- شمولیت
- اپریل 14، 2011
- پیغامات
- 8,771
- ری ایکشن اسکور
- 8,497
- پوائنٹ
- 964
سنت رسول صلی اللہ علیہ وسلم کوئی آپشن نہیں ہے کہ آپ جب چاہیں اسے استعمال کریں ، اور جب چاہیں چھوڑ دیں ۔نہ تو میں احادیث رسولﷺکا منکر ہوں اور نہ فقہ کا ۔ لیکن ان آپشز کو اس وقت استعمال کرنا چاہیے جب ہمیں قرآ ن کوئی ہدایت نہیں مل رہی ہو۔
جب تمام مفسرین اور خود احادیث رسول صلی اللہ علیہ وسلم سے یہ بات روز روشن کی طرح عیاں ہے کہ طلاقیں تین ہیں ، پھر آپ کا اس سے انحراف اسی وجہ سے ہے کہ آپ نے قرآن مجید کی تشریح و تفسیر کے لیے سنت رسول صلی اللہ علیہ وسلم کو آپشنلی سمجھ لیا ہے ، حالانکہ یہ ضروری ہے ، اور خود قرآن کے الفاظ میں ہی ضروری ہے ، و ما کان لمؤمن و لا مؤمنۃ إذا قضی اللہ و رسولہ أمرا أن یکون لہم الخیرۃ من أمرہم۔ گویا قرآن مجید کا جو معنی حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے متعین کردیا ہے ، اس سے سرمو انحراف کرنا درست نہیں ۔اب تقریبًا تمام کے تمام مترجم اور مفسرین فَاِن طَلَّقَھَا کے ساتھ تیسری بار طلاق کا لفظ لگا کر اس کا تعلق اَلطَّلَاقُ مَرَّتٰن کے ساتھ زبر دستی جوڑ کر تیسری طلاق کا جواز تلاش کر لیتے ہیں۔
آپ جیسے حضرات کو یہ غلط فہمی ہوجاتی ہے کہ شاید دین ابھی کبھی نازل ہورہا ہے ، اور ہماری خواہشات کے مطابق نازل ہورہا ہے ، لہذا جیسے خواہش کریں گے ، ویسے ہی ہوگا ۔ دینی مسائل کو اس انداز سے سوچنے کایہ انداز ہی غلط ہے ۔پہلی بات تو یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے ”رجعی“ اور”تیسری بار“ کے الفاظ یا ان کے متبادل الفاظ قرآن پاک میں استعمال ہی نہیں کئے۔یہ خالی جگہ پر کرنے والی بات ہے اور اگریہ خالی جگہیں ہی پرکرنی تھیں تاکہ وضاحت ہو جائے، تو پہلی صورت میں وضاحت اس کی کرنا چاہیے تھی کہ دو بار سے مراد کیا ہے نہ کہ طلاق کی قسمیں گنوانا شروع کردو(رجعی طلاق کی ایک قسم ہے، یہ دوبار طلاق کی وضاحت نہیں ہے، کیونکہ طلاق تو ایک ہی ہے وہ دوبار دینے کا مطلب کیا ہے اس کی وضاحت دینی چاہیے تھی)۔ دوسری صورت میں وضاحت اس چیز کی ضروری تھی کہ کس نے کس کو طلاق دی، نہ کہ اسے تیسری بار کہہ اسے تیسری طلاق بنادیا جائے۔
’ایسے ہونا چاہیے تھا ، ویسے ہونا چاہیے تھا ‘ کی بجائے ’ قرآن وسنت اور فہم سلف کے مطابق جو جیسے ثابت ہوگیا ہے ‘ اسے ویسے ہی ماننا دین اور اسلام یعنی سر تسلیم خم کرنا ہے ۔
آپ نے جتنی بھی باتیں کہی ہیں ، ان کے غلط ہونے کے لیے اتنا ہی کافی ہے کہ اس میں قرآن مجید کا عملی نمونہ سنت اور جن پر سب سے پہلے قرآن نازل ہوا تھا ، ان کے طلاق لینے اور دینے کی عملی مثالیں ، اس کے خلاف ہیں۔
دوبارہ گزارش کروں گا، کہ اگر دین ابھی کل ہی نازل ہوا ہوتا تو آپ کی اس ذہنی کد و کاوش کو واقعتا دیکھا جاسکتا تھا ، لیکن جب دین چودہ صدیاں پہلے نازل ہو کر ، اس کے مسائل و احکامات پریکٹس کی شکل میں ہمارے لیے محفوظ ہوچکے ہیں ، تو اب انہیں مسائل میں چودھویں صدی کے کسی انسان کی سنت رسول یا صحابہ کے متفقہ عمل کے خلاف رائے ایک پیسے کی حیثیت نہیں رکھتی ۔
اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ و سلم کی مسجد کا حدود اربعہ کیا ہوگا ؟ کتنی لمبی ہوگی ، جتنی چوڑی ہوگی ؟ کتنی صفیں ہوں گی ؟
اگر کوئی مجھے آکر بتادے کہ ایسی ہے تو پھر مجھے عقلی گھوڑے دوڑانے کی کوئی ضرورت نہیں ۔
باقی رہی یہ بات کے بعض مسائل میں علماء کا اختلاف رائے ہے ، تو اس میں دلائل کے مطابق ترجیح دینے کی کوشش کرنی چاہیے ، لیکن صرف اختلاف کا بہانہ بناکر ایک اور نئی رائے نکال لینا ، یا ایسے مسائل میں بھی جن میں کبھی اختلاف رہا ہی نہیں ، انہیں بھی مختلف فیہ بنانے کی کوشش کرنا ، یہ قطعا درست نہیں ۔