• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

بدعتی اور فتنے میں مبتلا شخص کی امامت؟

ابن قدامہ

مشہور رکن
شمولیت
جنوری 25، 2014
پیغامات
1,772
ری ایکشن اسکور
428
پوائنٹ
198
؛تو میرا سوال یہ ہے کہ کیا آپ بریلوی یا شیعہ کو اسی طرح کا کافر سمجھتے ہیں کہ ان پر یہ تمام احکامات لاگو ہوں گے؟؟
یہ آپ کا سوال ہی غلط ہے ۔آپ کی یہاں شعیہ یا بریلوی کا زکر ہی نہیں کرنا چاہیے تھا۔
بلکہ حنفی ۔شافی ،مالکی میں سے کو ئی بے نماز ہو اس پر بھی کفر کا فتاوی نہیں لگے گا کیونکہ یہ ان کا اپنا اتحاد ہے۔مثلا حاطٍ محمد گوندلوی فرماتے ہیں فاتحہ خلف امام کا مسلہ فروعی مسائل ہونے پر اتحادی ہے۔پس جو شخص حتی الامکان تحقیق کرئےاور یہ سمجھے فاتحہ فرض نہیں ضوا جہری ہو یا سہری اپنی تحقیق پر عمل کرئے تو اس کی نماز باطل نہیں ہوتی(توصیع الکام فی وجواب القراۃخٌلف الامام)
ثنایا ِ:شیخ زبیر علی زئی کے نزدیک بے نمازی کافر نہیں لیکن بھر بھی شرک اکبر والے کے پیچھے نماز کو جائز نہیں سمجھتے اور بریلوی کو بھی کافر نہیں کہتے
ویسے آپ کسی کے پیچھے نماز نہ ہونے کے لیے کافر کی شرط کیوں لگارہیں ہیں
جبکہ قران میں ہے
أُولَئِكَ حَبِطَتْ أَعْمَالُهُمْ وَفِي النَّارِ‌ هُمْ خَالِدُونَ ﴿١٧
یعنی مشرکین کے تمام عمل بربادہیں وہ ہمشہ جہنم میں رہیں گے
خود ان کے عمل نامقبول ہیں۔تو دوسروں کی اقتدار سے کیا حاصل ہوگا؟
ویسے آپ کسی اہل حدیث علم علم کا فتاوی دکھا سکتے ہیں جو بریلوی کے پیچھے نماز کو جائی کہتا ہو
اب خلق قران کا فر نہیں ہے لیکن علماء اس کے پیچھے بھی نماز کو جائز نہیں کہتے
مام ابن نجیم حنفی رحمہ اللہ فرماتے ہیں :’’اصل یہ ہے کہ اہل اہواء کی اقتداء جائز ہے سوائے جہمیہ ،قدریہ ،غالی روافض ،خلق قرآن کے قائل ،خطابیہ ،مشبہ اور اس بدعتی کے جو اپنی بدعت میں غلو کرتا ہوا کفر کے درجہ کو جاپہنچے ۔باقی ماندہ لوگوں کی اقتداء میں نماز جائز مگر ناپسندیدہ ہے ۔‘‘(بحرالرائق شرح کنز الدقائق ،ج:۱ص:۳۷۰)
4
 

ابن داود

فعال رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
نومبر 08، 2011
پیغامات
3,416
ری ایکشن اسکور
2,733
پوائنٹ
556
السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ!
سب سے پہلے تو ایک بات کی وضاحت:
اور آخر میں اگر آپ عالم نہیں بل کہ محض کاپی پیسٹ پر گزارا کرتے ہیں تو میری برادرانہ گزارش ہے کہ آپ کو جس موقف پر اطمینان ہے اور جس حد تک وہ آپ کے فہم میں آتا ہے اس پر عمل کریں لیکن اس پر دوسروں سے الجھنے سے باز رہیں؛البتہ اگر آپ کے ذہن میں اشکال ہیں اور اپ محض تفہیم مزید چاہتے ہیں تو سوالات کی صورت میں بات کر سکتے ہیں نہ کہ مناظرہ اور مجادلہ کے اسلوب میں؛جزاکم اللہ خیراً
میں عالم نہیں، لیکن علماء سے اصول دین ، اصول تفسیر، اصول حدیث اصول فقہ اور تفسیر و شروحات کے سبق ضرور حاصل کئے ہیں، ایسا نہیں ہے کہ ''محض کاپی پیسٹ'' پر انحصار ہو، بلکہ الحمدللہ! اللہ کی توفیق سے استدلال و اسنباط کو سمجھنے کی کچھ توفیق اللہ نے بخشی ہے!
لہٰذا کوشش یہی ہوتی ہے کہ ان دلائل کی روشنی میں گفتگو کروں، اور جس بارے میں علم نہ ہو گفتگو سے پرہیز کروں!! لیکن جن معاملہ میں دلائل کو جانتا اور سمجھتا ہوں ان میں اپنا مدعا بیان کر دیتا ہوں۔ اور اگر کسی کے مدعا کو غلط سمجھتا ہوں تو اس کی نکیر بھی کر دیتا ہوں۔ اللہ ہمیں حق کو سمجھنے اور اسے قبول کرنے کی توفیق بخشے! آمين!
  • ماشاءاللہ بڑی اچھی بات ہے کہ آپ نے حدیث پیش کر کے استدلال کی کوشش کی اور سوال اٹھایا؛اب دیکھیے یہاں دو باتیں ہیں:
  • پہلی یہ کہ امام بنانا اور بات ہے اور اس کے پیچھے پڑھی گئی نماز کا ہونا یا نہ ہونا بالکل ایک علاحدہ چیز؛اب دیوبندی یا بریلوی مسجد میں امام بنانا کیا اہل حدیث کے اختیار میں ہے؟؟
طاہر اسلام بھائی! میں نے اس حدیث سے ابھی کوئی ایسا استدلال نہیں کیا، کہ کس کی امامت میں نماز جائز ہے یا نہیں! اس وقت میں نے آپ کے مدعا پر اس حدیث کی روشنی میں سوال اٹھا یا تھا، آپ کا مدعا یہ تھا:
ہاں اگر آپ انھیں صریح کافر سمجھتے ہیں تو پھر نماز ہی نہیں بل کہ دیگر تمام احکام بھی کافروں والے لاگو ہوں گے؛مثلاً ان کا جنازہ نہیں پڑھا جائے گا؛نہ انھیں سلام کیا جائے گا؛نہ سلام کے جواب میں مسلمانوں والا سلام کہا جائے گا؛اگر اس طرح کا کوئی شخص آپ کے رشتہ داروں میں ہے تو اس کی وراثت بھی نہیں لیں گے اور نہ اسے دیں گے؛ نہ اس کا ذبیحہ جائز ہو گا۔اگر یہ سب باتیں کہتے ہیں تو بسم اللہ،ورنہ صرف نماز ہی پر آپ کیوں بھڑک اٹھتے ہیں۔
یہاں آپ نے مندرجہ ذیل باتیں بیان کی ہیں کہ:
نماز صرف اس شخص کے پیچھے نہیں ہوتی، جس کی تکفیر کر دی جائے،
اور جس کے پیچھے نماز نہیں ہوتی اس پر مندرجہ ذیل احکام بھی صادر کئے جائیں گے:
ان کا جنازہ نہیں پڑھا جائے گا
انہیں سلام نہیں کیا جائے گا اور نہ ہی سلام کا جواب دیا جائے گا
نہ اس کا وراثت میں حصہ ہوگا نہ اس سے وراثت لی جائے گی
اس کا ذبیحہ بھی جائز نہ ہوگا
اگر یہ تمام حکم صادر نہیں کئے جاتے تو اس کی امامت میں نماز بھی جائز!!
لہٰذا مذکورہ حدیث کی بنیاد پر میرا سوال یہ تھا کہ:
نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے کافر قرار دے کر اسے امام بنانے سے منع کیا تھا؟ اور کیا اس شخص پر تمام کافروں والے احکام وارد کر دیئے تھے؟
اس سوال کا آپ نے جواب نہیں دیا، یہ اب بھی قائم ہے۔
اس حدیث کو پیش کرنا کا مقصد آپ سے بیان کردہ موقف کی کمزوری بیان کرنا تھا۔ آپ کا مؤقف اس حدیث سے متضاد ہے! کہ کسی کی امامت میں نماز نہ پڑھنے اور نہ ہونے کے حکم کے لئے لازم ہے کہ اس کی تکفیر معین کی جائے!!
دوسری بات یہ کہ یہاں جس نوعیت کی چیز پر اسے امامت سے منع کیا گیا ہے ،کیا اس سے بڑھ کر اس طرح کی چیزیں کیا بعض اہل حدیث اماموں میں نہیں پائی جاتیں؟؟اور کیا اگر آپ کو علم ہو جائے کہ ایک اہل حدیث امام نے قبلہ رخ تھوکا ہے یا اس سے بھی بڑھ کر قبیح حرکت کا مرتکب ہوا ہے ،تو کیا آپ اس کو امامت سے ہٹانے کی مہم شروع کر دیں گے؟؟اصل میں اس نے عین حالت نماز میں تھوکا تھا جو بے حد قبیح حرکت تھی اور رسول اللہ ﷺ نے اس سے روکا ہے کہ حالت نماز میں قبلہ رخ تھوکا جائے؛آپ ﷺ نے یہ بھی فرمایا کہ تو نے اللہ اور رسول کو اذیت دی ہے؛تو یہ ہے اس کا پس منظر۔ جس سے معلوم ہوتا ہے کہ اس حدیث کا اصل مقصود آداب نماز اور نظافت و نفاست سے متعلقہ چیزیں ہیں ۔
خواہ یہ فعل اہل حدیث کریں یا غیر اہل حدیث ، فعل قبیح ہے اور اس کے پیچھے نماز نہیں پڑھی جائے گی! مقصد اداب نماز اور نظافت و نفاست کا ہونا ایک علت کا بیان ہے، مگر اس شخص کو امام نہ بنانے کا حکم نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی زبانی ایک حکم ہے، علت خواہ کچھ بھی ہو، اس حکم میں فرق نہیں آئے گا! الا یہ کہ کسی اور ماثور دلیل سے یہ حکم سے مندوب ٹھہرے!!
عقائد کا معاملہ یک سر مختلف ہے؛اس میں استدلال ہوتا ہے جس میں غلطی کا امکان ہوتا ہے؛تاویل کی گنجایش ہوتی ہے؛
آپ کی اس بات سے میں متفق ہوں۔ تاویل کی گنجائش ہوتی ہے، نہ صرف عقائد میں بلکہ احکام افعال میں بھی! مگر جہاں تاویل ممکن ہو!! اور اجتہادی خطاء کا امکان ہو!
اگر آپ کے استدلال کو لیا جائے کہ اس میں عموم ہے تو بتلائیے کہ قبلہ رخ تھوکنا زیادہ قبیح ہے یا ایک صحابیِؓ رسول کے قتل پر آمادہ ہو جانا اور مدینۂ رسولﷺ میں فتنہ بپا کر دینا زیادہ بڑا جرم ہے لیکن دیکھ لیجیے کہ خود صحابہؓ انھی قاتلوں ، مجرموں اور فتنہ بازوں کے پیچھے نمازیں پڑھ رہے ہیں جس سے ثابت ہوتا ہے کہ مذکورہ حدیث سے یہ عمومی استدلال نادرست ہے کہ اس سے دیگر فرقوں کے پیچھے نماز نہیں ہوتی۔
طاہر سلفی بھائی! آپ کا یہ طرز استدلال تو اہل الرائے والا ہے، کہ صحابہ کے عمل پر قیاس کرکے ایک نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے حکم کو رد کر دینا!! جبکہ صحابہ کا عمل اس امر میں نہیں دوسرے عمل میں ہے، یعنی ایسابھی نہیں کہ یہ فہم صحابہ ہو بلکہ کسی دوسرے مسئلہ میں صحابہ کے عمل کو مقیس علیہ بنا کر ایک صحيح و صریح ماثور حکم نبی صلی اللہ علیہ کو رد کر دینا!!
طاہر بھائی! قبلہ رخ تھوکنا زیادہ بڑا جرم ہو یا نہ ہو، نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا حکم یہی ہے کے اسے امام نہ بنایا جائے! اور یہ بات جاننے کے بعد جو کوئی بھی اسے امام بناتا ہے اس کی نماز نہیں ہوتی!! کیونکہ اس نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی مخالفت ہی ہے!
دوسری بات یہ کہ میں نے تو اس حدیث سے یہ استدلال ابھی پیش نہیں کیا کہ اس حدیث کی رو سے دیگر فرقوں کے پیچھے نماز نہیں ہوتی!! بلکہ میں نے تو اس معاملے میں کوئی گفتگو ہی نہیں کی، بلکہ صرف آپ کے مؤقف پر سوال اٹھایا ہے۔

اور جو میں نے سوال اٹھایا ہے ،وہ اس لیے کہ یہاں بعض لوگ کہپہ رہے ہیں کہ بریلوی اور شیعہ مشرک ہیں تو جب ان کی عبادت ہی مقبول نہیں تو ان کے پیچھے نماز کیسے درست ہو گی؟تو یہاں شرک کو مانع بنایا گیا ہے؛اگر یہ نماز کے لیے مانع ہے تو پھر باقی چیزوں کے احکامت بھی اس پر لاگو ہوں گے؛امید کچھ بات واضح ہوئی ہو گی۔
آپ کے اس بات میں وزن ہے کہ جب شرک کو بنیاد بنا کر کسی شخص کی امامت میں نماز کو ناجائز کہا جا رہا ہے، تو یہ حکم صرف نماز تک ہی کیوں، دیگر معاملات میں کیوں نہیں؟
لیکن ہم بات بھی ہم جانتے ہیں کہ اسلاف بدعتی عقائد کے حامل لوگوں کے پیچھے نماز نہ ہونے کو اقوال بھی مروی ہیں! بدعتی عقائد کے حامل کے لئے بھی عمومی حکم ہے اور اس کے پیچھے نماز پڑھنے والے کے لئے بھی عمومی حکم۔ کیونکہ تاویل حکم معین میں مانع ہو یا نہ ہو اقامت حجت کا نہ ہونا ضرور مانع ہو جاتا ہے۔ مثال یوں سمجھیں کہ اگر تقی، ابن عربی کے عقیدہ وحدۃ الوجود کا حامل ہے اور نقی اہل سنت عقیدہ کا حامل شخص، تقی کے پیچھے نماز پڑھے گا، تو یہ نہ کہا جائے گا کہ نقی کی نماز نہیں ہوئی! کیونکہ نقی پر اس بات کی حجت قائم نہیں ہوئی کہ تقی ابن عربی کے عقیدہ وحدۃ الوجود کا حامل ہے! اور نہ ہی تقی پر اقامت حجت تک حکم معین صادر کیا جائے گا۔ لیکن عمومی حکم رہے گا۔
نقی اپنے لئے تو یہ فیصلہ کرنے کا اختیار رکھتا ہے کہ وہ تقی کے پیچھے نماز نہ پڑھے اور اپنی نماز کی حفاطت کرے!
لہٰذا یہ حکم تحذير الناس کے لئے ہے!
جیسا کہ شیخ الاسلام ابن تیمیہ رحمہ اللہ نے مسئلہ تكفیر کے متعلق فرمایا ہے:
وَقَدْ يَسْلُكُونَ فِي التَّكْفِيرِ ذَلِكَ ; فَمِنْهُمْ مَنْ يُكَفِّرُ أَهْلَ الْبِدَعِ مُطْلَقًا، ثُمَّ يَجْعَلُ كُلَّ مَنْ خَرَجَ عَمَّا هُوَ عَلَيْهِ مِنْ أَهْلِ الْبِدَعِ. وَهَذَا بِعَيْنِهِ قَوْلُ الْخَوَارِجِ وَالْمُعْتَزِلَةِ الْجَهْمِيَّةِ. وَهَذَا الْقَوْلُ أَيْضًا يُوجَدُ فِي طَائِفَةٍ مِنْ أَصْحَابِ الْأَئِمَّةِ الْأَرْبَعَةِ، وَلَيْسَ هُوَ قَوْلُ الْأَئِمَّةِ الْأَرْبَعَةِ وَلَا غَيْرِهِمْ ، وَلَيْسَ فِيهِمْ مَنْ كَفَّرَ كُلَّ مُبْتَدِعٍ، بَلِ الْمَنْقُولَاتُ الصَّرِيحَةُ عَنْهُمْ تُنَاقِضُ ذَلِكَ، وَلَكِنْ قَدْ يُنْقَلُ عَنْ أَحَدِهِمْ أَنَّهُ كَفَّرَ مَنْ قَالَ بَعْضَ الْأَقْوَالِ، وَيَكُونُ مَقْصُودُهُ أَنَّ هَذَا الْقَوْلَ كُفْرٌ لِيُحَذِّرَ، وَلَا يَلْزَمُ إِذَا كَانَ الْقَوْلُ كُفْرًا أَنْ يَكَفِّرَ كُلَّ مَنْ قَالَهُ مَعَ الْجَهْلِ وَالتَّأْوِيلِ ; فَإِنَّ ثُبُوتَ الْكُفْرِ فِي حَقِّ الشَّخْصِ الْمُعَيَّنِ، كَثُبُوتِ الْوَعِيدِ فِي الْآخِرَةِ فِي حَقِّهِ، وَذَلِكَ لَهُ شُرُوطٌ وَمَوَانِعُ، كَمَا بَسَطْنَاهُ فِي مَوْضِعِهِ.

ملاحظہ فرمائیں: صفحه 240 جلد 05 منهاج السنة النبوية في نقض كلام الشيعة القدرية - جامعة الإمام محمد بن سعود الإسلامية
 
Last edited:

طاہر اسلام

سینئر رکن
شمولیت
مئی 07، 2011
پیغامات
843
ری ایکشن اسکور
732
پوائنٹ
256
ابن داود صاحب میں نے وضاحت کر دی تھی کہ
  • اولاً تو اس حدیث میں امام بنانے سے منع کیا گیا ہے،نہ یہ کہ اس کے پیچھے سرے سے نماز ہی نہیں ہوتی؛یہ بات آپ کی توجہ حاصل نہیں کر پائی؛آپ نے استدلال نہیں کیا لیکن میں نے اسی تناظر میں بات کی تھی؛پس اس پر اعتراض کیا ہے اب؟؟گویا میں اب بھی اسی پر قائم ہوں کہ جب تک کوئی مسلمان ہے اس کے پیچھے نماز ہو جاتی ہے اور یہ ضدیث اس سے منع نہیں کرتی۔
  • دوسری بات یہ کہ تکفیر کے احکام لازم آنا صرف اس صورت میں ہے جب شرک کی بنیاد پر ان کی اقتدا سے منع کیا جا رہا ہو۔
  • کیا آپ واقعی یہ سمجھتے ہیں کہ ان آداب کے تارک کے پیچھے نماز سرے سے ہوتی نہیں؟؟؟میرا خیال ہے،اس کا قائل کوئی بھی نہیں؛اس میں سختی اور زجر و توبیخ کا پہلو ہے اور میں نے صحابہؓ کا عمل اسی قرینے کے طور پر پیش کیا تھا؛اس میں اہل الرائے کی مشابہت کہاں سے آ گئی؟؟؟میرے نزدیک اس حدیث کا مفہوم یہ ہے کہ ایسے شخص کو امام مقرر کرنے سے گریز کرنا چاہیے لیکن اگر وہ امام بنا ہوا ہو اور نماز پڑھا رہا ہو تو اس کے پیچھے نماز ہو جاتی ہے اور اس کی دلیل صحابہؓ کا وہی عمل ہے۔کیا جو مفہوم آپ لے رہے ہیں ،سلف میں اس کا کوئی قائل ہے؟؟؟
 

طاہر اسلام

سینئر رکن
شمولیت
مئی 07، 2011
پیغامات
843
ری ایکشن اسکور
732
پوائنٹ
256
آپ نے امام ابن تیمیہؓ کا جو قول نقل فرمایا ہے اس میں بھی کوئی دلیل نہیں ہے؛اس میں تکفیر نوع یا تکفیر مطلق کا ذکر ہے۔ہاں اگر کوئی نہیں پڑھتا تو یہ ایک الگ چیز ہے لیکن یہ نہ پڑھنا درست رویہ نہیں ہے میری نظرمیں؛باقی سلف کے جو اقوال ہیں ،وہ عموماً انھی لوگوں کے بارے میں ہیں جن کو وہ کافر ٹھیراتے تھے اور پھر ان میں بھی اختلاف تھا ،اتفاق نہیں؛تو میں اسی قول کو درست سمجھتا ہوں کہ جب تک مسلمان ہے اور اس کی باقاعدہ تکفیر نہیں کی گئی اس کے پیچھے نماز جائز ہے اور اسے مسلمانوں کے تمام حقوق حاصل ہیں بہ حسب قواعد شریعت۔
آپ سے مکالمہ ہو سکتا ہے؛میں نے عالم ہونے کی بات محض اس لیے کی تھی کہ بحث علمی انداز میں ہو سکے کہ معاملہ بہت ہی حساس ہے؛اگر آپ کو صدمہ پہنچا ہو تو میں معذرت خواہ ہوں لیکن آپ دیکھ لیں کہ یہاں ایک شخص مسلسل کاپی پیسٹ کر رہا ہے اور وہ بھی بے سوچے سمجھے؛اب آپ ہی فرمائیے اس سے کیا بات کی جائے؟؟!!
 

اسحاق سلفی

فعال رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اگست 25، 2014
پیغامات
6,372
ری ایکشن اسکور
2,588
پوائنٹ
791
الولاء و البراء ۔۔۔کا تقاضا یہی ہے کہ :
بدعتی ،گمراہ شخص کے پیچھے نماز نہ پڑھی جائے ،ہمارے اسلاف کا بھی یہی کہنا ہے ؛
امام عبد اللہ بن احمد بن حنبل رحمہما اللہ ،فرماتے ہیں :
(۱) حدثني إسحاق بن بهلول، قال: قلت ليزيد بن هارون: أصلي خلف الجهمية؟ قال: «لا» ، قلت: أصلي خلف المرجئة؟ قال: «إنهم لخبثاء»
’’ اسحاق بن بھلول نے مشہور ثقہ تابعی یزید بن ھارون سے پوچھا :جہمیہ کے پیچھے نماز پڑھ لینی چاہیئے ؟ ،فرمایا :۔نہیں ‘‘ پوچھا کیا ’’ مرجئہ ‘‘ کے پیچھے پڑھنی چاہیئے ؟
فرمایا :(نہیں ) وہ تو بڑے خبیث ہیں ‘‘

(۲) سألت أبي رحمه الله عن الصلاة، خلف أهل البدع، قال: «لا يصلى خلفهم مثل الجهمية والمعتزلة»
امام عبد اللہ بن احمد ؒ فرماتے ہیں : میں نے اپنے ابا جی (امام احمد بن حنبل ؒ) سے پوچھا : اہل بدعت کی اقتداء میں نماز پڑھنی کیسی ہے ؟
فرمایا :ان کے پیچھے نماز نہیں پڑھنی چاہیئے ۔۔جیسے ’’ جہمیہ ،اور معتزلہ ‘‘


الصلاة خلف المبتدع.jpg


امین صفدر اوکاڑوی دیوبندی شرم و حیا سے عاری ہو کر لکھتا ہے:
"غیر مقلدین چھوٹے رافضی ہیں" کی سرخی قائم کر کے لکھتا ہے: "سید احمد شہید بریلوی کے قافلہ میں مشہور تھا کہ غیر مقلد چھوٹے رافضی ہوتے ہیں۔
(قصص اکابر ص 26)" (تجلیاتِ صفدر ج 3ص 629)
 

ابن داود

فعال رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
نومبر 08، 2011
پیغامات
3,416
ری ایکشن اسکور
2,733
پوائنٹ
556
السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ!
ابن داود صاحب میں نے وضاحت کر دی تھی کہ
  • اولاً تو اس حدیث میں امام بنانے سے منع کیا گیا ہے،نہ یہ کہ اس کے پیچھے سرے سے نماز ہی نہیں ہوتی؛یہ بات آپ کی توجہ حاصل نہیں کر پائی؛آپ نے استدلال نہیں کیا لیکن میں نے اسی تناظر میں بات کی تھی؛پس اس پر اعتراض کیا ہے اب؟؟گویا میں اب بھی اسی پر قائم ہوں کہ جب تک کوئی مسلمان ہے اس کے پیچھے نماز ہو جاتی ہے اور یہ ضدیث اس سے منع نہیں کرتی۔
میرا مؤقف یہ ہے کہ اس حدیث ميں جس کے پیچھے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے نماز پڑھنے کا منع فرما دیا اس شخص کے پیچھے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا حکم معلوم ہو جانے کے بعد نماز نہیں ہوتی! نبي صلی اللہ علیہ وسلم کا حکم اس شخص کے متعلق بالکل معین حکم ہے۔
ایک تو وہ شخص ہے جس کے متعلق خود نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے خود فرمایا۔ اور اس کے بعد اس حکم کے اطلاق میں جو بھی آئے گا اس کے پیچھے بھی نماز نہیں ہوگی!! عمومی حکم یہی رہے گا، اسے مندوب قرار دینے کے لئے یعنی نماز تو ہو جاتی ہے، مگر بہتر امام نہیں بنایا جائے، یہ دلیل کا محتاج ہے۔
ہاں، اس پر حکم معین لگاتے ہوئے، جہالت ، تاویل ، اقامت حجت وغیرہ کو مد نظر رکھنا ضروری ہے!
آپ نے یہ جو فرمایا ہے، میرا سوال اسی پر ہے:
گویا میں اب بھی اسی پر قائم ہوں کہ جب تک کوئی مسلمان ہے اس کے پیچھے نماز ہو جاتی ہے اور یہ ضدیث اس سے منع نہیں کرتی۔
میرے نزدیک اس حدیث کا مفہوم یہ ہے کہ ایسے شخص کو امام مقرر کرنے سے گریز کرنا چاہیے لیکن اگر وہ امام بنا ہوا ہو اور نماز پڑھا رہا ہو تو اس کے پیچھے نماز ہو جاتی ہے اور اس کی دلیل صحابہؓ کا وہی عمل ہے۔کیا جو مفہوم آپ لے رہے ہیں ،سلف میں اس کا کوئی قائل ہے؟؟؟
کہ جس شخص کو امام بنانے کا نبی صلی اللہ علیہ وسلم منع فرما دیں اس کی امامت میں نماز کیسے ہو جائے گی!! بعد اس کے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا حکم معلوم ہو جائے!!!
باقی آداب نماز کے تارک کے پیچھے نماز کے ہو جانے سے اس عمل کے پیچھے نماز کے ہو جانے کو قیاس کرنا درست نہیں، کیونکہ اس عمل کے متعلق نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی حدیث موجود ہے!! اور حدیث کی موجودی میں اس پر کوئی قیاسی حکم لگانا یہی اہل الرائے کا انداز ہے!

آپ نے امام ابن تیمیہؓ کا جو قول نقل فرمایا ہے اس میں بھی کوئی دلیل نہیں ہے؛اس میں تکفیر نوع یا تکفیر مطلق کا ذکر ہے۔ہاں اگر کوئی نہیں پڑھتا تو یہ ایک الگ چیز ہے لیکن یہ نہ پڑھنا درست رویہ نہیں ہے میری نظرمیں؛باقی سلف کے جو اقوال ہیں ،وہ عموماً انھی لوگوں کے بارے میں ہیں جن کو وہ کافر ٹھیراتے تھے اور پھر ان میں بھی اختلاف تھا ،اتفاق نہیں؛تو میں اسی قول کو درست سمجھتا ہوں کہ جب تک مسلمان ہے اور اس کی باقاعدہ تکفیر نہیں کی گئی اس کے پیچھے نماز جائز ہے اور اسے مسلمانوں کے تمام حقوق حاصل ہیں بہ حسب قواعد شریعت۔
اسی تناظر میں شیخ الاسلام اب تیمیہ کا کلام پیش کیا تھا۔ کہ مطلق حکم لگایا جا سکتا ہے، اس میں تحذیر ہے لوگوں کے لئے! اسلاف نے مطلق حکم لگایا ہے اس میں تعین سے اکثر گریز ہی کیا ہے! اور نماز سے متعلق بھی اکثر اقوال اسی طرح کے ہیں۔

آپ سے مکالمہ ہو سکتا ہے؛میں نے عالم ہونے کی بات محض اس لیے کی تھی کہ بحث علمی انداز میں ہو سکے کہ معاملہ بہت ہی حساس ہے؛اگر آپ کو صدمہ پہنچا ہو تو میں معذرت خواہ ہوں لیکن آپ دیکھ لیں کہ یہاں ایک شخص مسلسل کاپی پیسٹ کر رہا ہے اور وہ بھی بے سوچے سمجھے؛اب آپ ہی فرمائیے اس سے کیا بات کی جائے؟؟!!
جزاک اللہ! طاہر اسلام بھائی! آپ کی اس بات سے مین بالکل متفق ہوں کہ یہ محض کاپی پیسٹ والے معاملہ میں گفگتو نا ممکن ہو جاتی ہے! دو دن قبل ہی ایک چیٹ پروگرام میں نام لے لے کر کافر سننے کو ملا! اور اس فیس بک نے بھی ایک ادھم مچایا ہوا ہے! اللہ ہمیں ان کا مثبت استعمال کرنے کی توفیق دے اور اس کے نقصانات سے محفوظ رکھے!

میں اپنا مؤقف اختصار سے بیان کر دیتا ہوں جہاں آپ سے میں اختلاف کر رہا ہوں:
کسی کی اقتداء نماز نہ پڑھنے اور نماز نہ ہونے کے لئے اس کی تکفیر معین ہونا لازم نہیں! اور نہ ہی معین طور پر یہ کہنا مناسب ہے کہ فلاں شخص کی نماز نہیں ہوئی ، کیونکہ اس کا یہ عقیدہ ہے اور اس کے پیچھے نماز پڑھنے والے فلاں شخص کی نماز بھی نہیں ہوئی!
ایک مثال: بغیر تعین افراد کے عرض کرتا ہوں کہ محی الدین ابن عربی کے بیان کردہ عقیدہ وحدۃ الوجود کے حامل شخص کے پیچھے نماز نہیں ہوتی!
 

طاہر اسلام

سینئر رکن
شمولیت
مئی 07، 2011
پیغامات
843
ری ایکشن اسکور
732
پوائنٹ
256
السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ!

میرا مؤقف یہ ہے کہ اس حدیث ميں جس کے پیچھے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے نماز پڑھنے کا منع فرما دیا اس شخص کے پیچھے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا حکم معلوم ہو جانے کے بعد نماز نہیں ہوتی! نبي صلی اللہ علیہ وسلم کا حکم اس شخص کے متعلق بالکل معین حکم ہے۔
ایک تو وہ شخص ہے جس کے متعلق خود نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے خود فرمایا۔ اور اس کے بعد اس حکم کے اطلاق میں جو بھی آئے گا اس کے پیچھے بھی نماز نہیں ہوگی!! عمومی حکم یہی رہے گا، اسے مندوب قرار دینے کے لئے یعنی نماز تو ہو جاتی ہے، مگر بہتر امام نہیں بنایا جائے، یہ دلیل کا محتاج ہے۔
ہاں، اس پر حکم معین لگاتے ہوئے، جہالت ، تاویل ، اقامت حجت وغیرہ کو مد نظر رکھنا ضروری ہے!
آپ نے یہ جو فرمایا ہے، میرا سوال اسی پر ہے:


کہ جس شخص کو امام بنانے کا نبی صلی اللہ علیہ وسلم منع فرما دیں اس کی امامت میں نماز کیسے ہو جائے گی!! بعد اس کے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا حکم معلوم ہو جائے!!!
باقی آداب نماز کے تارک کے پیچھے نماز کے ہو جانے سے اس عمل کے پیچھے نماز کے ہو جانے کو قیاس کرنا درست نہیں، کیونکہ اس عمل کے متعلق نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی حدیث موجود ہے!! اور حدیث کی موجودی میں اس پر کوئی قیاسی حکم لگانا یہی اہل الرائے کا انداز ہے!


اسی تناظر میں شیخ الاسلام اب تیمیہ کا کلام پیش کیا تھا۔ کہ مطلق حکم لگایا جا سکتا ہے، اس میں تحذیر ہے لوگوں کے لئے! اسلاف نے مطلق حکم لگایا ہے اس میں تعین سے اکثر گریز ہی کیا ہے! اور نماز سے متعلق بھی اکثر اقوال اسی طرح کے ہیں۔



جزاک اللہ! طاہر اسلام بھائی! آپ کی اس بات سے مین بالکل متفق ہوں کہ یہ محض کاپی پیسٹ والے معاملہ میں گفگتو نا ممکن ہو جاتی ہے! دو دن قبل ہی ایک چیٹ پروگرام میں نام لے لے کر کافر سننے کو ملا! اور اس فیس بک نے بھی ایک ادھم مچایا ہوا ہے! اللہ ہمیں ان کا مثبت استعمال کرنے کی توفیق دے اور اس کے نقصانات سے محفوظ رکھے!

میں اپنا مؤقف اختصار سے بیان کر دیتا ہوں جہاں آپ سے میں اختلاف کر رہا ہوں:
کسی کی اقتداء نماز نہ پڑھنے اور نماز نہ ہونے کے لئے اس کی تکفیر معین ہونا لازم نہیں! اور نہ ہی معین طور پر یہ کہنا مناسب ہے کہ فلاں شخص کی نماز نہیں ہوئی ، کیونکہ اس کا یہ عقیدہ ہے اور اس کے پیچھے نماز پڑھنے والے فلاں شخص کی نماز بھی نہیں ہوئی!
ایک مثال: بغیر تعین افراد کے عرض کرتا ہوں کہ محی الدین ابن عربی کے بیان کردہ عقیدہ وحدۃ الوجود کے حامل شخص کے پیچھے نماز نہیں ہوتی!
جی بالکل یہی اختلافی نکتہ ہے کہ امام بنانے کی ممانعت کا کیا لازمی مطلب یہی ہے کہ اس کے پیچھے نماز نہیں ہوتی؟؟مجھے اس سے اتفاق نہیں ؛اس پر اگر سلف میں سے کسی کا قول مل جائے تو بات ہو سکتی ہے کیوں کہ فہم نص کے حوالے سے ان کے اقوال اہمیت رکھتے ہیں۔
دوسری بات یہ ہے کہ اگرکوئی مسلمان ہے لیکن اس کے باوجود اس کے پیچھے نماز نہ ہوتی ہو تو اس پر نص صریح درکار ہے؛سلف کے اقوال کسی نہ کسی تناظر میں ہیں اور ان کی متعدد توجیہات ہو سکتی ہیں۔
آپ کی یہ بات درست ہے کہ کسی کی اقتدا کو نا جائز کہنے سے تکفیر لازم نہیں آتی لیکن میری نظر میں یہ تضاد ہے؛اگر وہ مسلمان ہے تو اس کی اقتدا کی ممانعت کے لیے صریح نص درکار ہے جیسا کہ میں نے عرض کیا کیوں کہ اہل سنت کا عقیدہ ہے کہ ہم اہل قبلہ میں سے ہر ایک کے پیچھے نماز جائز سمجھتے ہیں خواہ وہ نیک ہو یا بد۔
اس حدیث کے بارے میں پھر یہی عرض ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے اسے امام بنانے سے منع کیا ہے لہٰذا اختیار ہو تو اسے امام نہیں بنانا چاہیے؛اس حدیث کا مقصود محض اسی قدر ہے؛باقی استنباط ہے جس پر گفت گو ہو سکتی ہے۔
 

ابن قدامہ

مشہور رکن
شمولیت
جنوری 25، 2014
پیغامات
1,772
ری ایکشن اسکور
428
پوائنٹ
198
یہ آپ کا سوال ہی غلط ہے ۔آپ کی یہاں شعیہ یا بریلوی کا زکر ہی نہیں کرنا چاہیے تھا۔
بلکہ حنفی ۔شافی ،مالکی میں سے کو ئی بے نماز ہو اس پر بھی کفر کا فتاوی نہیں لگے گا کیونکہ یہ ان کا اپنا اتحاد ہے۔مثلا حاطٍ محمد گوندلوی فرماتے ہیں فاتحہ خلف امام کا مسلہ فروعی مسائل ہونے پر اتحادی ہے۔پس جو شخص حتی الامکان تحقیق کرئےاور یہ سمجھے فاتحہ فرض نہیں ضوا جہری ہو یا سہری اپنی تحقیق پر عمل کرئے تو اس کی نماز باطل نہیں ہوتی(توصیع الکام فی وجواب القراۃخٌلف الامام)
ثنایا ِ:شیخ زبیر علی زئی کے نزدیک بے نمازی کافر نہیں لیکن بھر بھی شرک اکبر والے کے پیچھے نماز کو جائز نہیں سمجھتے اور بریلوی کو بھی کافر نہیں کہتے
ویسے آپ کسی کے پیچھے نماز نہ ہونے کے لیے کافر کی شرط کیوں لگارہیں ہیں
جبکہ قران میں ہے
أُولَئِكَ حَبِطَتْ أَعْمَالُهُمْ وَفِي النَّارِ‌ هُمْ خَالِدُونَ ﴿١٧
یعنی مشرکین کے تمام عمل بربادہیں وہ ہمشہ جہنم میں رہیں گے
خود ان کے عمل نامقبول ہیں۔تو دوسروں کی اقتدار سے کیا حاصل ہوگا؟
ویسے آپ کسی اہل حدیث علم علم کا فتاوی دکھا سکتے ہیں جو بریلوی کے پیچھے نماز کو جائی کہتا ہو
اب خلق قران کا فر نہیں ہے لیکن علماء اس کے پیچھے بھی نماز کو جائز نہیں کہتے
مام ابن نجیم حنفی رحمہ اللہ فرماتے ہیں :’’اصل یہ ہے کہ اہل اہواء کی اقتداء جائز ہے سوائے جہمیہ ،قدریہ ،غالی روافض ،خلق قرآن کے قائل ،خطابیہ ،مشبہ اور اس بدعتی کے جو اپنی بدعت میں غلو کرتا ہوا کفر کے درجہ کو جاپہنچے ۔باقی ماندہ لوگوں کی اقتداء میں نماز جائز مگر ناپسندیدہ ہے ۔‘‘(بحرالرائق شرح کنز الدقائق ،ج:۱ص:۳۷۰)
4
@عبدہ بھائی
آپ بھی اس مسلے پر کچھ روشنی ڈالیں
 

عبدہ

سینئر رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
نومبر 01، 2013
پیغامات
2,035
ری ایکشن اسکور
1,227
پوائنٹ
425
@عبدہ بھائی
آپ بھی اس مسلے پر کچھ روشنی ڈالیں
محترم بھائی جو پڑھا اس سلسلےم یں عرض یہ ہے کہ میرا نظریہ بھی محترم طاہر اسلام عسکری بھائی والا ہے جو مندرجہ ذیل ہے

اجمالی طور پر میرا موقف یہ ہے کہ ان فرقوں کے عوام کو جہالت کا عذر دیا جائے گا اور ان کے عالموں کو تاویل کا؛ہاں اگر آپ انھیں صریح کافر سمجھتے ہیں تو پھر نماز ہی نہیں بل کہ دیگر تمام احکام بھی کافروں والے لاگو ہوں گے؛مثلاً ان کا جنازہ نہیں پڑھا جائے گا؛نہ انھیں سلام کیا جائے گا؛نہ سلام کے جواب میں مسلمانوں والا سلام کہا جائے گا؛اگر اس طرح کا کوئی شخص آپ کے رشتہ داروں میں ہے تو اس کی وراثت بھی نہیں لیں گے اور نہ اسے دیں گے؛ نہ اس کا ذبیحہ جائز ہو گا۔اگر یہ سب باتیں کہتے ہیں تو بسم اللہ،ورنہ صرف نماز ہی پر آپ کیوں بھڑک اٹھتے ہیں۔باقی جن علما نے ان کے پیچھے نماز نہ پڑھنے کا موقف اختیار کیا ہے ،وہ مجتہد ہیں ؛میں ان کی راے کو کم زور سمجھتا ہوں اور انھیں اپنے اجتہاد میں ماجور؛ان شاءاللہ
البتہ میرا حکم محترم بھائی سے الٹ ہے یعنی میرا موقف شیخ ابن باز رحمہ اللہ والا اور اللجنۃ الدائمۃ کے کثیر ارکان والا ہے یعنی میرے نزدیک یہاں جہالت عذر نہیں رہتی اور ان پر تمام احکام وہی نافذ ہوں گے یعنی واضح مشرک یا کافر بریلوی یا شیعہ کا ذبیحہ حرام ہے اسی طرح وراثت وغیرہ کا مسئلہ ہے اور ہمیں ان سب کے بارے یہ نظریہ رکھنا چاہئے صرف نماز کے بارے نہیں پس میں مشرک کا ذبیحہ بھی نہیں کھاتا
خیر اس پر اور بھی بحث ہے اسی طرح وراثت اور سلام میں پہل میں اختلاف آتا ہے بعض ایسے بھی فقہاء ہیں جن میں کافر مسلمان کا وارث نہیں مگر مسلمان کافر کا وارث ہو سکتا ہے اگرچہ صحیح بخآری کی حدیث یہی ہے کہ لا یرث المسلمُ الکافر ولا الکافرُ المسلم
اسی طرح سلام میں پہل کے خلاف بھی واضح حدیث لا تبدو والی ہے مگر کچھ لوگ ابراھیم علیہ اسلام کے سلام کہنے کے قرآنی اثر سے حجت لیتے ہیں کہ کر سکتے ہیں اس پر میں نے شاید کسی سلف کا فتوی پڑھا تھا کہ اگر ضرورت ہو تو کر سکتے ہیں ورنہ نہیں واللہ اعلم
یہ کٹر بریلوی اور شیعہ کے بارے ہے البتہ عام بریلوی یا دیوبندی کے معاملے میں چونکہ مجھے واضح شرک نہیں ملتا اس لئے وہاں میرا معاملہ مختلف ہے واللہ اعلم
 
Top