السلام وعلیکم ورحمۃاللہ وبرکاتہ!
ابن داود صاحب نے کہا
جناب من! ہمارے لئے تو بہترین جواب رسول اللہ ﷺ کے الفاظ میں ہے !! اور جواب میں اگر نص موجود ہو تو استدلال و استنباط کی ہم کوئی حاجت محسوس نہیں کرتے!!!
نہیں بھائی آپ اپنے دعوی میں سچے نہیں ۔ آگر آپ اپنے اس دعوی میں سجے ہوتے کہ اگر نص کے مقابلے میں کسی اور قول کی ضرورت نہیں تو ان تفاسیر اور تشریحا ت والی کتب کو تصنیف اور اپلوڈ کا کیا فائدہ جو آپ حضرات نے اپنی ویب سائٹ پر کر رکھی ہیں ؟؟
بہر حال آپ نے جو حدیث پیش کی آپ تو اس کی تشریح نہیں کرنا چاہ رہے میں کچھ عرض کردیتا ہوں
میرے بھائی ہم نے یہ بات کب کہہ دی کہ تفسیر و تشریح کے ہم قائل نہیں !! ہم نے تو صرف اتنا کہا کہ جب سوال کا جواب حدیث میں واضح نص کے ساتھ موجود ہو تو استدلال و استنباط کی حاجت محسوس نہیں کرتے!!!
" اگر میری امت میں کوئی محدث ہوا تو ''کا مقصود اس امت میں محدث کے وجود کو مشکوک ومشتبہ کرنا نہیں ہے ،امت محمدی تو پچھلے تمام امتوں سے افضل واعلی ہے ۔اگر پچھلی امتوں میں محدث ہوا کرتے تھے تواس امت مین ان کا وجود یقینی بطریق اولیٰ ہوگا ۔ پس ان الفاظ کا مقصد تاکید وتخصیص ہے ،اس جملہ کی مثال ایسی ہی ہے جیسے کوئی شخص اپنے مخلص ترین دوست کی خصوصی حیثیت کو اجاگر کرنے کے لئے کہے کہ دنیا میں اگر کوئی شخص میرا دوست ہے توبس وہی ہے جس طرح اس جملہ کی مراد اس شخص کی دوستی کے درجہ کمال کو نہایت خصوصیت کے ساتھ بیان کرنا ہوتی ہے ۔اسی طرح حدیث کے مذکورہ بالا جملہ کی مراد مذکورہ وصف کے ساتھ حضرت عمر کی نہایت خصوصی نسبت کو بیان کرنا ہے ۔
تلمیذ صاحب! آپ نے اس حدیث کی یہ جو تاویل بیان کی ہے!! یہ آپ کی خود کشیدہ ہے یا پھر آپ سے قبل کسی شارح الحدیث نے بیان کی ہے!! اگر آپ سے قبل یہ سے قبل کسی شارح نے بیان کی ہے تو پہلے وہ حوالہ پیش کر دیں!! پھر اس پر مزید بات کرتے ہیں !! ان شاءاللہ!!
ذرا یہ حوالہ جات دیکھ لئیجئیے
ہم دیکھ لیتے ہیں!
والذي نفسي بيده لو تدومون على ما تكونون عندي وفي الذكر لصافحتكم الملائكة على فرشكم وفي طرقكم.
مکمل حدیث بمع ترجمہ و حوالہ ہم پیش کئے دیتے ہیں!!
حدثنا يحيى بن يحيى التيمي ، وقطن بن نسير واللفظ ليحيى ، أخبرنا جعفر بن سليمان ، عن سعيد بن إياس الجريري ، عن أبي عثمان النهدي ، عن حنظلة الأسيدي ، قال : وكان من كتاب رسول الله صلى الله عليه وسلم ، قال : لقيني أبو بكر ، فقال : كيف أنت يا حنظلة ؟ ، قال : قلت : نافق حنظلة ، قال : سبحان الله ما تقول ؟ ، قال : قلت : نكون عند رسول الله صلى الله عليه وسلم يذكرنا بالنار والجنة حتى كأنا رأي عين ، فإذا خرجنا من عند رسول الله صلى الله عليه وسلم عافسنا الأزواج والأولاد والضيعات ، فنسينا كثيرا ، قال أبو بكر : فوالله إنا لنلقى مثل هذا ، فانطلقت أنا وأبو بكر حتى دخلنا على رسول الله صلى الله عليه وسلم ، قلت : نافق حنظلة يا رسول الله ، فقال رسول الله صلى الله عليه وسلم : " وما ذاك ؟ " ، قلت : يا رسول الله نكون عندك تذكرنا بالنار والجنة حتى كأنا رأي عين ، فإذا خرجنا من عندك عافسنا الأزواج والأولاد والضيعات نسينا كثيرا ، فقال رسول الله صلى الله عليه وسلم : " والذي نفسي بيده إن لو تدومون على ما تكونون عندي ، وفي الذكر لصافحتكم الملائكة على فرشكم وفي طرقكم ، ولكن يا حنظلة ساعة وساعة ثلاث مرات " .
حضرت حنظلہ اسیدی سے روایت ہے کہ وہ رسول اللہ کے کا تبوں میں سے تھے وہ کہتے ہیں کہ مجھ سے حضرت ابوبکر کی ملاقات ہوئی تو انہوں نے کہا اے حنظلہ تم کیسے ہو میں نے کہا حنظلہ تو منافق ہوگیا انہوں نے کہا سُبْحَانَ اللَّهِ تم کیا کہہ رہے ہو میں نے کہا ہم رسول اللہ کی خدمت میں ہوتے ہیں اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم ہمیں جنت و دوزخ کی یاد دلاتے رہتے ہیں گویا کہ ہم انہیں اپنی آنکھوں سے دیکھتے ہیں اور جب ہم رسول اللہ کے پاس سے نکل جاتے ہیں تو ہم بیویوں اور اولاد اور زمینوں وغیرہ کے معاملات میں مشغول ہو جاتے ہیں اور ہم بہت ساری چیزوں کو بھول جاتے ہیں حضرت ابوبکر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے کہا اللہ کی قسم ہمارے ساتھ بھی اسی طرح معاملہ پیش آتا ہے میں اور ابوبکر چلے یہاں تک کہ ہم رسول اللہ کی خدمت میں حاضر ہوئے میں نے عرض کیا اے اللہ کے رسول حنظلہ تو منافق ہوگیا رسول اللہ نے فرمایا کیا وجہ ہے میں نے عرض کیا اے اللہ کے رسول ہم آپ کی خدمت میں ہوتے ہیں تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم ہمیں جنت و دوزخ کی یاد دلاتے رہتے ہیں یہاں تک کہ وہ آنکھوں دیکھے ہو جاتے ہیں جب ہم آپ کے پاس سے چلے جاتے ہیں تو ہم اپنی بیویوں اور اولاد اور زمین کے معاملات وغیرہ میں مشغول ہو جانے کی وجہ سے بہت ساری چیزوں کو بھول جاتے ہیں تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا اس ذات کی قسم جس کے ہاتھ میں میری جان ہے
اگر تم اسی کیفیت پر ہمیشہ رہو جس حالت میں میرے پاس ہوتے ہو، ذکر میں مشغول ہوتے ہو تو فرشتے تمہارے بستروں پر تم سے مصافحہ کریں اور راستوں میں بھی
لیکن اے حنظلہ ایک ساعت (یاد کی) ہوتی ہے اور دوسری (غفلت کی ) اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے تین بار فرمایا۔
صحيح مسلم » كِتَاب التَّوْبَةِ » بَاب فَضْلِ دَوَامِ الذِّكْرِ وَالْفِكْرِ فِي أُمُورِ
آپ خود دوسرے تھریڈ میں "لو" سے بالفرض محال ثابت کر رہے ہیں اور یہاں اس "لو" سے ممکنات ثابت کرنا چاہتے ہیں!! جبکہ یہاں یقینا بالفرض محال ہی ہے، جس کی دلالت رسول اللہ ﷺ کے الفاظ
ولكن يا حنظلة ساعة وساعة لیکن اے حنظلہ ایک ساعت (یاد کی) ہوتی ہے اور دوسری (غفلت کی )
تلمیذ میاں!! اسی لئے کہتا ہوں ذرا سوچ سمجھ کر لکھا کریں!!
اور اگر اس بات کو تسلیم بھی کیا جائے کہ ملائکہ کا اس امت میں مصافحہ کرنا ممکن ہو بھی تو اس سے غیب کی خبر دینا ثابت نہیں ہوتا!!!
لہذا یہاں سے بھی آپ کا استدلال باطل!!
إن رسول الله صلى الله عليه وسلم جمع بين حجة وعمرة . ثم لم ينه عنه حتى مات . ولم ينزل فيه قرآن يحرمه . وقد كان يسلم علي حتى اكتويت . فتركت . ثم تركت الكي فعاد .
مکمل حدیث بمع ترجمہ و حوالہ ہم پیش کئے دیتے ہیں!!
حدثني عبيد الله بن معاذ ، حدثنا أبي ، حدثنا شعبة ، عن حميد بن هلال ، عن مطرف ، قال : قال لي عمران بن حصين : " أحدثك حديثا عسى الله أن ينفعك به ، إن رسول الله صلى الله عليه وسلم جمع بين حجة وعمرة ، ثم لم ينه عنه حتى مات ولم ينزل فيه قرآن يحرمه ، وقد كان يسلم علي حتى اكتويت ، فتركت ثم تركت الكي فعاد " .
عمران بن حصین رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے فرمایا کہ میں تجھ سے ایک حدیث بیان کروں گا شاید کہ اللہ تعالیٰ اس کے ذریعہ سے تجھے نفع دے وہ یہ کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے حج اور عمرہ دونوں کو ایک ساتھ اکٹھا کیا پھر ان سے منع بھی نہیں فرمایا یہاں تک کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم دنیا سے رحلت فرما گئے اور نہ ہی اس کی حرمت کے بارے میں قرآن نازل ہوا اور مجھ پر سلام کیا جاتا تھا جب تک کہ میں نے داغ نہیں لگوایا تو جب میں نے داغ لیا تو سلام چھوٹ گیا پھر میں نے داغ لینا چھوڑا تو مجھ پر پھر سلام کیا جانے لگا۔
صحيح مسلم » كِتَاب الْحَجِّ » بَاب جَوَازِ التَّمَتُّعِ
تلمیذ صاحب! اس اثر میں جو بات ہے وہ صرف اتنی ہے کہ ملائکہ کا سلام سنا !! بس اس سے زیادہ کی کوئی بات نہیں!! اس اثر میں ایسی کوئی بات نہیں کہ عمران بن حصین کو غیب کی کوئی خبر دی گئی ہو!!
حدثنا موسى بن إسماعيل ثنا حماد عن ثابت عن مطرف عن عمران بن حصين قال: ((نهى النبي صلى الله عليه و سلم عن الكي فاكتوينا فما أفلحن ولا أنجحن)) قال أبو داود: "وكان يسمع تسليم الملائكة فلما اكتوى انقطع عنه فلما ترك رجع إليه"
موسی بن اسماعیل، حماد، ثابت، مطرف، عمران بن حصین فرماتے ہیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے داغ لگانے سے (زخم کو بند کرنے لیے) منع فرمایا ہم نے داغ لگایا تو نہ ہی ہمیں فائدہ ہوا اور نہ ہی ہم کامیاب ہوئے۔
ابو داود نے کہا: عمران بن حصین ملائکہ کا سلام سنا کرتے تھے۔ جب انہوں نے داغ لگوائے تو یہ سلسلہ منقطع ہو گیا۔ پھر جب چھوڑ دیا تو پھر سے سلام سننے لگے۔
سنن أبي داود » كِتَاب الطِّبِّ » بَاب فِي الْكَيِّ
تلمیذ صاحب! اس اثر میں جو بات ہے وہ صرف اتنی ہے کہ ملائکہ کا سلام سنا !! بس اس سے زیادہ کی کوئی بات نہیں!! اس اثر میں ایسی کوئی بات نہیں کہ عمران بن حصین کو غیب کی کوئی خبر دی گئی ہو!!
قال الحافظ ابن حجر في الفتح: وقد ثبت عن عمران بن حصين أنه كان يسمع كلام الملائكة. وقال المباركفوري في شرح الترمذي: عمران بن حصين... كان من علماء الصحابة وكانت الملائكة تسلم عليه وهو ممن اعتزل الفتنة.
تلمیذ صاحب! ان اقوال میں جو بات ہے وہ صرف اتنی ہے کہ ملائکہ کا سلام سنا !! بس اس سے زیادہ کی کوئی بات نہیں!! اس اثر میں ایسی کوئی بات نہیں کہ عمران بن حصین کو غیب کی کوئی خبر دی گئی ہو!!
اب مجھے اپنی طرف سے کہنے کی کوئی ضرورت نہیں اوپر احادیث اور فقہاء کے قول سے ثابت ہوگيا کہ اس امت کے افراد سے آکر فرشتہ کلام کریں تو یہ نا ممکن نہیں
جناب من! یہ آپ عمران بن حصین کے ملائکہ کے سلام سننے کے معاملہ سے نجانے غیب کے دروازے کھولنے کی سعی کیون کر رہے ہیں!! تلمیذ صاحب! ہمیں ذرا کوئی ایک ایسی حدیث صحیح پیش کریں جس سے یہ ثابت ہو کہ اس امت میں کسی امتی کو غیب کی خبر دی گئی ہو!! اور جنت و دوزخ کا نظارہ کروایا گیا ہو!!!
باقی رہی ملائکہ سے سلام سننے کی بات تو یہ موضوع بحث نہیں!!!
میں نے کہا تھا
تیسرے بچہ کو کیسے پتا چلا اس باندی نے کبھی نہ زنا کیا نہ چوری ۔ اس کا جواب آپ نے نہ دیا
آپ نے مناقب عمر والی حدیث پیس کر کے کہا
جناب من! یہ حدیث ہی تیسرے بچہ کے حوالہ سے بھی آپ کے اعتراض کا جواب ہے!! فتدبر!!!
اب تو یہ ثابت ہوگيا کہ اس امت کے افراد سے بھی فرشتہ کلام کرسکتے ہیں تو اب آپ کی کیا دلیل ہے ؟؟؟
جناب من! یہ آپ عمران بن حصین کے ملائکہ کے سلام سننے کے معاملہ سے نجانے غیب کے دروازے کھولنے کی سعی کیون کر رہے ہیں!! تلمیذ صاحب! ہمیں ذرا کوئی ایک ایسی حدیث صحیح پیش کریں جس سے یہ ثابت ہو کہ اس امت میں کسی امتی کو غیب کی خبر دی گئی ہو!! اور جنت و دوزخ کا نظارہ کروایا گیا ہو!!!
باقی رہی ملائکہ سے سلام سننے کی بات تو یہ موضوع بحث نہیں!!!
جناب من! اب آپ اپنے کفریہ شرکیہ عقائد کے دفاع کے لئے رسول اللہ ﷺ کی بیان کردہ کرامات کو صحیح اور قرآن حدیث کے مطابق ماننے سے انکار کر رہے ہو!!
تلمیذ صاحب! توبہ کریں!! اور تجدید ایمان کریں!! اور اگر فقہ حنفیہ پر بھی عمل پیرا ہونا ہے تو تجدید نکاح بھی کر لیں!!!
یہ پہلی دفعہ نہیں جب آپ مجھ پر تکفیری فتوی جاری کرہے ہیں ۔ آپ اور اپ کے مسلکی افراد کی یہ خاصیت ہے کہ آپ حصرات اپنے مخالفین کے اقوال سیاق و سباق سے ہٹا کر من مانی بات اخذ کر کے تکفیری فتاوی اجراء کردیثے ہیں ۔
میں نے کہا تھا
اگر یہی طرز کلام رکھنا ہے تو پھر میں بھی کیا یہی طرزکلام رکھوں
اور بطور مثال اگلی باتیں بیان کی تھیں جن کو آپ بھی بخوبی سمجھ سکتے ہیں اور میں جب اس حدیث سے اثبات الکرامہ کا حوالہ دے رہا ہوں تو میں خود اس حدیث والی کرامت کا انکار کیسے کرسکتا ہوں ۔
اگر میں اسی طرح نتیجے اخذ کروں تو کیا صورت حال ہوگي
جناب من! اب آپ خود علی اعلان ضد کا مظاہرہ کرتے ہوئے اپنی ہی پیش کردہ صحیح حدیث میں مذکور کرامات کو قرآن و حدیث کے مطابق صحیح ماننے سے انکا ر کریں تو آپ کے اس قول کو کفر ہی کہا جائے گا!!
آپ یہ ضد اور کج بحثی نہ کریں!!!
آپ نے کہا تھا
ب اگر کسی میں جرأت ہے تو وہ قرآن حدیث سے ثبوت پیش کرے!!
اس کا مطلب ہے میں نے جو احادیث پیش کیں آپ ان کو احادیث نہیں مانتے ۔ تو کیا میں بھی تکفیری فتوی جاری کروں ؟؟؟؟
تلمیذ صاحب! آپ ایسی غلط بیانی سے گریز کریں!! ہم نے آپ سے جو مطالبہ کیا ہے وہ مکمل پیش کریں!! ہم ایک بار پھر بیان کر دیتے ہیں!!
اب اگر کسی میں جرأت ہے تو وہ قرآن حدیث سے ثبوت پیش کرے!! کہ تبلیغی نصاب سے پیش کردہ اقتباس کے دعوی قرآن کی اس آیت کے مطابق ہیں یا اس حدیث کے مطابق ہیں!! اور قرآن حدیث سے پیش کردہ آیت یا حدیث سے اس اقتباس میں موجود عقائد کی مطابقت لغت و شرع کے مطابق پیش کرے!!
اور جناب من! یوں تو قادیانی بھی قرآن کی آیات اور احادیث پیش کرتے ہیں اور بزعم خویش مرزا قادیانی کی نبوت ثابت کرنے کی لاحاصل سعی کرتے ہیں، مگر ان کے استدلال لغت و شرع کے مطابق مردود ہوتے ہیں!!
جس طرح ان کے استدلال کا انکار قرآن و حدیث کا انکار نہیں ہوتا ، اسی طرح آپ کے استدلال کا انکار بھی قرآن و حدیث کا انکار نہیں!!
نہیں بھائی انہیں تکفیری فتووں نے تو امت کا پارہ پارہ کیا ہے
لوگ قرآن و حدیث کا کفر کرنا چھوڑ دے، ان پر کفر کے فتوی بھی نہیں لگائے جائیں گے!!
آپ نے اب تک اس سوال کا جواب نہ دیا
ذرا کرامات کی اقسام مثال کے ساتھ بتا دیجيئے گا کہ کس قسم کی کرامت شرکیہ ہے اور کس قسم کی کرامت صحیح ہوتی ہے ۔
جناب اقسام مثال کے ساتھ پچھلی تحریر میں بیان کر دی گئی ہیں!! بغور پڑھیں!!!