سلام
چلو میں مفتی تقی عثمانی صاحب کی کتاب کے ورق لگا دیتا ہوں ۔ ذرا وضاحت کر دیں ۔
بٗھائی صاحب برا نہیں منائیے گا
یہ علامہ خطیب بغدادی رحمۃ اللہ علیہ کا قول ہے جسکی پچھلی تین سطریں یہ ہیں جو آپ سے چونک گئی
ملاحظہ فرمائے
رہی یہ بات کہ تقلید کس کے لئے جائز ہے؟ سو وہ عامی شخص ہے جو احکام شرعیہ کے طریقوں سے واقف نہیں’ لہذا اس کے لئے جائز ہیکہ وہ کسی عالم کی تقلید کرے اور اسکے قول پر عمل پیرا ہو نیز اس لئے کہ وہ (عام آدمی) اجتہاد کا اہل نہیں ہے’ لہذا اسکا فرض یہ ہیکہ وہ بالکل اس طرح تقلید کرے جیسے ایک نابینا قبلے کے معاملے میں کسی آنکھ والے کی تقلید کرت ہے’ اس لئے کہ جب اس کے پاس کوئی ایسا ذریعہ نہیں ہے جس سے وہ اپنی ذاتی کوشش کے ذریعہ قبلے کا رخ معلوم کرسکے تو اس پر واجب ہیکہ کسی آنکھ والے کی تقلید کرے الفقیہ والمتفقہ للخطیب البغدادی ص (۶۸)
مولانا تقی عثمانی صاحب نے خطیب بغدادی کے قول کی تشریح کی ہے انکی اپنی کوئی ایسی بات نہیں۔
اس شخص کی مثال ایسی عامی کی سی ہے جس نے ایک دفعہ مجھ سے سوال کیا کہ میں الحمد للہ سمجھ دار ہوں میں ترجمہ قرآن پڑھ کر خود بخود قرآن سمجھ سکتا ہوں میں ان صاحب سے عرض کیا بھائی صاحب ذرا یو تو بتادیجئے کہ ناسخ ومنسوخ کیا چیز ہوتی ہے؟ فرمانے لگے ناسخ ومنسوخ کا قرآن کی سمجھ سے کیا تعلق؟ میں تو ترجمہ پڑھ کر خود ہی قرآن سمجھ سکتا ہوں میں نے کہا بھائی سورہ بقرہ کی آیت نمبر ۲۳۴ سے لیکر ۲۴۰ تک چھ سات آیتوں کا ترجمہ پڑھ کر آؤ ہاں مگر یہ شرط یہ ہیکہ سمجھ کر پڑھنا اور پھر مجھے یہ سمجھادو آیت نمبر ۲۳۴ میں اللہ تعالی نے فرمایا ہیکہ بیوہ کی عدت چار مہینہ دس دن ہے’ جبکہ آیت نمبر ۲۴۰ میں فرماتے ہیں کہ بیوہ کی عدت ایک سال ہے۔ اب مجھےسمجھاؤ کونسی بات صحیح ہے کونسی غلط؟ اگر دونوں صحیح تو یہ بات عقل کے خلاف اگر ایک صحیح تو دوسری آیت بھی تو قرآن کی ہے؟ تو کیا پھر اسے جھٹلاؤگے؟
ظاہر ہیکہ انہیں بات سمجھ میں آگئی کہ قرآن وحدیث کسی استاد سے پڑھنے کے بعد ہی اسکا صحیح معنی ومفہوم سمجھا جاسکتا ہے۔ وگرنہ تو وہی حالت ہوگی جو غلام پرویز اور مودودی صاحب وغیرہ نے کی ہے۔
بالکل اسی طرح حدیث کا سمجھنا کسی عامی کے بس کی بات نہیں کیونکہ اگر بالفرض حدیث صحیح ہو اور امام مسلم نے آپنی کتاب میں اسکی تخریج بھی کی ہو’ مگر اس سے بھی یہ لازم نہیں آتا کہ اس پر عمل ضروری ہے جب تک حدیث پر عمل کرنے کے تمام قواعد اس شخص کو نہ معلوم ہوں
ملاحظہ فرمائیے صحیح مسلم کی حدیث ہے
حضرت عبد اللہ بن عباس رضی اللہ عنہما سے مروی ہیکہ اللہ تعالی نے حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی زبانی مسافر پر دو رکعت مقیم پر چار رکعت اور حالت خوف میں ایک رکعت نماز فرض کی ہے صحیح مسلم باب صلاۃ المسافرین وقصرہا۔
اب فرمائیے کہ حالت خوف میں کیا ایک رکعت نماز پڑھی جاتی ہے؟ ظاہر ہر منصف شخص کا جواب نفی میں ہوگا پھر تو کیا ہم تمام مسلمان اس حدیث کی مخالفت کررہے ہیں؟ اور اہل حدیث بھی آج تک اس حدیث کی مخالفت کرتے رہے۔
ظاہر ہیکہ اسکا جواب نفی میں ہوگا اور ہر عالم یہی کہے گا کہ حدیث پر عمل کرنے بہت سے ضوابط ہیں جنکو خطیب بغدادی اور ابن الصلاح نے تقریبا پینسٹھ قسموں میں تقسیم کردیا ہے اب ان تمام قسموں کے استعمال کے بعد ہی آپ یہ جان سکتے ہیں اس حدیث کو تمام مسلمانوں نے کیوں چھوڑدیا؟ اور یہ کسی عام آدمی کے بس کی بات نہیں۔
اب کیا آپ عامی سے بھی فرمائینگے کہ تقلید کو چھوڑو اور اجتہاد کرو اور علم حدیث کا حاصل کرنا ہر مسلمان پر فرض ہے ؟ یا آپ اسے دو لفظوں میں جواب دیکر مطمئن فرمادینگے چاہے آپ حنفی ہوں یا سلفی شافعی یا غیر مقلد مالکی یا اہلحدیث حنبلی یا ظاہری؟ یہی تقلید کی حقیقت ہے جو ان صفحات میں بیان فرمائی گئیں ہیں۔
اور ایسے شخص کہ حق میں تقلید شخصی فرض ہے یعنی اسکے لئے یہ جائز نہیں کہ دس علماء کرام سے فتوی پوچھنے کے بعد جہاں آسانی نظر آئے اس فتوی پر عمل کرے۔ بلکہ اسکے ذمہ واجب ہے کہ ایک شخص کو تھام لے اور اسی کی بات پر عمل کرتا رہے۔
امید ہیکہ تعصب کی عینک اتار کر یہ مضمون پڑھا جائیگا اور پھر میری غلطیوں پر حقیقت پسندی سے مطلع فرمائینگے