ایک حکم کافر کے ساتھ دنیا میں ہمارےتعامل کا ہے اور ایک آخرت میں ان کے انجام کا ہے میرے خیال میں ہم دینا میں تعامل کے مکلف ہیں آخرت میں مشرک کے علاوہ کس کی بخشش ہو گی یا نہیں ہم اس کے مکلف نہیں
میں نے کافی حد تک اس بحث کا مطالعہ کیا ہے اور سمجھتا ہوں کہ اس بحث کو پھیلا زیادہ دیا گیا ہے جس کی وجہ سے نتیجہ نہیں نکل رہا
میری تجویز ہے کہ پیلے ہمیں یہ دیکھنا ہے کہ محل نزاع کیا ہے تو میری عقل کے مطابق مندرجہ ذیل دلائل سے موضوع کو فائدہ نہیں ہو گا
1۔شرک معاف نہیں باقی سب معاف ہے اسی طرح جس نے کلمہ پڑھا وہ جنت میں جائے گا اسی طرح امام احمد بن حنبل کا قول کہ شرک ہی انسان کو اسلام سے خارج کر سکتا ہے اسی طرح ایک پرچی والی حدیث اور اس جیسی تمام احادیث و اقوال- اس کی وجہ یہ ہے کہ ان تمام دلائل کو دینے والے بھی اس میں سے مستثنی نکالتے ہیں مثلا ان تمام دلائل کو جب منکرین زکوۃ اور جھوٹے نبیوں کے پیروکاروں پر لاگو کریں یا کلمہ گو گستاخان نبی صل اللہ علیہ وسلم پر لاگو کریں تو سب استثنی کے قائل ہوں گے پس جب ایک جگہ استثنی جائز ہے تو قران واحادیث کے بعد کیا نماز کے معاملہ میں ان میں تخصیص جائز نہیں جبکہ گستاخی بھی ایک عمل ہے زکوۃ نہ دینا بھی عمل اور نماز بھی عمل- یہی بات اوپر محترم طاہر بھائی نے لکھی تھی مگر شاہد نظر نہیں آ سکی
2۔سستی کاہلی کی دلیل کے بارے بھی یہی کہنا ہے کہ سستی کاہلی نفس کی خواہش کے تابع ہونے سے ہوتی ہے اسی نفس کے تابع ہو کر پیسوں کے لئے سلمان رشدی نے گند گھولا تھا پس شریعت میں عام قائدہ یہی ہے کہ سستی کی وجہ عمل میں کوتاہی گناہ کبیرہ ہے مگر اس میں کچھ اعمال سستی سے کرنے سے بھی اسلام سے خارج کر دیتے ہیں مگر ان پر ٹھوس قران و حدیث کی دلیل لازمی ہونی چاہیے
3۔بخاری کتاب التوحید کی حدیث کی دلیل لکھی ہے کہ یا معاذ انک تاتی قوما من اھل الکتاب والی حدیث جس میں یہ کہا گیا ہے کہ پہلے توحید کی دعوت دیں فانھم اطاعوک لذلک فاعلمھم کہ اگر وہ توحید میں اطاعت کر لیں تو نماز کا بتائیں- میری سمجھ کے مطابق اس میں کہیں نہیں کہ توحید ہی کم از کم مطلوب ہے کیونکہ اس بعدصدقہ کاحکم ہے فاعلمھم ان اللہ افترض علیھم صدقۃ توخذ من اغنیاھم و ترد الی فقراھم- جس کے انکار پر ابوبکر نے جھاد کیا تھا
یہ تو تھی میری تجویز جس پر اہل علم رائے دے سکتے ہیں اور اسی طرح محترم طاہر بھائی نے بھی اوپر بتایا ہے آپ دیکھ سکتے ہیں البتہ ابھی میں ایک چیز کو سمجھنے کی کوشش کر ریا ہوں جو غالبامحترم ارسلان بھائی نے پوچھی ہے اور مجھے بھی ابھی تشنگی ہے کہ سستی کی حد کیا ہے کہ کبھی سونے کی وجہ سے ایک آدھ نماز چھوٹ جائے تو پھر بھی کافر-
آپ ماشاءاللہ اچھی اور علمی گفتگو کر رہے ہیں، میری گزارش ہے کہ آپ مزید علمی باتیں لکھیں تاکہ ہم سب ایک دوسرے سے سیکھ سکیں۔
کسی بھی مسئلے میں مختلف رائے ہوتی ہیں، اس مسئلے میں بھی دو مختلف آ راء ہیں، میرا رجحان اس طرف ہے کہ بے نمازی کا معاملہ اگرچہ بہت زیادہ حد تک خطرناک ہے، لیکن اللہ چاہے تو معاف کر سکتا ہے، کیونکہ نماز ایک عمل صالح ہے، اور شرک و کفر کے علاوہ ہر گناہ معاف ہو سکتا ہے۔
بے نمازی کے متعلق میرا موقف جو اب تک میں معلوم کر سکا ہوں وہ دو حصوں میں ہے:
(1) مستقل بے نمازی
جو نہ تو نماز کو اہمیت دیتا ہو، نہ نماز پڑھتا ہو، نا ہی وہ اس اہم فریضے کو سر انجام دینے کی ذرا سی بھی کوشش کرتا ہو، ایسا شخص بہت حد تک معیوب ہے، احادیث میں ایسے شخص کے بارے میں کہا گیا ہے کہ اس نے کفر کیا ہے، اب یہاں یہ بات ہے کہ یہ کفر اکبر ہے یا کفر اصغر؟ میرا رجحان ان لوگوں کی طرف ہے جو اسے کفر اصغر شمار کرتے ہیں، کہ بے نمازی اگرچہ بہت ہی خطرناک معاملہ ہے اور ہو سکتا ہے کہ وہ اس کی سزا میں جہنم میں بہت عرصے تک جلتا رہے (معاذاللہ) لیکن اس کے بعد اللہ چاہے تو اسے جنت میں داخل فرما دے۔
(2) عارضی بے نمازی
ایسا شخص جو نمازیں تو پڑھتا ہے لیکن کچھ نمازیں چھوڑ دیتا ہے، اس میں وہ سستی ہرگز نہیں جس کو بہانہ بنایا جائے، مثلا ایک شخص نے رات کو اپنی بیوی سے ہم بستری کی اور اس پر غسل واجب ہو گیا، اب وہ فجر کی نماز سے اٹھ کر بھی غسل کر سکتا ہے اور نماز پڑھ سکتا ہے، لیکن وہ شخص سویا رہتا ہے کہ سردی کی وجہ سے صبح جب دھوپ نکلے گی تو غسل کر کے ظہر کی نماز کے بعد قضا کر لے گا، یا پھر کثرت سے نوافل پڑھ لے گا، تو ایسا شخص بھی میرے خیال میں کافر نہیں۔ واللہ اعلم
شیخ ابن عثیمین رحمہ اللہ کے فتویٰ سے ایسا معلوم ہوا کہ وہ عارضی بے نمازی کے بھی کفر کے قائل ہیں، لیکن ہو سکتا ہے کہ مجھے انکے فتاویٰ جات کو سمجھنے میں غلطی ہوئی ہو۔