسند نہیں کہ تمہارے ساتھ حسن سلوک اور لطف و کرم میں بھی تمہاری ساری اولاد برابر ہو‘‘۔ (سنن أبي داود: 3542)

یہ الفاظ بھی اس بات کی دلیل ہےکہ جس طرح والدین کے ساتھ حسن سلوک اور لطف وکرم میں اس کے بیٹے اور بیٹیوں سب کو یکساں ہونا چاہیے اسی طرح والدین کو بھی اپنے بیٹے اور بیٹیوں کو یکساں مقدار میں ہی عطیہ و تحفہ اور پیار و محبت دینا چاہیے۔

ان احادیث کی رُو سے كسى بھى شخص كے ليے جائز نہيں كہ ’’وہ اپنى اولاد ميں كسى كو تو كچھ ہبہ كرے اور كسى كو نہ دے، يا پھر ان ميں سے كسى ايک كو دوسرے پر فضيلت ديتے ہوئے زيادہ چيز ہبہ كرے‘‘۔ اولاد کے مابین عدل وانصاف اور برابری نہ کرنے والے اپنی اولاد میں ایک دوسرے کے خلاف عداوت، حسد، بغض اور کینہ کے بیج بوتے ہیں ۔ جس اولاد پر دوسروں کو ترجیح دی گئی ہوتی ہے اس کی اپنے باپ سے قطع تعلقی ہو جاتی ہے اور وہ اس سے دور ہو جاتا ہے۔ اسلام ہر انسان کو اپنی تمام اولاد کے مابین عدل و انصاف اور برابری کرنے کا حکم دیتا ہے، ایسا نہ کرنا ظلم و زیادتی ہے اور ایسے لوگ گناہ گار ہیں۔ اس وجہ سے نبی ﷺ نے بشیر ﷛ سے فرمایا: ’’اللہ سے ڈرو اور اپنی اولاد کے درمیان انصاف کو قائم رکھو‘‘۔ بشیر ﷛ نے گھر لوٹتے ہی وہ ہبہ شدہ مال واپس لے لیا جیسا کہ صحابہ کرام کا طرز عمل ہوا کرتا تھا کہ وہ اللہ اور اس کے رسول ﷺ کی قائم کردہ حدود کی پاسداری کیا کرتے تھے۔

والدین بیٹوں اور بیٹیوں کے درمیان کپڑوں اور کھانے وغیرہ کے معاملے میں بھی امتیازی سلوک روا نہیں رکھ سکتے، حتی کہ بوسہ اور پیار و محبت میں بھی تفریق کی اجازت نہیں ہے چنانچہ حدیث ہے:

سیدنا انس ﷛ کہتے ہیں: ایک آدمی، رسول اللہ ﷺ کے ساتھ تھا، اس کے پاس اس کا بیٹا آیا، اس نے اس کو بوسہ دیا اور اسے اپنی ران پر بٹھا لیا، پھر اس کی بیٹی پہنچ گئی، اس نے اس کو اپنے پہلو میں بیٹھا لیا۔ آپ ﷺ نے فرمایا:’’ ‏‏‏‏تو نے ان دونوں کے درمیان انصاف کیوں نہیں کیا؟ ‘‘۔(سلسلہ احاديث صحيحہ، ترقیم البانی: 3098)

یہ تو رہا ہبہ و عطیہ دینے اور پیار و محبت کرنے کا معاملہ جس میں اپنے تمام بیٹے اور بیٹیوں کے مابین عدل وانصاف اور برابری کرنا واجب ہے جو کہ آج مسلمانوں کی اکثریت نہیں کرتی جبکہ وصیت اور وراثت کا مسئلہ اور بھی سنگین ہے۔
 
شمولیت
اکتوبر 25، 2014
پیغامات
350
ری ایکشن اسکور
29
پوائنٹ
85
وصیت اور میراث کی تقسیم میں ناانصافی

وارثین کی حق تلفی کرنا:

بعض لوگ اپنی زندگی میں ، خاص کر اپنی زندگی کی آخری ایام میں اپنے حقیقی وارث / وارثین کا حق مار کر اپنا سارا مال یا اس کا ایک تہائی سے زیادہ حصہ کسی رشتہ دار یا ادارے کو ہبہ کردیتے ہیں یا اس مال سے کوئی مسجد یا فلاحی ادارہ بنا دیتے ہیں اور سوچتے ہیں کہ مرنے کے بعد تا قیامت صدقہ جاریہ کا ثواب حاصل کرتے رہیں گے تو واضح ہو کہ وارثین کا حق مارنا کبیرہ گناہ ہے۔ ان کا یہ عمل ان کے لیے ثواب کے بجائے عذاب کا باعث بنے گا۔ بعض لوگ وارثین کی اجازت سے ایسا کرتے ہیں، تو یہ بھی جائز نہیں، چاہے وارثین مالدار ہی کیوں نہ ہوں (کہ بیٹے اور بیٹیاں والد / والدہ کے احترام میں راضی تو ہو جاتے ہیں جبکہ اکثر کے دل میں بات رہ جاتی ہے) ۔ لیکن وارثین کا حق مارے بغیر انسان جو بھی مال اللہ کی راہ میں خرچ کرے کا ، اسے اس کو پورا اجر ملے گا اور ملتا رہے گا، ان شاء اللہ۔

حضرت سعد بن ابی وقاص ﷛ سے مروی ہے کہ رسول اللہ ﷺ حجۃ الوداع کے سال میری عیادت کے لیے تشریف لائے۔ میں سخت بیمار تھا۔ میں نے عرض کیا: اے اللہ کے رسول (ﷺ)! میرا مرض شدت اختیار کر چکا ہے۔ میرے پاس مال و اسباب بہت ہے اور میری صرف ایک لڑکی ہے، جو وارث ہو گی۔ تو کیا میں اپنے دو تہائی مال کو خیرات کر دوں؟ آپ ﷺ نے فرمایا: نہیں! میں نے کہا: آدھا؟ آپﷺ نے فرمایا: نہیں! میں نے کہا: ایک تہائی؟ آپ ﷺ نے فرمایا: ’’ایک تہائی کر دو اور یہ بھی بہت ہے، تو اپنے وارثوں کو اپنے پیچھے مال دار چھوڑ جائے، یہ اس سے بہتر ہو گا کہ تو انھیں اس طرح محتاجی کی حالت میں چھوڑ کر جائے کہ وہ لوگوں کے سامنے ہاتھ پھیلاتے پھریں۔ یاد رکھو، جو خرچ بھی تم اللہ کی رضا کی نیت سے کرو گے، اس پر تمھیں ثواب ملے گا، حتیٰ کہ اس لقمہ پر بھی، جو تم اپنی بیوی کے منہ میں ڈالتے ہو‘‘۔ (صحيح البخاري: 5668)

اور اللہ کی رضانبی اکرم ﷺ کی اطاعت و فرمانبرداری میں ہے۔ اس حدیث کے مطابق آپ ﷺ کی اطاعت یہ ہے کہ کوئی بھی قریب المرگ شخص اپنے ایک تہائی سے زیادہ مال صدقہ کرنے کی وصیت نہ کرے۔
 
شمولیت
اکتوبر 25، 2014
پیغامات
350
ری ایکشن اسکور
29
پوائنٹ
85
وصیت کا مسٔلہ:

وصیت کا مسئلہ اس سے بھی زیادہ سنگین ہے۔ وصیت کا تعلق موت کے بعد سے ہوتا ہے اور میراث کی تقسیم بھی انسان کے مرنے کے بعد ہی ہوتی ہے۔ کوئی شخص وصیت کرے کہ میرے مرنے کے بعد اتنا مال فلاں کودے دیا جائے یا فلاں مقصد کے لیے استعمال کیا جائے تو اسے وصیت کہا جائے گا۔ وصیت کی مشروعیت پر کتاب وسنت اوراجماع میں دلائل موجود ہیں۔

حضرت عبداللہ بن عمر ﷛ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:’’ کسی مسلمان کےلائق نہيں کہ اس کے پاس وصیت کرنے والی کوئی چيز ہو اور وہ بغیر وصیت لکھے دوراتیں بسر کرلے‘‘۔ (صحيح البخاري: 2738)

آج مسلمانوں کی اکثریت وصیت کرنے کے صحیح طریقے سے واقف نہیں ہے، جس کی بنا پر لوگ بغیر علم کے وصیت لکھتے یا کرتے ہیں اور ایک ایسے کبیرہ گناہ کے مرتکب ہوجاتے ہیں جس کی وجہ سے ان کے سارے نیک اعمال حبط ہوجاتے ہیں۔

مندرجہ بالا حدیث میں جس وصیت کی تاکید کی گئی ہے وہ یہ ہے کہ انسان پرکسی کا کوئی حق ہو اور اس کا کوئی ثبوت نہ ہوتو اس کی وصیت کرنا واجب ہے تا کہ وہ حق ضائع نہ ہوجائے۔ اس کے علاوہ اگر کوئی شخص یہ چاہتا ہو کہ موت کے بعد اسے اجر و ثواب ملے تو وہ زیادہ سے زیادہ اپنے ایک تہائی مال کی وصیت کرسکتا ہے کہ موت کے بعد اس کا اتنا مال نیکی و بھلائی کے فلاں فلاں کام میں صرف کردیا جائے تو اس صورت میں وصیت کرنا مستحب ہوگا ، اس کے علاوہ

(1) اگر کسی شخص کا قرضہ ہے تو اس کی وصیت کرنا واجب ہے۔
(2) اگر زکوٰة فرض تھی، جتنے سال ادا نہیں کیے تو اس کی وصیت کرنا واجب ہے۔
(3) اگر زندگی میں حج فرض کی ادائیگی نہیں کرسکا تو اس کی وصیت کرنا واجب ہے۔
(4) اگر روزے نہیں رکھ سکا اس کے بدلہ میں فدیہ ادا کرنے کی وصیت کرنا واجب ہے۔
(5) اگر کوئی قریبی رشتہ شریعت کے قانون کے مطابق میراث میں حصہ نہیں حاصل کرپا رہا ہے، مثلاً یتیم پوتا اور پوتی اور انھیں شدید ضرورت بھی ہے تو وصیت کرنا واجب تو نہیں ہے لیکن اسے اپنے پوتے یا پوتی کا ضرور خیال رکھنا چاہیے، بعض علماء نے ایسی صورت میں وصیت کرنے کو واجب بھی کہا ہے۔

کوئی وصیت کرے یا نہ کرے اگر مرنے والے پر کسی کا قرض ہے تو ترکہ میں سے سب سے پہلے قرض کی ادائیگی کی جائے گی۔ بقیہ معاملات کے بارے میں لواحقین کو چاہیے کہ کسی علم میراث کے ماہر سے مشورہ کرکے عمل کریں۔

واضح ہو کہ دین اسلام میں صرف ایک تہائی مال کی وصیت کرنے کی اجازت ہے۔ اور یہ کہ ایک تہائی یا اس سے کم مال میں وصیت کرنی جائز ہے، اور بعض علماء کرام کہتے ہیں کہ مستحب یہ ہے کہ وصیت ایک تہائی تک بھی نہ پہنچے بلکہ اس سے کم ہی رہے، جیسا کہ حضرت عباس ﷛ نے فرمایا ہے کہ کاش! لوگ (وصیت کو) چوتھائی تک کم کر دیتے تو بہتر ہوتا کیونکہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا تھا: ’’ تم تہائی (کی وصیت کر سکتے ہو) اور تہائی بھی بہت ہے۔ یا (آپ ﷺ نے یہ فرمایا کہ) یہ بہت زیادہ رقم ہے‘‘۔ (صحیح بخاری: 2743)
۔
ماخوذ: کتاب بابرکت و باسعادت بڑھاپا، اس کتاب کی پرنٹیڈ ہارڈ کاپیاں موجود ہیں جولینا چاہتے ہوں وہ مجھ سے رابطہ کرسکتے ہیں ، واٹس اپ 03262366183 پر۔
 
شمولیت
اکتوبر 25، 2014
پیغامات
350
ری ایکشن اسکور
29
پوائنٹ
85
ورثاکے لیے وصیت کرنا:

ورثاکے لیے تو وصیت کرنا جائز ہے ہی نہيں، جیسا کہ اس بارے میں سنن ابن ماجہ، سنن نسائي، سنن ترمذي، اور سنن ابی داؤد وغیرہ میں احادیث موجود ہیں، مثلاً حضرت انس بن مالک ﷛ کہتے ہیں کہ میں رسول اللہ ﷺ کو فرماتے ہوئے سنا: ’’اللہ تعالیٰ نے (میت کے ترکہ میں) ہر ایک حقدار کو اس کا حق دے دیا ہے، تو سنو! کسی وارث کے لیے وصیت جائز نہیں ہے‘‘۔ (سنن ابن ماجہ: 2714)

عمرو بن خارجہ ﷛ کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے خطبہ دیا تو فرمایا:’’اللہ تعالیٰ نے ہر حق والے کو اس کا حق دے دیا ہے ، (تو تم سمجھ لو) وارث کے لیے وصیت نہیں ہے‘‘۔ (سنن نسائي: 3671، سنن ترمذي: 2121 ، سنن ابي داود: 2870)

کیونکہ اللہ تعالیٰ نے آیات میراث نازل فرما کر ہر وارث کا حصہ متعین کر دیا ہے اور نبی اکرم ﷺ نے اس کی وضاحت فرما دی ہے۔ لہذا وارث کے لیے وصیت کرنا جائز نہیں ہے۔

لیکن نبی کریم ﷺ کی اس واضح حکم کے باوجود بعض لوگ نادانستہ یا دانستہ طور پر غلط وصیت کرتے ہیں جس کے ذریعے اپنے ایک یا ایک سے زائد یا سارے ورثاء کو نقصان پہنچا دیتے ہیں، اور اس طرح کبیرہ گناہ کے مرتکب ہوکر اپنی آخرت تباہ کر لیتے ہیں۔ جبکہ بعض لوگ اپنی زندگی ہی میں اپنا مال وجائیداد اولاد اور اقرباء میں تقسیم کر دیتے ہیں، عام طور سے دیکھنے میں آیا ہے کہ صرف بیٹوں کو حصہ دیاجاتا ہے اور بیٹیوں اور بیوی / بیویوں کو محروم کردیا جاتا ہے۔ اگرچہ لوگوں کو اپنی زندگی میں اپنے مال میں تصرف کا مکمل اختیار ہے؛ لیکن یاد رہے ان کا یہ عمل اسلامی تعلیمات اور اس کی روح و مقتضیٰ کے خلاف ہے؛ چنانچہ جابر ﷛سے روایت ہے وہ فرماتے ہیں کہ حضور اکرم ﷺ اور حضرت ابوبکر صدیق ﷛ کے ہمراہ بنوسلمہ میں میری عیادت کے لیے تشریف لائے، مجھ پر بے ہوشی طاری تھی، آپ ﷺ نے پانی منگوایا، وضو فرمایا پھر اس پانی سے تھوڑا مجھ پر چھڑکا، مجھے ہوش آ گیا، تو میں نے عرض کیا: یا رسول اللہ! میں اپنے مال کا کیا کروں؟ تب یہ آیت اتری: « يُوصِيكُمُ اللَّهُ فِى أَوْلاَدِكُمْ لِلذَّكَرِ مِثْلُ حَظِّ الأُنْثَيَيْن » (النساء: 11) اخیر تک۔ (صحیح بخاری: 4577، صحیح مسلم: 1616، سنن ترمذی: 2096)

سورة النساء کی آیات 11 اور 12 میں میراث کے بارے میں بیان کرنے کے بعد اللہ تعالیٰ آیت 13 میں اس حکم کو ماننے والوں کو جنت بشارت دی ہے، فرمایا: ‏

تِلْكَ حُدُودُ اللَّهِ ۚ وَمَن يُطِعِ اللَّهَ وَرَسُولَهُ يُدْخِلْهُ جَنَّاتٍ تَجْرِي مِن تَحْتِهَا الْأَنْهَارُ خَالِدِينَ فِيهَا ۚ وَذَٰلِكَ الْفَوْزُ الْعَظِيمُ ‎(١٣) سورة النساء
’’یہ اللہ کی حدیں ہیں، اور جو کوئی اللہ اور اس کے رسول (ﷺ) کی فرمانبرداری کرے گا اللہ اسے بہشتوں میں داخل فرمائے گا جن کے نیچے نہریں رواں ہیں، وہ ان میں ہمیشہ رہیں گے، اور یہ بڑی کامیابی ہے ‘‘

اور اس کے بعد آیت 14 میں اللہ تعالیٰ کے اس حکم یعنی میراث کے معاملے میں نافرمانی کرنے والوں کو وعید سناتے ہوئے فرمایا گیا ہے:

وَمَن يَعْصِ اللَّهَ وَرَسُولَهُ وَيَتَعَدَّ حُدُودَهُ يُدْخِلْهُ نَارًا خَالِدًا فِيهَا وَلَهُ عَذَابٌ مُّهِينٌ ‎(١٤) سورة النساء
’’اور جو اللہ اور اس کے رسول کی نافرمانی کرے گا اور اس کی حدوں سے نکل جائے گا اس کو اللہ دوزخ میں ڈالے گا جہاں وہ ہمیشہ رہے گا۔ اور اس کو ذلت کا عذاب ہوگا‘‘

اور ابوہریرہ رضی الله عنہ سے روایت ہے کہ نبی اکرم ﷺ نے فرمایا: ’’مرد اور عورت ساٹھ (60) سال تک اللہ کی اطاعت کرتے ہیں پھر ان کی موت کا وقت آتا ہے اور وہ وصیت کرنے میں (ورثاء کو) نقصان پہنچاتے ہیں، جس کی وجہ سے ان دونوں کے لیے جہنم واجب ہو جاتی ہے‘‘۔ (سنن ترمذي:2117)

ورثاء کو نقصان پہنچانے کی بعض صورتوں کا ذکر اوپر ہوچکا ہے اور بعض یہ ہیں کہ اپنے بعد جائیداد کو سرے سے تقسیم کرنے سے ہی منع کردیا جائے اور اسے مشترکہ خاندانی جائیداد قرار دے کر یوں ہی رکھنے کی وصیت کر دی جائے، والدین کی موجودگی میں شادی شدہ بیوی بچوں والے بیٹے کی فوتگی پر اس کی بیوی بچوں کا اس کے ترکے پر قابض ہوجانا اور مرحوم کے والدین اور دیگر وارثین کو حق وراثت سے محروم رکھنا، جس شخص کی صرف بیٹیاں ہوں اس کا اپنی زندگی اپنی جائیداد اپنی بیٹیوں کے نام کر دینا اور دیگر وارثین کو حق وراثت سے محروم رکھنا، ایک تہائی مال سے زیادہ کی وصیت کر نا یا ورثاء میں سے کسی ایک کو مال کا زیادہ حصہ یا سارا مال ہبہ کردینا یا وصیت سے پہلے جھوٹ کا سہارا لے کر اپنے اوپر کسی کا قرض ثابت کرکے اسے فائدہ پہنچانا یا حیلے بہانوں سے کوئی اور بات گھڑ لینایا لے پالک کو وراثت میں حصہ دار بنانا وغیرہ اس طرح کی بہت سی صورتیں ہیں جہاں وراثت کے معاملے میں وارث / وارثین کی حق تلفی کی جاتی ہے تو معلوم ہونا چاہئے کہ ایسا کرنا صرف وارثین پر ظلم کرنا ہی نہیں بلکہ اللہ تعالیٰ کی حدود کو توڑنا ہے اور اللہ تعالیٰ کا متعین کردہ قانونِ وراثت کو چیلنج کرنا ہے، اس لیے اس کی سزا بھی سخت ہے اور رسول اللہ ﷺ کے فرمان کے مطابق ایسے بندے کی ساری زندگی کی عبادت برباد ہو جائے گی اور وہ جہنم میں جاگرے گا۔ اللہ تعالیٰ ہمیں ایسے ہر گناہ سے بچائے رکھے جس سے حبطِ اعمال کا خظرہ ہو ۔ آمین
۔
ماخوذ: کتاب بابرکت و باسعادت بڑھاپا، اس کتاب کی پرنٹیڈ ہارڈ کاپیاں موجود ہیں جولینا چاہتے ہوں وہ مجھ سے رابطہ کرسکتے ہیں ، واٹس اپ 03262366183 پر۔
۔
 
شمولیت
اکتوبر 25، 2014
پیغامات
350
ری ایکشن اسکور
29
پوائنٹ
85
وصیت کی تنفیذ

وصیت کی تنفیذ بھی ایک اہم معاملہ ہے جسے اللہ تعالیٰ نے نافذ کرنے کی تاکید کی ہے اور وصیت کا بدلنا یا وصیت کا چھپانا بڑا گناہ ہے۔ بدلنے والے کے لیے بھی بہت سخت اور شدید قسم کی وعید سنائي گئي ہے، فرمایا:

فَمَن بَدَّلَهُ بَعْدَ مَا سَمِعَهُ فَإِنَّمَا إِثْمُهُ عَلَى الَّذِينَ يُبَدِّلُونَهُ ۚ إِنَّ اللَّهَ سَمِيعٌ عَلِيمٌ ‎(١٨١) سورة البقرة
’’پھر جو شخص اسے (وصیت) سننے کے بعد اسے بدل دے اس کا گناہ بدلنے والے پر ہی ہوگا واقعی اللہ تعالیٰ سننے والا اور جاننے والا ہے‘‘

لیکن وصیت کا نفاذ اسی صورت میں واجب ہے جب وہ جائز اور انصاف پر مبنی ہو جیسے قرض کی ادائیگی یا ایک تہائی مال کے بارے میں مورث کی کوئی وصیت وغیرہ ۔ اللہ سبحانہ نے یہ بات اگلی آیت میں بیان فرما دی ہے۔

فَمَنْ خَافَ مِن مُّوصٍ جَنَفًا أَوْ إِثْمًا فَأَصْلَحَ بَيْنَهُمْ فَلَا إِثْمَ عَلَيْهِ ۚ إِنَّ اللَّهَ غَفُورٌ رَّحِيمٌ ‎(١٨٢) البقرة
’’پھر جسے اندیشہ ہو کہ وصیت کرنے والے نے نادانستہ یا قصداً کچھ بے انصافی یا گناہ کیا ہے تو وہ ان (وارثوں) میں صلح کرادے تو اس پر کچھ گناہ نہیں، بیشک اللہ بخشنے والا مہربان ہے ‘‘۔
۔
 
شمولیت
اکتوبر 25، 2014
پیغامات
350
ری ایکشن اسکور
29
پوائنٹ
85
عاق کرنا
ان بے انصافی کے کاموں میں سے ایک کسی بیٹا یا بیٹی کو جائداد سےعاق کرنا بھی ہے۔ جو کہ اکثر والدین صرف اپنی نافرمانی کرنے پر (اللہ تعالیٰ کی نافرمانی پر نہیں) اپنے کسی بیٹے یا بیٹی کو اپنی جائداد سے عاق کرنے کا فرمان جاری کر دیتے ہیں۔ جو بیٹا یا بیٹی اپنے والد یا والدہ کی نافرمانی کرتے ہیں ، وہ خود ہی عاق اور گناہ ِ کبیرہ کے مرتکب ہوتے ہیں لیکن جو والدین اپنے ایسے کسی نافرمان بیٹے یا بیٹی کو عاق کرتے ہیں وہ خود بھی کبیرہ گناہ کا ارتکاب کر بیٹھتے ہیں اور ساتھ ہی اپنے دیگر بیٹے، بیٹیوں اور نسبی رشتہ داروں کو دوہرے کبیرہ گناہ میں ملوث کر دیتے ہیں۔ کیونکہ ان کے عاق کرنے کی وجہ سے دیگر بھائی بہن اور نسبی رشتہ دار اس عاقی سے تعلقات قطع کر لیتے ہیں اور اسے وراثت میں حصہ بھی نہیں دیتے۔ اس طرح یہ لوگ دوہرے کبیرہ گناہ کے مرتکب ہوتے ہیں ، پہلااس سے قطع رحمی کرنے کا اور دوسرا اسے وراثت سے محروم کرنے کا۔قطع رحمی کرنا اور کسی کو وراثت سے محروم کرنادونوں ہی کبیرہ گناہ ہے۔

قرآن و سنت کی رُو سےکسی بندے کا اپنے کسی بیٹا یا بیٹی کو جائداد سے عاق کرنا حرام اور کبیرہ گناہ ہے اور عاق کرنے سے کوئی وارث میراث سے محروم نہیں ہوتا، شرعی عدالت اسے اس کا حق وراثت دلانے کی مجاز ہوگی، جبکہ عاق کرنے والا باپ یا ماں کبیرہ گناہ کے مرتکب ہوں گے۔

کیونکہ رسول اکرم ﷺ نے یہ وعید سنائی ہے:’’ جو شخص اپنے وارث کو اس کی میراث سے محروم کرے گا اللہ تعالیٰ قیامت کے دن اس کو جنت سے محروم فرما دیں گے‘‘۔ (مشكوة المصابيح: 3078)

یہ حدیث کتنی بڑی تنبیہ ہے اگر کوئی سمجھے اور غور کرے کہ کسی ایک نافرمان بیٹا یا بیٹی کو عاق کرنے یعنی میراث سے محروم کرنے کی وجہ سے انسان اپنی تمام تر عبادات کے باوجود آخرت میں ہمیشہ کی جنت سے محروم ہوکر جہنم میں چلا جائے گا۔ لاعلمی کی وجہ سے لوگ بڑھاپے میں حبط اعمال ہونے والے اس طرح کے گناہ کر بیٹھتے ہیں۔ اس لیے دین کا علم حاصل کرنا کتنا ضروری ہے۔

اللہ تعالیٰ ہمیں دین کا علم سیکھنے اور اس کے مطابق عمل کرنے کی توفیق عطا فرمائے اور ہمیں ہر طرح کی گناہوں سے بچائے رکھے۔ آمین
۔
 
شمولیت
اکتوبر 25، 2014
پیغامات
350
ری ایکشن اسکور
29
پوائنٹ
85
وراثت کے بارے میں مروجہ رسم و رواج

برصغیر پاک و ہند کے مسلمانوں میں بیٹیوں اور بہنوں کے حقوق مارنے کی روایت بہت عام ہے، باپ اپنی بیٹیوں کو میراث میں حصہ نہیں دیتا اور بھائی بہنوں کا حصہ ہڑپ کر جاتا ہے۔ لوگوں نے وراثت کی تقسیم سے بچنے کے لیے بیٹیوں اور بہنوں کی شادی قرآن سے کرانے کا نہایت ہی قبیح فعل رائج رکھا ہوا ہے بلکہ بعض گناہ گار تو یہاں تک کرتے ہیں کہ اپنی ہی بیٹی یا بہن کو کاری قرار دے کر سنگسار کر دیتے ہیں (کاری یعنی خاندان کی عزت و آبرو کے تحفظ کے نام پر قتل کر دینا) ۔

یہ ساری زندگی کے نیک اعمال حبط کرنے والے سنگین گناہ ہیں۔ جو لوگ دیندار اور متقی سمجھے جاتے ہیں وہ بھی بیٹیوں / بہنوں کو جہیز دینے کا جواز پیش کرکے بیٹیوں / بہنوں سے پیار محبت سے یا پھر جبراً میراث سے ان کا حصہ معاف کروا لیتے ہیں، اللہ کے بندو! یہ معاف نہیں ہوتے کیونکہ ایسا کرنا احکامِ الٰہی کو چیلنج کرنے والے حیلے بہانے ہیں۔ ایسا باپ اور ایسا بھائی اللہ اور رسول اللہ ﷺ کی وعید کے مطابق جہنم کے ایندھن ہیں۔

اسلام سے پہلے وراثت میں عورتوں کا کوئی حق نہیں تھا بلکہ عورت بذاتِ خود مالِ میراث سمجھی جاتی تھی۔ دین اسلام نے عورتوں کے ساتھ ہونے والے دورِ جاہلیت کے ہر ظالمانہ رسم و رواج کو ختم کیا اور عورتوں کو عزت و احترام اور میراث میں حق دیا۔ اللہ تعالیٰ نے آیات میراث کو سورة النساء کا حصہ بنا کر عورتوں کو میراث میں حصہ دینے کی اہمیت کو واضح کیا ہے بلکہ آیاتِ میراث نازل ہوئی ہی ہے عورتوں کو میراث میں حصہ دلانے کے لیے، ارشاد ربانی ہے کہ

لِّلرِّجَالِ نَصِيبٌ مِّمَّا تَرَكَ الْوَالِدَانِ وَالْأَقْرَبُونَ وَلِلنِّسَاءِ نَصِيبٌ مِّمَّا تَرَكَ الْوَالِدَانِ وَالْأَقْرَبُونَ مِمَّا قَلَّ مِنْهُ أَوْ كَثُرَ ۚ نَصِيبًا مَّفْرُوضًا ‎(٧) سورة النساء
’’مردوں کے لیے اُس مال میں حصہ ہے جو ماں باپ اور رشتہ داروں نے چھوڑا ہو، اور عورتوں کے لیے بھی اُس مال میں حصہ ہے جو ماں باپ اور رشتہ داروں نے چھوڑا ہو، خواہ تھوڑا ہو یا بہت، اور یہ حصہ (اللہ کی طرف سے) مقرر ہے ‘‘

میراث کی شرعی تقسیم ایک ایسا فریضہ ہے جس میں کوتاہی کے مرتکب بڑے بڑے دیندار اور متقی لوگ بھی ہیں۔ صوم و صلاۃ کے پابند، متعدد بار عمرہ و حج کرنے والے، سود، چوری، جھوٹ و فریب سے بچنے والے دیندار ہونے کے دعویدار لوگ بھی میراث کے باب میں غلط وصیت کرتے یا میراث کی اپنی من مانی تقسیم کرتے یا میراث غصب کرتے نہیں ڈرتے۔ کاش! اللہ اور اس کے رسول ﷺ کی وعید ایسے لوگوں کے دلوں میں اتری ہوتی۔

الغرض وصیت اور میراث کے معاملے میں بہت محتاط رہنے کی ضرورت ہے کیونکہ اس معاملے میں غلطی، کوتاہی اور غفلت ایک بندہ مومن کی ساری زندگی کی عبادت ضائع کردیتی ہے، اس بارے میں ہمیں درج ذیل نکات کو ہمیشہ سامنے رکھنا چاہیے تاکہ ہم سب ہبہ، وصیت اور میراث کے معاملے میں گناہ کبیرہ سے بچ سکیں:

ü کسی علم میراث کا علم رکھنے والے عالم دین سے مشورہ کیے بغیر سنی سنائی باتوں یا اپنے علم کی بنا پر ہرگز کوئی ہبہ، وصیت یا وراثت کی تقسیم نہ کریں۔
ü وارثوں کے لیے وصیت کرنا جائز نہیں، ہر وارث کو اتنا ہی ملے گا جتنا اللہ تعالیٰ نے اس کا حق متعین کردیا ہے۔
ü وصیت صرف ایک تہائی یا اس سے کم مال کی کی جاسکتی ہے۔ایک تہائی مال سے زیادہ کی وصیت یا کسی ایسے شخص کو وصیت کرنا جس کا حصہ میراث میں مقرر ہے حرام ہے، یا کسی وارث کا حصہ کم کرنے یا اسے محروم کرنے کے لیے وصیت کرنا بھی حرام ہے۔
ü میراث کو قرآن و سنت کے مطابق تقسیم نہ کرنا اور دیگر وارثوں کا حق مارنا کفار، یہود، نصاریٰ، ہندوؤں اور غیر مسلم اقوام کا طریقہ ہے۔
ü اگر کسی شخص کی ایک سے زائد اولاد ہوں تو وہ اپنی زندگی میں بلا ضرورت و ترجیح کسی ایک بیٹا یا بیٹی کو ہبہ نہیں کرسکتا یا کسی کو کم اور کسی کو زیادہ نہیں دے سکتا۔ اگر کوئی شخص ہبہ کرنا ہی چاہتا ہو تو اسے اپنی تمام اولاد کے مابین عدل، انصاف اور برابری کی بنیاد پر ہی ہبہ کرنا ہوگا، ایسا نہ کرنے والا گناہ گار ہوگا۔
ü اپنی اولاد کے علاوہ کسی اور فرد کو مثلاً یتیم پوتا یا پوتی، لے پالک بیٹا یا بیٹی کو یا کسی کار خیر کے لیے اپنے ایک تہائی مال سے زیادہ کا ہبہ یا صدقہ کرنا بھی درست نہیں۔
ü وراثت کی تقسیم میں ٹال مٹول کرنا یا تقسیم نہ کرنا وراثت سے متعلق اللہ اور رسول کے احکام سے بے پروائی برتنا ہے جو کہ صریح فسق ہے، لہٰذا ایسا شخص فاسق ہے اور گناہِ کبیرہ کا مرتکب ہے۔ خاص طور پر برس ہا برس اس پر اصرار کرنا اور توبہ نہ کرنا بڑا گناہ اور اللہ تعالیٰ سے بغاوت کے مترادف ہے۔
ü میراث کے حق داروں کا مال کھا جانا ظلم ہے اور ایسا کرنے والا شخص ظالم ہے۔ لیکن اگر تمام ورثاء اپنا اپنا حق اپنے قبضے اور تحویل میں لے لیں، پھر کوئی طاقت ور وارث اسے چھین لے تو یہ غصب ہوگا۔ اس کا گناہ ظلم سے بھی زیادہ ہے۔
ü میراث پر قبضہ کرنے والے کے ذمے میراث کا مال قرض ہوگا اور قرض واجب الادا ہے۔ اگر کوئی دنیا میں ادا نہیں کرے گا تو آخرت میں لازماً دینا ہی ہوگا۔
ü ایسا مال جس میں میراث کا مال شامل ہو، اس سے خیرات و صدقہ اور انفاق کرنا، حج و عمرہ کرنا اگرچہ فتوے کی رُو سے جائز ہے اور اس سے حج کا فریضہ ادا ہو جائے گا لیکن ثواب حاصل نہیں ہوگا، اس لیے کہ اللہ تعالیٰ پاک و طیب مال قبول کرتا ہے۔
ü میراث شریعت کے مطابق تقسیم نہ کرنے والا دوزخ میں داخل ہوگا۔
ü میراث مستحقین کو نہ دینے والا حقوق العباد تلف کرنے کا مجرم ہے۔

ü جو شخص میراث کا مال کھا جاتا ہے حق دار وارث اس کو بددعائیں دیتے ہیں۔
ü جو میراث کا مال کھا جاتا ہے اس کی دعا قبول نہیں ہوتی۔

انسان کے پاس جو مال ہے اس کا اصل وارث اللہ وہ اللہ تعالیٰ کا ہی ہے، اس لیے اللہ تعالیٰ نے اس مال کو جس طرح خرچ کرنے کا حکم دیا ہے اسے اسی طرح خرچ کرنا ضروری ہے۔ہر مسلمان اپنی ہر نماز کے بعد کہتا ہے:

اللَّهُمَّ لَا مَانِعَ لِمَا أَعْطَيْتَ، وَلَا مُعْطِيَ لِمَا مَنَعْتَ ، وَلَا يَنْفَعُ ذَا الْجَدِّ مِنْكَ الْجَدُّ
’’اے اللہ جسے تو دے اس سے روکنے والا کوئی نہیں اور جسے تو نہ دے اسے دینے والا کوئی نہیں اور کسی مالدار کو اس کی دولت و مال تیری بارگاہ میں کوئی نفع نہیں پہنچا سکے گی‘‘۔ (صحيح البخاري: 6330)

ساری زندگی نماز کے بعد اس دعا کو پڑھنے کے باوجود بھی جب کوئی شخص حکم الٰہی کو چیلنج کرتے ہوئے اپنے طور پر کسی وارث کو زیادہ اور کسی کو کم مال دے جائے یا دینے کی وصیت کر جائے تو ایسے شخص کی ساری زندگی کی عبادت غارت ہوجانے کا ہی خدشہ ہے۔ کیا اللہ تعالٰی نے آگاہ نہیں کیا کہ:

آبَاؤُكُمْ وَأَبْنَاؤُكُمْ لَا تَدْرُونَ أَيُّهُمْ أَقْرَبُ لَكُمْ نَفْعًا ۚ فَرِيضَةً مِّنَ اللَّهِ ۗ إِنَّ اللَّهَ كَانَ عَلِيمًا حَكِيمًا ‎(١١) سورة النساء
’’تم نہیں جانتے تمہارے والدین اور تمہاری اولاد میں سے کون تمہیں زیادہ نفع پہنچانے والا ہے، یہ (تقسیم) اللہ کی طرف سے فریضہ (یعنی مقرر) ہے، بے شک الله خبردار حکمت والا ہے ‘‘

جب اللہ تعالیٰ اور اللہ کے رسول ﷺ کی طرف سے غلط ہبہ اور غلط وصیت کرنے پر اعمال کے غارت ہونے اور ہمیشہ کے لیے جہنم میں پھینک دیئے جانے جیسے سنگین عذاب کی وعید سنائی جاچکی ہے تو ہبہ یا وصیت کرنے سے پہلے ان کا مکمل علم حاصل کرنا یا ان کے بارے میں اہل علم سے معلومات حاصل کرنا ضروری ہے تاکہ اس بارے میں کوئی غلطی یا کوتاہی نہ ہوجائے۔ اسی طرح خاندان کے دوسرے لوگوں کو اور دوست احباب کو بھی اس بارے میں بتانے کی ضرورت ہے تاکہ لاعلمی میں کوئی شخص اپنے کسی وارث کا حق مار کر خود جہنمی نہ بن جائے۔ آج مسلمانوں میں کتنے ایسے لوگ ہیں جو کتاب و سنت پر عمل کرنے میں کوئی کسر نہیں چھوڑتے لیکن وصیت کے معاملے میں غلطی کر جاتے ہیں، اللہ تعالیٰ ہم سب کو اس گناہ سے محفوظ رکھے۔ آمین۔
ماخوذ: کتاب بابرکت و باسعادت بڑھاپا، اس کتاب کی پرنٹیڈ ہارڈ کاپیاں موجود ہیں جولینا چاہتے ہوں وہ مجھ سے رابطہ کرسکتے ہیں ، واٹس اپ 03262366183 پر۔
۔
 
شمولیت
اکتوبر 25، 2014
پیغامات
350
ری ایکشن اسکور
29
پوائنٹ
85
نمبر (۲) قطع رحمی

انسان ایک معاشرتی مخلوق ہے۔ معاشرے میں ساتھ مل کر رہنا اس کی فطرت میں شامل ہے اور یہ اس کی ضرورت اور مجبوری بھی ہے۔ دو مختلف جنس کے افراد میاں بیوی کا رشتے استوار کرکے ایک خاندان کی بنیاد ڈالتے ہیں۔ پرانے رشتے برقرار رہتے ہیں اور ساتھ ساتھ نئے رشتے بننے شروع ہو جاتے ہیں۔ اس طرح انسان بڑھاپے میں پہنچتے پہنچتے بے شمار رشتوں میں بندھ جاتا ہے۔ ہر انسان کے لیے ان سارے رشتوں کو نبھانا ضروری ہوتا ہے لیکن ان میں نسبی رشتے اہم ہیں، یعنی ماں، باپ، دادا، دادی، نانا، نانی، بھائی، بہن، خالہ، پھوپھی، چچا، ماموں وغیرہ وغیرہ۔ اگر انسان کا تعلق اپنے رشتے داروں کے ساتھ اچھا رہے تو اس کی بہت سی مشکلات آسان ہو جاتی ہیں، ورنہ اس کا ذہن اور دل کشمکش اور الجھن کا شکار رہتا ہے۔ اس لیے اللہ تعالیٰ نے اپنے بندوں کو تاکید کی ہے کہ وہ صلہ رحمی کا معاملہ کریں اور قطع رحمی سے پرہیز کریں۔

حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ’’بغاوت اور قطع رحمی کرنے والے کے علاوہ کسی اور کو اللہ تعالیٰ سزا دینے میں جلدی نہیں کرتے، ان دونوں عملوں کے مرتکب کو اللہ تعالیٰ دنیا میں فوراً سزا دیتے ہیں اور آخرت میں بھی اُنہیں سزا ملے گی‘‘۔ (سلسلہ احاديث صحيحہ ترقیم البانی: 918)

افسوس کہ دین سے دوری، مادیت پرستی، جہالت، غربت، اخلاق رذیلہ، اور برداشت کی کمی نے آج ہر رشتے میں دراڑ پیدا کر دی ہے۔ ایک ہی چھت کے نیچے رہتے ہوئے بھی بھائی بھائی سے برسوں بات نہیں کرتا، باپ بیٹے کا چہرہ دیکھنا پسند نہیں کرتا تو بیٹا باپ کو سلام کرنا بھی گوارا نہیں کرتا، ماں بیٹی سے ناراض ہے تو بیٹی ماں سے سیدھے منہ بات نہیں کرتی، بہن بہن میں ایسی دوری ہے کہ عیدین کو بھی ملنا جلنا بند کیا ہوا ہے۔ جبکہ عام مسلمان بھائی سے تین دن سے زیادہ بات چیت چھوڑے رکھنے کی مُمانَعَت ہے، جیسا کہ حضرت ابوایوب انصاری ﷛ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:’’ کسی مسلمان کے لیے درست نہیں کہ وہ اپنے بھائی کو تین دن سے زیادہ چھوڑے رکھے کہ وہ دونوں ملیں تو یہ منہ پھیر لے، اور وہ منہ پھیر لے، اور ان دونوں میں بہتر وہ ہے جو سلام میں پہل کرے‘‘۔ (صحیح بخاری: 6077، سنن ابی داو: 4911)
 
Top