• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

بدعت کی حقیقت

ساجد تاج

فعال رکن
شمولیت
مارچ 09، 2011
پیغامات
7,174
ری ایکشن اسکور
4,517
پوائنٹ
604
مجددالف ثانیؒ فرماتے ہیں
ہر چیز دردین محدث ومبتدع گشتہ کہ درزمان خیرالبشرﷺ وخلفاء راشدینؓ نہ بودہ اگرچہ آں چیز درروشنی مثل فلق صبح بود ایں ضعیف راباجمع کہ بااو بستند گرفتار عمل محدث آں نہ گردانند(ترجمہ)بندہ عاجزی وانکساری سے دعا گو ہے کہ اللہ تعالیٰ ہر وہ چیز جو دین میں نئی اور بدعت نکالی گئی ہے،جو خیرالبشرﷺ اور خلفاء راشدین ؓکے زمانہ میں نہ تھی اگر اس کی روشنی صبح صادق کی طرح ہو اس ضعیف کو اور اس کے ساتھ تعلق رکھنے والوں کو اس نئی بات میں گرفتار نہ کرے اور اس بدعت کے فتنہ میں نہ ڈالے۔
مکتوب مفصل کے آخر میں فرماتے ہیں۔علیکم باالاقتصار علی متابعۃ سنۃ رسول اللّٰہ ﷺ والاکتفاء علی اقتداء اصحابہ الکرام
پس تم رسول اللہ ﷺ کی سنت کی متابعت وپیروی پر پابندی لازم پکڑو اور آپ ﷺکے صحابہ کرامؓ کی اقتداء کو کافی سمجھو۔ مکتوبات مجدّدیہ کے مکتوب ایک سوچھیاسی۱۸۶ ( آپ کا مکتوب گرامی تفصیلاً آگے آرہا ہے)
بدعت کے رد میں ایک حدیث مبارکہ
مَنْ اَحْدَثَ فِی أَمْرِنَا ھٰذَامَالَیسَ مِنہُ فَھُوَ رَدٌّ مُتَّفَقٌ عَلَیہِ
جو شخص ہمارے اس حکم( دین) میں ایسی چیز نکالے جو اس سے نہ ہو وہ مردود ہے۔
بعض اہل بدعت نے اس کا ترجمہ اس طرح کیا ہے کہ جو چیز مخالفِ کتاب و سنّت ہو وہ رَد ہے ،مگر یہ ترجمہ غلط ہے(تحریف معنوی ہے)
اس طرح بدعت کی حقیقت واضح کرنے کیلئے ایک اور حدیث ہے۔
مَنْ صَنَعَ أَمْراً علیٰ غَیرِ أَمْرِنا فَھُوَ رَدٌّ (رواہ ابودائود)
(ترجمہ)جو شخص کوئی کام کرے وہ ہمارے امر کے علاوہ ہوتووہ مردود ہے۔
اور بعض اہل بدعت اس کا ترجمہ یوں کرتے ہیں،جوبھی کوئی اس کے خلاف کرے وہ رد ہے۔
اس ترجمہ کے غلط ہونے کی وجہ یہ ہے کہ حدیث مبارکہ میں غیر کا لفظ ہے نہ خلاف کا۔
 

ساجد تاج

فعال رکن
شمولیت
مارچ 09، 2011
پیغامات
7,174
ری ایکشن اسکور
4,517
پوائنٹ
604
مزید وضاحت
بدعت دوقسم پر ہے۔ایک اصلیہ یعنی اصل کام ہی نیا ہو جسے عقیدہ وحدت والوجود، ذکر قلبی وغیرہ
دوسری قسم بدعت وصفی یعنی اصل کام تو ثابت ہومگر اس کی خصوصیت ثابت نہ ہو جسے صدقہ دیناثابت ہے۔لیکن میت کے لیے جنازہ اور قبرکے علاوہ اجتماع ثابت نہیں ، صدقہ ثابت ہے مگر دن کی تخصیص اور اس پر قرآن خوانی اور قرآن خوانی پر اجتماع ثابت نہیں۔
یہ ہر دو حدیث بدعت اصلیہ اور وصفیہ دونوں کے مردود ہونے پر دلالت کرتی ہیں۔
محدث: ۔وہ امر جو رسول اللہﷺ کے زمانہ میں موجود نہ ہو اور نہ ہی اس کی نظیر پائی جاتی ہو اور قرون ثلاثہ میں بھی وہ بلا نکیر رائج نہ ہواور نہ ہی اسکی نظیر ملتی ہو ۔
لفظ امور کی تحقیق
أمور سے اُمور دین مراد ہیں جیسے لفظ أَمْرِنَا جو حدیث من احدث فِی میں وارد ہواہے۔اس پر دلالت کرتاہے،کیونکہ جو امر انبیاء کے ساتھ خاص ہے،وہ امر دین ہے۔
رافع بن خدیج کی روایت جو صحیح مسلم میں ہے اس سے اس کی مزید تائید ہوتی ہے اور وہ یہ ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا۔
اِنَّما اَنَا بَشَرٌ اِذَا اَمرتُکم بِشَیئٍ مِن اَمرِ دِینِکُم فَخُذو ابہِ وَاِذَااَمَرتُکُم بِشیئٍ مِن رَأیِ فَاِنَّمَا اَنَا بَشَرٌ
ترجمہ : یعنی جب تمہیں دین کی کوئی چیز بتلاؤں تو اس پر عمل کر و اور جب اپنی رائے سے حکم دوںتو میں بشر ہوں۔
ا لاستاذمحمد گوندلویؒاپنی کتاب النبراس فی الفرق بین البدعۃ والقیاس میں لکھتے ہیں ۔ اِس حدیث سے معلوم ہوتاہے کہ شارع علیہ الصلوۃوالسلام کی اتباع دین میں واجب ہے،امردنیا میں اختیارہے اس میں احداث کی ممانعت بھی نہیں فرمائی،پس لامحالہ جہاں محدثات کے اجتناب میں لفظ امور استعمال ہوا،اس سے مراد امور دین ہوں گے اور امر دین سے اس جگہ وہ چیزہے جس کے ساتھ شارع علیہ السلام کے حکم کا تعلق ہوگا جیسے اِذَا اَمرتُکم بِشَیئٍ مِن اَمرِ دِینِکُم فَخُذوابہِ یعنی جب تم کو میں دین کے متعلق حکم دوں تو اس پر عمل کرو ،سے معلوم ہوتاہے اور امر دین اس معنی کی رو سے استقراء مندرجہ ذیل امور میں منحصر ہے۔۱۔ عقائد حقہ ۲۔ اخلاق جمیلہ ۳۔ مقامات ۴۔ حالات ۵۔ اِردات ِطیبہ ۶۔اقوال لسانیہ ۷۔ افعالِ حسبانیہ ۸۔ عبادات ۹۔ عادات ۱۰۔معاملات۔ کیونکہ شارع علیہ السلام کا امر انسان کے ظاہر ی و باطنی اصلاح سے متعلق ہے۔
 

ساجد تاج

فعال رکن
شمولیت
مارچ 09، 2011
پیغامات
7,174
ری ایکشن اسکور
4,517
پوائنٹ
604
ظاہری اصلاح تو عبادات وعادات اور معاملات(جو افعال واقوال اختیاریہ کا مرجع ہیں) کی اصلاح پر موقوف ہے۔ اور باطنی اصلاح درج ذیل امور سے حاصل ہوتی ہے۔
۱۔ تکمیل ِعقل ۲۔تحصیل عقائد حقہ ۳۔ دل کا اخلاق رذیلہ سے صاف ہونا ۴۔اخلاق حمیدہ سے مزین ہونا۵۔مقامات عالیہ ۶۔اردات ِغیبیہ وحالات قدسیہ سے منور ہونا۔النبراس ص ۹۰۔۹۱۔۹۲
ارشاد نبوی ۔
منْ اَحدثَ فی اَمرِنا ھٰذا مَالَیسَ مِنہُ فَھُو رَدٌّ۔
یعنی جس نے ہمارے کام (دین) میں زیادتی کی جو اس سے نہیں تو وہ زیادتی مردود ہے۔
پہلے اِحداث فی اَمرِنا کی تحقیق بیان ہو چکی ہے۔اب ماموصولہ کی وضاحت کی جاتی ہے الاستاذگوندلوی ؒ لکھتے ہیں ،مَا کاجومفہوم ہے اس میں اس قدر وسعت ہے کہ وہ ہر چیز پر صادق آتا ہے مگر سیاق وسباق کی بناپریا صلہ کی وجہ سے یا متکلم ومخاطب کی حالت کالحاظ رکھتے ہوئے قطعاً خاص چیز مراد لی جاتی ہے مثلاً اگر کوئی شخص یہ کہے کہ جاہل کو علماء کے کاروبار میں ایسی چیز کا احداث کرنا درست نہیں جوان میں متداول نہیں۔ جس سے عرف میں اس کلام سے یہ معلوم ہوتاہے کہ جاہل کو اس چیز کا احداث منع ہے۔جس کا تعلق علم سے ہے۔جن کا علماء علم کی بناپر اہتمام کرتے ہیں اور عقل مند اپنی عقل کی بنا پر اس میں مشغول ہیں جیسے کسی نئی کتاب کی تصنیف وتالیف باانواع تقریر وتحریر ومطالعہ ومناظرہ میں جدید طرز اختراع ایجاد کرنا اور جدید مسائل کی تخریج بھی اس میں شامل ہے۔لیکن اس سے مراد نیا لباس۔نئے مسکن کے معاملات جن کا تعلق علم سے نہیں قطعاً مراد نہیں ہیں۔اگرچہ فی الجملہ علماء بھی ان معاملات میں حاجت بشریت کو پورا کرنے کے اعتبارسے مشغول ہوتے ہیں۔
اسی طرح مذکورہ بالا حدیث کا معنی بھی یہی لینا پڑے گا کہ جوانبیاء علیھم الصلوۃ والسلام کے امر میں ایسی چیز کااحداث کرے گاجس کا انبیاء علیھم الصلوۃ والسلام منصب نبوت کی بنا پر اہتمام کیا کرتے تھے۔
یعنی دین اسلام اور شریعت محمدی میں جو نیا کام ایجاد کرے گاجو اس سے نہیں، وہ مردودہے۔جس سے معلوم ہوا کہ ان امور کی ترغیب جو آخرت میں مفید ہیں اور ان امور سے روکنا جو آخرت میں مضر ہیں منصب نبوت کے ساتھ خاص ہیں۔ اسی کو دین کہتے ہیں اور یہ بحکم آیت کریمہ
شَرَعَ لَکُمْ مِّنَ الدِّیْنِ مَا وَصّٰی بِہٖ نُوْحًا وَّالَّذِیْ ٓ اَوْحَیْنَآ اِلَیْکَ وَمَا وَصَّیْنَا بِہٖٓ اِبْرٰھِیْمَ وَ مُوْسٰی وَعِیْسٰیٓ اَنْ اَقِیْمُواالدِّیْنَ وَلَا تَتَفَرَّقُوْا فِیْہِ ط الآیۃ۴۲۔۱۲ الشورٰی
اللہ تعالیٰ نے تمھارے لیے وہی دین مقرر کیا جو نوح کو حکم دیا تھا اور جسے آپ پر وحی کیا ہے اور جس کا ہم نے ابراھیم ،موسیٰ اور عیسیٰ کو (اتباع کا) حکم دیاکہ دین کو قائم کریں اور اس دین میں فرقہ فرقہ نہ ہوں۔
یعنی جمیع أدیان سماویہ مشترک ہیں۔ اسی طرح امور مذکورہ کی حد بندی اور ان کے ساتھ خاص خاص صورتیں مقرر کرناجنہیں منفعت ومضرَّت اُخروی میں دخل ہے منصب نبوت ہی کے ساتھ خاص ہے اور اسے شریعت نے منھاج سے تعبیر کیاہے۔البتہ اختلاف رُسُل کی بنا پر اس میں اختلاف ہوسکتا ہے۔ فرمان باری تعالیٰ ہے۔
فَاحْکُمْ بَیْنَھُمْ بِمَآ اَنْزَلَ اللّٰہُ وَلَا تَتَّبِعْ اَھْوَآئَھُمْ عَمَّا جَآئَ کَ مِنَ الْحَقِّ ط لِکُلٍّ جَعَلْنَا مِنْکُمْ شِرْعَۃً وَّمِنْھَاجًا ط (۵:۴۸)
اے محمدﷺ ان کے درمیان اللہ کے نازل کردہ کے ساتھ فیصلہ فرمائیے اور ان کی خواہشات کی اس حق کے مقابل پیروی نہ کیجیے جو آپ کے پاس آچکا ہے ۔تم میں سے ہرایک کے لئے ہم نے خاص شریعت اور خاص طریقت مقرر کی ہے۔
مثلاًنفس نماز اور نکاح کی ترغیب دینا اور شرک وزنا سے نفرت دلانا اصول دین کی تعلیم دیناہے اورتعین اوقات اور اعداد رکعات اور شروط وغیرہ کے ساتھ نماز کی حد بندی اسی طرح ایجاب وقبول اورحضورِولی وشھود اورلزوم مہر وغیرہ، نکاح کی حدبندی کرنا اور زنا کی تحدید کہ وہ ایسی جگہ میں جو ملک وشبہ سے خالی ہو اور اس کی حدکی تعین سزا دینے اور کوڑے لگانے کے ساتھ اور طِیَرَہ وحَلَف لغیراللہ کے ساتھ شرک کی حد بندی کرنا اور اس قسم کے دیگر امور سب دین میں داخل ہیں اور اس بحث کا سمجھناابواب تشریع کی تفصیل پر موقوف ہے۔
 

ساجد تاج

فعال رکن
شمولیت
مارچ 09، 2011
پیغامات
7,174
ری ایکشن اسکور
4,517
پوائنٹ
604
قرآن مجید میں بدعت کی مذمت کی آیات مبارکہ
اَمْ لَہُمْ شُرَکٰٓؤُا شَرَعُوْا لَھُمْ مِّنَ الدِّیْنِ مَالَمْ یَاْذَنْ م بِہِ اللّٰہُ ط( سورۃالشورٰی)
ترجمہ :۔کیا ان کے لیے ایسے شریک ہیں جنہوں نے ان کے لیے ایسی باتیں مقرر کی ہیں جن کا اللہ نے اِذن نہیں دیا ۔
اس آیت سے صاف معلوم ہوتاہے کہ دین میں اللہ کے اذن واجازت کے بغیر کوئی شئی مقرر نہیں ہوسکتی جوبدون اِذن اللہ مقرر ہواس کو بدعت کہتے ہیں۔
(۲)فَخَلَفَ مِنْ م بَعْدِھِمْ خَلْف'' اَضَاعُوا الصَّلٰوۃَ وَاتَّبَعُوا الشَّھَوٰتِ فَسَوْفَ یَلْقَوْنَ غَیَّا}مریم ۵۹
ان انبیاء عَلَیھِمُ السَّلَام کے بعد نااہل لوگ پیدا ہوئے جہنوں نے نماز ضائع کی۔(یعنی تکمیل ارکان نہ کی)اوراپنی خواہشات کے پیچھے لگ گئے(اپنی خواہش سے دین میں اضافہ کر لیا) یعنی دین میں کمی بیشی کی، اسی کا نام بدعت ہے۔
(۳) {وَمَنْ اَرَادَ الْاٰخِرَۃَ وَسَعٰی لَھَا سَعْیَھَا وَھُوَ مُؤْمِن'' فَاُولٰٓئِکَ کَانَ سَعْیُہُمْ مَّشْکُوْرًا } (سورۃ الاسراء ۹ا)
جو شخص آخرت کو چاہے(عمل میں مخلص ہو دنیا کا طالب نہ ہو)اور اس کے لیے کوشش کرے جو آخرت کی کوشش ہے۔(جو شریعت نے مقرر کی ہے یعنی بدعت نہ نکالے)اور مومن ہوایسے لوگوں کی کوشش قابل قدر ہے۔
(۴) وُجُوْہ'' یَّوْمَئِذٍ خَاشِعَۃ''ہعَامِلَۃ'' نَّاصِبَۃ'' تَصْلٰی نَارًا حَامِیَۃ (سورۃ الغاشیہ)
ترجمہ: کتنے آدمی جو عاجزی کرنے والے،تھکنے والے ہیں(یعنی بدعت پر عمل کرتے کرتے تھک جاتے ہیں)گرم آگ میں داخل ہونگے۔
(۵) وَرَھْبَانِیَّۃَ نِابْتَدَعُوْھَا مَا کَتَبْنٰھَا عَلَیْھِمْ اِلَّا ابْتِغَآئَ رِضْوَانِ اللّٰہِ فَمَا رَعَوْھَا حَقَّ رِعَایَتِھَا ج فَاٰ تَیْنَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا مِنْھُمْ اَجْرَھُمْ ج وَکَثِیْر'' مِّنْھُمْ فٰسِقُوْن(سورۃ الحدید)
ترجمہ:۔ اِن لوگوں(عیسائیوں)نے فقیری کی بدعت نکالی ہم نے ان پر فرض نہیں کی تھی مگر اللہ کی رضا مندی تلاش کرنا۔پس انہوں نے دین کا کوئی لحاظ نہ کیا تو ہم نے جو ایمان لائے ان کو ان کا اجر عطاکردیااور اکثر ان کے (بدعت کرنے کی وجہ سے )فاسق ہیں۔
(۶) {وَاْتُوا الْبُیُوْتَ مِنْ اَبْوَابِھَا ص} (البقرۃ۱۸۹)
ترجمہ:۔ گھروں میں دروازے سے آیا کرو
(احرام کی حالت میں بعض لوگ گھروں میں دروازے سے داخل ہونا معیوب خیال کرتے تھے اس واسطے مکان کے پیچھے سے گھر میں داخل ہوتے تھے )یہ دین میں اضافہ تھا۔
(۷) ثُمَّ اَفِیْضُوْا مِنْ حَیْثُ اَفَاضَ النَّاسُ (سورۃ البقرۃ)
ترجمہ:۔جہاں سے لوگ واپس ہوئے ہیں تم بھی وہاں ہی سے واپس ہوا کرو۔( قریش عرفا ت میں نہیں جاتے تھے کیونکہ وہ حرم سے باہر ہے،مزدلفہ ہی سے واپس ہوتے یہ بات ان کی دین ابراہیمیؑ میں ایک کمی تھی قرآن نے اس کمی سے روکاہے۔(دین میں کمی بیشی کانام ہی بدعت ہے)
جب قرآن مجید اورحدیث شریف میں بار بار بدعت کی ممانعت کر دی گئی ہے تو اب کیسے ہو سکتاہے کہ دین میں انسانی مرضی کے ساتھ کمی بیشی کی جاسکے۔کتاب وسنت کے الفاظ ومعانی اور اسوۃنبوی علی صاحبھا الصلوۃ والسلام بدعت کی اجازت نہ ہونے کے سبب ہر طرح سے محفوظ رہے اور قیامت تک رہیں گے۔والحمدللّٰہ علی نعمۃ الاسلام
اور آیت کریمہ:{
وَلَئِنِ اتَّبَعْتَ اَھْوَآئَھُمْ مِّنْ م بَعْدِ مَاجَآئَ کَ مِنَ الْعِلْمِ لا اِنَّکَ اِذًا لَّمِنَ الظّٰلِمِیْن}(سورۃ البقرۃ)۱۴۵
ترجمہ : اور اگر آپ پیروی کریں ان کی خواہشات کی بعد اس علم کے جو تیرے پاس آیا تو تحقیق آپ اس وقت ظالموں میں سے ہوگے۔
اس آیت میں مخاطب تو رسول اللہﷺ ہیںلیکن مرادامت ہے۔اگر ایک شخص عالم دین جو کہ اہل بدعت وھویٰ کی پیروی کرتا ہے تو اس پر عتاب ہو گا(ابن کثیر۔القرطبی)
پھر کیا حال ہو گاجو اہل بدعت کی مخالفت کی بجائے ان کی محافل میلاد کے جلوس مجالس عزاء تعزیہ مجالس ِایصال ثواب میں شریک ہوتاہے۔اشرف الحواشی بحوالہ تفسیر المنار۔ اس آیت کریمہ میں بھی بدعت اور اہل بدعت اور ان سے میل جول کی مذمت فرمائی گئی ہے۔
 

ساجد تاج

فعال رکن
شمولیت
مارچ 09، 2011
پیغامات
7,174
ری ایکشن اسکور
4,517
پوائنٹ
604
شرعی بدعت کی قسمیں(بطور اصل اور وصف کے)
احادیث مبارکہ سے پتہ چلتاہے کہ ہر بدعت شرعی مذموم اور ضلالت ہے اور اس کی دو قسمیں ہیں ایک بدعت اصلی اور دوسری بدعت وصفی۔
بدعت اصلیہ کا مفہوم
الاستاذالحافظ محمد گوندلویؒ لکھتے ہیں ہر عقیدہ خواہ اس کا تعلق حال سے ہو یا مقام سے یا وارد سے یا عبادات ومعلاملات وعادات سے اور ان میں احداث اس معنی کے لحاظ سے ہو کہ اس کا موجد اس محدث کو آخرت میں مفید سمجھ کر اسے حاصل کرنے کی کوشش کرے یا آخرت میں نقصان دہ سمجھ کر اس سے بچے یارکن یا شرط یالازم ِعبادت ومعاملہ قرار دے یا اس کے منافی سمجھ کراس سے پرہیز کرے تو ایسے فعل کوامرمحدث سے تعبیر کرتے ہیں۔
یہ وہ بدعات ہیں جن کا اصل بھی شرع میں ثابت نہیں یہ امر محدث عقیدہ وعمل کی شکل میں اسلام میں بالکلیہ نو ایجاد ہوتاہے ان کو بدعات اصلیہ کہتے ہیں۔
بعض وہ ہیں کہ ان کا اصل تو شرع میں ثابت ہے مگر اس کے تعینات ثابت نہیں ان کو بدعات وصفیہ کہتے ہیں گویااس کے وصف میں کمی بیشی کر دی جاتی ہے۔
حدیث مبارکہ سے وضاحت
بدعت اصلی کیلئے عرباض بن ساریہ ؓ کی روایت کردہ حدیث مبارکہ ہماری راہنمائی کرتی ہے،یہ مفصل روایت ہے اِس میں رسول اللہﷺفرماتے ہیں
علیکم بسنتی و سنۃ الخلفاء الراشدین المھدیین الحدیث
کہ تم میرے اور میرے خلفاء راشدین کے طریقے کو لازم پکڑو
اور آگے فرمایا۔
ایاّکم ومحدثات الامورفان کل محدثۃ بدعۃ وکل بدعۃ ضلالۃ وکل ضلالۃٍفی النار
ترجمہ:۔اپنے آپ کو دین میں نو ایجاد چیزوں سے بچاؤ کیونکہ ہر نیا کا م بدعت ہے اور ہر بدعت گمراہی ہے اورہر گمراہی آگ میں لے جانے والی ہے۔
رسول اللہﷺکا یہ فرمان نہایت جامع اور مانع اصولوں پر مشتمل ہے اس سے شرع شریف میں ہر نئے کام کے ایجاد کرنے سے روکا گیا ہے اور اس کیلئے وعید بیان کی گئی ہے۔
 

ساجد تاج

فعال رکن
شمولیت
مارچ 09، 2011
پیغامات
7,174
ری ایکشن اسکور
4,517
پوائنٹ
604
ایک اور روایت
انس ؓروایت فرماتے ہیں کہ عائشہ رضی اللہ عنہا سے بعض اصحاب نے رسول اللہﷺکی گھر میں عدم موجودگی کے موقعہ پرآپ ﷺ کی عبادت کے متعلق پوچھا۔بتانے پروہ آپ ﷺ کی عبادت کو تھوڑاسمجھتے ہوئے کہتے ہیں کہ آپﷺ کے تو اللہ تعالیٰ نے پہلے پچھلے سب گناہ دور کردیے ہیں۔آپﷺکو عبادت کی اتنی ضرورت نہیں جتنی ہمیں ضرورت ہے پھر اپنے طور پرعبادت میں اضافہ کرنے کا عہد کرتے ہیں۔ آپ ﷺتشریف لائے تو سیدۃ عائشہؓنے ساری بات بتلائی توآپ نے انہیں پوچھا۔تم وہ لوگ ہو جنہوں نے یوں کہاہے پس میں تم سے زیادہ اللہ کاتقوی اور اس کی خشیت رکھتاہوں لیکن میں روزہ رکھتاہوں افطار بھی کرتاہوں، سوتا بھی ہوں بیدار بھی رہتاہوںاورمیں نے عورتوں سے نکاح بھی کر رکھاہے۔فَمَنْ رَغِبَ عَنْ سُنَّتِی فَلَیْسَ مِنّی- پس جس نے میری سنت سے بے رغبتی کی وہ مجھ سے نہیں ہے۔
کیونکہ عن مجاوزت کے لئے آتاہے یعنی سنت سے آگے بڑھ جائے ،اس حدیث پاک کے جملہ مضمون سے معلوم ہواکہ آپﷺ کی عبادت سے آگے بڑھ کر عبادت کرنے کا عہد وپیمان کرنے والوں کی نیت آخرت میں اجر وثواب کی تھی اور وہ آپﷺ کی عبادت سے بڑھ کرعبادت کرنا چاہتے تھے یعنی اس عبادت سے زیادہ جس کی اصل رسول اللہﷺسے ثابت تھی صرف اس کے وصف میں کمیت(مقدار) وکیفیت کا اضافہ کرناچاہتے تھے۔تو آپﷺنے فرمایاکہ یہ میری سنت سے بے رغبتی اور بے پرواہی ہے اور جس نے میری سنت سے ایسی بے نیازی کی وہ مجھ سے نہیں ہے۔ ألعیاذباللہ
مزید وضاحت:پھر ان بدعات اصلیہ اور بدعات وصفیہ کی دو قسمیں ہیں ایک حقیقی دوم حکمی
پہلی قسم کا تعلق اعتقاد سے ہے اگر کسی بدعت کے متعلق اس کے سنت یا واجب ہونے کا اعتقاد رکھے تو وہ حقیقی بدعت ہے۔
اگر اس کو بدعت ہی سمجھے مگر اس پر التزام سنت کی طرح کرے تو یہ حکمی بدعت ہوگی۔
بدعات اگرچہ سب کی سب قابل مذمت ہیں مگر حقیقی بدعت کے مرتکب کوہی بدعتی کہا جاتاہے۔اس طرح بدعت اصلیہ اور وصفیہ اگرچہ دونوں قابل مذمت ہیں مگروصفیہ میں خیر وشر کا اجتماع ہوتاہے ،مشروع پر عمل ہونے میں خیر اور بدعت پر عمل ہونے میں شَر ہوتی ہے۔
ایسے مقام پر دو باتوں کا خیال رکھنا ضروری ہے۔
( ۱)۔ ظاہر وباطن سنت کی پابندی کرے اور اپنے معتقدین کو اس کا حکم دے۔معروف کو معروف اور منکر کو منکر خیال کرے۔
(۲)۔ لوگوں کو جہاں تک ہوسکے سنت کی طرف بلائے گویا اس حدیث سے بدعت وصفی پر وعید اور اسکے بدعت ضلالۃ ہونے کاثبوت ہے اور اتباع سنت نبوی کی تر غیب وتاکید ہے اہل سنت کیلئے مطلوبہ معیار ومقیاس اور قابل غورہے۔
 

ساجد تاج

فعال رکن
شمولیت
مارچ 09، 2011
پیغامات
7,174
ری ایکشن اسکور
4,517
پوائنٹ
604
اہل بدعت کی طرف سے انوکھا اعتراض
مَن احدَثَ فیِ أمَرناَ ھٰذامَا لَیسَ مِنہ فِھُوردُ۔
جو شخص ہمارے اس دین میں کوئی ایسی بات ایجاد کرے جو اس سے نہ ہو وہ مردود ہے۔الحدیث
اعتراض۔ اس حدیث میں جنس محذوف ہے وہ مِنْہُ۔ کا جس سے تعلق ہے۔سو اس کے معنی یہ ہوں گے کہ جو شخص ہمارے دین میں ایسی شئی نکالے جو قرآن وحدیث کی جنس نہ ہو۔وہ مردود ہے اور جنس کا حال یہ ہے کہ اپنے انواع وافراد کو شامل ہوتی ہے جب جنس کی نفی ہوئی اور اس کا شمول نہ رہا وہ قرآن وحدیث کی غیر اور مخالف ہوئی انتھیٰ
اعتراض کاجواب
یہ عبارت چند وجوہات کی بناپر محل نظر ہے۔
(۱) جنس محذوف کو مِنْہُ کامتعلق قرار دینا صحیح نہیں کیونکہ متعلق اس کا مذکور ہے۔ وہ لَیْسَ ہے(منہ جارمجرورثَابتٌ مقدر کے متعلق ہو کرلَیْسَ کی خبر ہے اور منہ میں ضمیرمجرور اَمرِنامیں مذکورامر کی طرف راجع ہے۔وہذاالایخفیٰ علی احد من المحصلین)
(۲)۔ اگر محذوف مقدر ہو تو یا فعل(ثَبَتَ)ہوگا یا اسم ثَابِتٌ یا موجُودٌ ُٔ فعل اور مشتق کو جنس کہنا بھی درست نہیں۔
(۳)۔ یہاں نفی لَیْسَ کے اسم کی ہے وہ ضمیر ہے جس کا مرجع ماہے جو امر محدث سے عبارت ہے نہ کہ جنس سے۔
(۴)۔ آخری عبارت جب جنس کی نفی ہوئی ،بالکل غلط اور لغو ہے کیونکہ جنس مُحدث کی نفی سے اس قسم کی مخالفت لازم نہیں آتی جس کو اہل بدعت سمجھ رہے ہیں ۔
اہل حدیث و اہل سنت کا موقف یہ ہے کہ بدعت سنت ترکیہ کے مخالف ہوتی ہے۔اس صورت میں ہر چیزجو شریعت سے ثابت نہ ہو قرآن وحدیث کا غیر ہوگی کیونکہ قرآن وحدیث ایک شئی ہو گی اور بدعت اور شئی۔الاِثنان غیرانِ۔دو چیزیں ایک دوسرے سے غیر ہوتی ہیں ۔فلاسفہ کا ایک واضح مسئلہ ہے۔دیکھئے الاصلاح حصہ دوم ص۵۳
حد یث مذکو رکے ہم معنی ا یک اور حد یث
مَنْ صَنَعَ أمْراًعَلٰی غیرِأَمرِنََا فَھُوَ رَدُٔ
جو ایسا کا م کرے جس کے متعلق ہمارا حکم نہ ہو وہ مردود ہے۔صحیح مسلم
یہ حدیث بھی عام ہے اور ہر محدث کو شامل ہے اور جو امرمحدث ہو گا۔وہ شرع کیلئے مضر ہو گا کیونکہ اس میں صاحب شرع کا مقابلہ اور اس کی مخالفت ہوگی پس علٰی جو ضرر کیلئے ہے اس کا معنی بھی پایا گیاہے۔
اور عَلیٰ ہمیشہ ضرر کے لیے نہیں آتاجیسے صلی اللّٰہ علیہ وسلم میں عَلیٰ بے ضرر ہے۔
 

ساجد تاج

فعال رکن
شمولیت
مارچ 09، 2011
پیغامات
7,174
ری ایکشن اسکور
4,517
پوائنٹ
604
د وسری حدیث:
مَنْ اِبتَدعَ بِدْعَۃَ ضَلالَۃٍ لایَرْ ضَا ھَا اللّٰہُ وَرَسُولُہُ کَانَ عَلَیہ ِمن الاثمِ ِمثلَ آثامِ َمنْ عَمِلَ بھَا (الترمذی)
جو شخص بدعت ضلالت(گمراہی) نکالے جس کو اللہ اور اس کا رسول پسند نہیں کرتے اس کو اس بدعت پر عمل کرنے والوں کے برابر گنا ہ ہوگا۔
ہر صاحب ایمان رسول اللہ ﷺ کے ساتھ محبت کادم بھرنے والا ذرہ بھر بدعت کا تصوّر بھی گناہ سمجھتا ہے۔
مکمل روایت ملاحظہ کرنے پر کسی وضاحت کی ان شاء اللہ ضرورت نہ رہے گی ۔
عن کثیر بن عبداللہ عن ابیہ عن جدہ ان النبی ﷺ قال لبلال بن الحارث اِعلَم قال ما اَعلمُ یا رسول اللہ قال اِعلم یا بلال قال ما اعلم یارسول اللہ قال انہ من احیا سنۃ من سنتی قد امیتت بعدی فان لہ من الاجر مثل من عمل بھامن غیر ان ینقص من اجورھم شیئا و من ابتدع بدعۃ ضلالۃ لا یر ضاھا اللہ ورسولہ کان علیہ مثل آثام من عمل بھالاینقص ذلک من اوزارالناس شیئا(۲۸۹۳سنن الترمذی
ترجمہ :۔کثیر بن عبد اللہ اپنے والد اور وہ ان کے دادا سے بیان کرتے ہیں کہ نبی ﷺ نے بلال بن حارث سے کہا جان لو تو اس نے کہا کیا جان لو تو آپﷺ نے فرمایا جان لو تو اس نے کہا کیا جان لوں تو آپﷺ نے فرمایا جان لوکہ جس نے میری ایسی سنت کو زندہ کیا جو میرے بعد چھوڑدی گئی ہو تو اس کے لیے اجراس عامل جتنا ہو گا کہ ان کے عملوں میں کوئی کمی نہ کی جائے گی ۔اور جس نے دین میں کوئی نئی راہ نکالی جسے کہ اللہ اور اللہ کا رسول ناپسند کرتے ہیں تو اس پر گناہ ہوگا جتنے لوگ اس پر عمل کریں گے اور ان کے گناہوں میں کوئی کمی نہ کی جائے گی ۔
(۱)اس حدیث مبارکہ سے ثابت ہوا کہ سنت عمل وہ ہوتا ہے جسے آپ ﷺ نے اپنی زندگی مبارکہ میں اختیارکیا ہو۔
(۲)اس حدیث میں بدعت کے بعد جو لفظ ضلالت(گمراہی) یا لفظ لایَرْضَاھَا اللّٰہُ وَرَسَولُہُ (جس کو اللہ اور اس کے رسول ﷺپسند نہیں کرتے)وارد ہوا ہے۔اس سے بدعت کی مذمت بیان کرنی مقصودہے۔ بدعت کی تقسیم (حسنہ اور سیئہ)کی طرف اشارہ کرنامقصود نہیں ۔
جیسے الشیطان الرجیم میں لفظ رجیم(راندہ ہونا)مذمت کیلئے ہے۔ تخصیص کیلئے نہیں ۔
اسی طرح بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ ۔میں رحمن اور رحیم مدح کیلئے ہیں، تخصیص کیلئے نہیں۔
اسی طر ح قرآن مجید میں آیت ۔اَشْرَکُوْا بِاللّٰہِ مَالَمْ یُنَزِّلْ بِہٖ سُلْطٰنًا ج (ترجمہ)اللہ کے ساتھ ایسی چیز کو شریک ٹھہرایاجس پر اللہ نے کوئی دلیل نہیں (اتاری)۔صرف مذمت اور واقعی صورت بیان کرنے کیلئے ہے نہ کہ تقسیم کیلئے ۔
 

ساجد تاج

فعال رکن
شمولیت
مارچ 09، 2011
پیغامات
7,174
ری ایکشن اسکور
4,517
پوائنٹ
604
مزید وضاحت:
ہاں اتنی بات ضرور یاد رکھنی چاہیے اور اس کیلئے قرینے کی ضرورت ہے اور اِس جگہ قرینہ موجود ہے کیونکہ رسول اللہﷺنے فرمایا۔کل بدعۃ ضلالۃ۔ہر بدعت گمراہی ہے۔
پس ضلالت کی قید اتفاقی ہوگی نہ کہ احترازی جس سے غرض بدعت کی مذمت ہے اور اس طرح دوسری صفت لایرضاھااللّٰہ ورسولہ (جس کو اللہ اور اس کا رسول ﷺپسند نہ کرے)بھی اتفاقی ہے۔ورنہ لازم آئے گا کہ بدعت ضلالت بھی دو قسم پرہیں۔ایک وہ جس پر اللہ اور اس کا رسول راضی ہو( اور یہ باطل ہے) اور بظاہر معلوم ہوتاہے کہ بدعت کا لفظ یہاں لغوی معنی میں مستعمل ہے اور بصورت اضافت یہی معنی متعین ہے۔ کیونکہ شرعی معنی کے اعتبار سے بدعت خاص اور گمراہی عام ہوگی۔خاص کی اضافت عام کی طرف نحویوں نے منع لکھی ہے۔
چند شاذ صورتیں ہیں جن میں مضاف خاص اور مضاف الیہ عام ہے اس صورت میں بدعت کی تقسیم ہو سکتی ہے۔ایک بدعت ضلالت اور ایک بدعت ہدایت مگر شرعی معنی کے اعتبارسے تقسیم درست نہیں اور یہ بھی ہو سکتاہے کہ بدعت کا استعمال اس کے بعض معنی میں ہواہو۔اس کو تجرید کہتے ہیں جیسے اسری بعبدہ لیلاً (اللہ تعالیٰ)اپنے بندے کو رات میں لے گیا(الاسرائ)اس آیت میں اسرَی کا لفظ ہے جس کے معنی ہے رات کو لے گیا مگر اس جگہ صرف لے گیا معنی کرتے ہیں کیونکہ لیلاً (رات)کو الگ بیان کیا گیاہے۔یہی مطلب بدعۃ ضلالۃ کا ہے کہ بدعت کو گمراہی لازم ہے کیونکہ ہربدعت گمراہی ہے جب ضلالۃ(گمراہی) کا لفظ الگ ذکر کیا۔تو اس صورت میں بدعت صرف نیا کام مراد لیاجائے گا۔
اگر بدعت کا معنی شرعی لیاجائے تواس صورت میں ضلالۃ کا لفظ مضاف الیہ نہیں ہو گا۔بلکہ صفت ہوگا یا بدل اور یہاں ایک اور بات بھی ہے جو یادرکھنے کے قابل ہے کہ بعض اوقات لفظ کی دلالت میں موقع اور محل کے اعتبار سے فرق ہوجاتا ہے۔اگر اکیلا مستعمل ہو تو اس کا مفہوم کچھ اور ہوتا ہے اور اگر کسی خاص لفظ کے ساتھ ذکر ہوتو اس سے کچھ اور مفہوم سمجھا جاتاہے۔
پس بدعت کا لفظ جو ضلالت کے ساتھ مستعمل ہو اہے،اگر اس استعمال میں بدعت کاعام معنی مراد لیا گیا ہے تو اس سے یہ لازم نہیں آتا کہ جب بدعت کا لفظ بدون کسی قید کے ذکر ہو،وہاں بھی یہی معنی مراد لیاجائے۔
الاستاذ المحدث گوندلوی ؒ فرماتے ہیں۔
کہ اہل بدعت اور اہل سنت بدعت شرعیہ کے متعلق تسلیم کرتے ہیں کہ اس کی تقسیم نہیں ہو سکتی صرف تعریف میں اختلاف ہے۔اکثراہل سنت(اہل حدیث) یہ تعریف کرتے ہیں کہ جو چیز بدون اذن شرع حادث ہو وہ بدعت شرعیہ ہے اور اہل بدعت یہ کہتے ہیں کہ جو چیز اس حق کے خلاف نکالی جائے جو رسول اللہﷺ سے ثابت ہے،وہ بدعت شرعیہ ہے اور خلاف حق کا یہ معنی کرتے ہیںکہ کسی سنت یا واجب کے خلاف ہو اور سنت سے مراد منطوق لیتے ہیں۔دونوں فریق کے نزدیک بدعت شرعیہ گمراہی ہوگی۔
 

ساجد تاج

فعال رکن
شمولیت
مارچ 09، 2011
پیغامات
7,174
ری ایکشن اسکور
4,517
پوائنٹ
604
پس جامع ترمذی کی حدیث میں جو لفظ ضلالت کا آیا ہے۔اس سے بدعت شرعیہ کی تقسیم پر استدلال کرنا کسی فریق کے نزدیک درست نہیں کیونکہ اس صورت میں اگر بدعت کی تقسیم بعض احادیث کے الفاظ سے مفہوم ہو تی ہوتو بالاِتفاق وہاں بدعت کا اطلاق غیر شرعی ہوگا۔
تنبیہ:۔ بعض علماء نے بدعت کی ایسی تعریف کی ہے جس کی تقسیم حسنہ اور سیئہ کی طرف ہو سکتی ہے مگر جو افراد اِن کے نزدیک بدعت کے مذموم ہیںوہ اس فریق کے نزدیک جو بدعت کی ایسی تعریف کرتے ہیں جس سے بدعت قابل تقسیم نہیں ہوتی ،بدعت شرعیہ کے کل افراد ہیں گویا مال میں دو فریق کا اتفاق ہوا مگر صحیح مسلک یہی ہے کہ بدعت شرعیہ قابل تقسیم نہیں بلکہ ہر بدعت گمراہی ہے۔
پس بدعت شرعیہ کی وہی تقسیم صحیح ہے جس کی رو سے اس کی تقسیم نہ ہو سکے اور جہاں کہیں بدعت کا اطلاق مشروع امر پر ہوا ہو یا اس سے تقسیم سمجھی جاتی ہووہاں بدعت کا لغوی مفہوم سمجھنا چاہیے۔ پس بدعت شرعیہ (جس کا ہر فرد مذموم ہوتاہے) کی تعریف عام فہم وہی ہے جو حافظ امام ابن تیمیہ ؒنے فرمائی ہے کہ مَااُبتُدِعَ ِمنَ الاَعمالِ التی لم َیشْرَعْھا ﷺ وہ نیا عمل جو رسول اللہﷺ نے مشروع نہ کیا ہو
اور طریق محمدی میں لکھاہے۔
ھُوَالزیادۃُفِی الدِیْنِ والنُقْصَانُ مِنہُ الحَادِثَانِِ بَعدَ الصَّحَابَۃِ بِغَیرِاِذْنٍ مِنَ الشَّارِعِ لَاقَولْاً ولَافِعلاً وَلا صَرِیحاً ولاَ اشارۃً
بدعت دین میں اس زیادتی اور نقصان کو کہتے ہیں جو صحابہ کے زمانے کے بعدشارع کے قول وفعل ِصریح اور اشارہ کے اذن کے بغیر حادث ہو۔
اس تعریف میں جو صحابہ کے بعد کا ذکر کیا ہے۔اس کا مطلب یہ نہیں کہ صحابہ کے زمانے میں بدعت پیدا نہیں ہو سکتی کیونکہ بعض بدعات خروج قدر وغیرہ صحابہ کے زمانے میں نکلی تھیں۔بلکہ اس کا مطلب یہ ہے کہ جس امر پر صحابہ کا اتفاق ہویا کسی امر کاصحابہ کے زمانے میں رواج بلانکیرہو تو وہ عمل بدعت نہیں ہو سکتا جیسے حدیث ماأناعلیہ وأَصْحَابِی(ناجی فرقہ وہ ہے جس پر میں ہوں اور میرے صحابہ) سے معلوم ہوتاہے۔
ہاں جو امرصحابہ کے زمانے میں شرعی اذن کے بغیر حادث ہوگا،وہ بدعت ہوگا مگر ایسا امر اس زمانہ میں بلا نکیر رائج نہیں ہو سکتا۔
ہم پہلے بیان کرچکے ہیں کہ جو امر قرون ثلاثہ صحابہ وتابعین وتبع تابعین کے زمانہ میں بلا نکیر رائج ہو وہ بدعت نہیں پس حقیقت میں بدعت وہ ہے جو بدونِ اذنِ شرع حادث ہو ۔اگرچہ اس کا حدوث کسی زمانہ میں ہو۔البتہ صحابہ کے زمانہ یا بعض تابعین کے زمانہ کی یہ خصوصیت ہے کہ ان زمانوں میں کوئی بدعت بلانکیر رائج نہیں ہو سکی پس صحابہ کے بعد یا تینوں زمانوں کے بعدکی قید توضیح کیلئے ہے۔
محقق شاطبی ؒ نے الاعتصام میں بدعت کی تعریف یوں کی ہے
طریقۃٌ فی الدینِ مخترعۃٌ تضاھی الشریعۃَ یُقصدُ فی السلوکِ علیھامبالغۃٌ فی التّعبدِللّٰہِ سُبحانہُ وتعالیٰ۔
بدعت دین میں ایسے ایجاد شدہ طریقہ کو کہتے ہیں جو شریعت کے مشابہ ہو، اس پر عمل کرنے کی غرض عبادت الٰہی میں مبالغہ ہو ۔
 
Top