- شمولیت
- اپریل 14، 2011
- پیغامات
- 8,771
- ری ایکشن اسکور
- 8,497
- پوائنٹ
- 964
اس فہم کے غلط ہونے کے لیے اتنا کافی نہیں کہ یہ احادیث رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے خلاف ہے ، قرآن مجید کے مفسر اول محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی تفسیر کے خلاف ہے ؟میرا خیال ہے کہ جس طرح محترم رانا محمد عاشق صاحب نے اپنی فہم کے مطابق قرآنی آیات کے ذریعے فقط دو طلاقوں کا مشروع ہونا بتلایا ہے اس کا رد بھی قرآنی آیات کے ذریعے ہو جائے تو بہت بہتر ہوگا تاکہ موصوف کے نقطۂ نظر کی کمزوری اور علمائے کرام ؒ کے تین طلاقوں کا مؤقف اوردلیل واضح ہو جائے۔ شکریہ !
اور پھر قرآن مجید سے رد کا مطالبہ تو یوں کیا جارہا ہے ، جیسے انہوں نے سب قرآن سے ثابت کیا ہے ، ذرا ملاحظہ فرمائیں :
اس اقتباس میں قرآنی آیات کے تراجم کرتے ہوئے ، اپنی طرف سے کتنی جگہ پر () کا اضافہ کیا گیا ہے ، بقول آپ کے کیا قرآن مجید ناکافی ہوگیا ہے ، کہ اس میں بین قوسین کی ضرورت پڑ گئی ہے ؟سورہ البقرہ کی آیت نمبر 230
الطّلاقُ مرّتٰن، فَاِمساکٌ بَاالمَعرُوفِ اَو تَسرِیحٌ بِاِحسَان، وَلَا یَحِلُّ لَکُم اَن تَأخُذُو مِمَّا اٰتَیتُمُو ھُنَّ شَیءًااِلَّا اَن یَّخَافَااَلَّا یُقِیمَا حُدُودَ اللّٰہ،
فَاِن خِفتُم اَلَّا یُقِیمَاحُدُودَ َاللّٰہِ، فَلَا جُنَاح عَلَیھِمَافِیمَا افتَدَت بِہٖ، تِلکَ حُدُودُ اللّٰہِ فَلَا تَعتَدُوھَاوَمَن یَّتَعَدَّحُدُودَاللّٰہِ فَاُلٰٓءِکَ ھُمُ الظّٰلِمُونَ
”فَاِن طَلَّقَھَا فَلَا تَحِلُّ لَہُ مِن بَعدُ حَتّٰی تَنکِحَ زَوجَ غَیرُہٗ، فَاِنطَلَّقَھَا فَلَا جُنَاح عَلَیھِمَا اَن یَّتَرَاجَعھَااِن ظَنَّا اَن یُّقِیمَا حُدُودَاللّٰہِ، وَ تِلکَ حُدُودُاللّٰہِ یُبَیِّنُھَا لَقَومٍ یَّعلَمُونَ“
طلاق دو بار ہے، پھر یا تو روک لینا ہے اچھے طریقے سے یا رخصت کرنا ہے احسان کے ساتھ،اور نہیں جائز تمہارے لئے یہ کہ واپس لو تم اس میں سے جو دے چکے ہو انہیں کچھ بھی مگر یہ کہ (میاں بیوی) دونوں ڈریں اس بات سے کہ نہ قائم رکھ سکیں گے اللہ کی (مقرر کردہ) حدیں
پھر اگر ڈر ہو تم لوگوں کو بھی اس بات کا کہ نہ قائم رکھ سکیں گے وہ دونوں اللہ کی حدوں کو تو نہیں ہے کچھ گناہ ان دونوں پر اس (معاوضہ) میں جو بطور فدیہ دے عورت، یہ ہیں اللہ کی (مقرر کردہ) حدیں سو نہ تجاوز کرنا تم ان سے اور جو کوئی تجاوز کرتا ہے اللہ کی(مقرر کردہ)حدوں سے تو ایسے ہی لوگ ظالم ہیں۔
پس اگراس (فدیہ لینے والے) مردنے اس (فدیہ دینے والی) عورت کو طلاق دے دی،تو پھر نہیں حلال ہوگی وہ عورت(جس نے فدیہ دے کر طلاق لی)اس مرد کے لئے(جس نے فدیہ لے کر طلاق دی)، جب تک کہ نہ نکاح کرے وہ کسی دوسرے مرد سے اس کے سوا، پھر اگر طلاق دے دے(دوسرا)خاوند، تو نہیں ہے کچھ گناہ ان دونوں پر اس بات میں کہ رجوع کر لیں ایک دوسرے کی طرف، بشرطیکہ وہ دونوں یہ خیال کریں کہ قائم رکھیں گے وہ اللہ کی مقرر کردہ حدوں کو، اور یہ اللہ کی حدیں ہیں جن کو وہ کھول کھول کر بیان کرتا ہے۔
اسی بین قوسین کو ہم احادیث رسول سے ثابت کریں ، تو وہ آپ کو قرآن سے رو گردانی محسوس ہوتی ہے ، جبکہ خود اپنی عقل کو قرآن مجید کی آیات کا ترجمہ بناکر پیش کرکے بھی آپ قرآن مجید پر ہی کاربند رہتے ہیں ۔
اللہ کے پاس نہ ذخیرہ الفاظ کی کمی تھی ، نہ قرآن مجید میں کہیں ابہام ہے ، البتہ اجمال و ایجاز قرآن مجید کی خصوصیت ہے ، اور اس اجمال و ایجاز کو سنت نبوی صلی اللہ علیہ وسلم نے کھول کر بیان کردیا ہے ۔ جو باتیں آپ کے بقول اللہ کے شایان شان نہیں ، سراسر اللہ پر جھوٹ کے مترادف ہیں ، وہ چودہ صدیوں سے اس دین کا حصہ ہیں ، خود جس پر قرآن مجید نازل ہوا ، اس کی سنت بھی اسی بات کی تائید کرتی ہے ، اب قرآن میں کون سی نئی آیت نازل ہوئی جس میں ان باتوں کو ’ جھوٹ اور بہتان ‘ قرار دیا گیا ہے ؟!دوسرے یہ کہ فَاِن طَلَّقَھَا کا تعلق اپنے ما قبل ملحقہ جملے فَلاَ جُنَاحَ عَلَیھِمَا فَیمَا افتَدَت بِہٖ کے ساتھ ہونا چاہیے۔ اس کا تعلق اس سے بھی پہلے جملے اَلطَّلَاقُ مَرَّتٰن کے ساتھ نہیں ہوسکتا۔ہاں اگر فَلاَ جُنَاحَ عَلَیھِمَا فَیمَا افتَدَت بِہٖ ایک جملہ معترضہ ہوتا تو پھر فَاِن طَلَّقَھَا کا تعلق اَلطَّلَاقُ مَرَّتٰن والے جملہ کے ساتھ بن سکتا تھا، لیکن فَلاَ جُنَاحَ عَلَیھِمَا فَیمَا افتَدَت بِہ با قاعدہ اپنی جگہ ایک حکم کا درجہ رکھتا ہے۔ اوراگر گرائمر کے لحاظ سے ہم یہ تعلق اَلطَّلَاقُ مَرَّتٰن والے جملے سے جوڑنا بھی چاہیں تو نہیں جوڑ سکتے۔ اَلطَّلَاقُ مَرَّتٰن والے جملے میں جمع حاضراور جمع غائب کی ضمیریں ہیں مثلًا وَ لَا یَحِلُّ لَکُم اَن تَأخُذُوا مِمَّا اٰتَیتُمُوھُنَّ میں لَکُم اوراٰتَیتُمُو جمع حاضر مذکر اور ھُنَّ جمع غائب موئنث کی ضمیریں ہیں۔ لیکن طَلَّقَھَا میں دونوں ضمیریں واحد غائب(مذکر اور موئنث) کی ہیں جن کا تعلق فَلاَ جُنَاحَ عَلَیھِمَا فَیمَا افتَدَت بِہٖ سے تو بنتا ہے، اَلطَّلَاقُ مَرَّتٰن والے جملے میں وَ لَا یَحِلُّ لَکُم اَن تَأخُذُوا مِمَّا اٰتَیتُمُوھُنَّ سے ہرگز نہیں بنتا۔ان سے تعلق تب بن سکتا تھا جب فَاِن طَلَّقَھَا کی بجائے فَاِن طَلَقتُموھُنَّ ثَلٰثَۃَ مَرّٰت ہوتا۔یعنی پھراگرتم ان کو تیسری بار طلاق دو۔ یا پھر کم از کم فَاِن طَلَّقَھَا ثَلٰثَۃَ مَرّٰت:یعنی پھر اگر اس نے عورت کو تیسری بارطلاق دی۔ کیا اللہ تعالیٰ کے ہاں نعوذ باللہ کوئی ذخیرہ الفاظ (Vocabulary)کی کمی تھی یا پھر یوں کہیں کہ اللہ تعالیٰ نے جان بوجھ کر ابہام چھوڑا۔ایسا کہنا خاص طور پر اتنے اہم موضوع پر توکسی صورت بھی اللہ تعالیٰ کے شایان شان نہیں ہے بلکہ یہ تو سراسر اللہ تعالیٰ پر بہتان کے مترادف ہوگا۔
قرآن کی من مانی اردو ترکیبیں بیان کر رہے ہیں ، حالانکہ ایک لفظ عربی میں آپ کو اضافی لکھنا پڑا ہے ، وہ بھی غلط لکھا ہے ’ ثلثۃ مرات ‘ قرآنی آیات و الفاظ کے پر یوں ہاتھ صاف کرتے ہوئے ذرا اللہ کا خوف اور شرم کرنی چاہیے ۔
چودہ سو سال امت قرآن کی ان آیات اور ساتھ ان کی نبوی تشریح پر قائم و دائم ہے ، اب نام نہاد ’ اہل قرآن ‘ آکر ایک نئی ’ جاہلیت ‘ کو متعارف کروانے جارہے ہیں کہ قرآن کو کسی تشریح کی ضرورت نہیں ، ہر کوئی اپنی مرضی سے اس کے الفاظ کے ساتھ کھیل سکتا ہے ۔اگر ہم غور سے دیکھیں تو طلاق کی جملہ آیات پانچ سورتوں میں بکھرے ہوئے موتیوں کی طرح سے لگتی ہیں۔ان میں کہیں بھی کسی طرح کا بھی چھوٹا سا تضاد بھی نہیں ہے۔اور ان موتیوں میں چھوٹی سے چھوٹی بات بھی پوری تفصیل کے ساتھ بیان کر دی گئی ہے، حتٰی کہ یہ تک بھی بتا دیا گیا ہے کہ طلاق کے بعد بچے کو دودھ پلوانے کی ذمہ داری کس کی ہے، اور کن حالات میں کتنی ہے۔ جو اللہ طلاق کے مسائل کو اتنی تفصیل سے بیان کر رہا ہے، کیا تین طلاق کے اتنے بڑے مسئلے کو نظر انداز کرسکتاتھا۔ اگر تین طلاقیں ہوتیں تو اللہ تعالیٰ ضرور قرآن پاک میں کہیں نہ کہیں ان کا ذکرصریح الفاظ میں کرتے۔ لیکن اس نے تو تین طلاق کی یہ کہہ کر جڑ ہی کاٹ دی کہ طلاق تو ہے ہی دو بار۔چاہے ہزار بار بھی منہ سے طلاق طلاق کا لفظ نکالیں، وہ دوہی شمار ہونگی۔ دو سے زیادہ بار طلاق دینا ایک بے معنی چیز قرار دے دی گئی۔اور یہ بات اللہتعالیٰ نے آج سے چودہ سو سال پہلے قرآن مجید بیان کردی۔ لیکن ہم ہیں کہ ہماری کِلّی ابھی تک دور جاہلیت کی طرح تین طلاقوں پر ہی اڑی ہوئی ہے۔ہم اس سے باہر آکر سوچتے ہی نہیں۔
تراجم والوں نے بین قوسین جس بنیاد پر بنائے ہیں ، ان کا ذکر تو ہم کر چکے ، لیکن آپ کا بین قوسین کہاں سے آگیا ؟ہمارے فقہا کے ہاں طلاق کے بارے کافی اختلاف پایا جاتاہے، کچھ بیک وقت ایک ہی نشست میں تین طلاق کے قائل نظر آتے ہیں اور کچھ ایسی تین طلاقوں کو ایک ہی طلاق گردانتے ہیں۔ بہر حال تین طلا ق کے سب قائل ہیں۔لیکن قرآن کریم میں تین طلاقوں کا ذکر کہیں نہیں اورجس طریقے سے یہ تین طلاقیں بنائی گئی ہیں وہ طریقہ اوپر بیان کردیا گیا ہے۔اور طرفہ تماشہ یہ کہ آپ کو تقریبًاقرآن پاک کے سارے ہی موجودہ اردوتراجم میں ”رجعی“ اور ”تیسری بار“ کے الفاظ قوسین میں لکھے ہوئے ملیں گے اور اور انگریزی تراجم میں ان کے انگریزی متبادل الفاظ۔ عام قاری جب ان تراجم کو پڑھتا ہے تو اس کے ذہن میں تین طلاق کا تصور اتنا راسخ ہو جاتا ہے کہ وہ انکی مزید توضیح سننے کے لئے تیار ہی نہیں ہوتا۔گویا تین طلاق کا بھوت ہمارے سر پر ہروقت سوار رہتا ہے، اترنے کا نام ہی نہیں لیتا۔
اگر قرآن مجید کافی ہے تو پھر آپ کو ’ بین قوسین ‘ کا محتاج کیوں ہے ؟ اور اگر قرآن کی وضاحت کے لیے کسی ’ بین قوسین ‘ کی ضرورت ہے تو پھر خیر القرون کے ’ بین قوسین ‘ ہٹاکر چودھویں صدی والے نئے ماڈلز کا اضافہ قرآن کی کس آیت کی بنیاد پر ہے ؟!