عکرمہ
مشہور رکن
- شمولیت
- مارچ 27، 2012
- پیغامات
- 658
- ری ایکشن اسکور
- 1,870
- پوائنٹ
- 157
س :
کلمہ کے ساتھ صدق و وفا سے کیا مراد ہے؟
ج :
کلمہ پر ثابت قدمی کے ساتھ پوری زندگی عمل کرنا اور ہر معاملے میں اللہ اور اس کے رسول کے احکامات کے تابع رہنا کلمہ سے صدق و وفا ہے، اللہ کی طرف سے آنے والی ہر آزمائش میں پورا اترنا نفاق کے منافی ہے،منافق اپنے مفاد کوجبکہ مومن اللہ کے احکامات کو مد نظر رکھتا ہے ، اللہ تعالیٰ فرماتا ہے:
((أَمْ حَسِبْتُمْ أَنْ تُتْرَکُوْا وَلَمَّا یَعْلَمِ اللّٰہُ الَّذِیْنَ جٰھَدُوْا مِنْکُمْ وَلَمْ یَتَّخِذُوْا مِنْ دُوْنِ اللّٰہِ وَلَا رَسُوْلِہٖ وَلَا الْمُؤمِنِیْنَ وَلِیْجَۃً))
’’جو شخص اس بات کی گواہی دل کی سچائی سے دے کہ اللہ کے سوا کوئی الٰہ نہیں اور محمد اللہ کے رسول ہیں اس پر اللہ نے آگ حرام کر دی‘‘ [بخاری: 128، مسلم: 32]۔
دل کی سچائی سے اللہ پر ایمان نہ لانے والے آزمائش کے موقع پر اسلام سے بے تعلق ہو جاتے ہیں فرمایا:
{وَمِنَ النَّاسِ مَنْ یَّعْبُدُ اللّٰہَ عَلٰی حَرْفٍ فَإِنْ أَصَابَہٗ خَیْرٌ اطْمَأَنَّ بِہٖ وَإِنْ أَصَابَتْہُ فِتْنَۃٌ انْقَلَبَ عَلٰی وَجْھِہٖ خَسِرَ الدُّنْیَا وَالْاٰخِرَۃَ، ذٰلِکَ ھُوَ الْخُسْرَانُ الْمُبِیْنُ}۔
اللہ تعالیٰ اہل ایمان کو خوشحالی اور تنگدستی ، راحت اور مشقت،فراخی اور محتاجی اور دشمنوں کے غلبہ جیسی بہت سی چیزوں کے ساتھ آزماتا ہے ۔ایک مومن شبہات کو علم کے ذریعے دور کرتا ہے اور شہوات کو آخرت پر ایمان اور موت کی یاد دہانی کے ذریعے ختم کرتا ہے۔اگر شبہات سے دل میں شک و شبہ جڑ پکڑے اور شہوات فرائض کی ادائیگی تک سے روک دیں تو یہ ایمان کی عدم صداقت کی دلیل ہے۔
کلمہ کے ساتھ صدق و وفا سے کیا مراد ہے؟
ج :
کلمہ پر ثابت قدمی کے ساتھ پوری زندگی عمل کرنا اور ہر معاملے میں اللہ اور اس کے رسول کے احکامات کے تابع رہنا کلمہ سے صدق و وفا ہے، اللہ کی طرف سے آنے والی ہر آزمائش میں پورا اترنا نفاق کے منافی ہے،منافق اپنے مفاد کوجبکہ مومن اللہ کے احکامات کو مد نظر رکھتا ہے ، اللہ تعالیٰ فرماتا ہے:
((أَمْ حَسِبْتُمْ أَنْ تُتْرَکُوْا وَلَمَّا یَعْلَمِ اللّٰہُ الَّذِیْنَ جٰھَدُوْا مِنْکُمْ وَلَمْ یَتَّخِذُوْا مِنْ دُوْنِ اللّٰہِ وَلَا رَسُوْلِہٖ وَلَا الْمُؤمِنِیْنَ وَلِیْجَۃً))
انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی اکرم ﷺنے معاذ بن جبل سے فرمایا:’’کیا تم لوگ یہ خیال کرتے ہو کہ (بے آزمائش) چھوڑ دیئے جائو گے حالانکہ ابھی تو اللہ تعالیٰ نے ایسے لوگوں کو ظاہر نہیں کیا جو تم میں سے جہاد کرتے ہیں اور اللہ اور اس کے رسول اور ایمان والوں کے سوا کسی کو دوست نہیں بناتے ‘‘ [التوبۃ: 16]۔
’’جو شخص اس بات کی گواہی دل کی سچائی سے دے کہ اللہ کے سوا کوئی الٰہ نہیں اور محمد اللہ کے رسول ہیں اس پر اللہ نے آگ حرام کر دی‘‘ [بخاری: 128، مسلم: 32]۔
دل کی سچائی سے اللہ پر ایمان نہ لانے والے آزمائش کے موقع پر اسلام سے بے تعلق ہو جاتے ہیں فرمایا:
{وَمِنَ النَّاسِ مَنْ یَّعْبُدُ اللّٰہَ عَلٰی حَرْفٍ فَإِنْ أَصَابَہٗ خَیْرٌ اطْمَأَنَّ بِہٖ وَإِنْ أَصَابَتْہُ فِتْنَۃٌ انْقَلَبَ عَلٰی وَجْھِہٖ خَسِرَ الدُّنْیَا وَالْاٰخِرَۃَ، ذٰلِکَ ھُوَ الْخُسْرَانُ الْمُبِیْنُ}۔
کلمہ کے ساتھ صدق و وفا یہاں تک کہ کذب اور نفاق کا شائبہ نہ رہے لا الہٰ الا اللہ کی قبولیت کے لیئے اہم ترین شرط ہے۔ لا الہٰ الا اللہ کے اقرار کے وقت بہت سی چیزوں کو قربان کرنا پڑتا ہے ۔شخصی مفاد،خاندانی روابط،سیاسی مفادات اور معاشرتی مجبوریاں انسان کو لا الہٰ الا اللہ کی حقیقت پر قائم رہنے میں رکاوٹ ڈالتی ہیں۔ایک مومن لا الہٰ الا اللہ کی حقیقت پر جم جاتا ہے اور ہر مفاد کو اس پر قربان کر دیتا ہے ۔کلمہ کا یہ اقرار وہ چیز ہے جس پر ایک مسلم کو ساری زندگی قائم رہنا ہوتا ہے ،ہر آزمائش پر اسلام اور ایمان سے دلی وفاداری کا ثبوت دینا اس کلمہ سے صدق و وفا ہے۔’’اور بعض لوگ ایسے ہیں جو اللہ کی عبادت کنارے پر کھڑے ہو کرکرتے ہیں، اگر انہیں فائدہ پہنچا تو مطمئن ہو گئے اور اگر مصیبت آ پڑی تو الٹے پائوں پھر گئے یہ دنیا و آخرت دونوں میں نقصان اٹھانے والے ہیں اور یہی کھلا نقصان ہے‘‘ [الحج: 11]
اللہ تعالیٰ اہل ایمان کو خوشحالی اور تنگدستی ، راحت اور مشقت،فراخی اور محتاجی اور دشمنوں کے غلبہ جیسی بہت سی چیزوں کے ساتھ آزماتا ہے ۔ایک مومن شبہات کو علم کے ذریعے دور کرتا ہے اور شہوات کو آخرت پر ایمان اور موت کی یاد دہانی کے ذریعے ختم کرتا ہے۔اگر شبہات سے دل میں شک و شبہ جڑ پکڑے اور شہوات فرائض کی ادائیگی تک سے روک دیں تو یہ ایمان کی عدم صداقت کی دلیل ہے۔