• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

بدعت کی حقیقت

ساجد تاج

فعال رکن
شمولیت
مارچ 09، 2011
پیغامات
7,174
ری ایکشن اسکور
4,517
پوائنٹ
604
اس تعریف میں دین کی قید سے امور دنیا خارج ہوگئے۔شریعت سے مشابہت لازم نہیں آتی جیسے کسی امر دین کی تحقیق اور اس کے دینی منافع پر غور کرنا اور عبادت الٰہی میں مبالغہ کی قید توضیح کے لئے ہے جس کا مطلب یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے شریعت کو کامل کردیاہے اور انسان کے جمیع اعضاء ظاھری اور باطنی کیلئے جن سے افعال اختیاریہ صادر ہوتے ہیں،وظائف مقرر کردئیے ہیں اور ہر ضروری بات کا ذکر کردیاہے۔
بدعت کے موجد اس پر بس نہیں کرتے ان کو خیال ہوتا ہے کہ صرف اتنی عبادت سے عبادت کا پورا حق ادا نہیں ہوتا۔اس لئے اپنی طرف سے بدعت ایجاد کرتے ہیں۔اب یہ زیادتی تشریع کے خلاف اور حقیقت میں نقص پیداکرنے والی ہے۔
محقق شاطبیؒ فرماتے ہیں:
جس کی نظیر نہ ہو۔اس کے اختراع کو اصل میں بدعت کہتے ہیں۔قرآن مجید میں ہے بدیع السموٰتِ والارضِ الآیۃ۔ اللہ تعالیٰ آسمانوں اور زمین کو بے نمونہ پیداکرنے والاہے یعنی ان کی نظیر پہلے نہ تھی۔
دوسری آیت میں ہے۔
مَا کنتُ بِدعًا مِنَ الرُّسُلِ الآیۃ
میں نیا رسول نہیں یعنی مجھ سے پہلے بھی رسول گذر چکے ہیں ۔
اس طرح کہا جاتا ہے اِبتدعَ فلان ٌبِدعۃٌ فلان نے بدعت نکالی یعنی ایساطریقہ شروع کیا جو پہلے اس سے کسی نے نہیں کیا، جس کی نظیر نہ ہو اس کو امربدیع کہتے ہیں۔اس معنی سے بدعت کو بدعت کہتے ہیں اور اس کے نکالنے والوں کو مبتدع اور اس کی ہیأت(شکل) کوبدعت اور کبھی اس عمل کو بدعت کہتے ہیں اوریہ لغوی معنی سے اخص ہے۔
اس کی تفصیل کچھ یوں ہے۔
احکام تین قسم پر ہیں
۱۔ ماموربہ (جس کا حکم ہو)خواہ واجب ہو خواہ مندوب (سنت نفل مستحب)
۲۔ منھی عنہ (جس کی ممانعت ہو)خواہ حرام ہو خواہ مکروہ۔
۳۔ مباح (جوکام جائزہو) کرنایا نہ کرنا برابر ہے۔
پہلی قسم میں کام کا ہونادوسری قسم میں کا م کا چھوڑنا ضروری ہے اور تیسری قسم میں کرنے اور چھوڑنے کا اختیار ہے .
دوسری قسم میں چھوڑنے کے دو سبب ہیں۔ایک سبب یہ ہے کہ اس کے کرنے میں وہ مصلحت فوت ہوجاتی ہو جو کسی ماموربہکے کرنے سے حاصل ہوتی ہے۔دوسرا سبب یہ ہے کہ وہ فعل ظاہرشریعت کے خلاف ہو تاہے کیونکہ تشریع بقدر ضرورت کر دی گئی ہے ،اب اس پر زیادتی تشریح کے خلاف ہوگی۔
(تشریع سے مراد بعض امور میں کچھ قیود اور کیفیات کا متعین کرنا یابعض خاص ہیئات (شکلوں) یا خاص زمانہ کا ہمیشہ کیلئے مقرر کیاجاناہے)
 

ساجد تاج

فعال رکن
شمولیت
مارچ 09، 2011
پیغامات
7,174
ری ایکشن اسکور
4,517
پوائنٹ
604
بدعت کے رد میں ایک اورحدیث
رسول اللہ ﷺ نے فرمایا۔
من أحدث فیھا حدثاًاوآوٰی محدثاًفعلیہِ لعنۃاللّٰہ والملٰئکۃ والناسِ اجمعین لا یُقبلُ منہ صرفٌ ولاعدلٌ الحدیث متفق علیہ
جو شخص اس میں کوئی بدعت نکالے یا بدعتی کو پناہ دے تو اس پر اللہ اور اس کے فرشتوں اور سب لوگوں کی لعنت ہے۔اس کا فرض ونفل کوئی مقبول نہیں۔
الاستاذگوندلوی ؒ اپنی کتاب الاصلاح حصہ دوم ص۷۸ پر مذکور الصدر حدیث نقل فرمانے کے بعدرقمطراز ہیں۔ اب ظاہر ہے کہ میت کی طرف سے جو اعمال کیے جاتے ہیں۔فرض سمجھ کر کیے جاتے ہیں یا نفل اور بدعتی کا نہ فرض قبول ہوتاہے نہ نفل۔ پس سوئم چہلم کی کاروائی سب لغواور بیہودہ ٹھہری پس مومن کو چاہیے کہ لغو سے پرہیز کرے۔
چنانچہ گوندلویؒ نے بدعت کو عام رکھتے ہوئے اس پر بدعت کے رد میں ایک اور حدیث کا عنوان قائم فرمایاہے آپ کی تبویب سے اس حدیث میں حرم مدینہ کے علاوہ بھی احداث فی الدین کا فعل اللہ تعالیٰ اس کے فرشتوں اور تمام لوگوں کی لعنت کا مستحق معلوم ہوتاہے اگرچہ حرم نبوی محترم میں اس شنیع فعل اور عمل الحاد کا جرم کئی گنا زیادہ ہے ۔ واللہ اعلم
شرعی بدعت کے غیر منقسم ہونے پر دلائل[/color]
(۱)۔ رسول اللہﷺ نے فرمایا ۔
کُلُّ بدعۃٍ ضَّلاَ لۃٌ ہر بدعت گمراہی ہے ۔
اور تقسیم کی صورت میں ہر بدعت گمراہی نہ ہو گی اور بعض امور جوبظاہربدعت شرعیہ کا مصداق ہیں اور ان کے حسن پر سب کا اتفاق ہے۔ ان کو اس حدیث (کُلُّ بدعۃٍ ضَّلاَ لۃٌ) ہر بدعت گمراہی ہے کے خلاف پیش کرنا درست نہیں کیونکہ جن امور کا حسن دوسرے ادلّہ سے ثابت ہو چکاہے جیسے تراویح باجماعت پر رمضان میں ہمیشگی۔قرآن مجید کا جمع کرنا۔ صرف و نحو معانی وبیان۔اصول فقہ۔اصول حدیث۔کتابت حدیث ودرس وتعلیم۔نصاب مخصوص۔رسالوں کی طباعت۔اخبار کی اشاعت۔لاؤڈسپیکر وغیرہ۔جن کو امت نے بالا جماع جائز یا مستحب خیال کیاہے۔
 

ساجد تاج

فعال رکن
شمولیت
مارچ 09، 2011
پیغامات
7,174
ری ایکشن اسکور
4,517
پوائنٹ
604
ان کی دو صورتیں ہیں
ایک یہ کہ وہ امور دراصل بدعت نہیں۔غلطی سے ان کو بدعت میں شمار کیا گیاہے۔
دوسری صورت یہ ہے کہ یہ امور بدعت میں داخل ہوں مگر دوسرے ادلّہ سے جن سے ان کاحسن ثابت ہوتاہے ان کومستثنٰی کیاجائے اور جن کا حسن دوسرے ادلّہ سے ثابت نہ ہو ان کو اس بالکلیہ کُلُّ بدعۃٍ ضَّلاَلۃٌ ہر بدعت گمراہی ہے اس کے نیچے داخل رکھا جائے۔اب جو شخص نئے کام کوبدعت سیئہ سے نکالنے کے درپے ہو اس کو چاہیے کہ اس کے حسن کی دلیل پیش کرے اور جو امور ہم نے ذکر کیے ہیں۔
اوّل تو ان پر بدعت شرعیہ کی تعریف صادق نہیں آتی جو ہم نے محققین اہل سنت سے نقل کی ہے۔
دوم ان کے حسن پر مجتھدین کا اجماع ہوچکاہے ۔اجماع کیلئے اگرچہ دواعی (سند) کی ضرورت ہوتی ہے اور داعی کتاب اور وسنت سے ہی کوئی چیز ہوتی ہے مگر کتاب اور سنت سے جو اجماع کی سند ہے بعض وقت اس کی دلالت تسلی بخش نہیں ہوتی۔ اسی واسطے اجماع کو ہی مستقل دلیل سمجھا جاتاہے۔
یہی حال صحابہ تابعین اور تبع تابعین کے زمانہ کے ان امور کا ہے جو بلانکیر(انکار) رائج ہوئے جیسے اکثر وہ امورجن کااوپر ذکر ہواہے ان زمانوںکا رواج اگرچہ مستقل دلیل نہیں مگر ادلّہ سے ثابت ہو چکا ہے ان زمانوں کا رواج بلانکیر ان ہی امور پر ہوگا۔جن کے حسن پر کتاب سنت میں دلیل ہوگی۔لیکن بعض اوقات ایک شخص کو ان زمانوں میں کسی امر کے رائج بلانکیر کا علم ہوتاہے مگرتفصیلی طور پر اس کی سند کا علم نہیں ہوتا۔
سہولت کے لئے بعض محققین نے ان تین زمانوں کے رواج بلانکیر کو (جو کتاب وسنت سے کسی مخصوص سند ہونے کی دلیل ہے) مستقل دلیل کی طر ح بیان کیا ہے اور اس رواج کو بھی بعض نئے امور کے حسن کی دلیل ٹھہرایاہے۔پس جو امور ہم نے ذکر کئے ہیں جو بظاہر بدعت معلوم ہوتے ہیں اور امت کا ان پر عمل ہے۔غور کرنے کے بعد ان کی دو ہی صورتیں نظر آتی ہیں۔ایک یہ کہ یہ امور دراصل بدعت نہیں یا یہ امور باوجود بدعت ہونے کے اجماع اور تین زمانوں کے رواج بلانکیر سے مستثنٰی قرار دیے جائیں گے۔صحیح بات یہی ہے کہ یہ امور بدعت نہیں اور بدعت شرعیہ کی تعریف ان پر صادق نہیں آتی۔پس اِن سے اس قاعدہ کلیہ( ہر بدعت گمراہی ہے)میں کوئی خلل پیدا نہیں ہوتا۔
بعض اہل بدعت کہتے ہیں۔اس حدیث میں بدعت سے وہ نیا کام مراد ہے جس کی ممانعت شریعت میں وارد ہو چکی ہومگر یہ صحیح نہیں کیو نکہ اس صورت میں حدیث معطل اور بے فائدہ ہوجاتی ہے کیونکہ جب ایک شئی ممنوع ہے تو اس صورت میں اس کے منع ہونے میں اس کے بدعت ہونے کو کوئی دخل نہ ہوگابلکہ اس کا ممنوع ہونا خاص ممانعت کی وجہ سے ہوگا۔پس اس صورت میں اس شئی کا بدعت ہونااس کی ممانعت میں اثر انداز نہ ہوگا۔پس یہ جملہ اسی طرح ہو گا جیسے کوئی کہے ۔ہر عادت گمراہی ہے اور اس سے مراد وہ عادت ہے جس کی ممانعت وارد ہو چکی ہو۔
 

ساجد تاج

فعال رکن
شمولیت
مارچ 09، 2011
پیغامات
7,174
ری ایکشن اسکور
4,517
پوائنٹ
604
حافظ امام ابن تیمیہ ؒ فرماتے ہیں
ھذا تعطیل للنصوص من نوع التحریف والالحادولیس من نوع التاویل السائغ...... یہ(مطلب بیان کرنا) نصوص کا معطل کرنا تحریف اور الحاد کی قسم سے ہے جائز تاویل کی قسم سے نہیں۔
۱۔ اس صورت میں اس حدیث (کُلُّ بدعۃٍ ضَّلاَ لۃٌ ہر بدعت گمراہی ہے )پر اعتماد کرنا بالکل فضول ہو گاکیونکہ جو چیز ممنوع ہے اس کا حکم اس کی دلیل سے معلوم ہو چکا ہے اور جو ممنوع نہیں وہ اس حدیث کے نیچے داخل نہیں پس اس صورت میں اس حدیث کا کچھ فائدہ نہ ہوا۔
حالانکہ رسول اللہ ﷺ اس حدیث کو ہمیشہ ہرخطبہ جمعہ میں پڑھتے اور جامعہ کلمہ شمار کرتے اور تاویل مذکور میں اس کی جو حقیقت ہے وہ ظاہر ہے۔
۲۔ اگر لفظ بدعت سے وہ شئی مراد لی جائے جس کی ممانعت وارد ہو چکی ہے تو اس قسم کا خطاب ایک طرح کی تلبیس ہو گی جس میں ایک واجب البیان کا چھپانا اور ایسی چیز کا بیان کرنا ہوگاجو عبارت سے ثابت نہیں ہوتی کیونکہ اس وقت بدعت ایک طرح سے ممنوع سے عام ہو گی اور ممنوع ایک طرح سے بدعت سے عام ہر بدعت ممنو ع نہ ہوگی اور بدعت سے مراد وہ نیا کام ہوگاجس کی خاص ممانعت وارد ہو چکی ہے۔پس ایک اسم (بدعت)بول کردوسرا اسم (جس کی ممانعت وارد ہوچکی ہے)بلا عرف ومحاورہ مراد لینا ایک قسم کی تلبیس ہوگی جو متکلم کیلئے کسی صورت بھی درست نہیں جیسے کوئی شخص سیاہ بول کر بلا قرینہ گھوڑا مراد لے یا گھوڑا بول کر بلاقرینہ مراد سیاہ لے۔
۳۔جب لفظ بدعت اور اس کے معنی کو ممانعت میں کوئی دخل نہ ہوا پس اس کے ساتھ حکم کا ذکر کر نا اس طرح ہوا جیسے کسی اور صفت کے ساتھ جس کا حکم میں کوئی دخل نہ ہو اور ایسا کلام متکلم کی فصاحت کے منافی ہوتا ہے۔
۴۔ جب اس سے مراد وہ نئی چیزیں ہیںجن کی خاص ممانعت وارد ہو چکی ہو تو لا محالہ بدعت کے وہ افراد جن سے خاص ممانعت وارد نہیں ہوئی ان افراد سے زیادہ ہوں گے جن سے خاص ممانعت وارد ہو چکی ہے یعنی نئے امور زیادہ ہوں گے اور ممنوع کم۔پس عام لفظ بول کربلاقرینہ قلیل صورتیں مراد لینا جائز نہیں۔اب یہ امر روز روشن کی طرح واضح ہو گیا ہے کہ جب کسی امر کے متعلق یہ ثابت ہو جائے کہ وہ دین میں شرعی اذن کے بغیر حادث ہوا ہے یا یہ ثابت ہوجائے کہ اس چیز کیلئے رسول اللہ ﷺ کے زمانہ میں اس کے کرنے کا سبب جو اَب بیان کیا جاتاہے موجود تھا اور کوئی روکاوٹ بھی نہ تھی اور اب کوئی نیا سبب بندوں کی نافرمانی کے سواپیدا بھی نہیں ہوا پھر رسول اللہﷺ سے اس امر کا ثبوت آپ کے قول یا فعل سے نہیں پہنچا تو اس امر کو بدعت اورگمراہی کہا جائے گا۔اس امرکے ناجائز ثابت کرنے کے لیے کسی اور نئی دلیل کی ضرورت نہیں۔
 

ساجد تاج

فعال رکن
شمولیت
مارچ 09، 2011
پیغامات
7,174
ری ایکشن اسکور
4,517
پوائنٹ
604
مؤلّف رسالہ کاعقیدہ
مولّف رسالہ مولوی صاحب موصوف کا یہی عقیدہ ہے کہ کُلُّ بدعۃٍ ضَّلاَ لۃ ٌ ہر بدعت شرعی گمراہی ہے ۔لیکن بدعت لغوی کی تقسیم کو ایسی ترتیب سے پیش فرماتے ہیں کہ قاری کو شرعی بدعت کے حسنہ اور سیئہ کی طرف تقسیم ہونے کا عندیہ ملتاہے۔ہر نئے کام پر لفظ بدعت کے اطلاق کی نفی کرتے ہوئے لکھتے ہیں اگر ہر نیا کام بدعت ہوتا تومحدثین بدعت کی پانج اقسام۔۱۔ بدعت واجبہ ۲۔بدعت محرمہ ۳۔بدعت مندوبہ ۴۔بدعت مباحہ ۵۔بدعت مکروہہ بیان نہ فرماتے
فرماتے ہیں ایک وھابی عالم علامہ وحیدالزمان لکھتے ہیں۔
اما البدعۃ اللغویہ فھی تنقسم الیٰ مباحاۃ و مکروحۃ و حسنۃ و سیئۃ ص۱۱۷
بہر حال بدعت لغوی یہ تقسیم ہوتی ہے۔مباحہ مکروحہ و حسنہ اور سیئہ کی طرف ۔ ھدیۃ المھدی
پھر لکھتے ہیں۔اگر نیا کام بدعت سیئہ ہوتا تو کوئی نیاکام نہ مباح ہوتا نہ ہی اچھا ۔
علامہ ابن اثیر کے حوالہ سے علامہ وحیدالزمان سے نقل کرتے ہیں۔
بدعت لغوی دو قسم کی ہے۔ایک بدعت ضلالت جس کو سیئہ بھی کہتے ہیں۔دوسری بدعت ھدایت جس کو بدعت حسنتہ بھی کہتے ہیں۔
اس لغوی تقسیم پر بنیاد رکھتے ہوئے فرماتے ہیں: جو بدعت اللہ اوراس کے رسول کے خلاف میں ہو وہی بدعت ضلالت(گمراہی)اور سیئہ ہے اور جو بدعت اللہ اوراس کے رسولﷺ کے احکام کے موافق ہو۔گو اس کی کوئی مثال پہلے سے نہ ہو... وہ بدعت حسنہ ہے اور اس پر ثواب کی امید ہے بدلیل دوسری حدیث کے۔
موصوف کاغلط استدلال
لیکن موصوف کا اس حدیث من سنّ فی الاسلام سنّۃ حسنۃ الحدیث و من سن سنۃ حسنۃ الحدیث سے بدعت حسنہ پر استدلال درست نہیں ہے جیسے کہ من ابتدع بدعۃضلالۃ سے بدعت سیئہ پر استدلال کرنا ۔
بدعت کی تقسیم بدعت حسنہ اور بدعت سیئہ وضلالۃ کی طرف کرنا درست نہیں اس پر بحث پہلے گزر چکی ہے۔البتہ یہاں مذکور الصدردونوں احادیث مبارکہ سے ہونے والی غلط فہمی کا ازالہ کیاجاتاہے تاکہ موصوف کو اپنے پہلے موقف کُلُّ بدعۃٍ ضَّلاَ لۃٌ ہر بدعت شرعی کے گمراہی اور ضلالت ہونے میں شرح صدرحاصل ہواور لغوی تقسیم میں الجھنے کی بجائے آپ بھی مجدد الف ثانی الشیخ احمد سرہندی ؒ کی طرح کُلُّ بدعۃٍ ضَّلاَ لۃٌ کہہ کر حسنۃ اور سیئہ سب بدعات سے برائَت کا اعلان فرمادیں۔
تعجب تو اس بات پر ہے کہ بدعت کی تعریف میں نیاکام ایسا جس کی پہلے نظیر نہ ہو، کی تردید میں انتہا تک پہنچ گئے ہیں کہ من سَنَّ سنۃً حسنۃً اور من سَنَّ سنۃً سیئۃ ً سے بھی بدعت نو ایجاد، نیاکام خواہ شرعی ہو یالغوی کے معنی لے رہے ہیں کیونکہ آپ کا استدلال سَنَّ سے ایک طریقہ کے اجراء اور انشاء پر ہے بلکہ بدعت ھدایت اور بدعت حسنتہ پر مع ثواب کی امید کے ہے جبکہ لغوی معنی میں کسی کام کے نئے ہونے کا اقرار واظہار پہلے کرچکے ہیں۔
 

ساجد تاج

فعال رکن
شمولیت
مارچ 09، 2011
پیغامات
7,174
ری ایکشن اسکور
4,517
پوائنٹ
604
مولّف کی غلط فہمی
مولوی صاحب موصوف کُلُّ بدعۃٍ ضَّلاَ لۃٌ (کہ ہر بدعت گمراہی ہے)بھی فرماتے ہیں۔پھر لغوی شرعی معنی کا فرق بھی ذکر کرتے ہیں۔ساتھ احکام خمسہ سے بدعت کی تقسیم بھی کرتے ہیں اور مصالح مرسلہ کو بھی شامل فرماتے ہیں اور ساتھ اپنی اس تفصیل کو قبول نہ کرنے کی صورت میں اسلام کی تنگی داماں کی فکر رکھتے ہیں کیونکہ دین اسلام کے قیامت تک کے تقاضوں کیلئے ان کی تطبیق ہی صحیح ہے اور عبادات وعادات میں نئے طریقوں کی ایجاد پر مصِر ہیں اور کُلُّ بدعۃٍ ضَّلاَ لۃٌ کے بھی قائل و معترف ہیں اور امور دین اور امور دنیا میں کوئی فرق نہیں سمجھتے ۔سبحان اللہ
شرعی بدعت کی تعریف
امام الشافعیؒ اور امام نووی ؒ سے موصوف ص۶ پر اِقتدوابالذین من بعدی أبی بکروعمر کہ تم میرے بعد دو شخصیات ابو بکرؓاور عمر ؓکی اقتدا کرو۔ ساتھ ہی آگے لکھتے ہیں وَکُلُّ بدعۃٍ ضَّلاَ لۃٌ ہر بدعت گمراہی ہے، فرماتے ہیں اس سے یہی مراد ہے کہ جو بدعت سیئہ ہو اور مخالف اصول شرع ہو،وہ گمراہی ہے ۔تمام ہواکلام ابن اثیرؒ کا(لغات الحدیث وکتاب ج۱ص۲۹۔۳۰ )
آگے امام شافعی ؒ کا فرمان لکھتے ہیں
المحدثات من الامور ضربان احدھما ما احدث مما یخالف کتابا او سنۃ او اثرا اواجماعا فھذہ البدعۃ الضلالۃ والثانیۃ مااحدث من الخیر لاخلاف فیہ لواحد من العلماء وھذہ محدثۃ غیر مذمومۃ ۔
نئے کام کی دو قسمیں ہیں۔
۱۔ نیا کام جو کتاب یا سنت یا اثر یا اجماع کے خلاف ہو یہ نیا کام بدعت ضلالت کہلائے گا۔
۲۔ وہ نیاکام جو بہتر ہو اس میں کسی عالم کا کوئی اختلاف نہیں ہے اور اس نئے کام میں قطعاً کوئی برائی نہیں ہے۔ تہذیب الاسماء واللغات امام نووی ج۲ص۲۳ المجلدالاول
یعنی ہر نئی بات جو مخالف کتاب اللہ یامخالف سنۃ رسول اللہ ﷺیا مخالف اقوال صحابہ یا مخالف اجماع ہوسو وہ گمراہی والی بدعت ہے اور ایسا نیک کام جو ان کے مخالف نہ ہو سو وہ بدعت محمودۃ قابل ثناہے۔
الاستاذ المحدث محمد گوندلویؒ الاصلاح حصہ دوم ص۵ میں رقمطراز ہیں۔ کہ یہ تعریف جن علماء سے نقل کی گئی ہے ان میں سے بعض بدعت کی تقسیم حسنہ اور سیئہ کی طرف کرنے کے قائل ہیں اور بعض تقسیم کے قائل نہیں ہے۔بلکہ ہر بدعت کو سیئہ ہی سمجھتے ہیں ان کا اختلاف لفظی ہے، جو علماء تقسیم کے قائل ہیں وہ اس تعریف مذکور کا مطلب یہ بیان کرتے ہیں،جس چیز کا وجود خارجی رسول اللہﷺکے وقت نہ ہو وہ بدعت ہے۔اس تعریف کی بنا پر بدعت کی تقسیم ہو سکتی ہے اور جو لوگ باوجو د اس کے کہ وہ بدعت کی تعریف یہی کرتے ہیں تقسیم کے قائل نہیں۔وہ وجود سے مرادوجود ِشرعی لیتے ہیں یعنی جس چیزکے جواز پر کوئی دلیل شرعی رسول اللہﷺ کے عہد میں نہ ہووہ بدعت ہے۔خواہ وہ شئی اس وقت خود موجود نہ ہو۔
و قال النووی ؒ :۔البدعۃ کل شیء عُملَ علی غیرِ مثالٍ سبقَ وَ فی الشرع احداث مالم یکن فی عھد رسولِ اللّٰہ ﷺ مرقاۃص۱۷۸
بدعت ہر اس کام کے کہتے ہیں جس کی پہلے نظیر موجود نہ ہواور شرع میں اس شئی کے نکالنے کانام ہے جو رسول اللہﷺ کے زمانہ میں نہ ہو۔
 

ساجد تاج

فعال رکن
شمولیت
مارچ 09، 2011
پیغامات
7,174
ری ایکشن اسکور
4,517
پوائنٹ
604
یہ تعریف اگرچہ دونوں فریق تقسیم کے قائل اور غیر قائل کے مسلک پر منطبق ہو سکتی ہے مگر امام نوویؒ چونکہ تقسیم کے قائل ہیں اس لیے ان کے قول کا مطلب وہی لینا چاہیے جس سے بدعت کی حسنتہ اور سیئہ کی طرف تقسیم ہو سکے۔ پس ان کے قو ل کا مطلب یہ ہوگاکہ بدعت اس کام کے نکالنے کانام ہے،جس کا خارجی وجود رسول اللہﷺ کے زمانہ میں نہ ہو۔
اب جب علماء نے کسی چیز کے قرون ثلاثہ ومشھودلھا بالخیر میں نہ ہونے کو بدعت ضلالۃ سیئہ کہا ہے اور رسول اللہﷺ اور صحابہ وتابعین سے نامنقول امر کو غیر مشروع قرار دیاہے۔تو ان بزرگوں کے کلام میں وجود سے مرادوجود شرعی ہو گا اور جس چیزکاشرعی وجود قرون ثلاثہ میں ہوگا۔اس کا شرعی وجود پہلے دو قرنوں بلکہ ایک قرن میں بھی ہوگا کیونکہ وجود شرعی سے مراد یہ ہے کہ اس پر کوئی شرعی دلیل ہو اور شرعی ادلّہ جمہور اہل سنت واہل حدیث کے نزدیک چا ر ہیں۔کتاب ،سنت ،اجماع اور قیاس ۔
اجماع کیلئے سند کی ضرورت ہے اور قیاس حکم کو ظاہر کرتاہے،ثابت نہیں کرتا لہذا اصل میں دو ہی أدلّہ ہوئیں،کتاب وسنت۔
جو چیز شرعاً ثابت ہوگی أخیر میں ان دو سے ثابت ہو گی پس جو چیز شرعاً ثابت ہوگی اس کاشرعی وجود رسول اللہ ﷺ کے وقت ہوگا۔
قرون ثلاثہ کا رواج چونکہ حق اور درست ہوتاہے اگرچہ قیاس کی طرح مستقل حجت نہیں ہوتامگر شرعی حجت پر دلالت کرتا ہے یعنی تتبُّع اور استقراء سے پتہ چلتاہے کہ جس مسئلہ پر قرون ثلاثہ کا رواج بلا نکیر متحقق ہو اس پر کتاب وسنت سے ضرور دلیل پائی جاتی ہے۔اس بات کو ملحوظ رکھتے ہوئے بعض نے قرون ثلاثہ کا ذکر کر دیا جیسے اجماع اور قیاس کوأدلّہ کی تفصیل میں بیان کرتے ہیں مگر قرون ثلاثہ کی تعیین میں اختلاف ہے۔بعض کہتے ہیں قرن اوّل رسول اللہﷺ اور صحابہ کازمانہ ہے۔قرن دوم تابعین کااور قرن سوم تبع تابعین کا۔ اور بعض کہتے ہیں قرن اوّل رسول اللہﷺ کا زمانہ قرن دوم صحابہ کا قرن سوم تابعین کا روایات میں بھی اختلاف ہے۔بعض میں قرون ثلاثہ اور بعض میں قرون اربعہ۴ کا ذکر ہے یعنی چار قرنوں کا۔ دوسری تفسیر کی صورت میں قرن چہارم تبع تابعین کا قر ن ہوگا۔اس اختلاف کی بناپر بعض نے رسول اللہﷺ کے ساتھ صحابہ کا ذکر اس لئے کیا ہے کہ بہت سے مسائل صحابہ کے اجماع سے ثابت ہیں یہاں تک کہ بعض نے صحابہ کا اجماع قابل استناد سمجھا ہے۔بہر حال ان تینوں تعریفوں میں صرف لفظی اختلاف ہے۔
اصل میں تعریف اتنی ہی ہے کہ جو چیز بدون شرعی اذن کے حادث ہو وہ بدعت ہے ۔باقی تعریفیں شرعی اذن کی تفصیلات ہیں۔
اصل بدعت کی تعریف فرہنگ عالمگیری ج۱ص۳کے حوالہ سے حقیقتہ الفقہ ص۱۸۵ میں لکھتے ہیں۔
تعریف اہل بدعت یہ ہے کہ جو لوگ دین میں خواہ اصول میں ہو خواہ فروع میں بدون دلیل شرعی کے کوئی نئی بات پیداکریں،ان کو اہل ھوٰی بھی کہتے ہیں۔اہل ھوٰی وہ ہے جو مخالفِ سنت ہو۔در مختارج ۳ص ۲۸۶
جو علماء بدعت کی حسنہ اور سیئہ کی طرف تقسیم کے قائل نہیں ہیں ان کی طرف سے بدعت کی یہ تعریف کی گئی ہے۔
مَا اُحدِثَ عَلٰی خلافِ الحقِّ اُلمتلقّٰی عَنْ رسولِ اللّٰہﷺ
یعنی جو چیز نئی حق کے خلاف نکالی گئی ہے وہ بدعت ہے اور جو فقط محدث ہو اورخلاف حق نہ ہووہ بدعت نہیں بلکہ اس کو سنت کہتے ہیں یعنی جو کام ادلّہ شرعیہ سے ثابت ہو اس کو بدعت نہیں کہتے ۔اگر لغت کے اعتبار سے اس پر اطلاق کیا جائے تو اس صورت میں اس کو بدعت مذمومہ سیئہ قبیحہ نہیں کہاجائے گا۔
انوارساطعہ میں دوسری جگہ لکھاہے۔
خواہ کوئی فعل ہو یا قول ہو یا اعتقاد اس کا حسنہ اور سئیہ ہونا زمانہ پرموقوف نہیں بلکہ اس کا مدارمخالفت اور عدم مخالفت پر ہے۔اہل بدعت ہر چیزمیں خواہ اس کا دین سے تعلق ہو خواہ دنیا سے اس میں احداث کے قائل ہیں اور مخالفت حق کے علاوہ اس کی ممانعت کے وارد نہ ہونے تک اس کے احداث میں کوئی قباحت نہیں سمجھتے۔یہ تعریف بھی بلحاظ معنی کے پہلی تعریفوں سے متقق ہے۔لیکن یہاں مخالفت اور عدم مخالفت کو سمجھنے کی ضرورت ہے۔
 

ساجد تاج

فعال رکن
شمولیت
مارچ 09، 2011
پیغامات
7,174
ری ایکشن اسکور
4,517
پوائنٹ
604
مخالفت حق کے صحیح معنی
۱۔ جو چیز شرعی دلیل سے ثابت نہ ہوگی۔وہ قطعاً قرآن وسنت واجماع وآثار کے خلاف ہوگی کیونکہ شریعت نے بدعت سے منع کیاہے اور اس پر سخت وعید فرمائی ہے۔باوجودممانعت اور وعید کے بدعتی اس کوایجاد کرتاہے۔اس لئے وہ کتاب وسنت اجماع اوراثر کی مخالفت کرتاہے۔اس بنا پر بدعت کا کتاب وسنت اجماع اثر کے مخالف ہونا ضروری ہے۔
۲۔ ہر بدعت سنت ترکیہ کے خلاف ہوتی ہے۔سنت ترکیہ کا مطلب یہ ہے کہ قرن اوّل میں جب کسی کام کے کرنے کا سبب موجود اور اس کے کرنے میں کوئی رکاوٹ نہ ہو اس کے باوجود اسے ترک کردیا گیا ہو ۔
اس کی تائید میں وہ جملہ احادیث ہیںجن میں صحابہ رضوان اللہ علیھم اجمعین نے یہ اعتراض کیا ہے کہ یہ کام رسول اللہﷺ نے نہیں کیا یعنی انہوں نے عدم فعل ِنبوی صلی اللہ علیہ وسلم سے مخالفت سنت ہونے پر استدلال کیا ہے اور عدم ثبوت کو شرع کی مخالفت قرار دیاہے۔
مخالفت حق کے غلط معنی
بدعت غیر قابل عمل جس پر عمل کرنے سے سنت کے اٹھ جانے کی سزا ملتی ہے۔وہ اس کا سنت ترکیہ اور بدعات کی مذمت اور اس سے ممانعت کی ادلّہ کے خلاف ہوتاہے۔کسی خاص نہی کے خلاف ہونا ہرگز نہیں ہے۔پس ثابت ہواکہ بدعت کی ایسی تعریف کرنا کہ وہ کسی خاص نہی کے خلاف ہو یا کسی مشروع کے چھوڑنے کی صورت ہو۔بالکل ہی بے بنیاد اور غلط ہے اہل بدعت کے اس مغالطہ کو سمجھنے کی ضرورت ہے۔صحابہ کرام کابدعات پر انکار اور ان کے خلاف حق کہنے کا مطلب یہی ہے کہ وہ سنت ترکیہ کے خلاف ہونے کے ساتھ ساتھ بدعت سے ممانعت کی ادلّہ کے بھی خلاف ہیں (صحابہ سے اس کی متعدد مثالیں ذکرکی جاچکی ہیں اور آگے بھی بیان ہوں گی) اور بعد میں کوئی نیا سبب پیدا نہ ہو۔ جو اس کام کے کرنے کا مقتضٰی ہو۔باوجود اس کے رسول اللہﷺکے زمانہ میںوہ فعل ثابت نہ ہو یعنی شریعت نے اس کے جوازپر قول فعل یا تقریر سے کوئی دلیل قائم نہ کی ہو تو ایسے فعل کو تر ک کرنا سنت ترکیہ کہلاتاہے جیسے عید ین میں اذان رسول اللہ ﷺ کے عہد میں اس کا ثبوت نہیں ملتا۔حالانکہ اذان کہنے کا سبب لوگوں کو آگاہ کرنا اس وقت موجود تھا اور اذان کہنے سے کوئی امر مانع بھی نہیں تھااور رسول اللہﷺ کے بعد کوئی نیا سبب اذان کہنے کا پیدابھی نہیں ہوا اب اس صورت میں عید میں اذان کہنا سنت ترکیہ کے خلاف ہوگا۔یہی حال ہر بدعت کا ہے مثلاًہر نماز کے لیے غسل کرنا، ایصال ثواب کیلئے قرآن خوانی اور محفل میلاد بصورت خاص کرنا، نماز جنازہ کے بعد متصل قبل از دفن جنازہ گاہ میں ہاتھ اُٹھا کردعا ،اِن کے اسباب یعنی غسل سے پاکیزگی،ایصال ثواب سے میت کو نفع پہنچانا اور محفل میلادسے نبی کی تعظیم، رسول اللہﷺ کے زمانہ میں موجودتھے ان کے کرنے میں کوئی بندش بھی نہ تھی اور آپﷺ کے بعد اس کے کرنے کاکوئی نیا سبب بھی پیدا نہیں ہوا اس لیے یہ سب کام سنت ترکیہ کے خلاف ہوں گے اور اگر نیا سبب ہماری غلطی سے پیدا ہوا ہو تو اس صورت میںبھی ہم کوئی نیا کام نہیں کر سکتے۔بلکہ ہم کوچاہیے کہ ہم اپنی غلطی کو چھوڑیں جیسے عید میں سنت یہ ہے کہ خطبہ نماز کے بعد ہو۔اگر کوئی خلاف شرع وعظ کہنا شروع کردے اور لوگ اس وجہ سے نہ بیٹھیںتو اس صورت میں ہم خطبہ نماز سے پہلے نہیں کرسکتے کیونکہ لوگوںکانہ ٹھہرنا ہماری غلطی(خلاف شرع وعظ)کی بنا پر ہے۔ہم کو اپنی غلطی کی اصلاح کرنی چاہیے،نہ کہ نئی بدعت ایجاد کرنا۔
 

ساجد تاج

فعال رکن
شمولیت
مارچ 09، 2011
پیغامات
7,174
ری ایکشن اسکور
4,517
پوائنٹ
604
یہاں یہ قاعدہ نہیں چل سکتاکہ عدم نقل عدم واقعی کو مستلزم نہیں یعنی یہاں یہ نہیں کہا جا سکتا کہ ہو سکتاہے کہ رسول اللہ ﷺ یا صحابہ کے زمانے میں ہر نماز کے ساتھ غسل ہوتا ہو یا رسول اللہ ﷺ کے زمانہ میں مُردوں کی نفع رسائی کیلئے قرآن خوانی ہوتی ہو مگرنقل نہ ہوئی ہوکیونکہ!
۱۔ شریعت کی حفاظت کا ذمہ اللہ تعالیٰ نے خود لیا ہے ،یہ نہیں ہو سکتا کہ جوفعل جزو دین ہو وہ ہم تک نہ پہنچے۔
۲۔ شرعی امور کے نقل کرنے کے اسباب اس قدر وافرہیں کہ جن کے ہوتے ہوئے کسی جزو ِدین کا نقل سے اوجھل ہونامحال ہے۔
اگر کوئی شخص ہمارے پاس یہ کہے کہ تین اذانین ظہر کی نماز کے مستحب ہیں،ہوسکتاہے پہلے زمانہ میں ا س کا رواج ہوتو ہم قطعاً اس کوہدایت عقل کے خلاف سمجھتے ہوئے بدعت کہیں گے اور یہاں یہ بات( عدم نقل کو عدم مستلزم نہیں)نہیں کی جا سکتی بلکہ کہنے والا بھی شرماتاہے۔
علامہ قسطلانیؒ فرماتے ہیں۔
وترْکہُ صَلَّی اللّٰہ علیہِ وَسَلَّم سُنَّۃٌ کَما أنّ فِعْلَۂ سنۃٌ فَلَیسَ لَنا اُن نُسِوّیَ بینَ فِعلِہِ وتَرْکہِ فنأتیَ مِن الفِعلِ فی الموضِعِ الّذی تَرکَہ بنظیر مَاأتی بہ فی الموضِعِ الذی فَعَلَہُ (المواھب اللدنیہ)
رسول اللہ ﷺ کا کسی فعل کا چھوڑنابھی سنت ہے جیسے آپ ﷺ کا کرناسنت ہے۔ہمارے لئے جائز نہیں کہ ہم رسول اللہ ﷺ کے فعل اور ترک کو برابر کردیںاور آپ نے جہاں کوئی فعل چھوڑا ہے وہاں بھی اسی طرح کر نے لگیں جیسے کرنے کی جگہ ثابت ہے۔
علامہ ابن حجرھیثمی ؒاپنے فتوی میں لکھتے ہیں۔
جن علماء نے بدعت کو حسنتہ اور سیئہ میں تقسیم کیاہے انہوں نے بدعت سے مراد اس کا لغوی معنی لیاہے کیونکہ صحابہ اور تابعین نے پانج نمازوں کے علاوہ عید ین کیلئے اذان پر انکار کیاہے اگرچہ اس میں کوئی نہی خاص وارد نہیں ہوئی رکنین شامیین(بیت اللہ کے جو دو کونے حطیم کی طرف میں)کے استلام(چھونے) کو (اکثر)مکروہ جانتے تھے۔صفاومروہ کے طواف کرنے کے بعد بیت اللہ کے طواف پر قیاس کرتے ہوئے نماز نہیں پڑھتے تھے کیونکہ جس چیز کو آپﷺنے(باوجود مقتضٰی اور عدم مانع)ترک کیا اس کا ترک سنت ہے اور اس کا فعل بدعت مذمومہ ہے۔
مُلّااحمدرومی مجالس الأبرار میں فرماتے ہیں:
کسی فعل(دینی امر)کا صدر اوّل میں نہ ہونایا تو اس لیے ہوگا
۱۔ اس کی حاجت نہیں ۲۔ یا کوئی مانع تھا ۳۔ یا ان کو علم نہ تھا ۴۔ یا سستی ۵ ۔یاکراھت ۶۔ یاعدم مشروعیت۔
اوّل یعنی عدم حاجت تو بے معنی ہے کیونکہ تقرب الیٰ اللہ کی ہر وقت حاجت وضرورت ہے۔
دوم ۔مانع ظہور اسلام کے بعدمانع کا تصور بھی نہیں ہو سکتا۔
سوم ۔عدم علم اور چہارم۔ تکاسل(سستی) ان دونوں کا وہم بھی نہیں ہو سکتا۔
پنجم ۔کراھت ششم ۔عدم مشروعیت اب ترک کی وجہ اس کاسیئہ ہو نا ہو گا۔
 

ساجد تاج

فعال رکن
شمولیت
مارچ 09، 2011
پیغامات
7,174
ری ایکشن اسکور
4,517
پوائنٹ
604
اتباع سنت پر عبداللہ بن عمرؓ کا اصرار اور بدعت پر انکار
امام ترمذی ؒاپنی جامع میں روایت فرماتے ہیں کہ ایک شخص نے عبداللہ بن عمر ؓ کے پاس آکر چھینک ماری اور کہا الحمداللّٰہِ والسلام علی رسول اللّٰہ ِ سب تعریف اللہ کیلئے اور رسو ل اللہ ﷺ پر سلام ہو۔تو آپؓ نے فرمایاکہ ہم بھی کہتے ہیں۔الحمداللّٰہ والسلام علی رسول اللّٰہ لیکن چھینک آنے پر ایسا نہیں کہاگیا بلکہ ہمیں رسول اللہ ﷺ نے سکھلایا ہے کہ ہم ایسے موقعہ پر الحمداللّٰہِ عَلٰی کلِّ حالٍ کہ ہر حال میں اللہ کی حمد ہے، کہیں۔
شیخ عبدالحق محدث دہلوی ؒ فرماتے ہیں۔
ینبغی فی الذکر والدعا ء الا قتصار علی الماثور ین غیر ان یُزاد او ینقص فالز یا دۃ فی مثلہ نقصانٌ فی الحقیقۃ کما لا یُزاد فی الاذان بعد التھلیل محمدرسول اللّٰہ وامثال ذالک کیژۃٌ
فرمایا:۔ذکر ودعا اس قدر پڑھی جائے جس قدر ماثور ( ثابت )ہے ۔ اس میں کمی بیشی نہیں کرنی چاہیے،حقیقت میں ایسی جگہ زیادتی نقصان کا حکم رکھتی ہے(یعنی سنت میں نقص کا حکم رکھتی ہے)جیسے کہ اذان کے اخیر میں لااِلہ اِلااللہ کے بعد مؤذن اور مجیب کی طرف سے محمدرسول اللّٰہ کااضافہ اور زیادتی نہ کی جائے۔ اور اس کی مثالیں کثیر ہیں۔
یہاں اس تاویل کی گنجائش نہ رہی کہ ہم نماز جنازہ کے بعد متصل قبل از دفن دعا کوجنازہ کی جزو اور حصہ نہیں سمجھتے ۔مسکوت عنہ ہونے اور اباحت کے اصول کے تحت دفن میں تاخیر کے ادلّہ کے باوصف لمبی دعاکرکے محمد رسول اللہ ﷺ کی مسنون دعاؤں اور نماز میں اضافہ جو نقصان کے حکم میں ہے۔ اس کا ارتکاب کرتے ہیں اور دھٹرلے سے کمیت وکیفیت اور مرتبے میں سنت کا درجہ دیتے ہیں اور پھر بھی اہل سنت والجماعت ہیں ۔
ایک سوال اور اس کا جواب
رہا یہ سوال کہ جنازہ کے بعد حال احوال پوچھنے کی اجازت ہو دعا کی نہ ہو۔تو یہ ملحوظ رہے کہ دعا تو عبادت ہے اور حال احوال پوچھنا عادت ہے ۔عادت کی اجازت پاکر اس پر عبادت کو آپ متفرع کرتے ہیں۔حالانکہ عادت میں تو ممانعت نہ ہونے تک اجازت ہے لیکن عبادت میں ثبوت ہونے تک اجازت نہیں،ورنہ شیخ عبدالحقؒ کا یہ کہنا کہ زیادتی حقیقت میں نقص ہے اور اقتصار علی الماثور ہی سزا وار ہے کچھ حیثیت نہیں رکھتا اور ردالمختار میں صفحہ۴۰۷ میں روایت ہے ابراہیم سے کہ تعزیت قبر کے پاس بدعت ہے اور ایسے ہی فرمایا بہار شریعت میں ج۴ صفحہ ۱۶۹پر لکھتے ہیں ۔یہاں تو تعزیت احوال اور دعادونوں کو شامل ہے ،اسے بدعت فرمایاگیا ہے۔
اس پر کیا فرمائیں گے؟ اب یہاں قبر پر تعزیعت کو بدعت فرمایاہے جبکہ قبر کی زیارت بھی سنت ہے مگر دونوں کو ملاکرقبر کے اوپر تعزیت کرنا بدعت ہوگا۔
شروع طواف میں تکبیرکے ساتھ ہاتھ اٹھانا سنت مگر نیت کے ساتھ اٹھانابدعت حالانکہ نیت اور تکبیر میں بہت باریک فرق ہے۔
اِس واسطے علامہ شامیؒ ردالمختار ص۴۷۶ میں فرماتے ہیں کہ اہل بدعت اپنی خواہشات کی پیروی کرتے ہیں اور کتاب اللہ اور سنت رسول اللہ ﷺ کی طرف نہیں لوٹتے اور احادیث صحیحہ کا انکار کرتے ہیں۔
نیز ردالمختار ص۵۰۶ میں فرماتے ہیں کہ جس بات کے بدعت اور سنت ہونے میں ترددہو تواُس کو چھوڑ ہی دیوے۔
اِعادۃ میں افادہ کے طورپر ملحوظ رہے کہ مولوی صاحب بریلوی کے ملفوظات حصہ سوم حسنی پریس بریلی ۱۳۳۸ ص۱۹ میں مرقوم ہے۔
عرض۔سنت ومکروہ میں تعارض ہو تو کیا کرنا چاہیے۔
ارشاد۔ترک اولیٰ ہے۔نقل از اکمل البیان فی تائید تقویۃ الایمان ص۱۳۷
 
Top