• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

بدعت کی حقیقت

ساجد تاج

فعال رکن
شمولیت
مارچ 09، 2011
پیغامات
7,174
ری ایکشن اسکور
4,517
پوائنٹ
604
اہل بدعت کا رد اور اہل بدعت کا انجام
سنن دارمی میں عمر بن یحیٰیؒ کہتے ہیں کہ میں نے اپنے باپ سے سنااور وہ اپنے والد سے بیان کرتے ہیں۔
ہم عبداللہ بن مسعودؓ کے دروازہ پر صبح کی نماز سے پہلے بیٹھا کرتے تھے جب وہ نکلتے تو ان کے ساتھ مسجد میں جاتے ایک دن انتظار میں بیٹھے تھے کہ ابو موسٰی اشعریؓ تشریف لائے اور فرمایا کیا ابوعبدالرحمن(عبداللہ بن مسعودؓ)نکلے؟ ہم نے کہا نہیں آپ بھی ہمارے ساتھ بیٹھ گئے۔
جب عبداللہ بن مسعودؓ نکلے تو ہم سب اٹھ کر اس کی طرف بڑھے ابوموسٰی اشعریؓ نے کہا۔اے ابوعبدالرحمن میں نے اب مسجد میں ایک کام دیکھا ہے۔الحمدللہ ہے وہ اچھا کام ۔
عبداللہ بن مسعودؓ نے فرمایا کیا ہے؟
ابو موسٰیؓ نے کہااگر زندگی رہی تو عنقریب دیکھ لو گے پھر بولے میں نے لوگوں کو حلقے باندھے دیکھاہے بیٹھ کر نماز کا انتظار کر رہے ہیں ہر حلقہ میں ایک آدمی ہے اس کے آگے سنگریزے ہیں وہ کہتا ہے کہ سو دفعہ تکبیر کہوپس وہ سو دفعہ تکبیر کہتے ہیں پھر وہ کہتا ہے سو دفعہ لاالہ الا اللہ پڑھو وہ سو دفعہ لاالہ الااللہ پڑھتے ہیں۔پھر کہتا ہے سو دفعہ تسبیح پڑھووہ سو دفعہ تسبیح یعنی سبحان اللہ کہتے ہیں۔
عبداللہ بن مسعود نے کہا۔تم نے انہیں کیا کہا؟ابو سوسٰی ؓنے کہاکچھ نہیں آپ کی رائے کا انتظار ہے عبداللہ بن مسعود ؓ نے کہا۔تم نے انہیں یہ کیوں نہیں کہا کہ وہ اپنی برائیاں شمارکریں میں اس بات کا ضامن ہوں کہ ان کی نیکیاں ضائع نہیں ہوں گی پھر عبداللہ بن مسعود ؓاور ہم چلے یہاں تک کہ آپ نے ان حلقوں سے ایک حلقے پر آکر کہاکیا کررہے ہو؟وہ بولے اے ابو عبدالرحمن ہم سنگریزوں پر تکبیرتہلیل اور تسبیح شمارکر رہے ہیں۔
عبداللہ بن مسعود ؓنے فرمایا:اپنی برائیاں شمارکرو نیکیوں کا میں ضامن ہوں کہ وہ ضائع نہیں ہونگی۔افسوس ہے تم پر اے امت محمدﷺکہ کس قدرجلد برباد ہو رہے ہو۔تمہارے نبی ﷺکے صحابہ کس قدرموجود ہیں اور ابھی آپ ﷺکے کپڑے بھی بوسیدہ نہیں ہوئے نہ برتن ٹوٹے ہیں اس ذات کی قسم جس کے قبضہ قدرت میں میری جان ہے یا تو تمہارا طریقہ محمدﷺ کے طریقے سے بہتر ہے یا تم گمراہی کا دروازہ کھولنے والے ہووہ بولے اے اباعبدالرحمن ہم تو خیر کا ارادہ رکھتے ہیں۔
عبداللہ بن مسعودؓ نے فرمایابہت سے لوگ خیر کا ارادہ رکھتے ہیں مگر ان کو خیر حاصل نہیں ہوئی
رسول اللہ ﷺنے ہمیں خبر دی تھی(عنقریب)ایک قوم ہوگی جو قرآن پڑھے گی مگر قرآن ان کے حلق سے نیچے نہیں اترے گا۔میرے علم میں وہ اکثر لوگ تم ہی سے ہونگے یہ کہ کرلوٹ آئے۔
عمربن سلمۃ کہتے ہیں۔ہم نے ان حلقوں کے اکثر آدمیوں کو دیکھانہروان کے دن(جب علیؓ خوارج سے لڑے)خوارج کی طرف ہو کر ہم کو نیزے مارتے تھے۔ انتھٰی
عبداللہ بن مسعودؓ اور ابوموسٰی اشعر ی جو دربار نبوی کے فارغ التحصیل تھے تکبیر،تہلیل اور تسبیح کو(جو نئے طریقے پر کہی جار ہی تھی) گمراہی کہ رہے ہیں اور اس بدعت کو امت کی تباہی کاسبب قرار دے رہے ہیں اور رسول اللہﷺ نے جو خوارج کے متعلق پیشین گوئی فرمائی تھی انہیں پر چسپاں کر رہے ہیں۔حالانکہ وہ جو کام کر رہے تھے اصل میں نیک اور مشروع تھا۔ صرف اس کا طریقہ نیا تھااور وہ یہ بھی کہہ رہے ہیں کہ ہمارا ارادہ نیک ہے ۔
اس سے صاف معلوم ہوتا ہے کہ بعض طریقے اور ڈھنگ اس قسم کے ہیں اگر ان کا التزام بھی نہ کیا جائے پھر بھی ممنوع ٹھہرتے ہیں کیونکہ عبداللہ بن مسعود ؓ نے اس نئے طریقے کی بنا پراس ذکر کو بدون ذکر اصرارودوام اور التزام کے ممنوع قرار دیا ہے کیونکہ ممانعت کی اصل وجہ نئے کام کی تحری اور قصد ہے۔بعض جگہ تحری اور قصد اصرار اور التزام سے سمجھا جاتا ہے اور بعض جگہ خاص طریقہ کے نکالنے سے بدون اصراروالتزام کے بھی اس کا پتہ چل جاتا ہے کیونکہ خاص طریقہ نکالنے کیلئے کسی باعث کی ضرورت ہوتی ہے وہ مصلحت قدیمتہ ہوتی ہے۔جس کو شارع علیہ الصلوۃ والسلام نے نظر انداز کرکے اس کے خلاف سنت ترکیہ جاری فرمائی ہوتی ہے۔
پس ایسے طریقے کے ایجاد کرنے میں ایک قسم کی تشریح یعنی شریعت مقرر کرنے کا وہم پڑتاہے اور اس کی ممانعت کی یہی وجہ ہے۔
 

ساجد تاج

فعال رکن
شمولیت
مارچ 09، 2011
پیغامات
7,174
ری ایکشن اسکور
4,517
پوائنٹ
604
اہل بدعت کے ردکی حدیث ضعیف ہے؟
بعض اہل بدعت نے اس حدیث پر اعتراض کیا ہے کہ یہ حدیث ضعیف ہے اور عبداللہ بن مسعودؓ کی دوسری حدیث جس میں ذکر ہے کہ آپ ہر خمیس(جمعرات)وعظ فرمایا کرتے تھے یعنی وہ خود ایسی تخصیص وتعیین کے قائل تھے جو ثابت نہیں وہ منع کیسے کرتے ۔
اس کے جواب میں ہمارے شیخ المحدث محمد گوندلویـ(ؒ الاصلاح ص۴۲) میں رقمطرازہیں۔
فرماتے ہیں۔ ایک حدیث کسی دوسری حدیث کے مخالف ہونے سے ضعیف نہیں ٹھہرتی۔بلکہ سند کو دیکھا جاتا ہے۔اگر راوی سب ثقہ ہوں اور صحت کے باقی شرائط بھی پائے جائیں۔تو حدیث صحیح ہوگی اور مخالف ہونے کی صورت میں اگر واقعی مخالف ہو اور معارض حدیث سے کسی وجہ سے کمزور ہو تو مرجوح ہوگی مگر یہاں معاملہ کچھ اورہی ہے۔نہ یہ حدیث دوسری حدیث کے معارض ہے اور نہ اس کے سند میں کوئی ضعف ہے۔
اس کی سند اس طرح ہے۔أخبرناالحاکم بن المبارک أخبرنا عمربن یحییٰ قال سمعت أبی یحدث عن أبیہ قال کنانجلس علی باب عبداللّٰہ الخ
الحاکم صدوق ربما اخطأ(تقریب)ذکرہ ابن حیان فی الثقات(تہذیب)
عمرو کاباپ یحيٰ بن سعید اور یحيٰ کا باپ سعیدسب ثقہ ہیں۔(تقریب)
جب راوی سب ثقہ ہیں اور سندمیں بھی کسی قسم کاانقطاع نہیں ہے تو حدیث قابل احتجاج ہوئی۔ باقی رہا حدیث کا معارض ہوناتو یہ دو امر پر موقوف ہے۔ ایک یہ کہ وعظ اور ذکر دونوں ایک ہی قسم سے ہیں۔دوسری یہ کہ خمیس کی تخصیص عبداللہ بن مسعودؓ نے اپنی طرف سے کی ہو۔یہ دونوں امر ثابت نہیں۔
پھر وعظ مبادی میں داخل ہے اور ذکر عبادت میں۔پس ایک کو دوسرے پر قیاس کرنا قیاس مع الفارق ہے جو درست نہیں بلکہ الگ الگ قسم کے ہیں۔دوسرے امر کے متعلق عرض ہے کہ جب پہلا امرمتحقق نہ ہواتو اب دوسرے امرمیں بحث کی ضرورت نہیں مگر واقعہ کی تحقیق کے لئے ہم کچھ لکھتے ہیں۔
امام بخاری ؒکی تبویب اور عبداللہ بن مسعودؓ کے استدلال سے معلوم ہوتاہے کہ وعظ کیلئے ایام کی تخصیص رسول اللہﷺسے ثابت ہے خواہ خمیس(جمعرات) کی تخصیص دلیل خاص سے ہویا عام سے۔
 

ساجد تاج

فعال رکن
شمولیت
مارچ 09، 2011
پیغامات
7,174
ری ایکشن اسکور
4,517
پوائنٹ
604
بدعت سنت کی رافع ہوتی ہے (حدیث)
عبداللہ بن مسعودؓ سے ایک روایت ہے فرماتے ہیں اس وقت تمہارا حال کیا ہوگاجب تم میں فتنہ اٹھ کھڑا ہو گا(یعنی بدعت کی کثرت ہوگی)اس میں بڑے بوڑھے اور چھوٹے بڑے ہوجائیں گے۔ لوگ اس کو سنت بنا لیں گے جب اس (بدعت)کو بدلاجائے گا تو کہیں گے سنت بدل گئی یعنی بدعت کو سنت سمجھیں گے اور سنت کی جگہ بدعت پر عمل کریں گے۔(دارمی)
جب کسی تخصیص وتقیید میں یہ خیال پیدا ہونے لگے یا اس کے پیدا ہونے کا احتمال ہو کہ یہ سنت ہے تو اس وقت ایسی تخصیص شریعت حقہ میں تحریف سمجھنی چاہیے اور یہ بات بالکل واضح ہے کہ شریعت حقہ کی تحریف حرام ہے اور حرا م کا ذریعہ بھی حرام ہوتاہے۔پس ایسی تخصیص کا نکالنااور اس پرعمل کرنابھی حرام ہو گا۔الاصلاح ص۴۲۔۴۳ج۲
حدیث مبارکہ کی مزید وضاحت
حافظ محدّث محمدعبداللہ روپٹری ؒردبدعات ص۳۰ پر فرماتے ہیں۔دیکھئے یہ لوگ نماز کی انتظار میں ذکر خیر کررہے تھے اور یہ کام بالکل نیک ہے۔صرف اتنی بات انھوں نے زیادہ کی تھی کہ سو سو کنکر ہاتھوں میں ہیں اور ایک شخص درمیان میں بیٹھا کہتاہے کہ پڑھو تو پڑھتے ہیں اور بظاہر اس میں کوئی حرج محسوس نہیں ہوتامگر عبادت میں تھوڑی سی رائے کادخل بھی بُراہے۔اس لیے اس کا اثر آخر یہ ہوا کہ یہ لوگ خارجی ہوگئے۔اب جو لوگ اسقاط کرتے ہیں یا قبر سے چالیس قدم پر دعا کرتے ہیں یانماز جنازہ کے بعد دفن سے پہلے دعاکرتے ہیں یا میت کے گھر جمع ہوتے ہیں یا لاالہ الااللہ کا ذکر اپنی نئی طرز پر کرتے ہیں یا اس قسم کے اور کام کرتے ہیں ان کو اپنی فکر کرنی چاہیے۔اللہ تعالیٰ کسی مسلمان کا سوء خاتمہ نہ کرے اور موت سے پہلے پہلے سنت نبویﷺ پر قائم ہونے کی توفیق بخشے ،آمین
 

ساجد تاج

فعال رکن
شمولیت
مارچ 09، 2011
پیغامات
7,174
ری ایکشن اسکور
4,517
پوائنٹ
604
عبداللہ بن مسعودؓ کے فرمان کی مزید تائید
بدعت کی حقیقت کے مؤلّف نے اس حدیث پر ضعف کا حکم لگایا ہے لیکن وجہ ضعف صرف عمر بن یحیی کے متروک ہونے کو بتایا ہے اور یہ اصل مأخذ کی طرف مراجعت نہ کرنے سے مغالطہ ہواہے امید ہے کہ گزشتہ بحث سے مغالطہ دور ہو جائے گا مزید اشکال کاجو دوسری حدیث کے معارض ہونے کاہے تدارک بھی ہو چکاہے۔الحمدللہ اب یہاں اس ضمن میں دیگر روایات ذکر کی جاتی ہیں۔
جنہیں صیانۃ الانسان فی ردّ وسوسۃ شیخ دحلان میں صفحہ ۳۱۹،۳۲۰،۳۲۱، پر نقل فرمایا ہے۔شیخ محمد بشیر سھسوانی ؒ لکھتے ہیں کہ مختلف سیاق سے اس مذکورالصدرواقعہ کو علامہ ھیثمی ؒنے مجمع الزوائد میں طبرانی کبیر سے نقل کیاہے۔
فرماتے ہیں اس میں مجالد بن سعید ہے جسے امام نسائی ؒنے ثقہ کہاہے اور امام بخاری ؒاور احمدبن حنبلؒ اور یحییؒ نے ضعیف کہاہے اور ابوالبختری سے روایت ہے انہوں نے کہا کہ عبداللہ بن مسعوؓد کو یہ بات پہنچی کہ کچھ لوگ مسجد میں مغرب اور عشاء کے درمیان بیٹھتے ہیں اور کہتے ہیں ایسے ایسے کہو(تو وہ ویسے ہی پڑھتے ہیں) عبداللہ بن مسعودؓنے فرمایا اگر وہ ایسا کریں تو مجھے اطلاع دینا جب وہ بیٹھے تو آپ کے پاس اطلاع لائے۔تو آپ ان کے ساتھ چل دیے۔چنانچہ آپ بیٹھے کہ آپ پربرنس( ٹوپی) تھی تو وہ اپنی تسبیح میں مشغول ہو گئے۔آپ نے اپنے سر سے برنس سرکائی اور کہامیں عبداللہ بن مسعودؓ ہوں وہ خاموش ہو گئے تو فرمایا:تم نے ظُلم کرتے ہوئے بدعت کا ارتکاب کیاہے اگر ایسا نہیں تو گویا ہم محمدﷺکے اصحاب گمراہی پر ہیں اس پر عمر بن عتبہ بن فرقد نے کہا اے عبداللہ بن مسعودؓمیں اس سے اللہ کی پناہ مانگتا ہوں اور اس کی بارگاہ میں توبہ کرتا ہوں۔
عبداللہ بن مسعودؓ نے انہیں کہا کہ بکھر جائیں،منتشر ہو جائیں راوی نے کہا ہے کہ عبداللہ بن مسعودؓنے مسجد کوفہ میں دو حلقے دیکھے تو آپ ان کے درمیان کھٹرے ہو گئے اور فرمایا کہ تم دونوں گروہوں میں سے پہلے کون بیٹھے ہیں ان میں سے ایک نے کہا ہم! تو آپ نے دوسرے حلقے والوں سے کہا،اٹھو اور ان کے ساتھ شامل ہوجاؤآپ نے انہیں ایک جگہ کردیا اس کو طبرانی نے معجم الکبیر میں روایت کیا ہے۔
اس میں عطاء بن السائب ہیں جو ثقہ ہیں البتہ انہیں اختلاط ہو گیا تھا۔
عمرو بن سلمہ نے فرمایا کہ ہم ابن مسعودؓ کے دروازے پر مغرب اور عشاء کے درمیان بیٹھے تھے تو ابو موسٰی اشعریؓ تشریف لائے اور فرمایا۔کیا ابو عبدالرحمن عبداللہ بن مسعودؓ باہر تشریف لائے؟ تو عبداللہ بن مسعودؓ برآمد ہوئے اور کہااے ابو موسٰی ؓ اس وقت کس سبب سے آنا ہوا؟انہوں نے کہا نہیں اللہ کی قسم مگر میں نے ایک ایسا کام دیکھا ہے جس نے مجھے پریشان کر دیااور بلاشبہ خیرہے اور مجھے اس چیز نے پریشان کردیا کہ وہ خیر اور بھلائی کا کام ہے ،لوگ مسجد میں بیٹھے ہوئے ہیں۔ایک آدمی کہتاہے اتنی مرتبہ تسبیح پڑھو،اتنی مرتبہ الحمدللہ پڑھو کہا کہ عبداللہ بن مسعودؓ چل پڑے اور ہم بھی ان کے ساتھ چل دیے تا آنکہ آپ ان کے پاس آئے اور فرمایا کتنی جلدی تم گمراہ ہو گئے !جبکہ اصحاب محمدﷺابھی زندہ ہیں اور آپ کی أزواج مطھرات بڑھاپے میں ہیں اور آپ کے کپڑے اورمکان ابھی نہیں بدلے، اپنے گناہ شمار کرو میں اللہ کے ہاں تمہارا ضامن ہوں کہ تمہاری نیکیاں گن رکھے۔​
 

ساجد تاج

فعال رکن
شمولیت
مارچ 09، 2011
پیغامات
7,174
ری ایکشن اسکور
4,517
پوائنٹ
604
اور طبرانی کے بعض صحیح اور مختصر طُرق میں یوں روایت ہے۔ کہ عبداللہ بن مسعودؓ منہ ڈھانپے ہوئے آئے اور فرمایاجو مجھے جانتا ہے وہ تو جانتا ہے اور جو نہیں جانتا تو میں عبداللہ بن مسعود ہوں۔ تم محمدﷺ اورآپ کے اصحاب سے یا تو بلا شبہ زیادہ ہدایت یافتہ ہویاتم ضلالت وگمراہی کے گناہ سے چمٹے ہوئے ہوئے ہو اور ایک روایت میں عطاء بن السائب نے بتایا کہ عبداللہ بن مسعودؓنے فرمایا اگر تم قوم یعنی اصحاب رسول ﷺکی پیروی کرو تو وہ تم سے بہت واضح سبقت لے گئے ہیں اور اگر تم دائیں بائیں راستوں کو اختیار کروتوتم دور کی گمراہی میں مبتلاہو۔
عبداللہ بن مسعودؓ کے انتباہ سے یہ واضح ہے کہ وہ بشمول ابوموسٰی شعریؓکے اپنا اور اصحاب محمد ﷺ کا اعتقادعمل صراط مستقیم کے مطابق اتباع سنت کوہی جانتے اور مانتے ہیں اور کسی بظاہر نیک عمل کیلئے آپ ﷺ کی سنت کے مطابق نہ ہونے پر بدعت ضلالت کا حکم لگاتے ہیں اور اس پر زبان اور زمان نبوی علی صاحبھا الصلوۃ والسلام کے لحاظ سے نکیر فرماتے ہیں اور آپ کا یہ واقعہ سند اور متن کے لحاظ سے ثابت اور صحیح ہے۔والحمدللّٰہ علی ذالک
عمران بن حصینؓسے صحیح بخاری ومسلم میں رسول اللہﷺسے روایت کرتے ہیں کہ آپ نے فرمایا
خیرکُم قَرنی ثُمَّ الَّذِینَ یَلُونَھُم ثُمَّ الَّذِینَ یَلُونَھُم ثُم ّ انَّ بَعدھُم قَوماًیشھدون ولایستشھَدُونَ۔صحیح بخاری۹۵۱ ج۲
فرمایا، سب سے بہتر میرا زمانہ ہے پھر جو اس کے بعد ہیں اور پھر وہ جو اس کے بعد ہیں پھران کے بعد ایسی قوم ہو گی جو گواہی دے گی مگر ان سے گواہی طلب نہیں کی جائے گی۔
جس سے صاف معلوم ہوتاہے کہ آپ کا زمانہ اور آپ کے بعد کے دو زمانے تمام زمانوں سے بہترہیں پس جو امر اِن زمانوں میں رائج بلانکیر ہو وہ شر نہیں ہو سکتاورنہ لازم آئے گاکہ ان زمانوں میں بھی شر ہے حالانکہ ایسانہیں۔خیرالقرون میں صرف خیر ہے شر نہیں۔ رسول اللہﷺ کے زمانہ میں کسی چیز کے وجود کایہ معنی ہے کہ سنت قولی فعلی یا تقریری رسول اللہﷺ سے ثابت ہو۔ اور آپﷺ کے بعد قرون ثلاثہ میں وجود کے یہ معنی ہیں کہ بلانکیر اس پر تعامل جاری رہاہو۔یہ مطلب نہیں کہ کسی نے نادر طورپرعمل کیاہو یاجم غفیر نے کیا ہو مگر ان پر انکار ثابت ہو۔ایسے امور محدثات سے کسی صورت بھی خارج نہیں ہو سکتے۔ خیرالقرون میں خیریت کا یہی مطلب ہے کہ ان کے رواجات درست ہونگے یہ مطلب نہیں کہ اِن قرون کے ہر فرد کا ہر فعل ہی خیر ہے اورنسائی کی روایت کے لفظ ثُمَّ یَظھرُ الکَذِب سے بھی اس کی تائیدہوتی ہے کیونکہ یُوجدالکَذِب نہیں فرمایا بلکہ یَفشُویا یَظھرُ الکذِبُ فرمایاہے یعنی کذب شائع ہوگا پس قرون ثلاثہ کی خصوصیت صرف یہ ہے کہ ان میں کذب شائع نہیں ہوگااور اس کا مطلب یہ بھی نہیں کہ کذب کا وجود ہی نہیں ہو گا۔ اصل حق کیلئے ماَأناعَلیہِ واصحابی (کہ جس بات پر میرا اور میرے صحابہ کا عمل ہے)سے صحابہ کے اعمال کے خیر ہونے کی نص ملتی ہے۔
 

ساجد تاج

فعال رکن
شمولیت
مارچ 09، 2011
پیغامات
7,174
ری ایکشن اسکور
4,517
پوائنٹ
604
الأستاذمحمد گوندلوی ؒ فرماتے ہیں
نیز أصحابی جمع مکسّر معرفۃ کی طرف مضاف ہے اور یہ استغراق کا فائدہ دیتی ہے۔ پس استغراق حقیقی تو یہ ہے کہ جمیع صحابہ کااجماع ہو اور استغراق عرُفی یہ ہے کہ اکثرکا اس پر عمل ہو اور باقی خاموش ہوںخیرالقرون میں خیریت کا بھی یہی مطلب ہے۔
امام شافعی ؒ سے پوچھا گیاکہ دلیل کیا ہے فرمایا۔ کتاب وسنت اور اجماعِ صحابہ۔اس کی دلیل مانگی گئی تو فرمایا
وَمَن یُشاقِقِ الرَّسُولَ مِن بَعدِما تبَیَّنَ لَہُ الھُدٰی وَ یَتَّبِع غَیرَ سَبِیلِ المُومِنِینَ نُوَلِّہِ ما توَلّٰی وَنُصلِہِ جَھَنَّم وَ سائَ ت مصِیراً
اورجو مخالفت کرے اللہ کے رسول کی اس کے لئے ہدایت واضح ہو جانے کے بعداور مومنین کے راستہ سے ہٹ کر دوسری راہ چلے ہم اسے ادھرپھردیں گے جدھر پھرا اور اسے جہنم میں داخل کردیں گے اور وہ برا ٹھکاناہے۔تفسیر امام شافعیؒلِلبیھقی
من سن فی الاسلام سنۃ حسنۃفیعمل بھا بعدہ کتب لہ مثل أجر من عمل بھا ولا ینقص من أجورھم شیء ومن سن فی الاسلام سنۃ سیئۃ فعمل بھابعدہ کتب علیہ مثل وزرمن عمل بھا ولا ینقص من أوزارھم شیء صحیح مسلم شریف ج۲ ص۲۳۱
ترجمہ:۔ جس نے اسلام میں کوئی اچھا طریقہ اختیار کیا پھر اس طریقہ پر اس کے بعد بھی عمل کیاگیا تولکھا جائیگا اس کے لیے جتنا اجراس طریقہ پر عمل کرنے والے کو ملے گا اور عمل مرنے والوں کے اجر میں سے ذرہ برابر بھی کمی نہ کی جائے گی۔
اور جس شخص نے اسلام میں کوئی براطریقہ جاری کیا ۔پھر اس کے بعد اس برے طریقے پر عمل بھی کیا گیا۔تو جتنا گناہ عمل کر نے والے کو ملے گا۔اتناہی گناہ طریقہ جاری کرنے والے کو بھی ملے گا اور عمل کرنے والوں کے گناہ میں ذرہ بھی کمی نہ کی جائے گی۔
اس حدیثِ مبارکہ سے مولّف کی غلط فہمی کی یہ وجہ ہے کہ نبی کریم ﷺنے طریقہ کے اجراء اوراس کی سنیت کو مکلف کی طرف نسبت فرمائی ہے ،اگر اس میں شرع سے ثابت سنت مراد ہوتی اور اس پر عمل مراد ہوتاتو آپ مَن سنَّ(جس نے جاری کیا)نہ فرماتے۔بلکہ فرماتے جو زندہ کرے سنت کو یا سنت پرعمل کرے یعنی فرماتے مَن أحیٰ یا مَن عَملَ بِھا۔آپ ﷺ کی یہ حدیث بھی اس کی تائید کرتی ہے ما مِن نفس یُقتل ظلماً الی آخرالحدیث جو جان ظلماً قتل کی جائے گی مگر آدم ؑکے بیٹے پراس خون کے حصے کا گناہ ہوگا کیونکہ وہ پہلا شخص ہے جس نے قتل کو جاری کیا تو سَنَّ کے معنی یہاں ایجادواختراع کے ہیں۔
پس ایسے ہی پہلی حدیث میں ہے۔
 

ساجد تاج

فعال رکن
شمولیت
مارچ 09، 2011
پیغامات
7,174
ری ایکشن اسکور
4,517
پوائنٹ
604
ایک اورروایت
رسول اللہﷺنے فرمایا۔ترجمہ، کہ جو شخص بدعت و گمراہی کو اختراع کرے جو اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول کو ناپسند ہوتو اس پر اس کے گناہ کا بوجھ بھی ہوگا جس نے اس پر عمل کیاہوگااوریہ ان لوگوں کے گناہوں سے کچھ کمی نہ کرے گا(سنن ترمذیؒحدیث حسنٌ)
اس حدیث میں رسول اللہﷺ کے بدعت ضلالت اور بدعت گمراہی کے الفاظ سے بظاہر یہی معلوم ہوتاہے کہ اگر وہ گمراہی نہ ہو تو اس کا ایجاد واختراع کرنے والا قابل مذمت نہیں ہوگا۔
قارئین پہلے مکمل روایت ملاحظہ کریں پھر مولّف کی علمی خیانت کا فیصلہ فرمائیں کہ کس طرح سنت عمل کی ترغیب کو بدعت کے اختراع پہ محمول کررہے ہیں ۔
علامہ شاطبیؒ اس غلط فہمی اور شبہ کے د وطرح سے جواب دیتے ہیں
ملاحظہ کریں!
۱۔ زیربحث حدیث کے وارد ہونے کا سبب صدقہ کی مسنونیت کے بیان میں ہے اور لوگوں کو صدقہ کی ترغیب میں ہے اور صدقہ بالاتفاق مشروع ہے تو یہ اس کی دلیل ہے کہ من سن کے معنی من احیا کے ہیں اس سے مراد نئے سرے سے اختراع وایجاد نہیں ہے جیسے کہ حدیث جابر سے ورودِ حدیث کے سبب میں علامہ شاطبیؒ نے ذکر کیا ہے۔پس حدیث کا مفہوم یہ ہے جو شخص کسی سنت کو زندہ کرے جو میرے بعد مردہ ہوگئی ہو اس کو اس پرعمل کرنے والوں کے اجر کے برابر اجر ملے گااور یہ اس پر عمل کرنے والوں کے اجر سے کچھ بھی کم نہ کرے گا۔
۲۔من سن سنۃ حسنۃ(جو اچھی سنت جاری کرے)اور من سن سنۃ سیئۃ جو بر ی سنت جاری کرے اس کو بھی اختراع وایجاد پر محمول نہیں کیا جاسکتا کیونکہ حسن و قباحت شرعی حیثیت سے ہی ہوتا ہے اس میں عقل انسانی کو کچھ دخل نہیں ہے اور یہی اھل السنۃ والجماعۃ کا مذہب اور عقیدہ ہے۔
البتہ اھل بدعت عقلی تحسین وتقبیح اچھا یا برا ہونے کا نظریہ رکھتے ہیں۔لہذا اگر اس حدیث سے شرع میں سنت حسنتہ کے جاری کرنے اور سنت سئیہ کے جاری کرنے کو مراد لیا جائے تو یہ صرف صدقہ کے مذکورہ واقعہ پر ہی صادق آتی ہے اور یہ مشروع سنت ہے اورمشروع سنتوں کے جاری کرنے کی طرح ہے۔
جبکہ سنت سیئہ ان گناہوں پر منطبق ہوگی جن کا عندالشرع یعنی شرع میں معصیت و گناہ ہونا ثابت ہے جیسے کہ ابن آدم کے قتل پر تنبیہ فرمائی گئی ہے کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا ہے
انّہ اوّل مَن سنَّ القتلَ
کہ وہ پہلا شخص ہے جس نے قتل شروع کیا اور یہ بدعات پر مبنی ہے کیونکہ شرع میں ان کی مذمت اور ان سے ممانعت ثابت ہے۔
شیح اَلعدوِیؒ لکھتے ہیں کہ دوسرے جواب کا حاصل یہ ہے کہ یہ حدیث اہل بدعت کے خلاف حجت اور دلیل ہے نہ کہ ان کے حق میں ۔رسول اللہﷺکے اس کو حسنتہ(اچھی)فرمانے کی وجہ سے کیونکہ اس کو حسنتہ نیکی یا اچھا بنانے والی تو شرع شریف ہی ہے اور اس حدیث کا مفہوم ومعنی اہل بدعت کے حسنتہ اور سیئہ کی تقسیم کے استدال کوباطل کرتا ہے۔پس حدیث میں سَنَّ کو احیا(زندہ کرنے) کے معنی پر محمول کرنا ضروری ہے۔نہ کہ اِخترَعَ یعنی ایجاد کرنے پر محمول کرنااور بدعتہ ضلالت پر بحث پہلے گزر چکی ہے کہ اس سے بدعت حسنتہ اور سیئہ پر استدلال درست نہیں بلکہ ہر دو بدعت مذمومہ اور گمراہی ہیں کیونکہ اس حدیث میں مَن اِبتدَعَ بِدعۃَ ضَلالۃٍ لایرضَاھَااللّٰہُ ورسولہُ(کہ جو ایسی بدعت گمراہی کو ایجاد کرے جسے اللہ اور اس کا رسول ناپسند فرماتے ہیں)تقسیم مراد لینے سے لازم آتاہے کہ کچھ ایسی بدعات سیئہ ضلالت اور گمراہی ہیںجو اللہ اور اس کے رسولﷺ کوپسند ہیں(معاذاللہ )لہذا بدعت ضلالت کی قیداتفاقی ہے احترازی نہیں اور یہ مذمت کیلئے ہے نہ کہ حسنتہ اور سیئہ کی طرف تقسیم کیلئے کیونکہ شرع میں ہر بدعت ضلالت و گمراہی ہے۔اس حدیث سے تقسیم پر استدلال تب ممکن ہے اگر من سنَّ سنۃًحسنۃً حدیث کے وارد اور صادر ہونے کے سبب سے صرف نظرکر لی جائے جوکہ صدقہ ہے اور وہ مشروع ہے اور واضح طور پر رسول اللہﷺنے مفلوک الحال لوگوں کیلئے صدقہ کی تر غیب دلائی ہے۔چنانچہ تمام شارحینِ حدیث نے یہاںسنت حسنۃ کیلئے اصلہ مشروع اورسنۃسیئۃکے لئے اَصلہُ غَیر مَشرُوع معنی کیے ہیں کیونکہ یہاں رسول اللہﷺ نے ترغیب پر تعمیل ارشادمیں پہل اور اس مشروع صدقہ کے آغاز پر تحسین واجرکااعلان فرمایاہے۔لہذا یہاں تقسیم بدعت ہرگز مراد نہیں ہے۔
اکثر اہل بدعت عام طور پراس غلط فہمی میں مبتلا ہیں کہ مانعین ہرنئے کام کو بدعت قبیحہ ضلالۃکہتے ہیں خواہ وہ دین کا ہو یا دنیا کا۔
 

ساجد تاج

فعال رکن
شمولیت
مارچ 09، 2011
پیغامات
7,174
ری ایکشن اسکور
4,517
پوائنٹ
604
شیخ الاسلام الاستاذ محمدگوندلوی ؒغلط فہمی کا ازالہ فرماتے ہیں
مانعین اُس نئے کام کو بدعت قبیحہ ضلالۃ کہتے ہیں جو دین میں شریعت کی اجازت کے بغیر حادث ہو (جس کاتقاضارسول اللہﷺ کے زمانہ میں بغیرکسی مانع کے موجود ہواور نیا تقاضابصورت نیکی پیدا نہ ہوا ہواور نہ کوئی اس عمل کو روکنے کی وجہ ہو) جیسے عیدین کی اذان۔
دوسری غلطی اہل بدعت کی یہ ہے کہ وہ نئے کام کے احداث کے قائل ہیں۔جن کے متعلق نہی وارد نہ ہوئی ہو۔خواہ دین کا ہو خواہ دنیا کاخواہ رسول اللہﷺ کے زمانہ میں اس کا تقاضا موجود ہو اور اس کے کرنے سے کوئی مانع نہ ہو۔آپﷺکے بعد کوئی نیاتقاضاپیداہواہوخواہ ایسانہ ہوا ہو۔
اور ان کا استدلال عام یامطلق نص سے ہوتاہے یا قیاس فاسدسے استدلال کرتے ہیں اور قیاس ِصحیح مجتھد کا قیاس ہوتاہے۔جس میں علت کی ضرورت ہوتی ہے اور قیاس فاسدمیں مجردمصلحت کا لحاظ رکھ کر حکم لگایا جاتا ہے مثلاً سفر میں نماز کی علت سفر ہے اور مشقت کا ہونا حکمت یا مصلحت ہے اور سخت یا مشکل کام کو سفر پر قیاس کیاجائے تو یہ قیاس فاسد ہوگا۔ ہربدعت شرعیہ مذمومہ اور دین کے مخالف ہی ہوتی ہے اور بدعتی اس کو دین سمجھتاہے کیونکہ وہ فاسد قیاس سے استدلال کرتاہے اور قیاس فاسدمیں جو علت سمجھی جاتی ہے وہ اصل میں علت نہیں ہوتی پس وہ مسئلہ دین سے کیسے ہوا۔
بدعت وصفی کی تردید میں ایک اور دلیل
پہلے بیان ہو چکاکہ جب کوئی کام جو اصل کے لحاظ سے مشروع ہو لیکن اپنے وصف اور خاص کیفیت کے لحاظ سے ثابت نہ ہوتو وہ بھی بدعت وضلالت و گمراہی ہے کیونکہ وہ کام اپنے مرتبے کا لحاظ سے بڑھ جاتاہے تب وہ کام مکروہ ہو جاتا ہے کیونکہ وہ اباحت سے بڑھ کر مستحب بلکہ سنت ، واجب کی حیثیت اختیار کرلیتا ہے ایسے عمل کے متعلق عبداللہ بن مسعودؓ سے مروی ہے آپﷺ نے فرمایا۔
لَایَجعَل اَحدکُم لِلشَّیطَانِ شَیئاًمِن صَلوٰتِہ یَریٰ أَن حَقًّا عَلَیہِ أَن لَا یَنصَرِفَ اِلَّا عَن یَمینِہِ ،لَقَد رَأَیتُ رَسولَ اللّٰہ ﷺ یَنصرفُ کَثیراً عَن یَّسارہِ متّفقٌ عَلیہِ
کوئی شخص نماز میں شیطان کا حصہ نہ بنائے اس طرح کہ داہنی طرف پھرنا ضروری خیال کرے میں نے رسول اللہ ﷺکو بہت دفعہ بائیں طرف پھرتے دیکھاہے۔ عبداللہ بن مسعودؓ کا کلام صاف بتارہاہے کہ دو امور سے جو دونوں جائز ہوں ایک کوضروری خیال کرنا شیطانی حصہ ہے۔
مرقاۃ شرح مشکوۃ میں علامہ طیبیؒ سے نقل کرتے ہیں ،
قاَل َالطیبی ؒ فیہِ من اَصرَّ علیٰ اَمرٍمندوب ٍوَجعل َعزماًوَلم یَعمَل باِلرُّخصَۃِفقد أَصابَ منہُ الشَّیطانُ الاِضلالَ فَکیفَ مَن اَصرَّعلیٰ بِدعۃٍ أَو منکرٍ
علامہ طیبیؒ فرماتے ہیں کہ مذکورہ بالا حدیث سے معلوم ہوتاہے کہ جو شخص کسی مستحب امر پر اصرار (ہمیشگی)کرے اور اس کو ضروری بنا دے۔رخصت پر عمل نہ کرے تو شیطان اس کو کچھ نہ کچھ ضرور گمراہ کر چکا۔پھر جو شخص کسی بدعت یا برے کام پر اصرار(مداومت)کرے تو اس کا کیا حال ہوگا۔
گویا مستحب کو سنت اور سنت کو واجب عقیدہ وعمل میں اختیار کرنے سے اگر شریعت کی مخالفت اور تبدیلی لازم آتی ہے تو بدعت اور خلاف شرع کو واجب موکد جاننے سے کیونکرشرع کی تبدیلی اور مخالفت لازم نہ آئے گی۔
علامہ علی القاری ؒ فرماتے ہیں۔
وَالمتابَعۃُ کَما تَکونُ فِی الفِعلِ یَکونُ فِی التَّرکِ اَیضاً فَمَن وَاظَبَ عَلیٰ فِعل ٍلَم یَفعَلہُ الشَّارِعُ فَھُوَ مُبتَدِعٌ ،مرقاۃ شرح مشکوٰۃ
یعنی اتباع نبویﷺجیسے آپ کے کام میں ہے ویسے ہی آپ کے ترک میں ہو گی تو جو شخص کسی ایسے کام پرمواظبت کرے جس کو شارع علیہ الصلوۃوالسلام نے نہ کیا ہو تو وہ بدعتی ہے۔
شیخ امجد علی بہار شریعت میں لکھتے ہیں ۔
احادیث میں کسی دعا کی نسبت جو تعداد وارد ہے۔اس سے کم زیادہ نہ کرے کہ جوفضائل ان اذکار کیلئے ہیں وہ اِسی عدد کے ساتھ مخصوص ہیں ۔اِن میں کم وزیادہ نہ کرنے کی وجہ یہ ہے کہ کوئی قُفل کسی خاص قسم کی کنجی سے کھلتا ہے۔اب اگر کنجی میں دندانے کم وبیش کریں تو اس سے نہ کھلے گا۔البتہ اگر شمار میں شک واقع ہوتو زیادہ کرسکتاہے کہ یہ زیادت نہیں بلکہ اِتمام ہے ایسے ہی اگر سنت میں اس کی حد میں کمی بیشی ہوگی تو وہ ظلم وزیادتی ہوگی شریعت کی مخالفت اور تبدیلی ہوگی۔
 

ساجد تاج

فعال رکن
شمولیت
مارچ 09، 2011
پیغامات
7,174
ری ایکشن اسکور
4,517
پوائنٹ
604
بدعات کے نظائرحسب فرمان احمد رضا خان بریلوی
کوئی اعتقاد وعمل عدم ثبوت اور عدم نقل کے باوصف دینی امور میں عہد رسالت مآبﷺ اور عہد صحابہ رضوان اللہ علیھم اجمعین میں نہ پایا جائے تو اس پر بدعت ہونے کا حکم لگایاہے جس طرح وضو کے بعد کپڑے سے اعضاء پونچھنے میں احادیث ضعیفہ وبعض صحابہ وتابعین سے جو ازوکراہت منقول ہے۔ تاہم اس کو بھی بدعت میں داخل کیاگیا ہے چہ جائیکہ وہ امور جو قرون ثلاثہ سے کچھ بھی ثابت نہ ہوں۔
چنانچہ فتادی رضویہ ص۳۰ میں مرقوم ہے۔
فِی الِْنِھَایۃِ شَرْح الھِدایۃ لِلاِمَامِ العَینِی عَنْ الشَّرحِ الجامِع الصَغِیر لِلامامِ الأجلِّ فَخْرِالاِسْلام أَنّ الْخَرْقَۃ َالتِی یُمْسَحُ الوَضوئُ بِدعَۃٌ مُحْدَثَۃٌ یََجِبُ أَنْ تُکرَہَ لِأَنَّھا لَم تَکُنْ فِی عَھدِ رَسولِ اللّٰہ ﷺ وَلا أَحدٍ مِنَ الصَّحابۃِ وَالتَّابِعینَ
یعنی نھایہ شرح ھدایہ میں ہے کہ وہ کپڑا جس سے وضو کا پانی پونچھا گیا بدعت من گھڑت ہے اس کا مکروہ جاننا واجب ہے کیونکہ یہ طریقہ رسول اللہ ﷺ کے عہد مبارک میں اور کسی صحابی اور تابعی کے زمانے میں نہ تھا۔
نیز فتادی رضویہ ص۱۸۵ میں مرقوم ہے۔
فی البدائع أَنَّہُ الصَحِیح لأنَّہُ مَن لَّم یَرَ سُنّۃَ رَسُولِ اللّٰہِ فَقد اِبتَدَعَ فَیُلْحِقُہُ الْوَعِیدُ وَ اِنْ کَانَتْ الزِیَادَۃُ عَلَی الثَلاثِ لِقَصْدِ الْوُضوئِ اَو لِطَمَانِینَۃِالقَلْبِ عِندَ الشَّکِّ فَلا یُلحِقُہُ الْوَعِیدُ
یعنی البدائع والصنائع میں تصریح کی ہے۔ کہ صحیح یہ ہے کہ وضو میں تین بار سے زیادتی سنت جان کرکرنے والابدعت نکالنے والا مستحق وعید ہے۔
ایضاً فتادی رضویہ ص۱۹۶ میں مرقوم ہے۔جامع الرموز میں ہے۔
تُکرَہُ للزِیادۃ علیٰ الثلاثِِ
اعضاء وضو کا تین بار سے زیادہ مرتبہ دھونا مکروہ ہے۔
اورطحطاوی علی المراقی میں ہے۔
فی فتاوٰی الحجۃ یکرہ صبُّ الماء فی الوُضوء زیادۃ ًعلی العدد المسنون والقدرالمعھود
یعنی مکروہ ہے وضو میں تین دفعہ سے زیادہ یا عدد مسنون سے زیادہ پانی ڈالنا۔
نیز فیادی رضویہ میں ص۲۰۸ میں مرقوم ہے۔
ظاہر ہے کہ جس شئی کیلئے شرع نے ایک حد باندھی ہے کہ اس سے نہ کمی چاہیے نہ بیشی۔
نیزفتاوٰی رضویہ ص۲۴۱ میں ہے۔اذا کان بعدالفراغ من الوضوء الاوّل واِلَّا لکان بدعۃً
یعنی وضو سے فارغ ہونے سے قبل بعض اعضاء میں تین مرتبہ سے زیادتی بدعت ہے۔
نیر فتاوی رضویہ میں ص۲۵۷ میں مرقوم ہے۔
اگر کوئی شخص وضوکی جگہ غسل کا التزام کرے عزیمت و باعث ثواب نہ ہوگا بلکہ بدعت و موجبِ مواخذہ وعتاب ہوگا۔
 

ساجد تاج

فعال رکن
شمولیت
مارچ 09، 2011
پیغامات
7,174
ری ایکشن اسکور
4,517
پوائنٹ
604
نیز مولوی صاحب بریلوی فتاوی النفائس المرغوبہ فی حکم الدعاء بعد المکتوبہ کے ص۵۱ میں لکھتے ہیں۔
سنن ونوافل سب سے فارغ ہوکر امام کا جماعت کے ساتھ دعا ما نگنا کہیں منقول نہیں یہ طریقہ لائق ترک ہے۔واللّٰہ تعالیٰ اعلم فقیر احمد رضاقادری
نیر مولوی صاحب بریلوی حیاۃالموات ص۸۴۔۱۷۲ میں لکھتے ہیں۔
کیا یہ ممکن نہیں کہ اس کی (یعنی تلقین میت کی)وجہ بعض کے نزدیک عدم ثبوت ہے جیسا کہ ُحلیہ میں ہے نص الشیخ عزالدین ابن عبدالسلام علی انہ بدعۃٌ یعنی تصریح فرمائی ہے امام سلطان العلماء عزُّالدین ابن عبدالسلامؒ نے اس امر پر کہ تلقین کرنا میت کابعد دفن کے قبر پر بدعت ہے۔دیکھو امام عزالدین الشافعی اس وجہ سے قائل تلقین نہ ہوئے کہ ان کے نزدیک بدعت تھی۔
نیز مولوی صاحب بریلوی کے ملفوظات حصہ اول حسنی پریس بریلی ص۶۹ میں مرقوم ہے۔
(عرض) اذان میں نام اقدس لیتے وقت روضہ منوّرہ کی طرف منہ کرسکتاہے؟
(ارشاد) خلاف سنت ہے ۔سوائے حیَّ علیٰ الصلٰوۃِ حیَّ عَلیٰ الفَلاحِ کے اور کسی کلمہ پر کسی طرف مُنہ نہیں پھیر سکتا یاخطبہ میں عزَّجلالُہ ا ورصلَّی اللّٰہ تعالیٰ علیہ وسلم کہے، یہ قلبی محبت نہیں۔قلبی محبت وہی ہے کہ شریعت کے دائر ہ میں رہے اس میں اپنی اصلاح کی مداخلت نہ کرے۔
نیز مولوی صاحب بریلوی کے ملفوظات حصہ سوم حسنی پریس ۸ ۳ ۱۳؁ھ ص۱۹ میں مرقوم ہے۔
(عرض) سنت ومکروہ میں تعارض ہو تو کیا کرنا چاہیے ؟
(ارشاد) ترک اولی ہے۔
ردالمختارص۵۰۶ ارشاد فرماتے ہیں کہ جس بات کے بدعت اور سنت ہونے میں تردد ہو تو اس کو چھوڑ ہی دیوے۔
مذکورہ بالا اقوال سے معلوم ہوا کہ شرع شریف میں ایسی کمی بیشی جس کا ثبوت جناب رسول اللہ ﷺ اور صحابہؓوتابعینؒاور ائمہ مجتھدین ؒ سے نہ ہو، بدلیل ِعدمِ ثبوت وعدمِ نقل کے بدعت قرار دیا گیاہے، جس طرح وضو میں زیادتی کابدعت ہونا،وضو کی جگہ غسل کا التزام بدعت اور باعث عتاب ہونا۔سنن ونوافل کے بعد امام کا جماعت کے ساتھ دعا مانگنا منقو ل نہ ہونے سے لائق ترک ہونا،تلقین میت بوجہ ثابت نہ ہونے کے بدعت ہونا،ایسے ہی شرع شریف کے دائرہ سے نکلی ہوئی محبت سے جشن عید میلاد النبی منانا، جلوس نکالنا،برکت کیلئے مسنون درود شریف ترک کرکے خود ساختہ سپیکری درود پڑھنااور اس میں برکت سمجھنااور میت کیلئے نماز جنازہ کے بعد متَّصلاًدفن سے پہلے بلا ثبوت دعا پر التزام کرنا اور نہ کرنے والوں پر طعن وتشنیع کرنا یہ سب عدم ثبوت ،عدم نقل اور خیرالقرون عہد رسالت مآبﷺاور صحابہ رضوان اللہ علیھم اجمعین اور تابعینؒ کے زمانہ میں نہ ہونے کی وجہ سے بدعت مذمومہ اور بدعت ضلالت ،لائق ترک ولائق عتاب ہونگے۔
اور پیارے پیغمبر ﷺ کی تلقین سب سے فائق ہے فرماتے ہیں۔
عن الحسن رضی اللّٰہ عنہ قال قال رسول اللّٰہ ﷺ عمل قلیل فی سنۃ خیر من کثیر فی بدعۃ ( الابانۃ الکبریٰ لابن بطۃ)
نواسہ رسول حسن ؓ فرماتے ہیں فرمایا اللہ کے رسول ﷺ نے سنت کا تھوڑا عمل بدعت کے ذیادہ عمل سے بہتر ہے۔
 
Top