• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

برطانیہ میں ’حلالہ‘ کا آن لائن بزنس

خضر حیات

علمی نگران
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 14، 2011
پیغامات
8,771
ری ایکشن اسکور
8,497
پوائنٹ
964
میرا خیال ہے کہ جس طرح محترم رانا محمد عاشق صاحب نے اپنی فہم کے مطابق قرآنی آیات کے ذریعے فقط دو طلاقوں کا مشروع ہونا بتلایا ہے اس کا رد بھی قرآنی آیات کے ذریعے ہو جائے تو بہت بہتر ہوگا تاکہ موصوف کے نقطۂ نظر کی کمزوری اور علمائے کرام ؒ کے تین طلاقوں کا مؤقف اوردلیل واضح ہو جائے۔ شکریہ !
اس فہم کے غلط ہونے کے لیے اتنا کافی نہیں کہ یہ احادیث رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے خلاف ہے ، قرآن مجید کے مفسر اول محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی تفسیر کے خلاف ہے ؟
اور پھر قرآن مجید سے رد کا مطالبہ تو یوں کیا جارہا ہے ، جیسے انہوں نے سب قرآن سے ثابت کیا ہے ، ذرا ملاحظہ فرمائیں :

سورہ البقرہ کی آیت نمبر 230
الطّلاقُ مرّتٰن، فَاِمساکٌ بَاالمَعرُوفِ اَو تَسرِیحٌ بِاِحسَان، وَلَا یَحِلُّ لَکُم اَن تَأخُذُو مِمَّا اٰتَیتُمُو ھُنَّ شَیءًااِلَّا اَن یَّخَافَااَلَّا یُقِیمَا حُدُودَ اللّٰہ،

فَاِن خِفتُم اَلَّا یُقِیمَاحُدُودَ َاللّٰہِ، فَلَا جُنَاح عَلَیھِمَافِیمَا افتَدَت بِہٖ، تِلکَ حُدُودُ اللّٰہِ فَلَا تَعتَدُوھَاوَمَن یَّتَعَدَّحُدُودَاللّٰہِ فَاُلٰٓءِکَ ھُمُ الظّٰلِمُونَ

”فَاِن
طَلَّقَھَا فَلَا تَحِلُّ لَہُ مِن بَعدُ حَتّٰی تَنکِحَ زَوجَ غَیرُہٗ، فَاِنطَلَّقَھَا فَلَا جُنَاح عَلَیھِمَا اَن یَّتَرَاجَعھَااِن ظَنَّا اَن یُّقِیمَا حُدُودَاللّٰہِ، وَ تِلکَ حُدُودُاللّٰہِ یُبَیِّنُھَا لَقَومٍ یَّعلَمُونَ“

طلاق دو بار ہے، پھر یا تو روک لینا ہے اچھے طریقے سے یا رخصت کرنا ہے احسان کے ساتھ،اور نہیں جائز تمہارے لئے یہ کہ واپس لو تم اس میں سے جو دے چکے ہو انہیں کچھ بھی مگر یہ کہ (میاں بیوی) دونوں ڈریں اس بات سے کہ نہ قائم رکھ سکیں گے اللہ کی (مقرر کردہ) حدیں

پھر اگر ڈر ہو تم لوگوں کو بھی اس بات کا کہ نہ قائم رکھ سکیں گے وہ دونوں اللہ کی حدوں کو تو نہیں ہے کچھ گناہ ان دونوں پر اس (معاوضہ) میں جو بطور فدیہ دے عورت، یہ ہیں اللہ کی (مقرر کردہ) حدیں سو نہ تجاوز کرنا تم ان سے اور جو کوئی تجاوز کرتا ہے اللہ کی(مقرر کردہ)حدوں سے تو ایسے ہی لوگ ظالم ہیں۔

پس اگراس
(فدیہ لینے والے) مردنے اس (فدیہ دینے والی) عورت کو طلاق دے دی،تو پھر نہیں حلال ہوگی وہ عورت(جس نے فدیہ دے کر طلاق لی)اس مرد کے لئے(جس نے فدیہ لے کر طلاق دی)، جب تک کہ نہ نکاح کرے وہ کسی دوسرے مرد سے اس کے سوا، پھر اگر طلاق دے دے(دوسرا)خاوند، تو نہیں ہے کچھ گناہ ان دونوں پر اس بات میں کہ رجوع کر لیں ایک دوسرے کی طرف، بشرطیکہ وہ دونوں یہ خیال کریں کہ قائم رکھیں گے وہ اللہ کی مقرر کردہ حدوں کو، اور یہ اللہ کی حدیں ہیں جن کو وہ کھول کھول کر بیان کرتا ہے۔
اس اقتباس میں قرآنی آیات کے تراجم کرتے ہوئے ، اپنی طرف سے کتنی جگہ پر () کا اضافہ کیا گیا ہے ، بقول آپ کے کیا قرآن مجید ناکافی ہوگیا ہے ، کہ اس میں بین قوسین کی ضرورت پڑ گئی ہے ؟
اسی بین قوسین کو ہم احادیث رسول سے ثابت کریں ، تو وہ آپ کو قرآن سے رو گردانی محسوس ہوتی ہے ، جبکہ خود اپنی عقل کو قرآن مجید کی آیات کا ترجمہ بناکر پیش کرکے بھی آپ قرآن مجید پر ہی کاربند رہتے ہیں ۔
دوسرے یہ کہ فَاِن طَلَّقَھَا کا تعلق اپنے ما قبل ملحقہ جملے فَلاَ جُنَاحَ عَلَیھِمَا فَیمَا افتَدَت بِہٖ کے ساتھ ہونا چاہیے۔ اس کا تعلق اس سے بھی پہلے جملے اَلطَّلَاقُ مَرَّتٰن کے ساتھ نہیں ہوسکتا۔ہاں اگر فَلاَ جُنَاحَ عَلَیھِمَا فَیمَا افتَدَت بِہٖ ایک جملہ معترضہ ہوتا تو پھر فَاِن طَلَّقَھَا کا تعلق اَلطَّلَاقُ مَرَّتٰن والے جملہ کے ساتھ بن سکتا تھا، لیکن فَلاَ جُنَاحَ عَلَیھِمَا فَیمَا افتَدَت بِہ با قاعدہ اپنی جگہ ایک حکم کا درجہ رکھتا ہے۔ اوراگر گرائمر کے لحاظ سے ہم یہ تعلق اَلطَّلَاقُ مَرَّتٰن والے جملے سے جوڑنا بھی چاہیں تو نہیں جوڑ سکتے۔ اَلطَّلَاقُ مَرَّتٰن والے جملے میں جمع حاضراور جمع غائب کی ضمیریں ہیں مثلًا وَ لَا یَحِلُّ لَکُم اَن تَأخُذُوا مِمَّا اٰتَیتُمُوھُنَّ میں لَکُم اوراٰتَیتُمُو جمع حاضر مذکر اور ھُنَّ جمع غائب موئنث کی ضمیریں ہیں۔ لیکن طَلَّقَھَا میں دونوں ضمیریں واحد غائب(مذکر اور موئنث) کی ہیں جن کا تعلق فَلاَ جُنَاحَ عَلَیھِمَا فَیمَا افتَدَت بِہٖ سے تو بنتا ہے، اَلطَّلَاقُ مَرَّتٰن والے جملے میں وَ لَا یَحِلُّ لَکُم اَن تَأخُذُوا مِمَّا اٰتَیتُمُوھُنَّ سے ہرگز نہیں بنتا۔ان سے تعلق تب بن سکتا تھا جب فَاِن طَلَّقَھَا کی بجائے فَاِن طَلَقتُموھُنَّ ثَلٰثَۃَ مَرّٰت ہوتا۔یعنی پھراگرتم ان کو تیسری بار طلاق دو۔ یا پھر کم از کم فَاِن طَلَّقَھَا ثَلٰثَۃَ مَرّٰت:یعنی پھر اگر اس نے عورت کو تیسری بارطلاق دی۔ کیا اللہ تعالیٰ کے ہاں نعوذ باللہ کوئی ذخیرہ الفاظ (Vocabulary)کی کمی تھی یا پھر یوں کہیں کہ اللہ تعالیٰ نے جان بوجھ کر ابہام چھوڑا۔ایسا کہنا خاص طور پر اتنے اہم موضوع پر توکسی صورت بھی اللہ تعالیٰ کے شایان شان نہیں ہے بلکہ یہ تو سراسر اللہ تعالیٰ پر بہتان کے مترادف ہوگا۔
اللہ کے پاس نہ ذخیرہ الفاظ کی کمی تھی ، نہ قرآن مجید میں کہیں ابہام ہے ، البتہ اجمال و ایجاز قرآن مجید کی خصوصیت ہے ، اور اس اجمال و ایجاز کو سنت نبوی صلی اللہ علیہ وسلم نے کھول کر بیان کردیا ہے ۔ جو باتیں آپ کے بقول اللہ کے شایان شان نہیں ، سراسر اللہ پر جھوٹ کے مترادف ہیں ، وہ چودہ صدیوں سے اس دین کا حصہ ہیں ، خود جس پر قرآن مجید نازل ہوا ، اس کی سنت بھی اسی بات کی تائید کرتی ہے ، اب قرآن میں کون سی نئی آیت نازل ہوئی جس میں ان باتوں کو ’ جھوٹ اور بہتان ‘ قرار دیا گیا ہے ؟!
قرآن کی من مانی اردو ترکیبیں بیان کر رہے ہیں ، حالانکہ ایک لفظ عربی میں آپ کو اضافی لکھنا پڑا ہے ، وہ بھی غلط لکھا ہے ’ ثلثۃ مرات ‘ قرآنی آیات و الفاظ کے پر یوں ہاتھ صاف کرتے ہوئے ذرا اللہ کا خوف اور شرم کرنی چاہیے ۔
اگر ہم غور سے دیکھیں تو طلاق کی جملہ آیات پانچ سورتوں میں بکھرے ہوئے موتیوں کی طرح سے لگتی ہیں۔ان میں کہیں بھی کسی طرح کا بھی چھوٹا سا تضاد بھی نہیں ہے۔اور ان موتیوں میں چھوٹی سے چھوٹی بات بھی پوری تفصیل کے ساتھ بیان کر دی گئی ہے، حتٰی کہ یہ تک بھی بتا دیا گیا ہے کہ طلاق کے بعد بچے کو دودھ پلوانے کی ذمہ داری کس کی ہے، اور کن حالات میں کتنی ہے۔ جو اللہ طلاق کے مسائل کو اتنی تفصیل سے بیان کر رہا ہے، کیا تین طلاق کے اتنے بڑے مسئلے کو نظر انداز کرسکتاتھا۔ اگر تین طلاقیں ہوتیں تو اللہ تعالیٰ ضرور قرآن پاک میں کہیں نہ کہیں ان کا ذکرصریح الفاظ میں کرتے۔ لیکن اس نے تو تین طلاق کی یہ کہہ کر جڑ ہی کاٹ دی کہ طلاق تو ہے ہی دو بار۔چاہے ہزار بار بھی منہ سے طلاق طلاق کا لفظ نکالیں، وہ دوہی شمار ہونگی۔ دو سے زیادہ بار طلاق دینا ایک بے معنی چیز قرار دے دی گئی۔اور یہ بات اللہتعالیٰ نے آج سے چودہ سو سال پہلے قرآن مجید بیان کردی۔ لیکن ہم ہیں کہ ہماری کِلّی ابھی تک دور جاہلیت کی طرح تین طلاقوں پر ہی اڑی ہوئی ہے۔ہم اس سے باہر آکر سوچتے ہی نہیں۔
چودہ سو سال امت قرآن کی ان آیات اور ساتھ ان کی نبوی تشریح پر قائم و دائم ہے ، اب نام نہاد ’ اہل قرآن ‘ آکر ایک نئی ’ جاہلیت ‘ کو متعارف کروانے جارہے ہیں کہ قرآن کو کسی تشریح کی ضرورت نہیں ، ہر کوئی اپنی مرضی سے اس کے الفاظ کے ساتھ کھیل سکتا ہے ۔
ہمارے فقہا کے ہاں طلاق کے بارے کافی اختلاف پایا جاتاہے، کچھ بیک وقت ایک ہی نشست میں تین طلاق کے قائل نظر آتے ہیں اور کچھ ایسی تین طلاقوں کو ایک ہی طلاق گردانتے ہیں۔ بہر حال تین طلا ق کے سب قائل ہیں۔لیکن قرآن کریم میں تین طلاقوں کا ذکر کہیں نہیں اورجس طریقے سے یہ تین طلاقیں بنائی گئی ہیں وہ طریقہ اوپر بیان کردیا گیا ہے۔اور طرفہ تماشہ یہ کہ آپ کو تقریبًاقرآن پاک کے سارے ہی موجودہ اردوتراجم میں ”رجعی“ اور ”تیسری بار“ کے الفاظ قوسین میں لکھے ہوئے ملیں گے اور اور انگریزی تراجم میں ان کے انگریزی متبادل الفاظ۔ عام قاری جب ان تراجم کو پڑھتا ہے تو اس کے ذہن میں تین طلاق کا تصور اتنا راسخ ہو جاتا ہے کہ وہ انکی مزید توضیح سننے کے لئے تیار ہی نہیں ہوتا۔گویا تین طلاق کا بھوت ہمارے سر پر ہروقت سوار رہتا ہے، اترنے کا نام ہی نہیں لیتا۔
تراجم والوں نے بین قوسین جس بنیاد پر بنائے ہیں ، ان کا ذکر تو ہم کر چکے ، لیکن آپ کا بین قوسین کہاں سے آگیا ؟
اگر قرآن مجید کافی ہے تو پھر آپ کو ’ بین قوسین ‘ کا محتاج کیوں ہے ؟ اور اگر قرآن کی وضاحت کے لیے کسی ’ بین قوسین ‘ کی ضرورت ہے تو پھر خیر القرون کے ’ بین قوسین ‘ ہٹاکر چودھویں صدی والے نئے ماڈلز کا اضافہ قرآن کی کس آیت کی بنیاد پر ہے ؟!
 
شمولیت
مئی 09، 2017
پیغامات
29
ری ایکشن اسکور
2
پوائنٹ
10
سنت رسول صلی اللہ علیہ وسلم کوئی آپشن نہیں ہے کہ آپ جب چاہیں اسے استعمال کریں ، اور جب چاہیں چھوڑ دیں ۔

جب تمام مفسرین اور خود احادیث رسول صلی اللہ علیہ وسلم سے یہ بات روز روشن کی طرح عیاں ہے کہ طلاقیں تین ہیں ، پھر آپ کا اس سے انحراف اسی وجہ سے ہے کہ آپ نے قرآن مجید کی تشریح و تفسیر کے لیے سنت رسول صلی اللہ علیہ وسلم کو آپشنلی سمجھ لیا ہے ، حالانکہ یہ ضروری ہے ، اور خود قرآن کے الفاظ میں ہی ضروری ہے ، و ما کان لمؤمن و لا مؤمنۃ إذا قضی اللہ و رسولہ أمرا أن یکون لہم الخیرۃ من أمرہم۔ گویا قرآن مجید کا جو معنی حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے متعین کردیا ہے ، اس سے سرمو انحراف کرنا درست نہیں ۔

آپ جیسے حضرات کو یہ غلط فہمی ہوجاتی ہے کہ شاید دین ابھی کبھی نازل ہورہا ہے ، اور ہماری خواہشات کے مطابق نازل ہورہا ہے ، لہذا جیسے خواہش کریں گے ، ویسے ہی ہوگا ۔ دینی مسائل کو اس انداز سے سوچنے کایہ انداز ہی غلط ہے ۔
’ایسے ہونا چاہیے تھا ، ویسے ہونا چاہیے تھا ‘ کی بجائے ’ قرآن وسنت اور فہم سلف کے مطابق جو جیسے ثابت ہوگیا ہے ‘ اسے ویسے ہی ماننا دین اور اسلام یعنی سر تسلیم خم کرنا ہے ۔
آپ نے جتنی بھی باتیں کہی ہیں ، ان کے غلط ہونے کے لیے اتنا ہی کافی ہے کہ اس میں قرآن مجید کا عملی نمونہ سنت اور جن پر سب سے پہلے قرآن نازل ہوا تھا ، ان کے طلاق لینے اور دینے کی عملی مثالیں ، اس کے خلاف ہیں۔
دوبارہ گزارش کروں گا، کہ اگر دین ابھی کل ہی نازل ہوا ہوتا تو آپ کی اس ذہنی کد و کاوش کو واقعتا دیکھا جاسکتا تھا ، لیکن جب دین چودہ صدیاں پہلے نازل ہو کر ، اس کے مسائل و احکامات پریکٹس کی شکل میں ہمارے لیے محفوظ ہوچکے ہیں ، تو اب انہیں مسائل میں چودھویں صدی کے کسی انسان کی سنت رسول یا صحابہ کے متفقہ عمل کے خلاف رائے ایک پیسے کی حیثیت نہیں رکھتی ۔
اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ و سلم کی مسجد کا حدود اربعہ کیا ہوگا ؟ کتنی لمبی ہوگی ، جتنی چوڑی ہوگی ؟ کتنی صفیں ہوں گی ؟
اگر کوئی مجھے آکر بتادے کہ ایسی ہے تو پھر مجھے عقلی گھوڑے دوڑانے کی کوئی ضرورت نہیں ۔
باقی رہی یہ بات کے بعض مسائل میں علماء کا اختلاف رائے ہے ، تو اس میں دلائل کے مطابق ترجیح دینے کی کوشش کرنی چاہیے ، لیکن صرف اختلاف کا بہانہ بناکر ایک اور نئی رائے نکال لینا ، یا ایسے مسائل میں بھی جن میں کبھی اختلاف رہا ہی نہیں ، انہیں بھی مختلف فیہ بنانے کی کوشش کرنا ، یہ قطعا درست نہیں ۔
پہلی بات تو یہ ہے کہ میں نے سنت رسول کی بات کی ہی نہیں۔ حدیث اور سنت کو خلط ملط کرنا مناسب نہین ہے۔
دوسری بات حضرت معاذ بن جبل کی روایت سے یہ ثابت ہے کہ پہلے مسئلہ کو قرآن میں تلاش کرو، وہاں مل جائے تو ٹھیک اگر نہ ملے تو حدیث رسول میں تلاش کرو اگر وہاں بھی نہ ملے تو تفقہ کرو اور دوسروں کے تفقہ سے بھی فائدہ اٹھاؤ یہ ترتیب میری مقرر کردہ نہیں ہے بلکہ حضرت محمدﷺ کی ہے۔ایک اور بھی حدیث ہے ”تکثرلکم الاحادیث بعدی فما روی لکم حدیث عنی فاعرضوہ علٰی کتابُ اللہ فما وافقوہ فاقبلوہ وما خالفوہ فردوہ“ یعنی میرے بعد حدیثوں کی بڑی کثرت ہوگی، اس لئے جو قول میری طرف منصوب کر کے تمہارے سامنے ر وایت کیا جائے اُس کو کتابُ اللہ کے سامنے پیش کرو، جو اُس کے موافق ہو اُس کو قبول کر و ‘ جو کتابُ اللہ کے خلاف ہو اس کو رد کر دو۔ اس کے بارے میں آپکا کیا خیال ہے۔ اس حدیث کے مطابق جب قرآن میں تین طلاق کا ذکر نہیں ہے تو صحیح حدیث میں کیسے ہو سکتا ہے۔ پہلے ثابت کرو قرآن میں تین طلاق ہیں تو ہم حدیث کو ضرور مانیں گے۔
تیسری بات یہ کہ آپ نے جو آیت لکھی ہے اس سے یہ کب معلوم ہوتا ہے کہ

قرآن مجید کا جو معنی حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے متعین کردیا ہے ، اس سے سرمو انحراف کرنا درست نہیں ۔وہاں تو اللہ اور اسکے رسول کا حکم ماننے کا کہا جاررہا ہے۔ لیکن میں پھر بھی مانتا ہوں کہ یہ بالکل ٹھیک ہے،لیکن یہ ہمیں کون بتائے گا کہ حضور نے کون سے معنی متعین کئے تھے۔ جو اس بارے میں احادیث ملتی ہیں ان میں زمین آسمان کا فرق ہے۔ پھر میں کون سے معنی لوں۔
چوتھی بات یہ کہ میں نے کب کہا ہے کہ قرآن پاک اب نازل ہورہا ہے۔لیکن اگر کسی نے پہلے کسی آیت کے غلط معنی لے لئے تو لازمی نہیں پھر اندھے مقلد بن کر اس کے پیچھے ہی لگے رہیں۔ ہمیں ہر وقت اصلاح کے لئے تیار رہنا چاہیے۔
پانچوی بات یہ کہ ایسے ہونا چاہیے تھا ، ویسے ہونا چاہیے تھا کہنے کی بجائے کوئی فنی خرابی بتائیں جو میں نے گرائمر کے اصولوں کی خلاف ورزی کی۔
چھٹی بات یہ کہ آپ نے جو یہ کہا"آپ نے جتنی بھی باتیں کہی ہیں ، ان کے غلط ہونے کے لیے اتنا ہی کافی ہے کہ اس میں قرآن مجید کا عملی نمونہ سنت اور جن پر سب سے پہلے قرآن نازل ہوا تھا ، ان کے طلاق لینے اور دینے کی عملی مثالیں ، اس کے خلاف ہیں" ان کا جواب پہلے دے چکا۔
باقی باتوں کا جواب میں نے دے دیا وہی کافی ہے ۔ولسلام بھائی دلیل سے بات کرتے ہیں غصہ کرنے کی ضرورت نہیں ہوتی ہر ایک کی فہم برابر نہیں ہوتی۔ ہوسکتا ہے آپ کی فہم مجھ سے زیادہ ہو۔
اللہ نے حکم دیا ہے میری آیات میں تدبر کرو۔اور یہ حکم سب کے لئے ہے۔ سو اگر اس حکم کی تعمیل میں کوئی غلطی اگر سرزد ہو بھی گئی اللہ معاف فرمانے والا ہے۔
 

خضر حیات

علمی نگران
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 14، 2011
پیغامات
8,771
ری ایکشن اسکور
8,497
پوائنٹ
964
میرا خیال ہے کہ جس طرح محترم رانا محمد عاشق صاحب نے اپنی فہم کے مطابق قرآنی آیات کے ذریعے فقط دو طلاقوں کا مشروع ہونا بتلایا ہے اس کا رد بھی قرآنی آیات کے ذریعے ہو جائے تو بہت بہتر ہوگا تاکہ موصوف کے نقطۂ نظر کی کمزوری اور علمائے کرام ؒ کے تین طلاقوں کا مؤقف اوردلیل واضح ہو جائے۔ شکریہ !
الطَّلَاقُ مَرَّ‌تَانِ ۖ فَإِمْسَاكٌ بِمَعْرُ‌وفٍ أَوْ تَسْرِ‌يحٌ بِإِحْسَانٍ ۗ وَلَا يَحِلُّ لَكُمْ أَن تَأْخُذُوا مِمَّا آتَيْتُمُوهُنَّ شَيْئًا إِلَّا أَن يَخَافَا أَلَّا يُقِيمَا حُدُودَ اللَّـهِ ۖ فَإِنْ خِفْتُمْ أَلَّا يُقِيمَا حُدُودَ اللَّـهِ فَلَا جُنَاحَ عَلَيْهِمَا فِيمَا افْتَدَتْ بِهِ ۗ تِلْكَ حُدُودُ اللَّـهِ فَلَا تَعْتَدُوهَا ۚ وَمَن يَتَعَدَّ حُدُودَ اللَّـهِ فَأُولَـٰئِكَ هُمُ الظَّالِمُونَ ﴿٢٢٩﴾
یہ طلاقیں دو مرتبہ (١) ہیں پھر یا تو اچھائی سے روکنا (٢) یا عمدگی کے ساتھ چھوڑ دینا (٣) اور تمہیں حلال نہیں تم نے انہیں جو دیا ہے اس میں سے کچھ بھی لو، ہاں یہ اور بات ہے کہ دونوں کو اللہ کی حدیں قائم نہ رکھ سکنے کا خوف ہو اس لئے اگر تمہیں ڈر ہو کہ دونوں اللہ کی حدیں قائم نہ رکھ سکیں گے تو عورت رہائی پانے کے لئے کچھ دے ڈالے، اس پر دونوں پر گناہ نہیں (٤) یہ اللہ کی حدود ہیں خبردار ان سے آگے نہیں بڑھنا اور جو لوگ اللہ کی حدوں سے تجاوز کر جائیں وہ ظالم ہیں۔
٢٢٩۔١ یعنی وہ طلاق جس میں خاوند کو (عدت کے اندر رجوع کا حق حاصل ہے وہ دو مرتبہ ہے پہلی مرتبہ طلاق کے بعد بھی اور دوسری مرتبہ طلاق کے بعد بھی رجوع ہو سکتا ہے تیسری مرتبہ طلاق دینے کے بعد رجع کی اجازت نہیں زمانہ جاہلیت میں یہ حق طلاق و رجوع غیر محدود تھا جس سے عورتوں پر بڑا بوجھ تھا ۔ نیز معلوم ہونا چاہیے کہ بہت سے علماء ایک مجلس کی تین طلاقوں کے واقع ہونے ہی کا فتویٰ دیتے ہیں۔
٢٢٩۔٢ یعنی رجوع کر کے اچھے طریقے سے بسانا۔
٢٢٩۔٣ یعنی تیسری مرتبہ طلاق دے کر۔
٢٢٩۔٤ اس میں خلع کا بیان ہے یعنی عورت خاوند سے علیحدگی حاصل کرنا چاہے تو اس صورت میں خاوند عورت سے اپنا دیا ہوا مہر واپس لے سکتا ہے خاوند اگر علیحدگی قبول کرنے پر آمادہ نہ ہو تو عدالت خاوند کو طلاق دینے کا حکم دے گی اور اگر وہ اسے نہ مانے تو علت نکاح فسخ کر دے گی گویا خلع بزریعہ طلاق بھی ہو سکتا ہے اور بذریعہ فسخ بھی دونوں صورتوں میں عدت ایک حیض ہے (ابو داؤد، ترمذی، نسائی والحاکم[۔ فتح القدیر) عورت کو یہ حق دینے کے ساتھ ساتھ اس بات کی بھی سخت تاکید کی گئی ہے کہ عورت بغیر کسی معقول عذر کے خاوند سے علیحدگی یعنی طلاق کامطالبہ نہ کرے اگر ایسا کرے گی تو نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ایسی عورتوں کے لئے یہ سخت وعید بیان فرمائی کہ وہ جنت کی خوشبو تک نہیں پائیں گیں۔ (ابن کثیر وغیرہ)
فَإِن طَلَّقَهَا فَلَا تَحِلُّ لَهُ مِن بَعْدُ حَتَّىٰ تَنكِحَ زَوْجًا غَيْرَ‌هُ ۗ فَإِن طَلَّقَهَا فَلَا جُنَاحَ عَلَيْهِمَا أَن يَتَرَ‌اجَعَا إِن ظَنَّا أَن يُقِيمَا حُدُودَ اللَّـهِ ۗ وَتِلْكَ حُدُودُ اللَّـهِ يُبَيِّنُهَا لِقَوْمٍ يَعْلَمُونَ ﴿٢٣٠﴾

پھر اگر اس کو (تیسری بار) طلاق دے دے تو اب اس کے لئے حلال نہیں جب تک کہ وہ عورت اس کے سوا دوسرے سے نکاح نہ کرے، پھر اگر وہ بھی طلاق دے دے تو ان دونوں کو میل جول کر لینے میں کوئی گناہ نہیں، (١) بشرطیکہ جان لیں کہ اللہ کی حدوں کو قائم رکھ سکیں گے، یہ اللہ تعالٰی کی حدود ہیں جنہیں وہ جاننے والوں کے لئے بیان فرما رہا ہے۔
اس طلاق سے تیسری طلاق مراد ہے یعنی تیسری طلاق کے بعد خاوند اب نہ رجوع کرسکتا ہے اور نہ نکاح البتہ عورت کسی اور جگہ نکاح کر لے اور دوسرا خاوند اپنی مرضی سے اسے طلاق دے دے یا فوت ہو جائے تو اس کے بعد اس سے نکاح جائز ہے لیکن اس کے لئے جو حلالہ کا طریقہ رائج ہے یہ لعنتی فعل ہے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے حلالہ کرنے والے اور کروانے والے دونوں پر لعنت فرمائی ہے حلالہ کی غرض سے کیا گیا نکاح نکاح نہیں ہے زناکاری ہے۔ اس نکاح سے عورت پہلے خاوند کے لئے حلال نہیں ہو گی۔
 
شمولیت
مئی 09، 2017
پیغامات
29
ری ایکشن اسکور
2
پوائنٹ
10
اس فہم کے غلط ہونے کے لیے اتنا کافی نہیں کہ یہ احادیث رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے خلاف ہے ، قرآن مجید کے مفسر اول محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی تفسیر کے خلاف ہے ؟
اور پھر قرآن مجید سے رد کا مطالبہ تو یوں کیا جارہا ہے ، جیسے انہوں نے سب قرآن سے ثابت کیا ہے ، ذرا ملاحظہ فرمائیں :


اس اقتباس میں قرآنی آیات کے تراجم کرتے ہوئے ، اپنی طرف سے کتنی جگہ پر () کا اضافہ کیا گیا ہے ، بقول آپ کے کیا قرآن مجید ناکافی ہوگیا ہے ، کہ اس میں بین قوسین کی ضرورت پڑ گئی ہے ؟
اسی بین قوسین کو ہم احادیث رسول سے ثابت کریں ، تو وہ آپ کو قرآن سے رو گردانی محسوس ہوتی ہے ، جبکہ خود اپنی عقل کو قرآن مجید کی آیات کا ترجمہ بناکر پیش کرکے بھی آپ قرآن مجید پر ہی کاربند رہتے ہیں ۔

اللہ کے پاس نہ ذخیرہ الفاظ کی کمی تھی ، نہ قرآن مجید میں کہیں ابہام ہے ، البتہ اجمال و ایجاز قرآن مجید کی خصوصیت ہے ، اور اس اجمال و ایجاز کو سنت نبوی صلی اللہ علیہ وسلم نے کھول کر بیان کردیا ہے ۔ جو باتیں آپ کے بقول اللہ کے شایان شان نہیں ، سراسر اللہ پر جھوٹ کے مترادف ہیں ، وہ چودہ صدیوں سے اس دین کا حصہ ہیں ، خود جس پر قرآن مجید نازل ہوا ، اس کی سنت بھی اسی بات کی تائید کرتی ہے ، اب قرآن میں کون سی نئی آیت نازل ہوئی جس میں ان باتوں کو ’ جھوٹ اور بہتان ‘ قرار دیا گیا ہے ؟!
قرآن کی من مانی اردو ترکیبیں بیان کر رہے ہیں ، حالانکہ ایک لفظ عربی میں آپ کو اضافی لکھنا پڑا ہے ، وہ بھی غلط لکھا ہے ’ ثلثۃ مرات ‘ قرآنی آیات و الفاظ کے پر یوں ہاتھ صاف کرتے ہوئے ذرا اللہ کا خوف اور شرم کرنی چاہیے ۔

چودہ سو سال امت قرآن کی ان آیات اور ساتھ ان کی نبوی تشریح پر قائم و دائم ہے ، اب نام نہاد ’ اہل قرآن ‘ آکر ایک نئی ’ جاہلیت ‘ کو متعارف کروانے جارہے ہیں کہ قرآن کو کسی تشریح کی ضرورت نہیں ، ہر کوئی اپنی مرضی سے اس کے الفاظ کے ساتھ کھیل سکتا ہے ۔

تراجم والوں نے بین قوسین جس بنیاد پر بنائے ہیں ، ان کا ذکر تو ہم کر چکے ، لیکن آپ کا بین قوسین کہاں سے آگیا ؟
اگر قرآن مجید کافی ہے تو پھر آپ کو ’ بین قوسین ‘ کا محتاج کیوں ہے ؟ اور اگر قرآن کی وضاحت کے لیے کسی ’ بین قوسین ‘ کی ضرورت ہے تو پھر خیر القرون کے ’ بین قوسین ‘ ہٹاکر چودھویں صدی والے نئے ماڈلز کا اضافہ قرآن کی کس آیت کی بنیاد پر ہے ؟!
سبحان اللہ آپ کو پتہ ہی نہیں کہ قوسین کب لگتی ہیں تو آپ سے بحث کس طرح کی جاسکتی ہے۔خدا حافظ۔
 
شمولیت
مئی 09، 2017
پیغامات
29
ری ایکشن اسکور
2
پوائنٹ
10
عَلَيْهِمَا فِيمَا افْتَدَتْ بِهِ
بھائی خضر صاحب آپ کے رسپانس کا شکریہ۔
230 آیت میںفَاِنْ طَلَّقَھَا کا تعلق عَلَيْهِمَا فِيمَا افْتَدَتْ بِهِ سے بنتا ہے نہ کہ اس سے ما قبل الطلاق مرّٰتٰن سے ۔یہی میرا خیال ہے، باقی اللہ بہتر جانتا ہے۔ فَاِنْ طَلَّقَھَا تیسری طلاق نہیں ہے بلکہ اس عورت کی طلاق ہے جو فدیہ لیکر طلاق حاصل کرتی ہے۔کیونکہ یہ تعلق میں نے ثابت کیا ہے اس لئے قوس میں لکھا گیا ہے ورنہ قوسین میں نہ بھی لکھو تو کوئی فرق نہیں پڑے گا۔لیکن جب آپ تیسری بار کا لفظ قوسین میں لکھیں گے تو اس تعلق کو الطلاق مرّٰتٰنسے جوڑ کر دکھانا پڑے گا تبھی یہ تیسری طلاق کہلائے گی ۔پھر آپ اسے قوسین میں لکھ سکتے ہیں ورنہ نہیں۔
میں نے اس سلسلے میں دو دلائل دئے تھے کہ
الطلاق مرّٰتٰن اور عَلَيْهِمَا فِيمَا افْتَدَتْ بِهِ دونوں کی ضمیریں اور صیغے ایک ہیں۔ اور الطلاق مرّٰتٰن میں ضمیریں اور صیغے مختلف ہیں۔ دوسری وجہ طَلَّقَھَا کامرجع اگر قریب مل رہا ہے تو دور جانے کی ضرورت نہیں ہے عَلَيْهِمَا فِيمَا افْتَدَتْ بِهِ قریب ہے اور الطلاق مرّٰتٰن دور۔
ولسلام۔

 
شمولیت
مئی 09، 2017
پیغامات
29
ری ایکشن اسکور
2
پوائنٹ
10
اس فہم کے غلط ہونے کے لیے اتنا کافی نہیں کہ یہ احادیث رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے خلاف ہے ، قرآن مجید کے مفسر اول محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی تفسیر کے خلاف ہے ؟
اور پھر قرآن مجید سے رد کا مطالبہ تو یوں کیا جارہا ہے ، جیسے انہوں نے سب قرآن سے ثابت کیا ہے ، ذرا ملاحظہ فرمائیں :


اس اقتباس میں قرآنی آیات کے تراجم کرتے ہوئے ، اپنی طرف سے کتنی جگہ پر () کا اضافہ کیا گیا ہے ، بقول آپ کے کیا قرآن مجید ناکافی ہوگیا ہے ، کہ اس میں بین قوسین کی ضرورت پڑ گئی ہے ؟
اسی بین قوسین کو ہم احادیث رسول سے ثابت کریں ، تو وہ آپ کو قرآن سے رو گردانی محسوس ہوتی ہے ، جبکہ خود اپنی عقل کو قرآن مجید کی آیات کا ترجمہ بناکر پیش کرکے بھی آپ قرآن مجید پر ہی کاربند رہتے ہیں ۔

اللہ کے پاس نہ ذخیرہ الفاظ کی کمی تھی ، نہ قرآن مجید میں کہیں ابہام ہے ، البتہ اجمال و ایجاز قرآن مجید کی خصوصیت ہے ، اور اس اجمال و ایجاز کو سنت نبوی صلی اللہ علیہ وسلم نے کھول کر بیان کردیا ہے ۔ جو باتیں آپ کے بقول اللہ کے شایان شان نہیں ، سراسر اللہ پر جھوٹ کے مترادف ہیں ، وہ چودہ صدیوں سے اس دین کا حصہ ہیں ، خود جس پر قرآن مجید نازل ہوا ، اس کی سنت بھی اسی بات کی تائید کرتی ہے ، اب قرآن میں کون سی نئی آیت نازل ہوئی جس میں ان باتوں کو ’ جھوٹ اور بہتان ‘ قرار دیا گیا ہے ؟!
قرآن کی من مانی اردو ترکیبیں بیان کر رہے ہیں ، حالانکہ ایک لفظ عربی میں آپ کو اضافی لکھنا پڑا ہے ، وہ بھی غلط لکھا ہے ’ ثلثۃ مرات ‘ قرآنی آیات و الفاظ کے پر یوں ہاتھ صاف کرتے ہوئے ذرا اللہ کا خوف اور شرم کرنی چاہیے ۔

چودہ سو سال امت قرآن کی ان آیات اور ساتھ ان کی نبوی تشریح پر قائم و دائم ہے ، اب نام نہاد ’ اہل قرآن ‘ آکر ایک نئی ’ جاہلیت ‘ کو متعارف کروانے جارہے ہیں کہ قرآن کو کسی تشریح کی ضرورت نہیں ، ہر کوئی اپنی مرضی سے اس کے الفاظ کے ساتھ کھیل سکتا ہے ۔

تراجم والوں نے بین قوسین جس بنیاد پر بنائے ہیں ، ان کا ذکر تو ہم کر چکے ، لیکن آپ کا بین قوسین کہاں سے آگیا ؟
اگر قرآن مجید کافی ہے تو پھر آپ کو ’ بین قوسین ‘ کا محتاج کیوں ہے ؟ اور اگر قرآن کی وضاحت کے لیے کسی ’ بین قوسین ‘ کی ضرورت ہے تو پھر خیر القرون کے ’ بین قوسین ‘ ہٹاکر چودھویں صدی والے نئے ماڈلز کا اضافہ قرآن کی کس آیت کی بنیاد پر ہے ؟!
اہل قرآن سے یاد آیا :صرف آپ کی معلومات کے لئے عرض کردوں کہ اہل قرآن، اہل حدیث، اہل تشیع ، اہل فقہ(مقلدین) ، نیچریے اور یہاں تک کہ منکران حدیث بھی تین طلاق کے قائل ہیں۔ میرا کسی اہل قرآن سے تعلق نہیں۔میں صرف اور صرف قرآن کو سپریم اتھارٹی مانتا ہوں۔ سنت تواترہ کا قائل ہوں مگر ان احادیث کو صحیح مانتا ہوں جو قرآن کی مطابقت میں ہوں اور اس کے لئے میرے پاس سند ہے حضورﷺ کی جنہوں نے فرمایا تھا
”تکثرلکم الاحادیث بعدی فما روی لکم حدیث عنی فاعرضوہ علٰی کتابُ اللہ فما وافقوہ فاقبلوہ وما خالفوہ فردوہ“ یعنی میرے بعد حدیثوں کی بڑی کثرت ہوگی، اس لئے جو قول میری طرف منصوب کر کے تمہارے سامنے ر وایت کیا جائے اُس کو کتابُ اللہ کے سامنے پیش کرو، جو اُس کے موافق ہو اُس کو قبول کر و ‘ جو کتابُ اللہ کے خلاف ہو اس کو رد کر دو۔بس اسی سند پر میں کابند ہوں۔
آخر میں عرض کردوں کہ قرآن حکیم ایک کوہ گراں اور حقیقت ثابتہ ہے۔ اس سے ٹکراجانے والے ہر باطل کا مقدر پاش ہاش ہوجانا ہے خواہ وہ تواتر ہو یا اجماع، روایات کی ہزار ہا انسانی کتابیں ہوں، فلسفہ کی حجتیں ہوں یا منطق کی موشگافیاں۔ قرآن پاک میں تدبر، تفقہ اور تحقیق کرنا ہر انسان کا فریضہ قرار دیا گیا ہے۔55 علوم پر دسترس رکھنے کی کوئی شرط لاگو نہیں ہے۔ صراحت کے ساتھ دعوت عام دے کر فرمادیا گیا
" وَلَقَدْ یَسَّرْنَا الْقُرْاٰنَ لِذِّکْرِ فَھَلْ مِنْ مُّدَّکِرِ"(القمر:17) ۔قرآن کو ہم نے آسان بنایا سمجھنے کے لئے ہے کوئی جو سمجھے۔اور اس سے منہ موڑنے والوں کے لئے فرمادیا گیا کہ "جو میرے اس ذکر(قرآن) سے منہ موڑے گا ہم اسکی معیشت کو تنگ کردیں گے اور قیامت کے دن اس کو اندھا اٹھائیں گے(20:124)۔
 

T.K.H

مشہور رکن
شمولیت
مارچ 05، 2013
پیغامات
1,123
ری ایکشن اسکور
330
پوائنٹ
156
اس فہم کے غلط ہونے کے لیے اتنا کافی نہیں کہ یہ احادیث رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے خلاف ہے ، قرآن مجید کے مفسر اول محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی تفسیر کے خلاف ہے ؟
اور پھر قرآن مجید سے رد کا مطالبہ تو یوں کیا جارہا ہے ، جیسے انہوں نے سب قرآن سے ثابت کیا ہے ، ذرا ملاحظہ فرمائیں :
محترمی !
میں نے یہ اس بات اس لیے کہی تھی کہ موصوف صرف قرآن مجید سے تین طلاقوں کے ثبوت کی دلیل طلب کر رہے ہیں لہذا آپ پر لازم ہوا کہ ان کو صرف قرآن مجید سے ثبوت فراہم کریں کیونکہ ان کا دعویٰ ہے کہ فقط دو طلاقوں کے مشروع ہونے میں قرآن مجید بالکل واضح ہے، اس لیے حدیث کی طرف رجوع کی حاجت نہیں ۔ مزید یہ کہ آپ حضرات کا یہ دعویٰ بھی ہے کہ کوئی صحیح حدیث قرآن مجید کے خلاف نہیں ہو سکتی ۔ اس لیے موصوف پر اتمام حجت کےلیے پہلے قرآن مجید سے تین طلاقوں کا ثبوت فراہم کریں اور پھر اس سے متعلقہ روایات سے استدلال کریں ۔ میری حیثیت ایک غیر جانبدار منصف کی ہے ۔جس طرح آپ نے پوسٹ نمبر 23 میں اپنا استدلال پیش کیا ہے اسی طرح آئندہ بھی کریں۔
 

خضر حیات

علمی نگران
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 14، 2011
پیغامات
8,771
ری ایکشن اسکور
8,497
پوائنٹ
964
سبحان اللہ آپ کو پتہ ہی نہیں کہ قوسین کب لگتی ہیں تو آپ سے بحث کس طرح کی جاسکتی ہے۔خدا حافظ۔
آپ کو اس بات پر بھی غور کرنا چاہیے کہ جہاں آپ کی ’ قوس ‘ سے ضرورت پوری کی جائے گی ، وہاں خیر القروں کی ’ قوس ‘ کو ہٹایا ہی کیوں جائے گا ؟ یا چودہ صدیاں بغیر قوس کے قرآن سمجھ آتا رہا ، لیکن اب اسے آپ کی قوس کی ضرورت پڑ گئی ہے ؟ گویا آپ قرآن میں اپنی قوسیں داخل کرکے الگ معنی نکالنے کی سعی کر رہے ہیں ۔
اس بات پر ہٹ کر پھر غور کرلیں ، یا تو صرف قرآن مجید پڑھیں ، اور اگر اس میں قوسیں داخل کرنی ہیں ، تو چودہ صدیوں کی قوسیں ہٹانے اور اپنی جوڑنے کے دلائل گھڑ کے رکھیں ، اور لوگوں کو مطمئن کریں ۔
230 آیت میںفَاِنْ طَلَّقَھَا کا تعلق عَلَيْهِمَا فِيمَا افْتَدَتْ بِهِ سے بنتا ہے نہ کہ اس سے ما قبل الطلاق مرّٰتٰن سے ۔یہی میرا خیال ہے، باقی اللہ بہتر جانتا ہے۔
الطَّلَاقُ مَرَّ‌تَانِ ۖ فَإِمْسَاكٌ بِمَعْرُ‌وفٍ أَوْ تَسْرِ‌يحٌ بِإِحْسَانٍ ۗ وَلَا يَحِلُّ لَكُمْ أَن تَأْخُذُوا مِمَّا آتَيْتُمُوهُنَّ شَيْئًا إِلَّا أَن يَخَافَا أَلَّا يُقِيمَا حُدُودَ اللَّـهِ ۖ فَإِنْ خِفْتُمْ أَلَّا يُقِيمَا حُدُودَ اللَّـهِ فَلَا جُنَاحَ عَلَيْهِمَا فِيمَا افْتَدَتْ بِهِ ۗ تِلْكَ حُدُودُ اللَّـهِ فَلَا تَعْتَدُوهَا ۚ وَمَن يَتَعَدَّ حُدُودَ اللَّـهِ فَأُولَـٰئِكَ هُمُ الظَّالِمُونَ ﴿٢٢٩﴾
فَإِن طَلَّقَهَا فَلَا تَحِلُّ لَهُ مِن بَعْدُ حَتَّىٰ تَنكِحَ زَوْجًا غَيْرَ‌هُ ۗ فَإِن طَلَّقَهَا فَلَا جُنَاحَ عَلَيْهِمَا أَن يَتَرَ‌اجَعَا إِن ظَنَّا أَن يُقِيمَا حُدُودَ اللَّـهِ ۗ وَتِلْكَ حُدُودُ اللَّـهِ يُبَيِّنُهَا لِقَوْمٍ يَعْلَمُونَ ﴿٢٣٠﴾

دونوں آیات آپ کے سامنے ہیں ، ’ فإن طلقها ‘ کو ’ علیهما فيما افتدت به ‘ کے ساتھ جوڑیں تو ترجمہ ہی درست نہیں رہتا ، آپ نے جو ترجمہ کیا ہے ، اسے قوسین سمیت ملاحظہ کرلیں :
طلاق دو بار ہے، پھر یا تو روک لینا ہے اچھے طریقے سے یا رخصت کرنا ہے احسان کے ساتھ،اور نہیں جائز تمہارے لئے یہ کہ واپس لو تم اس میں سے جو دے چکے ہو انہیں کچھ بھی مگر یہ کہ (میاں بیوی) دونوں ڈریں اس بات سے کہ نہ قائم رکھ سکیں گے اللہ کی (مقرر کردہ) حدیں
پھر اگر ڈر ہو تم لوگوں کو بھی اس بات کا کہ نہ قائم رکھ سکیں گے وہ دونوں اللہ کی حدوں کو تو نہیں ہے کچھ گناہ ان دونوں پر اس (معاوضہ) میں جو بطور فدیہ دے عورت، یہ ہیں اللہ کی (مقرر کردہ) حدیں سو نہ تجاوز کرنا تم ان سے اور جو کوئی تجاوز کرتا ہے اللہ کی(مقرر کردہ)حدوں سے تو ایسے ہی لوگ ظالم ہیں۔
پس اگراس (فدیہ لینے والے) مردنے اس (فدیہ دینے والی) عورت کو طلاق دے دی،تو پھر نہیں حلال ہوگی وہ عورت(جس نے فدیہ دے کر طلاق لی)اس مرد کے لئے(جس نے فدیہ لے کر طلاق دی)، جب تک کہ نہ نکاح کرے وہ کسی دوسرے مرد سے اس کے سوا، پھر اگر طلاق دے دے(دوسرا)خاوند، تو نہیں ہے کچھ گناہ ان دونوں پر اس بات میں کہ رجوع کر لیں ایک دوسرے کی طرف، بشرطیکہ وہ دونوں یہ خیال کریں کہ قائم رکھیں گے وہ اللہ کی مقرر کردہ حدوں کو، اور یہ اللہ کی حدیں ہیں جن کو وہ کھول کھول کر بیان کرتا ہے۔
ان آیات میں ایک تو طلاقوں کی تعداد بتائی گئی ہے ، دوسرا طلاق کے بعد رجوع ہونے یا نہ ہونے کی بات ہے ، تیسرا طلاق بعوض ہوگی یا بلا عوض ۔
  1. الطلاق مرتان اور فإن طلقہا میں طلاق کی تعداد بتائی گئی ہے
  2. لا یحل لکم أن تاخذوا سے فیماافتدت بہ تک طلاق عوض ہوگی یا بلا عوض ، یہ بات واضح کی گئی ہے
  3. فإمساک بمعروف أو تسریح بإحسان اور فلا تحل لہ من بعد حتی تنکح زوجا غیرہ میں کس طلاق کے بعد رجوع ہوسکتا ہے ، کس کے بعد نہیں ہوسکتا ، اس بات کا ذکر ہے ۔
پہلی شق کے دوسرے جملے کو آپ دوسری شق کے ایک جملے سے جوڑ کر تینوں باتوں کو آپس میں خلط ملط کر رہے ہیں ۔
سنت نبوی ، فہم صحابہ اور مفسرین نے ان آیات کو اسی انداز سے فہم و تفہیم کیا ہے ، اور اسی انداز سے عبارت سلیم رہتی ہے ، کہ :
  • طلاقیں تین ہیں ۔
  • دو کے بعد رجوع کرنے یا نہ کرنے کا آپشن ہے ۔ تیسری کے بعد رجوع کا آپشن نہیں ۔
  • طلاق آدمی خود بھی دے سکتا ہے ، اور خاتون مطالبہ کرکے خلع بھی لے سکتی ہے ۔
جس طرح آپ نے تعلق جوڑا ہے ، اس طرح ان تینوں باتوں کی تفصیلات ان آیات سے ثابت کرکے دکھادیں ۔
فَاِنْ طَلَّقَھَا تیسری طلاق نہیں ہے بلکہ اس عورت کی طلاق ہے جو فدیہ لیکر طلاق حاصل کرتی ہے۔
شاید آپ ’ فدیہ دیکر ‘ لکھنا چاہ رہے تھے ۔
اس آیت کو اس انداز سے خلع کے ساتھ مقید کردینے کا مطلب ہے ، کہ خلع سے ہٹ کر مرد خود جتنی مرضی طلاقیں ، دیتا رہے ، اور رجوع کرتا رہے ؟ جاہلیت میں بھی تو یہی کچھ تھا ، جس کا طعنہ آپ علماء کو دے رہے ہیں ۔
اور پھر اسی ’ إن طلقھا ‘ کے بعد ایک اور طلقہا بھی ہے ، آپ کے نزدیک اگر عورت خلع لے لے ، تو کیا وہ کسی اور مرد سے شادی کرکے دوبارہ خلع والے سے پھر شادی کرسکتی ہے ؟
اگر ہاں ، تو پھر یہ تو وہی حلالہ ہے ، جس کی مذمت آپ بیان کر رہے ہیں ، بات تو پھر وہیں آگئی ، اپنی طرف سے قرآنی مفہوم گھڑنے کا کیا فائدہ ہوا ؟
کیونکہ یہ تعلق میں نے ثابت کیا ہے اس لئے قوس میں لکھا گیا ہے ورنہ قوسین میں نہ بھی لکھو تو کوئی فرق نہیں پڑے گا۔لیکن جب آپ تیسری بار کا لفظ قوسین میں لکھیں گے تو اس تعلق کو الطلاق مرّٰتٰنسے جوڑ کر دکھانا پڑے گا تبھی یہ تیسری طلاق کہلائے گی ۔پھر آپ اسے قوسین میں لکھ سکتے ہیں ورنہ نہیں۔
آپ اوپر بیان کرآئے ہیں یہ جو آپ نے تعلق جوڑے ہیں ، یہ آپ کا ’ خیال ‘ ہے ، اگر آپ اپنے خیال کی بنا پر قوس لگانے کا حق رکھتے ہیں ، تو ہم سنت نبوی ، فہم صحابہ و تابعین اور اجماع امت کی بنا پر اس کا زیادہ حق رکھتے ہیں ۔
باقی آپ کا تعلق جوڑنا غلط ہے ، اس کی وضاحت اوپر ہوچکی ہے ۔
رہا ہمارا تعلق جوڑنا ، اس کی مزید وضاحت یہ ہے کہ الطلاق مرتان میں دو طلاقین ہونا تو بالکل روز روشن کی طرح واضح ہے ، اس کا وہی انکار کرے گا ، جسے عربی کے لفظ مرۃ اور مرتان کا ترجمہ بھی نہیں آتا ۔
ان دو طلاقوں کے بعد إمساک بمعروف اور تسریح بإحسان یعنی رجوع اور عدم رجوع دونوں آپشن بیان کیے گئے ہیں ، جبکہ ’ فإن طلقہا ‘ کے بعد صرف ایک ہی آپشن ہے ، یہ اس بات کی دلیل ہے کہ یہ پہلی دو طلاقوں سے ہٹ کر ایک اور طلاق ہے جسے ہم تیسری طلاق کہتے ہے ۔ پہلی دو میں چونکہ رجوع کا حق ہوتا ہے ، اس لیے ہم انہیں ’ رجعی ‘ کہتے ہیں ، تیسری میں قرآن مجید نے رجوع کا حق ختم کردیا ہے ، اس لیے ہم اسے ’ غیر رجعی ‘ کہتے ہیں ۔
میں نے اس سلسلے میں دو دلائل دئے تھے کہالطلاق مرّٰتٰن اور عَلَيْهِمَا فِيمَا افْتَدَتْ بِهِ دونوں کی ضمیریں اور صیغے ایک ہیں۔
اس سے عجیب وغریب دلیل کیا ہوسکتی ہے ، الطلاق میں کوئی ضمیر نہیں ۔ مرتان تثنیہ کا صیغہ ہے ، درست ،جس کا مطلب ہے طلاقیں دو ہیں ۔ یعنی جنہیں دو کہا گیا وہ طلاقیں ہیں ۔
علیہما میں تثنیہ یعنی دو کی ضمیر ہے ، لیکن اس سے مراد میاں اور بیوی ہیں ، دونوں کا اس انداز سے آپس میں ربط ہے ہی کوئی نہیں ، ایک طرف طلاق کی بات ہے ، دوسری طرف طلاقین لینے دینے والے دو افراد کی ۔
اور مجھے لگتا ہے کہ شاید آپ کہانی گھڑنے میں خطا کر چکے ہیں ، کیونکہ آپ کے نزدیک تعلق الطلاق مرتان سے نہیں بلکہ فإن طلقہا سے ہے ۔ افتدت بہ اور طلقہا میں دونوں جگہ ضمیر مؤنث ہی ہے ، اس میں کوئی شک نہیں ، کیونکہ اس سے مراد عورت یعنی زوجہ ہی ہے ۔
اس طرح بھی بات سمجھ سے بالکل باہر ہے کہ ضمیر مؤنث کے استعمال کی وجہ سے دونوں کا تعلق کس طرح آپس میں جڑ گیا ہے ، دوسری بات ضمیر کسی ضمیر کی طرف نہیں لوٹتی ، یہاں تو دونوں جگہ ضمیریں ہی ہیں ، اسم یا معنی نام کی کوئی شے نہیں ، پھر بھی آپ تعلق پتہ نہیں کس بنا پر جوڑ رہے ہیں ۔
اور الطلاق مرّٰتٰن میں ضمیریں اور صیغے مختلف ہیں۔
کچھ نہ سمجھے خدا کرے کوئی !
دوسری وجہ طَلَّقَھَا کامرجع اگر قریب مل رہا ہے تو دور جانے کی ضرورت نہیں ہے عَلَيْهِمَا فِيمَا افْتَدَتْ بِهِ قریب ہے اور الطلاق مرّٰتٰن دور۔
طلق میں ضمیر مذکر ہے ، ھا ضمیر مؤنث ہے ، یہ دونوں لوٹ کس طرف رہی ہیں ؟ علیھما خود ضمیر ہے ، فی حرف ہے ، جس طرف ضمیر نہیں لوٹ سکتی ، ما اسم موصولہ ہے ، جس کی طرف بہ میں ھ ضمیر لوٹ رہی ہے ، افتدت فعل ہے ، جس میں بذات خود ھا ضمیر ہے ، جو کسی اور طرف لوٹ رہی ہے ، جس کی طرف آپ ضمیر کو لوٹا رہے ہیں ، اس چیز کی نشاندہی کریں ۔
آپ کی باتوں سے لگتا ہے کہ آپ نحو و لغت کی چند اصطلاحات سےواقف ہیں ، لیکن ان کی حقیقت سے بالکل بے خبر ،
تعلق جوڑنے والی آپ کی ساری کہانی آپ کی لاعلمی اور جہالت کا منہ بولتا ثبوت ہے ، اس سے پہلے بھی آپ نے لفظ ’ ثلاثۃ مرات ‘ لکھا تھا ، جو نحو کے اعتبار سے قبیح غلطی ہے ۔ اس سب کے باوجود آپ کی جرأت کا یہ حال ہے کہ قرآن مجید کی جوڑ توڑ میں مصروف ہیں ۔ اس تدبر و تفکر کے نام پر ، جس کی حقیقت سے بھی ناواقف ہیں ، جس کی وضاحت آئندہ کرتا ہوں ۔ إن شاءاللہ ۔
اہل قرآن سے یاد آیا :صرف آپ کی معلومات کے لئے عرض کردوں کہ اہل قرآن، اہل حدیث، اہل تشیع ، اہل فقہ(مقلدین) ، نیچریے اور یہاں تک کہ منکران حدیث بھی تین طلاق کے قائل ہیں۔ میرا کسی اہل قرآن سے تعلق نہیں۔
قرآن مجید کا نام لے کر سنت نبوی ، فہم سلف صالحین کو رد کرنے والے اور اپنی سوچ کو نافذ کرنے والوں کو ان کے دعوی کے مطابق ’ اہل قرآن ‘ کہا جاتا ہے ، ورنہ یہ حقیقت ہے کہ اس طرح کے لوگ اہل قرآن بھی نہیں ہیں ۔
میں صرف اور صرف قرآن کو سپریم اتھارٹی مانتا ہوں۔ سنت تواترہ کا قائل ہوں مگر ان احادیث کو صحیح مانتا ہوں جو قرآن کی مطابقت میں ہوں اور اس کے لئے میرے پاس سند ہے حضورﷺ کی جنہوں نے فرمایا تھا
”تکثرلکم الاحادیث بعدی فما روی لکم حدیث عنی فاعرضوہ علٰی کتابُ اللہ فما وافقوہ فاقبلوہ وما خالفوہ فردوہ“ یعنی میرے بعد حدیثوں کی بڑی کثرت ہوگی، اس لئے جو قول میری طرف منصوب کر کے تمہارے سامنے ر وایت کیا جائے اُس کو کتابُ اللہ کے سامنے پیش کرو، جو اُس کے موافق ہو اُس کو قبول کر و ‘ جو کتابُ اللہ کے خلاف ہو اس کو رد کر دو۔بس اسی سند پر میں کابند ہوں۔
سب ہی قرآن کو سپریم اتھارٹی مانتے ہیں ، الحمد للہ ۔ سنت رسول یا احادیث کو ماننا بھی قرآن کو ہی ماننا ہے ۔
جو حدیث آپ نے ذکر کی ہے ، حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف اس کی نسبت درست نہیں ، تفصیل یہاں دیکھ لیں ۔ اس طرح کی باتوں کا پینتیس دفعہ اسی فورم پر جواب دیا جاچکا ہے ۔
اگر اسی غلط اصول کی بنیاد پر خود اسی حدیث کو قرآن مجید پر پیش کریں ، تو بھی یہ مردود ٹھہرتی ہے ، کیونکہ قرآن تو کہتا ہے و ما آتاکم الرسول فخذوہ ، حضور جو دیں لے لیں ، اس میں کہیں نہیں کہ صرف قرآن دیں تو لے لو ، اور کچھ کہیں تو کہیں کہ نہیں پہلے اس بات کی قرآن سے دلیل لائیں ۔
آخر میں عرض کردوں کہ قرآن حکیم ایک کوہ گراں اور حقیقت ثابتہ ہے۔ اس سے ٹکراجانے والے ہر باطل کا مقدر پاش ہاش ہوجانا ہے خواہ وہ تواتر ہو یا اجماع، روایات کی ہزار ہا انسانی کتابیں ہوں، فلسفہ کی حجتیں ہوں یا منطق کی موشگافیاں۔
اگر احادیث ابھی تک موجودہیں ، فہم سلف کا نام لینے والے ابھی تک اربوں لوگ موجود ہیں ، اور اس پر عمل پیرا ہیں ، تو یہ اس بات کا ثبوت ہے کہ یہ چیزیں قرآن مجید سے ٹکراتی نہیں ، ورنہ یہ صدیوں یوں محفوظ نہ رہتیں ، بقول آپ کے پاش پاش ہوجاتیں ۔
البتہ جس طرح کے آپ کے خیالات ہیں ، اس طرح منحرف افکار کئی دفعہ آئے ، اور آج ان لوگوں کا نام لے کر کوئی راضی نہیں ہے ۔
قرآن پاک میں تدبر، تفقہ اور تحقیق کرنا ہر انسان کا فریضہ قرار دیا گیا ہے۔55 علوم پر دسترس رکھنے کی کوئی شرط لاگو نہیں ہے۔
قرآن مجید میں تدبر و تفکر کرنا تو ضروری ہے ، اس میں تو کوئی شک نہیں ، لیکن یہ بھی حسن ظن رکھیے کہ اس پر حضور صلی اللہ علیہ وسلم اور آپ کے صحابہ کرام اور بعد کے علماء کرام بھی عمل پیرا رہے ہوں گے ، لہذا ہمیں اپنے تدبر و تفکر کو لگام دے کر درست سمت رکھنا ہوگا ، اگر یہ تدبر نبوی اور خیر القروں کے تفکر سے ٹکرایا تو پاش پاش ہی ہوگا ، اس کے علاوہ اس کا کوئی انجام نہیں ۔
یہ غلط فہمی دل سے نکال دینی چاہیے کہ تدبر کا حق تبھی پورا ہوگا ، جب ہم قرآن مجید کا نام لے کر لوگوں کو سنت اور احادیث سے برگشتہ کریں گے ۔
قرآن مجید کے معانی و مفاہیم کے ساتھ دہشت گردی کیے بغیر بھی اس پر تدبر و تفکر ہوسکتا ہے ، بالکل ویسے ہی ، جیسے اس قرآن مجید کو لے کر آنے والے نے کیا ، صحابہ کرام کو سکھایا ، اور اس کے طبقہ در طبقہ بعد والوں میں منتقل ہوتا رہا ۔ ہاں بعد والوں میں جہاں کسی نے غلطی کی ہے ، قرآن مجید کی واضح نص اور واضح حدیث رسول کی روشنی میں اس کی تردید کریں ، لیکن چودھویں صدی کے کسی شخص کا ’ خیالی پلاؤ ‘ یہ حیثیت نہیں رکھتا کہ اس کی بنیاد پر مسلمات دین کا چھوڑ دیا جائے ۔ کیونکہ یہ قرآن مجید میں تدبر و تفکر نہیں بلکہ الحاد ہے ، جس کے متعلق قرآن مجید نے خبر دار کیا ہے :
إن الذین یلحدون فی آیاتنا لا یخفون علینا ۔
صراحت کے ساتھ دعوت عام دے کر فرمادیا گیا" وَلَقَدْ یَسَّرْنَا الْقُرْاٰنَ لِذِّکْرِ فَھَلْ مِنْ مُّدَّکِرِ"(القمر:17) ۔قرآن کو ہم نے آسان بنایا سمجھنے کے لئے ہے کوئی جو سمجھے۔اور اس سے منہ موڑنے والوں کے لئے فرمادیا گیا کہ "جو میرے اس ذکر(قرآن) سے منہ موڑے گا ہم اسکی معیشت کو تنگ کردیں گے اور قیامت کے دن اس کو اندھا اٹھائیں گے(20:124)۔
بالکل درست ۔
لیکن ایک ہے قرآن کے الفاظ سےمنہ موڑنا ، دوسرا ہے ، اس کے مسلمہ معانی و مفاہیم سے منہ موڑنا ، اب اگر کوئی قرآن مجید میں وارد لفظ صلاۃ کو کہے کہ اس سے مراد ورزش کرنا بھی ہے ، تو ظاہر ہے ، اسے تدبر و تفکر فی القرآن کی بجائے ، الحاد فی القرآن ہی کہا جائے گا ، قرآن آسان ہے ، سمجھنے والوں کے لیے ، لیکن اس کا حلیہ بگاڑنے والوں کے لیے یہ لقمہ تر ثابت نہیں ہوسکتا ۔
لہذا غفلت سے نکلنا چاہیے ، اور قرآن کا اس کے تقاضوں کے مطابق سمجھنا چاہیے ، نہ کہ خالی چیک کی طرف اس کے الفاظ کا غلط استعمال کرنا چاہیے ۔ و منہم أمیون لا یعلمون الکتاب إلا أمانی و إن ہم إلا یظنون والے رویے سے بچنا چاہیے ۔
اللہ ہم سب کو ہدایت سے نوازے ۔
 
Last edited:
شمولیت
مئی 09، 2017
پیغامات
29
ری ایکشن اسکور
2
پوائنٹ
10
آپ کو اس بات پر بھی غور کرنا چاہیے کہ جہاں آپ کی ’ قوس ‘ سے ضرورت پوری کی جائے گی ، وہاں خیر القروں کی ’ قوس ‘ کو ہٹایا ہی کیوں جائے گا ؟ یا چودہ صدیاں بغیر قوس کے قرآن سمجھ آتا رہا ، لیکن اب اسے آپ کی قوس کی ضرورت پڑ گئی ہے ؟ گویا آپ قرآن میں اپنی قوسیں داخل کرکے الگ معنی نکالنے کی سعی کر رہے ہیں ۔
اس بات پر ہٹ کر پھر غور کرلیں ، یا تو صرف قرآن مجید پڑھیں ، اور اگر اس میں قوسیں داخل کرنی ہیں ، تو چودہ صدیوں کی قوسیں ہٹانے اور اپنی جوڑنے کے دلائل گھڑ کے رکھیں ، اور لوگوں کو مطمئن کریں ۔

الطَّلَاقُ مَرَّ‌تَانِ ۖ فَإِمْسَاكٌ بِمَعْرُ‌وفٍ أَوْ تَسْرِ‌يحٌ بِإِحْسَانٍ ۗ وَلَا يَحِلُّ لَكُمْ أَن تَأْخُذُوا مِمَّا آتَيْتُمُوهُنَّ شَيْئًا إِلَّا أَن يَخَافَا أَلَّا يُقِيمَا حُدُودَ اللَّـهِ ۖ فَإِنْ خِفْتُمْ أَلَّا يُقِيمَا حُدُودَ اللَّـهِ فَلَا جُنَاحَ عَلَيْهِمَا فِيمَا افْتَدَتْ بِهِ ۗ تِلْكَ حُدُودُ اللَّـهِ فَلَا تَعْتَدُوهَا ۚ وَمَن يَتَعَدَّ حُدُودَ اللَّـهِ فَأُولَـٰئِكَ هُمُ الظَّالِمُونَ ﴿٢٢٩﴾
فَإِن طَلَّقَهَا فَلَا تَحِلُّ لَهُ مِن بَعْدُ حَتَّىٰ تَنكِحَ زَوْجًا غَيْرَ‌هُ ۗ فَإِن طَلَّقَهَا فَلَا جُنَاحَ عَلَيْهِمَا أَن يَتَرَ‌اجَعَا إِن ظَنَّا أَن يُقِيمَا حُدُودَ اللَّـهِ ۗ وَتِلْكَ حُدُودُ اللَّـهِ يُبَيِّنُهَا لِقَوْمٍ يَعْلَمُونَ ﴿٢٣٠﴾

دونوں آیات آپ کے سامنے ہیں ، ’ فإن طلقها ‘ کو ’ علیهما فيما افتدت به ‘ کے ساتھ جوڑیں تو ترجمہ ہی درست نہیں رہتا ، آپ نے جو ترجمہ کیا ہے ، اسے قوسین سمیت ملاحظہ کرلیں :

ان آیات میں ایک تو طلاقوں کی تعداد بتائی گئی ہے ، دوسرا طلاق کے بعد رجوع ہونے یا نہ ہونے کی بات ہے ، تیسرا طلاق بعوض ہوگی یا بلا عوض ۔
  1. الطلاق مرتان اور فإن طلقہا میں طلاق کی تعداد بتائی گئی ہے
  2. لا یحل لکم أن تاخذوا سے فیماافتدت بہ تک طلاق عوض ہوگی یا بلا عوض ، یہ بات واضح کی گئی ہے
  3. فإمساک بمعروف أو تسریح بإحسان اور فلا تحل لہ من بعد حتی تنکح زوجا غیرہ میں کس طلاق کے بعد رجوع ہوسکتا ہے ، کس کے بعد نہیں ہوسکتا ، اس بات کا ذکر ہے ۔
پہلی شق کے دوسرے جملے کو آپ دوسری شق کے ایک جملے سے جوڑ کر تینوں باتوں کو آپس میں خلط ملط کر رہے ہیں ۔
سنت نبوی ، فہم صحابہ اور مفسرین نے ان آیات کو اسی انداز سے فہم و تفہیم کیا ہے ، اور اسی انداز سے عبارت سلیم رہتی ہے ، کہ :
  • طلاقیں تین ہیں ۔
  • دو کے بعد رجوع کرنے یا نہ کرنے کا آپشن ہے ۔ تیسری کے بعد رجوع کا آپشن نہیں ۔
  • طلاق آدمی خود بھی دے سکتا ہے ، اور خاتون مطالبہ کرکے خلع بھی لے سکتی ہے ۔
جس طرح آپ نے تعلق جوڑا ہے ، اس طرح ان تینوں باتوں کی تفصیلات ان آیات سے ثابت کرکے دکھادیں ۔

شاید آپ ’ فدیہ دیکر ‘ لکھنا چاہ رہے تھے ۔
اس آیت کو اس انداز سے خلع کے ساتھ مقید کردینے کا مطلب ہے ، کہ خلع سے ہٹ کر مرد خود جتنی مرضی طلاقیں ، دیتا رہے ، اور رجوع کرتا رہے ؟ جاہلیت میں بھی تو یہی کچھ تھا ، جس کا طعنہ آپ علماء کو دے رہے ہیں ۔
اور پھر اسی ’ إن طلقھا ‘ کے بعد ایک اور طلقہا بھی ہے ، آپ کے نزدیک اگر عورت خلع لے لے ، تو کیا وہ کسی اور مرد سے شادی کرکے دوبارہ خلع والے سے پھر شادی کرسکتی ہے ؟
اگر ہاں ، تو پھر یہ تو وہی حلالہ ہے ، جس کی مذمت آپ بیان کر رہے ہیں ، بات تو پھر وہیں آگئی ، اپنی طرف سے قرآنی مفہوم گھڑنے کا کیا فائدہ ہوا ؟

آپ اوپر بیان کرآئے ہیں یہ جو آپ نے تعلق جوڑے ہیں ، یہ آپ کا ’ خیال ‘ ہے ، اگر آپ اپنے خیال کی بنا پر قوس لگانے کا حق رکھتے ہیں ، تو ہم سنت نبوی ، فہم صحابہ و تابعین اور اجماع امت کی بنا پر اس کا زیادہ حق رکھتے ہیں ۔
باقی آپ کا تعلق جوڑنا غلط ہے ، اس کی وضاحت اوپر ہوچکی ہے ۔
رہا ہمارا تعلق جوڑنا ، اس کی مزید وضاحت یہ ہے کہ الطلاق مرتان میں دو طلاقین ہونا تو بالکل روز روشن کی طرح واضح ہے ، اس کا وہی انکار کرے گا ، جسے عربی کے لفظ مرۃ اور مرتان کا ترجمہ بھی نہیں آتا ۔
ان دو طلاقوں کے بعد إمساک بمعروف اور تسریح بإحسان یعنی رجوع اور عدم رجوع دونوں آپشن بیان کیے گئے ہیں ، جبکہ ’ فإن طلقہا ‘ کے بعد صرف ایک ہی آپشن ہے ، یہ اس بات کی دلیل ہے کہ یہ پہلی دو طلاقوں سے ہٹ کر ایک اور طلاق ہے جسے ہم تیسری طلاق کہتے ہے ۔ پہلی دو میں چونکہ رجوع کا حق ہوتا ہے ، اس لیے ہم انہیں ’ رجعی ‘ کہتے ہیں ، تیسری میں قرآن مجید نے رجوع کا حق ختم کردیا ہے ، اس لیے ہم اسے ’ غیر رجعی ‘ کہتے ہیں ۔

اس سے عجیب وغریب دلیل کیا ہوسکتی ہے ، الطلاق میں کوئی ضمیر نہیں ۔ مرتان تثنیہ کا صیغہ ہے ، درست ،جس کا مطلب ہے طلاقیں دو ہیں ۔ یعنی جنہیں دو کہا گیا وہ طلاقیں ہیں ۔
علیہما میں تثنیہ یعنی دو کی ضمیر ہے ، لیکن اس سے مراد میاں اور بیوی ہیں ، دونوں کا اس انداز سے آپس میں ربط ہے ہی کوئی نہیں ، ایک طرف طلاق کی بات ہے ، دوسری طرف طلاقین لینے دینے والے دو افراد کی ۔
اور مجھے لگتا ہے کہ شاید آپ کہانی گھڑنے میں خطا کر چکے ہیں ، کیونکہ آپ کے نزدیک تعلق الطلاق مرتان سے نہیں بلکہ فإن طلقہا سے ہے ۔ افتدت بہ اور طلقہا میں دونوں جگہ ضمیر مؤنث ہی ہے ، اس میں کوئی شک نہیں ، کیونکہ اس سے مراد عورت یعنی زوجہ ہی ہے ۔
اس طرح بھی بات سمجھ سے بالکل باہر ہے کہ ضمیر مؤنث کے استعمال کی وجہ سے دونوں کا تعلق کس طرح آپس میں جڑ گیا ہے ، دوسری بات ضمیر کسی ضمیر کی طرف نہیں لوٹتی ، یہاں تو دونوں جگہ ضمیریں ہی ہیں ، اسم یا معنی نام کی کوئی شے نہیں ، پھر بھی آپ تعلق پتہ نہیں کس بنا پر جوڑ رہے ہیں ۔

کچھ نہ سمجھے خدا کرے کوئی !

طلق میں ضمیر مذکر ہے ، ھا ضمیر مؤنث ہے ، یہ دونوں لوٹ کس طرف رہی ہیں ؟ علیھما خود ضمیر ہے ، فی حرف ہے ، جس طرف ضمیر نہیں لوٹ سکتی ، ما اسم موصولہ ہے ، جس کی طرف بہ میں ھ ضمیر لوٹ رہی ہے ، افتدت فعل ہے ، جس میں بذات خود ھا ضمیر ہے ، جو کسی اور طرف لوٹ رہی ہے ، جس کی طرف آپ ضمیر کو لوٹا رہے ہیں ، اس چیز کی نشاندہی کریں ۔
آپ کی باتوں سے لگتا ہے کہ آپ نحو و لغت کی چند اصطلاحات سےواقف ہیں ، لیکن ان کی حقیقت سے بالکل بے خبر ،
تعلق جوڑنے والی آپ کی ساری کہانی آپ کی لاعلمی اور جہالت کا منہ بولتا ثبوت ہے ، اس سے پہلے بھی آپ نے لفظ ’ ثلاثۃ مرات ‘ لکھا تھا ، جو نحو کے اعتبار سے قبیح غلطی ہے ۔ اس سب کے باوجود آپ کی جرأت کا یہ حال ہے کہ قرآن مجید کی جوڑ توڑ میں مصروف ہیں ۔ اس تدبر و تفکر کے نام پر ، جس کی حقیقت سے بھی ناواقف ہیں ، جس کی وضاحت آئندہ کرتا ہوں ۔ إن شاءاللہ ۔

قرآن مجید کا نام لے کر سنت نبوی ، فہم سلف صالحین کو رد کرنے والے اور اپنی سوچ کو نافذ کرنے والوں کو ان کے دعوی کے مطابق ’ اہل قرآن ‘ کہا جاتا ہے ، ورنہ یہ حقیقت ہے کہ اس طرح کے لوگ اہل قرآن بھی نہیں ہیں ۔

سب ہی قرآن کو سپریم اتھارٹی مانتے ہیں ، الحمد للہ ۔ سنت رسول یا احادیث کو ماننا بھی قرآن کو ہی ماننا ہے ۔
جو حدیث آپ نے ذکر کی ہے ، حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف اس کی نسبت درست نہیں ، تفصیل یہاں دیکھ لیں ۔ اس طرح کی باتوں کا پینتیس دفعہ اسی فورم پر جواب دیا جاچکا ہے ۔
اگر اسی غلط اصول کی بنیاد پر خود اسی حدیث کو قرآن مجید پر پیش کریں ، تو بھی یہ مردود ٹھہرتی ہے ، کیونکہ قرآن تو کہتا ہے و ما آتاکم الرسول فخذوہ ، حضور جو دیں لے لیں ، اس میں کہیں نہیں کہ صرف قرآن دیں تو لے لو ، اور کچھ کہیں تو کہیں کہ نہیں پہلے اس بات کی قرآن سے دلیل لائیں ۔

اگر احادیث ابھی تک موجودہیں ، فہم سلف کا نام لینے والے ابھی تک اربوں لوگ موجود ہیں ، اور اس پر عمل پیرا ہیں ، تو یہ اس بات کا ثبوت ہے کہ یہ چیزیں قرآن مجید سے ٹکراتی نہیں ، ورنہ یہ صدیوں یوں محفوظ نہ رہتیں ، بقول آپ کے پاش پاش ہوجاتیں ۔
البتہ جس طرح کے آپ کے خیالات ہیں ، اس طرح منحرف افکار کئی دفعہ آئے ، اور آج ان لوگوں کا نام لے کر کوئی راضی نہیں ہے ۔

قرآن مجید میں تدبر و تفکر کرنا تو ضروری ہے ، اس میں تو کوئی شک نہیں ، لیکن یہ بھی حسن ظن رکھیے کہ اس پر حضور صلی اللہ علیہ وسلم اور آپ کے صحابہ کرام اور بعد کے علماء کرام بھی عمل پیرا رہے ہوں گے ، لہذا ہمیں اپنے تدبر و تفکر کو لگام دے کر درست سمت رکھنا ہوگا ، اگر یہ تدبر نبوی اور خیر القروں کے تفکر سے ٹکرایا تو پاش پاش ہی ہوگا ، اس کے علاوہ اس کا کوئی انجام نہیں ۔
یہ غلط فہمی دل سے نکال دینی چاہیے کہ تدبر کا حق تبھی پورا ہوگا ، جب ہم قرآن مجید کا نام لے کر لوگوں کو سنت اور احادیث سے برگشتہ کریں گے ۔
قرآن مجید کے معانی و مفاہیم کے ساتھ دہشت گردی کیے بغیر بھی اس پر تدبر و تفکر ہوسکتا ہے ، بالکل ویسے ہی ، جیسے اس قرآن مجید کو لے کر آنے والے نے کیا ، صحابہ کرام کو سکھایا ، اور اس کے طبقہ در طبقہ بعد والوں میں منتقل ہوتا رہا ۔ ہاں بعد والوں میں جہاں کسی نے غلطی کی ہے ، قرآن مجید کی واضح نص اور واضح حدیث رسول کی روشنی میں اس کی تردید کریں ، لیکن چودھویں صدی کے کسی شخص کا ’ خیالی پلاؤ ‘ یہ حیثیت نہیں رکھتا کہ اس کی بنیاد پر مسلمات دین کا چھوڑ دیا جائے ۔ کیونکہ یہ قرآن مجید میں تدبر و تفکر نہیں بلکہ الحاد ہے ، جس کے متعلق قرآن مجید نے خبر دار کیا ہے :
إن الذین یلحدون فی آیاتنا لا یخفون علینا ۔

بالکل درست ۔
لیکن ایک ہے قرآن کے الفاظ سےمنہ موڑنا ، دوسرا ہے ، اس کے مسلمہ معانی و مفاہیم سے منہ موڑنا ، اب اگر کوئی قرآن مجید میں وارد لفظ صلاۃ کو کہے کہ اس سے مراد ورزش کرنا بھی ہے ، تو ظاہر ہے ، اسے تدبر و تفکر فی القرآن کی بجائے ، الحاد فی القرآن ہی کہا جائے گا ، قرآن آسان ہے ، سمجھنے والوں کے لیے ، لیکن اس کا حلیہ بگاڑنے والوں کے لیے یہ لقمہ تر ثابت نہیں ہوسکتا ۔
لہذا غفلت سے نکلنا چاہیے ، اور قرآن کا اس کے تقاضوں کے مطابق سمجھنا چاہیے ، نہ کہ خالی چیک کی طرف اس کے الفاظ کا غلط استعمال کرنا چاہیے ۔ و منہم أمیون لا یعلمون الکتاب إلا أمانی و إن ہم إلا یظنون والے رویے سے بچنا چاہیے ۔
اللہ ہم سب کو ہدایت سے نوازے ۔
اس بحث کا کوئی حاصل نہیں ہوگا میں صرف یہ چاہتا ہوں کہ حقائق آپ اور سب کے سامنےآجائیں اگر پہلے آپ بالکل غیر جانبداری سے نیچے دئے ہوئے آپشنز کا مطالعہ کرلیں پھر فیصلہ آپ خود کرلیں کہ کون سا آپشن درست ہے۔
سورہ البقرہ کی آیات نمبر229 اور 230
الطَّلَاقُ مرّٰتٰن ِفَاِمْسَاکٌ بَاالْمَعْرُوْف ِ اَوْ تَسْرِیْحٌ بِاِحْسَان۔ وَ لَایَحِلُّ لَکُمْ اَنْ تَأخُذُوْ مِمَّا اٰتَیتُمُوْ ھُنَّ شَیءًااِلَّا اَنْ یَّخَافَااَلَّا یُقِیْمَاحُدُوْدَ اللہِ ,فَاِن خِفْتُمْ اَلَّا یُقِیْمَاحُدُوْدَ اللہِ، فَلَا جُنَاحَ عَلَیْھِمَافِیْمَا افْتَدَتْ بِہٖ، تِلکَ حُدُوْدُ اللہِ فَلَا تَعْتَدُوْھَاوَمَنْ یَّتَعَدَّحُدُوْدَ اللہِ فَاُوْلٰٓئِکَ ھُمُ الظّٰلِمُونَ(229)۔ فَاِنْ طَلَّقَھَا فَلَا تَحِلُّ لَہُ مِنْ بَعْدُ حَتّٰی تَنکِحَ زَوْجَ غَیْرُہٗ، فَاِنْطَلَّقَھَا فَلَا جُنَاحَ عَلَیْھِمَا اَن یَّتَرَاجَعَھَااِن ظَنَّا اَنْ یُّقِیْمَا حُدُوْدَ اللہِ، وَ تِلکَ حُدُوْدُ اللہِ یُبَیِّنُھَا لْقَوْمٍ یَّعْلَمُوْنَ(230) ۔
آپشن نمبر 1
الطَّلَاقُ مرّٰتٰن ِفَاِمْسَاکٌ بَاالْمَعْرُوْف ِ اَوْ تَسْرِیْحٌ بِاِحْسَان، وَ لَایَحِلُّ لَکُمْ اَنْ تَأخُذُوْ مِمَّا اٰتَیتُمُوْ ھُنَّ شَیءً, فَاِنْ طَلَّقَھَا فَلَا تَحِلُّ لَہُ مِنْ بَعْدُ حَتّٰی تَنکِحَ زَوْجَ غَیْرُہٗ،
طلاق دو بار ہے پھر روک لینا ہے بھلے طریقے سے یا رخصت کرنا ہے احسان کے ساتھ ،اور نہیں جائز تمہارے لئے یہ کہ واپس لو تم اس میں سے جو دے چکے ہو ان کوکچھ بھی، پھر اگراس مردنے اس عورت کو طلاق دے دی،تو پھر نہیں حلال ہوگی وہ عورت اس مرد کے لئے ،
آپشن نمبر 2
فَاِن خِفْتُمْ اَلَّا یُقِیْمَاحُدُوْدَ اللہِ، فَلَا جُنَاحَ عَلَیْھِمَافِیْمَا افْتَدَتْ بِہٖ، فَاِنْ طَلَّقَھَا فَلَا تَحِلُّ لَہُ مِنْ بَعْدُ
پھر اگر ڈر ہو تم کو بھی اس بات کا کہ نہ قائم رکھ سکیں گے وہ دونوں اللہ کی حدوں کو تو نہیں ہے کچھ گناہ ان دونوں پر اس میں جو بطور فدیہ میں دے عورت ،پھر اگراس مردنے اس عورت کو طلاق دے دی،تو پھر نہیں حلال ہوگی وہ عورت اس مرد کے لئے

اور پیغمبر کہیں گے کہ اے پروردگار! میری قوم نے اس قرآن کو چھوڑ رکھا تھا۔ قرآن ، سورت الفرقان : 30
باطل اس
(قرآن) کے پاس نہ اس کے سامنے سے آسکتا ہے اور نہ ہی اس کے پیچھے سے۔ قرآن ، سورت فصلت : 42
بلاشبہ یہ
(قرآن) ایک فیصلہ کن کلام ہے۔ قرآن ، سورت الطارق : 13
یقیناً یہ
قرآن اس راستہ کی طرف راہنمائی کرتا ہے جو سب سے زیادہ سیدھا ہے۔قرآن ، سورت الاسرا ء : 09
 
شمولیت
اپریل 15، 2017
پیغامات
194
ری ایکشن اسکور
2
پوائنٹ
23
{وَأَنْزَلْنَا إِلَيْكَ الذِّكْرَ لِتُبَيِّنَ لِلنَّاسِ مَا نُزِّلَ إِلَيْهِمْ وَلَعَلَّهُمْ يَتَفَكَّرُونَ} [النحل: 44]
{وَمَا أَنْزَلْنَا عَلَيْكَ الْكِتَابَ إِلَّا لِتُبَيِّنَ لَهُمُ الَّذِي اخْتَلَفُوا فِيهِ وَهُدًى وَرَحْمَةً لِقَوْمٍ يُؤْمِنُونَ} [النحل: 64]

عمر فاروق رضی اللہ تعالیٰ عنہ عرب تھے عربی ان کی مادری زبان تھی۔ ایک سفر میں انہیں غسل کی حاجت ہوئی اور غسل کے لئے پانی نہیں تھا انہوں نے تیمم نہ کیا اور نماز نہ پڑھی حالانکہ آیت تیمم نازل ہوچکی تھی۔ کیوں؟؟؟؟؟؟؟
 
Top