• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

تبلیغی جماعت

شمولیت
مئی 01، 2011
پیغامات
47
ری ایکشن اسکور
151
پوائنٹ
58
بِسْمِ اللّٰهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ​

السلام علیکم
بھائی یہاں میں نہ قوالی سنا رہا ہوں اور نہ بھنگڑے ڈال رہا ہوں ۔ صرف قرآن وحديث کے حوالہ سے بات کر رہا ہوں ۔ اور نہ کوئی جذباتی بات کر رہا ہوں تو ایک الگ بحث کو یہاں چھیڑنے سے کیا فائدہ ؟
یارب وہ نہ سمجھے ہیں نہ سمجھیں گے میری بات
دے اور دل ان کو، جو نہ دے مجھ کو زباں اور​

محترم ! جو واقعات و حادثات اور کشف و کرامات شریعت کی کسوٹی پر پورا نہ اتریں ان کی مثال بھنگڑوں اور قوالیوں سے زیادہ نہیں ہوتی ، ایسے اعمال و افعال پر تالیاں تو بجائی جا سکتی ہیں مگر انھیں مذہبی حوالہ نہیں بنایا جا سکتا بہرحال یہ تو چند تمہیدی کلمات تھے۔

بھائی کرامت کا ہونا اس بات کی دلیل نہیں کہ جس بزرگ کے ہاتھ پر کرامت ہوئی وہ اس بزرگ سے زیادہ افضل ہے جس کے ہاتھ پر کرامت نہیں ہوئی ۔ ابھی ابن داؤد صاحب نے حدیث پیش کی جس سے وہ یہ نتیجہ اخذ کر رہے ہیں کہ گذشتہ امتوں میں غیر انبیاء سے فرشتے کلام کرتے تھے اور اس امت میں یہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے علاوہ کسی کی یہ خاصیت نہیں ہو سکتی ۔ تو کیا گذشتہ امتیں اس امت سے افضل تھیں
اور اگر ایک کی مغفرت کی دعا قبول ہوجائے تو صرف اس قبولیت کی بنا پر وہ دوسروں سے افضل نہیں ہو سکتا ۔ بعض دفعہ کم درجہ والے کی مغفرت کی دعا قبول ہو جاتی ہے
وہ بات سارے فسانے میں جس کا ذکر نہیں​

میرے جس پیراگراف پہ آپ نے یہ خامہ فرسائی فرمائی ہے یہ آپ کا نِرا وہم ہے ، افضل و مفضول کی بحث یہاں سرِدست مقصود نہیں۔ میری اصل مراد اس سے یہ تھی کہ انسان کی اس دنیا سے رحلت کے بعد اس کی بخشش یا بلندیّ درجات کے ذرائع میں سے صدقہّ جاریہ کی صورت میں بیان کی گئیں تین صورتوں میں سے ایک نیک و پارسا اولاد ہے جس کے اعمالِ حسنہ اس کے والدین کی گناہوں سے بخشش یا درجات کی بلندی کا سبب بنتے ہیں ، مگر مذکورہ واقعہ میں حدیثِ رسول میں بیان کی گئی یہ صورت بھی کارگر نہ ہوئی (وجہ درکار ہے) لیکن ایصالِ ثواب کا ایک غیر معتبر ذریعہ کارگر ثابت ہوا (ثبوت درکار ہے)۔ یہ بات بھی ذہن نشین رہنی چاہیئے کہ حدیثِ رسول کے مطابق خشر کے روز جن سات شخصوں کو عرشِ الٰہی کا سایہ نصیب ہو گا ان میں سے ایک وہ نوجوان ہو گا جس نے اپنی جوانی اللہ تعالٰی کی عبادت و ریاضت میں بسر کی ہو گی۔

اسی طرح اگر کرامت والے نوجوان کی اپنی ماں کے حق میں دعا قبول نہیں ہوئی اور قرطبی کی دعا قبول ہوئی تو اس میں کیا اشکال ہے ؟؟
وہ بات سارے فسانے میں جس کا ذکر نہیں​

محترم اس سارے واقعہ میں دعا کا ذکر تو کہیں نہیں البتہ ایک وظیفے کا ھدیہ ضرور پیش کیا گیا ہے۔

مذکورہ واقعہ میں ایک اشکال یہ بھی ہے کہ شیخ قرطبی صاحب نے جس وظیفہ کی فضیلت بیان کی ہے اس کی صحت پر انھیں بھی اضطراب تھا جیسا کی ان کہ اس قول سے بھی ظاہر ہے
قرطبی کہتے ہیں کہ مجھے اس قصہ سے دو فائدے ہوئے۔ ایک تو اس برکت کا جو ستر ہزار کی مقدار پر میں نے سنی تھی اس کا تجربہ ہوا دوسرا اس نوجوان کی سچائی کا یقین ہوگیا۔
اب جو چیز بجائے خود محتاجِ دلیل ہو وہ کسی شخص کی صداقت کے امتحان کا معیار کیسے بن سکتی ہے۔

آپ کو اس واقعہ میں کیا بات نظر آئی کہ آپ اس کو من گھڑت کہ رہے ہیں ۔
کیا سچ مچ آپ کو اب بھی اس ساری کہانی میں علمیت یا کرامت نظر آ رہی ہے؟ اگر ایسا ہے تو برائے مہربانی مندرجہ ذیل کرامت کی وضاحت بھی فرما دیں تا کہ ہمیں آپ کے معیارِ کرامت کو سمجھنے میں مزید مدد مل سکے۔

"مرد انتہائے مغرب میں ہو اور عورت انتہائے مشرق میں، اتنے فاصلے پر کے دونوں کے درمیان سال بھر کی مسافت ہوکسی طرح ان کا نکاح کر دیا گیا ۔ اگر بعد تاریخ نکاح کے عورت چھ ماہ میں بچہ جنے تو یہ بچہ ثابت النسب ہو گا ، حرامی نہیں ہو گا ، بلکہ یہ اس مرد کی کرامت تصور کی جائے گی ۔" “درمختار : ج2

خنجر پہ کوئی داغ نہ دامن پہ کوئی چھینٹ
تم قتل کرو ہو کہ کرامات کرو ہو​

والسلام
 

ابن داود

فعال رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
نومبر 08، 2011
پیغامات
3,416
ری ایکشن اسکور
2,733
پوائنٹ
556
السلام علیکم ورحمۃاللہ وبرکاتہ!
عمران ناصر بھائی! تبلیغی نصاب کے علاوہ کسی اور کتاب کو موضوع بحث نہ بنایا جائے تو بہتر ہو گا!! ہاں اگر بطور وضاحت اور اس عبارت کے معنی بیان کرنے کے لئے کسی اور کتاب کا حوالہ پیش کیا جائے تو اور بات ہے!! تلمیذ صاحب بھی اس تجویز سے متفق ہوں گے!! ان شاءاللہ!!!
 

ابن داود

فعال رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
نومبر 08، 2011
پیغامات
3,416
ری ایکشن اسکور
2,733
پوائنٹ
556
السلام علیکم ورحمۃاللہ وبرکاتہ!
ابن داود صاحب ، اگر جواب میں کوئی حدیث نقل کیا کریں تو یہ ضرور بتا دیا کریں کہ کس تناظر میں بیان کی ۔ تاکہ کچھ کنفیوزن نہ رہے ۔
میں نے تین سوال کیے تھے ۔
١- يہاں محدث سے آپ کیا مراد سمجھتے ہیں ؟
٢۔ کیا کوئی محدث اس امت میں تا قیامت نہیں ہو سکتا ؟
٣۔ کیا حضرت عمر کے علاوہ اس امت میں کسی سے بھی فرشتہ کلام نہیں کر سکتے ؟
آپ نے تینوں سوال کے جواب میں ایک حدیث نقل کی۔ جس سے بات معلوم ہوتی ہے کہ آپ کا عقیدہ ہے
محدث وہ جس سے فرشتے کلام کرتے ہیں
اس امت میں تاقیامت کوئی محدث نہیں آسکتا
اور بشمول حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے کسی امتی سے فرستہ کلام نہیں کرسکتا
آپ ذرا ان نتائج کو کنفرم کردیں ۔ اس فورم پر میں نے دیکھا ہے کہ واضح جواب نہیں آتا تاکہ بعد میں کہا جاسکے کہ میں نے تو ان معنوں میں کہا تھا ۔ اور آپ نے دوسرے معنی لے لئیے ۔
تلمیذ صاحب! اب آپ کے تینوں سوالوں کا واضح جواب رسول اللہ ﷺ کی ایک ہی حدیث میں موجود ہو ، تو مجھے کیا ضرورت ہے اپنی طرف سے مزید الفاظ لگا کر بیان کرنے کی!!
جناب من! ہمارے لئے تو بہترین جواب رسول اللہ ﷺ کے الفاظ میں ہے !! اور جواب میں اگر نص موجود ہو تو استدلال و استنباط کی ہم کوئی حاجت محسوس نہیں کرتے!!!
آپ نے کہا
نہیں!! آپ کا استدلال باطل
نہ کوئی دلیل نہ کوئی جواب
اگر یہی طرز کلام رکھنا ہے تو پھر میں بھی کیا یہی طرزکلام رکھوں
تلمیذ صاحب! یہ اب آپ نے مندرجہ ذیل بات کے جواب میں کہی!! اب ذرا اسے غور سے پڑھیں!!
ابن داؤد صاحب نے کہا
ہاں ! فرشتوں کے بتانے کے علاوہ جو ممکن ہے وہ بھی آپ کو بیان کر دیتے ہیں!!!
وَلَا تَأْكُلُوا مِمَّا لَمْ يُذْكَرِ اسْمُ اللَّهِ عَلَيْهِ وَإِنَّهُ لَفِسْقٌ وَإِنَّ الشَّيَاطِينَ لَيُوحُونَ إِلَى أَوْلِيَائِهِمْ لِيُجَادِلُوكُمْ وَإِنْ أَطَعْتُمُوهُمْ إِنَّكُمْ لَمُشْرِكُونَ (سورة الأنعام121)
اس کا مطلب ہے یا تو فرشتہ کسی کو اللہ کے حکم سے کوئی بات بتاتیں ہیں اور یہ امر تو اس امت میں ممکن نہیں کیوں کہ فرشتوں سے کلام ممکن نہیں ۔ تو اس کا مطلب ہے اب صرف الشیاطین کے ظن و اٹکل پچو بچے جو وہ اپنے ساتھیوں کو بتاتے ہیں ۔کیا یہ استنباط صحیح ہے ۔ واضح جواب دیجیئے گا ۔
نہیں!! آپ کا استدلال باطل!!! اور جناب! آپ اب سوال در سوال کر نا چھوڑیں!! ہم نے کہا تھا کہ آپ کے ہر معقول سوال کا جواب دیں گے جو موضوع سے متعلقہ ہو!! آپ قرآن حدیث سے ثبوت پیش کرو!! کہ تبلیغی نصاب سے پیش کردہ اقتباس کے دعوی قرآن کی اس آیت کے مطابق ہیں یا اس حدیث کے مطابق ہیں!!!
جناب من! آپ نے ہم سے پوچھا:
کیا یہ استنباط صحیح ہے ۔ واضح جواب دیجیئے گا ۔
ہم نے اس کا واضح جواب دیا کہ :
نہیں!! آپ کا استدلال باطل!!!
اور اس سے واضح جواب کیا ہو گا!!
یہ جملہ "وہ نوجوان فورا کہنے لگا کہ چچا میری ماں دوزخ کے عذاب سے ہٹادی گئی۔" اس بات کی دلالت کرتا ہے کہ اس نوجوان کو علم ہو گیا کہ کون سے چچا نے ٹرانزکشن کی تھی!!! اور اس لئے اس جملہ سے قبل جو "مگر" موجود ہے وہ "مگر" سے پہلے جملہ "میرے اس پڑھنے کی خبر بھی اللہ کے سوا کسی کو نہ تھی" کی نفی کرتا ہے!!!
نہیں!! آپ کا استدلال باطل
جناب من! پھر آپ اردو سیکھ آئیں پہلے!!!
مندرجہ ذیل کرامت صحیح اور قرآن و حدیث کے عین مطابق ہے!!
نہیں!! آپ کا استدلال باطل
یہ بات آپ نے مندرجہ ذیل تحریر کے جواب میں کہا ہے!!
مندرجہ ذیل کرامت صحیح اور قرآن و حدیث کے عین مطابق ہے!!
حَدَّثَنَا زُهَيْرُ بْنُ حَرْبٍ ، حَدَّثَنَا يَزِيدُ بْنُ هَارُونَ ، أَخْبَرَنَا جَرِيرُ بْنُ حَازِمٍ ، حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ سِيرِينَ ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ ، قَالَ : " لَمْ يَتَكَلَّمْ فِي الْمَهْدِ إِلَّا ثَلَاثَةٌ ، عِيسَى ابْنُ مَرْيَمَ ، وَصَاحِبُ جُرَيْجٍ ، وَكَانَ جُرَيْجٌ رَجُلًا عَابِدًا فَاتَّخَذَ صَوْمَعَةً ، فَكَانَ فِيهَا فَأَتَتْهُ أُمُّهُ وَهُوَ يُصَلِّي ، فَقَالَتْ : يَا جُرَيْجُ ، فَقَالَ : يَا رَبِّ أُمِّي وَصَلَاتِي ، فَأَقْبَلَ عَلَى صَلَاتِهِ ، فَانْصَرَفَتْ ، فَلَمَّا كَانَ مِنَ الْغَدِ أَتَتْهُ وَهُوَ يُصَلِّي ، فَقَالَتْ : يَا جُرَيْجُ ، فَقَالَ : يَا رَبِّ أُمِّي وَصَلَاتِي ، فَأَقْبَلَ عَلَى صَلَاتِهِ ، فَانْصَرَفَتْ ، فَلَمَّا كَانَ مِنَ الْغَدِ أَتَتْهُ وَهُوَ يُصَلِّي ، فَقَالَتْ : يَا جُرَيْجُ ، فَقَالَ : أَيْ رَبِّ أُمِّي وَصَلَاتِي ، فَأَقْبَلَ عَلَى صَلَاتِهِ ، فَقَالَتْ : اللَّهُمَّ لَا تُمِتْهُ حَتَّى يَنْظُرَ إِلَى وُجُوهِ الْمُومِسَاتِ ، فَتَذَاكَرَ بَنُو إِسْرَائِيلَ جُرَيْجًا وَعِبَادَتَهُ ، وَكَانَتِ امْرَأَةٌ بَغِيٌّ يُتَمَثَّلُ بِحُسْنِهَا ، فَقَالَتْ : إِنْ شِئْتُمْ لَأَفْتِنَنَّهُ لَكُمْ ، قَالَ : فَتَعَرَّضَتْ لَهُ ، فَلَمْ يَلْتَفِتْ إِلَيْهَا ، فَأَتَتْ رَاعِيًا كَانَ يَأْوِي إِلَى صَوْمَعَتِهِ ، فَأَمْكَنَتْهُ مِنْ نَفْسِهَا فَوَقَعَ عَلَيْهَا فَحَمَلَتْ ، فَلَمَّا وَلَدَتْ ، قَالَتْ : هُوَ مِنْ جُرَيْجٍ ، فَأَتَوْهُ فَاسْتَنْزَلُوهُ وَهَدَمُوا صَوْمَعَتَهُ ، وَجَعَلُوا يَضْرِبُونَهُ ، فَقَالَ : مَا شَأْنُكُمْ ؟ قَالُوا : زَنَيْتَ بِهَذِهِ الْبَغِيِّ فَوَلَدَتْ مِنْكَ ، فَقَالَ : أَيْنَ الصَّبِيُّ فَجَاءُوا بِهِ ، فَقَالَ : دَعُونِي حَتَّى أُصَلِّيَ ، فَصَلَّى فَلَمَّا انْصَرَفَ أَتَى الصَّبِيَّ فَطَعَنَ فِي بَطْنِهِ ، وَقَالَ يَا غُلَامُ : مَنْ أَبُوكَ ، قَالَ : فُلَانٌ الرَّاعِي ، قَالَ : فَأَقْبَلُوا عَلَى جُرَيْجٍ يُقَبِّلُونَهُ وَيَتَمَسَّحُونَ بِهِ ، وَقَالُوا : نَبْنِي لَكَ صَوْمَعَتَكَ مِنْ ذَهَبٍ ، قَالَ : لَا ، أَعِيدُوهَا مِنْ طِينٍ كَمَا كَانَتْ ، فَفَعَلُوا ، وَبَيْنَا صَبِيٌّ يَرْضَعُ مِنْ أُمِّهِ ، فَمَرَّ رَجُلٌ رَاكِبٌ عَلَى دَابَّةٍ فَارِهَةٍ وَشَارَةٍ حَسَنَةٍ ، فَقَالَتْ أُمُّهُ : اللَّهُمَّ اجْعَلِ ابْنِي مِثْلَ هَذَا ، فَتَرَكَ الثَّدْيَ وَأَقْبَلَ إِلَيْهِ فَنَظَرَ إِلَيْهِ ، فَقَالَ : اللَّهُمَّ لَا تَجْعَلْنِي مِثْلَهُ ، ثُمَّ أَقْبَلَ عَلَى ثَدْيِهِ فَجَعَلَ يَرْتَضِعُ ، قَالَ : فَكَأَنِّي أَنْظُرُ إِلَى رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَهُوَ يَحْكِي ارْتِضَاعَهُ بِإِصْبَعِهِ السَّبَّابَةِ فِي فَمِهِ ، فَجَعَلَ يَمُصُّهَا ، قَالَ : وَمَرُّوا بِجَارِيَةٍ وَهُمْ يَضْرِبُونَهَا وَيَقُولُونَ زَنَيْتِ سَرَقْتِ وَهِيَ ، تَقُولُ : حَسْبِيَ اللَّهُ وَنِعْمَ الْوَكِيلُ ، فَقَالَتْ أُمُّهُ : اللَّهُمَّ لَا تَجْعَلِ ابْنِي مِثْلَهَا ، فَتَرَكَ الرَّضَاعَ وَنَظَرَ إِلَيْهَا ، فَقَالَ : اللَّهُمَّ اجْعَلْنِي مِثْلَهَا ، فَهُنَاكَ تَرَاجَعَا الْحَدِيثَ ، فَقَالَتْ حَلْقَى مَرَّ رَجُلٌ حَسَنُ الْهَيْئَةِ ، فَقُلْتُ : اللَّهُمَّ اجْعَلِ ابْنِي مِثْلَهُ ، فَقُلْتَ : اللَّهُمَّ لَا تَجْعَلْنِي مِثْلَهُ ، وَمَرُّوا بِهَذِهِ الْأَمَةِ وَهُمْ يَضْرِبُونَهَا ، وَيَقُولُونَ : زَنَيْتِ سَرَقْتِ ، فَقُلْتُ : اللَّهُمَّ لَا تَجْعَلِ ابْنِي مِثْلَهَا ، فَقُلْت : اللَّهُمَّ اجْعَلْنِي مِثْلَهَا ، قَالَ : إِنَّ ذَاكَ الرَّجُلَ كَانَ جَبَّارًا ، فَقُلْتُ : اللَّهُمَّ لَا تَجْعَلْنِي مِثْلَهُ ، وَإِنَّ هَذِهِ يَقُولُونَ لَهَا زَنَيْتِ ، وَلَمْ تَزْنِ ، وَسَرَقْتِ ، وَلَمْ تَسْرِقْ ، فَقُلْتُ : اللَّهُمَّ اجْعَلْنِي مِثْلَهَا " .
سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے روایت کرتے ہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : گود میں کسی بچے نے بات نہیں کی سوائے تین بچوں کے۔ ایک عیسیٰ علیہ السلام دوسرے جریج کا ساتھی۔ اور جریج نامی ایک شخص عابد تھا، اس نے ایک عبادت خانہ بنایا اور اسی میں رہتا تھا۔ وہ نماز پڑھ رہا تھا کہ اس کی ماں آئی اور اسے بلایا کہ اے جریج ! تو وہ ( دل میں ) کہنے لگا کہ یا اللہ میری ماں پکارتی ہے اور میں نماز میں ہوں ( میں نماز پڑھے جاؤں یا اپنی ماں کو جواب دوں )؟ آخر وہ نماز ہی میں رہا تو اس کی ماں واپس چلی گئی۔ پھر جب دوسرا دن ہوا تو وہ پھر آئی اور پکارا کہ اے جریج ! وہ بولا کہ اے اللہ ! میری ماں پکارتی ہے اور میں نماز میں ہوں، آخر وہ نماز میں ہی رہا پھر اس کی ماں تیسرے دن آئی اور بلایا لیکن جریج نماز ہی میں رہا تو اس کی ماں نے کہا کہ یااللہ ! اس کو اس وقت تک نہ مارنا جب تک یہ فاحشہ عورتوں کا منہ نہ دیکھ لے ( یعنی ان سے اس کا سابقہ نہ پڑے )۔ پھر بنی اسرائیل نے جریج کا اور اس کی عبادت کا چرچا شروع کیا اور بنی اسرائیل میں ایک بدکار عورت تھی جس کی خوبصورتی سے مثال دیتے تھے، وہ بولی اگر تم کہو تو میں جریج کو آزمائش میں ڈالوں۔ پھر وہ عورت جریج کے سامنے گئی لیکن جریج نے اس کی طرف خیال بھی نہ کیا۔ آخر وہ ایک چرواہے کے پاس گئی جو اس کے عبادت خانے میں آ کر پناہ لیا کرتا تھا اور اس کو اپنے سے صحبت کرنے کی اجازت دی تو اس نے صحبت کی جس سے وہ حاملہ ہو گئی۔ جب بچہ جنا تو بولی کہ بچہ جریج کا ہے۔ لوگ یہ سن کر اس کے پاس آئے، اس کو نیچے اتارا، اس کے عبادت خانہ کو گرایا اور اسے مارنے لگے۔ وہ بولا کہ تمہیں کیا ہوا؟ انہوں نے کہا کہ تو نے اس بدکار عورت سے زنا کیا ہے اور اس نے تجھ سے ایک بچے کو جنم دیا ہے۔ جریج نے کہا کہ وہ بچہ کہاں ہے؟ لوگ اس کو لائے تو جریج نے کہا کہ ذرا مجھے چھوڑو میں نماز پڑھ لوں۔ پھر نماز پڑھی اور اس بچہ کے پاس آ کر اس کے پیٹ کو ایک ٹھونسا دیا اور بولا کہ اے بچے تیرا باپ کون ہے؟ وہ بولا کہ فلاں چرواہا ہے۔ یہ سن کر لوگ جریج کی طرف دوڑے اور اس کو چومنے چاٹنے لگے اور کہنے لگے کہ ہم تیرا عبادت خانہ سونے اور چاندی سے بنائے دیتے ہیں۔ وہ بولا کہ نہیں جیسا تھا ویسا ہی مٹی سے پھر بنا دو۔ تو لوگوں نے بنا دیا۔ ( تیسرا ) بنی اسرائیل میں ایک بچہ تھا جو اپنی ماں کا دودھ پی رہا تھا کہ اتنے میں ایک بہت عمدہ جانور پر خوش وضع، خوبصورت سوار گزرا۔ تو اس کی ماں اس کو دیکھ کر کہنے لگی کہ یا اللہ ! میرے بیٹے کو اس سوار کی طرح کرنا۔ یہ سنتے ہی اس بچے نے ماں کی چھاتی چھوڑ دی اور سوار کی طرف منہ کر کے اسے دیکھا اور کہنے لگا کہ یااللہ ! مجھے اس کی طرح نہ کرنا۔ اتنی بات کر کے پھر چھاتی میں جھکا اور دودھ پینے لگا۔ سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے کہا کہ گویا میں ( اس وقت ) نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو دیکھ رہا ہوں کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی انگلی کو چوس کر دکھایا کہ وہ لڑکا اس طرح چھاتی چوسنے لگا۔ پھر ایک لونڈی ادھر سے گزری جسے لوگ مارتے جاتے تھے اور کہتے تھے کہ تو نے زنا کیا اور چوری کی ہے۔ وہ کہتی تھی کہ مجھے اللہ تعالیٰ ہی کافی ہے اور وہی میرا وکیل ہے۔ تو اس کی ماں نے کہا کہ یا اللہ ! میرے بیٹے کو اس کی طرح نہ کرنا۔ یہ سن کر بچے نے پھر دودھ پینا چھوڑ دیا اور اس عورت کی طرف دیکھ کر کہا کہ یا اللہ مجھے اسی لونڈی کی طرح کرنا۔ اس وقت ماں اور بیٹے میں گفتگو ہوئی تو ماں نے کہا کہ او سرمنڈے ! جب ایک شخص اچھی صورت کا نکلا اور میں نے کہا کہ یا اللہ ! میرے بیٹے کو ایسا کرنا تو تو نے کہا کہ یا اللہ مجھے ایسا نہ کرنا اور لونڈی جسے لوگ مارتے جاتے ہیں اور کہتے ہیں کہ تو نے زنا کیا اور چوری کی ہے تو میں نے کہا کہ یا اللہ ! میرے بیٹے کو اس کی طرح کا نہ کرنا تو تو کہتا ہے کہ یا اللہ مجھے اس کی طرح کرنا ( یہ کیا بات ہے )؟ بچہ بولا، وہ سوار ایک ظالم شخص تھا، میں نے دعا کی کہ یا اللہ مجھے اس کی طرح نہ کرنا اور اس لونڈی پر لوگ تہمت لگاتے ہیں اور کہتے ہیں کہ تو نے زنا کیا اور چوری کی ہے حالانکہ اس نے نہ زنا کیا ہے اور نہ چوری کی ہے تو میں نے کہا کہ یا اللہ مجھے اس کی مثل کرنا۔
جناب من! اب آپ اپنے کفریہ شرکیہ عقائد کے دفاع کے لئے رسول اللہ ﷺ کی بیان کردہ کرامات کو صحیح اور قرآن حدیث کے مطابق ماننے سے انکار کر رہے ہو!!
تلمیذ صاحب! توبہ کریں!! اور تجدید ایمان کریں!! اور اگر فقہ حنفیہ پر بھی عمل پیرا ہونا ہے تو تجدید نکاح بھی کر لیں!!!

اور مندرجہ ذیل کفریہ شرکیہ کرتوت ہیں!!
نہیں!! آپ کا استدلال باطل
تلمیذ صاحب! آپ نے یہ بات مندجہ ذیل تحریر کے جواب میں ہے!!
اور مندرجہ ذیل کفریہ شرکیہ کرتوت ہیں!!
شیخ ابو یزید قرطبی فرماتے ہیں میں نے یہ سنا کہ جو شخص ستر ہزار مرتبہ لا اله الا الله پڑھے اس کو دوزخ کی آگ سے نجات ملے۔ میں نے یہ خبر سنکر ایک نصاب یعنی ستر ہزار کی تعداد اپنی بیوی کے لئے بھی پڑھا اور کئی نصاب خود اپنے لئے پڑھ کر ذخیرہ آخرت بنایا۔ ہمارے پاس ایک نوجوان رہتا تھا جس کے متعلق مشہور تھا کہ یہ صاحب کشف ہے، جنت دوزخ کا بھی اس کو کشف ہوتا ہے۔ مجھے اس کی صحت میں کچھ تردد تھا۔ ایک مرتبہ وہ نوجوان ہمارے ساتھ کھانے میں شریک تھا کہ دفعۃ اس نے ایک چیخ ماری اور سانس پھولنے لگا اور کہا کہ میری ماں دوزخ میں جل رہی ہے اس کی حالت مجھے نظر آئی۔ قرطبی کہتے ہیں کہ میں اس کی گھبراہٹ دیکھ رہا تھا۔ مجھے خیال آیا کہ ایک نصاب اس کی ماں کو بخش دوں جس سے اس کی سچائی کا بھی مجھے تجربہ ہو جائے گا۔ چنانچہ میں نے ایک نصاب ستر ہزار کا ان نصابوں میں سے جو اپنے لئے پڑھے تھے اس کی ماں کو بخش دیا۔ میں نے اپنے دل میں چپکے ہی سے بخشا تھا اور میرے اس پڑھنے کی خبر بھی اللہ کے سوا کسی کو نہ تھی مگر وہ نوجوان فورا کہنے لگا کہ چچا میری ماں دوزخ کے عذاب سے ہٹادی گئی۔ قرطبی کہتے ہیں کہ مجھے اس قصہ سے دو فائدے ہوئے۔ ایک تو اس برکت کا جو ستر ہزار کی مقدار پر میں نے سنی تھی اس کا تجربہ ہوا دوسرا اس نوجوان کی سچائی کا یقین ہوگیا۔
یہ ایک وقعہ ہے اس قسم کے نامعلوم کتنے وقعات اس امت کے افراد میں پائے جاتے ہیں ۔۔۔۔
تبلیغی نصاب۔ فضائل اعمال۔ فضائل ذکر ۔ باب دوم ۔ فصل سوم ۔ حدیث 17 صفحہ 484
کتب خانہ فیضی لاھور
اس استدلال کا صحیح ہونا تو ہم ثابت کر چکے ہیں!!
اب اگر کسی میں جرأت ہے تو وہ قرآن حدیث سے ثبوت پیش کرے!! کہ تبلیغی نصاب سے پیش کردہ اقتباس کے دعوی قرآن کی اس آیت کے مطابق ہیں یا اس حدیث کے مطابق ہیں!! اور قرآن حدیث سے پیش کردہ آیت یا حدیث سے اس اقتباس میں موجود عقائد کی مطابقت لغت و شرع کے مطابق پیش کرے!!
اس طرح بات کہيں بھی نہیں پہنچے گي ۔ واضح جواب دیں
جناب من! بات تو وہاں پہنچ چکی جہاں پہنچنی تھی!!
تلمیذ صاحب !! دیکھ لیں آپ اس کفر و شرک کے دفاع کے چکر میں رسول اللہ ﷺ کی بیان کردہ بات کو قرآن و حدیث کے مطابق صحیح تسلیم کرنے سے انکار کر کر کفر کے مرتکب ہو چکے ہیں!!!
 

تلمیذ

مشہور رکن
شمولیت
ستمبر 12، 2011
پیغامات
765
ری ایکشن اسکور
1,506
پوائنٹ
191
عمران ناصر صاحب نے کہا

یارب وہ نہ سمجھے ہیں نہ سمجھیں گے میری بات
دے اور دل ان کو، جو نہ دے مجھ کو زباں اور
ایسی زباں ضرور مانگ لیجیئے جو حق کہنے کی جرت کر سکے

محترم ! جو واقعات و حادثات اور کشف و کرامات شریعت کی کسوٹی پر پورا نہ اتریں ان کی مثال بھنگڑوں اور قوالیوں سے زیادہ نہیں ہوتی ، ایسے اعمال و افعال پر تالیاں تو بجائی جا سکتی ہیں مگر انھیں مذہبی حوالہ نہیں بنایا جا سکتا بہرحال یہ تو چند تمہیدی کلمات تھے۔
بھائی تمہیدی کلمات بھی بادلیل لکھا کریں

میرے جس پیراگراف پہ آپ نے یہ خامہ فرسائی فرمائی ہے یہ آپ کا نِرا وہم ہے ، افضل و مفضول کی بحث یہاں سرِدست مقصود نہیں۔ میری اصل مراد اس سے یہ تھی کہ انسان کی اس دنیا سے رحلت کے بعد اس کی بخشش یا بلندیّ درجات کے ذرائع میں سے صدقہّ جاریہ کی صورت میں بیان کی گئیں تین صورتوں میں سے ایک نیک و پارسا اولاد ہے جس کے اعمالِ حسنہ اس کے والدین کی گناہوں سے بخشش یا درجات کی بلندی کا سبب بنتے ہیں ، مگر مذکورہ واقعہ میں حدیثِ رسول میں بیان کی گئی یہ صورت بھی کارگر نہ ہوئی (وجہ درکار ہے) لیکن ایصالِ ثواب کا ایک غیر معتبر ذریعہ کارگر ثابت ہوا (ثبوت درکار ہے)۔ یہ بات بھی ذہن نشین رہنی چاہیئے کہ حدیثِ رسول کے مطابق خشر کے روز جن سات شخصوں کو عرشِ الٰہی کا سایہ نصیب ہو گا ان میں سے ایک وہ نوجوان ہو گا جس نے اپنی جوانی اللہ تعالٰی کی عبادت و ریاضت میں بسر کی ہو گی۔
آپ کی بات سے تاثر مل رہا ہے کہ اگر کوئی اعلی درجہ کا بزرگ ہوگا تو اس کے ماں باپ کی بخشش یقینی ہے اور جس کے ماں باپ کی بخشش نہ ہوسکے تو ان کی اولاد کو نیک نہیں کہا جاسکتا ۔ اگر آپ کے یہ عقیدہ ہے تو کنفرم کیجیئے گا تا کہ بات آگے بڑہے اور اگر کچھ اور عقیدہ ہے بیان ضرور کیجئیے گا اور اس عقیدہ کو اوپر پیش کردہ اقتباس سے مطابقت بھی کیجئیے گا ۔
محترم اس سارے واقعہ میں دعا کا ذکر تو کہیں نہیں البتہ ایک وظیفے کا ھدیہ ضرور پیش کیا گیا ہے۔

مذکورہ واقعہ میں ایک اشکال یہ بھی ہے کہ شیخ قرطبی صاحب نے جس وظیفہ کی فضیلت بیان کی ہے اس کی صحت پر انھیں بھی اضطراب تھا جیسا کی ان کہ اس قول سے بھی ظاہر ہے
قرطبی کا یہ عمل بدعت تھا یا نہیں ، ابن داود صاحب کہ چکے ہیں کہ اس پر بعد میں بات ہوگی ۔ اسی وجہ اس حوالہ ہے کچھ نہیں کہا گيا ۔
ابن داود صاحب کا موقف ہے کہ واقعہ شرکیہ ہے اس لئیے من گھڑت ہے اور عمران ناصر آپ کا اس واقعہ کو من گھڑت کہنے کی کیا دلیل ہے کیوں کہ ابھی تک آپ کی پوسٹس سے مبھے یہ تاثر ملا کہ آپ اس کو شرکیہ نہیں کہ رہے ۔

باقی درمختار کا حوالہ ہے ۔ یہ پوسٹ تبلیغی جماعت سے متعلق ہے ان ہی کتب تک رہنيں دیں

خنجر پہ کوئی داغ نہ دامن پہ کوئی چھینٹ
تم قتل کرو ہو کہ کرامات کرو ہو
جلیں آپ ایک کرامت کے تو قائل ہوئے کہ اگر کسی کو خنجر سے قتل کیا جائے اور خنجر اور دامن پر کوئی خون کا دھبہ نہ ہو تو وہ کرامت ہوگی ۔


ابن داود صاحب نے کہا
جناب من! ہمارے لئے تو بہترین جواب رسول اللہ ﷺ کے الفاظ میں ہے !! اور جواب میں اگر نص موجود ہو تو استدلال و استنباط کی ہم کوئی حاجت محسوس نہیں کرتے!!!
نہیں بھائی آپ اپنے دعوی میں سچے نہیں ۔ آگر آپ اپنے اس دعوی میں سجے ہوتے کہ اگر نص کے مقابلے میں کسی اور قول کی ضرورت نہیں تو ان تفاسیر اور تشریحا ت والی کتب کو تصنیف اور اپلوڈ کا کیا فائدہ جو آپ حضرات نے اپنی ویب سائٹ پر کر رکھی ہیں ؟؟
بہر حال آپ نے جو حدیث پیش کی آپ تو اس کی تشریح نہیں کرنا چاہ رہے میں کچھ عرض کردیتا ہوں

" اگر میری امت میں کوئی محدث ہوا تو ''کا مقصود اس امت میں محدث کے وجود کو مشکوک ومشتبہ کرنا نہیں ہے ،امت محمدی تو پچھلے تمام امتوں سے افضل واعلی ہے ۔اگر پچھلی امتوں میں محدث ہوا کرتے تھے تواس امت مین ان کا وجود یقینی بطریق اولیٰ ہوگا ۔ پس ان الفاظ کا مقصد تاکید وتخصیص ہے ،اس جملہ کی مثال ایسی ہی ہے جیسے کوئی شخص اپنے مخلص ترین دوست کی خصوصی حیثیت کو اجاگر کرنے کے لئے کہے کہ دنیا میں اگر کوئی شخص میرا دوست ہے توبس وہی ہے جس طرح اس جملہ کی مراد اس شخص کی دوستی کے درجہ کمال کو نہایت خصوصیت کے ساتھ بیان کرنا ہوتی ہے ۔اسی طرح حدیث کے مذکورہ بالا جملہ کی مراد مذکورہ وصف کے ساتھ حضرت عمر کی نہایت خصوصی نسبت کو بیان کرنا ہے ۔

ذرا یہ حوالہ جات دیکھ لئیجئیے

والذي نفسي بيده لو تدومون على ما تكونون عندي وفي الذكر لصافحتكم الملائكة على فرشكم وفي طرقكم.

إن رسول الله صلى الله عليه وسلم جمع بين حجة وعمرة . ثم لم ينه عنه حتى مات . ولم ينزل فيه قرآن يحرمه . وقد كان يسلم علي حتى اكتويت . فتركت . ثم تركت الكي فعاد .

حدثنا موسى بن إسماعيل ثنا حماد عن ثابت عن مطرف عن عمران بن حصين قال: ((نهى النبي صلى الله عليه و سلم عن الكي فاكتوينا فما أفلحن ولا أنجحن)) قال أبو داود: "وكان يسمع تسليم الملائكة فلما اكتوى انقطع عنه فلما ترك رجع إليه"

قال الحافظ ابن حجر في الفتح: وقد ثبت عن عمران بن حصين أنه كان يسمع كلام الملائكة. وقال المباركفوري في شرح الترمذي: عمران بن حصين... كان من علماء الصحابة وكانت الملائكة تسلم عليه وهو ممن اعتزل الفتنة.


اب مجھے اپنی طرف سے کہنے کی کوئی ضرورت نہیں اوپر احادیث اور فقہاء کے قول سے ثابت ہوگيا کہ اس امت کے افراد سے آکر فرشتہ کلام کریں تو یہ نا ممکن نہیں
میں نے کہا تھا
تیسرے بچہ کو کیسے پتا چلا اس باندی نے کبھی نہ زنا کیا نہ چوری ۔ اس کا جواب آپ نے نہ دیا
آپ نے مناقب عمر والی حدیث پیس کر کے کہا
جناب من! یہ حدیث ہی تیسرے بچہ کے حوالہ سے بھی آپ کے اعتراض کا جواب ہے!! فتدبر!!!
اب تو یہ ثابت ہوگيا کہ اس امت کے افراد سے بھی فرشتہ کلام کرسکتے ہیں تو اب آپ کی کیا دلیل ہے ؟؟؟

جناب من! اب آپ اپنے کفریہ شرکیہ عقائد کے دفاع کے لئے رسول اللہ ﷺ کی بیان کردہ کرامات کو صحیح اور قرآن حدیث کے مطابق ماننے سے انکار کر رہے ہو!!
تلمیذ صاحب! توبہ کریں!! اور تجدید ایمان کریں!! اور اگر فقہ حنفیہ پر بھی عمل پیرا ہونا ہے تو تجدید نکاح بھی کر لیں!!!
یہ پہلی دفعہ نہیں جب آپ مجھ پر تکفیری فتوی جاری کرہے ہیں ۔ آپ اور اپ کے مسلکی افراد کی یہ خاصیت ہے کہ آپ حصرات اپنے مخالفین کے اقوال سیاق و سباق سے ہٹا کر من مانی بات اخذ کر کے تکفیری فتاوی اجراء کردیثے ہیں ۔
میں نے کہا تھا
اگر یہی طرز کلام رکھنا ہے تو پھر میں بھی کیا یہی طرزکلام رکھوں
اور بطور مثال اگلی باتیں بیان کی تھیں جن کو آپ بھی بخوبی سمجھ سکتے ہیں اور میں جب اس حدیث سے اثبات الکرامہ کا حوالہ دے رہا ہوں تو میں خود اس حدیث والی کرامت کا انکار کیسے کرسکتا ہوں ۔
اگر میں اسی طرح نتیجے اخذ کروں تو کیا صورت حال ہوگي
آپ نے کہا تھا
ب اگر کسی میں جرأت ہے تو وہ قرآن حدیث سے ثبوت پیش کرے!!
اس کا مطلب ہے میں نے جو احادیث پیش کیں آپ ان کو احادیث نہیں مانتے ۔ تو کیا میں بھی تکفیری فتوی جاری کروں ؟؟؟؟
نہیں بھائی انہیں تکفیری فتووں نے تو امت کا پارہ پارہ کیا ہے

آپ نے اب تک اس سوال کا جواب نہ دیا
ذرا کرامات کی اقسام مثال کے ساتھ بتا دیجيئے گا کہ کس قسم کی کرامت شرکیہ ہے اور کس قسم کی کرامت صحیح ہوتی ہے ۔
 

مفتی عبداللہ

مشہور رکن
شمولیت
جولائی 21، 2011
پیغامات
531
ری ایکشن اسکور
2,183
پوائنٹ
171
ایک انپڑ آدمی تبلیغی جماعت میں تیندن لگاتا ہے اور پہر ہر نماز باجماعت اداء کرتا ہے اب ان کی خوبیوں کو چہوڑ کر خامیاں گننا کوی عقلمندی نہی عقاید کیلیے فرحت ہا شمی کی طرح خاموش محنت کرناچاہیے لڑای جگہڑے اور دنگا فساد والا دعوت اب نہی چلیگا
 

جمشید

مشہور رکن
شمولیت
جون 09، 2011
پیغامات
871
ری ایکشن اسکور
2,331
پوائنٹ
180
خنجر پہ کوئی داغ نہ دامن پہ کوئی چھینٹ
تم قتل کرو ہو کہ کرامات کرو ہو
واقعی کرامت ہے کہ جوشخص تبلیغی جماعت کانہ صرف سرگرم اورفعال کارکن ہو بلکہ صوبہ بہارکاامیر بھی ہو۔یعنی کلیم عاجز صاحب بہرحال ان کے شعرنے ان لوگوںکوبھی اسیر کرلیاہے جو تبلیغی جماعت سے اتفاق نہیں رکھتے۔
 

ابن داود

فعال رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
نومبر 08، 2011
پیغامات
3,416
ری ایکشن اسکور
2,733
پوائنٹ
556
السلام وعلیکم ورحمۃاللہ وبرکاتہ!
ابن داود صاحب نے کہا
جناب من! ہمارے لئے تو بہترین جواب رسول اللہ ﷺ کے الفاظ میں ہے !! اور جواب میں اگر نص موجود ہو تو استدلال و استنباط کی ہم کوئی حاجت محسوس نہیں کرتے!!!
نہیں بھائی آپ اپنے دعوی میں سچے نہیں ۔ آگر آپ اپنے اس دعوی میں سجے ہوتے کہ اگر نص کے مقابلے میں کسی اور قول کی ضرورت نہیں تو ان تفاسیر اور تشریحا ت والی کتب کو تصنیف اور اپلوڈ کا کیا فائدہ جو آپ حضرات نے اپنی ویب سائٹ پر کر رکھی ہیں ؟؟
بہر حال آپ نے جو حدیث پیش کی آپ تو اس کی تشریح نہیں کرنا چاہ رہے میں کچھ عرض کردیتا ہوں
میرے بھائی ہم نے یہ بات کب کہہ دی کہ تفسیر و تشریح کے ہم قائل نہیں !! ہم نے تو صرف اتنا کہا کہ جب سوال کا جواب حدیث میں واضح نص کے ساتھ موجود ہو تو استدلال و استنباط کی حاجت محسوس نہیں کرتے!!!
" اگر میری امت میں کوئی محدث ہوا تو ''کا مقصود اس امت میں محدث کے وجود کو مشکوک ومشتبہ کرنا نہیں ہے ،امت محمدی تو پچھلے تمام امتوں سے افضل واعلی ہے ۔اگر پچھلی امتوں میں محدث ہوا کرتے تھے تواس امت مین ان کا وجود یقینی بطریق اولیٰ ہوگا ۔ پس ان الفاظ کا مقصد تاکید وتخصیص ہے ،اس جملہ کی مثال ایسی ہی ہے جیسے کوئی شخص اپنے مخلص ترین دوست کی خصوصی حیثیت کو اجاگر کرنے کے لئے کہے کہ دنیا میں اگر کوئی شخص میرا دوست ہے توبس وہی ہے جس طرح اس جملہ کی مراد اس شخص کی دوستی کے درجہ کمال کو نہایت خصوصیت کے ساتھ بیان کرنا ہوتی ہے ۔اسی طرح حدیث کے مذکورہ بالا جملہ کی مراد مذکورہ وصف کے ساتھ حضرت عمر کی نہایت خصوصی نسبت کو بیان کرنا ہے ۔
تلمیذ صاحب! آپ نے اس حدیث کی یہ جو تاویل بیان کی ہے!! یہ آپ کی خود کشیدہ ہے یا پھر آپ سے قبل کسی شارح الحدیث نے بیان کی ہے!! اگر آپ سے قبل یہ سے قبل کسی شارح نے بیان کی ہے تو پہلے وہ حوالہ پیش کر دیں!! پھر اس پر مزید بات کرتے ہیں !! ان شاءاللہ!!
ذرا یہ حوالہ جات دیکھ لئیجئیے
ہم دیکھ لیتے ہیں!
والذي نفسي بيده لو تدومون على ما تكونون عندي وفي الذكر لصافحتكم الملائكة على فرشكم وفي طرقكم.
مکمل حدیث بمع ترجمہ و حوالہ ہم پیش کئے دیتے ہیں!!
حدثنا يحيى بن يحيى التيمي ، وقطن بن نسير واللفظ ليحيى ، أخبرنا جعفر بن سليمان ، عن سعيد بن إياس الجريري ، عن أبي عثمان النهدي ، عن حنظلة الأسيدي ، قال : وكان من كتاب رسول الله صلى الله عليه وسلم ، قال : لقيني أبو بكر ، فقال : كيف أنت يا حنظلة ؟ ، قال : قلت : نافق حنظلة ، قال : سبحان الله ما تقول ؟ ، قال : قلت : نكون عند رسول الله صلى الله عليه وسلم يذكرنا بالنار والجنة حتى كأنا رأي عين ، فإذا خرجنا من عند رسول الله صلى الله عليه وسلم عافسنا الأزواج والأولاد والضيعات ، فنسينا كثيرا ، قال أبو بكر : فوالله إنا لنلقى مثل هذا ، فانطلقت أنا وأبو بكر حتى دخلنا على رسول الله صلى الله عليه وسلم ، قلت : نافق حنظلة يا رسول الله ، فقال رسول الله صلى الله عليه وسلم : " وما ذاك ؟ " ، قلت : يا رسول الله نكون عندك تذكرنا بالنار والجنة حتى كأنا رأي عين ، فإذا خرجنا من عندك عافسنا الأزواج والأولاد والضيعات نسينا كثيرا ، فقال رسول الله صلى الله عليه وسلم : " والذي نفسي بيده إن لو تدومون على ما تكونون عندي ، وفي الذكر لصافحتكم الملائكة على فرشكم وفي طرقكم ، ولكن يا حنظلة ساعة وساعة ثلاث مرات " .
حضرت حنظلہ اسیدی سے روایت ہے کہ وہ رسول اللہ کے کا تبوں میں سے تھے وہ کہتے ہیں کہ مجھ سے حضرت ابوبکر کی ملاقات ہوئی تو انہوں نے کہا اے حنظلہ تم کیسے ہو میں نے کہا حنظلہ تو منافق ہوگیا انہوں نے کہا سُبْحَانَ اللَّهِ تم کیا کہہ رہے ہو میں نے کہا ہم رسول اللہ کی خدمت میں ہوتے ہیں اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم ہمیں جنت و دوزخ کی یاد دلاتے رہتے ہیں گویا کہ ہم انہیں اپنی آنکھوں سے دیکھتے ہیں اور جب ہم رسول اللہ کے پاس سے نکل جاتے ہیں تو ہم بیویوں اور اولاد اور زمینوں وغیرہ کے معاملات میں مشغول ہو جاتے ہیں اور ہم بہت ساری چیزوں کو بھول جاتے ہیں حضرت ابوبکر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے کہا اللہ کی قسم ہمارے ساتھ بھی اسی طرح معاملہ پیش آتا ہے میں اور ابوبکر چلے یہاں تک کہ ہم رسول اللہ کی خدمت میں حاضر ہوئے میں نے عرض کیا اے اللہ کے رسول حنظلہ تو منافق ہوگیا رسول اللہ نے فرمایا کیا وجہ ہے میں نے عرض کیا اے اللہ کے رسول ہم آپ کی خدمت میں ہوتے ہیں تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم ہمیں جنت و دوزخ کی یاد دلاتے رہتے ہیں یہاں تک کہ وہ آنکھوں دیکھے ہو جاتے ہیں جب ہم آپ کے پاس سے چلے جاتے ہیں تو ہم اپنی بیویوں اور اولاد اور زمین کے معاملات وغیرہ میں مشغول ہو جانے کی وجہ سے بہت ساری چیزوں کو بھول جاتے ہیں تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا اس ذات کی قسم جس کے ہاتھ میں میری جان ہے اگر تم اسی کیفیت پر ہمیشہ رہو جس حالت میں میرے پاس ہوتے ہو، ذکر میں مشغول ہوتے ہو تو فرشتے تمہارے بستروں پر تم سے مصافحہ کریں اور راستوں میں بھی لیکن اے حنظلہ ایک ساعت (یاد کی) ہوتی ہے اور دوسری (غفلت کی ) اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے تین بار فرمایا۔
صحيح مسلم » كِتَاب التَّوْبَةِ » بَاب فَضْلِ دَوَامِ الذِّكْرِ وَالْفِكْرِ فِي أُمُورِ
آپ خود دوسرے تھریڈ میں "لو" سے بالفرض محال ثابت کر رہے ہیں اور یہاں اس "لو" سے ممکنات ثابت کرنا چاہتے ہیں!! جبکہ یہاں یقینا بالفرض محال ہی ہے، جس کی دلالت رسول اللہ ﷺ کے الفاظ ولكن يا حنظلة ساعة وساعة لیکن اے حنظلہ ایک ساعت (یاد کی) ہوتی ہے اور دوسری (غفلت کی )
تلمیذ میاں!! اسی لئے کہتا ہوں ذرا سوچ سمجھ کر لکھا کریں!!
اور اگر اس بات کو تسلیم بھی کیا جائے کہ ملائکہ کا اس امت میں مصافحہ کرنا ممکن ہو بھی تو اس سے غیب کی خبر دینا ثابت نہیں ہوتا!!!
لہذا یہاں سے بھی آپ کا استدلال باطل!!
إن رسول الله صلى الله عليه وسلم جمع بين حجة وعمرة . ثم لم ينه عنه حتى مات . ولم ينزل فيه قرآن يحرمه . وقد كان يسلم علي حتى اكتويت . فتركت . ثم تركت الكي فعاد .
مکمل حدیث بمع ترجمہ و حوالہ ہم پیش کئے دیتے ہیں!!
حدثني عبيد الله بن معاذ ، حدثنا أبي ، حدثنا شعبة ، عن حميد بن هلال ، عن مطرف ، قال : قال لي عمران بن حصين : " أحدثك حديثا عسى الله أن ينفعك به ، إن رسول الله صلى الله عليه وسلم جمع بين حجة وعمرة ، ثم لم ينه عنه حتى مات ولم ينزل فيه قرآن يحرمه ، وقد كان يسلم علي حتى اكتويت ، فتركت ثم تركت الكي فعاد " .
عمران بن حصین رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے فرمایا کہ میں تجھ سے ایک حدیث بیان کروں گا شاید کہ اللہ تعالیٰ اس کے ذریعہ سے تجھے نفع دے وہ یہ کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے حج اور عمرہ دونوں کو ایک ساتھ اکٹھا کیا پھر ان سے منع بھی نہیں فرمایا یہاں تک کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم دنیا سے رحلت فرما گئے اور نہ ہی اس کی حرمت کے بارے میں قرآن نازل ہوا اور مجھ پر سلام کیا جاتا تھا جب تک کہ میں نے داغ نہیں لگوایا تو جب میں نے داغ لیا تو سلام چھوٹ گیا پھر میں نے داغ لینا چھوڑا تو مجھ پر پھر سلام کیا جانے لگا۔
صحيح مسلم » كِتَاب الْحَجِّ » بَاب جَوَازِ التَّمَتُّعِ
تلمیذ صاحب! اس اثر میں جو بات ہے وہ صرف اتنی ہے کہ ملائکہ کا سلام سنا !! بس اس سے زیادہ کی کوئی بات نہیں!! اس اثر میں ایسی کوئی بات نہیں کہ عمران بن حصین کو غیب کی کوئی خبر دی گئی ہو!!
حدثنا موسى بن إسماعيل ثنا حماد عن ثابت عن مطرف عن عمران بن حصين قال: ((نهى النبي صلى الله عليه و سلم عن الكي فاكتوينا فما أفلحن ولا أنجحن)) قال أبو داود: "وكان يسمع تسليم الملائكة فلما اكتوى انقطع عنه فلما ترك رجع إليه"
موسی بن اسماعیل، حماد، ثابت، مطرف، عمران بن حصین فرماتے ہیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے داغ لگانے سے (زخم کو بند کرنے لیے) منع فرمایا ہم نے داغ لگایا تو نہ ہی ہمیں فائدہ ہوا اور نہ ہی ہم کامیاب ہوئے۔
ابو داود نے کہا: عمران بن حصین ملائکہ کا سلام سنا کرتے تھے۔ جب انہوں نے داغ لگوائے تو یہ سلسلہ منقطع ہو گیا۔ پھر جب چھوڑ دیا تو پھر سے سلام سننے لگے۔
سنن أبي داود » كِتَاب الطِّبِّ » بَاب فِي الْكَيِّ
تلمیذ صاحب! اس اثر میں جو بات ہے وہ صرف اتنی ہے کہ ملائکہ کا سلام سنا !! بس اس سے زیادہ کی کوئی بات نہیں!! اس اثر میں ایسی کوئی بات نہیں کہ عمران بن حصین کو غیب کی کوئی خبر دی گئی ہو!!
قال الحافظ ابن حجر في الفتح: وقد ثبت عن عمران بن حصين أنه كان يسمع كلام الملائكة. وقال المباركفوري في شرح الترمذي: عمران بن حصين... كان من علماء الصحابة وكانت الملائكة تسلم عليه وهو ممن اعتزل الفتنة.
تلمیذ صاحب! ان اقوال میں جو بات ہے وہ صرف اتنی ہے کہ ملائکہ کا سلام سنا !! بس اس سے زیادہ کی کوئی بات نہیں!! اس اثر میں ایسی کوئی بات نہیں کہ عمران بن حصین کو غیب کی کوئی خبر دی گئی ہو!!
اب مجھے اپنی طرف سے کہنے کی کوئی ضرورت نہیں اوپر احادیث اور فقہاء کے قول سے ثابت ہوگيا کہ اس امت کے افراد سے آکر فرشتہ کلام کریں تو یہ نا ممکن نہیں
جناب من! یہ آپ عمران بن حصین کے ملائکہ کے سلام سننے کے معاملہ سے نجانے غیب کے دروازے کھولنے کی سعی کیون کر رہے ہیں!! تلمیذ صاحب! ہمیں ذرا کوئی ایک ایسی حدیث صحیح پیش کریں جس سے یہ ثابت ہو کہ اس امت میں کسی امتی کو غیب کی خبر دی گئی ہو!! اور جنت و دوزخ کا نظارہ کروایا گیا ہو!!!
باقی رہی ملائکہ سے سلام سننے کی بات تو یہ موضوع بحث نہیں!!!
میں نے کہا تھا
تیسرے بچہ کو کیسے پتا چلا اس باندی نے کبھی نہ زنا کیا نہ چوری ۔ اس کا جواب آپ نے نہ دیا
آپ نے مناقب عمر والی حدیث پیس کر کے کہا
جناب من! یہ حدیث ہی تیسرے بچہ کے حوالہ سے بھی آپ کے اعتراض کا جواب ہے!! فتدبر!!!
اب تو یہ ثابت ہوگيا کہ اس امت کے افراد سے بھی فرشتہ کلام کرسکتے ہیں تو اب آپ کی کیا دلیل ہے ؟؟؟
جناب من! یہ آپ عمران بن حصین کے ملائکہ کے سلام سننے کے معاملہ سے نجانے غیب کے دروازے کھولنے کی سعی کیون کر رہے ہیں!! تلمیذ صاحب! ہمیں ذرا کوئی ایک ایسی حدیث صحیح پیش کریں جس سے یہ ثابت ہو کہ اس امت میں کسی امتی کو غیب کی خبر دی گئی ہو!! اور جنت و دوزخ کا نظارہ کروایا گیا ہو!!!
باقی رہی ملائکہ سے سلام سننے کی بات تو یہ موضوع بحث نہیں!!!
جناب من! اب آپ اپنے کفریہ شرکیہ عقائد کے دفاع کے لئے رسول اللہ ﷺ کی بیان کردہ کرامات کو صحیح اور قرآن حدیث کے مطابق ماننے سے انکار کر رہے ہو!!
تلمیذ صاحب! توبہ کریں!! اور تجدید ایمان کریں!! اور اگر فقہ حنفیہ پر بھی عمل پیرا ہونا ہے تو تجدید نکاح بھی کر لیں!!!
یہ پہلی دفعہ نہیں جب آپ مجھ پر تکفیری فتوی جاری کرہے ہیں ۔ آپ اور اپ کے مسلکی افراد کی یہ خاصیت ہے کہ آپ حصرات اپنے مخالفین کے اقوال سیاق و سباق سے ہٹا کر من مانی بات اخذ کر کے تکفیری فتاوی اجراء کردیثے ہیں ۔
میں نے کہا تھا
اگر یہی طرز کلام رکھنا ہے تو پھر میں بھی کیا یہی طرزکلام رکھوں
اور بطور مثال اگلی باتیں بیان کی تھیں جن کو آپ بھی بخوبی سمجھ سکتے ہیں اور میں جب اس حدیث سے اثبات الکرامہ کا حوالہ دے رہا ہوں تو میں خود اس حدیث والی کرامت کا انکار کیسے کرسکتا ہوں ۔
اگر میں اسی طرح نتیجے اخذ کروں تو کیا صورت حال ہوگي
جناب من! اب آپ خود علی اعلان ضد کا مظاہرہ کرتے ہوئے اپنی ہی پیش کردہ صحیح حدیث میں مذکور کرامات کو قرآن و حدیث کے مطابق صحیح ماننے سے انکا ر کریں تو آپ کے اس قول کو کفر ہی کہا جائے گا!!
آپ یہ ضد اور کج بحثی نہ کریں!!!
آپ نے کہا تھا
ب اگر کسی میں جرأت ہے تو وہ قرآن حدیث سے ثبوت پیش کرے!!
اس کا مطلب ہے میں نے جو احادیث پیش کیں آپ ان کو احادیث نہیں مانتے ۔ تو کیا میں بھی تکفیری فتوی جاری کروں ؟؟؟؟
تلمیذ صاحب! آپ ایسی غلط بیانی سے گریز کریں!! ہم نے آپ سے جو مطالبہ کیا ہے وہ مکمل پیش کریں!! ہم ایک بار پھر بیان کر دیتے ہیں!!
اب اگر کسی میں جرأت ہے تو وہ قرآن حدیث سے ثبوت پیش کرے!! کہ تبلیغی نصاب سے پیش کردہ اقتباس کے دعوی قرآن کی اس آیت کے مطابق ہیں یا اس حدیث کے مطابق ہیں!! اور قرآن حدیث سے پیش کردہ آیت یا حدیث سے اس اقتباس میں موجود عقائد کی مطابقت لغت و شرع کے مطابق پیش کرے!!
اور جناب من! یوں تو قادیانی بھی قرآن کی آیات اور احادیث پیش کرتے ہیں اور بزعم خویش مرزا قادیانی کی نبوت ثابت کرنے کی لاحاصل سعی کرتے ہیں، مگر ان کے استدلال لغت و شرع کے مطابق مردود ہوتے ہیں!!
جس طرح ان کے استدلال کا انکار قرآن و حدیث کا انکار نہیں ہوتا ، اسی طرح آپ کے استدلال کا انکار بھی قرآن و حدیث کا انکار نہیں!!
نہیں بھائی انہیں تکفیری فتووں نے تو امت کا پارہ پارہ کیا ہے
لوگ قرآن و حدیث کا کفر کرنا چھوڑ دے، ان پر کفر کے فتوی بھی نہیں لگائے جائیں گے!!
آپ نے اب تک اس سوال کا جواب نہ دیا
ذرا کرامات کی اقسام مثال کے ساتھ بتا دیجيئے گا کہ کس قسم کی کرامت شرکیہ ہے اور کس قسم کی کرامت صحیح ہوتی ہے ۔
جناب اقسام مثال کے ساتھ پچھلی تحریر میں بیان کر دی گئی ہیں!! بغور پڑھیں!!!
 

تلمیذ

مشہور رکن
شمولیت
ستمبر 12، 2011
پیغامات
765
ری ایکشن اسکور
1,506
پوائنٹ
191
ابن داود صاحب نے کہا
تلمیذ صاحب! آپ نے اس حدیث کی یہ جو تاویل بیان کی ہے!! یہ آپ کی خود کشیدہ ہے یا پھر آپ سے قبل کسی شارح الحدیث نے بیان کی ہے!! اگر آپ سے قبل یہ سے قبل کسی شارح نے بیان کی ہے تو پہلے وہ حوالہ پیش کر دیں!! پھر اس پر مزید بات کرتے ہیں !! ان شاءاللہ!!
عربی متن
( عن أبي هريرة - رضي الله عنه - قال : قال رسول الله - صلى الله عليه وسلم - : ( لقد كان فيما قبلكم من الأمم ) : بيان لما بمعنى ( من ) أي في الذين كانوا قبلكم ( محدثون ) : بفتح الدال المشددة أي : ناس ملهمون كما فسر به ابن وهب . ( فإن يك في أمتي أحد ) أي : واحد منهم فرضا وتقديرا ( فإنه عمر ) . أي وإن يك أكثر فهو حينئذ أولى وأظهر . قال التوربشتي : المحدث في كلامهم هو الرجل الصادق الظن وهو في الحقيقة من ألقي في روعه .

[ ص: 3893 ] شيء من قبل الملأ الأعلى ، فيكون كالذي حدث به . وفي قوله : فإن يك في أمتي أحد فهو عمر لم يرد هذا القول مورد التردد ، فإن أمته أفضل الأمم وإن كانوا موجودين في غيرهم من الأمم ، فبالحري أن يكونوا في هذه الأمة أكثر عددا وأعلى رتبة ، وإنما ورد مورد التأكيد والقطع به ، ولا يخفى على ذي الفهم محله من المبالغة كما يقول الرجل : إن يكن لي صديق فإنه فلان يريد بذلك اختصاصه بالكمال في صداقته لا نفي الأصدقاء اه . وتوضيحه أنك لا تريد بذلك الشك في صداقته والتردد في أنه هل لك صديق بل المبالغة في أن الصداقة مختصة به لا تتخطاه

حوالہ
مرقاة المفاتيح شرح مشكاة المصابيح
علي بن سلطان محمد القاري
http://www.islamweb.net/newlibrary/display_book.php?idfrom=12005&idto=12046&bk_no=79&ID=288

قوله : ( منهم أحد ) في رواية الكشميهني " من أحد " ورواية زكريا وصلها الإسماعيلي وأبو نعيم في مستخرجيهما ، وقوله : " وإن يك في أمتي " قيل : لم يورد هذا القول مورد الترديد فإن أمته أفضل الأمم ، وإذا ثبت أن ذلك وجد في غيرهم فإمكان وجوده فيهم أولى ، وإنما أورده مورد التأكيد كما يقول الرجل : إن يكن لي صديق فإنه فلان ، يريد اختصاصه بكمال الصداقة لا نفي الأصدقاء ، ونحوه قول الأجير : إن كنت عملت لك فوفني حقي ، وكلاهما عالم بالعمل لكن مراد القائل أن تأخيرك حقي عمل من عنده شك في كوني عملت
فتح الباري شرح صحيح البخاري
أحمد بن علي بن حجر العسقلاني

http://www.islamweb.net/newlibrary/display_book.php?flag=1&bk_no=52&ID=6704

آپ نے کہا
تلمیذ صاحب! اس اثر میں جو بات ہے وہ صرف اتنی ہے کہ ملائکہ کا سلام سنا !! بس اس سے زیادہ کی کوئی بات نہیں!! اس اثر میں ایسی کوئی بات نہیں کہ عمران بن حصین کو غیب کی کوئی خبر دی گئی ہو!!
تلمیذ صاحب! ان اقوال میں جو بات ہے وہ صرف اتنی ہے کہ ملائکہ کا سلام سنا !! بس اس سے زیادہ کی کوئی بات نہیں!! اس اثر میں ایسی کوئی بات نہیں کہ عمران بن حصین کو غیب کی کوئی خبر دی گئی ہو!!
جناب من! یہ آپ عمران بن حصین کے ملائکہ کے سلام سننے کے معاملہ سے نجانے غیب کے دروازے کھولنے کی سعی کیون کر رہے ہیں!!
بھائی میں نے تو صرف اس امت سے کلام الملئکہ ثابت کرنا چاہا جس کو آپ نے مان لیا کہ
! ان اقوال میں جو بات ہے وہ صرف اتنی ہے کہ ملائکہ کا سلام سنا !! بس اس سے زیادہ کی کوئی بات نہیں!
باقی عمران بن حصین کے حوالہ سے میں نے اور کچھ بھی ثابت کرنا نہیں چاہا

میں نے پوچھا تھا
تیسرے بچہ کو کیسے پتا چلا اس باندی نے کبھی نہ زنا کیا نہ چوری ۔ اس کا جواب آپ نے نہ دیا
آپ نے مناقب عمر والی حدیث پیس کر کے کہا
جناب من! یہ حدیث ہی تیسرے بچہ کے حوالہ سے بھی آپ کے اعتراض کا جواب ہے!! فتدبر!!!
تو اس یہ تاثر ملا کہ آپ کا عقیدہ ہے پہلی امتوں سے فرشتے کلام کیا کرتے تھے اور اس امت سے نہیں اس لئیے اس امت میں ایسا کشف جو اس بچہ کو ہوا ممکن نہیں اب جب کہ اس امت سے کلام مع الملائکہ ثابت ہوگیا ہے تو جس ذریعہ سے اس بچہ کو خبر ہوئی کہ اس باندی نے نہ زنا کیا اور نہ چوری تو اس امت کے افراد کو بھی اس ذریعہ سے بحکم الہی خبر ہو سکتی ہے ۔
میں نے کہا تھا
ذرا کرامات کی اقسام مثال کے ساتھ بتا دیجيئے گا کہ کس قسم کی کرامت شرکیہ ہے اور کس قسم کی کرامت صحیح ہوتی ہے ۔
آپ نے کہا
جناب اقسام مثال کے ساتھ پچھلی تحریر میں بیان کر دی گئی ہیں!! بغور پڑھیں!!!
وہ تو آپ نے دو مثالیں دی تھیں بھائی میں صرف اقسام کی بات کر رہا ہوں کہ کون سے کرامات قبول ہیں اور کوں سی رد
میں کچھ مثالیں دیتا ہوں آپ صرف اتنا بتائیں یہ آپ کے عقیدہ مطابق کرامت ہو سکتی ہے یا من گھڑت شیطانی واقعہ

١- کسی کو بحکم الہی کسی فرد کے متعلق یہ کشف ہو کہ فلاں نیک ہے یہ بد
٢- کسی کو بحکم الہی یہ کشف ہو کہ فلاں چگہ پر کوئی فرد مشکل میں ہے
٣- کسی کو بحکم الہی یہ کشف ہو کہ فلان شخض عذاب میں مبتلا ہے
 

تلمیذ

مشہور رکن
شمولیت
ستمبر 12، 2011
پیغامات
765
ری ایکشن اسکور
1,506
پوائنٹ
191
ایک انپڑ آدمی تبلیغی جماعت میں تیندن لگاتا ہے اور پہر ہر نماز باجماعت اداء کرتا ہے اب ان کی خوبیوں کو چہوڑ کر خامیاں گننا کوی عقلمندی نہی عقاید کیلیے فرحت ہا شمی کی طرح خاموش محنت کرناچاہیے لڑای جگہڑے اور دنگا فساد والا دعوت اب نہی چلیگا
بھائی میں تو صرف دفاع کر رہا ہوں اور حق کا دفاع کوئی دنگا فساد نہیں
ہان جو لوگ تبلیغی جماعت پر طرح طرح کے الزامات لگا کر ان کوششوں کو ناکام بنا رہے ہیں جو تبلیغی جماعت والے لوگوں کو نمازی بنانے کے لئیے کرہے ہیں وہ الزامات عائد کرنا یقینا دنگا فساد ہے
 

ابن داود

فعال رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
نومبر 08، 2011
پیغامات
3,416
ری ایکشن اسکور
2,733
پوائنٹ
556
السلام علیکم ورحمۃاللہ وبرکاتہ!
ابن داود صاحب نے کہا

عربی متن
( عن أبي هريرة - رضي الله عنه - قال : قال رسول الله - صلى الله عليه وسلم - : ( لقد كان فيما قبلكم من الأمم ) : بيان لما بمعنى ( من ) أي في الذين كانوا قبلكم ( محدثون ) : بفتح الدال المشددة أي : ناس ملهمون كما فسر به ابن وهب . ( فإن يك في أمتي أحد ) أي : واحد منهم فرضا وتقديرا ( فإنه عمر ) . أي وإن يك أكثر فهو حينئذ أولى وأظهر . قال التوربشتي : المحدث في كلامهم هو الرجل الصادق الظن وهو في الحقيقة من ألقي في روعه .

[ ص: 3893 ] شيء من قبل الملأ الأعلى ، فيكون كالذي حدث به . وفي قوله : فإن يك في أمتي أحد فهو عمر لم يرد هذا القول مورد التردد ، فإن أمته أفضل الأمم وإن كانوا موجودين في غيرهم من الأمم ، فبالحري أن يكونوا في هذه الأمة أكثر عددا وأعلى رتبة ، وإنما ورد مورد التأكيد والقطع به ، ولا يخفى على ذي الفهم محله من المبالغة كما يقول الرجل : إن يكن لي صديق فإنه فلان يريد بذلك اختصاصه بالكمال في صداقته لا نفي الأصدقاء اه . وتوضيحه أنك لا تريد بذلك الشك في صداقته والتردد في أنه هل لك صديق بل المبالغة في أن الصداقة مختصة به لا تتخطاه

حوالہ
مرقاة المفاتيح شرح مشكاة المصابيح
علي بن سلطان محمد القاري
http://www.islamweb.net/newlibrary/display_book.php?idfrom=12005&idto=12046&bk_no=79&ID=288

قوله : ( منهم أحد ) في رواية الكشميهني " من أحد " ورواية زكريا وصلها الإسماعيلي وأبو نعيم في مستخرجيهما ، وقوله : " وإن يك في أمتي " قيل : لم يورد هذا القول مورد الترديد فإن أمته أفضل الأمم ، وإذا ثبت أن ذلك وجد في غيرهم فإمكان وجوده فيهم أولى ، وإنما أورده مورد التأكيد كما يقول الرجل : إن يكن لي صديق فإنه فلان ، يريد اختصاصه بكمال الصداقة لا نفي الأصدقاء ، ونحوه قول الأجير : إن كنت عملت لك فوفني حقي ، وكلاهما عالم بالعمل لكن مراد القائل أن تأخيرك حقي عمل من عنده شك في كوني عملت
فتح الباري شرح صحيح البخاري
أحمد بن علي بن حجر العسقلاني

http://www.islamweb.net/newlibrary/display_book.php?flag=1&bk_no=52&ID=6704
عربی عبارات کا ترجمہ پیش کریں!! پچھلی تحریر میں بھی ہمیں ہی یہ کام کرنا پڑا تھا!! تمام قارئین عربی کی معرفت نہیں رکھتے!! لہذا آپ خود ذرا ان عبارات کا ترجمہ بھی پیش کریں!!!
 
Top