• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

بندے کا قبر والے کو سلام کہنا اور اس کی روح کا لوٹایا جانا

lovelyalltime

سینئر رکن
شمولیت
مارچ 28، 2012
پیغامات
3,735
ری ایکشن اسکور
2,899
پوائنٹ
436
اور مسند امام اہل السنہ احمد بن حنبل میں بھی موجود
۔

قال الامام أحمد رحمه الله تعالى :حدثنا عبد الله بن يزيد، حدثنا حيوة، حدثني أبو صخر، أن يزيد بن عبد الله بن قسيط أخبره، عن أبي هريرة، عن رسول الله صلى الله عليه وسلم قال: " ما من أحد يسلم علي، إلا رد الله عز وجل إلي روحي حتى أرد عليه السلام " (1)
و في هامشه:
إسناده حسن، أبو صخر- وهو حميد بن زياد الخراط- حسن الحديث، روى له مسلم، وباقى رجاله ثقات رجال الشيخين. حيوة: هو ابن شريح.
وأخرجه أبو داود (2041) ، والبيهقى 5/245 من طريق عبد الله بن يزيد المقرىء، بهذا الإسناد.​
وأخرجه الطبراني في "الأوسط" (3116) عن بكر بن سهل الدمياطي، عن مهدي بن جعفر الرملي، عن عبد الله بن يزيد الِإسكندراني، عن حيوة بن شريح، به.

جب میں نے اس حدیث کا حوالہ ایک جگہ دیا تھا تو سامنے سے دو راویوں پر یہ جرح سامنے آئ تھی -

ابو صخر حمید بن زیاد


وقال إسحاق بن منصور وابن أبي مريم عن يحيى ضعيف وكذا قال النسائي -

(تهذیب التهذیب، ابن ہجر عسقلانی، الجزء ٣، ٦٩)

ترجمہ : اسحاق بن منصور اور ابن مریم کہتے ہیں یحییٰ اسے ضعیف کہتے تھے اور اسی طرح النسائی -

وقال ابن معين : ضعيف -

(ميزان الاعتدال في نقد الرجال، الذہبی، الجزء ١، ٢٣٢٨، حميد بن زياد أبو صخر، المعرفة للطباعة والنشر بيروت, لبنان)

ترجمہ : ابن معین ضعیف کہتے ہیں -

ابن عدى ذكر حميد بن صخر في موضع آخر فضعفه -

(ایضاً)

ترجمہ : ابن عدی حميد بن صخر کا ذکر ضعفہ میں کرتے ہیں -

اب مجھ پر فتویٰ نہ لگا دینا - صرف جواب دینا کہ اس جرح کا کیا جواب دیا جانا چاہیے -
 

اسحاق سلفی

فعال رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اگست 25، 2014
پیغامات
6,372
ری ایکشن اسکور
2,589
پوائنٹ
791
جب میں نے اس حدیث کا حوالہ ایک جگہ دیا تھا تو سامنے سے دو راویوں پر یہ جرح سامنے آئ تھی -

ابو صخر حمید بن زیاد


وقال إسحاق بن منصور وابن أبي مريم عن يحيى ضعيف وكذا قال النسائي -

(تهذیب التهذیب، ابن ہجر عسقلانی، الجزء ٣، ٦٩)

ترجمہ : اسحاق بن منصور اور ابن مریم کہتے ہیں یحییٰ اسے ضعیف کہتے تھے اور اسی طرح النسائی -

وقال ابن معين : ضعيف -

(ميزان الاعتدال في نقد الرجال، الذہبی، الجزء ١، ٢٣٢٨، حميد بن زياد أبو صخر، المعرفة للطباعة والنشر بيروت, لبنان)

ترجمہ : ابن معین ضعیف کہتے ہیں -

ابن عدى ذكر حميد بن صخر في موضع آخر فضعفه -

(ایضاً)

ترجمہ : ابن عدی حميد بن صخر کا ذکر ضعفہ میں کرتے ہیں -

اب مجھ پر فتویٰ نہ لگا دینا - صرف جواب دینا کہ اس جرح کا کیا جواب دیا جانا چاہیے -
اس جرح کا میں کئی دفعہ اسی فورم پر مختلف حوالوں سے جواب دے چکا ہوں ،آپ میں سمجھنے کی قابلیت ہی نہیں ،
یہ حدیث بلا شبہ حسن سے کم درجہ نہیں ’‘
قال الامام المحدث محمد ناصر الدين الألباني - رحمه الله ورضي عنه -في ’‘صحيح أبي داود - الأم :
(قلت: إسناده حسن، وقال العراقي: " جيد "، وقال الحافظ: " رجاله ثقات ") .
إسناده: حدثنا محمد بن عوف: ثنا المقرئ: ثنا حَيْوَة عن أبي صخر حُمَيْدِابن زياد عن يزيد بن عبد الله بن قُسَيْطٍ عن أبي هريرة.
قلت: وهذا إسناد حسن، رجاله كلهم ثقات؛ غير أن حميد بن زياد قد تكلم فيه بعضهم من قبل حفظه، ولا ينزل ذلك حديثه عن مرتبة الحسن.
وإلى ذلك أشار الحافظ بقوله " صدوق يهم ". ولذلك قال في "الفتح " (6/379) :
" ورجاله ثقات ". وقال شيخه الحافظ العراقي في "تخريج الإحياء" (1/279) : "سنده جيد "." ] أه

اور ریاض الصالحین میں علامہ نووی ؒ نے اس ’‘باسناد صحیح ’‘ کہا ہے ’‘ جبکہ علامہ زبیر علی زئی ؒ نے ریاض الصالحین کی تخریج میں اسے ’‘ حسن’‘
کہا ہے ’‘اور شیخ الحدیث جناب عبد المنان نور پوری ؒ نے بھی اسے ’‘ حسن ’‘ اور ’‘ثابت ’‘ کہا ہے ۔
اور ’’أبو صخر حميد بن زياد‘‘ منفرد بھی ہو تو وہ۔۔ صحیح مسلم ۔۔کا راوی ہے ،اور مذکورہ بالا ۔۔ماہر علما کرام ۔جو علم الحدیث کے مشہور ومعروف اساتذہ مانے جاتے ہیں،اگر انہوں نے ’‘ ابوصخر ’‘ کے باوجود اسے ’‘صحیح ’‘ اور حسن ’‘ کہا ہے تو یقیناً اس کایہاں منفرد ہونا مضر نہیں ۔
ا،،
لیکن ۔۔لہم قلوب لا یفقہون بہا۔
ویسے یاد رہے صحیح مسلم کے راوی کو ۔۔ضعیف ۔۔قرار دینا کوئی مذاق نہیں ،
 
شمولیت
ستمبر 13، 2014
پیغامات
393
ری ایکشن اسکور
277
پوائنٹ
71
لولی آل ٹائم بھائی حدیث کی صحت اور ضعف پر حکم مختلف ہو سکتا ہے ترجیح ظن کی بنیاد پر متقدمین کے نزدیک اگرچہ تحسین کا باب اتنا وسیع نہیں تھا جتنا امام البانی رحمہ اللہ کے ہاں ہے لیکن پھر بھی یہ کہنا کہ اس کا فلاں کو علم نہیں تھا جو آپ کو ہو گیا یہ بات نا مناسب ہے یہ تو مقلدین کی باتیں ہیں ابی صخر حمید بن زیاد کے بارے یہاں دیکھیں
http://library.islamweb.net/hadith/RawyDetails.php?RawyID=2539
اور حسن الحدیث جس کو کہا جائے اس کی روایت کے بارے علماء کی رائے کیا ہے ان سے پوچھ لیں حسن الحدیث اس راوی کو بھی کہا جاتا ہے جس کی روایت ہو تو ضعیف لیکن اس میں کوئی نا کوئی اضافی بات ہو سند عالی ہونا وغیرہ لیکن اس کا مطلب یہنہیں ہوتا کہ جس کو بھی حسن الحدیث کہ دیا اس کی روایت حسن ہے
جب علماء میں کسی معاملہ پر اختلاف ہو بوجہ تحسین و تضعیف حدیث تو اس میں اتنا غصہ نہیں کرنا چاھیئے جبکہ وہ اس حدیث سے کوئی خلاف شریعت معنی بھی نہ لے رہے ہوں
اللھم الف بین قلوبنا و اصلح ذات بیننا و وفقنا لکل خیر و جنبنا من الفتن ما ظھر منھا و ما بطن
 

lovelyalltime

سینئر رکن
شمولیت
مارچ 28، 2012
پیغامات
3,735
ری ایکشن اسکور
2,899
پوائنٹ
436
ویسے یاد رہے صحیح مسلم کے راوی کو ۔۔ضعیف ۔۔قرار دینا کوئی مذاق نہیں ،


بھائی میں ضعیف نہیں کہتا - میں نے صرف حوالہ دیا - کیا کہتے ہیں آپ یہاں - اس حوالے پر-

تهذيب التهذيب

قال ابن المديني لم يرو عنه غيره وقال البخاري كذلك وقال ابن حبان في الثقات ليس هو بحميد الطويل وقال ابن ماكولا هو مجهول ذكرته للتمييز وقد خلطه المزي بحميد الطويل فإنه ذكر في الاختلاف في اسم أبيه قول من قال إن اسمه زاذويه وكذا أورد أبو جعفر الحنيني في مسنده الحديث في ترجمة حميد الطويل عن أنس.
67- "د – حميد" بن خوار هو ابن حماد بن خوار تقدم.
68- "د س – حميد" بن زنجويه هو ابن مخلد بن زنجويه يأتي.
69- "بخ م د ت عس ق - حميد" بن زياد وهو ابن أبي المخارق1 المدني أبو صخر الخراط صاحب العباء سكن مصر ويقال حميد بن صخر وقال أبو مسعود الدمشقي حميد بن صخر أبو مودود الخراط ويقال أنهما اثنان رأى سهل بن سعد وروى عن أبي صالح السمان وأبي حازم سلمة بن دينار ونافع مولى بن عمر وكريب ومكحول وأبي سعيد المقبري ويزيد بن قسيط وشريك بن عبد الله بن أبي نمر وسعيد المقبري وغيرهم وعنه سعيد بن أبي أيوب وحيوة بن شريح وابن وهب ويحيى القطان وهمام بن إسماعيل وحاتم بن إسماعيل وغيرهم قال أحمد ليس به بأس وقال عثمان الدارمي عن يحيى ليس به بأس وقال إسحاق بن منصور وابن أبي مريم عن يحيى ضعيف وكذا قال النسائي وقال ابن عدي بعد أن روى له ثلاثة أحاديث وهو عندي صالح وإنما أنكر عليه هذان

اب جواب دینے کے بجایے مجھ پر فتویٰ نہ لگا دیجیے گا -
 

اسحاق سلفی

فعال رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اگست 25، 2014
پیغامات
6,372
ری ایکشن اسکور
2,589
پوائنٹ
791
بھائی میں ضعیف نہیں کہتا - میں نے صرف حوالہ دیا - کیا کہتے ہیں آپ یہاں - اس حوالے پر-

تهذيب التهذيب

قال ابن المديني لم يرو عنه غيره وقال البخاري كذلك وقال ابن حبان في الثقات ليس هو بحميد الطويل وقال ابن ماكولا هو مجهول ذكرته للتمييز وقد خلطه المزي بحميد الطويل فإنه ذكر في الاختلاف في اسم أبيه قول من قال إن اسمه زاذويه وكذا أورد أبو جعفر الحنيني في مسنده الحديث في ترجمة حميد الطويل عن أنس.
67- "د – حميد" بن خوار هو ابن حماد بن خوار تقدم.
68- "د س – حميد" بن زنجويه هو ابن مخلد بن زنجويه يأتي.
69- "بخ م د ت عس ق - حميد" بن زياد وهو ابن أبي المخارق1 المدني أبو صخر الخراط صاحب العباء سكن مصر ويقال حميد بن صخر وقال أبو مسعود الدمشقي حميد بن صخر أبو مودود الخراط ويقال أنهما اثنان رأى سهل بن سعد وروى عن أبي صالح السمان وأبي حازم سلمة بن دينار ونافع مولى بن عمر وكريب ومكحول وأبي سعيد المقبري ويزيد بن قسيط وشريك بن عبد الله بن أبي نمر وسعيد المقبري وغيرهم وعنه سعيد بن أبي أيوب وحيوة بن شريح وابن وهب ويحيى القطان وهمام بن إسماعيل وحاتم بن إسماعيل وغيرهم قال أحمد ليس به بأس وقال عثمان الدارمي عن يحيى ليس به بأس وقال إسحاق بن منصور وابن أبي مريم عن يحيى ضعيف وكذا قال النسائي وقال ابن عدي بعد أن روى له ثلاثة أحاديث وهو عندي صالح وإنما أنكر عليه هذان
اب جواب دینے کے بجایے مجھ پر فتویٰ نہ لگا دیجیے گا -
ایک تو فتوی سےسے بہت خوفزدہ ہیں ،
فتوی کسی ڈرانےوالی شئے کا نام نہیں ،بلکہ علمی رہنمائی کو کہا جاتا ہے
(قل اللہ یفتیکم )
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اب آپ نے یہاں جو کاپی اور پیسٹ کیا ،وہ شاید عجلت کی وجہ ،یا عربی سے سلام دعا نہ ہونے کے سبب ۔۔۔۔۔۔۔’‘ مانحن فیہ’‘ سے غیر متعلق ہے۔
 
شمولیت
ستمبر 13، 2014
پیغامات
393
ری ایکشن اسکور
277
پوائنٹ
71
جی فتوی تو لگے گا بچو جی آپ پر
جب ایک راوی مختلف فیہ ہو تو اس میں جمھور کا موقف دیکھا جاتا ہے اور بعض کے ہاں جرح اور تعدیل کرنے والوں کا منصب دیکھا جاتا ہے کہ کس کا پلڑا بھاری ہے
اگر امام نسائی اور یحیی بن معین نے ضعیف کا ہے تو احمد بن حنبل ابو حاتم نے لیس بہ باس بھی کہا ہے اور ایک قول میں یحیی بن معین نے ثقۃ لیس بہ باس بھی کہا ہے
اور صدوق کسی راوی کو کہنا ابن حجر کا یا صدوق یھم علماء کے نزدیک محل اختلاف ہے کہ کیا اس راوی کی حدیث سے احتجاج کیا جائے گا؟؟؟یا کہ شواھد میں لی جائے گی
اب مجھے یہ نہیں پتا کہ آپ مزید کیا چاھتے ہیں فتوی چاھیئے تو وہ بھی ملے گا لیکن بریلی جانا پڑے گا
 

اسحاق سلفی

فعال رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اگست 25، 2014
پیغامات
6,372
ری ایکشن اسکور
2,589
پوائنٹ
791
تهذيب التهذيب
69- "بخ م د ت عس ق - حميد" بن زياد وهو ابن أبي المخارق1 المدني أبو صخر الخراط صاحب العباء سكن مصر ويقال حميد بن صخر وقال أبو مسعود الدمشقي حميد بن صخر أبو مودود الخراط ويقال أنهما اثنان رأى سهل بن سعد وروى عن أبي صالح السمان وأبي حازم سلمة بن دينار ونافع مولى بن عمر وكريب ومكحول وأبي سعيد المقبري ويزيد بن قسيط وشريك بن عبد الله بن أبي نمر وسعيد المقبري وغيرهم وعنه سعيد بن أبي أيوب وحيوة بن شريح وابن وهب ويحيى القطان وهمام بن إسماعيل وحاتم بن إسماعيل وغيرهم
قال أحمد ليس به بأس وقال عثمان الدارمي عن يحيى ليس به بأس
وقال إسحاق بن منصور وابن أبي مريم عن يحيى ضعيف وكذا قال النسائي
وقال ابن عدي بعد أن روى له ثلاثة أحاديث وهو عندي صالح وإنما أنكر عليه هذان
حمید بن زیاد ابو صخر ’‘ثقہ ’‘ راوی ہے ، تین اماموں یعنی احمد بن حنبل اور یحی بن معین ،ابن عدی ،کے اقوال اس کے حق میں آپ نے نقل کردئے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔اور ایک بہت بڑے محدث امام دارقطنی ؒ بھی اسے ثقہ کہتے ہیں،مندرجہ ذیل سکین اس کا ثبوت ہے
حميد.jpg

 

اسحاق سلفی

فعال رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اگست 25، 2014
پیغامات
6,372
ری ایکشن اسکور
2,589
پوائنٹ
791

امام ابوالحسن دارقطنی رحمۃ اللہ علیہ
(ولادت:۳۰۶ھ۔ وفات:۳۸۵ھ)
امام ابوالحسن علی بن عمر دارقطنی، دارقطن کے رہنے والے تھے۔ یہ بغداد کا ایک محلہ تھا۔

معرفت علل، اسماء رجال اور معرفت رواۃ میں دارقطنی کو بلند مقام حاصل تھا۔ دوسرے علوم خاص طورسے قرآن اور فقہاء کے مذہب اور ان کے اختلافات سے انھیں اچھی واقفیت حاصل تھی۔ شعر و ادب پر عبور رکھتے تھے۔ عرب کے بہت سے دواوین انہیں حفظ تھے۔ ابو طیب حدیث میں دارقطنی کو امیرالمومنین کہتے تھے۔ (حدیث کا تعارف، ص:۱۱۴، ۱۱۵)

امام دارقطنی کا حافظہ غیر معمولی اور بے نظیر تھا۔ نہ صرف احادیث بلکہ دوسرے علوم کا بھی ان کا سینہ مخزن تھا۔ بعض شعر ا کے دواوین بھی ان کو ازبر تھے قدیم عربوں کی طرح وہ تحریر و کتابت کی بجائے اکثر اپنے حافظہ سے ہی کام لیتے تھے۔ اپنے تلامذہ کی کتابیں زبانی املا کراتے تھے۔ تذکرہ نگاروں نے ان کو ’’الحافظ الکبیر، الحافظ المشہور، کان عالماً حافظً ‘‘ وغیرہ لکھا ہے۔

ذہبی نے ان کو ’’حافظ الزماں ‘‘ کہا ہے۔ اورسیر اعلام النبلا میں لکھتے ہیں:
الإمام الحافظ المجود, شيخ الإسلام, علم الجهابذة, أبو الحسن علي بن عمر بن أحمد بن مهدي بن مسعود بن النعمان بن دينار بن عبد الله البغدادي, المقرئ المحدث, من أهل محلة دار القطن ببغداد.
ولد سنة ست وثلاث مائة, هو أخبر بذلك.


حاکم فرماتے ہیں کہ وہ ’’حافظے میں یکتائے روزگار تھے۔ ‘‘
سمعانی کا بیان ہے کہ: ’’دارقطنی کا حافظہ ضرب المثل تھا۔ ‘‘
علامہ ابن جوزی رقم طراز ہیں کہ: ’’وہ (دارقطنی) حافظہ میں منفرد اور یگانۂ عصر تھے۔ ‘‘
حافظ ابن کثیر لکھتے ہیں کہ ’’بچپن ہی سے دارقطنی اپنے نمایاں اور غیر معمولی حافظہ کے لئے مشہور تھے۔ ‘‘
ابوالطیب طاہر طبری کا بیان ہے کہ ’’بغداد میں جو بھی حافظ حدیث آتا وہ امام دارقطنی کی خدمت میں ضرور حاضر ہوتا اور اس کے بعد اس کے لئے ا ن کی علمی بلند پائیگی اور حافظہ میں برتری اور تقدم کا اعتراف کرنا لازمی ہو جاتا۔‘‘
ان کے حافظہ اور ذہانت کا یہ حال تھا کہ ایک ہی نشست میں ایک ہی روایت کی بیس بیس سندیں برجستہ بیان کر دیتے تھے۔
حافظ ذہبی نے اس طرح کے ایک واقعہ کو نقل کرنے کے بعد لکھا ہے کہ اس کو دیکھ کر دارقطنی کی بے پناہ ذہانت، قوت حافظہ اور غیر معمولی فہم و معرفت کے سامنے سرنگوں ہو جانا پڑتا ہے۔
 
Top