• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

بے نمازکے متعلق سعودی علماء کے استدلال (مکمل کتاب یونیکوڈ میں)

ساجد تاج

فعال رکن
شمولیت
مارچ 09، 2011
پیغامات
7,174
ری ایکشن اسکور
4,517
پوائنٹ
604
بسم اللہ الرحمن الرحیم


عرض مترجم


23نومبر 1993ء کی بات ہے ، بعد نماز عصر قونیہ (ترکی ) کے ایک بازار میں کتابیں دیکھ رہا تھا ۔ ایک صاحب نظر آئے جو میرے لئے تو اس حلیے میں اچنبھانہ تھے لیکن ترکی کے جدید یورپین ماحول میں قابل تعجب نظر آرہے تھے ۔ ان سے تعارف کی دلی لہر اٹھی ، آگے بڑھا تعارف کی اجازت چاہی اور دل کو دل سے راہ والی بات نکلی ۔ یہ تھے جناب تاج دین صاحب جو کہ ترکی کے تہذیبی طور پر ماڈرن ، فقہی طور پر حنفی اور سلوک کے اعتبار سے صوفیانہ ماحول میں اپنے آپ کو مذکورہ رجحانات سے الگ تھلگ خالصتاً حامل کتاب و سنت کے انداز میں پیش کررہے تھے ۔ مختلف مسائل پر بات چیت ہوتی رہی آخر میں انہوں نے مجھے اپنے ساتھ گھر لے جانے پر اصرار کیا اورمیں نے بھی قیام ترکی کے دوران چار سال میں پہلی بار کتاب سنت کے ایسے پیروکار سے ملاقات غنیمت جانی۔جس کے عقیدہ وعمل میں دینی و دنیاوی کوئی آلائش نظر نہیں آرہی تھی ۔ جہاں وہ جدید تہذیب کے اثرات سے پاک تھے وہاں مذہبی طور پر چائے پی اور اجازت چاہی ۔ بوقت رخصت انہوں نے ایک چھوٹی سی کتاب بطور تحفہ پیش کی ۔ یہ تحفہ کتاب و سنت کی خالص تعلیمات پر مبنی اور ایک نازک مسئلہ پر انتہائی عالمانہ ، فاضلانہ اور محققانہ تحریر ہونے کے ناطے میرے لئے رد کرنا ناممکن رہا ۔ وہ قیمتی کتاب تھی ’’ اسلام میں ترک نماز کا حکم ‘‘‘ جس کا ترجمہ آپ کے ہاتھوں میں ہے ۔

مؤلف کتاب فضیلۃ الشیخ محمد ابو سعید الیاربوزی حفظہ اللہ ، علامہ ناصر الدین البانی رحمہ اللہ کے شاگرد خاص ہیں ۔ دعوت تبلیغ میں دن رات سرگرم رہتے ہیں ۔ ترکی بھر میں دعوتی و تبلیغی پروگراموں کے ساتھ ساتھ’’ احیاء کتاب و سنت ‘‘ کے نام پر استنبول میں ایک ٹرسٹ چلارہے ہیں ۔

تارک نماز کے گناہگار ہونے پر علمائے امت کا اجماع ہے لیکن اس کے مشرک ، کافر اور ابدی جہنمی ہونے پر اختلاف ہے ۔ آپ بھی اختلاف رائے کا حق رکھتے ہیں لیکن مصنف کے دلائل قطعیہ اور استنباطات فقہیہ کا مطالعہ ضرور کیجئے تاکہ ترک نماز کے گناہ کی شدت کا احساس ہو ۔ ایمان اور دین کا ثبوت ترجمہ ہذا کی کاوش کی گئی ہے ۔

فضیلۃ الشیخ الیاربوزی کی دوسری تالیف ’’ کتاب و سنت کے مطابق نماز ‘‘ کا اردو ترجمہ راقم نے پہلی بار 1995ء میں کیا تھا اکتوبر 1999ء میں اس کا چوتھا ایڈیشن آچکا ہے ۔ (والحمداللہ ) کتاب کو احباب گرامی نے بہت زیادہ پسند فرمایاہے کیونکہ نماز کے تمام مسائل انتہائی باریک بینی سے احادیث صحیحہ کا اہتمام ہی کافی تھا لیکن اس پر فضیلۃ الشیخ کا فقہی مسائل کے استنباط واستخراج کا ملکہ اور اپنی فکر کو بلا خوف لومتہ لائم پیش کرنے کے زبردست انداز سے ان کا مؤقف انتہائی مضبوط نظر آتا ہے ۔

نماز بلکہ با جماعت نماز کی اہمیت کا اندازہ لگانے کے لئے یہ کافی ہے کہ میدان جہاد میں دشمن یعنی موت کے مدمقابل ہونے کے باوجود نبی کریم ﷺ کو نماز با جماعت کا اہتمام کرنے کی اللہ تعالیٰ نے تعلیم دی ہے ۔ اس سے بڑھ کر کیا عذر ہو سکتا ہے لیکن ایسی کیفیت میں بھی نماز ترک کرنا تو دور کی بات ہے بلکہ با جماعت اہتمام کی ترغیب ہے ۔ لہذا اپنے تمام تر عذر لنگ ترک کر کے نماز کرنے کی بجائے نمازکی با جماعت ادائیگی کی کوشش ہونی چاہئے تا کہ ایمان واسلام کی سلامتی باقی رہے ۔

نماز کی دین کے اندر اہمیت کے پیش نظر گذارش ہے کہ نماز کے بارے پائی جانے والی کوتاہی کو بالکل دور کر کے حقیقی معنوں میں نماز قائم کرنے والے بنیں تاکہ سجدہ ریز ہونے والے نمازیوں کے لئے اللہ تعالیٰ کی خاص رحمتوں کا ہم پر بھی نزول ہو اور ترک نماز کے وبال عظیم سے بچ جائیں (آمین ثم آمین)

بشکریہ : محمد آصف مغل بھائی
 

ساجد تاج

فعال رکن
شمولیت
مارچ 09، 2011
پیغامات
7,174
ری ایکشن اسکور
4,517
پوائنٹ
604
اختصار ات



مؤلف ہذا فضیلۃ الشیخ محمد ابو سعیدالیاربوزی حفظہ اللہ تعالیٰ نے حوالہ جات میں اختصارات سے کام لیتے ہوئے درج ذیل انداز اپنایا ہے ۔

بخاری و مسلم کی روایات کو صحیح تسلیم کرتے ہوئے صحت حدیث کا حکم درج کرنے کی ضرورت محسوس نہیں کی گئی۔

صحیحین کے علاوہ دیگر کتب سے حوالہ جات بیان کرتے ہوئے صحت حدیث کا حکم بھی بیان کر دیا ہے تاکہ حدیث کے بارے اطمینان حاصل ہو ۔

ہم نے بخاری ، مسلم ، ترمذی ، نسائی ، ابن ماجہ کی روایات کے نمبر مکتبہ دارلسلام ، ریاض کی طرف سے ایک جلد میں مطبوع ستہ کے مطابق کر دئے گے ہیں ۔

روایت کرنے والے صحابی کا نام اختصار کی غرض سے اردو ترجمہ میں ذکر نہیں کیا گیا کیونکہ یہ عربی متن میں مذکور ہے۔

حوالہ جات کی ذمہ داری مترجم کی بجائے مولف پر ہے کیونکہ قلت وقت اور بعض کتب کی عدم دستیابی کے باعث حوالہ جات کی پڑتال ممکن نہ ہو سکی ۔ تاہم بعض حوالہ جات کی پڑتال پر انہیں بالکل درست پایا گیا ۔ اس کے باوجود کسی تسامح کی نشاندہی پر شکر گزار ہوں گے ۔


بِسْمِ اﷲِ الرَّحْمَنِ الرَّحِیْمِ
اِنَّ الْحَمْدَ ﷲِ نَحْمَدُہٗ وَ نَسْتَعِیْنُہٗ وَ نَسْتَغْفِرُہٗ، وَنَعُوْذُ بِاﷲِ مِنْ شُرُوْرِ اَنْفُسِنَا وَ سَیِّئَاتِ اَعْمَالِنَا، مَنْ یَھْدِاﷲُ فَلَا مُضِلِّ لَہٗ ، وَمَنْ یَضْلِلْ فَلَا ھَادِیَ لَہٗ ، وَاَشْہَدُ اَنْ لاَّ اِلٰہَ اِلَّا اﷲُ وَحْدَہٗ لاَ شَرِیْکَ لَہٗ وَاَشْہَدُ اَنَّ مُحَمَّدًا عَبْدُہٗ وَ رَسُوْلُہٗ ۔
{یٰاَیُّھَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا اتَّقُوا اﷲَ حَقَّ تُقَاتِہٖ وَلَا تَمُوْتُنَّ اِلاَّ وَ اَنْتُمْ مُسْلِمُوْنَ }

{یٰاَیُّھَا النَّاسْ اتَّقُوْا رَبَّکُمُ الَّذِیْ خَلَقَکُمْ مِنْ نَّفْسٍ وَّاحِدَۃٍ وَخَلَقَ مِنْھَا زَوْجَھَا وَبَثَّ مِنْھَمَ رِجَالاً کَثِیْرًا وَّ نِسَائً ، وَاتَّقُوْاﷲَ الَّذِیْ تَسَآئَ لُوْنَ بِہٖ وَالاَرْحَامَ ، اِنَّ اﷲَ کَانَ عََلَیْکُمْ رَقِیْبًا }

{یَآیُّھَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا تَّقُوْا اﷲَ وَقُوْلُوْا قَوْلاً سَدِیْدًا یُّصْلِحْ لَکُمْ اَعْمَالَکُمْ وَیَغْفِرْلَکُمْ وَمَنْ یُّطِعِ اﷲِ وَرَسُوْلَہٗ فَقَدْ فَازَ فَوْزًا عَظِیْمًا }

اَمَّابَعْدُ :

معلوم ہو چاہئے کہ نماز اللہ عزوجل کی اپنے بندوں پر معراج میں فرض کردہ سب سے بڑی فعلی عبادت ہے ۔ نماز پر فرض ٹھہرائے جانے کی طرح ہم سے پہلی امتوں پر بھی فرض کی گئی ہے ۔

اللہ عزوجل نے اس عبادت کے ایک جزء سجدہ کے ساتھ فرشتوں کا امتحان لیا، اطاعت کرتے ہوئے سجدہ کرنے والے فطرت یعنی اسلام پر قائم رہے ۔ نافرمانی کرنے والا ابلیس تکبر کی بناء پر سجدہ کرنے سے انکاری ہوا اور کافروں میں گردانا گیا ۔

یوںیہ عبادت ایمان اور کفر ، اسلام اور شرک نیز دینداری اور بے دینی کے درمیان ایک نمایا ں علامت بن چکی ہے ۔ کیونکہ نماز کی ادئیگی سے انسان مومن، ترک کرنے سے کافر ہو جاتا ہے ۔

اللہ عزوجل ، کے علاوہ کوئی معبود برحق نہیں ، اس ذات کا لا الہ الا اﷲ کے ساتھ اقرار کرنے والے بندے کو ادائیگی کے اعتبار سے مکلف ٹھہرائی جانے والی سب سے پہلی عبادت نماز ہے ۔

اللہ کے علاوہ اور کوئی معبو د نہیں ، زبان سے اقرار کرنے والے انسان پر نماز کے فرض ہونے کے باوجود اس کااللہ عزوجل کے سامنے رکوع اور سجدہ نہ کرنا ، کلمہ توحید کی حقیقت کو نہ سمجھنے پر لالت کرتا ہے ۔ کلمہ توحید کی حقیقت کو نہ سمجھنے والے انسان کو اس کا صرف زبانی اقرار کچھ بھی فائدہ نہیں دیتا ہے ۔

کلمہ توحید کے بعد نماز سب سے پہلی حکمی عبادت ہے ۔ دین کی بقا بھی اسی پر ہے ۔ اور دین میں پہلی کی طرح آخری عبادت بھی یہی ہے ۔ اس لئے ’’نماز ترک کرنے والے کا کوئی دین باقی نہیں رہتا ہے ‘‘ کیونکہ کوئی بھی آسمانی دین ایسا نہیں ہے جس میں نماز نہ ہو ۔

اصحاب رسول بھی ’’نماز کے علاوہ کوئی عبادت کے ترک کرنے کو کفرنہیں گردانتے تھے ‘‘

نماز کا دین میں یہ عظیم مقام ایک خاص اہمیت کا متقاضی ہونے کے باوجود اہل علم نے اسے مطلوبہ اہمیت نہ دی اور ہر آنے والی نسل اس عظیم عبادت کے بارے میں غفلت کا شکار ہوتی چلی گئی ۔

آخر ہمارے زمانے میں نوبت یہاں تک پہنچ گئی ہے کہ ’’تارک نماز تو مسلمان ہے ‘‘ اور ترک نماز کی مذمت میں وراد شدہ احادیث پر بحث کرنا علماء کی چھوڑی ہوئی آراء کے مخالف ہونے کی بناء پر الٹا گردانا جار ہا ہے ۔ کیونکہ گذشتہ علماء نے اس امت کے تارک نماز کو کافر ، مشرک ، بے ایمان اور بے دین ہونے کے بارے میں نہیں کہا ہے ۔ اس لئے اپنے آپ کو مسلمان سمجھنے والی ہزاروں انسان اور بظاہر کتاب و سنت کے داعی حضرات بھی اس حقیقت کو سنتے ہی چیخنا چلانا شروع کردیتے ہیں اور اس کو ماننے سے انکار کرتے ہیں ۔ اور کہتے ہیں کہ یہ لوگ کہاں سے نکل آئے ہیں ہم نے تو اپنے برزگوں اور عالموں سے ایسی کوئی بات نہیں سنی ہے ۔

اسی بناء پر اس صورت حال کو برداشت نہ کرتے ہوئے اس عاجز نے ’’ اسلام میں ترک نماز کا حکم ‘‘ کے عنوان کے تحت مسئلے کو ناقابل اعتراض بیان کے ساتھ اس رسالہ کو تالیف کرنے کی نیت کی ہے ۔ ابھی تک اس مسئلے کے تمام پہلوؤں پر حاوی کوئی رسالہ عربی اور نہ ہی ترکی میں تالیف کیا گیا ہے ۔

ہماری یہ جرأت کوئی بہت زیادہ علم ہونے کی بناء پر نہیں ہے ۔ اس رسالے کے قاری دیکھیں گے کہ ہم نے نصوص نقل کرنے کے علاوہ کچھ نہیں کیا ہے ۔ ہمیں امید ہے کہ ہماری یہ عاجزانہ کاوش مستقبل میں ہمارے بھائیوں میں شوق ورغبت پیدا کرے گی ۔ اور اس مسئلے کے بارے میں مزید توجہ دیتے ہوئے اہل علم بڑی بڑی کتابیں تالیف فرمائیں گے ۔

ہم اپنے قارئین کی اطلاع کے لئے عرض گذار ہیں کہ پیغمبر کے علاوہ بشر ہونے کے ناطے کوئی بھی عن الخطاء نہی ہے۔ اسی حوالے سے ہمارے قاری محترم اس چھوٹے سے رسالے میں بھی علمی اور نقلی خطائیں پائیں گے ۔ ہم ان خطاؤں کی رب العالمین سے معافی چاہتے ہیں اور آپ سے ضروری تنقید اور خطاؤں پر آگاہی کے منتظر ہیں ۔

محمد ابو سعید الیاربوزی
22رمضان ، 1404ھ
 

ساجد تاج

فعال رکن
شمولیت
مارچ 09، 2011
پیغامات
7,174
ری ایکشن اسکور
4,517
پوائنٹ
604
اختصار ات



مؤلف ہذا فضیلۃ الشیخ محمد ابو سعیدالیاربوزی حفظہ اللہ تعالیٰ نے حوالہ جات میں اختصارات سے کام لیتے ہوئے درج ذیل انداز اپنایا ہے ۔

بخاری و مسلم کی روایات کو صحیح تسلیم کرتے ہوئے صحت حدیث کا حکم درج کرنے کی ضرورت محسوس نہیں کی گئی۔

صحیحین کے علاوہ دیگر کتب سے حوالہ جات بیان کرتے ہوئے صحت حدیث کا حکم بھی بیان کر دیا ہے تاکہ حدیث کے بارے اطمینان حاصل ہو ۔

ہم نے بخاری ، مسلم ، ترمذی ، نسائی ، ابن ماجہ کی روایات کے نمبر مکتبہ دارلسلام ، ریاض کی طرف سے ایک جلد میں مطبوع ستہ کے مطابق کر دئے گے ہیں ۔

روایت کرنے والے صحابی کا نام اختصار کی غرض سے اردو ترجمہ میں ذکر نہیں کیا گیا کیونکہ یہ عربی متن میں مذکور ہے۔

حوالہ جات کی ذمہ داری مترجم کی بجائے مولف پر ہے کیونکہ قلت وقت اور بعض کتب کی عدم دستیابی کے باعث حوالہ جات کی پڑتال ممکن نہ ہو سکی ۔ تاہم بعض حوالہ جات کی پڑتال پر انہیں بالکل درست پایا گیا ۔ اس کے باوجود کسی تسامح کی نشاندہی پر شکر گزار ہوں گے ۔


بِسْمِ اﷲِ الرَّحْمَنِ الرَّحِیْمِ
اِنَّ الْحَمْدَ ﷲِ نَحْمَدُہٗ وَ نَسْتَعِیْنُہٗ وَ نَسْتَغْفِرُہٗ، وَنَعُوْذُ بِاﷲِ مِنْ شُرُوْرِ اَنْفُسِنَا وَ سَیِّئَاتِ اَعْمَالِنَا، مَنْ یَھْدِاﷲُ فَلَا مُضِلِّ لَہٗ ، وَمَنْ یَضْلِلْ فَلَا ھَادِیَ لَہٗ ، وَاَشْہَدُ اَنْ لاَّ اِلٰہَ اِلَّا اﷲُ وَحْدَہٗ لاَ شَرِیْکَ لَہٗ وَاَشْہَدُ اَنَّ مُحَمَّدًا عَبْدُہٗ وَ رَسُوْلُہٗ ۔
{یٰاَیُّھَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا اتَّقُوا اﷲَ حَقَّ تُقَاتِہٖ وَلَا تَمُوْتُنَّ اِلاَّ وَ اَنْتُمْ مُسْلِمُوْنَ }

{یٰاَیُّھَا النَّاسْ اتَّقُوْا رَبَّکُمُ الَّذِیْ خَلَقَکُمْ مِنْ نَّفْسٍ وَّاحِدَۃٍ وَخَلَقَ مِنْھَا زَوْجَھَا وَبَثَّ مِنْھَمَ رِجَالاً کَثِیْرًا وَّ نِسَائً ، وَاتَّقُوْاﷲَ الَّذِیْ تَسَآئَ لُوْنَ بِہٖ وَالاَرْحَامَ ، اِنَّ اﷲَ کَانَ عََلَیْکُمْ رَقِیْبًا }

{یَآیُّھَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا تَّقُوْا اﷲَ وَقُوْلُوْا قَوْلاً سَدِیْدًا یُّصْلِحْ لَکُمْ اَعْمَالَکُمْ وَیَغْفِرْلَکُمْ وَمَنْ یُّطِعِ اﷲِ وَرَسُوْلَہٗ فَقَدْ فَازَ فَوْزًا عَظِیْمًا }

اَمَّابَعْدُ :

معلوم ہو چاہئے کہ نماز اللہ عزوجل کی اپنے بندوں پر معراج میں فرض کردہ سب سے بڑی فعلی عبادت ہے ۔ نماز پر فرض ٹھہرائے جانے کی طرح ہم سے پہلی امتوں پر بھی فرض کی گئی ہے ۔

اللہ عزوجل نے اس عبادت کے ایک جزء سجدہ کے ساتھ فرشتوں کا امتحان لیا، اطاعت کرتے ہوئے سجدہ کرنے والے فطرت یعنی اسلام پر قائم رہے ۔ نافرمانی کرنے والا ابلیس تکبر کی بناء پر سجدہ کرنے سے انکاری ہوا اور کافروں میں گردانا گیا ۔

یوںیہ عبادت ایمان اور کفر ، اسلام اور شرک نیز دینداری اور بے دینی کے درمیان ایک نمایا ں علامت بن چکی ہے ۔ کیونکہ نماز کی ادئیگی سے انسان مومن، ترک کرنے سے کافر ہو جاتا ہے ۔

اللہ عزوجل ، کے علاوہ کوئی معبود برحق نہیں ، اس ذات کا لا الہ الا اﷲ کے ساتھ اقرار کرنے والے بندے کو ادائیگی کے اعتبار سے مکلف ٹھہرائی جانے والی سب سے پہلی عبادت نماز ہے ۔

اللہ کے علاوہ اور کوئی معبو د نہیں ، زبان سے اقرار کرنے والے انسان پر نماز کے فرض ہونے کے باوجود اس کااللہ عزوجل کے سامنے رکوع اور سجدہ نہ کرنا ، کلمہ توحید کی حقیقت کو نہ سمجھنے پر لالت کرتا ہے ۔ کلمہ توحید کی حقیقت کو نہ سمجھنے والے انسان کو اس کا صرف زبانی اقرار کچھ بھی فائدہ نہیں دیتا ہے ۔

کلمہ توحید کے بعد نماز سب سے پہلی حکمی عبادت ہے ۔ دین کی بقا بھی اسی پر ہے ۔ اور دین میں پہلی کی طرح آخری عبادت بھی یہی ہے ۔ اس لئے ’’نماز ترک کرنے والے کا کوئی دین باقی نہیں رہتا ہے ‘‘ کیونکہ کوئی بھی آسمانی دین ایسا نہیں ہے جس میں نماز نہ ہو ۔

اصحاب رسول بھی ’’نماز کے علاوہ کوئی عبادت کے ترک کرنے کو کفرنہیں گردانتے تھے ‘‘

نماز کا دین میں یہ عظیم مقام ایک خاص اہمیت کا متقاضی ہونے کے باوجود اہل علم نے اسے مطلوبہ اہمیت نہ دی اور ہر آنے والی نسل اس عظیم عبادت کے بارے میں غفلت کا شکار ہوتی چلی گئی ۔

آخر ہمارے زمانے میں نوبت یہاں تک پہنچ گئی ہے کہ ’’تارک نماز تو مسلمان ہے ‘‘ اور ترک نماز کی مذمت میں وراد شدہ احادیث پر بحث کرنا علماء کی چھوڑی ہوئی آراء کے مخالف ہونے کی بناء پر الٹا گردانا جار ہا ہے ۔ کیونکہ گذشتہ علماء نے اس امت کے تارک نماز کو کافر ، مشرک ، بے ایمان اور بے دین ہونے کے بارے میں نہیں کہا ہے ۔ اس لئے اپنے آپ کو مسلمان سمجھنے والی ہزاروں انسان اور بظاہر کتاب و سنت کے داعی حضرات بھی اس حقیقت کو سنتے ہی چیخنا چلانا شروع کردیتے ہیں اور اس کو ماننے سے انکار کرتے ہیں ۔ اور کہتے ہیں کہ یہ لوگ کہاں سے نکل آئے ہیں ہم نے تو اپنے برزگوں اور عالموں سے ایسی کوئی بات نہیں سنی ہے ۔

اسی بناء پر اس صورت حال کو برداشت نہ کرتے ہوئے اس عاجز نے ’’ اسلام میں ترک نماز کا حکم ‘‘ کے عنوان کے تحت مسئلے کو ناقابل اعتراض بیان کے ساتھ اس رسالہ کو تالیف کرنے کی نیت کی ہے ۔ ابھی تک اس مسئلے کے تمام پہلوؤں پر حاوی کوئی رسالہ عربی اور نہ ہی ترکی میں تالیف کیا گیا ہے ۔

ہماری یہ جرأت کوئی بہت زیادہ علم ہونے کی بناء پر نہیں ہے ۔ اس رسالے کے قاری دیکھیں گے کہ ہم نے نصوص نقل کرنے کے علاوہ کچھ نہیں کیا ہے ۔ ہمیں امید ہے کہ ہماری یہ عاجزانہ کاوش مستقبل میں ہمارے بھائیوں میں شوق ورغبت پیدا کرے گی ۔ اور اس مسئلے کے بارے میں مزید توجہ دیتے ہوئے اہل علم بڑی بڑی کتابیں تالیف فرمائیں گے ۔

ہم اپنے قارئین کی اطلاع کے لئے عرض گذار ہیں کہ پیغمبر کے علاوہ بشر ہونے کے ناطے کوئی بھی عن الخطاء نہی ہے۔ اسی حوالے سے ہمارے قاری محترم اس چھوٹے سے رسالے میں بھی علمی اور نقلی خطائیں پائیں گے ۔ ہم ان خطاؤں کی رب العالمین سے معافی چاہتے ہیں اور آپ سے ضروری تنقید اور خطاؤں پر آگاہی کے منتظر ہیں ۔

محمد ابو سعید الیاربوزی
22رمضان ، 1404ھ
 

ساجد تاج

فعال رکن
شمولیت
مارچ 09، 2011
پیغامات
7,174
ری ایکشن اسکور
4,517
پوائنٹ
604
تارک نماز کا مشرک ہونا
اِلَیْہِ وَاتَّقُوْہٗ وَاَقِیْمُوا الصَّلٰوۃَ وَلاَ تَکُوْنُوْا مِنَ الْمُشْرِکِیْنَ (الروم 30:31)
'' بالکل اللہ کی طرف رخ کرتے ہوئے اس کی اطاعت کرو ، اسی سے ڈرو، نماز ادار کرو اور مشرکوں میں سے نہ ہو جاؤ''۔​
فَاِذَا انْسَلَخَ الاَ شْہُرُمُ فَاقْتُلُوْا المُشْرِکِیْنَ حَؤْثُ وَجَدْ نُّمُوْھُمْ وَ خَذُوْھُمْ وَاحْصُرُھُمْ وَاقْعُدُوْ الَھُمْ کُلَّ مَرْصَدٍ فَاِنْ تَابُوْا وَاَقَامُوْا الصَّلٰوۃَ وَاٰتُوْا الزَّکٰوۃَ فَخَلُّوْا سَبِیْلَھُمْ اِنَّ اﷲَ غَفُوْرٌ رَّّحِیْمٌ (التوبۃ 9:5)
'' حرمت والے مہینے گزرنے پر ، ان مشرکوں کو جہاں بھی پاؤ انہیں قتل کرو، انہیں پکڑو اور قید کرو، ان کی تا ک میں ہر گھات میں بیٹھو ۔ اگر توبہ کریں ، نماز پڑھیں اور زکوٰۃ دیں تو انہیں آزاد چھوڑ دو ۔ بے شک اللہ تعالیٰ غفور رحیم ہے '' ۔​
اللہ سبحانہ و تعالیٰ نے رسول اللہ ﷺ اور اہل ایمان کو خطاب کرتے ہوئے فرمایا ہے کہ حرمت والے مہینے گزرنے پر مشرکین سے قتال کرتے ہوئے انہیں موت کے گھاٹ اتارتے چلے جاؤ ۔ انہیں قید کرنے ، ان کی عورتیں اور بچے بھی اسیر کرنے اور ان کے مال ، مال غنیمت ٹھہراتے ہوئے ( مسلمانوں کے لئے ) حلا ل قرار دئیے ہیں ۔ لیکن ساتھ ہی مذکور ہ بالا سب صورتوں سے نجات پانے کی تین شرائط ذکر کردی ہیں ۔​
1۔ شرک سے رجوع کرتے ہوئے توبہ کرنا یعنی کلمہ شہادت کا زبانی اقرار کرنا ۔​
2۔ نماز اداکرتے ہوئے کردہ توبہ کی عمل سے تصدیق کرنا۔​
3۔ زکوٰۃ ادا کرنا ۔​
یہ تین شرائط پوری کرتے ہی ان کے مال اور جانیں مسلمانوں پر حرام ہوجاتی ہیں کیونکہ اب وہ مسلمان ہو چکے ہیں ۔​
عَنْ اَبِیْ سُفْیَانَ قَالَ : سَمِعْتُ جَابِرًا یَّقُوْلُ : سَمِعْتُ النَّبِیَّﷺ یَقُوْلُ : ''اِنَّ بَیْنَ الرَّجُلِ وَبَیْنَ الشِّرْکِ وَالْکُفْرِ تَرْکَ الصَّلَاۃِ ''۔
رسو ل اللہ ﷺ نے فرمایاکہ : ''بندے کے کفر اور ایمان کے درمیان (فرق کرنے والی ) شے نماز ہے ، اسے ترک کرنے پر (بندہ) شرک کا مرتکب ہو جاتا ہے ''۔​
(یہ حدیث ھبۃ اللہ الطبری نے اصول السنہ (۱۵۲۱) میں صحیح سند سے روایت کی ہے علامہ البانی رحمہ اللہ نے صحیح ترغیب میں تخریج کی ہے )
مذکورہ بالا آیات اور احادیث '' تارک نماز کے اللہ کے ساتھ شرک کر کے مشرک قرار پنانے '' پر واضح دلائل ہیں ۔​
اللہ سبحانہ وتعالیٰ اپنے ساتھ شریک ٹھہرانے والوں کو معاف نہ کرنے کی (یوں) خبر دے رہے ہیں ۔​
اِنَّ اﷲَ لَا یَغْفِرُ اَنْ یُّشْرَکَ بِہٖ وَ یَغْفِرْ مَا دُوْنَ ذٰلِکَ لِمَنْ یَّشَائُ وَمَنْ یَّشْرِکُ بِاﷲِ ضَلَّ ضَلاَ لاً بَّعِیْدًا (النساء 4:116)
'' بلا شک و شبہ اللہ تعالیٰ اپنے ساتھ شریک ٹھہرانے والوں کو معاف نہیں کرے گا ۔ اس گناہ (شرک ) کے علاوہ جس (گناہ ) سے چاہے گا معاف کردے گا ۔ جو کوئی اللہ کے ساتھ شریک ٹھہراتا ہے تحقیق وہ سیدھے راستے سے دور کی گمراہی میں جا پڑتا ہے ''۔​
ایک اور آیت جلیلہ میں بھی (اللہ تعالیٰ) نے اپنے ساتھ شریک ٹھہرانے والوں کے ابدی جہنمی ہونے کی خبر دی ہے ۔
اِنَّہُ مَنْ یَّشْرِکْ بِاﷲِ فَقَدْ حَرَّمَ اﷲُ عَلَیْہِ الْجَنَّۃَ وَمَاْوَہُ النَّارُ وَمَا لِلظّٰلِمِیْنَ مِنْ اَنْصَارٍ (المائدہ 5:72)
'' بلاشبہ جس آدمی نے اللہ کا شریک ٹھہرایا ، اللہ نے اس پر جنت حرام کر دی ہے ۔ اس کا ٹھکانہ جہنم ہے اور ظالموں کو کوئی مددگار نہیں ہے '' ۔​
اس باب کی آیات اور احادیث سے ثابت شدہ احکام کا خلاصہ یہ ہے ۔​
1۔ تارک نماز کا اللہ کے ساتھ شریک ٹھہرانا ۔​
2۔ مشرک کی بالکل بخشش نہ ہو نا ۔​
3۔ بخشنے نہ جانے والے مشرک کا ابدی طور پر جہنم میں رہنا۔​
 

ساجد تاج

فعال رکن
شمولیت
مارچ 09، 2011
پیغامات
7,174
ری ایکشن اسکور
4,517
پوائنٹ
604
تارک نماز کا بے دین ہونا
عَنِ ابْنِ عُمَرَ قَالَ : قَالَ رَسُوْلُ اﷲِ ﷺ : ''...لاَ دِیْنَ لِمَنْ لاَّ صَلاَۃَ لَہُ...''
رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : '' جس کی نماز نہیں اس کا کوئی دین نہیں '' ۔​
یہ حدیث طبرانی ، المعجم الصغیر (۶۰) میں حسن سید سے مروی ہے ۔
عَنْ عُمَرَ بْنِ الْخَطَّابِ قَالَ : جَائَ رَجُلً فَقَالَ : جَائَ رَجُلً فَقَالَ : یَارَسُوْلَ اﷲِ اَیُّ شَیْئٍ عِنْدَ اﷲِ فِیْ الاَسْلَامِ ؟ قَالَ : '' الصَّلاَۃُ لِوَقْتِھَا ، وَمَنْ تَرَکَ الصَّلاَۃَ فَلاَ دِیْنَ لَہُ...''
ایک آدمی نے آکر ( رسول اللہ ﷺ نے ) پوچھا : اے اللہ کے رسول ! اللہ کے ہاں اسلام میں (سب سے افضل ) کیا ہے ؟ آپ ﷺ نے فرمایا : وقت پر نماز ادا کرنا کیونکہ تارک نماز کا کوئی دین نہیں ...​
یہ حدیث بیہقی نے شعب الایمان میں روایت کی ہے ۔ الکنز(۲۱۶۱۸)
عَنِ ابْنِ مَسْعُوْدٍ قَالَ : '' مَنْ تَرَکَ الصَّلَاۃَ فَلاَ دِیْنَ لَہُ '' ۔
سیدنا عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ نے فرمایا: '' جس نے نماز ترک کی اس کا دین (باقی ) نہیں ہے '' ۔​
یہ اثر ابنابی شیبہ کی مصنف (۱۰۴۴۶) ، ایمان (۴۷) کے علاوہ المعجم الکبیر للطبرانی (۸۹۴۲) ، محمد ابن نصر کی کتاب الصلوٰۃ (۹۳۵) اوربیہقی کی شعب الایمان (۴۲) میں مروی ہے ، علامہ البانی رحمہ اللہ نے صحیح ترغیب میں تخریج کی ہے ۔​
عَنْ عَبْدِ اﷲِ بْنِ عَمْرٍ وَقَالَ : '' مَنْ تَرَکَ الصَّلَاۃَ لاَ دِیْنَ لَہُ ''
سیدنا عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ نے فرمایا: ''تارک نماز کا کوئی دین نہیں ہے '' ۔
یہ اثر امام بخاری رحمہ اللہ کی التاریخ الکبیر (۷/۹۵) میں مروی ہے ۔​
 

ساجد تاج

فعال رکن
شمولیت
مارچ 09، 2011
پیغامات
7,174
ری ایکشن اسکور
4,517
پوائنٹ
604
تارک نماز کا بے ایمان ہونا
عَنْ اَبِی الدّرَدَائِ قَالَ : ''...لاَ اِیْمَانَ لِمَنْ لاَّ صَلاَۃَ لَہُ ''۔
سیدنا ابودرداء رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں : ''بے نماز کا کوئی ایمان نہیں ہے''۔​
یہ اثر ھبۃ اللہ الطبری کی اصول السنہ (۱۵۳۶) ، محمد ابن نصر کی کتاب
الصلوٰۃ (۹۵۴) اور علامہ ابن عبدالبر کی التمہید (۴/۲۲۵) ، میں حسن سند سے مروی ہے ۔ علامہ البانی رحمہ اللہ نے صحیح ترغیب (۵۷۴) میں تخریج کی ہے ۔​
 

ساجد تاج

فعال رکن
شمولیت
مارچ 09، 2011
پیغامات
7,174
ری ایکشن اسکور
4,517
پوائنٹ
604
تارک نماز کا اسلام میں کوئی حصہ نہیں
عَنْ عُمَرَ بْنِ الْخَطَّابِ قَالَ : '' لاَ حَظَّ فِی الاَسْلاَمِ لِمَنْ تَرَاکَ الصَّلاَۃَ '' ۔
سیدنا عمر رضی اللہ عنہ نے فرمایا: '' تارک نماز کا اسلام میں کوئی حصہ نہیں ۔​
یہ اثر امام مالک (۱/۴۰) ، سنن دارقطنی (۲/۵۲) ، مصنف عبدالرزاق(۵۰۱۰) مصنف ابن ابی شیبہ (۰۱۴۱۰)، کتاب الایمان لابن ابی شیبہ (۱۰۳) اور آجری کی شریعہ (۱۳۴) میں صحیح سند سے مروی ہے​
 

ساجد تاج

فعال رکن
شمولیت
مارچ 09، 2011
پیغامات
7,174
ری ایکشن اسکور
4,517
پوائنٹ
604
تارک نماز کا ملت اسلامیہ سے خارج ہونا
عَنْ عُبَادَۃَ بْنِ الصَّامِتِ قَالَ : اَوْصَانَا رَسُوْلُ ﷲِ ﷺ فَقَالَ : '' لاَ تُشْرِکُوْا بِاﷲِ شَیْئًا ، وَلاَ تَتْرُکُوْا الصَّلَاۃَ عَمَدًا ، فَمَنْ تَرَکَھَا عَمَدًا مُتَعَمِّدًا فَقَدْ خَرَجَ مِنَ الْمِلَّۃِ '' ۔
رسول اللہ ﷺ نے بطور وصیت فرمایا : '' کسی کو بھی اللہ تعالیٰ کا شریک نہ ٹھہراؤ ، قصداً نماز ترک نہ کرو ، جس کسی نے جانتے بوجھتے قصداً نماز ترک کی وہ ملت اسلامیہ سے نکل گیا '' ۔​
یہ حدیث محمد ابن نصر کی کتاب الصلوٰۃ (۹۲۰) اور ھبۃ اللہ الطبری کی السنۃ (۱۵۲۳) میں مروی ہے ۔​
عَنْ یَزِیْدَ بْنِ اَبِی مَرْیَمَ قَالَ : مَرَّعُمْرُ بِمُعَاذِ بْنِ جَبَلٍ ، فَقَالَ : مَافِوَامْ ھٰذِہِ الاُمَّۃِ؟ قَالَ مُعَاذٌ : ثَلَاثٌ ، وَہُنَّ الْمُنَجِِّیَاتُ : اَلاِخْلاَصُ ، وھُوَالْفِطْرَۃُ {فِطْرَتَ اﷲِ الَّتِیْ فَطَرَالنَّاسَ عَلَیْھَا} وَ الصَّلاَۃُ : وَھِیَ الْمِلَّۃُ ۔ وَ الطیَّاعَۃُ : وَھِیَ الْعِصْمَۃُ ، فَقَالَ عُمَرُ : صَدَقْتَ ۔
سیدنا عمر رضی اللہ عنہ ، سیدنا جبل رضی اللہ عنہ کے پاس سے گزرے اور پوچھا (اے معاذ) اس امت کو پاؤں پر کھڑارکھنے والی چیز کیا ہے ؟ سیدنا معاذ رضی اللہ عنہ نے جواباً فرمایا (اس امت کو پاؤں پر کھڑا رکھنے والی اساس) تین ہیں اور یہی باعث نجات ہیں ۔ 1:اخلاص (توحید) جو کہ اسلام ہے ۔ (جس پر اللہ تعالیٰ نے انسانوں کو پیدا کیا ) 2:نمازجو کہ ملت (دین ) ہے ۔ 3:اطاعت جو کہ عصمت ہے (یعنی خطاؤں سے پاک رکھنے کا ذریعہ ہے ) ۔​
یہ اثر تفسیر طبری (۲۱/۴۰) اور ھبۃ اللہ الطبری کی اصول السنہ (۱۵۳۰) میں مروی ہے ۔​
 

ساجد تاج

فعال رکن
شمولیت
مارچ 09، 2011
پیغامات
7,174
ری ایکشن اسکور
4,517
پوائنٹ
604
تارک نماز سے اللہ کا کوئی عہد وپیمان نہیں
عَنْ اَبِی الدَّرْدَائِ قَالَ: اَوْصَانِیْ خَلِیْلِیْ ﷺ (فَقَالَ): '' لاَتُشْرَِکْ بِاﷲِ شَیْئًا وَاِنْ قُطِّعْتَ وَ حُرِقْتَ وَلاَ تَتْرُکؤ صَلاَۃً مَکْتُوْبَۃً مُتَعَمِّدًا ، فَمَنْ تَرَکَہَا مُتَعَمِّدًا ، فَقَدْ بَرِئَتْ مِنْہُ ذِمَّۃُ اﷲِ '' ۔
رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: '' اللہ عزوجل کا کسی کو شریک نہ ٹھہراؤ ، اگر چہ تیرے ٹکڑے ٹکڑے کر دیئے جائیں یا تجھے جلا دیا جائے ۔ اور فرض نماز کو جانتے بوجھتے ترک نہ کرنا ، جس کسی نے فرض نماز کو جانتے ہوئے ترک کیا اس سے اللہ کا ذمہ بری ہوگیا '' ۔​
یہ حدیث مسند احمد (۵/۲۳۸) ، ابن ماجہ (۴۰۳۴)، المعجم الکبیر للطبرانی (۲۰/۲۳۳)، ھبۃ اللہ الطبری کی اصول السنہ (۱۵۴۲) اور محمد ابن نصر کی کتاب الصلوٰۃ (۹۱۱) میں حسن سند سے مروی ہے ، علامہ البانی رحمہ اللہ نے صحیح ابن ماجہ (۳۲۵۹) میں تخریج کی ہے ۔​
 

ساجد تاج

فعال رکن
شمولیت
مارچ 09، 2011
پیغامات
7,174
ری ایکشن اسکور
4,517
پوائنٹ
604
تارک نماز کا متکبر ہونے کے سبب جنت میں داخل نہ ہو نا
اِنَّمَا یُؤْمِنُ بِاٰیَاتِنَا الَّذِیْنَ اِذّاذُکِرُوْا بِھَا خَریُّوَا سُجَّدًا وَّ سُبَّحُوْا بِحَمْدِ رَبِّھِمْ وَھُمْ لاَ یَسْتَکْبِرُوْنَ (سجدہ : 32:51)
''ہماری آیات پر بعض لوگ یوں ایمان لائے کہ جب انہیں ان (آیات) کے ساتھ وعظ کیا جاتا ہے توت وہ سجدے میں گر پڑتے اور اپنے رب کی حمد کے ساتھ تسبیح کرتے ہیں اور وہ تکبر نہیں کرتے ہیں '' ۔​
اللہ سبحانہ و تعالیٰ نے اس آیت میں اپنی آیات پر ایمان لانے والے لوگوں کی شان بیان فرمائی ہے کہ قرآن کریم ﷺ کی آیات کے ساتھ جب انہیں وعظ کیا جاتا ہے مثلاً​
قُلْ لِعِبَادِیَ الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا یُقِیْمُوْا الصَّلٰوۃَ (ابراہیم 41:31)
'' اے میرے رسول ! ایمان لانے والے میرے بندوں کو کہہ دیجیئے کہ نماز قائم کریں '' ۔​
مذکورہ بالا آیت یا اس قسم کی دیگر آیات پر ایمان رکھنے والے وعظ کئے جانے بر ''تکبر نہ کرتے ہوئے دن میں پانچ وقت اپنے رب کے سامنے سجدہ ریز ہوتے ہیں اس کی حمد اور تسبیح کرتے ہیں '' ۔​
تکبر کرنے ہوئے نافرمانی کرکے آیات کو جھٹلانے والوں کے بارے ارشاد باری تعالیٰ ہے :​
وَاِذّاقُرِیئَ عَلَیْہِمْ الْقُرْاٰنُ لاَ یَسْجُدُوْنَ بَلِ الَّذِیْنَ کَفَرُوْا یُکَذِّبُوْنَ (الانشقاق:84:21)
'' جب ان پر قرآن (یعنی ''نماز قائم کرو''کا حکم ) پڑھا جاتا ہے تو سجدہ نہیں کرتے (یعنی نماز نہیں پڑھتے ہیں ) بلکہ صحیح بات یہ ہے کہ یہ کافر لوگ (انکار نمازاور عذاب الہٰی سے نہ ڈرتے ہوئے آخرت کی ) تکذیب کرتے ہیں '' ۔​
وَاِذَا قِیْلَ لَھُمْ لاَ یَرْکَعُوْنَ o وَیْلٌ یَّوْمَئِذٍ لِّلْمُکَذِّبِیْنَ (المرسلات77:48,49)
'' انہیں جب کہا جاتا ہے کہ رکوع کرو (یعنی ''نماز پڑھو'') تو (اطاعت کرتے ہوئے ) رکوع نہیں کرتے (یعنی نماز نہیں پڑھتے ہیں ) (نماز ادا نہ کرتے ہوئے ، اللہ کے احکام کو ) جھٹلانے والوں کے لئے اس دن (یعنی قیامت کے دن ) ویل (ہلاکت یا جہنم ) ہے '' ۔​
اللہ سبحانہ و تعالیٰ نے سیدنا آدم علیہ السلام کے حوالے سے امتحان کی خاطر ، فرشتوں سے یوں خطاب فرمایا:​
وَاِذْ قُلْنَا لِلْمَلٰئِکَۃِ اسْجُدُوْا لِاٰدَمَ فَسَجَدُوْا اِلاَّ اِبْلِیْسَ اَبٰی وَ اسْتَکْبَرَ وَ کَانَ مِنَ الْکَافِرِیْنَ (البقرۃ:2:34)
''ہم نے جب فرشتوں کو کہا ;کہ آدم کو سجدہ کرو تو سبھی فرشتوں نے سجدہ کیا صرف ابلیس نے سجدہ کرنے سے منہ پھیرا ، تکبر کیا اور کافروں میں سے ہوگیا '' ۔​
ابلیس کے اس عصیان کی انسانوں سے مثال دینے پر حیران نہ ہوں کیونکہ رسو ل اللہ ﷺ سے مروی ایک حدیث پاک نے جرأت بخشی ہے ۔ صحیح مسلم میں '' باب بیان اطلاق اسمالکفر علی من تراک الصلاۃ '' (باب جو نماز ترک کرے اس کے کفر کا بیان ) اس باب کے تحت درج ذیل حدیث ہے ۔​
''عَنْ اَبِیْ ھُرَیْرَۃَ، قَالَ: قَالَ رَسُوْلُ اﷲِ ﷺ: '' اِذَاقَرَأابْنُ اٰدَمَ السَّجْدَۃَ فَسَجَدَ، اِعْتَزَلَ الشَّیْطَانُ یَبْکِیْ ۔ یَقُوْلُ: یَا وَیْلِیْ اُمِرَ ابْنُ اٰدَمَ ابْنُ اٰدَمَ بِالسُّجُوْدِ فَسَجَدَ فَلَہُ الْجَنَّۃُ۔ وَأمِرْتُ بِالسُّجُوْدِ فَاَبَیْتُ فَلِیَ النَّارٌ '' ۔
رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ''جب ابن آدم سجدہ کی آیت پڑھتا ہے پھر سجدہ کرتا ہے تو شیطان روتا ہے اور کہتا ہے ہائے میری بربادی ابن آدم کو سجدہ کا حکم ملا اور اس نے سجدہ کیا، جنت اس کی ہوگئی ۔ مجھے بھی سجدہ کا حکم ملا تھا ۔ لیکن میںنے سجدہ کرنے سے انکار کیا (اس نافرمانی پر ) میرے لئے (جہنم کی ) آگ ہے '' ۔​
یہ حدیث مسلم (۲۴۴) نے روایت کی ہے ۔​
اِنَّ الَّذِیْنَ یَسْتَکْبِرُوْنَ عَنْ عِبَادَتِیْ سَیَدْ خُلُوْنَ جَہَنَّمَ دَاخِرِیْنَ (المؤمن23:60)
'' اپنے آپ کو بڑا گردانتے ہوئے جو لوگ میری عبادت سے منہ پھیرتے ہیں ، عنقریب ذلیل و خوار ہوتے ہوئے جہنم رسید ہوں گے ''۔
عَنْ عَبْدِ اﷲِ بْنِ مَسْعُوْدٍ قَالَ: قَالَ رَسُوْلُ اﷲِ ﷺ: '' لاَ یَدْخُلُ النَّارَ اَحَدً فِیْ قَلْبِہٖ مِشْقَالُ حَبَّۃِ خَرْدَلٍ مِنْ اِیْمَانٍ وَلاَ یَدُخُلُ الْجَنَّۃَ اَحَدٌ فِیْ قَلْبِہٖ مِثْقَالٌ حَبَّۃِ خَرْدَلٍ مِنْ کِبْرِیَائَ '' ۔
رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: '' جس آدمی کے دل میں رائی کے ذرے کے برابر ایمان ہوا وہ جہنم میں داخل نہیں ہو سکتا ۔ اور جس آدمی کے دل میں رائی کے ذرے کے برابر تکبر ہوا وہ جنت میں داخل نہیں ہوگا '' ۔​
یہ حدیث مسلم (۲۶۶) نے روایت کی ہے ۔​
 
Top