السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ!
سب سے پہلے تو ایک بات کی وضاحت:
اور آخر میں اگر آپ عالم نہیں بل کہ محض کاپی پیسٹ پر گزارا کرتے ہیں تو میری برادرانہ گزارش ہے کہ آپ کو جس موقف پر اطمینان ہے اور جس حد تک وہ آپ کے فہم میں آتا ہے اس پر عمل کریں لیکن اس پر دوسروں سے الجھنے سے باز رہیں؛البتہ اگر آپ کے ذہن میں اشکال ہیں اور اپ محض تفہیم مزید چاہتے ہیں تو سوالات کی صورت میں بات کر سکتے ہیں نہ کہ مناظرہ اور مجادلہ کے اسلوب میں؛جزاکم اللہ خیراً
میں عالم نہیں، لیکن علماء سے اصول دین ، اصول تفسیر، اصول حدیث اصول فقہ اور تفسیر و شروحات کے سبق ضرور حاصل کئے ہیں، ایسا نہیں ہے کہ ''محض کاپی پیسٹ'' پر انحصار ہو، بلکہ الحمدللہ! اللہ کی توفیق سے استدلال و اسنباط کو سمجھنے کی کچھ توفیق اللہ نے بخشی ہے!
لہٰذا کوشش یہی ہوتی ہے کہ ان دلائل کی روشنی میں گفتگو کروں، اور جس بارے میں علم نہ ہو گفتگو سے پرہیز کروں!! لیکن جن معاملہ میں دلائل کو جانتا اور سمجھتا ہوں ان میں اپنا مدعا بیان کر دیتا ہوں۔ اور اگر کسی کے مدعا کو غلط سمجھتا ہوں تو اس کی نکیر بھی کر دیتا ہوں۔ اللہ ہمیں حق کو سمجھنے اور اسے قبول کرنے کی توفیق بخشے! آمين!
- ماشاءاللہ بڑی اچھی بات ہے کہ آپ نے حدیث پیش کر کے استدلال کی کوشش کی اور سوال اٹھایا؛اب دیکھیے یہاں دو باتیں ہیں:
- پہلی یہ کہ امام بنانا اور بات ہے اور اس کے پیچھے پڑھی گئی نماز کا ہونا یا نہ ہونا بالکل ایک علاحدہ چیز؛اب دیوبندی یا بریلوی مسجد میں امام بنانا کیا اہل حدیث کے اختیار میں ہے؟؟
طاہر اسلام بھائی! میں نے اس حدیث سے ابھی کوئی ایسا استدلال نہیں کیا، کہ کس کی امامت میں نماز جائز ہے یا نہیں! اس وقت میں نے آپ کے مدعا پر اس حدیث کی روشنی میں سوال اٹھا یا تھا، آپ کا مدعا یہ تھا:
ہاں اگر آپ انھیں صریح کافر سمجھتے ہیں تو پھر نماز ہی نہیں بل کہ دیگر تمام احکام بھی کافروں والے لاگو ہوں گے؛مثلاً ان کا جنازہ نہیں پڑھا جائے گا؛نہ انھیں سلام کیا جائے گا؛نہ سلام کے جواب میں مسلمانوں والا سلام کہا جائے گا؛اگر اس طرح کا کوئی شخص آپ کے رشتہ داروں میں ہے تو اس کی وراثت بھی نہیں لیں گے اور نہ اسے دیں گے؛ نہ اس کا ذبیحہ جائز ہو گا۔اگر یہ سب باتیں کہتے ہیں تو بسم اللہ،ورنہ صرف نماز ہی پر آپ کیوں بھڑک اٹھتے ہیں۔
یہاں آپ نے مندرجہ ذیل باتیں بیان کی ہیں کہ:
نماز صرف اس شخص کے پیچھے نہیں ہوتی، جس کی تکفیر کر دی جائے،
اور جس کے پیچھے نماز نہیں ہوتی اس پر مندرجہ ذیل احکام بھی صادر کئے جائیں گے:
ان کا جنازہ نہیں پڑھا جائے گا
انہیں سلام نہیں کیا جائے گا اور نہ ہی سلام کا جواب دیا جائے گا
نہ اس کا وراثت میں حصہ ہوگا نہ اس سے وراثت لی جائے گی
اس کا ذبیحہ بھی جائز نہ ہوگا
اگر یہ تمام حکم صادر نہیں کئے جاتے تو اس کی امامت میں نماز بھی جائز!!
لہٰذا مذکورہ حدیث کی بنیاد پر میرا سوال یہ تھا کہ:
نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے کافر قرار دے کر اسے امام بنانے سے منع کیا تھا؟ اور کیا اس شخص پر تمام کافروں والے احکام وارد کر دیئے تھے؟
اس سوال کا آپ نے جواب نہیں دیا، یہ اب بھی قائم ہے۔
اس حدیث کو پیش کرنا کا مقصد آپ سے بیان کردہ موقف کی کمزوری بیان کرنا تھا۔ آپ کا مؤقف اس حدیث سے متضاد ہے! کہ کسی کی امامت میں نماز نہ پڑھنے اور نہ ہونے کے حکم کے لئے لازم ہے کہ اس کی تکفیر معین کی جائے!!
دوسری بات یہ کہ یہاں جس نوعیت کی چیز پر اسے امامت سے منع کیا گیا ہے ،کیا اس سے بڑھ کر اس طرح کی چیزیں کیا بعض اہل حدیث اماموں میں نہیں پائی جاتیں؟؟اور کیا اگر آپ کو علم ہو جائے کہ ایک اہل حدیث امام نے قبلہ رخ تھوکا ہے یا اس سے بھی بڑھ کر قبیح حرکت کا مرتکب ہوا ہے ،تو کیا آپ اس کو امامت سے ہٹانے کی مہم شروع کر دیں گے؟؟اصل میں اس نے عین حالت نماز میں تھوکا تھا جو بے حد قبیح حرکت تھی اور رسول اللہ ﷺ نے اس سے روکا ہے کہ حالت نماز میں قبلہ رخ تھوکا جائے؛آپ ﷺ نے یہ بھی فرمایا کہ تو نے اللہ اور رسول کو اذیت دی ہے؛تو یہ ہے اس کا پس منظر۔ جس سے معلوم ہوتا ہے کہ اس حدیث کا اصل مقصود آداب نماز اور نظافت و نفاست سے متعلقہ چیزیں ہیں ۔
خواہ یہ فعل اہل حدیث کریں یا غیر اہل حدیث ، فعل قبیح ہے اور اس کے پیچھے نماز نہیں پڑھی جائے گی! مقصد اداب نماز اور نظافت و نفاست کا ہونا ایک علت کا بیان ہے، مگر اس شخص کو امام نہ بنانے کا حکم نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی زبانی ایک حکم ہے، علت خواہ کچھ بھی ہو، اس حکم میں فرق نہیں آئے گا! الا یہ کہ کسی اور ماثور دلیل سے یہ حکم سے مندوب ٹھہرے!!
عقائد کا معاملہ یک سر مختلف ہے؛اس میں استدلال ہوتا ہے جس میں غلطی کا امکان ہوتا ہے؛تاویل کی گنجایش ہوتی ہے؛
آپ کی اس بات سے میں متفق ہوں۔ تاویل کی گنجائش ہوتی ہے، نہ صرف عقائد میں بلکہ احکام افعال میں بھی! مگر جہاں تاویل ممکن ہو!! اور اجتہادی خطاء کا امکان ہو!
اگر آپ کے استدلال کو لیا جائے کہ اس میں عموم ہے تو بتلائیے کہ قبلہ رخ تھوکنا زیادہ قبیح ہے یا ایک صحابیِؓ رسول کے قتل پر آمادہ ہو جانا اور مدینۂ رسولﷺ میں فتنہ بپا کر دینا زیادہ بڑا جرم ہے لیکن دیکھ لیجیے کہ خود صحابہؓ انھی قاتلوں ، مجرموں اور فتنہ بازوں کے پیچھے نمازیں پڑھ رہے ہیں جس سے ثابت ہوتا ہے کہ مذکورہ حدیث سے یہ عمومی استدلال نادرست ہے کہ اس سے دیگر فرقوں کے پیچھے نماز نہیں ہوتی۔
طاہر سلفی بھائی! آپ کا یہ طرز استدلال تو اہل الرائے والا ہے، کہ صحابہ کے عمل پر قیاس کرکے ایک نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے حکم کو رد کر دینا!! جبکہ صحابہ کا عمل اس امر میں نہیں دوسرے عمل میں ہے، یعنی ایسابھی نہیں کہ یہ فہم صحابہ ہو بلکہ کسی دوسرے مسئلہ میں صحابہ کے عمل کو مقیس علیہ بنا کر ایک صحيح و صریح ماثور حکم نبی صلی اللہ علیہ کو رد کر دینا!!
طاہر بھائی! قبلہ رخ تھوکنا زیادہ بڑا جرم ہو یا نہ ہو، نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا حکم یہی ہے کے اسے امام نہ بنایا جائے! اور یہ بات جاننے کے بعد جو کوئی بھی اسے امام بناتا ہے اس کی نماز نہیں ہوتی!! کیونکہ اس نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی مخالفت ہی ہے!
دوسری بات یہ کہ میں نے تو اس حدیث سے یہ استدلال ابھی پیش نہیں کیا کہ اس حدیث کی رو سے دیگر فرقوں کے پیچھے نماز نہیں ہوتی!! بلکہ میں نے تو اس معاملے میں کوئی گفتگو ہی نہیں کی، بلکہ صرف آپ کے مؤقف پر سوال اٹھایا ہے۔
اور جو میں نے سوال اٹھایا ہے ،وہ اس لیے کہ یہاں بعض لوگ کہپہ رہے ہیں کہ بریلوی اور شیعہ مشرک ہیں تو جب ان کی عبادت ہی مقبول نہیں تو ان کے پیچھے نماز کیسے درست ہو گی؟تو یہاں شرک کو مانع بنایا گیا ہے؛اگر یہ نماز کے لیے مانع ہے تو پھر باقی چیزوں کے احکامت بھی اس پر لاگو ہوں گے؛امید کچھ بات واضح ہوئی ہو گی۔
آپ کے اس بات میں وزن ہے کہ جب شرک کو بنیاد بنا کر کسی شخص کی امامت میں نماز کو ناجائز کہا جا رہا ہے، تو یہ حکم صرف نماز تک ہی کیوں، دیگر معاملات میں کیوں نہیں؟
لیکن ہم بات بھی ہم جانتے ہیں کہ اسلاف بدعتی عقائد کے حامل لوگوں کے پیچھے نماز نہ ہونے کو اقوال بھی مروی ہیں! بدعتی عقائد کے حامل کے لئے بھی عمومی حکم ہے اور اس کے پیچھے نماز پڑھنے والے کے لئے بھی عمومی حکم۔ کیونکہ تاویل حکم معین میں مانع ہو یا نہ ہو اقامت حجت کا نہ ہونا ضرور مانع ہو جاتا ہے۔ مثال یوں سمجھیں کہ اگر تقی، ابن عربی کے عقیدہ وحدۃ الوجود کا حامل ہے اور نقی اہل سنت عقیدہ کا حامل شخص، تقی کے پیچھے نماز پڑھے گا، تو یہ نہ کہا جائے گا کہ نقی کی نماز نہیں ہوئی! کیونکہ نقی پر اس بات کی حجت قائم نہیں ہوئی کہ تقی ابن عربی کے عقیدہ وحدۃ الوجود کا حامل ہے! اور نہ ہی تقی پر اقامت حجت تک حکم معین صادر کیا جائے گا۔ لیکن عمومی حکم رہے گا۔
نقی اپنے لئے تو یہ فیصلہ کرنے کا اختیار رکھتا ہے کہ وہ تقی کے پیچھے نماز نہ پڑھے اور اپنی نماز کی حفاطت کرے!
لہٰذا یہ حکم تحذير الناس کے لئے ہے!
جیسا کہ شیخ الاسلام ابن تیمیہ رحمہ اللہ نے مسئلہ تكفیر کے متعلق فرمایا ہے:
وَقَدْ يَسْلُكُونَ فِي التَّكْفِيرِ ذَلِكَ ; فَمِنْهُمْ مَنْ يُكَفِّرُ أَهْلَ الْبِدَعِ مُطْلَقًا، ثُمَّ يَجْعَلُ كُلَّ مَنْ خَرَجَ عَمَّا هُوَ عَلَيْهِ مِنْ أَهْلِ الْبِدَعِ. وَهَذَا بِعَيْنِهِ قَوْلُ الْخَوَارِجِ وَالْمُعْتَزِلَةِ الْجَهْمِيَّةِ. وَهَذَا الْقَوْلُ أَيْضًا يُوجَدُ فِي طَائِفَةٍ مِنْ أَصْحَابِ الْأَئِمَّةِ الْأَرْبَعَةِ، وَلَيْسَ هُوَ قَوْلُ الْأَئِمَّةِ الْأَرْبَعَةِ وَلَا غَيْرِهِمْ ، وَلَيْسَ فِيهِمْ مَنْ كَفَّرَ كُلَّ مُبْتَدِعٍ، بَلِ الْمَنْقُولَاتُ الصَّرِيحَةُ عَنْهُمْ تُنَاقِضُ ذَلِكَ، وَلَكِنْ قَدْ يُنْقَلُ عَنْ أَحَدِهِمْ أَنَّهُ كَفَّرَ مَنْ قَالَ بَعْضَ الْأَقْوَالِ، وَيَكُونُ مَقْصُودُهُ أَنَّ هَذَا الْقَوْلَ كُفْرٌ لِيُحَذِّرَ، وَلَا يَلْزَمُ إِذَا كَانَ الْقَوْلُ كُفْرًا أَنْ يَكَفِّرَ كُلَّ مَنْ قَالَهُ مَعَ الْجَهْلِ وَالتَّأْوِيلِ ; فَإِنَّ ثُبُوتَ الْكُفْرِ فِي حَقِّ الشَّخْصِ الْمُعَيَّنِ، كَثُبُوتِ الْوَعِيدِ فِي الْآخِرَةِ فِي حَقِّهِ، وَذَلِكَ لَهُ شُرُوطٌ وَمَوَانِعُ، كَمَا بَسَطْنَاهُ فِي مَوْضِعِهِ.
ملاحظہ فرمائیں: صفحه 240 جلد 05 منهاج السنة النبوية في نقض كلام الشيعة القدرية - جامعة الإمام محمد بن سعود الإسلامية