• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

تجدید ایمان

عکرمہ

مشہور رکن
شمولیت
مارچ 27، 2012
پیغامات
658
ری ایکشن اسکور
1,870
پوائنٹ
157
س :
کلمہ کے ساتھ صدق و وفا سے کیا مراد ہے؟
ج :
کلمہ پر ثابت قدمی کے ساتھ پوری زندگی عمل کرنا اور ہر معاملے میں اللہ اور اس کے رسول کے احکامات کے تابع رہنا کلمہ سے صدق و وفا ہے، اللہ کی طرف سے آنے والی ہر آزمائش میں پورا اترنا نفاق کے منافی ہے،منافق اپنے مفاد کوجبکہ مومن اللہ کے احکامات کو مد نظر رکھتا ہے ، اللہ تعالیٰ فرماتا ہے:

((أَمْ حَسِبْتُمْ أَنْ تُتْرَکُوْا وَلَمَّا یَعْلَمِ اللّٰہُ الَّذِیْنَ جٰھَدُوْا مِنْکُمْ وَلَمْ یَتَّخِذُوْا مِنْ دُوْنِ اللّٰہِ وَلَا رَسُوْلِہٖ وَلَا الْمُؤمِنِیْنَ وَلِیْجَۃً))
’’کیا تم لوگ یہ خیال کرتے ہو کہ (بے آزمائش) چھوڑ دیئے جائو گے حالانکہ ابھی تو اللہ تعالیٰ نے ایسے لوگوں کو ظاہر نہیں کیا جو تم میں سے جہاد کرتے ہیں اور اللہ اور اس کے رسول اور ایمان والوں کے سوا کسی کو دوست نہیں بناتے ‘‘ [التوبۃ: 16]۔
انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی اکرم ﷺنے معاذ بن جبل سے فرمایا:
’’جو شخص اس بات کی گواہی دل کی سچائی سے دے کہ اللہ کے سوا کوئی الٰہ نہیں اور محمد اللہ کے رسول ہیں اس پر اللہ نے آگ حرام کر دی‘‘ [بخاری: 128، مسلم: 32]۔

دل کی سچائی سے اللہ پر ایمان نہ لانے والے آزمائش کے موقع پر اسلام سے بے تعلق ہو جاتے ہیں فرمایا:
{وَمِنَ النَّاسِ مَنْ یَّعْبُدُ اللّٰہَ عَلٰی حَرْفٍ فَإِنْ أَصَابَہٗ خَیْرٌ اطْمَأَنَّ بِہٖ وَإِنْ أَصَابَتْہُ فِتْنَۃٌ انْقَلَبَ عَلٰی وَجْھِہٖ خَسِرَ الدُّنْیَا وَالْاٰخِرَۃَ، ذٰلِکَ ھُوَ الْخُسْرَانُ الْمُبِیْنُ}۔
’’اور بعض لوگ ایسے ہیں جو اللہ کی عبادت کنارے پر کھڑے ہو کرکرتے ہیں، اگر انہیں فائدہ پہنچا تو مطمئن ہو گئے اور اگر مصیبت آ پڑی تو الٹے پائوں پھر گئے یہ دنیا و آخرت دونوں میں نقصان اٹھانے والے ہیں اور یہی کھلا نقصان ہے‘‘ [الحج: 11]
کلمہ کے ساتھ صدق و وفا یہاں تک کہ کذب اور نفاق کا شائبہ نہ رہے لا الہٰ الا اللہ کی قبولیت کے لیئے اہم ترین شرط ہے۔ لا الہٰ الا اللہ کے اقرار کے وقت بہت سی چیزوں کو قربان کرنا پڑتا ہے ۔شخصی مفاد،خاندانی روابط،سیاسی مفادات اور معاشرتی مجبوریاں انسان کو لا الہٰ الا اللہ کی حقیقت پر قائم رہنے میں رکاوٹ ڈالتی ہیں۔ایک مومن لا الہٰ الا اللہ کی حقیقت پر جم جاتا ہے اور ہر مفاد کو اس پر قربان کر دیتا ہے ۔کلمہ کا یہ اقرار وہ چیز ہے جس پر ایک مسلم کو ساری زندگی قائم رہنا ہوتا ہے ،ہر آزمائش پر اسلام اور ایمان سے دلی وفاداری کا ثبوت دینا اس کلمہ سے صدق و وفا ہے۔

اللہ تعالیٰ اہل ایمان کو خوشحالی اور تنگدستی ، راحت اور مشقت،فراخی اور محتاجی اور دشمنوں کے غلبہ جیسی بہت سی چیزوں کے ساتھ آزماتا ہے ۔ایک مومن شبہات کو علم کے ذریعے دور کرتا ہے اور شہوات کو آخرت پر ایمان اور موت کی یاد دہانی کے ذریعے ختم کرتا ہے۔اگر شبہات سے دل میں شک و شبہ جڑ پکڑے اور شہوات فرائض کی ادائیگی تک سے روک دیں تو یہ ایمان کی عدم صداقت کی دلیل ہے۔
 

عکرمہ

مشہور رکن
شمولیت
مارچ 27، 2012
پیغامات
658
ری ایکشن اسکور
1,870
پوائنٹ
157
س:
کلمہ میں اخلاص سے کیا مراد ہے؟
ج: اللہ تعالیٰ فرماتا ہے:
{أَ لَا لِلّٰہِ الدِّیْنُ الْخَالِصُ}۔
’’خبردار اللہ ہی کے لیے دین خالص ہے‘‘ [الزمر: 3]۔

عبادت، دعا، خوف، عاجزی، عقیدت، محبت اور انکساری کا نام دین ہے، اللہ تعالیٰ کو ان سب اعمال میں اخلاص مقصود ہے، یعنی انسان صدق نیت سے اللہ کی رضا مندی کا طالب ہو: ایک مومن تمام باطل ادیان سے منہ موڑ کر جب لا الہٰ الا اللہ کہتا ہے تو اپنی تمام ظاہری اور باطنی عبادت میں اللہ تعالیٰ کی رضا اور اس کے قرب کی طلب کو مقصد بناتا ہے ۔اس کے دل میں یہ احساس ضرور ہونا چاہیے کہ میرا مقصود صرف اللہ تعالیٰ کی رضا ہے۔ دل میں یہ احساس پیدا کرنا کلمہ کے معتبر ہونے کے لیے شرط ہے ۔
اگر کسی نے لا الہٰ الا اللہ کا اقرار قوم ،معاشرے یا ماحول کی دیکھا دیکھی کر لیا تا کہ معاشرے میں اس کی عزت قائم رہے تو اخلاص نیت نہ ہونے کی وجہ سے یہ کلمہ اس کے کام نہیں آئے گا اگر دین کا کوئی عمل(تبلیغ ،خیرات یا جہاد وغیرہ ) ایک مسلمان لوگوں کو دکھانے کے لیے کرتا ہے تو یہ شرک اصغر ہے اور اس سے صرف وہی عمل ضائع ہوگا ،مگر لاالہٰ الا اللہ کا اقرار دین کا اساسی عمل ہے ۔اس کے اقرار سے وہ اسلام میں داخل ہوتا ہے پھر اس پر نماز ،روزہ ،حج اور زکوۃ فرض ہوتے ہیں اگر اس کلمہ کے اقرار کا مقصد اللہ کی رضا کی بجائے شہرت یا دولت کا حصول ہو تو اس سے اسکا اسلام میں داخلہ ہی معتبر نہیں ہوتا ۔

{وَ مَاۤ اُمِرُوْۤا اِلَّا لِيَعْبُدُوا اللّٰهَ مُخْلِصِيْنَ لَهُ الدِّيْنَ حُنَفَآءَ}۔
’’اور ان کو حکم تو یہی ہوا تھا کہ اخلاص عمل کے ساتھ یکسو ہو کر اللہ کی عبادت کریں‘‘ [البینۃ: 5]۔

دین کو خالص کرتے ہوئے ‘یکسو ہو کر‘ ہر طرف سے کٹ کر‘ ایک اللہ کی طرف متوجہ ہونا اخلاص ہے۔

ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی اکرم ﷺنے فرمایا:
’’لوگوں میں میری شفاعت کا سب سے زیادہ مستحق وہ ہے جو دل کے اخلاص سے لأَ إِلٰہ إِلَّا اللّٰہُ کا اقرار کرے‘‘ [بخاری: 99]۔
 

عکرمہ

مشہور رکن
شمولیت
مارچ 27، 2012
پیغامات
658
ری ایکشن اسکور
1,870
پوائنٹ
157
س::
محبت کے ساتھ شہادت سے کیا مراد ہے؟
ج:
لأَ إِلٰہ إِلَّا اللّٰہ ُسے محبت اور جس چیز پر یہ کلمہ دلالت کرے اور جو اس کلمہ کا تقاضا ہو اس سے محبت اور کلمہ پر عمل کرنے والوں سے محبت لَا إِلٰہ إِلَّا اللّٰہُ کی شرط ہے۔
لأَ إِلٰہ ٰ کا اعلان کر کے غیر اللہ کی بندگی کا انکار کرنے سے مومن کو سکون ملتا ہے ،اسے اللہ کے سوا پوجے جانے والے معبودوں کی بندگی کے انکار سے لطف ملتا ہے اور إِلَّا اللّٰہُ کہہ کر اللہ کی بندگی کا اقرار روح کا چین اور دل کا اطمینان پیدا کرتا ہے۔ لَا إِلٰہ إِلَّا اللّٰہُ کو اللہ کا سب سے بڑا انعام سمجھنا اور دنیا کی دولت، عزت اور ہر چیز کو اس کے مقابلہ میں حقیر جاننا اور اس کلمہ سے سرور حاصل کرنا کلمہ کی شرط ہے۔ایسا شخص ہی اس کلمہ کی خاطر اپنے مفادات کی قربانی دیتا ہے ،فرائض کا پابند ہو جاتاہے ،حتی کہ اس کلمہ کی خاطر اس کو اپنی جان دینا بھی آسان ہو تی ہے۔کیونکہ یہ کلمہ اسے ہر چیز سے زیادہ عزیز ہوتاہے اور اس کی خاطر ملنے والی تکالیف سے اسے حقیقی سکون اور راحت ملتی ہے ۔پھر وہ اس کلمہ کی بنا پرہی دوستی اور دشمنی کرتاہے ،اہل ایمان سے اسے دلی محبت اور اہل کفر سے اسے بغض و عداوت ہوتی ہے۔کلمہ سے واضح قلبی تعلق کلمہ کے معتبر ہونے کے لیے ایک شرط ہے ۔

اللہ تعالیٰ فرماتا ہے :
{وَمِنَ النَّاسِ مَنْ یَّتَّخِذُ مِنْ دُوْنِ اللّٰہِ اَنْدَاداً یُحِبُّوْنَھُمْ کَحُبِّ اللّٰہِ وَالَّذِیْنَ آمَنُوْا أَشَدُّ حُبًّا لِلّٰہِ} (البقرہ 2/165)
’’بعض لوگ ایسے بھی ہیں جو اللہ کے شریک اوروں کو ٹھہرا کر ان سے ایسی محبت رکھتے ہیں جیسی محبت اللہ سے ہونی چاہیے اور ایمان والے اللہ کی محبت میں سب سے زیادہ پختہ ہوتے ہیں ۔‘‘
رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا:
’’ تین خصلتیں ایسی ہیں کہ جس کے اندر پائی گئی اس نے ایمان کی حلاوت کو پا لیا:
(1) اللہ عزوجل اور اس کے رسول ﷺ اس کے نزدیک ساری چیزوں سے کہیں زیادہ محبوب ہوں،
(2) کسی سے صرف اللہ کی خاطر محبت کرتا ہو،
(3) جب اللہ تعالیٰ نے اس کو کفر سے نکال دیا تو پھر دوبارہ اس میں جانا ایسے ہی ناپسند کرے جس طرح یہ ناپسند کرتا ہے کہ اس کو جہنم کی آگ میں جھونک دیا جائے۔‘‘(بخاری مسلم)
 

عکرمہ

مشہور رکن
شمولیت
مارچ 27، 2012
پیغامات
658
ری ایکشن اسکور
1,870
پوائنٹ
157
س:
طاغوت سے کفر و انکار کے ساتھ کلمہ کی شہادت سے کیا مراد ہے؟
ج:
اللہ رب العزت نے سب سے پہلے’’ کفر بالطاغوت‘‘ اور ’’ایمان باللہ‘‘ فرض کیا ہے ۔اس کی دلیل اللہ رب العزت کا یہ فرمان ہے:

{وَ لَقَدْ بَعَثْنَا فِيْ كُلِّ اُمَّةٍ رَّسُوْلًا اَنِ اعْبُدُوا اللّٰهَ وَ اجْتَنِبُوا الطَّاغُوْتَ }(النحل: ۳۶)
’’ہم نے ہر امت میں رسول بھیجا (جو انہیں یہی کہتا تھا)کہ صرف اللہ کی عبادت کرو اورطاغوت سے بچو‘‘
انسان کے لیئے یہ جان لینا انتہائی ضروری ہے کہ وہ اس وقت تک صحیح مسلم اور مومن نہیں ہو سکتا جب تک وہ صریحاً طاغوت کا کفر و انکار نہ کرے
اس کی دلیل اللہ تعالیٰ کا یہ فرمان ہے :
{فَمَنْ يَّكْفُرْ بِالطَّاغُوْتِ وَ يُؤْمِنْۢ بِاللّٰهِ فَقَدِ اسْتَمْسَكَ بِالْعُرْوَةِ الْوُثْقٰى لَا انْفِصَامَ لَهَا وَ اللّٰهُ سَمِيْعٌ عَلِيْمٌ}(البقرۃ :۲۵۶)
’’ جو شخص طاغوت سے کفر کرے اور اللہ تعالیٰ پر ایمان لائے اس نے مضبوط کڑے کو تھام لیا، جو کبھی نہ ٹوٹے گا اور اللہ تعالیٰ سننے والا ، جاننے والا ہے۔ ‘‘
رسول اللہﷺنے ارشاد فرمایا:
’’ جس نے لأَ إِلٰہ إِلَّا اللّٰہُ کا اقرار کیا اور اللہ تعالیٰ کے علاوہ پوجی جانے والی ہر چیز کا انکار کیا اس کا مال اور خون حرام ہے اور اس کا حساب اللہ تعالیٰ کے ذمہ ہے۔‘‘(( صحیح مسلم ۲۳))

ضروری ہے کہ ایمان کا اظہار کرنے سے پہلے طاغوت کا انکار کیا جائے۔ اگر طاغوت کا انکارکیے بغیر ہی ایمان کا اظہار کردیا گیاتو ایسا ایمان اس وقت تک فائدہ نہیں دے سکتا جب تک طاغوت کا انکار نہیں کیا جاتا اورشرک سے اجتناب نہیں کیا جاتا۔ایک ایسا شخص جو لَا إِلٰہ إِلَّا اللّٰہُ کا اقرار تو کرتا ہے لیکن طاغوت کا انکار نہیں کرتا وہ ایک وقت میں دو متضاد چیزوں کو اکٹھا کررہا ہے جو کہ ایک نا ممکن سی بات ہے۔ لَا إِلٰہ کلمہ توحید کا ایک حصہ ہے گویا طاغوت کا انکار خود اسی کلمہ میں ہی شامل ہے۔ اس لیے جو کلمہ توحید کا اقرار کرنے کے باوجود طاغوت کا انکار نہیں کرتا وہ ایسا ہے جیسے وہ ایک طرف تو یہ اقرار کرتا ہے کہ اللہ تعالیٰ کے علاوہ کوئی معبود نہیں جبکہ دوسری طرف عملی طور پر وہ اس بات کا اقرار کرتا ہے کہ اللہ تعالیٰ کے علاوہ اور بھی معبود ہیں۔
جو شخص ’’ لَا إِلٰہ إِلَّا اللّٰہُ کی شہادت ان شروط کے ساتھ دے گا تو اس کو یہ کلمہ فائدہ دے گا کیونکہ شہادت اسی وقت شہادت بن سکتی ہے جب وہ علم،یقین اور صدق ووفا کے ساتھ دی جائے ۔اور جو شہادت جہالت یا شک کی حالت میں دی جائے گی تو وہ کبھی معتبر نہیں ہو سکتی۔
 

عکرمہ

مشہور رکن
شمولیت
مارچ 27، 2012
پیغامات
658
ری ایکشن اسکور
1,870
پوائنٹ
157
س:
توحید کو قبول کرنے کا کیا فائدہ ہے ؟
ج :
جو شخص سچے دل سے لَا إِلَہَ إِلَّا اللہ کہتا ہے، اور اپنے ایمان میں شرک کی ملاوٹ نہیں کرتا، امن اور کامل ہدایت اسی کو نصیب ہوتی ہے۔ اس پر دوزخ کی آگ حرام ہے اور اس کا مقام جنت ہے گویا توحید دنیا اورآخرت کی پریشانیوں سے نجات کا ذریعہ ہے
{أَلَّذِیْنَ آمَنُوْاوَلَمْ یَلْبِسُوْٓا إِیْمَانَھُمْ بِظُلْمٍ أُوْلٰٓئِکَ لَھُمُ الْأَمْنُ وَھُمْ مُّھْتَدُوْنَ}۔[الأنعام: 82]۔
’’جو لوگ ایمان لائے اور انہوں نے اپنے ایمان میں ظلم کی آمیزش نہیں کی تو ایسے لوگوں کے لیے امن ہے اور یہی لوگ ہدایت پانے والے ہیں‘‘

رسول اللہ ﷺنے فرمایا کہ ’’اس آیت میں ظلم سے مراد شرک ہے‘‘ [بخاری: 32، مسلم: 124]۔

سیدنا عتبان بن مالک رضی اللہ عنہ سے روایت ہے رسول اللہ ﷺنے فرمایا کہ ’’اللہ نے جہنم کی آگ ہر اس شخص پر حرام کر دی ہے جس نے اللہ کی رضامندی کے حصول کے لیے لأَ إِلٰہ إِلَّا اللہ کہا‘‘ [بخاری: 425، مسلم: 33۔ ک 5 ح263]۔
سیدنا معاذ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے رسول اللہ ﷺ نے فرمایا
’’بلاشبہ بندوں پر اللہ تعالیٰ کا یہ حق ہے کہ وہ اس کی عبادت کریں۔اور کسی چیز کو بھی اس کا شریک نہ ٹھہرائیں اور بندوں کا اللہ تعالیٰ پر یہ حق ہے کہ جو کسی کو اس کا شریک نہ ٹھہرائے وہ اس کو عذاب نہ دے۔ (بخاری:۲۸۵۶،مسلم:۳۰)
معلوم ہوا کہ اللہ کے عذاب سے نجات کی واحد صورت یہ ہے کہ بندہ اللہ کی عبادت میں کسی کو شریک نہ کرے۔

سیدنا ابو ذر رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں رسول اللہ ﷺ نے فرمایا میرے پاس جبریل آئے اور مجھے خوشخبری دی کہ جو اس حال میں فوت ہوا کہ وہ اللہ کے ساتھ کسی کو شریک نہیں کرتا تھا وہ جنت میں داخل ہو گا ۔میں نے کہا اگرچہ اس نے چوری کی اور زنا کیا؟ آپ نے فرمایا ہاں اگرچہ اس نے چوری کی ہو یا زنا کیا ہو۔(بخاری ۴۷۸۷،مسلم۹۴)
زنا اور چوری اگرچہ کبیرہ گناہ ہیں لیکن جس مسلم کا عقیدہ توحید درست ہے تواللہ تعالیٰ یا تو بغیرسزا دیے یاسزا دینے کے بعد اپنی رحمت سے گناہ معاف فرما کرآخر کار جنت میں داخل فرما دے گا۔
 

عکرمہ

مشہور رکن
شمولیت
مارچ 27، 2012
پیغامات
658
ری ایکشن اسکور
1,870
پوائنٹ
157
س:
توحید سے کیا مراد ہے ؟
ج :
اللہ تعالیٰ کو ربوبیت میں منفرد اور یکتا مانا جائے ۔عبادت خالصتاً اللہ ہی کی کی جائے اور قرآن و سنت میں اللہ تعالیٰ کے جن اسماء صفات کا ذکر ہے انہیں تسلیم کیا جائے۔

توحید ربوبیت

س :
توحید ربوبیت سے کیا مراد ہے ؟
ج:
اللہ تعالیٰ پر ایمان لانے کی پہلی شق یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ کو رب العالمین ماناجائے۔تمام قدرتیں اور قوتیں اللہ کے لئے تسلیم کی جائیں۔یعنی یہ تسلیم کیا جائے کہ:
۱۔اللہ تعالیٰ اس پوری کائنات کا خالق ہے۔زمین ،آسما ن،سورج،چاند اور کائنات میں پھیلی ہوئی وہ بے شمار چیزیں جو ہماری نگاہوں سے پوشیدہ ہیں صرف اور صرف اللہ تعالیٰ نے پیدا کیں۔

{اللَّہُ خَالِقُ کُلِّ شَیْْء ٍ}(الزمر :۶۲)
’’اللہ ہی ہر چیز کا خالق ہے ۔‘‘

{ہَذَا خَلْقُ اللَّہِ فَأَرُونِیْ مَاذَا خَلَقَ الَّذِیْنَ مِن دُونِہ}(لقمان:۱۱)
’’یہ ہے اللہ کی مخلوق اب تم مجھے دکھائو کہ دوسروں نے کیا تخلیق کیا ہے ۔‘‘

مشرکین مکہ بھی اپنے بنائے ہوئے معبودوں کے بارے میں یہ دعویٰ نہیں کرتے تھے کہ انہوں نے کچھ پیدا کیا ہے۔

۲۔پوری مخلوق کی ہر قسم کی ضروریات بھی اللہ تعالیٰ پوری کرتا ہے۔
{وَ مَا مِنْ دَآبَّةٍ فِي الْاَرْضِ اِلَّا عَلَى اللّٰهِ رِزْقُهَا وَ يَعْلَمُ مُسْتَقَرَّهَا وَ مُسْتَوْدَعَهَاكُلٌّ فِيْ كِتٰبٍ مُّبِيْنٍ}(ھود:۶)
زمین پر چلنے پھرنے والے جتنے جاندار ہیں سب کی روزیاں اللہ تعالیٰ کے ذمے ہیں وہی ان کے رہنے سہنے اوران کے سونپے جانے کی جگہ کو جانتا ہے ‘سب کچھ واضح کتاب میں ہے ۔‘‘
۳۔ کائنات کی ہر چیز کا مالک بھی اللہ تعالیٰ ہی ہے ۔ہر چیز اس کے قبضہ قدرت میں ہے۔،اس کے سوا کوئی ہستی بھی کسی چیز کی ذرہ بھر مالک نہیں ہے۔

۴۔ کائنات کے اندر متصرف بھی اللہ اکیلا ہے ۔جو چاہتا ہے واقع ہوتا ہے اور جو وہ نہیں چاہتا واقع ہو ہی نہیںسکتا۔زندگی و موت، خوشحالی و تنگدستی،صحت و بیماری،خوشی اور غمی اس کے اختیار میں ہے۔ اس کے سوا ہر کوئی بے اختیار اور بے بس ہے ۔
{اَمَّنْ ہَذَا الَّذِیْ یَرْزُقُکُمْ إِنْ اَمْسَکَ رِزْقَہُ بَلْ لَّجُّوْا فِیْ عُتُوٍّ وَّنُفُوْرٍ }(الملک:۲۱)
’’اگر اللہ تعالیٰ اپنی روزی روک لے تو بتائو کون ہے جو پھر تمہیں روزی دے گا بلکہ (کافر )تو سر کشی اور سازش پر اڑے ہوئے ہیں ۔‘‘

یہ اللہ تعالیٰ پر ایمان کا وہ پہلو ہے جس کا انکار دہریوں اور کیمونسٹوں کے علاوہ شاید کسی اور نے نہ کیا ہو۔
 

عکرمہ

مشہور رکن
شمولیت
مارچ 27، 2012
پیغامات
658
ری ایکشن اسکور
1,870
پوائنٹ
157
س:
امور کائنات میں مرضی کس کی چلتی ہے؟
ج:
اللہ تعالیٰ ہی وہ واحد ذات ہے کہ جو چاہتا ہے کرتا ہے اور وہی ہوتا ہے جو وہ چاہے‘ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے:

{اِنَّمَآ اَمْرُہٗٓ إِذَآ أَرَادَ شَیْئاً أَنْ یَّقُوْلَ لَہٗ کُنْ فَیَکُوْنُ}
’’اللہ کی یہ شان ہے کہ جب وہ کسی کام کا ارادہ کرتا ہے تو اس سے کہتا ہے ’’ہو جا‘‘ اور وہ ہو جاتا ہے‘‘ [یٰسٓ: 82]۔

اللہ کی توفیق ہی سے انسان کوئی کام کر سکتا ہے،
فرمایا:{لَا قُوَّۃَإِلَّا بِاللّٰہِ}۔
’’کسی میں کوئی قوت نہیں مگر اللہ کی توفیق سے‘‘ [الکھف: 39]۔

اللہ تعالیٰ نے رسول اللہ ﷺ کو فرمایا :
{وَلَا تَقُوْلَنَّ لِشَایْئٍ إِنِّیْ فَاعِلٌ ذٰلِکَ غَدًا۔۔ الَّآ أَنْ یَّشَآئَ اللّٰہُ}۔
’’اور کسی کام کی نسبت ہرگز نہ کہنا کہ میں یہ کام کل کر دوں گا، مگر (یہ کہا کرو) اگر اللہ نے چاہا (تو میں یہ کام کل کروں گا)‘‘ [الکھف: 23,24]۔
ایک شخص نے رسول اللہ ﷺسے کہا :
’’مَاشَآئَ اللّٰہُ وَشِئْتَ‘‘ ’’جو اللہ چاہے اور آپ چاہیں (وہی ہوتا ہے)‘‘۔ آپ ﷺنے فرمایا: ’’تم نے تو مجھے اللہ کے برابر کر دیا (میرے چاہنے سے کچھ نہیں ہوتا) بلکہ جو اللہ اکیلا چاہے (وہی ہوتاہے)‘‘ [مسند احمد : 1839، 214/1]۔

معلوم ہوا کہ اللہ کی مشیت کسی دوسرے کی چاہت کی محتاج نہیں، اسی طرح کسی کو ہدایت کے راستہ پر لگانا اللہ ہی کی توفیق سے ہے۔

اللہ تعالیٰ فرماتا ہے:
{ذٰلِکَ ھُدَی اللّٰہِ یَھْدِیْ بِہٖ مَنْ یَّشَآءُ مِنْ عِبَادِہٖ}۔
’’یہ اللہ کی ہدایت ہے اس پر وہ اپنے بندوں میں سے جس کو چاہتا ہے چلاتا ہے ‘‘ [الأنعام: 88]۔

اللہ تعالیٰ نے رسول اللہ ﷺکو فرمایا:
{إِنَّکَ لَا تَھْدِیْ مَنْ أَحْبَبْتَ وَلٰکِنَّ اللّٰہَ یَھْدِیْ مَنْ یَّشَآءُ} ۔
’’(اے رسولﷺ!) بے شک آپ جس کوچاہتے ہیں اسے ہدایت نہیں دے سکتے بلکہ اللہ ہی جس کو چاہتا ہے ہدایت کرتا ہے‘‘ [القصص: 56]۔
جب امام الانبیاء بھی کسی کو ہدایت نہیں دے سکتے تو پھر وہ کون سا مرد مومن ہے جس کے متعلق شاعر کہتا ہے:
؎ نگاہ مرد مومن سے بدل جاتی ہیں تقدیریں
 

عکرمہ

مشہور رکن
شمولیت
مارچ 27، 2012
پیغامات
658
ری ایکشن اسکور
1,870
پوائنٹ
157
س:
اولاد دینا کس کے اختیار میں ہے
ج : اولاد دینا اللہ ہی کے اختیار میں ہے فرمایا :

{لِلّٰہِ مُلْکُ السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضِ یَخْلُقُ مَا یَشَآءُ یَھَبُ لِمَنْ یَّشَآءُ إِنَاثًا وَّ یَھَبُ لِمَنْ یَّشَآءُ الذُّکُوْرَ۔ اَوْ یُزَوِّجُھُمْ ذُکْرَانًا وَّ إِنَاثًا وَّیَجْعَلُ مَنْ یَّشَآءُ عَقِیْماً إِنَّہُ عَلِیْمٌ قَدِیْرٌ}۔
’’آسمان اور زمین کی بادشاہت اللہ ہی کے لیے ہے، وہ جو چاہتا ہے پیدا کرتا ہے، جسے چاہتا ہے بیٹیاں دیتا ہے، جسے چاہتا ہے بیٹے دیتا ہے، یا ان کو بیٹے اور بیٹیاں دونوں عنایت فرماتا ہے اور جسے چاہتا ہے بے اولاد رکھتا ہے، وہ تو جاننے والا اور قدرت والا ہے‘‘ [الشورٰی: 49,50]۔

اس معاملے میں انبیاء علیہما السلام اور اولیاء اللہ بھی بے اختیار ہیں، سیدنازکریا علیہ السلام بڑھاپے تک بے اولاد رہتے ہیں اور بڑھاپے میں یحییٰ پیدا ہوتے ہیں :
{قَالَ رَبِّ اِنِّیْ وَھَنَ الْعَظْمُ مِنِّیْ وَاشْتَعَلَ الرَّاْسُ شَیْبًاوَّلَمْ اَکُنْ بِدُعَآئِکَ رَبِّ شَقِیًّاO وَإِنِّیْ خِفْتُ الْمَوَالِیَ مِنْ وَّرَآئِ یْ وَکَانَتِ امْرَأَتِیْ عَاقِرًا فَھَبْ لِیْ مِنْ لَّدُنْکَ وَلِیّاً}۔
’’عرض کیا اے میرے پروردگار، میری ہڈیاں کمزور ہو گئی ہیں اور سر بڑھاپے سے بھڑک اٹھا ہے (بالوں کی سفیدی کے سبب آگ کی طرح چمکنے لگا ہے) اور اے میرے پروردگار میں تجھ سے مانگ کر کبھی محروم نہیں رہا اور میں اپنے بعد اپنے بھائی بندوں سے ڈرتا ہوں اور میری بیوی بانجھ ہے تو مجھے اپنے پاس سے ایک وارث عطا فرما‘‘ [مریم: 4,5]۔

مریم علیہا السلام کو دیکھئے وہ کہتی ہیں:
{قَالَتْ أَنّٰی یَکُوْنُ لِیْ غُلٰمٌ وَّلَمْ یَمْسَسْنِیْ بَشَرٌ وَّلَمْ أَکُ بَغِیًّا٭قَالَ کَذٰلِکِ قَالَ رَبُّکِ ھُوَ عَلَیَّ ھَیِّنٌ} [مریم: 20,21]۔
’’(مریم نے) کہا میرے ہاں لڑکا کیونکر ہوگا مجھے کسی بشر نے چھواتک نہیں اور میں بد کا ر بھی نہیں ہوں، فرشتے نے کہا کہ یونہی (ہوگا) تمہارے رب نے فرمایا کہ یہ مجھے آسان ہے‘‘ ۔

مریم علیہا السلام نہیں چاہتی تھیں کہ ان کے ہاں بچہ پیدا ہو:
{قَالَتْ یٰلَیْتَنِیْ مِتُّ قَبْلَ ھٰذَاوَکُنْتُ نَسْیًا مَّنْسِیًّا }۔
’’کہنے لگیں کہ کاش میں اس (بچے کی پیدائش) سے پہلے مر چکی ہوتی اور بھولی بسری ہوگئی ہوتی‘‘ [مریم: 23 ]۔
مگر اللہ کی مرضی کے آگے بے بس تھیں، معلوم ہوا بچے کی تخلیق اللہ ہی کے اختیار میں ہے ۔
 

عکرمہ

مشہور رکن
شمولیت
مارچ 27، 2012
پیغامات
658
ری ایکشن اسکور
1,870
پوائنٹ
157
س:
عزت و ذلت دینا کس کے اختیار میں ہے؟
ج:
اللہ تعالیٰ فرماتا ہے:

{قُلِ اللّٰھُمَّ مٰلِکَ الْمُلْکِ تُؤْتِی الْمُلْکَ مَنْ تَشَآئُ وَ تَنْزِعُ الْمُلْکَ مِمَّنْ تَشَآئُ وَتُعِزُّ مَنْ تَشَآئُ وَ تُذِلُّ مَنْ تَشَآئُ بِیَدِکَ الْخَیْرُ إِنَّکَ عَلٰی کُلِّ شَیْئٍ قَدِیْرٌ }۔

’’(اے نبی !)کہئے کہ اے اللہ اے بادشاہت کے مالک تو جس کو چاہے بادشاہت دے جس سے چاہے بادشاہت چھین لے اور جس کو چاہے عزت دے اور جسے چاہے ذلیل کرے، ہر طرح کی بھلائی تیرے ہی ہاتھ میں ہے اور بے شک تو ہرچیز پر قادر ہے‘‘ [آل عمران: 26]۔

{فَإِنَّ الْعِزَّۃَ لِلّٰہِ جَمِیْعًا } ۔
’’بے شک عزت تو سب اللہ ہی کی ہے‘‘ [النساء: 139]۔
 

عکرمہ

مشہور رکن
شمولیت
مارچ 27، 2012
پیغامات
658
ری ایکشن اسکور
1,870
پوائنٹ
157
س:
رزق میں فراخی اور تنگی کس کے اختیار میں ہے؟
ج:
اللہ ہی رزق دینے والا ہے، تنگی اور فراخی اسی کے ہاتھ میں ہے:

{أَللّٰہُ یَبْسُطُ الرِّزْقَ لِمَنْ یَّشَآءُ مِنْ عِبَادِہٖ وَیَقْدِرُلَہٗ}۔
’’ اللہ اپنے بندوں میں سے جس کے لیے چاہتا ہے رزق فراخ کردیتا ہے اور جس کے لیے چاہتا ہے تنگ کر دیتا ہے‘‘ [العنکبوت: 62]۔
اللہ کے سوا کوئی داتا یعنی رزق میں برکت دینے والا نہیں، فرمایا :
{اِنَّ الَّذِیْنَ تَعْبُدُوْنَ مِنْ دُوْنِ اللّٰہِ لَا یَمْلِکُوْنَ لَکُمْ رِزْقًا فَابْتَغُوْاعِنْدَاللّٰہِ الرِّزْقَ وَاعْبُدُوْہُ وَاشْکُرُوْالَہٗ}۔
’’بے شک جن ہستیوں کو تم اللہ کے علاوہ پوجتے ہو وہ تم کو رزق دینے کا اختیار نہیں رکھتیں، پس اللہ ہی کے ہاں سے رزق طلب کرو اور اسی کی عبادت کرو اور اسی کا شکر اداکرو‘‘ [العنکبوت: 17]۔
سیدناابو ذر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے رسول اللہ نے فرمایا کہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے:

’’اے میرے بندو! تم سب بھوکے ہو سوائے اس کے جس کو میں کھلاؤں لہذا کھانا مجھ سے مانگاکرو، اے میرے بندو!تم سب ننگے ہو سوائے اس کے جس کو میں کپڑے پہناؤں لہذاکپڑے مجھ سے مانگا کرو میں تمہیں کپڑے پہناؤں گا‘‘ [صحیح مسلم: 2577]۔

اللہ تعالیٰ فرماتا ہے:
{یٰٓأََیُّھَاالنَّاسُ أَنْتُمُ الْفُقَرَآئُ إِلیَ اللّٰہِ وَاللّٰہُ ھُوَ الْغَنِیُّ الْحَمِیْدُ}۔الفاطر: 15]۔
’’اے لوگو! تم سب اللہ کے محتاج و فقیر ہو اور اللہ ہی بے پروا اور سزاوار حمد و ثنا ہے‘‘ [ انسانوں میں سب سے اونچا مقام

انبیاء علیہما السلام کا ہے موسی علیہ السلام کہتے ہیں:
{رَبِّ اِنِّیْ لِمَآأَنْزَلْتَ اِلَیَّ مِنْ خَیْرٍ فَقِیْرٌ}۔
’’اے میرے رب جو بھلائی آپ میری طرف اتاریں میں اس کا ضرورت مند [محتاج] ہوں‘‘ [القصص: 24]۔

سوچئے پھر دوسرا کون اس کی محتاجی سے باہر ہو سکتا ہے؟
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
س:
بیماری سے شفا دینے والا کون ہے؟
ج:
اللہ تعالیٰ سیدناابراہیم علیہ السلام کا قول نقل فرماتا ہے:

{وَإِذَامَرِضْتُ فَھُوَیَشْفِیْنِ } ۔
’’اور جب میں بیمار پڑتا ہوں تو اللہ ہی مجھے شفا دیتا ہے‘‘ [الشعراء: 80]۔

رسول اللہ جب کسی بیمار کی عیادت کرتے تو اس طرح دعا کرتے:
’’أَذْھِبِ الْبَاْسَ رَبَّ النَّاسِ وَاشْفِ أَنْتَ الشَّافِیْ لَا شِفَآئَ إِلَّا شِفَآؤُکَ شِفَائً لَّا یُغَادِرُ سَقَمًا‘‘۔
’’اے لوگوں کے رب اس بیماری کو دور کر دے، شفا عطا فرما، تو ہی شفا دینے والا ہے، تیری شفا کے سوا کوئی شفا نہیں، ایسی شفا دے کہ کوئی بیماری نہ چھوڑے‘‘ [بخاری: 5675، مسلم: 2191]۔
 
Top