• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

بدعت کی حقیقت

ساجد تاج

فعال رکن
شمولیت
مارچ 09، 2011
پیغامات
7,174
ری ایکشن اسکور
4,517
پوائنٹ
604
پہلا پہلو
اِس کی وضاحت کرتے ہوئے لکھتے ہیں۔
یہ درست ہے کہ لغت میں نئی چیز کو بدعت کہتے ہیں۔لیکن شریعت میں جس بدعت کو گمراہی قرار دیاہے وہ اور چیزہے۔ یار لوگ کہا کرتے ہیں کہ بدعت وہ چیز ہے جونہ رسول اکرمﷺکے زمانہ میں نہ ہی خلفاء راشدین اور صحابہ کرام رضوان اللہ علیھم اجمعین کے مقدس زمانہ میں۔
اگر یہ بات تسلیم کر لی جائے تو میں پوچھتا ہوں کہ رسول اللہ ﷺنے ۔کوکا کولا کی کتنی بوتلیں نوش فرمائی تھیں؟صحابہ کرام نے سیون اپ، مرنڈا، فانٹا،روح افزا،نورس چائے وغیرہ۔ متعدد چیزوں کو بدعت کہنا پڑے گا کیونکہ یہ چیزیں نہ تو رسول اکرمﷺکے ظاہر ی زمانہ اطہر میں تھیں نہ ہی اصحابہ رضوان اللہ علیھم أجمعین کے مقدس زمانہ میں یار لوگ ہماری یہ بات سن کر فوراً پینترابدل لیتے ہیں۔ اور کہتے ہیں کہ کھانے پینے کی اشیاء کا تعلق بدعت سے ہرگز نہیں ہوتا۔بلکہ وہ چیز جس کو ثواب سمجھ کر کیا جائے ۔اسے بدعت کہتے ہیں۔ آگے چل کر مزید سوالات کی فہرست دی ہے اور پھر یار لوگوں (اہل حدیث) کے ذمہ الزام دے کر اپنا موقف گویا مدلل فرمایا ہے۔ اپنی مختصر سی تالیف میں بدعت کی حقیقت کے ضمن میں موصوف فرماتے ہیں۔
جس طرح شرک بہت بڑا گناہ ہے۔ اسی طرح بدعت بھی بہت بُری چیز ہے ۔ جس طرح مشرک کے تمام اعمال اکارت جاتے ہیں اسی طرح بدعتی کی بھی کوئی نیکی اللہ تعالیٰ قبول نہیں فرماتا جس طرح شرک و بدعت سے بچنا ضروری ہے۔ اسی طرح کسی مسلمان کو مشرک اور بدعتی کہنے سے بھی پرہیز کرنا ضروری ہے کیونکہ یہ فتوی معمولی نہیں ہے آخر کار اس کا جواب بھی روز قیامت اللہ رب العزت کی بارگاہ میں دینا پڑے گا۔​
 

ساجد تاج

فعال رکن
شمولیت
مارچ 09، 2011
پیغامات
7,174
ری ایکشن اسکور
4,517
پوائنٹ
604
نو ٹ
ملحوظ رہے کہ موصوف نے کتابچے میں یار لوگ کہہ کر اہل حدیث کو مورد الزام ٹھہرایا ہے اور بدعت کی تعریف میں غیر مقلد وہابی کی نسبت سے چند حوالہ جات اہلحدیث علماء سے پیش کئے ہیں۔ جن کا تعلق بدعت کے لغوی معنی و مفہوم سے ہے۔ شرعی بدعت سے نہیں ہے اگرچہ دو حوالے اپنی تائید میں حنفی علماء کے بھی دیے ہیں کہ آپ نے شرعی بدعت کو مذموم اور ضلالت و گمراہی سے تعبیر کیا ہے ۔جس کے ارتکاب سے شرک کی طرح سب اعمال اکارت چلے جاتے ہیں۔
نیز بدعت کی تعریف میں امام شافعی ؒ کی تعریف کو قبول کرکے بحث کی ہے۔ اور اپنی طرف سے بدعت کیلئے عام فہم معیار پیش فرمایا ہے۔پھر استفسار کرکے اس کی بنیاد پر ہی بدعت کو پر رکھنے کی کسوٹی پیش فرمائی ہے۔ ہم انشاء اللہ موصوف کے تمام دلائل پیش کرکے ان کا محاکمہ پیش کریں گئے۔ آپ کے دلائل کی روشنی میں یہ واضح کریں گے اور آپ کو باورکروائیں گے کہ آپ مغالطہ میں مبتلاء ہیں یار لوگوں کی پوری کوشش ہوگی کہ آپ ایسے بادشاہ (بھو لے بھالے )لوگوں کو ٹھنڈے دل سے غوروفکر کی دعوت دیں تاکہ ہم سب کا مشترکہ موقف یہ کہ کتاب وسنت اور اسوہ نبویﷺ کا بول بالاہو۔ اور ہم اس میں سرخرو ہوں دعا کرتے ہیں۔
اَللّٰھُمَّ انصُرمَن نَصَرَدین محمدٍﷺواجعلنامنھم واخذُل مَن خَذَلَ دین محمدٍﷺ ولا تجعلنا منھم۔آمین۔
نہایت معذرت کے ساتھ ناگواری کو معاف کرتے ہوئے ۔ ملحوظ رہے کہ ہم نے آپ کو یار لوگوں کے مقابلہ میں بادشاہ لوگ (بھولے بھا لے )سے مخاطب کیا ہے۔ بادشاہ کے ساتھ اگر اخوانِ مباح کہا جائے ۔تو بھی اصطلاح میں گنجائش ہے۔اس لیے کہ آپ کا بدعت کی حقیقت بیان کرنے کا اصل مقصد تو عید میلاد ۔ نمازِجنازہ کے بعد متصل دعا اور مجالس ایصالِ ثواب کیلئے ۔ تمہید اور راستہ ہموار کرنا ہے۔
ٹیڑھی بنیاد
آپ موصوف نے معمولات کا انحصار مباح ہونے پر رکھا ہے۔جس میں فعلاً و ترکا ً کوئی ثواب نہیں بلکہ خواہ مخواہ کا التزام ہے۔
اس لیے کہ فوت شدگان کی صدقہ و خیرات کی نیت کا تو معلوم نہیں کہ تھی یا نہیں۔ آپ ان کے ورثاء کو دعوتوں کے انتظام کے لیے طوعاً و کر ھاًمجبور کر رہے ہیں تاکہ وہ آپ سے ثواب کا ایصال کروالیں ورنہ نقصان ِدارین اٹھائیں گے اور تعمیلِ ارشاد کی صورت میں ثواب دارین سے نوازے جائیں گے۔
عید میلاد جسے طاھر قادری صاحب شرعی عید نہیں کہتے کی طرح نمازِ جنازہ کے بعد کی دعا مباح ہونے کی صورت میں فرض ،واجب،سنت ، مستحب ،مندوب تو ہے نہیںخواہ مخواہ ہی ہوئی اور اباحت کی بنیاد پر بزعم خویش خیر اند یشی ہی ہوئی،جس پر کھڑی دیوار کبھی سیدھی نہیں ہوسکتی۔
 

ساجد تاج

فعال رکن
شمولیت
مارچ 09، 2011
پیغامات
7,174
ری ایکشن اسکور
4,517
پوائنٹ
604
موصوف اور بدعت
قارئین کرام:۔گزشتہ سطور سے یہ بات واضح ہورہی کہ موصوف کے نزدیک وہ بدعت جس کا ایجاد کرنابدعت مذمومۃ گمراہی اور ضلالت ہے۔ وہ بدعت شرعی ہے یعنی کسی قول وعمل اور اعتقادو عقیدے کو دینی حیثیت سے دین میں ایجاد کرکے داخل کرنا یہ شرعی بدعت اور گمراہی ہے۔
اگرچہ عربی لغت کے لحاظ سے ہر نو ایجاد کو بدعت کہہ دیتے ہیں۔خواہ اس کا تعلق امور دنیا ہی سے کیوں نہ ہو۔
شرع محمدی میں دینی اور دنیاوی امور کافرق
ایک حدیث میں وارد ہواہے کہ انصار اہل مدینہ کجھوروں کی تلقیح اور پیوندکاری کیا کرتے تھے۔ یعنی نر کھجوروں کے خوشہ کو مادی کھجوروں کے اوپر چھڑک دیتے ۔ رسول اللہﷺ نے سبب دریافت فرمایا اور فرمایا کہ ایسے ہی رہنے دو۔چنانچہ انہوں نے یہ تابیر نخل۔ یعنی کھجوروں کی پیوندکاری روک دی۔چنانچہ پھل میں کمی آ گئی انصارنے آپﷺسے ذکرکیا کہ ہم نے اس سال آپﷺ کے حکم کے مطابق تلقیح چھوڑ دی۔ مگر پھل کم لگا آپﷺ نے فرمایا۔
اِنّماأنابشرٌأذا أَمر تُکُم بِشَیئٍ مِن دِینِکُم فَخُذُوابہِ وَاِذَاأمَرتُکُم بِشَیئٍ مِن رَأیِ فَاِ ِنّماأنابشرٌ۔(صحیح مسلم)
میں بشر ہی ہوں اور جب میں تمہیں دین کی بات کہوں تو اس پر عمل کرواور جب میں تمہیں اپنی رائے سے کوئی بات کہوں تو میں انسان ہوں۔
ایک روایت میں ہے ۔ أنتُم أَ علَمُ بِاُ مُورِ دُنیَاکُم (صحیح مسلم)تم دنیا کے کا م زیادہ جانتے ہو۔
اس حدیث سے صاف معلوم ہوتاہے کہ ہم دنیوی امور میں مختارہیں۔ جس طرح چاہیں کریں۔جب تک ممانعت وارد نہ ہو۔ اور دینی امر کاحکم منجانب اللہ ہونا ضروری ہے۔جب تک اللہ تعالیٰ کی طرف سے اجازت نہ ہوہم نہیں کرسکتے۔
ایک حدیث میں ہے ۔ فَاِنِّی اِنِمَا ظَنَنتُ ظَناً فَلَا تُؤا خِذُونیِ بِالظَّن
میں نے صرف ایک اندازہ کیا تھا۔اس اندازہ کا مجھ پر مواخذہ نہ کرو۔
لیکن جب میں تمہیں اللہ تعالیٰ سے بات سناؤں ۔تو اُس پر عمل کرو کیونکہ میں اللہ تعالیٰ پر جھوٹ نہیں بولتا۔
اس حدیث میں بجائے امرتکم(میں تمہیں حکم کروں)کے حد ثتکم عن اللّٰہ(میں تمہیں اللہ کی طرف کی طرف سے حدیث سناؤں)کیا ہے۔
جس سے صاف معلوم ہوتا ہے۔ کہ امر دین اللہ کی طرف سے ہوتاہے۔جب تک اس کی دلیل نہ ہواس کا کرناممنوع ہے خواہ اس پر ممانعت کی کوئی دلیل نہ ہو۔
مذکورہ الصدر حدیث مبارکہ کی روشنی میں ہم بآسانی اُمور دین اور مور دنیا کے متعلق ان کی حیثیت اور حکم سمجھ سکتے ہیں۔
لہذا اب مولّف رسالہ کی اہل حدیث پر تنقید ناسدید کو ملاحظہ فرمائیں۔
فرماتے ہیں یہ درست ہے کہ لغت میں نئی چیز کو بدعت کہتے ہیں۔لیکن شریعت میں جس بدعت کو گمراہی قرار دیا گیاہے۔وہ اور چیز ہے یار لوگ کہاکرتے ہیں کہ بدعت وہ چیز ہے جو نہ رسول اکرم ﷺ کے زمانہ میں ہونہ ہی خلفاء راشدین اورصحابہ کرام رضوان اللہ علیھم أجمعین کے مقدس زمانہ میں۔
 

ساجد تاج

فعال رکن
شمولیت
مارچ 09، 2011
پیغامات
7,174
ری ایکشن اسکور
4,517
پوائنٹ
604
مزید فرماتے ہیں اگر یہ بات تسلیم کرلی جائے ۔تو میں پوچھتا ہوں کہ رسول اللہ ﷺنے کوکا کولا کی کتنی بوتلیں نوش فرمائی تھیں؟صحابہ کرام نے سیون اپ، مرنڈا فانٹا،روح افزا،نورس چائے وغیرہ۔ متعدد چیزوں کو بھی بدعت کہنا پڑے گا کیونکہ یہ چیزیں نہ تو رسول اکرمﷺکے ظاہر ی زمانہ اطہر میں تھیں۔نہ ہی اصحابہ رضوان اللہ علیھم أجمعین کے مقدس زمانہ میں۔
مزید رقمطراز ہیں یار لوگ ہماری یہ بات سن کر فوراً پنترا بدل لیتے ہیں اور کہتے ہیں کہ کھانے پینے کی اشیاء کا تعلق بدعت سے ہرگز نہیں ہوتا۔بلکہ وہ چیز جس کو ثواب سمجھ کر کیاجائے تو اسے بدعت کہتے ہیں۔
اپنے ہی دام میں صیّاد آگیا
موصوف کی یارلوگوں کو پھبتی اور پنترا بدلنے کی کٹ حجتی تو تب جچتی جب کہ آپ خودیہی بات نہ فرمارہے ہوں۔ آپ نے بدعت یعنی نو ایجاد کی لغوی اور شرعی تقسیم تبھی تو فرمائی ہے تاکہ امور دین اور امور دنیا کا فرق ملحوظ رکھاجائے۔ جو بدعت مذمومہ ضلالت اور گمراہی ہے وہ شرعی ہے اور شرعی کی قید امور دین سے ہونے کی وجہ سے ہی ہے۔پھر اگر آپ کی ترجمانی کو تو جیہُ کلامِ الغیرِبما لا یرضیٰ بِہ قا ئلُہ سے نہ بھی شمار کیاجائے ۔تو بھی ہمیں مضر نہیں۔ کیونکہ جس بدعت کو آپ شرعی کہتے ہیں اسی کوثواب سمجھ کرکیے جانے سے تعبیر کیا گیاہے۔رہا ان کا یہ کہناکہ کھانے پینے کی اشیاء کاتعلق بدعت سے نہیں ہوتا۔ تو ان کی تائید میں آپ کے بڑے احمد رضا بریلوی کا فتوی کافی ہے۔
آپ فرماتے ہیں۔ میر ی تحقیق میں تمباکو حلال ہے اگر کوئی شخص کہے کہ تمباکو حلال کیسے ہو گیا جبکہ رسول اللہﷺ کے زمانہ میں نہ تھاتو اس کا استعمال بدعت ہوگا اور بدعت کیسے حلال ہوگی اس کا جواب ارشاد فرماتے ہیں۔
رہا اس کا بدعت ہونایہ کچھ باعث ضرر نہیں کہ یہ بدعت کھانے پینے میں ہے نہ کہ امور دین میں، تو اس کی حرمت ثابت کرناایک دشوار کام ہے۔
ملفوظات میں فرماتے ہیں۔ حقہ پیتے وقت میں بسم اللہ نہیں پڑھتا۔ گویا آپ اسے امر دینی سے شمار نہیں کرتے۔(احکام شریعت صفحہ ۱۶۸)
آپ کے گھر سے یہ معلوم ہوا کہ بدعت مذمومہ وہ ہے جو امور دین میں ہو ،کوکا کولا وغیرہ کو آپ بھی لغوی معنی میں ہی بدعت کہہ سکتے ہیں۔دراصل آپ الزام دوسرں کو دے کراپنے بادشاہ (بھو لے بھا لے)لوگوں کے ہاتھ میں تجاہل عارفانہ سے یہ ہتھیار تھمادیتے ہیں بلکہ خود بھی تھامے ہوئے ہیں کہ جب کوئی امور دین میں بدعت شرعی جوکہ بالاتفاق مذمومہ ضلالت اور گمراہی ہے اسکی تردید کرے تو فوراً امور دنیا کی ماڈرن اورنو ایجادات کی لسٹ سامنے رکھ دیا کریں اور پھر پوچھیں کہ یہ چیزیں بھی پھر بدعت ہوئیں حالانکہ تم خود استعمال کرتے ہوہم بھی بدعت شرعی ہی کی بات کرتے ہیں اور آپ بھی اس کی مذمت کرتے ہیں بہرصورت الجھانے کے لیے وہ بھی عوام الناس کو حقیقت سے دور رکھنے کے لیے امور دنیا کے نو ایجاد کو زیر بحث لے آتے ہیں اور یہ کتاب وسنت کی اور دین کی خدمت نہیں ہے۔ نعوذباللّٰہ من شرور انفسِنا و من سیِّأت اعمالنا۔
 

ساجد تاج

فعال رکن
شمولیت
مارچ 09، 2011
پیغامات
7,174
ری ایکشن اسکور
4,517
پوائنٹ
604
امور دنیا میں بدعت جاری نہیں ہوتی
امام نسائی ؒ اپنی سنن میں کتاب ُ ا لأشربہ میں عبداللہ بن مسعود ؓ سے راوی ہیں کہ انہوں نے فرمایا۔​
أحدَ ثَ النّا سُ أشرِبۃ ًماأدری مَا ھِیَ فَمَا لِی مُنذُعِشرِ ینَ سَنَۃً أواربعینَ سَنَۃ ً اِلاّ الماء والسویقُ۔ ذِکرالاشربۃ المباحۃ (سنن النسائی ۳۳۸ ج۲)
عبداللہ بن مسعود ؓفرماتے ہیں کہ لوگوں نے کئی مشروبات ایجاد کرلئے ہیں مجھے نہیں معلوم کہ وہ کیا ہیں؟ میں تو بیس چالیس سال سے پانی اور ستوکا استعمال ہی کر رہا ہوں۔
صحابی رسولﷺنے مشروبات میں جدت اوراحداث کا اظہار فرمایا ہے اور امام نسائی ؒ نے اشربہ مباحہ کا عنوان قائم فرمایا ہے۔ جس کا مطلب یہی ہے کہ ماکولات و مشروبات میں جدت لائی جاسکتی ہے اور یہ بدعت نہیں جبکہ وہ حلال اور مباح ہوں اور ان کی حلت اور حرمت ایک شرعی حکم ہے اور اصحابہ کو اسلام میں احداث بمعنی بدعت شرعی نہایت ناگوار تھا۔
اصل اعتراض بادشاہ لوگوں کو بدعت کی تعریف پر تھا۔وہ دور کر دیاگیاہے واقعتا بدعت شرعی ہی گمراہی اور بدعت ضلالت ہے اور نئی چیز بدعت کا معنی کرنایہ لغوی اعتبار سے ہے کیونکہ امور دنیا میں صحابہ رضوان اللہ علیھم اجمعین کے دور میں احداث اور ایجادات ہوتی رہی ہیں جسے مشروبات کے متعلق اوپر بیان ہوا۔اسے کسی نے بدعت ضلالت اور بدعت مذمومہ نہیں کہا۔ہاں امور دین میں نئی چیز پیدا کرنا اس میں اضافہ اور کمی کرنا یہ شرعی بدعت اور ضلالت وگمراہی اور مستو جب ناروجہنم ہے۔شرعی و اصطلاحی معنی لغوی معنی کا فرد ہوتاہے۔اس لیے ہماری تعریف قابل مواخذہ نہیںکیونکہ وہ قرآن و حدیث اور لغت عرب سے مستفاد ہے۔
قرآن پاک میں بدیع السمٰوٰت والارض( الآیۃ) ما کنتُ بدعاً من الرسل(الآیۃ)کے علاوہ حدیث اور احداث میں نئے پن کو نظر انداز نہیں کیا جاسکتا ۔اس لیے اگر شرع میں کسی نئے اعتقاد وعمل کو بدعت سے تعبیر کیا گیا ہے تو قابل اعتراض کیوں ٹھہرا۔ اوپر شرعی بدعت کی تعریف میں یہ بھی کہا گیا ہے کہ وہ نئی چیز جس کو ثواب سمجھ کر کیا جائے اسے بدعت کہتے ہیں
موصوف کا ایک اور اعتراض
لکھتے ہیں ۔بدعت کی مذکورہ تعریف ثواب سمجھ کر کی گئی ہے یا نہیں اگر ثواب سمجھ کر کی گئی ہے تو کیا بدعت کا یہ معنی اور یہ تعریف نبی اکرم ﷺ یا صحا بہ کرام رضوان اللہ علیھم اجمعین نے بیان فرمائی ہے یا نہیں اگر مذکورہ تعریف صحابہ کرام یا رحمت کائناتﷺنے بیان فرمائی ہے تو حوالہ؟اور اگر نہیں تو آپ کی مذکورہ تعریف آپ ہی کے اصول کے تحت بدعت قرار پائے گی۔
 

ساجد تاج

فعال رکن
شمولیت
مارچ 09، 2011
پیغامات
7,174
ری ایکشن اسکور
4,517
پوائنٹ
604
جواباًعرض ہے
کہ ہم دین کا ہر کام ثواب(أجْرٌ) کی نیت سے کرتے ہیں اور ہر صاحب ِایمان کے لیے اللہ تعالیٰ نے اجر کا وعدہ کیا ہے۔قرآن مجید میں ایمان اور عمل صالح کرنے والوں کے لیے أجْر کاوعدہ تیس سے زیادہ مرتبہ ذکرکیا گیاہے اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے نعم أجرالعاملین (۵۸العنکبوت) اچھاہے ثواب عمل کرنے والوں کا ۔
تو ثابت ہوادین ہے تو نیت ِثواب لازم ہے اگردنیاہے تواللہ حافظ پھر عَامِلَۃ'' نَّاصِبَۃ'ُہتَصْلٰی نَارًا حَامِیَۃً ہ(سورۃ الغاشیہ) عمل کرکے تھک جانے والے بھڑکتی آگ میں داخل ہوں گے
اگر موصوف ثواب سمجھ کر نہیں کرتے تو ان کاایمان ،ہم اس بارے ان کو کچھ نہیںکہ سکتے ۔
دین عبادت ہے اور عبادت ثواب ہے اور بدعت سے عبادت میں مبالغہ مقصود ہے توکیا بلاثواب مقصود ہے؟دراصل بدعت بھی عبادت ہے مگر اللہ الرحمان کی نہیں شیطان کی عبادت ہے اس لیے ثواب تو نہ ہوگا عذاب ہوگا۔
ایک سچے مومن مسلمان کے تو صِرف ایک فرمان ِرسول ﷺ من احدث فی امر ناھذا ما لیس منہ فھو ردٌّ کہ جو ہمارے اس امر دین میں نئی چیز پیداکرے جو اس سے نہیں وہ مردود ہے پر غور فرمانے سے سب اشکال ختم ہو جاتے ہیں
اور آیات کریمہ
وَالْبٰقِیٰتُ الصّٰلِحٰتُ خَیْر'' عِنْدَ رَبِّکَ ثَوَابًا وَّخَیْر'' مَّرَدََََََّا ۷۶ سورہ مریم
اور دوسری آیت میں ہے خیرٌاملا(الکھف)
دراصل موصوف کو بدعت کی تعریف میں کارثواب ہونے کی قید اچھی نہیں لگی۔ چنانچہ جواب میں مر ضی کا مضمون طلب کیا ہے حالانکہ جب شرعی کی قید تعر یف میں آگئی جو آپ کو تسلیم بھی ہے تو شرع محمدی علی صاحبھا الصلوۃ والسلام کی اتباع کو ثواب تولازم ہے ہی کیونکہ دین اسلام کا دامن سعادت دنیوی اور اُخروی یعنی سعادت دارین کے انعامات سے لبریز ہے۔
 

ساجد تاج

فعال رکن
شمولیت
مارچ 09، 2011
پیغامات
7,174
ری ایکشن اسکور
4,517
پوائنٹ
604

{وَمَنْ یُّطِعِ اللّٰہَ وَالرَّسُوْلَ فَاُولٰٓئِکَ مَعَ الَّذِیْنَ اَنْعَمَ اللّٰہُ عَلَیْھِمْ مِّنَ النَّبِیّٖنَ وَ الصِّدِّیْقِیْنَ وَ الشُّہَدَآئِ وَ الصّٰلِحِیْنَ وَ حَسُنَ اُولٰٓئِکَ رَفِیْقًا} ۶۹النساء
انَّ خیرالحدیث کتاب اللّٰہ وخیرالھدی ھدی محمدﷺ وشرالامور محدثاتھا وکل محدثۃ بدعۃ وکل بدعۃ ضلالۃ وکل ضلالۃ فی النار(الحدیث)


یہاں کتاب وسنت کو خیر فرمایا ہے۔


علیکم بسنتی و سنۃ الخلفا ء الراشدین المھدیین (الحدیث)
اقتدوا بالذین من بعدی أبی بکر وعمررضی اللّٰہ عنہما (الحدیث)


دین اسلام اپنے کلیات وجزئیات کے لحاظ سے خیرکا جامع اور شرکا مانع ہے۔مجموعہ امن وسلامتی ہے۔
اِنما (أجْرُ)الاعمال بالنیات(الحدیث)
ثواب اللّٰہ خیر(الآیۃ) یعنی اللہ کا ثواب بہتر ہے۔
اور پھرآپ نے آگے چل کر خودبدعت حسنہ کو افعال خیر سے تسلیم کیا ہے اور اس کے فاعل کو ثواب کی امید دلائی ہے۔
قرآن مجیدمیں ہے:
فَلْیَحْذَرِ الَّذِیْنَ یُخَالِفُوْنَ عَنْ اَمْرِہٖٓ اَنْ تُصِیْبَھُمْ فِتْنَۃ'' اَوْ یُصِیْبَھُمْ عَذَاب'' اَلِیْم'' ہ
اِن لوگوں کو جو محمدﷺکے امر کی مخالفت کرتے ہیں........۔(سورۃ النور۶۳)
آپ نے صفحہ ۷ پر امام شافعی ؒ سے ان کا فرمان نقل کرکے ترجمہ کیا ہے وہ آپ کی بدعت شرعی کی تعریف میں کسی کام کے نئے ہونے کے ثبوت کیلئے کافی ہے۔
المحدثات من الأمور ضربان أحدھماما اُحدث ممایخالف کتاباً او سنۃ او أثرا أو اِجماعا فھذہ البدعۃ الضلالۃ والثانیۃما اُحدث من الخیرلا خلاف فیہ لِواحدمن العلماء وھذہ مُحدثۃغیر مذمومۃ
نئے کام کی دو قسمیں ہیں۔(۱) ایک وہ نیا کام جو کتاب وسنت یااثر یا اجماع کے خلاف ہو یہ نیا کام بدعت ضلالت کہلائے گا۔
(۲)دوسرا وہ نیا کام جو بہتر ہو ۔اس میں کسی عالم کا کوئی اختلاف نہیں ہے اور اس نئے کا م میں قطعاً کوئی بُرائی نہیں ہے۔ بحوالہ(تہذیب الاسماء واللغات امام نووی ج۲ س ۲۳)
یار لوگوں کی بدعت کی تعریف میں اگر کسی نئے کام کا احداث جو امر دین میں ہو ناگوار ہے تو یہاں اپنے ترجمہ میں کیوں کر گوارا ہے اور یہ محض ترجمہ ہی نہیں بلکہ آپ کے سارے رسالے میں آپ کے نزدیک اسے اساسی حیثیت حاصل ہے ۔
سوالحمدُلِلّٰہ۔ آپ کی تصدیق سے ہماری تعریف بے غبارثابت ہوئی۔
تعجب ہے کہ آپ کل بدعتہ ضلالۃ۔(کہ ہر شرعی بدعت گمراہی ہے)کا عندیہ بھی دیتے ہیںاور ساتھ بدعت لغوی کے حوالوں سے بدعت حسنہ اور سیئہ کی طرف تقسیم کے بھی قائل ہیں اور سینہ زوری سے اس بدعت شرعی کی قسمیں قرار دیتے ہیں۔
 

ساجد تاج

فعال رکن
شمولیت
مارچ 09، 2011
پیغامات
7,174
ری ایکشن اسکور
4,517
پوائنٹ
604
رسول اللہﷺنے فرمایا
ترکتکم علیٰ محجّۃ البیضاء لیلھاکنھارھا لایزیغ عنھا بعدی اِلاھالکٌ و من یعش منکم فسیریٰ اختلافاًکثیراًفعلیکم بماعرفتم فعلیکم بسنتی وسنۃ الخلفاء الراشدین المھدیین عضّوا علیھا بالنواجذ و علیکم بالطاعۃ وان عبدا حبشیافانماالمومن کالجمل الألف حیثما قِید انقاد(سلسلۃ الاحادیث الصحیحۃص۶۴۷،۶۴۸ج۲)
کہ میں نے تمہیں سفید روشن طریقے پر چھوڑاہے جسکی رات بھی روشن کہ دن کی طرح شفاف ہے۔اس سے کجرو ہونے والا ہلاک ہونے والاہے ۔
امام شافعیؒکے فرمان پر آگے چل کر کلام ہو گی۔
چاہیے کہ اس بات سے ڈریں کہ کہیں انہیں فتنہ و ابتلاء دین یادرد ناک عذاب نہ آپہنچے بموجب ِمخالفت ِنبوی سے فتنہ اور درد ناک عذاب کی تحذیر ہے تواتباع نبوی میں ثواب لازم ہے۔
غو ر فرمائیے
بات بدعت کی تعریف کی ہو رہی ہے کہ جو کسی شخص کسی کام کو ثواب کی نیت سے امور دین میں ایجاد کرے تو مرتکب کبیرہ گناہ ہے۔ جو کہ توبہ کے بغیر بخشا نہیں جائے گا۔ بلکہ حدیث میں آیا ہے کہ بدعتی کو توبہ کی توفیق نہیں ہوتی کیونکہ وہ اس کو نیکی سمجھ کر کرتاہے۔حالانکہ وہ نیکی ہوتی نہیں کیونکہ وہ کتاب وسنت کے خلاف اور اس سے زائد اضافہ ہوتاہے۔
دین میں ایسا نو ایجاد طریقہ وعمل جو شریعت کے مشابہ ہو اور اس سے عبادت میں مبالغہ کا قصد کیا جائے۔یہی بدعت ہے۔
چونکہ عبادت میں ثواب مطلوب ہے اور بدعت کا مرتکب مزید ثواب کا ارادہ رکھ کر ہی وہ کام کرتا ہے۔لیکن شریعت سازی کی وجہ سے الٹا عذاب جھنم کا مستحق ٹھہرتاہے۔
امام ابنِ حجر عسقلانی فتح الباری شرح صحیح بخاری میں فرماتے ہیں۔البدعۃ فی الشرع مذمومۃ بخلاف اللغۃ شریعت میں جسے بدعت کہا جاتاہے وہ مذموم ہے اور لغوی معنی کے اعتبار سے ہر بدعت مذموم نہیں۔
آپ نے اپنے کتابچے کے صفحہ ۱۶ پر لکھا ہے:ہر مسلمان کو شرک وبدعت سے بچناچاہیے کیونکہ نجات بہرصورت کتاب وسنت سے وابستگی ہی میں ہے اور اس میں نجات کا جو مژدہ سنایا گیا ہے اس کی حقیقت بھی دراصل یہی ہے کہ یہ اس ثمرہ اور ثواب کا نام ہے جو قرآن وسنت پر عمل کرنے سے حاصل ہوتاہے۔ قیامت کے دن عذاب دائمی سے بچنااور جنت میں داخل ہونایا بالکل عذاب سے بچ جانااور پہلی دفعہ جنت میں داخل ہونانجات کی حقیقت ہے۔ دراصل یہ عذاب وثواب اس اثر کے تابع ہے جو ایمان وعمل صالح سے انسان کے دل پر طاری ہوتاہے۔یہ تب ہی ہو سکتاہے کہ مومن کا عمل خلوص پر مبنی ہو شرک وریاء سے محفوظ ہو اور سنت کے عین مطابق ہواور بدعت سے بچا ہواہو۔وباللہ التوفیق۔
 

ساجد تاج

فعال رکن
شمولیت
مارچ 09، 2011
پیغامات
7,174
ری ایکشن اسکور
4,517
پوائنٹ
604
جاء الحق اور بدعت
شرعی بدعت کی تعریف میں ثواب کی نیت سے امور دین میں نیا کام پیداکرنے پر جاء الحق کے مولف ر قمطرازہیںکہ مان بھی لیا جاوے کہ بدعت میں دینی کام کی قید ہے تو دینی کام اسی کو کہتے ہیں جس پر ثواب ملے۔دنیا کا کوئی کام بھی نیت خیر سے کیا جاوے تو اس پر ثواب ملتاہے۔ص۲۲۳ج۱
سوال پیدا ہوتا ہے کہ ایک طرف تو ایصال ثواب کی مجالس کے انعقاد پر اصرار ہے اور دوسری طرف ثواب کی نیت سے جو کام ہو اس پر اعتراض ہے گویا ثواب کی نیت سے جو کام ہو وہ معتبر ہے حالانکہ ثواب کی نیت سے عبادت لیکن سنت کے موافقت نہ ہونے کی وجہ سے مردود ہے ۔ کیونکہ مقبول عمل کے دوہی رکن ہیں نیت اور سنت کے مطابق ہو نا۔دونوں ادا نہ ہوئے تو بھی اور ایک ساقط ہوا تو بھی عمل اکارت ہوگا۔
الحمد للہ یہی یار لوگوں(اہل حدیث) کی ثواب کی نیت کی قید وشرط لگانے کی غرض وغایت ہے اور یہ ایک اصولی بات ہے جسے تسلیم کیے بغیرچارہ نہیں۔
لیکن یہ یاد رکھنا چاہیے کہ ثواب صرف فعل عبادات پر حاصل ہوتا ہے نہ کہ فعل مباحات پر۔ اور یہ اصول اصول ِفقہ میں شائع اور مقبول ہے۔
بدعت کی تعریف میں یہ شرط ہے کہ ہر وہ کام جو رسول اللہﷺکے عہد مبارک اور عہد صحابہ رضوان اللہ علیھم اجمعین کے زمانہ میں نہ ہو اسے شرع شریف کا درجہ دے کر عبادت میں شامل کرنااس کے بدعت ہونے کی نشانی ہے اس لحاظ سے بعض اہل علم نے خیرالقرون میں اس کے نہ ہونے کی شرط بھی لگائی ہے۔
دین محمدیﷺ
دین تو آپ ﷺ کی زندگی مبارکہ میں مکمل ہو گیا اور اللہ تعالیٰ نے وہ اعلان جو کسی اور نبی کی زندگی میں نہیں فرمایا تھا فرما دیا{الیوم اکملت لکم دینکم}عھدصحابہ اور تابعین تو آپ ﷺ کی زندگی مبارکہ کی کاوشوں کا عملی اظہار ہے اور یہی خیر القرون ہے
مولّف رسالہ کو یہ خیرالقرون کی شرط بھی ناپسند ہے اور اسکی تردید میں بدعت لغوی یا امور دنیا کی چیزوں کے عدم وجودسے استدلال کرتے ہیں۔
بات تو شرعی بدعت (امور دین میں تبدیلی )کی ہو رہی ہے جوکہ غیر منقسم ہے نہ وہ حسنہ ہے نہ سیئہ بلکہ کل بدعۃٍ ضلالۃٌ ہربدعت گمراہی ہے اور یہ انہیں بھی تسلیم ہے لیکن الزاماًحسنہ اور سیئہ سے استدلال کرناشروع کرتے ہیں جو لغوی تقسیم ہے۔
ایسے معلوم ہوتاہے موصوف خلط مبحث کا شکار ہیں حالانکہ عہدرسالت مآبﷺ اور عہد صحابہ رضوان اللہ علیھم اجمعین اور تابعین عظام کے زمانے میں توقیامت تک کے انسانوں کیلئے تطبیق وتنفیذ شریعت محمدی کا اسوۂ اور آئینہ ہے۔
ملاّ احمد رومی حنفی مجالس الابرار میں فرماتے ہیں ۔
حذیفہؓ سے منقول ہے کل عبادۃلم یفعل الصحابۃفلا تفعلوھا
جو عبادت صحابہ سے ثابت نہیں وہ تم مت کرو۔
حذیفہؓ سے مروی ہے:
یا معشر القرّاء استقِیموا فقد سُبِقتم سبقاًبعیداًواِن أخذتم یمیناًوشمالاًفقد ضللتم ضلالاًبعیدا(رواہ البخاری)
اے قرّاء تم سیدھے چلوتم سے بہت دور کی سبقت لی جاچکی ہے۔(یعنی صحابہ رسولﷺصراط مستقیم پر چل کر بہت آگے نکل گئے)اور اگر تم نے صراط مستقیم کو چھوڑ کر دائیں بائیں کو اختیار کیا تو تم بہت دور کی گمراہی میں مبتلاہو گے۔
اور حذیفہ ؓ نے فرمایاتم وہ عبادت نہ کروجو صحابہ نے نہیں کی۔بلاشبہ پہلے نے پچھلے کیلئے بات کرنے کی گنجائش نہیں چھوڑی۔ سو اے قرّاء حضرات اللہ سے ڈرو اور اپنے سے پہلے لوگوں کا طریقہ اختیار کرو۔(رواہ ابوداؤد)
 

ساجد تاج

فعال رکن
شمولیت
مارچ 09، 2011
پیغامات
7,174
ری ایکشن اسکور
4,517
پوائنٹ
604
سنت و بدعت کا فرق اور کھلی پہچان
شیخ عبدالقادر جیلان کے نزدیک
سنت ا ور بدعت کا واضح فرق اور اس کی کھلی پہچان عام فہم اور موٹی نشانی بیان کرتے ہوئے شیخ عبدالقادرجیلانی ؒ غنیۃ الطالبین میں رقم طراز ہیں ۔
اِنّ القرآن اِذلم ینطق بشیئٍ ولَم یروفی السنّۃعن رسول اللّٰہ ﷺ بشیئٍ و انقرض عصر الصحابۃ ولم ینقُل أحدمنھم قولاًفالکلام فیہ بدعۃ و حدثٌ۔غنیۃ الطالبین ص۱۴۴
یعنی جو امر مسئلہ قرآن مجید سے ثابت نہیں اور نہ ہی نبی کریم ﷺ سے سنت میں اس کو روایت کیا گیاہو اور نہ ہی صحابہ کرام کے متفقہ تعامل یا کسی ایک صحابی یاتابعی سے اس کے متعلق کوئی قول وفتوی ملتاہوپس اس کے متعلق کسی طرح کی گفتگو کرنا بدعت اور حادث( نو ایجادامر)ہے ۔
پھر اس کی مزید وضاحت میں حدفاصل اور موٹی علامت و نشانی بیان کرتے ہوئے آپ نے عرباض بن ساریہؓ کی روایت سے رسول اللہﷺکے مفصل وعظ کا بیان ذکر فرمایا جس میں ذکرہے کہ آپ ﷺ کاآخری وعظ محسوس ہوتا تھاجس سے دل نرم ہوئے آنکھیں برسیں۔الیٰ آخر الحدیث
ملحوظ رہے کہ یہ حدیث پاک بدعت کے مذموم اور ضلالت وگمراہی ہونے اور سنت نبوی اور سنت خلفاء راشدین،خیرالقرآن (عہد رسالت مآب عہد صحابہ وتابعین )کو محیط ہے۔اسکے مدار نجات ہونے کی دلیل ہے۔
سَلَف کاطریق
{عبادات میں کسی عمل کے خیرالقرون میں عمل میں نہ لائے جانے پر سلف کا انکار
اور اس زمانہ کے ترک عمل سے بدعت ہونے پر استشھاد}
شرعی بدعت دو طرح کی ہوتی ہے
ایک قسم وہ ہے جس کی اصل شریعت سے ثابت نہیں ہے جیسے وحدت الوجود کا اعتقاد اور صوفیہ کے بعض اور اد و وظائف اور اشغال لطائف ان کو بدعت اصلیہ کہتے ہیں۔
دوسری قسم جس کا اصل شریعت سے ثابت ہو مگر اس کا ڈھنگ اور طریقہ ثابت نہ ہو جیسے میت کی طرف سے صدقہ دینا تو ثابت ہے مگر اس کے لیے دن کی تعین قرآن کے پڑھنے کا التزام اور قاری کو اس کا حقدار قرار دیناثابت نہیں۔ اس کو بدعت وصفیہ کہتے ہیں۔
یہ بدعت اصل کے اعتبار سے مشروع ہوتی ہے۔اس واسطے بعض لوگ اصل کو دیکھ کر غلط فہمی میں مبتلا ہوجاتے ہیں ہم اس غلط فہی کو دور کرنے کیلئے یہاں صحابہ کے زمانے کا ایک واقعہ بیان کرتے ہیں جس میں بدعت وصفیہ پر انکار کیاگیا ہے۔
 
Top