• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

برادران احناف سے 20 سوالات

شاکر

تکنیکی ناظم
رکن انتظامیہ
شمولیت
جنوری 08، 2011
پیغامات
6,595
ری ایکشن اسکور
21,397
پوائنٹ
891
اس لئیے میری آپ سے گذارش ہے کہ ان سوالات کے لئیے حنفی علماء سے رابطہ کریں ۔ اپنی محافل سے باہر آکر دیکھیں
محترم، یہ انٹرنیٹ کی محفل ہے۔ میری تیری محفل والی بات یہاں نہیں ہے۔ اگر آپ کے حنفی علماء سے روابط ہیں اور یقیناً ہیں، اور آپ کا تحقیقی عمل بھی جاری ہے، تو آپ ہی جواب لے دیں۔ آپ کے بھی کام آئیں گے یہ جوابات اور ہمارے لئے بھی۔
 

تلمیذ

مشہور رکن
شمولیت
ستمبر 12، 2011
پیغامات
765
ری ایکشن اسکور
1,506
پوائنٹ
191
محترم، یہ انٹرنیٹ کی محفل ہے۔ میری تیری محفل والی بات یہاں نہیں ہے۔ اگر آپ کے حنفی علماء سے روابط ہیں اور یقیناً ہیں، اور آپ کا تحقیقی عمل بھی جاری ہے، تو آپ ہی جواب لے دیں۔ آپ کے بھی کام آئیں گے یہ جوابات اور ہمارے لئے بھی۔
محترم شاکر صاحب
کچھ عرصہ پہلے اہل حدیث سے کچھ سوالات ہو‏ئے تھے
موضوع: علماے کرام سے مدلل جوابات مطلوب ہے - متوجہ ہوں
اس کے جواب میں آپ نے کہا تھا
وعلیکم السلام ورحمتہ اللہ وبرکاتہ،
عامر بھائی وہ سوالات جو فقط مناظرانہ طبیعت سے مخالف کے منہ میں اپنا موقف ٹھونس کر کئے جاتے ہیں۔ ان کے جوابات میں ضائع کرنے کے لئے وقت نکالنا بڑا مشکل کام ہے۔ اکثر سوالات فقط ایک غلط نظریہ کو بنیاد بنا کر کئے گئے ہیں۔ جس کا مقصد یہ باور کروانا ہے کہ قرآن و حدیث میں ہر مسئلے کا جواب نہیں اور اسی لئے تقلید ضروری ہے۔ پلٹ کر فقط ایک سوال ہی پوچھ لیا جائے کہ ان سوالات کے جوابات امام ابو حنیفہ رحمہ اللہ سے بسند صحیح ثابت کر دیجئے تو شاید ان کی لغویت سائل پر واضح ہو جائے۔
لنک
http://www.kitabosunnat.com/forum/مکالمہ-197/علماے-کرام-سے-مدلل-جوابات-مطلوب-ہے-متوجہ-ہوں-5974/#post38630

آکر یہی بات آپ یہاں کہ دیتے تو آپ کی اور اس فورم کی غیرجانب داری ثابت ہوجاتی ۔ لیکن اس دہرے معیار سے ثابت ہوتا ہے کہ یہ ایک مخصوص مسلک کا فورم ہے ۔
بہر حال آپ کے الفاظ میں جواب نقل کردیتا ہوں
وہ سوالات جو فقط مناظرانہ طبیعت سے مخالف کے منہ میں اپنا موقف ٹھونس کر کئے جاتے ہیں۔ ان کے جوابات میں ضائع کرنے کے لئے وقت نکالنا بڑا مشکل کام ہے۔ اکثر سوالات فقط ایک غلط نظریہ کو بنیاد بنا کر کئے گئے ہیں۔
پلٹ کر فقط ایک سوال ہی پوچھ لیا جائے پہلے ان الزامات کو قرآن و حدیث سے غلط ثابت کرو اور یہ ثابت کرو حنفی مسلک پر یہ الزامات درست ہیں ۔
 

شاکر

تکنیکی ناظم
رکن انتظامیہ
شمولیت
جنوری 08، 2011
پیغامات
6,595
ری ایکشن اسکور
21,397
پوائنٹ
891
آکر یہی بات آپ یہاں کہ دیتے تو آپ کی اور اس فورم کی غیرجانب داری ثابت ہوجاتی ۔ لیکن اس دہرے معیار سے ثابت ہوتا ہے کہ یہ ایک مخصوص مسلک کا فورم ہے ۔
بہر حال آپ کے الفاظ میں جواب نقل کردیتا ہوں
وہ سوالات جو فقط مناظرانہ طبیعت سے مخالف کے منہ میں اپنا موقف ٹھونس کر کئے جاتے ہیں۔ ان کے جوابات میں ضائع کرنے کے لئے وقت نکالنا بڑا مشکل کام ہے۔ اکثر سوالات فقط ایک غلط نظریہ کو بنیاد بنا کر کئے گئے ہیں۔
پلٹ کر فقط ایک سوال ہی پوچھ لیا جائے پہلے ان الزامات کو قرآن و حدیث سے غلط ثابت کرو اور یہ ثابت کرو حنفی مسلک پر یہ الزامات درست ہیں ۔
میں نے اُس دھاگے میں پیش کئے جانے والے سوالات کا الزامی سوال سے رد کیا تھا۔ اور یہاں بھی آپ سے یہی گزارش کی تھی کہ جواب چاہے جیسا ہو عنایت کیجئے۔ لیکن یوں نہ کہیں کہ فلاں جگہ ہی جا کر پوچھ لو۔ سائل کی حمایت نہ میں نے یہاں کی ہے نہ وہاں کی تھی۔ ہاں، وہاں پر خطاب اہل حدیث سے تھا اور میں خود کو اہل حدیث سمجھتا ہوں تو خود سے کئے جانے والے سوالات کا جواب اپنے علم کے مطابق دے دیتا ہوں۔ اگر میں حنفی ہوتا تو حنفیوں سے کئے جانے والے سوالات کا بھی جواب دینے کی کوشش کرتا، لیکن یہ نہ کہتا کہ اس محفل میں نہ پوچھو اور وہاں جا کر پوچھو، وغیرہ۔

باقی آپ نے جو الزامی سوال پیش کیا ہے، وہ فقط ہماری نقالی کی کوشش ہی معلوم ہوتی ہے۔جو کچھ زیادہ کامیاب نہیں۔ اس لئے کہ اس الزامی سوال سے کسی بھی سوال کا جواب نہیں ہوتا۔ ائمہ اربعہ ، احناف ، کتب فقہ، چار مصلوں کا قیام، مثنوی وغیرہ سے متعلق سوالات کو قرآن و حدیث سے پہلے غلط ثابت کرنے کا کہنا، نرالی منطق ہے۔
 

تلمیذ

مشہور رکن
شمولیت
ستمبر 12، 2011
پیغامات
765
ری ایکشن اسکور
1,506
پوائنٹ
191
میں نے اُس دھاگے میں پیش کئے جانے والے سوالات کا الزامی سوال سے رد کیا تھا۔ اور یہاں بھی آپ سے یہی گزارش کی تھی کہ جواب چاہے جیسا ہو عنایت کیجئے۔ لیکن یوں نہ کہیں کہ فلاں جگہ ہی جا کر پوچھ لو۔ سائل کی حمایت نہ میں نے یہاں کی ہے نہ وہاں کی تھی۔ ہاں، وہاں پر خطاب اہل حدیث سے تھا اور میں خود کو اہل حدیث سمجھتا ہوں تو خود سے کئے جانے والے سوالات کا جواب اپنے علم کے مطابق دے دیتا ہوں۔ اگر میں حنفی ہوتا تو حنفیوں سے کئے جانے والے سوالات کا بھی جواب دینے کی کوشش کرتا، لیکن یہ نہ کہتا کہ اس محفل میں نہ پوچھو اور وہاں جا کر پوچھو، وغیرہ۔

باقی آپ نے جو الزامی سوال پیش کیا ہے، وہ فقط ہماری نقالی کی کوشش ہی معلوم ہوتی ہے۔جو کچھ زیادہ کامیاب نہیں۔ اس لئے کہ اس الزامی سوال سے کسی بھی سوال کا جواب نہیں ہوتا۔ ائمہ اربعہ ، احناف ، کتب فقہ، چار مصلوں کا قیام، مثنوی وغیرہ سے متعلق سوالات کو قرآن و حدیث سے پہلے غلط ثابت کرنے کا کہنا، نرالی منطق ہے۔
اللہ اکبر ،
اگر آپ والی بات کوئی حنفی کہتا تو ایک طوفان کھڑا ہوجاتا لیکن ابھی تک کسی رکن نے آپ پر کوئی اعتراض نہیں کیا تو اس سے ثابت ہوتا ہے یہ ایک محضوص مسلک کی محفل ہے ۔
اب میں آپ کی توجہ آپ کے جملہ کی طرف دلاتا ہوں ۔ مین نے کہا تھا کہ جو اعتراضات احناف پر ہیں پہلے ان کو قرآن و حدیث سے غلط ثابت کرو ۔ آپ نے کچھ اعتراضات کا بطور مثال ذکر کر کے کہا کہ ان کو قراں و سنت سے غلط ثابت کرنا نرالی منطق ہے ۔ گویا بعض امور جو آپ کے خیال میں غیر شرعی ہیں لیکن ان کو قرآن و حدیث سے غلط ثابت نہیں کیا جاسکتا ۔ گویا قرآن و حدیث معاذاللہ مکمل ضابطہ حیات نہیں!!!!
اگر کوئی حنفی یوں کہتا کہ بعض امور کو قرآن و حدیث سے غلط ثابت کرنا نرالی منطق ہے تو آپ کے فورم پر کیا حال ہوتا ؟؟؟؟
تو اب ہر کوئی جو غیرجانبدار ہو سمجھ سکتا ہے کہ یہ کس مسلک کا فورم ہے ۔
 

شاکر

تکنیکی ناظم
رکن انتظامیہ
شمولیت
جنوری 08، 2011
پیغامات
6,595
ری ایکشن اسکور
21,397
پوائنٹ
891
اللہ اکبر ،
اگر آپ والی بات کوئی حنفی کہتا تو ایک طوفان کھڑا ہوجاتا لیکن ابھی تک کسی رکن نے آپ پر کوئی اعتراض نہیں کیا تو اس سے ثابت ہوتا ہے یہ ایک محضوص مسلک کی محفل ہے ۔
اب میں آپ کی توجہ آپ کے جملہ کی طرف دلاتا ہوں ۔ مین نے کہا تھا کہ جو اعتراضات احناف پر ہیں پہلے ان کو قرآن و حدیث سے غلط ثابت کرو ۔ آپ نے کچھ اعتراضات کا بطور مثال ذکر کر کے کہا کہ ان کو قراں و سنت سے غلط ثابت کرنا نرالی منطق ہے ۔ گویا بعض امور جو آپ کے خیال میں غیر شرعی ہیں لیکن ان کو قرآن و حدیث سے غلط ثابت نہیں کیا جاسکتا ۔ گویا قرآن و حدیث معاذاللہ مکمل ضابطہ حیات نہیں!!!!
اگر کوئی حنفی یوں کہتا کہ بعض امور کو قرآن و حدیث سے غلط ثابت کرنا نرالی منطق ہے تو آپ کے فورم پر کیا حال ہوتا ؟؟؟؟
تو اب ہر کوئی جو غیرجانبدار ہو سمجھ سکتا ہے کہ یہ کس مسلک کا فورم ہے ۔
محترم، ہر شخص کا کوئی نہ کوئی مسلک ہوتا ہی ہے۔ میں اپنی ذاتی حیثیت میں کیا ہوں، اس کا فورم سے یا اس کی انتظامیہ سے کوئی تعلق نہیں۔ اور میرے عہدے میں واضح طور پر لکھا ہے کہ میں صرف تکنیکی معاملات کا نگران ہوں، فورم کے علمی معاملات میں میری رائے اور ہما شما کی رائے برابر ہے۔

رہی قرآن و حدیث کے مکمل ضابطہ حیات نہ ہونے کی بات، تو آپ کو منطق کہیں سے باقاعدہ سیکھ لینی چاہئے۔ قرآن و حدیث میں امام ابو حنیفہ کا تذکرہ نہیں، تو امام ابو حنیفہ کے تعلق سے یا مثنوی کے تعلق سے کئے جانے والے سوالات کیسے وہاں سے دکھائے جا سکتے ہیں؟ آخر یہ دعویٰ کس اہل حدیث عالم کا ہے کہ قرآن و حدیث کے مکمل ضابطہ حیات ہونے سے مراد یہ ہے کہ اکیسویں صدی میں آلوؤں کا بھاؤ بھی ضرور قرآن و حدیث سے ثابت ہونا چاہئے؟

آپ سوالات کا جواب دیجئے، اگر میری ذات اور نظریات پر بات کرنی ہے تو ذاتی پیغام کر لیں۔ شکریہ!
 

تلمیذ

مشہور رکن
شمولیت
ستمبر 12، 2011
پیغامات
765
ری ایکشن اسکور
1,506
پوائنٹ
191
قرآن و حدیث میں امام ابو حنیفہ کا تذکرہ نہیں، تو امام ابو حنیفہ کے تعلق سے یا مثنوی کے تعلق سے کئے جانے والے سوالات کیسے وہاں سے دکھائے جا سکتے ہیں؟
اگر کوئی کہے کہ قادیانیوں کو قرآن و حدیث سے کافر ثابت کرو تو آپ یقینا یہ کہیں گے کہ قادیانیوں کا تذکرہ تو قرآن و حدیث میں نہیں اس لئیے قادیانیوں کو قرآن و حدیث سے کافر ثابت کرنے کا کہنا نرالی منطق ہے ۔
میرے خیال میں تو پہلے قرآن و حدیث سے یہ ثابت کیا جائے گا کہ ختم نبوت کو بغیر کسی تاویل کے مانا جائے گا ۔ اور ختم نبوت کا منکر کافر ہے کوئی براہ راست انکار کرے یا تاویل کرے ۔ جب یہ ثابت ہوجائے گا تو قادیانیوں کی کتب سے یہ ثابت کیا جائے گا قادیانی ختم نبوت کے منکر ہیں تو قادیانی قرآن و حدیث سے کافر ثابت ہوجائیں گے
یہی بات میں نے کہی تھی کہ جو اعتراضات سوالی شکل میں کیے گے پہلے ان اعتراض کو قرآن و حدیث سے اعتراض ثابت کیا جائے کہ یہ "اعتراض" بنتا ہے پھر احناف کی کتب سے ثابت کیا جائے احناف پر اعتراضات صادق آتے ہیں ۔
آخر یہ دعویٰ کس اہل حدیث عالم کا ہے کہ قرآن و حدیث کے مکمل ضابطہ حیات ہونے سے مراد یہ ہے کہ اکیسویں صدی میں آلوؤں کا بھاؤ بھی ضرور قرآن و حدیث سے ثابت ہونا چاہئے؟
قرآن و حدیث شرعی معاملات میں مکمل ضابطہ حیات ہیں باقی اگر کوئی شرعی دلائل سے آلو کے بھاؤ ڈھنوڈتا ہے تو ہم کیا کہ سکتے ہیں ۔ جو میں نے طریقہ اوپر بتایا کہ قرآن و حدیث سے کس طرح آج کل کی جماعتوں اور مسالک کے بارے میں احکامات معلوم کیے جاسکتے ہیں ۔ کیا آپ اب بھی کہیں گے کہ یہ نرالی منطق ہے ۔
 

شاکر

تکنیکی ناظم
رکن انتظامیہ
شمولیت
جنوری 08، 2011
پیغامات
6,595
ری ایکشن اسکور
21,397
پوائنٹ
891
محترم ، حقائق و واقعات اور دینی مسائل میں فرق ہوتا ہے۔ ملاحظہ کیجئے چند سوالات:

سوال نمبر9: چاروں اماموں کے قبل چاروں خلفاء رضی اللہ عنہم کی تقلید کی جاتی تھی یا نہیں۔ جب نہیں کی جاتی تھی تو پھر اماموں کی کیوں کی جائے؟
سوال نمبر10: ذرا مہربانی فرما کر یہ بھی بتایا جائے کہ فقہ کی موجودہ کتابوں میں سے کوئی ایک بھی ایسی ہے جسے امام ابو حنیفہ رحمہ اللہ نے خود لکھا ہو؟
سوال نمبر11: چاروں امام بھی مقلد تھے یا نہیں۔ اور مقلد تھے تو کس کے، اور اگر نہیں تھے تو کیوں؟
سوال نمبر12: یہ جو فقہ کی کتابوں میں ہے کہ عامی کا کوئی مذہب نہیں ہے۔ اس کے کیا معنی ہیں؟ (پھر تو حنفی ہو کر بھی حنفی نہ رہے)ہ

اب اپنی پیش کردہ لاجکس کسی ایک سوال پر منطبق کر کے دکھائیے تاکہ آپ کی بات درست طور پر سمجھ آ جائے۔
 

تلمیذ

مشہور رکن
شمولیت
ستمبر 12، 2011
پیغامات
765
ری ایکشن اسکور
1,506
پوائنٹ
191
محترم شاکر بھائی ، ہمارا یہ فورم کوئی تاریخی یا ادبی فورم نہیں بلکہ ایک اسلامی فورم ہے ۔ اب اگر کوئی تاريخی واقعات بیان کرتا ہے تو مقصد اس واقعہ کی شرعی پہلو بیان کرنا ہوتا ہے
مثال کے طور پر مغلیہ بادشاہ اکبر نے دین میں کچھ نئے کام نکالنا چاہے بلکہ نیا دین نکالنے کی بھی کوشش کی ۔ یہ تاریخی بات ہے ۔ اب اگر کوئی کہے قران و حدیث سے ان اعمال کو غلط ثابت کرو تو اس بات کہ مطلب نہیں کہ قرآن و حدیث میں مغلیہ سلطنت کا نام ڈھونڈا جائے گا بلکہ قران و حدیث سے دین میں نئے کام ایجاد کرنے کی مذمت بیان کی جائے گي اور کتب تاریخ سے بتایا جائے گا کہ مغلیہ بادشاہ اکبر نے یہ کام دین میں نئے داخل کیے
اب اس تمہید کے بعد ان سوالات کی طرف آتے ہیں جو آپ نے بیان کیے اور کہا میں اپنی منطق ان سوالات پر لگا کر دکھاؤں
پہلا سوال بطور مثال کے لیتا ہوں ۔
سوال نمبر9: چاروں اماموں کے قبل چاروں خلفاء رضی اللہ عنہم کی تقلید کی جاتی تھی یا نہیں۔ جب نہیں کی جاتی تھی تو پھر اماموں کی کیوں کی جائے؟
ایک اہلحدیث اگر یہ سوال کرتا ہے اور اس کو کہا جاتا ہے کہ پہلے اس اعتراض کو قرآن و حدیث سے اعتراض ثابت کیا جائے کہ یہ "اعتراض" بنتا ہے پھر احناف کی کتب سے ثابت کیا جائے احناف پر یہ اعتراض صادق آتا ہے ۔
تو اہلحدیث بھائی کو چاہئیے پہلے قرآن و حدیث سے یہ ثابت کرے جو شرعی عمل خلفاء راشدیں سے ثابت ہو وہ شرعیت کا حصہ ہے اور جو ثابت نہ وہ شریعت کا حصہ نہیں ۔(سوال کا مقصد کم از کم یہی ہے )
جب وہ یہ بات اپنے زعم میں قران و حدیث سے ثابت کرلے گا تو اسے چاہئیے یہ بتائے کرے کہ جو تقلید کتب احناف میں مذکور ہے وہ تقلید خلفاء راشدین کی ثابت نہیں ۔ اس لئیے یہ تقلید حرام ہے ۔
اسی طرح باقی سوالات کے متعلق عرض کیا جاسکتا ہے ۔ امید ہے کہ اب بات صاف ہوگئی ہوگی ۔ کیا اب بھی میری بات "ان اعتراضات کو قران و حدیث سے اعتراض ثابت کریں " آپ کو نرالی منطق لگتی ہے ۔
اگر اب بھی آپ کو میری بات نرالی منطق لگتی ہے تو اسی سوال کو لے لیتے ہیں ۔ میں قراں وحدیث سے ثابت کروں گا کہ یہ اعتراض غلط ہے اور آپ ثابت کریں گے کہ نہیں یہ اعتراض درست ہے اور احناف پر ان کی کتب سے ثابت کریں گے کہ یہ اعتراض احناف پر صادق آتا ہے ۔
میں نے آپکا بطور مثال پہلے سوال کو ہی لیا ہے ۔ پہلے اس پر بات کرلیتے ہیں پھر باقی سوالات کی طرف بڑھتے ہیں ۔ لیکن پہلے آپ یہ ذمہ داری لیں کہ مذکورہ سوال آپ کی طرف سے ہے ۔
 

abumuslim

مبتدی
شمولیت
نومبر 20، 2012
پیغامات
1
ری ایکشن اسکور
1
پوائنٹ
0
فارغ بیٹھا تھا تو سوچا کچھ لکھ دوں تو پانچ سوالات ترتیب کے ساتھ جواب حاضر ہیں باقی بعد میں

سوال نمبر1: تقلید شخصی اصطلاحی کی تعریف کیا ہے۔ اور یہ فرض ہے، واجب ہے، مستحب ہے یا مباح ہے؟
الجواب: تقلید کی تعریف: کسی کا قول اس لئے ماننا کہ آپ کو یقین ہو کہ وہ شخص کتاب و سنت کے موافق بتلائے گا اور اس سے دلیل کی تحقیق نہ کرنا۔ یہ تقلید کا شرعی معنی ہے، اب تقلید کے مطابق کسی راوی کی روایت کو قبول کر لینا تقلید فی الروایت، اور کسی مجتھد کی درایت کو قبول کرنا تقلید فی الدرایت ہے۔
کسی محدث کی رائے سے کسی راوی کو صحیح یا ضعیف کہنا بھی تقلید ہے، اور ثقہ یا مجہول کہنا بھی تقلید۔
اسی طرح کسی امتی کے بنائے گئے اصول حدیث و اصول تفسیر و اصول فقہ کو ماننا بھی تقلید کہلاتا ہے۔
اب بات یہ کہ کیا تقلید واجب ہے؟ تقلید واجب ہے جب خود عقل نہ ہو، حدیث اور قران کو سمجھنے کی صلاحیت نہ ہو، ساتھ ہی اتنی بصیرت نہ ہو کہ کسی غیر منصوص مسئلہ کے مطلب کو صحیح طور پر سمجھا جا سکے۔ یہ کام فقہا کا ہے کہ انہوں نے احادیث طیبہ سے وہ مسائل نکالے جو ہماری سوچ میں کبھی نہیں سما سکتے تھے۔ اس لئے ہر انسان جو غیر مجتہد ہو اس پر تقلید واجب ہے، اس کی عام مثال دی جاتی ہے کہ جو خود ڈاکٹر نہ ہو وہ کسی اچھے اور جانے مانے ڈاکٹر سے ہی دوا لے گا، کسی لا علم سے ہرگز نہیں اور اسی طرح نہ ہی اس ڈاکٹر کے دئے گئے نسخے کو جا کر علمِ طب کی کتب میں تصدیق کرے گا اور پھر کھائے گا۔ بلکہ وہ اسی بھروسے پر اس دوا کو استعمال کرے گا کہ اس ڈاکٹر (جو سب مریضوں اور تجربہ کاروں کے مطابق اچھا اور مستند مانا ہوا ہے) نے اسے صحیح دوا تجویز کی ہے۔ اور انشا اللہ شفایاب بھی ہوجائے گا۔ یہی وجہ ہے کہ اسے تقلید اس ڈاکٹر کی واجب ہے۔ ہم بھی بیمار ہیں، اور جانتے ہیں کہ جب تک کوئی بڑا طبیب علاج کے لئے میسر نہ آئے ہمارے مرض کا درماں ممکن نہیں، اس لئے فقیہہ امام کی تقلید ضروری ہے ورنہ کیا ہوتا ہے؟
ورنہ یہ ہوتا ہے کہ میں محدث ہی کیوں نہ ہوجاؤں مگر فقہ سے نا واقف ہوں تو حدیث کا سمجھنے سے قاصر رہ سکتا ہوں جیسے ایک غیر فقیہہ محدث چالیس سال تک یہ نظریہ اپنائے رکھا کہ نماز جمعہ سے پہلے سر منڈوانا درست نہیں اور حدیث کیا تھی؟ ”نَھٰی عَنِ الحَلَقِ قَبلَ الصَّلٰوۃِ یَومُ الجُمُعَہ“
یہی حال ہوتا ہے جب تقلید نہیں ہوتی، اپنی عقل چلتی ہے، پیروی چھوٹ جاتی ہے، گمراہی آجاتی ہے۔
مقلد اپنے آپ کو مقلد کہتا ہے اس لئے نہیں کہ وہ قران اور حدیث کے خلاف ہے، بلکہ وہ ایسے شخص کا مقلد ہے جو قران اور حدیث کو اس مقلد اور ہزاروں لاکھوں نہیں بلکہ کروڑوں لوگوں سے زیادہ سمجھتا ہے اور جو وہ سمجھاتا ہے مقلد اسکی بات کو مان لیتا ہے۔ لیکن یہ کہاں ہے کہ مقلد حدیث کو نہیں بلکہ امام کو مانتا ہے؟ یہ ایسی ہی بات ہے کہ میں سائنس کہ ٹیچر کی بات سنوں تو مجھ پر طعن ہو کہ تم سائنس کی ٹیکسٹ بک کو چھوڑ کر ٹیچر کی بات مانتے ہو۔ اور یہ غلط ہے، مگر میں کیا کروں کہ مجھے اس ٹیکسٹ بک کی سمجھ نہیں آتی مگر ٹیچر اسی ٹیکسٹ بک میں سے وہ کچھ سمجھا دیتا ہے جو میرے وہم و گمان تک میں نہ تھا۔۔۔۔ تو ٹیچر کی تقلید واجب ہے مجھ پر۔
غیر مقلدین کے شیخ الکل حضرت مولانا سید نذیر حسین دہلویؒ فرماتے ہیں:
”تقلید کا اصطلاحی معنی یہ ہیں کہ ماننا اور عمل کرنا اس شخص کے قول پر بلا دلیل جس کا قول حجت شرعی نہ ہو، تو اس اصطلاح کی بنیاد پر عامی کا مجتھدوں کی طرف رجوع کرنا کوئی تقلید نہیں بلکہ اتباع ہے۔ تقلید کے معنی عرف میں یہ ہیں کہ وقت لا علمی میں میں کسی اہل علم کا قول اور اس پر عمل کرنا اور اسی عرفی معنی میں مجتہدوں کی ”اتباع“ کو تقلید کہا جاتا ہے“
گویا اتباع ہی تقلید ہے اور تقلید کا معنی ہی اتباع کرنا ہے۔ (معیار الحق)
آگے عقیدۃ الفرید کا حوالہ دیتے ہوئے فرماتے ہیں:
اور فاضل حبیب اللہ قندھاری ؒ فرماتے ہیں:
تقلید اس شخص کے قول پر بلا دلیل عمل کرنا ہے جس کا قول حجت شرعیہ نہ ہو سو رجوع کرنا آنحضرت ﷺ کی اور اجماع کی طرف تقلید نہیں کہلائے گا۔ اور اسی طرح کسی انجان کا مفتی کے قول کی طرف رجوع کرنا یا کسی قاضی کا ثقہ آدمی کے قول کی طرف رجوع کرنا بھی تقلید نہیں کہلائے گا کیونکہ یہ تو بحکم شرع واجب ہے۔ اب اس سے ثابت ہوتا ہے کہ جب یہ چیز واجب ہے تو اتباع کو اگر تقلید کا نام دیا جائے تو کوئی مضائقہ نہیں (بحوالہ ایضاً امام الحرمین)
اس مفصل عبارت سے ثابت ہوا:
۱۔ لا علمی کے وقت مجتہد کی طرف رجوع کرنا تقلید نہیں بلکہ اتباع ہے۔
۲۔ مجتہدین کی اتباع کو تقلید بھی کہا جاتا ہے یعنی بالمآل تقلید اور اتباع میں کوئی فرق نہیں
۳۔ لا علم اور انجان کا کسی مفتی کے قول کی طرف رجوع کرنا تقلید نہیں بلکہ بحکم شرع واجب ہے
۴۔ جس طرح مجتہدین کے اتباع کو تقلید کہنا جائز ہے اسی طرح رسولﷺ کی اتباع کو بھی تقلید کہنا جائز ہے۔

امید ہے کہ سمجھ آیا ہو کچھ

سوال نمبر2: اجماع کی تعریف کیا ہے۔ اور اجماع کن لوگوں کا معتبر ہے؟ تقلید شخصی اصطلاحی پر کیا اجماع ہوا ہے۔ اگر ہوا ہے تو کب، کہاں اور کن کا؟
الجواب: اجماع کی تعریف مختصر یہ کہ جس چیز پر امت کا اکثر یہ بہت زیادہ حصہ جمع ہوجاوے، اس سے سیدھی سی بات یہ مراد ہے کے امت مسلمہ ایک وقت میں غلط بات یا کسی غلط مسئلے پر جمع نہیں ہوسکتی۔ مثلاً ایک ہی وقت میں پوری امت بیس تراویح پر جمع ہوئی اور صدیوں جمع ہی رہی بلکہ آج تک جمع ہے یہ اجماع ہے۔ اس میں معتبر ہونا کسی ایک زمانے یا کسی ایک طرح کے لوگوں کو شرط نہیں بنایا جاسکتا معتبر ہونے کے لئے۔ مثلاً پہلے بھی سب بیس رکعت تراویح پڑھتے تھے، آج بھی امت کا اجماع اسی پر ہے۔ (کوئی ایک جماعت اپنی ڈیڑھ اینٹ کی چن کر بیٹھ جائے تو وہ اجماع امت میں نہیں آتی اور انشا اللہ کبھی آئے گی بھی نہیں۔) مولانا فضل محمد صاحب دامت برکاتہم بنوری ٹاؤن کے۔ میرے ساتھ عشائیہ تناول فرما رہے تھے۔ کہنے لگے کہ مزمل بیٹا ”کتیا ایک ساتھ آٹھ بچے دیتی ہے۔ اور بکری دو ہی بچے دیتی ہے۔ لیکن ہر کوئی دیکھ سکتا ہے کہ حرام کبھی پنپ نہیں سکتا اور کتیا کے بچے کوئی کھاتا بھی نہیں پھر بھی بکری کے بچوں کی تعداد آپ خود سمجھ سکتے ہیں“ ۔ اسی طرح ایک وقت میں اجماع امت کسی غلط بات پر ممکن نہیں اور اجماع امت حق والوں کے لئے ایک مضبوط سے مضبوط دلیل بھی ہے۔
تقلید شخصی پر آئیں تو پتا لگتا ہے کہ ہر دور میں تقلید ہوئی، صحابہ میں بھی تقلید شخصی کو شاہ ولی اللہ محدث دہلوی ؒ نے قرۃ العین میں لکھا ہے۔ پھر یہ بھی کہ سب صحابہ میں کوئی ایک بھی غیر مقلد نہیں تھا۔ یا تو مجتھد تھے یا مقلد۔ صحابہ کی تعداد کم و بیش ایک لاکھ رہی مگر فقیہ صحابہؓ جن کی تقلید الگ الگ جگہوں پر ہوتی وہ مفتی صحابہؓ کل 149 تھے اور ان میں مکثرین کی تعداد سات ہے جنہوں نے بہت زیادہ تعداد میں فتوے دئے، بیس متوسطین تھے جنہوں نے کئی ایک فتوے دئے، اور ایک سو بائیس مقلین یعنی ایسے ہیں جنہوں نے بہت کم تعداد میں فتوے دئے۔ ان مفتی صحابہ کرام ؓ کے ہزاروں فتوے مصنف ابن ابی شیبہ، مصنف عبد الرزاق، تہذیب الآثار، معانی الآثار وغیرہ حدیث کی کتابوں میں موجود ہین جن میں ان مفتیان کرام نے صرف مسئلہ بتایا ہے دلیل میں کسی حدیث یا آیت کو نہ تو طلب کیا گیا اور نہ ہی پیش کیا گیا اور انہی فتاوی پر مقلد صحابہؓ عمل کیا۔ اسی کو تقلید کہا جاتا ہے۔ شاہ ولی اللہ ؒ الانصاف میں فرماتے ہیں ”صحابہؓ متفرق شہروں میں پھیل گئے اور ہر علاقے میں ایک صحابی کی تقلید شخصی کی جاتی۔ “
جیسے مکہ میں ابن عباسؓ، مدینہ میں زید بن ثابت ؓ کوفہ میں عبد اللہ بن مسعودؓ یمن میں معاذ ؓ بصرہ میں انس ؓ ۔ پھر شاہ ولی اللہ ؒ فرماتے ہیں کہ تابعین کے دور میں ہر تابعی کا ایک مذہب قرار پایا اور ہر شہر میں ایک امام ہو گیا، لوگ اسکی تقلید کیا کرتے۔ الغرض یہ کہ تقلید صحابہؓ اور تابعینؒ کے دور سے تواتر کے ساتھ ثابت ہے۔ اب مسئلہ یہ کہ ان صحابہ و تابعین فقہا کی مرتب کردہ کتابیں ہم میں موجود نہیں لیکن پھر ائمہ اربعہ نے انکے مذہب کو جمع کرکے مرتب کردیا اور انہی ائمہ اربعہ کے واسطے سے ان سب فقہا کی تقلید آج تک ہوتی آرہی ہے یہی اجماع امت ہے جو دور صحابہ سے لیکر آج تک چلتا چلا آرہا ہے۔


سوال نمبر3: اجتہاد کی تعریف کیا ہے۔ اجتہاد کے لیے کن علوم کی ضرورت ہے اور کیوں۔ کیا اجتہاد کا دروازہ کھلا ہے۔ اگر نہیں تو پہلے کیوں کھلا تھا اور کس نے کھولا تھا۔ اب کیوں بند ہو گیا ہے۔ اور کس نے بند کیا ہے؟
الجواب: اجتہاد کو اختصار کے ساتھ یوں کہوں کہ جو مسئلہ کتاب اللہ اور سنت سے واضح طور پر ثابت نہ ہو یعنی غیر منصوص ہو تو ایسے مسائل کو اجتہاد سے حل کیا جاتا ہے۔ سوچیں اگر انسان، حیوان، جنات، پیشاب، پاخانہ، پھر ان سے متعلق شاخیں، پھر ان شاخوں کی شاخیں، پھر شاخوں کی شاخوں کی شاخیں سب کچھ اگر قران کریم اور احادیث میں صراحتاً ثابت ہوتا تو احادیث کی تعداد اربوں یا کھربوں میں ہوتی۔
کتاب و سنت ضابطہ حیات ہیں اس پر امت کا اجماع ہے اور ہر کوئی مانتا ہے۔ اب ضابطہ کیا ہوتا ہے؟ ضابطہ ایک حد ہوتی ہے جس سے باہر نکلنا ضابطہ کے خلاف ہے۔
اس صورت میں اگر ایک مجتہد یا ایک فقیہہ قیاس کر کے کے کوئی مسئلہ نکالے تو اس کا مطلب یہ نہیں کہ وہ قران و سنت (یعنی ضابطہ حیات) سے ہٹ گیا اور قیاس کرکے مسئلہ ایجاد کرلیا۔
مجتہد ہونے کی شرائط علی بن محمد البزدوی الحنفی ؒ فرماتے ہیں مختصر بیان کر دیتا ہوں:
”اجتہاد کی شرط یہ ہے کہ مجتہد کتاب اللہ کی معانی اور حدیث کی اسانید اور متون اور ان کی معانی کے طریقوں کے علم پر حاوی ہو اور یہ کہ قیاس اور اس کے طرق کو بھی جانتا ہو“
یعنی مجتہد کے لئے یہ بنیادی شرط ہے کہ کتاب اللہ کی معانی پر عبور رکھتا ہو اور حدیث کی اسانید اور اسکے متون پر بھی اس کا علم حاوی ہو اور اخذ معانی مثلاً عبارۃ النص، اشارۃ النص، دلالۃ النص، اور اقتضاء النص وغیرہ کے وجوہ کو بھی بخوبی جانتا ہو۔ ظاہر امر ہے کہ جس نے نہ تو کسی ماہر استاد سے قران کریم کے با قاعدہ معانی پڑھے، نہ علوم آلیہ سے شناسائی حاصل کی نہ حدیث کی سند اور معانی کو پڑھا اور نہ اصول تفسیر اور اسول حدیث سے واقفیت حاصل کی ہو، نہ اصول فقہ و قیاس کے وجوہ کو پڑھا ہو صرف کچھ ترجموں کو پڑھ کر بیٹھ گیا ہو وہ مجتہد کیسے بن سکتا ہے؟ تو واضح ہوا کہ مجتہد بننا ہر ایرے غیرے نتھو خیرے کے بس کی بات نہیں۔
اجتہاد کا دروازہ بند ہوا یا کھلا ہے؟ شاہ ولی اللہ محدث دہلویؒ فرماتے ہیں کہ ”۳۰۰ ہجری کے بعد کوئی مجتہد مطلق پیدا نہیں ہوا“ اور امام نووی نے بھی شرح مہذب میں یہی فرمایا کہ اب مجتہد کا آنا نہ تو محال عقلی ہے، نہ شرعی مگر محال مادی ہے، سوچیں اگر آج کوئی مجتہد پیدا ہوا تو آکر کرے گا کیا؟؟؟ اگر آج کا کوئی محدث دعوی کرے کے ساری حدیث کی کتابیں جیسے بخاری و مسلم اور دیگر کتابیں سب غلط ہیں اور محدثین کی عظمت کو ختم کردے تو اس سے دین کو کیا فائدہ ہوگا؟
اسی طرح کوئی مجتہد بن کر سارے علمی سرمائے کو ختم کر ڈالے تو اس سے کیا حاصل ہوگا؟


سوال نمبر4: مجتہد کو بھی تقلید کرنے کا حکم ہے یا نہیں؟
الجواب: یہ تو ایسا سوال ہوا کہ ایک شخص ایک ہی وقت میں امام بھی ہو اور مقتدی بھی۔ ظاہر ہے کہ یہ امر محال ہے۔ ایک نماز پڑھانے والا ہوتا ہے جو امام ہوتا ہے۔ اور اس پر مقتدی کی چھاپ نہیں لگائی جاسکتی کیونکہ وہ تو امامت کر ہی رہا ہے۔ یا تو وہ امامت چھوڑ کر اقتدا اپنا لے تو مقتدی ہوجائے گا۔ اور بہر حال یہ سوال تھوڑا دجل و فریب سے پر ہے تو میں مناسب سمجھونگا کہ یہ بتاؤں کہ امام اپنی نماز اپنی مرضی سے نہیں بلکہ سنت کے طریق پر پڑھاتا ہے۔ اسی طرح مجتہد اجتہاد میں اپنی نہیں کرتا بلکہ وہی کرتا ہے جو یا تو کتاب و سنت سے ثابت ہو، اگر ثابت نہ ہو تو خلاف بھی نہ ہو۔ حقیقت میں مجتہد بھی قران و سنت اور اجماع کا تابع ہے اس سے ہٹ کر کچھ نہیں کہتا۔



سوال نمبر5: جو امام ان چاروں کے سوا ہوئے ہیں ان کے نام کیا ہیں۔ اور ان کی تقلید فرض ہے یا واجب یا مباح ہے یا نہیں۔ اگر نہیں تو کیوں۔ حالانکہ وہ ان کے استاد ہیں، ادب میں، زہد میں، فقہ میں، جہاد میں، تقوی میں ان کے بھی بڑے ہیں۔ ان کی بزرگی کے قائل تھے اور ان کا ادب کرتے تھے ۔ صحابہ رضی اللہ عنہم کی تقلید نہ کر کے نیچے والوں کی تقلید کرنا کونسی عقل مندی ہے؟
الجواب: اس کا جواب سوال نمبر ۲ کی آخری عبارت میں دے چکا ہوں کہ چار اماموں میں کوئی بھی کتاب و سنت اور اجماع کے خلاف نہیں گیا۔ اور ان سے پہلے جو علماء و فقہا صحابہؓ و تابعینؒ گذرے انہی کی تحقیقات کو جمع کیا اور چونکہ یہ چار خود بھی اجماع امت سے ثابت شدہ مجتہدین تھے تو اجتہاد سے بھی کام لیا۔ عقل مندی کی بات تو یہ ہے کہ اطیع اللہ و اطیع الرسول پر عمل کیا جائے تو تمام احادیث چاہے ضعیف ہوں یا صحیح سب پر عمل کر لیا جائے، کسی ایک کو بھی نہ چھوڑا جائے، لیکن ہم اس معاملے میں صحابہ کی نہیں بلکہ بعد کے محدثین کی رائے لیکر راویوں کو ثقہ و مجھول ٹھہرا دیتے ہیں۔ امام بخاری کی حدیث کو تو قران کے بعد پہلے درجے کا مانتے ہیں مگر امام احمد بن حنبلؒ جو امام بخاریؒ کے استاد وں میں سے ایک ہیں انکی حدیث کو نسبتاً کم درجہ دیتے ہیں۔ یہ کونسی عقل مندی ہے؟ کیا صحابہ بخاری و مسلم شریف پر عمل کرتے تھے؟ یا صرف حدیث پر؟
 

راجا

سینئر رکن
شمولیت
مارچ 19، 2011
پیغامات
733
ری ایکشن اسکور
2,574
پوائنٹ
211
سوال نمبر1: تقلید شخصی اصطلاحی کی تعریف کیا ہے۔ اور یہ فرض ہے، واجب ہے، مستحب ہے یا مباح ہے؟
الجواب: تقلید کی تعریف: کسی کا قول اس لئے ماننا کہ آپ کو یقین ہو کہ وہ شخص کتاب و سنت کے موافق بتلائے گا اور اس سے دلیل کی تحقیق نہ کرنا۔ یہ تقلید کا شرعی معنی ہے، اب تقلید کے مطابق کسی راوی کی روایت کو قبول کر لینا تقلید فی الروایت، اور کسی مجتھد کی درایت کو قبول کرنا تقلید فی الدرایت ہے۔
کسی محدث کی رائے سے کسی راوی کو صحیح یا ضعیف کہنا بھی تقلید ہے، اور ثقہ یا مجہول کہنا بھی تقلید۔
اسی طرح کسی امتی کے بنائے گئے اصول حدیث و اصول تفسیر و اصول فقہ کو ماننا بھی تقلید کہلاتا ہے۔
اب بات یہ کہ کیا تقلید واجب ہے؟ تقلید واجب ہے جب خود عقل نہ ہو، حدیث اور قران کو سمجھنے کی صلاحیت نہ ہو، ساتھ ہی اتنی بصیرت نہ ہو کہ کسی غیر منصوص مسئلہ کے مطلب کو صحیح طور پر سمجھا جا سکے۔ یہ کام فقہا کا ہے کہ انہوں نے احادیث طیبہ سے وہ مسائل نکالے جو ہماری سوچ میں کبھی نہیں سما سکتے تھے۔ اس لئے ہر انسان جو غیر مجتہد ہو اس پر تقلید واجب ہے، اس کی عام مثال دی جاتی ہے کہ جو خود ڈاکٹر نہ ہو وہ کسی اچھے اور جانے مانے ڈاکٹر سے ہی دوا لے گا، کسی لا علم سے ہرگز نہیں اور اسی طرح نہ ہی اس ڈاکٹر کے دئے گئے نسخے کو جا کر علمِ طب کی کتب میں تصدیق کرے گا اور پھر کھائے گا۔ بلکہ وہ اسی بھروسے پر اس دوا کو استعمال کرے گا کہ اس ڈاکٹر (جو سب مریضوں اور تجربہ کاروں کے مطابق اچھا اور مستند مانا ہوا ہے) نے اسے صحیح دوا تجویز کی ہے۔ اور انشا اللہ شفایاب بھی ہوجائے گا۔ یہی وجہ ہے کہ اسے تقلید اس ڈاکٹر کی واجب ہے۔ ہم بھی بیمار ہیں، اور جانتے ہیں کہ جب تک کوئی بڑا طبیب علاج کے لئے میسر نہ آئے ہمارے مرض کا درماں ممکن نہیں، اس لئے فقیہہ امام کی تقلید ضروری ہے ورنہ کیا ہوتا ہے؟
ورنہ یہ ہوتا ہے کہ میں محدث ہی کیوں نہ ہوجاؤں مگر فقہ سے نا واقف ہوں تو حدیث کا سمجھنے سے قاصر رہ سکتا ہوں جیسے ایک غیر فقیہہ محدث چالیس سال تک یہ نظریہ اپنائے رکھا کہ نماز جمعہ سے پہلے سر منڈوانا درست نہیں اور حدیث کیا تھی؟ ”نَھٰی عَنِ الحَلَقِ قَبلَ الصَّلٰوۃِ یَومُ الجُمُعَہ“
یہی حال ہوتا ہے جب تقلید نہیں ہوتی، اپنی عقل چلتی ہے، پیروی چھوٹ جاتی ہے، گمراہی آجاتی ہے۔
مقلد اپنے آپ کو مقلد کہتا ہے اس لئے نہیں کہ وہ قران اور حدیث کے خلاف ہے، بلکہ وہ ایسے شخص کا مقلد ہے جو قران اور حدیث کو اس مقلد اور ہزاروں لاکھوں نہیں بلکہ کروڑوں لوگوں سے زیادہ سمجھتا ہے اور جو وہ سمجھاتا ہے مقلد اسکی بات کو مان لیتا ہے۔ لیکن یہ کہاں ہے کہ مقلد حدیث کو نہیں بلکہ امام کو مانتا ہے؟ یہ ایسی ہی بات ہے کہ میں سائنس کہ ٹیچر کی بات سنوں تو مجھ پر طعن ہو کہ تم سائنس کی ٹیکسٹ بک کو چھوڑ کر ٹیچر کی بات مانتے ہو۔ اور یہ غلط ہے، مگر میں کیا کروں کہ مجھے اس ٹیکسٹ بک کی سمجھ نہیں آتی مگر ٹیچر اسی ٹیکسٹ بک میں سے وہ کچھ سمجھا دیتا ہے جو میرے وہم و گمان تک میں نہ تھا۔۔۔۔ تو ٹیچر کی تقلید واجب ہے مجھ پر۔
آپ نے سوچے سمجھے بغیر صفدر صاحب کی الکلام المفید سے اقتباسات نقل کر دئے ہیں۔ ذرا غور کیجئے:

محدث کی رائے سے راوی کو صحیح و ضعیف کہنا بھی تقلید ہے تو پھر تو ائمہ اربعہ بھی مقلد ہوئے؟ یا پھر یہ مانیں کہ ہر راوی و حدیث کے بارے میں وہ فقط اپنی ہی رائے دیا کرتے تھے؟ اور ہر راوی کی خود تحقیق کیا کرتے تھے؟ عجیب۔
یہ بھی عرض کر دیں کہ یہ تقلید فقط اعمال اور فقہی مسائل ہی میں کیوں واجب ہے؟ عقائد میں کیوں نہیں؟
عقائد کے معاملات میں خود کتابیں پڑھ کر ڈاکٹر بن جانا درست اور اس سے کم تر معاملات میں مجتہد کی تقلید؟ عجیب۔
عقائد کے معاملات میں سائنس ٹیچر کی بات نہیں سنتے اور فقہی مسائل میں ہمہ تن گوش۔ یہ کیوں؟
آپ نے فرمایا: یہی حال ہوتا ہے جب تقلید نہیں ہوتی، اپنی عقل چلتی ہے، پیروی چھوٹ جاتی ہے، گمراہی آجاتی ہے۔، کیا مقلدین کا عقائد میں یہی حال ہوتا ہے؟ اگر نہیں تو کیوں؟ وجہ تفریق کیا ہے؟

برسبیل تذکرہ آپ کی پیش کردہ ڈاکٹر اور سائنس ٹیچر والی مثالوں کے بارے عرض ہے کہ یہ یہاں فٹ نہیں بیٹھتیں۔ مجھے بیماری تو ہو آج، اور میں جاؤں کسی ایسے ڈاکٹر کے پاس جو طب وسائنس سے مدد لے کر تشخیص و علاج کے بجائے ( جو کہ اہلحدیث عامی کرتے ہیں) کسی فوت شدہ بڑے حکیم صاحب یا بڑے ڈاکٹر صاحب کی لکھی کتاب کھول کر بیٹھ جائے اور وہاں سے دیکھ کر علاج شروع کر دے کہ جی جو تعلیم اس دور میں ہوتی تھی، آج ہمارے دور میں تو ہوتی نہیں۔ لہٰذا کسی بڑے ڈاکٹر پر اعتماد کرنا، خود تشخیص و علاج سے بہتر ہے۔ یہ مثال انچ بائی انچ فٹ بیٹھتی ہے۔ تقابل کر کے دیکھ لیجئے۔

سوال نمبر2: اجماع کی تعریف کیا ہے۔ اور اجماع کن لوگوں کا معتبر ہے؟ تقلید شخصی اصطلاحی پر کیا اجماع ہوا ہے۔ اگر ہوا ہے تو کب، کہاں اور کن کا؟
الجواب: اجماع کی تعریف مختصر یہ کہ جس چیز پر امت کا اکثر یہ بہت زیادہ حصہ جمع ہوجاوے، اس سے سیدھی سی بات یہ مراد ہے کے امت مسلمہ ایک وقت میں غلط بات یا کسی غلط مسئلے پر جمع نہیں ہوسکتی۔ مثلاً ایک ہی وقت میں پوری امت بیس تراویح پر جمع ہوئی اور صدیوں جمع ہی رہی بلکہ آج تک جمع ہے یہ اجماع ہے۔ اس میں معتبر ہونا کسی ایک زمانے یا کسی ایک طرح کے لوگوں کو شرط نہیں بنایا جاسکتا معتبر ہونے کے لئے۔ مثلاً پہلے بھی سب بیس رکعت تراویح پڑھتے تھے، آج بھی امت کا اجماع اسی پر ہے۔ (کوئی ایک جماعت اپنی ڈیڑھ اینٹ کی چن کر بیٹھ جائے تو وہ اجماع امت میں نہیں آتی اور انشا اللہ کبھی آئے گی بھی نہیں۔) مولانا فضل محمد صاحب دامت برکاتہم بنوری ٹاؤن کے۔ میرے ساتھ عشائیہ تناول فرما رہے تھے۔ کہنے لگے کہ مزمل بیٹا ”کتیا ایک ساتھ آٹھ بچے دیتی ہے۔ اور بکری دو ہی بچے دیتی ہے۔ لیکن ہر کوئی دیکھ سکتا ہے کہ حرام کبھی پنپ نہیں سکتا اور کتیا کے بچے کوئی کھاتا بھی نہیں پھر بھی بکری کے بچوں کی تعداد آپ خود سمجھ سکتے ہیں“ ۔ اسی طرح ایک وقت میں اجماع امت کسی غلط بات پر ممکن نہیں اور اجماع امت حق والوں کے لئے ایک مضبوط سے مضبوط دلیل بھی ہے۔
تقلید شخصی پر آئیں تو پتا لگتا ہے کہ ہر دور میں تقلید ہوئی، صحابہ میں بھی تقلید شخصی کو شاہ ولی اللہ محدث دہلوی ؒ نے قرۃ العین میں لکھا ہے۔ پھر یہ بھی کہ سب صحابہ میں کوئی ایک بھی غیر مقلد نہیں تھا۔ یا تو مجتھد تھے یا مقلد۔ صحابہ کی تعداد کم و بیش ایک لاکھ رہی مگر فقیہ صحابہؓ جن کی تقلید الگ الگ جگہوں پر ہوتی وہ مفتی صحابہؓ کل 149 تھے اور ان میں مکثرین کی تعداد سات ہے جنہوں نے بہت زیادہ تعداد میں فتوے دئے، بیس متوسطین تھے جنہوں نے کئی ایک فتوے دئے، اور ایک سو بائیس مقلین یعنی ایسے ہیں جنہوں نے بہت کم تعداد میں فتوے دئے۔ ان مفتی صحابہ کرام ؓ کے ہزاروں فتوے مصنف ابن ابی شیبہ، مصنف عبد الرزاق، تہذیب الآثار، معانی الآثار وغیرہ حدیث کی کتابوں میں موجود ہین جن میں ان مفتیان کرام نے صرف مسئلہ بتایا ہے دلیل میں کسی حدیث یا آیت کو نہ تو طلب کیا گیا اور نہ ہی پیش کیا گیا اور انہی فتاوی پر مقلد صحابہؓ عمل کیا۔ اسی کو تقلید کہا جاتا ہے۔ شاہ ولی اللہ ؒ الانصاف میں فرماتے ہیں ”صحابہؓ متفرق شہروں میں پھیل گئے اور ہر علاقے میں ایک صحابی کی تقلید شخصی کی جاتی۔ “
جیسے مکہ میں ابن عباسؓ، مدینہ میں زید بن ثابت ؓ کوفہ میں عبد اللہ بن مسعودؓ یمن میں معاذ ؓ بصرہ میں انس ؓ ۔ پھر شاہ ولی اللہ ؒ فرماتے ہیں کہ تابعین کے دور میں ہر تابعی کا ایک مذہب قرار پایا اور ہر شہر میں ایک امام ہو گیا، لوگ اسکی تقلید کیا کرتے۔ الغرض یہ کہ تقلید صحابہؓ اور تابعینؒ کے دور سے تواتر کے ساتھ ثابت ہے۔ اب مسئلہ یہ کہ ان صحابہ و تابعین فقہا کی مرتب کردہ کتابیں ہم میں موجود نہیں لیکن پھر ائمہ اربعہ نے انکے مذہب کو جمع کرکے مرتب کردیا اور انہی ائمہ اربعہ کے واسطے سے ان سب فقہا کی تقلید آج تک ہوتی آرہی ہے یہی اجماع امت ہے جو دور صحابہ سے لیکر آج تک چلتا چلا آرہا ہے۔
عجیب لطیفہ ہے کہ دعویٰ تو یہ ہے کہ ائمہ اربعہ کی تقلید پر اجماع ہوا۔ اور دلیل یہ ہے کہ یہ اجماع صحابہ کرام کے دور میں ہوا۔ اگر ہر شہر میں ایک امام ہوتا تھا اور اس کی تقلید شخصی ہوتی تھی، تو سوال یہ ہے کہ اس صحابی کے مرنے کے بعد بھی ان شہروں میں اس صحابی کی تقلید شخصی ہوتی تھی کہ نہیں؟ مجتہد صحابہ کا فتویٰ دینا اور غیر مجتہد صحابہ کا اس پر عمل کرنا، تو عامی کا مفتی سے مسئلہ پوچھنا ہے اور اسے کوئی بھی تقلید نہیں کہتا۔ ورنہ آج کوئی بھی عامی حنفی نہ ہوتا، سب اپنے اپنے علاقے کے مفتیان اور علمائے کرام کے مقلدین کہلاتے۔ لہٰذا اجماع کی صریح دلیل عرض کیجئے، فقط کسی کے کہہ دینے سے اجماع منعقد نہیں ہوتا، اور جب آئمہ اربعہ کے اقوال خود تقلید کے خلاف ہوں تو اجماع کی بات کرنا مذاق ہی لگتا ہے۔
پھر یہ بھی ضرور بتائیں کہ اس اجماع میں عقائد والی تقلید بھی شامل ہے یا فقط فقہی و فرعی مسائل والی تقلید پر ہی اجماع ہوا ہے؟

بقیہ جوابات پر تبصرہ پھر کبھی۔
 
Top