• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

بے نمازی کی تکفیر؟

حافظ عمران الہی

سینئر رکن
شمولیت
اکتوبر 09، 2013
پیغامات
2,101
ری ایکشن اسکور
1,462
پوائنٹ
344
تارك نماز كے احكام:

صحيح احاديث ميں صراحت كے ساتھ موجود ہے كہ تارك نماز كافر ہے اور اگر ہم حديث كے ظاہر كو ليں جان بوجھ كر عمدا نماز ترك كرنے والے كو وراثت كے سارے حقوق سے محروم كيا جائيگا، اور ان كے ليے قبرستان بھى عليحدہ بنايا جائيگا، اور ان كے ليے رحمت اور سلامتى كى دعاء بھى نہيں كى جائيگى، كيونكہ كافر كے ليے امن و سلامتى نہيں.

ہم يہ مت بھوليں كہ اگر ہم مومن اور غير مومنوں ميں سے نمازى مردوں كا سروے كريں تو چھ فيصد ( 6% ) سے زيادہ نہيں ہو گا، اور خاص كر عورتيں تو اس سے بھى كم.

چنانچہ شريعت اسلاميہ كى اس سلسلہ ميں كيا رائے ہے، اور تارك نماز كو سلام كرنے اور سلام كا جواب دينے كا حكم كيا ہے ؟

الحمد للہ :

جان بوجھ كر عمدا نماز ترك كرنے والا مسلمان اگر نماز كى فرضيت كا انكار نہ كرے تو اس كے حكم ميں علماء كرام كا اختلاف پايا جاتا ہے.

بعض علماء اسے كافر اور دائرہ اسلام سے خارج قرار ديتے ہيں، اور وہ مرتد شمار ہو گا، اس سے تين يوم تك توبہ كرنے كا كہا جائيگا، اگر تو تين دنوں ميں اس نے توبہ كر لى تو بہتر وگرنہ مرتد ہونے كى بنا پر اسے قتل كر ديا جائيگا، نہ تو اس كى نماز جنازہ ادا كى جائيگى، اور نہ ہى اسے مسلمانوں كے قبرستان ميں دفن كيا جائيگا، اور نہ زندہ اور مردہ حالت ميں اس پر سلام كيا جائيگا، اور اس كى بخشش اور اس پر رحمت كى دعا بھى نہيں كى جائيگى نہ وہ خود وارث بن سكتا ہے، اور نہ ہى اس كے مال كا وارث بنا جائيگا، بلكہ اس كا مال مسلمانوں كے بيت المال ميں ركھا جائيگا، چاہے بے نمازوں كى كثرت ہو يا قلت، حكم ايك ہى ہے ان كى قلت اور كثرت سے حكم ميں كوئى تبديلى نہيں ہو گى.

زيادہ صحيح اور راجح قول يہى ہے، كيونكہ رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم كا فرمان ہے:



اور نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم كا يہ بھى فرمان ہے:




اور جمہور علماء كرام كا كہنا ہے كہ اگر وہ نماز كى فرضيت كا انكار كرے تو وہ كافر ہے اور دين اسلام سے مرتد ہے، اس كا حكم وہى ہے جو پہلے قول ميں تفصيل كے ساتھ بيان ہوا ہے.

ليكن اگر وہ مراد اس كى فرضيت كا انكار نہيں كرتا بلكہ وہ سستى اور كاہلى كى بنا پر نماز ترك كرتا ہے تو وہ كبيرہ گناہ كا مرتكب ٹھرے گا، ليكن دائرہ اسلام سے خارج نہيں ہو گا، اسے توبہ كرنے كے ليے تين دن كى مہلت دى جائيگى، اگر تو وہ توبہ كر لے الحمد للہ وگرنہ اسے بطور حد قبل كيا جائيگا كفر كى بنا پر نہيں.

تو اس بنا پر اسے غسل بھى ديا جائيگا، اور كفن بھى اور اس كى نماز جنازہ بھى پڑھائى جائيگى، اور اس كے ليے بخشش اور مغفرت و رحمت كى دعاء بھى كى جائيگى، اور مسلمانوں كے قبرستان ميں دفن بھى كيا جائيگا، اور وہ وراث بھى بنے گا اور اس كى وراثت بھى تقسيم ہو گى، اجمالى طور پر اس پر زندگى اور موت دونوں صورتوں ميں گنہگار مسلمان كا حكم جارى كيا جائيگا.

ماخوذ از: فتاوى اللجنۃ الدائمۃ للبحوث العلميۃ والافتاء ( 6 / 49 ).

http://islamqa.com/ur/2182
جمہور کی رائے تو آپ کے سامنے آہی گئی ۔حدیث میں جہاں کفر کا لفظ آیا ہے وہاں کفر اصغرمراد ہے
 

محمد ارسلان

خاص رکن
شمولیت
مارچ 09، 2011
پیغامات
17,861
ری ایکشن اسکور
41,093
پوائنٹ
1,155
جزاکم اللہ خیرا محترم محمد علی جواد بھائی، محترم عبدہ بھائی اور محترم محمد عامر یونس بھائی
آپ تینوں حضرات کا شکریہ کہ آپ نے اس موضوع پر کچھ علمی نکات پیش کیے۔ بے نمازی کو اگر یہاں تین حصوں میں تقسیم کیا جائے تو کچھ یوں صورتحال بنتی ہے:
(1) وہ بے نمازی جو نماز کی فرضیت کا قائل نہیں۔ نماز کے وجوب کا انکاری ہے۔
(2) وہ بے نمازی جو نماز کی فرضیت کا بالکل قائل ہے لیکن بہت ہی کم نمازیں پڑھتا ہے یا بالکل پڑھتا ہی نہیں۔
(3) وہ بے نمازی جو مستقل نمازیں پڑھتا ہے لیکن کبھی کبھار اس سے نماز رہ جاتی ہے اور وہ یا تو قضا کر لیتا ہے یا بعد میں نوافل پڑھ لیتا ہے، تاکہ کمی پوری ہو سکے اور اپنے نمازیں چھوڑنے پر دل سے شرمندہ بھی ہوتا ہے اور اللہ سے معافی بھی مانگتا رہتا ہے۔

اب ان تین قسموں میں سے پہلی قسم کے لوگ تو بالاتفاق کافر ومرتد ہیں، کیونکہ جس کام کا اللہ تعالیٰ حکم دیں ، بندوں کو کوئی حق نہیں پہنچتا کہ وہ اپنی من مانی کریں اور ببانگ دہل انکار کریں، ایسے لوگ ملت اسلامیہ سے خارج ہیں۔

دوسری قسم کے لوگوں کا معاملہ بھی حد سے زیادہ نازک ہے، لیکن وہ چونکہ فرضیت کے انکاری نہیں، تو ہو سکتا ہے کہ اللہ تعالیٰ ان کو بخش دے، کیونکہ مفہوم حدیث ہے کہ "قیامت کے دن اللہ تعالیٰ ایسے شخص کو بھی جہنم سے نکال لیں گے جس کے دل میں رائی کے برابر ایمان ہو گا"

تیسری قسم کے لوگ بالکل کافر نہیں، بلکہ مسلمان ہیں لیکن نماز رہ جانے کی وجہ سے البتہ گناہ گار ہیں، اور اپنے کیے پر شرمندہ ہوں گے اور استغفار کریں گے تو اللہ تعالیٰ کو معاف کرنے والا پائیں گے۔ ان شاءاللہ

میرے محترم بھائی محمد علی جواد صاحب کیاآپ بھی میری ان تینوں باتوں سے متفق ہیں،اپنا موقف بیان کریں۔ جزاکم اللہ خیرا
 
شمولیت
اگست 11، 2013
پیغامات
17,117
ری ایکشن اسکور
6,783
پوائنٹ
1,069
نماز ميں سستى كرنے والے كو نصيحت:

ميرا ايك دوست ہے اس كا كہنا ہے كہ وہ نماز كو پسند كرتا ہے، ليكن وہ نماز پابندى كے ساتھ ادا نہيں كرتا، بلكہ بعض اوقات لمبى مدت تك نماز ادا ہى نہيں كرتا، اور نہ ہى ميرى نصيحت سنتا ہے، مجھے كيا كرنا چاہيے ؟

الحمد للہ :

اگر تو آپ كا دوست صحيح اور سليم العقل ہے تو پھر اس كے متعلق آپ نے جو كچھ بيان كيا ہے وہ سب عبث اور غلط ہے، اور وہ نماز كو پسند نہيں كرتا اور اسے حقير سمجھتا ہے، كيونكہ اگر وہ اپنے دعوى ميں سچا ہوتا اور اسے نماز سے محبت ہوتى تو وہ نماز ضرور ادا كرتا.

اور اس كا نماز سے محبت كا دعوى بھى جھوٹا اور غير صحيح ہے، كيونكہ اگر اس كا دعوى صحيح ہوتا تو وہ نماز كے ليے جاتا، نماز ميں سستى اور كوتاہى كرنے والے اس شخص كو يہ وعيد سنانى چاہيے جو درج ذيل فرمان بارى تعالى ميں بيان ہوئى ہے:

فرمان بارى تعالى ہے:
﴿ اور پھر ان كے بعد ايسے ناخلف پيدا ہوئے جنہوں نے نماز ضائع كردى اور نفسانى خواہشات كے پيچھے پڑ گئے، چنانچہ وہ عنقريب جہنم ميں ڈاليں جائينگے ﴾ مريم ( 59 ).
اور وہ بالكل نماز ترك كرنے كى بنا پر كافر ہو گا.

كيونكہ رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم كا فرمان ہے:
" ہمارے اور ان كے مابين عہد نماز ہے، چنانچہ جس نے بھى نماز ترك كى اس نے كفر كيا "
سنن ترمذى حديث نمبر ( 2621 ) يہ حديث صحيح ہے


اور ايك دوسرى حديث ميں نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم كا فرمان ہے:
" آدمى اور شرك و كفر كے مابين نماز كا ترك كرنا ہے "
صحيح مسلم حديث نمبر ( 82 ).

اس شخص كا نہ تو ذبح كيا ہوا گوشت كھايا جائيگا، اور نہ وہ كسى مسلمان لڑكى سے شادى كر سكتا ہے، اور نہ ہى وہ اپنے كسى قريبى مسلمان رشتہ دار كا وارث بن سكتا ہے، اور نہ ہى وہ مكہ ميں داخل ہو سكتا ہے، اور جب وہ مر جائے تو اسے نہ تو غسل ديا جائيگا اور نہ ہى كفن، اور نہ ہى اس كى نماز جنازہ ادا كى جائيگى، اور نہ ہى اس كا كوئى وارث ہو گا، بلكہ اس كا مال مسلمانوں كے ليے مال فئي ہے.

اور آپ كو اسے نصيحت كرنے كى كوشش كرتے رہنا چاہيے، اور اسے اس عظيم جرم كى سزا اور اللہ تعالى كے عذاب كى ياد دہانى كراتے رہيں.

اور اگر وہ حجت اور دليل قائم ہو جانے كے بعد بھى اعراض كرتا ہے تو پھر آپ كے ليے اس سے بائيكاٹ كرنے ميں كوئى حرج نہيں، بلكہ آپ كسى ايسے شخص كو تلاش كريں جو آپ كى بات قبول كرے تا كہ آپ اس كے ساتھ اللہ تعالى كے دين كى دعوت ميں وقت صرف كر سكيں.

واللہ اعلم .
الاسلام سوال و جواب


http://islamqa.com/ur/266
 
شمولیت
اگست 11، 2013
پیغامات
17,117
ری ایکشن اسکور
6,783
پوائنٹ
1,069
اذان سنائى ديتى ہے ليكن نماز ادا كرنے نہيں جاتا :

جو شخص اذان بلكہ اقامت بھى سنے اور نماز كے نہ جائے اس كے متعلق كيا حكم ہے ؟

اور صرف نماز جمعہ ادا كرنے والے شخص كا حكم كيا ہے ؟

الحمد للہ :

جو شخص اذان سن كر نماز كے مسجد نہيں جاتا اس كى كوئى نماز نہيں ليكن اگر وہ معذور ہو، مقصد يہ ہے كہ اس كى نماز ناقص ہے، اور وہ نماز باجماعت سے پيچھے رہنے كى بنا پر گنہگار ہے.

ابن مسعود رضى اللہ تعالى عنہما كہتے ہيں:
" اس سے تو منافق شخص ہى پيچھے رہتا ہے، جس كا نفاق معلوم ہو "
صحيح مسلم حديث نمبر ( 654 ).

اور مؤذن كا جواب نہ دينا ضعف ايمان اور نقص دين كى نشانى اور اجر ميں كمى اور اللہ تعالى كے گھر مساجد كو ترك كرنے كى علامت ہے.

اور جو شخص صرف نماز جمعہ ہى ادا كرتا ہے اس كے بارہ ميں بعض علماء كرام كا كہنا ہے كہ:


صرف نماز جمعہ ادا كرنے والا شخص كافر ہے، كيونكہ وہ كليتا تارك نماز كے حكم ميں آتا ہے، اس ليے كہ وہ ہفتہ ميں پينتيس نمازوں ميں سے صرف ايك نماز ادا كر رہا ہے، تو وہ بالكل نماز ترك كرنے والے جيسا ہى ہوا.
اس كے قائل شيخ ابن باز، شيخ ابن عثيمين رحمہما اللہ ہيں.

اور كچھ علماء كرام اسے كافر نہيں كہتے ليكن وہ عظيم جرم كا مرتكب ٹھراتے ہيں، جو زنا، سود، چورى، اور شراب نوشى سے بھى زيادہ سخت ہے.

واللہ اعلم .
الشيخ محمد صالح المنجد

http://islamqa.com/ur/10292
 

طاہر اسلام

سینئر رکن
شمولیت
مئی 07، 2011
پیغامات
843
ری ایکشن اسکور
732
پوائنٹ
256
البتہ ابھی میں ایک چیز کو سمجھنے کی کوشش کر ریا ہوں جو غالبامحترم ارسلان بھائی نے پوچھی ہے اور مجھے بھی ابھی تشنگی ہے کہ سستی کی حد کیا ہے کہ کبھی سونے کی وجہ سے ایک آدھ نماز چھوٹ جائے تو پھر بھی کافر-

ایک آدھ نماز کے چھوٹ جانے پر یہ وعید لاگو نہیں ہوتی؛اگر زیادہ تر نمازیں چھوڑتا ہے تو پھر اس وعید کے تحت آئے گا۔علما کے مختلف اقوال ہیں؛بعض کے نزدیک ایک نماز چھوڑنے سے اور بعض کے ہاں دو نمازیں ترک کرنے سے کافر ہو گا۔ابن عثیمین کا قول یہ ہے کہ اگر وہ دائمی تارک ہے تو کافر ہے لیکن اگر کچھ پڑھتا ہے اور کچھ نہیں تو پھر کافر نہیں۔واللہ اعلم
 

طاہر اسلام

سینئر رکن
شمولیت
مئی 07، 2011
پیغامات
843
ری ایکشن اسکور
732
پوائنٹ
256
طاہر بھائی ٹھیک ہے لیکن میرے علم کے مطابق البانی صاحب کی کتاب بہترین ہے
آپ اس کی تنقید میں لکھی جانے والی کتابوں کا بھی مطالعہ کریں خصوصا شیخ شقرہ کی کتاب لائق مطالعہ ہے۔
 

عبدہ

سینئر رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
نومبر 01، 2013
پیغامات
2,038
ری ایکشن اسکور
1,225
پوائنٹ
425

منکرین زکاۃ اور منکرین صلاۃ دونوں ہی کافر ہیں،اس سے آپ کا موقف ثابت نہیں ہوتااور جہاں تک گستاخ رسول کا مسئلہ ہے تو میں یہ کہتا ہوں کہ نماز اور گستاخی میں بہت فرق ہے


محترم عمران بھائی میں غلطی سے منکرین زکوۃ لکھ گیا اصل میں وہ منکرین زکوۃ نہیں تھے مانعین زکوۃ تھے جن میں سے کچھ خذ من اموالھم میں حکم اللہ کے نبی کے لئے خاص کرتے تھے معاملہ ان کا بھی عمل کا تھا دوسرا جو گستاخی اور نماز میں فرق والی بات ہے تو وہ میری سمجھ میں نہیں آئی وہ اسلئے کہ آپ نے امام احمد بن حنبل کے قول سے جو استدلال کیا ہے کہ شرک کے علاوہ کوئی چیز اسلام سے نہیں نکال سکتی اس کے مطابق پھر گستاخ رسول بھی نہیں نکلتا تو محترم بھائی میں نے اسلئے گستاخ کی مثال دی ہے کہ امام احمد بن حنبل کے قول اور اس طرح کی دوسری احادیث میں تخصیسص کی گنجائش ہے پس محترم بھائی میں چاہتا تھا کہ اس طرح کے دلائل کو چھوڑ دیا جائے جن سے دل مطمئن نہیں ہوتا باقی میں آپ کے دلائل کا مکمل انکار نہیں کرتا دوسرے ٹھوس دلائل بھی ہیں جن پر بات ہو سکتی ہے تاکہ یہ لگے کہ ہم کچھ حاصل کرنا چاہتے ہیں نہ کہ خالی بحث- اگر آپ کو میری بات میں کوئی چیز بری لگے تو اسکے لئے انتہائی معذرت-
باقی محترم طاہر اسلام بھائی کا شکریہ میرے سوال کا جواب دینے پر- البتہ یہ پتا چلا کہ اس حد کے حکم میں بھی اجتہاد ہے

محترم ارسلان بھائی آپ کی تین طرح کی تقسیم او حکم پر میرے خیال میں تمام بھایئوں کو اتفاق ہو گا وہ اس طرح کہ اختلاف دوسری قسم پر تھا اور وہ اختلاف بخشنے کے اوپر نہیں تھا بلکہ کافر ہونے پر تھا کیونکہ بخشش صرف مشرک کی نہیں- اب چونکہ آپ نے دوسری قسم میں کافر ہونے یا نہ ہونے کا حکم نہیں لکھا بلکہ صرف اس کی بخشش کے چانس کا لکھا ہے تو پھر میرے خیال میں محترم محمد علی جواد بھائی اس پر کیا کہ سکیں گے
 

حافظ عمران الہی

سینئر رکن
شمولیت
اکتوبر 09، 2013
پیغامات
2,101
ری ایکشن اسکور
1,462
پوائنٹ
344

حافظ عمران الہی

سینئر رکن
شمولیت
اکتوبر 09، 2013
پیغامات
2,101
ری ایکشن اسکور
1,462
پوائنٹ
344
محترم عمران بھائی میں غلطی سے منکرین زکوۃ لکھ گیا اصل میں وہ منکرین زکوۃ نہیں تھے مانعین زکوۃ تھے جن میں سے کچھ خذ من اموالھم میں حکم اللہ کے نبی کے لئے خاص کرتے تھے معاملہ ان کا بھی عمل کا تھا دوسرا جو گستاخی اور نماز میں فرق والی بات ہے تو وہ میری سمجھ میں نہیں آئی وہ اسلئے کہ آپ نے امام احمد بن حنبل کے قول سے جو استدلال کیا ہے کہ شرک کے علاوہ کوئی چیز اسلام سے نہیں نکال سکتی اس کے مطابق پھر گستاخ رسول بھی نہیں نکلتا تو محترم بھائی میں نے اسلئے گستاخ کی مثال دی ہے کہ امام احمد بن حنبل کے قول اور اس طرح کی دوسری احادیث میں تخصیسص کی گنجائش ہے پس محترم بھائی میں چاہتا تھا کہ اس طرح کے دلائل کو چھوڑ دیا جائے جن سے دل مطمئن نہیں ہوتا باقی میں آپ کے دلائل کا مکمل انکار نہیں کرتا دوسرے ٹھوس دلائل بھی ہیں جن پر بات ہو سکتی ہے تاکہ یہ لگے کہ ہم کچھ حاصل کرنا چاہتے ہیں نہ کہ خالی بحث- اگر آپ کو میری بات میں کوئی چیز بری لگے تو اسکے لئے انتہائی معذرت-
باقی محترم طاہر اسلام بھائی کا شکریہ میرے سوال کا جواب دینے پر- البتہ یہ پتا چلا کہ اس حد کے حکم میں بھی اجتہاد ہے

محترم ارسلان بھائی آپ کی تین طرح کی تقسیم او حکم پر میرے خیال میں تمام بھایئوں کو اتفاق ہو گا وہ اس طرح کہ اختلاف دوسری قسم پر تھا اور وہ اختلاف بخشنے کے اوپر نہیں تھا بلکہ کافر ہونے پر تھا کیونکہ بخشش صرف مشرک کی نہیں- اب چونکہ آپ نے دوسری قسم میں کافر ہونے یا نہ ہونے کا حکم نہیں لکھا بلکہ صرف اس کی بخشش کے چانس کا لکھا ہے تو پھر میرے خیال میں محترم محمد علی جواد بھائی اس پر کیا کہ سکیں گے
مانعین زکاۃ اور منکرین زکاۃ میں کیا فرق ہے ؟
 

محمد علی جواد

سینئر رکن
شمولیت
جولائی 18، 2012
پیغامات
1,986
ری ایکشن اسکور
1,551
پوائنٹ
304
جزاکم اللہ خیرا محترم محمد علی جواد بھائی، محترم عبدہ بھائی اور محترم محمد عامر یونس بھائی
آپ تینوں حضرات کا شکریہ کہ آپ نے اس موضوع پر کچھ علمی نکات پیش کیے۔ بے نمازی کو اگر یہاں تین حصوں میں تقسیم کیا جائے تو کچھ یوں صورتحال بنتی ہے:
(1) وہ بے نمازی جو نماز کی فرضیت کا قائل نہیں۔ نماز کے وجوب کا انکاری ہے۔
(2) وہ بے نمازی جو نماز کی فرضیت کا بالکل قائل ہے لیکن بہت ہی کم نمازیں پڑھتا ہے یا بالکل پڑھتا ہی نہیں۔
(3) وہ بے نمازی جو مستقل نمازیں پڑھتا ہے لیکن کبھی کبھار اس سے نماز رہ جاتی ہے اور وہ یا تو قضا کر لیتا ہے یا بعد میں نوافل پڑھ لیتا ہے، تاکہ کمی پوری ہو سکے اور اپنے نمازیں چھوڑنے پر دل سے شرمندہ بھی ہوتا ہے اور اللہ سے معافی بھی مانگتا رہتا ہے۔

اب ان تین قسموں میں سے پہلی قسم کے لوگ تو بالاتفاق کافر ومرتد ہیں، کیونکہ جس کام کا اللہ تعالیٰ حکم دیں ، بندوں کو کوئی حق نہیں پہنچتا کہ وہ اپنی من مانی کریں اور ببانگ دہل انکار کریں، ایسے لوگ ملت اسلامیہ سے خارج ہیں۔

دوسری قسم کے لوگوں کا معاملہ بھی حد سے زیادہ نازک ہے، لیکن وہ چونکہ فرضیت کے انکاری نہیں، تو ہو سکتا ہے کہ اللہ تعالیٰ ان کو بخش دے، کیونکہ مفہوم حدیث ہے کہ "قیامت کے دن اللہ تعالیٰ ایسے شخص کو بھی جہنم سے نکال لیں گے جس کے دل میں رائی کے برابر ایمان ہو گا"

تیسری قسم کے لوگ بالکل کافر نہیں، بلکہ مسلمان ہیں لیکن نماز رہ جانے کی وجہ سے البتہ گناہ گار ہیں، اور اپنے کیے پر شرمندہ ہوں گے اور استغفار کریں گے تو اللہ تعالیٰ کو معاف کرنے والا پائیں گے۔ ان شاءاللہ

میرے محترم بھائی محمد علی جواد صاحب کیاآپ بھی میری ان تینوں باتوں سے متفق ہیں،اپنا موقف بیان کریں۔ جزاکم اللہ خیرا
محترم ارسلان بھائی -
میں آپ کی نظریے سے کافی حد تک متفق ہوں -

پہلا گروہ جو نماز کی فرضیت کا قائل نہیں وہ بلا جمع کافر ہے - ایسے لوگوں کی تعداد ہمارے معاشرے میں کم ہے لیکن ہے ضرور-

دوسرے گروہ کے لوگ جو اپنی سستی اور کاہلی کی وجہ سے نماز چھوڑتے ہیں وہ ہمارے معاشرے کا بڑا حصّہ ہیں - وہ یا تو منافق ہو سکتے ہیں یا کافر بھی ہو سکتے ہیں - سورة الماعون میں الله نے ایسے ہی لوگوں کا تذکرہ کیا ہے کہ باوجود اس کے کہ وہ نمازی ہیں پھر بھی وہ اپنی نمازوں سے غافل ہیں اور ان کے لئے تباہی کے دروازے کھلے ہیں-


فَوَيْلٌ لِلْمُصَلِّينَ -الَّذِينَ هُمْ عَنْ صَلَاتِهِمْ سَاهُونَ سورة الماعون ٤-٥
پس ان نمازیوں کے لیے ہلاکت ہے - جو اپنی نمازوں سےغافل ہیں-


اس کی مثال عبدللہ بن ابی سلول ہے جو اگرچہ نبی کریم صل الله علیہ کے پیچھے نماز پڑھتا تھا -لیکن وہ اور اس کے حواری بڑی سستی اور کاہلی کے ساتھ نماز کے لئے مسجد میں آتے تھے -اور الله نے اس کے بارے میں نبی کریم صل الله علیہ وسلم کو خبردار کیا کہ اگر یہ مر جائیں تو آپ ان کی قبر پر مت کھڑے ہوں اور ان کے لئے استغفار بھی نہ کریں - اور اگر ٧٠ مرتبہ بھی استغفار کریں گے تو الله ان کو نہیں بخشے گا - (سوره التوبه)

لہذا ہم مسلمانوں کو یہ بات ذہن میں رکھنی چاہیے کہ نماز میں بار بار سستی ہمیں ہمیشہ کے لئے جہنم کی آگ کا ایندھن بنا سکتی ہے -

تیسرے گروہ کے لوگوں کو ہم مومنوں کی صف میں شامل کر سکتے ہیں - جو اپنی نمازوں کو وقت پر ادا کرنے کو کوشش میں لگے رہتے ہیں - اور بھول چوک کی صورت میں الله سے معافی کے طلبگار رہتے ہیں - الله سے امید ہے کہ قیامت کے دن وہ ان کے گناہوں کو بخش دے گا -

(واللہ اعلم)

والسلام -
 
Top