• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

بدعتی اور فتنے میں مبتلا شخص کی امامت؟

طاہر اسلام

سینئر رکن
شمولیت
مئی 07، 2011
پیغامات
843
ری ایکشن اسکور
732
پوائنٹ
256
میں سمجھتا ہوں کہ مدارس میں طلبہ کو ان مسائل پر علمی طریقے سے دلائل دے کر سمجھانا چاہیے اور الصلاۃ خلف المبتدع کا مسئلہ معاشرے کے مختلف فرقوں پر ایپلائی کر کے ذہن نشین کرانا چاہیے جو کہ بدقسمتی سے نہیں ہورہا؛اس کا نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ فارغ التحصیل نوجوان علما پاپولر موقف اختیار کرنے ہی میں عافیت سمجھتے ہیں۔مزید برآں اسے ایک علمی مسئلے کے طور پر لینا چاہیے اور مختلف آرا کو بیان کر کے راجح موقف اپنانے کی تربیت دینی چاہیے؛عرب علما میں یہ اہتمام پایا جاتا ہے لیکن یہاں یہ مفقود ہے؛اور آخری بات یہ کہ اسطرح کے نازک اور حساس مسئلوں پر غیر عالموں کو بولنے کی قطعاً اجازت نہیں ہونی چاہیے خاص طور سے وہ لونڈے جن کا مبلغ علم کاپی پیسٹ ہوتا ہے اور وہ خود اصل نصوص اور علما کی رایوں کو سمجھنے اور پرکھنے کے اہل ہی نہیں ہوتے؛سو،اس مسئلے پر حافظ زبیر علی زئیؒ اور محدث بدیع الدین راشدیؒ (اور ان کے ہم خیال موجودہ علما)سے مکالمہ تو بنتا ہے لیکن یہاں جو اچھل کود ہو رہی ہے ،بہ ہزار معذرت یہ ہر گز علمی اسلوب نہیں۔ہاں وہ جو ساتھی عالم ہیں اور میری راے کے بالکل مخالف موقف رکھتے ہیں ، وہ بے حد قابل احترام ہیں اور ان سے بات چیت کرنا انتہائی مفید سمجھتا ہوں۔والسلام علیکم و رحمۃ اللہ
 

ابن داود

فعال رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
نومبر 08، 2011
پیغامات
3,417
ری ایکشن اسکور
2,730
پوائنٹ
556
السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ!
حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ صَالِحٍ حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ وَهْبٍ أَخْبَرَنِى عَمْرٌو عَنْ بَكْرِ بْنِ سَوَادَةَ الْجُذَامِىِّ عَنْ صَالِحِ بْنِ خَيْوَانَ عَنْ أَبِى سَهْلَةَ السَّائِبِ بْنِ خَلاَّدٍ – قَالَ أَحْمَدُ – مِنْ أَصْحَابِ النَّبِىِّ -صلى الله عليه وسلم- أَنَّ رَجُلاً أَمَّ قَوْمًا فَبَصَقَ فِى الْقِبْلَةِ وَرَسُولُ اللَّهِ -صلى الله عليه وسلم- يَنْظُرُ فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ -صلى الله عليه وسلم- حِينَ فَرَغَ « لاَ يُصَلِّى لَكُمْ ». فَأَرَادَ بَعْدَ ذَلِكَ أَنْ يُصَلِّىَ لَهُمْ فَمَنَعُوهُ وَأَخْبَرُوهُ بِقَوْلِ رَسُولِ اللَّهِ -صلى الله عليه وسلم- فَذَكَرَ ذَلِكَ لِرَسُولِ اللَّهِ -صلى الله عليه وسلم- فَقَالَ « نَعَمْ ». وَحَسِبْتُ أَنَّهُ قَالَ « إِنَّكَ آذَيْتَ اللَّهَ وَرَسُولَهُ »
’’ابو سھلہ سے مروی ہے کہ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم میں سے ایک شخص نے کچھ لوگوں کی امامت کروائی۔ اس نے قبلہ کی طرف تھوکا ۔ اس وقت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم دیکھ رہے تھے۔ تو جب وہ فارغ ہوا تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ آئندہ وہ تمہیں نماز نہ پڑھائے۔ تو جب اس نے دوبارہ نماز پڑھانا چاہی تو صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے منع کردیا اور انھیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان بتایا۔ اس کے بعد اس شخص نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے اس کے متعلق پوچھا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے بھی تائید کردی۔ راوی کہتے ہیں کہ میرا خیال میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ آپ نے اللہ اور اس کے رسول کو تکلیف دی ہے‘‘
(سنن أبي داؤد،كتاب الصلوة، باب في کراهية البزاق في المسجد)
نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے کافر قرار دے کر اسے امام بنانے سے منع کیا تھا؟ اور کیا اس شخص پر تمام کافروں والے احکام وارد کر دیئے تھے؟
 
Last edited:

ابن داود

فعال رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
نومبر 08، 2011
پیغامات
3,417
ری ایکشن اسکور
2,730
پوائنٹ
556
السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ!
طاہر اسلام بھائی! میں آپ کے آخری مراسلہ کے بیان سے کافی حد تک متفق ہوں، کہ'' اچھل کود'' یوں تو کسی معاملہ میں بھی مناسب نہیں، لیکن حساس نوعیت کے معاملات میں بہت خطرناک ہوتی ہے۔
یہ توضیح پیش کرنے کی مجھے ضرورت یوں پیش آئی کہ آپ نے فرمایا ہے:
اسطرح کے نازک اور حساس مسئلوں پر غیر عالموں کو بولنے کی قطعاً اجازت نہیں ہونی چاہیے خاص طور سے وہ لونڈے جن کا مبلغ علم کاپی پیسٹ ہوتا ہے اور وہ خود اصل نصوص اور علما کی رایوں کو سمجھنے اور پرکھنے کے اہل ہی نہیں ہوتے؛سو،اس مسئلے پر حافظ زبیر علی زئیؒ اور محدث بدیع الدین راشدیؒ (اور ان کے ہم خیال موجودہ علما)سے مکالمہ تو بنتا ہے لیکن یہاں جو اچھل کود ہو رہی ہے ،بہ ہزار معذرت یہ ہر گز علمی اسلوب نہیں۔ہاں وہ جو ساتھی عالم ہیں اور میری راے کے بالکل مخالف موقف رکھتے ہیں ، وہ بے حد قابل احترام ہیں اور ان سے بات چیت کرنا انتہائی مفید سمجھتا ہوں۔والسلام علیکم و رحمۃ اللہ
اور بات یہ ہے کہ میں بھی عالم نہیں۔
 

اسحاق سلفی

فعال رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اگست 25، 2014
پیغامات
6,372
ری ایکشن اسکور
2,565
پوائنٹ
791
مسئلہ کا ایک پہلو تو یہ کہ اہل حدیث ۔۔دیوبندیوں ،بریلویوں کو کیاسمجھتے ۔کافر ۔مشرک ۔گمراہ ۔بدعتی ۔۔یا۔۔محض اجتہادی مسائل میں خطاکار

دوسرا پہلو یہ ہے ۔دیوبندی ،بریلوی ۔اہل حدیث کو کیا سمجھتے ہیں ۔کیا محض اجتہادی ،عملی مسائل میں غلطی پر سمجھتے ہیں ۔۔یا۔۔چھوٹا رافضی وغیرہ جیسے القابات سے نوازتے ہیں ؛۔ اور پوری امت کے مقابل باور کرواتے ہیں ؛
یہ دونوں پہلو سامنے رکھنا بہت ضروری ہے ؛؛۔ خاص طور پر دوسرا پہلو

اگر کوئی مقلد ۔۔۔ اہل حدیث کو گمراہ کہتا ہے، اور فرمایا کرتا ہے کہ ’’ غیر مقلد کی اقتداء میں نماز نہیں ہوتی تو ۔۔ترکی بترکی ۔۔ہونا لازم ہے ؛
چاہے ۔۔ایسا کہنے والا مقلد چاہے کتنا ۔۔معتبر اور بڑا کیوں نہ ہو ؛۔
اس میں مفتی کے فتوی کی ضرورت پیش ہی نہیں آئے گی ؛ سارا فلسفہ اور دلیل دھری کی دھری رہ جائے گی ؛
 

ابن قدامہ

مشہور رکن
شمولیت
جنوری 25، 2014
پیغامات
1,772
ری ایکشن اسکور
428
پوائنٹ
198
اجمالی طور پر میرا موقف یہ ہے کہ ان فرقوں کے عوام کو جہالت کا عذر دیا جائے گا اور ان کے عالموں کو تاویل
وہ کفریہ بدعت جو لا الہٰ الا اللہ محمد رسول اللہ کے مدلول ہی سے براہ راست متصادم ہو ۔یہ وہ مسائل ہیں جن کو مسلمانوں کے عوام اور علماء سب جانتے ہیں یہ شریعت کے بنیادی عقائد ہیں۔امت کا ان مسائل میں اجماع ہو چکا اس لیے ان بنیادی امور میں تاویل یا غلط مبحث کا کوئی امکان نہیں ۔یہی وجہ ہے کہ ان مسائل میں اختلاف قطعاً قابل برداشت نہیں کیونکہ اس سے دین کی بنیاد ہی ختم ہو جاتی ہے۔ یہ امور قطعی طور پر ثابت ہیں اس لیئے انہیں قطعیات کہتے ہیں علماء اسلام کا ان پر اتفاق ہے اور یہ تواتر عملی سے امت کے اندر رائج ہیں۔اس لیئے ان کو صرف اور صرف تسلیم کر لینا ہی واجب ہے ۔یہ قطعیات عقائد اور فروع دونوں میں پائے جاتے ہیں ان میں اجتہاد ،رائے یا اختلاف کی کوئی گنجائش نہیں ۔ یہ شریعت کے وہ عظیم الشان قواعد ہیں جو اٹل ہیں۔جو شخص ان کے تسلیم کرنے میں ہی تردد کرے یا ان کے معاملے کو مشکوک ٹھہرائے وہ ملت اسلامیہ سے خارج ہو گا۔اس کو لاعلمی ،جہالت ،شبہ یا تاویل کا عذر نہیں دیا جائے گا
شیخ مقصود الحسن فیضی حفظہ اللہ لکھتے ہیں:’’ کافر و مشرک سے مراد وہ لوگ بھی ہیں جو مسلمان ہونے کے دعویدار تو ہیں لیکن کسی ایسے کام کا ارتکاب کرتے ہیں جس کا کفر و شرک علمائِ امت کے نزد یک متفق علیہ ہے ۔ جیسے غیر اللہ کو سجدہ کرنا، دین کی بنیادی باتوں کا انکار کرنا ، اللہ اور اس کے رسول یا اسلام کا مذاق اڑانا۔ بشرطیکہ وہ خود با خبر ہوں یا ان پر حجت قائم ہو چکی ہو۔‘‘(وفاداری یا بیزاری،ص30)
سعودی عرب کی اللّجنۃ الدائمہ للبحوث العلمیہ والافتاء (جس کے رئیس الشیخ عبدالعزیز بن عبداللہ بن باز رحمتہ اللہ علیہ تھے)کے چند فتوے ملاحظہ فرمائیں:
’’جو شخص نماز پڑھے ،روزے رکھے اور ارکان اسلام پر عمل کرے مگر اس کے ساتھ وہ مُردوں، غیر حاضر بزرگوں اور فرشتوں وغیرہ کو مدد کے لیے پکارے، وہ مشرک ہے اور اگر وہ نصیحت کو قبول نہ کرے اور مرتے دم تک اس عقیدے پر رہے تو اُسکی موت شرک پرہے۔ اس کا شرک ’’شرک اکبر‘‘ ہے جو اسے اسلام سے ہی خارج کر دیتا ہے۔ اُسے نہ تو مرنے کے بعد غسل دیا جائے گا اور نہ ہی اس کی نماز جنازہ پڑھی جائے گی اور نہ ہی اسے مسلمانوں کے قبرستانوں میں دفن کیا جائے گا اور نہ اس کیلئے مغفرت کی دعا کی جائے گی اور نہ ہی اس کی اولاد ،والدین اور بھائی، اگر مو ّحدین ہوں، اُس کے وارث ہوں گے۔‘‘ [فتوی نمبر6972]
’’جو شخص اللہ کی توحید اور نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی رسالت کی گواہی دیتا ہے اور ان کے تقاضوں کے مطابق عمل کرتا ہے پس وہ مسلم و مومن ہے۔ اور جو شرکیہ اقوال یا شرکیہ افعال کرتا ہے جو کلمہ کے منافی ہیں پس وہ کافر ہے اگرچہ کلمہ پڑھے ، نماز ادا کرے اور روزہ رکھے۔ جیسا کہ مُردوں کو مشکلات میں پکارتا ہے، ان کی تعظیم میں قربانی کرنا ہے ایسے شخص کا ذبیحہ کھانا جائز نہیں۔ ‘‘[فتوی نمبر10685، فتاویٰ اللجنہ جمع و ترتیب احمد بن عبد الرزاق الدویش]
اسی طرح جو شخص پانچ وقت کی نماز ،رمضان کے روزوں، عشر، زکوٰۃ یا حج وغیرہ میں سے کسی ایک کا انکار کرے تو وہ بھی کافر ہو گا ۔
صحابہ کرام رضوان اللہ اجمعین نے زکوٰۃ کے منکرین کے خلاف جہاد کیا ۔ حالانکہ وہ کلمہ پڑھتے اور نماز یںادا کرتے تھے۔ جب عمر فاروق رضی اللہ عنہ نے ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ سے پوچھا کہ آپ ان لوگوں سے کیسے لڑیں گے جبکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ مجھے حکم دیا گیا ہے کہ میں لوگوں سے لڑوں یہاں تک کہ وہ لا الہٰ الا اللہ کا اقرار کر لیں اور جب وہ اس کا اقرار کریں تو انہوں نے اپنی جان اور اپنا مال میری تلوار سے محفوظ کر لیا مگر اسلام کا حق ان سے لیا جائے گا اور ان کے دل کا حساب اللہ کے ذمہ ہے ۔سیدنا ابو بکررضی اللہ عنہ نے فرمایا اللہ کی قسم میں ان لوگوں سے ضرور لڑوں گا جو نماز اور زکوٰۃ میں فرق کریں گے۔ بے شک زکوٰۃ مال کا حق ہے ۔ اللہ کی قسم اگر انہوں نے اونٹ کے گلے میں باندھنے والی رسی بھی روکی، جو یہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو دیا کرتے تھے، میں اس کے روکنے پر ان سے ضرور لڑوں گا۔ عمررضی اللہ عنہ کہتے ہیں: اللہ کی قسم! اللہ نے ابو بکر کا سینہ منکرین زکوٰۃ سے جہاد کے لیے کھول دیا اور پھر میں نے بھی جان لیا کہ یہی بات حق ہے۔
(بخاری: ۱۴۰۰۔مسلم: ۲۰)
گویا صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے شہادتین کا اقرار کرنے اور نماز پڑھنے والوں کو مرتدین میں شمار کیا اور ان سے جہاد کیا کیونکہ وہ زکوٰۃ ادا نہیں کرتے تھے اور ان میں سے بعض کا یہ موقف تھا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد کسی اور کو زکوٰۃ نہیں دی جائے گی۔
نماز کے تارک اور دین یا سنت نبوی کا مذاق اڑانے والے کے بارے میں للجنہ نے یوں فتویٰ دیا۔
’’نماز کو جان بوجھ کر ترک کرنے والا اگر نماز کا منکر ہے تو اس کے متعلق علماء اسلام کا اجماع ہے کہ وہ کافر ہو جاتا ہے اور اگر سستی کی وجہ سے ترک کرے تو اس کے متعلق بھی صحیح قول یہی ہے کہ وہ کافر ہے اور جو شخص دین اسلام کا مذاق اڑائے یا کسی ایسی سنت کو نشانہ تضحیک بنائے جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے ثابت ہے مثلاً پوری داڑھی رکھنا ،کپڑا ٹخنوں سے اوپر یا آدھی پنڈلی تک رکھنا اور اسے معلوم بھی ہو کہ یہ واقعی سنت ہے، تو وہ کافر ہو جاتا ہے اور جو شخص کسی مسلمان کا محض اس لیئے مذاق اڑائے کہ وہ اسلام کے احکام کا پابند ہے تو ایسا شخص بھی کافر ہوتا ہے ۔‘‘(فتاویٰ دارالافتاء جلد دوم ص ۳۵)
 

ابن قدامہ

مشہور رکن
شمولیت
جنوری 25، 2014
پیغامات
1,772
ری ایکشن اسکور
428
پوائنٹ
198
کوئی شخص آپ کے رشتہ داروں میں ہے تو اس کی وراثت بھی نہیں لیں گے اور نہ اسے دیں گے؛ نہ اس کا ذبیحہ جائز ہو گا۔
سعودی عرب کی اللّجنۃ الدائمہ للبحوث العلمیہ والافتاء (جس کے رئیس الشیخ عبدالعزیز بن عبداللہ بن باز رحمتہ اللہ علیہ تھے)کے چند فتوے ملاحظہ فرمائیں:
’’جو شخص نماز پڑھے ،روزے رکھے اور ارکان اسلام پر عمل کرے مگر اس کے ساتھ وہ مُردوں، غیر حاضر بزرگوں اور فرشتوں وغیرہ کو مدد کے لیے پکارے، وہ مشرک ہے اور اگر وہ نصیحت کو قبول نہ کرے اور مرتے دم تک اس عقیدے پر رہے تو اُسکی موت شرک پرہے۔ اس کا شرک ’’شرک اکبر‘‘ ہے جو اسے اسلام سے ہی خارج کر دیتا ہے۔ اُسے نہ تو مرنے کے بعد غسل دیا جائے گا اور نہ ہی اس کی نماز جنازہ پڑھی جائے گی اور نہ ہی اسے مسلمانوں کے قبرستانوں میں دفن کیا جائے گا اور نہ اس کیلئے مغفرت کی دعا کی جائے گی اور نہ ہی اس کی اولاد ،والدین اور بھائی، اگر مو ّحدین ہوں، اُس کے وارث ہوں گے۔‘‘ [فتوی نمبر6972]
’’جو شخص اللہ کی توحید اور نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی رسالت کی گواہی دیتا ہے اور ان کے تقاضوں کے مطابق عمل کرتا ہے پس وہ مسلم و مومن ہے۔ اور جو شرکیہ اقوال یا شرکیہ افعال کرتا ہے جو کلمہ کے منافی ہیں پس وہ کافر ہے اگرچہ کلمہ پڑھے ، نماز ادا کرے اور روزہ رکھے۔ جیسا کہ مُردوں کو مشکلات میں پکارتا ہے، ان کی تعظیم میں قربانی کرنا ہے ایسے شخص کا ذبیحہ کھانا جائز نہیں۔ ‘‘[فتوی نمبر10685، فتاویٰ اللجنہ جمع و ترتیب احمد بن عبد الرزاق الدویش]

شیخ ابن عثیمین رحمہ اللہ کہتے ہیں:

"جو شخص نماز نہیں پڑھتا اسکے ہاتھ کا ذبح کیا ہوا جانور نہیں کھایا جائے گا، اسکی کیا وجہ ہے؟ اس لئے کہ یہ حرام ہے، اور اگر یہودی یا عیسائی ذبح کردے تو وہ ہمارے لئے حلال ہے، تو اس طرح سے –نعوذ باللہ- بے نمازی کا ذبیحہ یہودی اور عیسائی کے ذبیحہ سے بھی زیادہ خبیث ہے"انتہی

"مجموع فتاوى ورسائل ابن عثيمين" (12 /45)
 

طاہر اسلام

سینئر رکن
شمولیت
مئی 07، 2011
پیغامات
843
ری ایکشن اسکور
732
پوائنٹ
256
السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ!
حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ صَالِحٍ حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ وَهْبٍ أَخْبَرَنِى عَمْرٌو عَنْ بَكْرِ بْنِ سَوَادَةَ الْجُذَامِىِّ عَنْ صَالِحِ بْنِ خَيْوَانَ عَنْ أَبِى سَهْلَةَ السَّائِبِ بْنِ خَلاَّدٍ – قَالَ أَحْمَدُ – مِنْ أَصْحَابِ النَّبِىِّ -صلى الله عليه وسلم- أَنَّ رَجُلاً أَمَّ قَوْمًا فَبَصَقَ فِى الْقِبْلَةِ وَرَسُولُ اللَّهِ -صلى الله عليه وسلم- يَنْظُرُ فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ -صلى الله عليه وسلم- حِينَ فَرَغَ « لاَ يُصَلِّى لَكُمْ ». فَأَرَادَ بَعْدَ ذَلِكَ أَنْ يُصَلِّىَ لَهُمْ فَمَنَعُوهُ وَأَخْبَرُوهُ بِقَوْلِ رَسُولِ اللَّهِ -صلى الله عليه وسلم- فَذَكَرَ ذَلِكَ لِرَسُولِ اللَّهِ -صلى الله عليه وسلم- فَقَالَ « نَعَمْ ». وَحَسِبْتُ أَنَّهُ قَالَ « إِنَّكَ آذَيْتَ اللَّهَ وَرَسُولَهُ »
’’ابو سھلہ سے مروی ہے کہ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم میں سے ایک شخص نے کچھ لوگوں کی امامت کروائی۔ اس نے قبلہ کی طرف تھوکا ۔ اس وقت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم دیکھ رہے تھے۔ تو جب وہ فارغ ہوا تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ آئندہ وہ تمہیں نماز نہ پڑھائے۔ تو جب اس نے دوبارہ نماز پڑھانا چاہی تو صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے منع کردیا اور انھیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان بتایا۔ اس کے بعد اس شخص نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے اس کے متعلق پوچھا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے بھی تائید کردی۔ راوی کہتے ہیں کہ میرا خیال میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ آپ نے اللہ اور اس کے رسول کو تکلیف دی ہے‘‘
(سنن أبي داؤد،كتاب الصلوة، باب في کراهية البزاق في المسجد)
نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے کافر قرار دے کر اسے امام بنانے سے منع کیا تھا؟ اور کیا اس شخص پر تمام کافروں والے احکام وارد کر دیئے تھے؟
  • ماشاءاللہ بڑی اچھی بات ہے کہ آپ نے حدیث پیش کر کے استدلال کی کوشش کی اور سوال اٹھایا؛اب دیکھیے یہاں دو باتیں ہیں:
  • پہلی یہ کہ امام بنانا اور بات ہے اور اس کے پیچھے پڑھی گئی نماز کا ہونا یا نہ ہونا بالکل ایک علاحدہ چیز؛اب دیوبندی یا بریلوی مسجد میں امام بنانا کیا اہل حدیث کے اختیار میں ہے؟؟
  • دوسری بات یہ کہ یہاں جس نوعیت کی چیز پر اسے امامت سے منع کیا گیا ہے ،کیا اس سے بڑھ کر اس طرح کی چیزیں کیا بعض اہل حدیث اماموں میں نہیں پائی جاتیں؟؟اور کیا اگر آپ کو علم ہو جائے کہ ایک اہل حدیث امام نے قبلہ رخ تھوکا ہے یا اس سے بھی بڑھ کر قبیح حرکت کا مرتکب ہوا ہے ،تو کیا آپ اس کو امامت سے ہٹانے کی مہم شروع کر دیں گے؟؟اصل میں اس نے عین حالت نماز میں تھوکا تھا جو بے حد قبیح حرکت تھی اور رسول اللہ ﷺ نے اس سے روکا ہے کہ حالت نماز میں قبلہ رخ تھوکا جائے؛آپ ﷺ نے یہ بھی فرمایا کہ تو نے اللہ اور رسول کو اذیت دی ہے؛تو یہ ہے اس کا پس منظر۔ جس سے معلوم ہوتا ہے کہ اس حدیث کا اصل مقصود آداب نماز اور نظافت و نفاست سے متعلقہ چیزیں ہیں ۔عقائد کا معاملہ یک سر مختلف ہے؛اس میں استدلال ہوتا ہے جس میں غلطی کا امکان ہوتا ہے؛تاویل کی گنجایش ہوتی ہے؛اگر آپ کے استدلال کو لیا جائے کہ اس میں عموم ہے تو بتلائیے کہ قبلہ رخ تھوکنا زیادہ قبیح ہے یا ایک صحابیِؓ رسول کے قتل پر آمادہ ہو جانا اور مدینۂ رسولﷺ میں فتنہ بپا کر دینا زیادہ بڑا جرم ہے لیکن دیکھ لیجیے کہ خود صحابہؓ انھی قاتلوں ، مجرموں اور فتنہ بازوں کے پیچھے نمازیں پڑھ رہے ہیں جس سے ثابت ہوتا ہے کہ مذکورہ حدیث سے یہ عمومی استدلال نادرست ہے کہ اس سے دیگر فرقوں کے پیچھے نماز نہیں ہوتی۔
  • اور جو میں نے سوال اٹھایا ہے ،وہ اس لیے کہ یہاں بعض لوگ کہپہ رہے ہیں کہ بریلوی اور شیعہ مشرک ہیں تو جب ان کی عبادت ہی مقبول نہیں تو ان کے پیچھے نماز کیسے درست ہو گی؟تو یہاں شرک کو مانع بنایا گیا ہے؛اگر یہ نماز کے لیے مانع ہے تو پھر باقی چیزوں کے احکامت بھی اس پر لاگو ہوں گے؛امید کچھ بات واضح ہوئی ہو گی۔
  • اور آخر میں اگر آپ عالم نہیں بل کہ محض کاپی پیسٹ پر گزارا کرتے ہیں تو میری برادرانہ گزارش ہے کہ آپ کو جس موقف پر اطمینان ہے اور جس حد تک وہ آپ کے فہم میں آتا ہے اس پر عمل کریں لیکن اس پر دوسروں سے الجھنے سے باز رہیں؛البتہ اگر آپ کے ذہن میں اشکال ہیں اور اپ محض تفہیم مزید چاہتے ہیں تو سوالات کی صورت میں بات کر سکتے ہیں نہ کہ مناظرہ اور مجادلہ کے اسلوب میں؛جزاکم اللہ خیراً
 

طاہر اسلام

سینئر رکن
شمولیت
مئی 07، 2011
پیغامات
843
ری ایکشن اسکور
732
پوائنٹ
256
مسئلہ کا ایک پہلو تو یہ کہ اہل حدیث ۔۔دیوبندیوں ،بریلویوں کو کیاسمجھتے ۔کافر ۔مشرک ۔گمراہ ۔بدعتی ۔۔یا۔۔محض اجتہادی مسائل میں خطاکار

دوسرا پہلو یہ ہے ۔دیوبندی ،بریلوی ۔اہل حدیث کو کیا سمجھتے ہیں ۔کیا محض اجتہادی ،عملی مسائل میں غلطی پر سمجھتے ہیں ۔۔یا۔۔چھوٹا رافضی وغیرہ جیسے القابات سے نوازتے ہیں ؛۔ اور پوری امت کے مقابل باور کرواتے ہیں ؛
یہ دونوں پہلو سامنے رکھنا بہت ضروری ہے ؛؛۔ خاص طور پر دوسرا پہلو

اگر کوئی مقلد ۔۔۔ اہل حدیث کو گمراہ کہتا ہے، اور فرمایا کرتا ہے کہ ’’ غیر مقلد کی اقتداء میں نماز نہیں ہوتی تو ۔۔ترکی بترکی ۔۔ہونا لازم ہے ؛
چاہے ۔۔ایسا کہنے والا مقلد چاہے کتنا ۔۔معتبر اور بڑا کیوں نہ ہو ؛۔
اس میں مفتی کے فتوی کی ضرورت پیش ہی نہیں آئے گی ؛ سارا فلسفہ اور دلیل دھری کی دھری رہ جائے گی ؛
یہ بھی غلط انداز ہے؛اگر وہ غلطی کر رہا ہے تو مجھے یہ حق کیسے حاصل ہو گیا کہ میں بھی وہی غلطی دہراؤں؛امام ابن تیمیہؓ نے اس حوالے سے لکھا ہے کہ اگر بدعتی گروہ ہمیں کافر یا فاسق کہیں تو ہمیں یہ حق نہیں کہ ہم انھیں صرف اس بنا پر کافر یا فاسق کہیں؛حوالہ پیش کر دیا جائے گا بہ وقت ضرورت یا عند الطلب؛ان شاءاللہ
 

طاہر اسلام

سینئر رکن
شمولیت
مئی 07، 2011
پیغامات
843
ری ایکشن اسکور
732
پوائنٹ
256
سعودی عرب کی اللّجنۃ الدائمہ للبحوث العلمیہ والافتاء (جس کے رئیس الشیخ عبدالعزیز بن عبداللہ بن باز رحمتہ اللہ علیہ تھے)کے چند فتوے ملاحظہ فرمائیں:
’’جو شخص نماز پڑھے ،روزے رکھے اور ارکان اسلام پر عمل کرے مگر اس کے ساتھ وہ مُردوں، غیر حاضر بزرگوں اور فرشتوں وغیرہ کو مدد کے لیے پکارے، وہ مشرک ہے اور اگر وہ نصیحت کو قبول نہ کرے اور مرتے دم تک اس عقیدے پر رہے تو اُسکی موت شرک پرہے۔ اس کا شرک ’’شرک اکبر‘‘ ہے جو اسے اسلام سے ہی خارج کر دیتا ہے۔ اُسے نہ تو مرنے کے بعد غسل دیا جائے گا اور نہ ہی اس کی نماز جنازہ پڑھی جائے گی اور نہ ہی اسے مسلمانوں کے قبرستانوں میں دفن کیا جائے گا اور نہ اس کیلئے مغفرت کی دعا کی جائے گی اور نہ ہی اس کی اولاد ،والدین اور بھائی، اگر مو ّحدین ہوں، اُس کے وارث ہوں گے۔‘‘ [فتوی نمبر6972]
’’جو شخص اللہ کی توحید اور نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی رسالت کی گواہی دیتا ہے اور ان کے تقاضوں کے مطابق عمل کرتا ہے پس وہ مسلم و مومن ہے۔ اور جو شرکیہ اقوال یا شرکیہ افعال کرتا ہے جو کلمہ کے منافی ہیں پس وہ کافر ہے اگرچہ کلمہ پڑھے ، نماز ادا کرے اور روزہ رکھے۔ جیسا کہ مُردوں کو مشکلات میں پکارتا ہے، ان کی تعظیم میں قربانی کرنا ہے ایسے شخص کا ذبیحہ کھانا جائز نہیں۔ ‘‘[فتوی نمبر10685، فتاویٰ اللجنہ جمع و ترتیب احمد بن عبد الرزاق الدویش]

شیخ ابن عثیمین رحمہ اللہ کہتے ہیں:

"جو شخص نماز نہیں پڑھتا اسکے ہاتھ کا ذبح کیا ہوا جانور نہیں کھایا جائے گا، اسکی کیا وجہ ہے؟ اس لئے کہ یہ حرام ہے، اور اگر یہودی یا عیسائی ذبح کردے تو وہ ہمارے لئے حلال ہے، تو اس طرح سے –نعوذ باللہ- بے نمازی کا ذبیحہ یہودی اور عیسائی کے ذبیحہ سے بھی زیادہ خبیث ہے"انتہی

"مجموع فتاوى ورسائل ابن عثيمين" (12 /45)
لیجیے ؛یہ تو اپ نے میرے ہی حق میں دلیل پیش کر دی؛اب آپ بتلائیے کہ کیا ہم یہاں بے نمازوں کے ساتھ یہی معاملہ کر رہے ہیں؟؟اور ان علما نے جب بے نمازی کو کافر کہا ہے تو اس پر کفر کے تمام احکامات لاگو کیے ہیں لیکن سوال تو یہ ہے کہ جو عالم ان کی راے سے متفق ہی نہیں اور ان فرقوں کو کافر سمجھتا ہی نہیں ،وہ نماز کو بھی جائز کہے گا جیسا کہ تارک نماز کے بارے میں علماے اہل حدیث کی اکثریت اسے کفر اکبر کا مرتکب قرار نہیں دیتی اور نتیجتاً اس پر یہ تمام احکام بھی لاگو نہیں کرتی؛تو میرا سوال یہ ہے کہ کیا آپ بریلوی یا شیعہ کو اسی طرح کا کافر سمجھتے ہیں کہ ان پر یہ تمام احکامات لاگو ہوں گے؟؟
اس اقتباس سے آپ کا استدلال کیا ہے؟؟میں تو نہیں سمجھا۔
 
Top