ساجد تاج
فعال رکن
- شمولیت
- مارچ 09، 2011
- پیغامات
- 7,174
- ری ایکشن اسکور
- 4,517
- پوائنٹ
- 604
اہل بدعت کا رد اور اہل بدعت کا انجام
سنن دارمی میں عمر بن یحیٰیؒ کہتے ہیں کہ میں نے اپنے باپ سے سنااور وہ اپنے والد سے بیان کرتے ہیں۔
ہم عبداللہ بن مسعودؓ کے دروازہ پر صبح کی نماز سے پہلے بیٹھا کرتے تھے جب وہ نکلتے تو ان کے ساتھ مسجد میں جاتے ایک دن انتظار میں بیٹھے تھے کہ ابو موسٰی اشعریؓ تشریف لائے اور فرمایا کیا ابوعبدالرحمن(عبداللہ بن مسعودؓ)نکلے؟ ہم نے کہا نہیں آپ بھی ہمارے ساتھ بیٹھ گئے۔
جب عبداللہ بن مسعودؓ نکلے تو ہم سب اٹھ کر اس کی طرف بڑھے ابوموسٰی اشعریؓ نے کہا۔اے ابوعبدالرحمن میں نے اب مسجد میں ایک کام دیکھا ہے۔الحمدللہ ہے وہ اچھا کام ۔
عبداللہ بن مسعودؓ نے فرمایا کیا ہے؟
ابو موسٰیؓ نے کہااگر زندگی رہی تو عنقریب دیکھ لو گے پھر بولے میں نے لوگوں کو حلقے باندھے دیکھاہے بیٹھ کر نماز کا انتظار کر رہے ہیں ہر حلقہ میں ایک آدمی ہے اس کے آگے سنگریزے ہیں وہ کہتا ہے کہ سو دفعہ تکبیر کہوپس وہ سو دفعہ تکبیر کہتے ہیں پھر وہ کہتا ہے سو دفعہ لاالہ الا اللہ پڑھو وہ سو دفعہ لاالہ الااللہ پڑھتے ہیں۔پھر کہتا ہے سو دفعہ تسبیح پڑھووہ سو دفعہ تسبیح یعنی سبحان اللہ کہتے ہیں۔
عبداللہ بن مسعود نے کہا۔تم نے انہیں کیا کہا؟ابو سوسٰی ؓنے کہاکچھ نہیں آپ کی رائے کا انتظار ہے عبداللہ بن مسعود ؓ نے کہا۔تم نے انہیں یہ کیوں نہیں کہا کہ وہ اپنی برائیاں شمارکریں میں اس بات کا ضامن ہوں کہ ان کی نیکیاں ضائع نہیں ہوں گی پھر عبداللہ بن مسعود ؓاور ہم چلے یہاں تک کہ آپ نے ان حلقوں سے ایک حلقے پر آکر کہاکیا کررہے ہو؟وہ بولے اے ابو عبدالرحمن ہم سنگریزوں پر تکبیرتہلیل اور تسبیح شمارکر رہے ہیں۔
عبداللہ بن مسعود ؓنے فرمایا:اپنی برائیاں شمارکرو نیکیوں کا میں ضامن ہوں کہ وہ ضائع نہیں ہونگی۔افسوس ہے تم پر اے امت محمدﷺکہ کس قدرجلد برباد ہو رہے ہو۔تمہارے نبی ﷺکے صحابہ کس قدرموجود ہیں اور ابھی آپ ﷺکے کپڑے بھی بوسیدہ نہیں ہوئے نہ برتن ٹوٹے ہیں اس ذات کی قسم جس کے قبضہ قدرت میں میری جان ہے یا تو تمہارا طریقہ محمدﷺ کے طریقے سے بہتر ہے یا تم گمراہی کا دروازہ کھولنے والے ہووہ بولے اے اباعبدالرحمن ہم تو خیر کا ارادہ رکھتے ہیں۔
عبداللہ بن مسعودؓ نے فرمایابہت سے لوگ خیر کا ارادہ رکھتے ہیں مگر ان کو خیر حاصل نہیں ہوئی
رسول اللہ ﷺنے ہمیں خبر دی تھی(عنقریب)ایک قوم ہوگی جو قرآن پڑھے گی مگر قرآن ان کے حلق سے نیچے نہیں اترے گا۔میرے علم میں وہ اکثر لوگ تم ہی سے ہونگے یہ کہ کرلوٹ آئے۔
عمربن سلمۃ کہتے ہیں۔ہم نے ان حلقوں کے اکثر آدمیوں کو دیکھانہروان کے دن(جب علیؓ خوارج سے لڑے)خوارج کی طرف ہو کر ہم کو نیزے مارتے تھے۔ انتھٰی
عبداللہ بن مسعودؓ اور ابوموسٰی اشعر ی جو دربار نبوی کے فارغ التحصیل تھے تکبیر،تہلیل اور تسبیح کو(جو نئے طریقے پر کہی جار ہی تھی) گمراہی کہ رہے ہیں اور اس بدعت کو امت کی تباہی کاسبب قرار دے رہے ہیں اور رسول اللہﷺ نے جو خوارج کے متعلق پیشین گوئی فرمائی تھی انہیں پر چسپاں کر رہے ہیں۔حالانکہ وہ جو کام کر رہے تھے اصل میں نیک اور مشروع تھا۔ صرف اس کا طریقہ نیا تھااور وہ یہ بھی کہہ رہے ہیں کہ ہمارا ارادہ نیک ہے ۔
اس سے صاف معلوم ہوتا ہے کہ بعض طریقے اور ڈھنگ اس قسم کے ہیں اگر ان کا التزام بھی نہ کیا جائے پھر بھی ممنوع ٹھہرتے ہیں کیونکہ عبداللہ بن مسعود ؓ نے اس نئے طریقے کی بنا پراس ذکر کو بدون ذکر اصرارودوام اور التزام کے ممنوع قرار دیا ہے کیونکہ ممانعت کی اصل وجہ نئے کام کی تحری اور قصد ہے۔بعض جگہ تحری اور قصد اصرار اور التزام سے سمجھا جاتا ہے اور بعض جگہ خاص طریقہ کے نکالنے سے بدون اصراروالتزام کے بھی اس کا پتہ چل جاتا ہے کیونکہ خاص طریقہ نکالنے کیلئے کسی باعث کی ضرورت ہوتی ہے وہ مصلحت قدیمتہ ہوتی ہے۔جس کو شارع علیہ الصلوۃ والسلام نے نظر انداز کرکے اس کے خلاف سنت ترکیہ جاری فرمائی ہوتی ہے۔
پس ایسے طریقے کے ایجاد کرنے میں ایک قسم کی تشریح یعنی شریعت مقرر کرنے کا وہم پڑتاہے اور اس کی ممانعت کی یہی وجہ ہے۔
سنن دارمی میں عمر بن یحیٰیؒ کہتے ہیں کہ میں نے اپنے باپ سے سنااور وہ اپنے والد سے بیان کرتے ہیں۔
ہم عبداللہ بن مسعودؓ کے دروازہ پر صبح کی نماز سے پہلے بیٹھا کرتے تھے جب وہ نکلتے تو ان کے ساتھ مسجد میں جاتے ایک دن انتظار میں بیٹھے تھے کہ ابو موسٰی اشعریؓ تشریف لائے اور فرمایا کیا ابوعبدالرحمن(عبداللہ بن مسعودؓ)نکلے؟ ہم نے کہا نہیں آپ بھی ہمارے ساتھ بیٹھ گئے۔
جب عبداللہ بن مسعودؓ نکلے تو ہم سب اٹھ کر اس کی طرف بڑھے ابوموسٰی اشعریؓ نے کہا۔اے ابوعبدالرحمن میں نے اب مسجد میں ایک کام دیکھا ہے۔الحمدللہ ہے وہ اچھا کام ۔
عبداللہ بن مسعودؓ نے فرمایا کیا ہے؟
ابو موسٰیؓ نے کہااگر زندگی رہی تو عنقریب دیکھ لو گے پھر بولے میں نے لوگوں کو حلقے باندھے دیکھاہے بیٹھ کر نماز کا انتظار کر رہے ہیں ہر حلقہ میں ایک آدمی ہے اس کے آگے سنگریزے ہیں وہ کہتا ہے کہ سو دفعہ تکبیر کہوپس وہ سو دفعہ تکبیر کہتے ہیں پھر وہ کہتا ہے سو دفعہ لاالہ الا اللہ پڑھو وہ سو دفعہ لاالہ الااللہ پڑھتے ہیں۔پھر کہتا ہے سو دفعہ تسبیح پڑھووہ سو دفعہ تسبیح یعنی سبحان اللہ کہتے ہیں۔
عبداللہ بن مسعود نے کہا۔تم نے انہیں کیا کہا؟ابو سوسٰی ؓنے کہاکچھ نہیں آپ کی رائے کا انتظار ہے عبداللہ بن مسعود ؓ نے کہا۔تم نے انہیں یہ کیوں نہیں کہا کہ وہ اپنی برائیاں شمارکریں میں اس بات کا ضامن ہوں کہ ان کی نیکیاں ضائع نہیں ہوں گی پھر عبداللہ بن مسعود ؓاور ہم چلے یہاں تک کہ آپ نے ان حلقوں سے ایک حلقے پر آکر کہاکیا کررہے ہو؟وہ بولے اے ابو عبدالرحمن ہم سنگریزوں پر تکبیرتہلیل اور تسبیح شمارکر رہے ہیں۔
عبداللہ بن مسعود ؓنے فرمایا:اپنی برائیاں شمارکرو نیکیوں کا میں ضامن ہوں کہ وہ ضائع نہیں ہونگی۔افسوس ہے تم پر اے امت محمدﷺکہ کس قدرجلد برباد ہو رہے ہو۔تمہارے نبی ﷺکے صحابہ کس قدرموجود ہیں اور ابھی آپ ﷺکے کپڑے بھی بوسیدہ نہیں ہوئے نہ برتن ٹوٹے ہیں اس ذات کی قسم جس کے قبضہ قدرت میں میری جان ہے یا تو تمہارا طریقہ محمدﷺ کے طریقے سے بہتر ہے یا تم گمراہی کا دروازہ کھولنے والے ہووہ بولے اے اباعبدالرحمن ہم تو خیر کا ارادہ رکھتے ہیں۔
عبداللہ بن مسعودؓ نے فرمایابہت سے لوگ خیر کا ارادہ رکھتے ہیں مگر ان کو خیر حاصل نہیں ہوئی
رسول اللہ ﷺنے ہمیں خبر دی تھی(عنقریب)ایک قوم ہوگی جو قرآن پڑھے گی مگر قرآن ان کے حلق سے نیچے نہیں اترے گا۔میرے علم میں وہ اکثر لوگ تم ہی سے ہونگے یہ کہ کرلوٹ آئے۔
عمربن سلمۃ کہتے ہیں۔ہم نے ان حلقوں کے اکثر آدمیوں کو دیکھانہروان کے دن(جب علیؓ خوارج سے لڑے)خوارج کی طرف ہو کر ہم کو نیزے مارتے تھے۔ انتھٰی
عبداللہ بن مسعودؓ اور ابوموسٰی اشعر ی جو دربار نبوی کے فارغ التحصیل تھے تکبیر،تہلیل اور تسبیح کو(جو نئے طریقے پر کہی جار ہی تھی) گمراہی کہ رہے ہیں اور اس بدعت کو امت کی تباہی کاسبب قرار دے رہے ہیں اور رسول اللہﷺ نے جو خوارج کے متعلق پیشین گوئی فرمائی تھی انہیں پر چسپاں کر رہے ہیں۔حالانکہ وہ جو کام کر رہے تھے اصل میں نیک اور مشروع تھا۔ صرف اس کا طریقہ نیا تھااور وہ یہ بھی کہہ رہے ہیں کہ ہمارا ارادہ نیک ہے ۔
اس سے صاف معلوم ہوتا ہے کہ بعض طریقے اور ڈھنگ اس قسم کے ہیں اگر ان کا التزام بھی نہ کیا جائے پھر بھی ممنوع ٹھہرتے ہیں کیونکہ عبداللہ بن مسعود ؓ نے اس نئے طریقے کی بنا پراس ذکر کو بدون ذکر اصرارودوام اور التزام کے ممنوع قرار دیا ہے کیونکہ ممانعت کی اصل وجہ نئے کام کی تحری اور قصد ہے۔بعض جگہ تحری اور قصد اصرار اور التزام سے سمجھا جاتا ہے اور بعض جگہ خاص طریقہ کے نکالنے سے بدون اصراروالتزام کے بھی اس کا پتہ چل جاتا ہے کیونکہ خاص طریقہ نکالنے کیلئے کسی باعث کی ضرورت ہوتی ہے وہ مصلحت قدیمتہ ہوتی ہے۔جس کو شارع علیہ الصلوۃ والسلام نے نظر انداز کرکے اس کے خلاف سنت ترکیہ جاری فرمائی ہوتی ہے۔
پس ایسے طریقے کے ایجاد کرنے میں ایک قسم کی تشریح یعنی شریعت مقرر کرنے کا وہم پڑتاہے اور اس کی ممانعت کی یہی وجہ ہے۔