• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

تجدید ایمان

عکرمہ

مشہور رکن
شمولیت
مارچ 27، 2012
پیغامات
658
ری ایکشن اسکور
1,870
پوائنٹ
157

توحید الوہیت


س:
توحید الوہیت کسے کہتے ہیں؟
ج :
توحید الوہیت سے مراد یہ ہے کہ اللہ ہی الٰہ واحد ہے،

توحید الوہیت بندوں کے افعال ہیں کہ وہ اعتقاداً اور عملاً عبادت کے تمام افعال صرف اور صرف اللہ تعالیٰ کے لیئے خاص کر دیں۔حلال و حرام اور جائز وناجائز کے پیمانے صرف اللہ تعالیٰ کے نازل کردہ دین اسلام سے لیں۔انبیاء کرام نے ایمان کے اس پہلو پر سب سے زیادہ زور ددیا :
{وَمَا أَرْ‌سَلْنَا مِن قَبْلِكَ مِن رَّ‌سُولٍ إِلَّا نُوحِي إِلَيْهِ أَنَّهُ لَا إِلَـٰهَ إِلَّا أَنَا فَاعْبُدُونِ}(الانبیاء ۲۵)
’اور جو پیغمبر ہم نے تم سے پہلے بھیجے ان کی طرف یہی وحی بھیجی کہ میرے سوا کوئی معبود برحق نہیں تو میری ہی عبادت کرو۔‘‘

{وَ اِلٰهُكُمْ اِلٰهٌ وَّاحِدٌ لَاۤ اِلٰهَ اِلَّا هُوَ الرَّحْمٰنُ الرَّحِيْمُ}۔
’’اور (اے لوگو) تمہارا معبود تو بس ایک ہی ہے، اس رحمن و رحیم کے علاوہ کوئی عبادت کے لائق نہیں‘‘ [البقرۃ: 163]۔

الٰہ ایک جامع لفظ ہے، الٰہ میں جو صفات اور خصوصیات پائی جاتی ہیں کوئی ایک لفظ ان صفات کا احاطہ نہیں کر سکتا، الٰہ اس ہستی کو کہتے ہیں جوتمام تر محبت ،خشیت ،جلال اور تعظیم کے ساتھ معبود ہو اور جو ہر قسم کی عبادت (محبت ،خوف ،امید،توکل،نماز، روزہ، حج، قربانی، دعا، نذر و نیاز وغیرہ) کا مستحق ہو جس کو مشکل کشا اور حاجت روا سمجھا جائے جس سے فریاد کی جائے اور مدد طلب کی جائے جو لاثانی اور لازوال ہو جو بے نظیر اور بے مثال ہو کائنات کی کوئی چیز جس سے پوشیدہ نہ ہو جو ہر وقت ہر جگہ سے ہر شخص کی پکار سنتا ہو‘ جو دلوں کے حالات جانتا ہو جو ہر چیز پر قادر ہو مجبور اور عاجز نہ ہو‘ غنی ہو، سب اس کے محتاج ہوں وہ کسی کا محتاج نہ ہو مخلوق پر جس کا قانون چلے اوراس کے قانون کے مقابلے میں کسی کو قانون سازی کا حق نہ ہو، لفظ الٰہ میں توحید کے تمام پہلو اس طرح سمو دیئے گئے ہیں کہ لاَ إِلٰہَ إِلَّا اللّٰہُ کہنے کے بعد مزید کچھ کہنے کی ضرورت نہیں رہتی، توحید کی تمام تفصیلات الٰہ کی تشریحات ہیں، یہی وہ توحید ہے جس کو مشرکین مکہ سمیت ہر دور کے مشرک ماننے سے انکار کرتے رہے۔
 

عکرمہ

مشہور رکن
شمولیت
مارچ 27، 2012
پیغامات
658
ری ایکشن اسکور
1,870
پوائنٹ
157
س:
توحید ربوبیت اور توحید الوہیت میں کیا تعلق ہے ؟
ج:
اللہ تعالیٰ نے قرآن مجید میں توحید ربوبیت کے ذریعے توحید الوہیت پر دلیل قائم کی ہے گویا توحید ربوبیت توحید الوہیت کا دروازہ ہے ۔
{یَا أَیُّہَا النَّاسُ اعْبُدُواْ رَبَّکُمُ الَّذِیْ خَلَقَکُمْ وَالَّذِیْنَ مِن قَبْلِکُمْ لَعَلَّکُمْ تَتَّقُونَ ۔الَّذِيْ جَعَلَ لَكُمُ الْاَرْضَ فِرَاشًا وَّ السَّمَآءَ بِنَآءً١۪ وَّ اَنْزَلَ مِنَ السَّمَآءِ مَآءً فَاَخْرَجَ بِهٖ مِنَ الثَّمَرٰتِ رِزْقًا لَّكُمْ١ۚ فَلَا تَجْعَلُوْا لِلّٰهِ اَنْدَادًا وَّ اَنْتُمْ تَعْلَمُوْنَ}(البقرۃ:۲۰۔۲۱)
’’اے لوگو ! اپنے اس رب کی عبادت کرو جس نے تمہیں اور تم سے پہلے کے لوگوں کو پیدا کیا ‘ تاکہ تم پرہیزگار بن جائو ۔جس نے تمہارے لیے زمین کو فرش اور آسمان کو چھت بنایا اور آسمان سے پانی اتار کر اس سے پھل پیدا کر کے تمہیں روزی دی ‘خبردار باوجود جاننے کے اللہ کے شریک مقرر نہ کرو ۔‘‘
ان آیات سے واضح ہے کہ جو یہ اعتراف کرتا ہے کہ اس کائنات کا اللہ کے سوا کوئی خالق،رازق اور مدبّر نہیں اس پر لازم ہے کہ وہ یہ اقرار بھی کرے کہ اللہ ہی تمام قسم کی عبادات کا حق دار ہے یہی توحید الوہیت ہے ۔

اللہ تعالیٰ نے اپنی عبادت کا حکم اس دلیل کے ساتھ دیا ہے کہ نفع و نقصان کا اختیار صرف اسی کے پاس ہے ‘ وہی خالق ،رازق اور مالک ہے اور ان عظیم اختیارا ت کا وہی اکیلا مالک ہے ۔
{ذَلِکُمُ اللَّہُ رَبُّکُمْ خَالِقُ کُلِّ شَیْْء ٍ لَاۤ اِلٰهَ إِلَّاھُو فَاَنّٰى تُؤْفَکُونَ ٭كَذٰلِكَ يُؤْفَكُ الَّذِيْنَ کَانُوا بِاٰيٰتِ اللّٰهِ یَجْحَدُونَ ٭ اَللّٰهُ الَّذِيْ جَعَلَ لَكُمُ الْاَرْضَ قَرَارًا وَّ السَّمَآءَ بِنَآءً وَّ صَوَّرَكُمْ فَاَحْسَنَ صُوَرَكُمْ وَرَزَقَکُم مِّنَ الطَّیِّبَاتِ ذَلِکُمُ اللَّہُ رَبُّکُمْ فَتَبَارَکَ اللَّہُ رَبُّ الْعَالَمِیْنَ ٭ ھُوَ الْحَیُّ لَا إِلَہَ إِلَّا ھُوَ فَادْعُوہُ مُخْلِصِیْنَ لَہُ الدِّیْنَ}(المؤمن:۶۲ تا۶۴)
’’یہی اللہ تم سب کا رب ہر چیز کا خالق ہے اس کے سوا کوئی معبود نہیں پھر کہاں تم پھرے جاتے ہو ؟اسی طرح وہ لوگ بھی پھیرے جاتے رہے جو اللہ کی آیتوں کا انکار کرتے تھے ۔اللہ ہی ہے جس نے تمہارے لیے زمین کو ٹھہرنے کی جگہ اور آسمان کو چھت بنایا اور تمہاری صورتیں بنائیں اور بہت اچھی بنائیں اور تمہیں عمدہ عمدہ چیزیں کھانے کو عطا فرمائیں ‘یہی اللہ تمہارا پروردگار ہے ‘بہت ہی برکتوں والا ہے سارے جہان کا پرورش کرنے والا ۔وہ زندہ ہے جس کے سوا کوئی معبود نہیں پس تم خالص اسی کی عبادت کرتے ہوئے اسے پکارو ‘تمام خوبیاں اللہ ہی کے لیے ہیں جو تمام جہانوں کا رب ہے ۔‘‘
{يُوْلِجُ الَّيْلَ فِیْ النَّہَارِ وَیُولِجُ النَّہَارَ فِي الَّيْلِ١ۙ وَسَخَّرَ الشَّمْسَ وَالْقَمَرَ كُلٌّ يَّجْرِيْ لِأَجَلٍ مُّسَمًّی ذَلِکُمُ اللَّہُ رَبُّکُمْ لَہُ الْمُلْکُ وَالَّذِیْنَ تَدْعُونَ مِن دُونِہِ مَا یَمْلِکُونَ مِن قِطْمِیْرٍ }(فاطر: ۱۳)
’’وہ رات کو دن میں اور دن کو رات میں داخل کرتا ہے اور آفتاب و ماہتاب کو اسی نے کام میں لگا دیا ہے ۔ہر ایک میعاد معین پر چل رہا ہے ۔یہی ہے اللہ تم سب کا پالنے والا اسی کی سلطنت ہے ۔جنہیں تم اللہ کے سوا پکار رہے ہو وہ تو کھجور کی گٹھلی کے چھلکے کے بھی مالک نہیں ۔ ‘‘
 

عکرمہ

مشہور رکن
شمولیت
مارچ 27، 2012
پیغامات
658
ری ایکشن اسکور
1,870
پوائنٹ
157
س:
کلمہ توحید کے کتنے ارکان ہیں ؟
ج:
کلمہ توحید کے دو ارکان ہیں ۔
۱۔لا الہٰ کوئی عبادت کے لائق نہیں ۔
۲۔الا اللہ سوائے اللہ کے ۔

پہلے غیر اللہ کی معبودیت کی نفی ہے پھر اللہ تعالیٰ کی الوہیت اور معبودیت کا اثبات ہے یعنی اللہ تعالیٰ کی عبادت سے پہلے غیر اللہ کی عبادت سے نفی ضروری ہے اور شرک کی اس نفی ہی میں توحید کا اثبات ہے ‘ ہر نبی علیہ السلام نے اپنی امت کو اللہ کی عبادت سے پہلے غیر اللہ کی الوہیت کے انکار کی دعوت دی۔
حافظ ابن قیم رحمتہ اللہ علیہ نے لکھا ہے :
’’ توحید ِعبادت میں قرآنِ حکیم کا طریقہ بیان یہی ہے کہ نفی کو اثبات کے ساتھ جوڑا ہے چنانچہ قرآن مجید ہر غیر اللہ کی عبادت کی نفی کرتا ہے اور ہر قسم کی عبادت کو اللہ تعالیٰ کے ساتھ ثابت کرتا ہے اور یہی توحید کی حقیقت ہے ۔نہ تو محض ’’ نفی‘‘ توحید ہے اور نہ محض’’ اثبات‘‘ توحید ہے۔نفی اور اثبات دونوں جمع ہوں گے تو توحید کا مکمل معنی حاصل ہو گا اور یہی لا الہٰ الا اللہ کی حقیقت ہے ۔‘‘(تیسر العزیز الحمید:۷۶)
گویا توحید کی تکمیل صرف اللہ تعالیٰ کی عبادت سے نہیں ہوتی بلکہ عبادت کے ساتھ ساتھ ہر قسم کے شریک کی نفی اور انکار ضروری ہے ورنہ توحید ناقص ہی رہے گی بلکہ ناقابل قبول ہوگی۔
 

عکرمہ

مشہور رکن
شمولیت
مارچ 27، 2012
پیغامات
658
ری ایکشن اسکور
1,870
پوائنٹ
157
س:
انبیاء علیہم السلام نے کن الفاظ میں قوم کو دعوت دی ؟
ج:
انبیاء علیہم السلام نے مختلف انداز سے توحید باری تعالیٰ کی تعلیم دی مگر ہر انداز میں انہوں نے پہلے غیر اللہ کی الوہیت کی نفی کی طرف بلایا پھر اکیلے اللہ تعالیٰ ہی کے لیے عبادت کا اقرار کروایا ۔چند آیات ملاحظہ فرمائیں:
{ اعْبُدُوا اللَّـهَ مَا لَكُم مِّنْ إِلَـٰهٍ غَيْرُ‌هُ}(الاعراف:۵۹)
’’اللہ کی عبادت کرو اس کے سوا تمہارا کوئی معبود نہیں ہے ۔‘‘

{قَالَ أَغَيْرَ‌ اللَّـهِ أَبْغِيكُمْ إِلَـٰهًا}(اعراف:۱۴۰)
’’فرمایا کیامیں اللہ تعالیٰ کے سوا کسی اور کو تمہارا معبود تجویز کروں ۔‘‘

{مَّنْ إِلَـٰهٌ غَيْرُ‌ اللَّـهِ}( الانعام:۴۶)
’’اللہ کے سواکون ہے جو معبود ہو ۔؟‘‘
{ أَإِلَہٌ مَّعَ اللَّہِ }(النمل:۶۴)
’’کیا اللہ کے ساتھ کوئی اور معبود ہے ۔؟‘‘
{وَاعْبُدُوا اللَّـهَ وَلَا تُشْرِ‌كُوا بِهِ شَيْئًا}(النساء:۳۶)
’’اللہ کی عبادت کرو اور اس کے ساتھ کسی چیز کو شریک نہ کرو ۔‘‘
{لاَّ تَجْعَل مَعَ اللّہِ إِلَـہاً آخَرَ}(بنی اسرائیل:۲۲)
’’اللہ کے ساتھ کسی اور کو معبود نہ ٹھہرا ۔‘‘
 

عکرمہ

مشہور رکن
شمولیت
مارچ 27، 2012
پیغامات
658
ری ایکشن اسکور
1,870
پوائنٹ
157
س:
عبادت کسے کہتے ہیں؟
ج:
عبادت کے معنی اللہ تعالیٰ کے ساتھ بے انتہاء محبت اور اس کے لیے حد درجہ عاجزی اور انکساری اختیار کرنا ہے ۔وہ تمام ظاہری اور باطنی اقوال و اعمال جن کو وہ پسند کرتا ہے اور جن سے وہ راضی ہوتا ہے عبادت کہلاتے ہیں۔شریعت کے ان امور کو عبادت اس لیے کہتے ہیں کیونکہ بندہ اللہ تعالیٰ کے سامنے انتہائی درجہ کے تذلل اور خضوع کے ساتھ ان اعمال کو انجام دیتا ہے ۔
س:
عبادت کی کتنی قسمیں ہیں؟
ج:
عبادت کی بہت سی قسمیں ہیں جو دل ،زبان،اعضاء اور جوارح کے ذریعے انجام دی جاتی ہیں ۔ دل میں اللہ تعالیٰ کی محبت اور خوف کا ہونا اللہ کی رحمتوں کی امید رکھنا‘ اس پر توکل کرنا‘ خشیت الٰہی ،انابت الیٰ اللہ، اللہ کے فیصلوں پر صبر کرنا ‘اس کی قضا و قدر پر خوش ہونا اور اللہ کے عذاب سے ڈرنا قلبی عبادات ہیں۔
انسان اپنی زبان کے ذریعے اللہ تعالیٰ کی تسبیح(سبحان اللہ)‘ تہلیل (لا الہٰ الا اللہ)‘ تکبیر (اللہ اکبر )‘ اور اللہ کا حمد و شکر ادا کرتا ہے مشکلات کے حل کے لیے اللہ تعالیٰ کو پکارتا ہے یہ قولی عبادات ہیں ۔نماز حج اور جہاد بدنی عبادات ہیں ۔
زکوٰۃ ،عشر اور فطرانہ ادا کرنا اور رشتہ داروں یتیموں ،مسکینوں اور مسافروں کے ساتھ حسن سلوک کرتے ہوئے ان پر خرچ کرنا مالی عبادات ہیں ۔

اس طرح ایک مومن دل، زبان اور اعضاء کے ذریعے بہت سی عبادات سر انجام دیتا ہے ۔یہاں تک کہ جن چیزوں کا تعلق عادات سے ہے اگر وہ نیت کے ساتھ شرعی احکامات کے مطابق ان کو انجام دے گا تو یہ بھی عبادت میں بدل جائیں گے اور اس پر بھی اس کو ثواب ملے گا۔مثلا سونا ،کھانا پینا ،خریدوفروخت کرنا ،رزق تلاش کرنا اور نکاح کرنا وغیرہ۔
 

عکرمہ

مشہور رکن
شمولیت
مارچ 27، 2012
پیغامات
658
ری ایکشن اسکور
1,870
پوائنٹ
157
س:
عبادت کے تعین میں لوگوں نے کیا غلطیاں کی ہیں؟
ج:
عبادات توقیفی ہیں ۔یعنی کوئی بھی عبادت کرنا کتاب و سنت کی دلیل کے بغیر جائز نہیں ہے اور شریعت سے ثابت شدہ عبادتیں درست اور اعتدال کے راستے سے ادا کرنی چاہئیں جو تساہل اور غلو و تشدد کے مابین ہیں۔ آج تک لوگ عبادت کے معاملے میں دو گروہوں میں تقسیم ہوئے :
پہلا گروہ:
اس نے عبادت کے مفہوم میں کوتاہی کی اور عبادت کی بہت سی قسموں کو معطل کر دیا ۔اور عبادت کو نماز ‘روزہ ‘حج ‘زکوٰۃ‘نکاح اور موت کی چند رسومات تک خاص کر دیا ۔سیاست ،تجارت، معاشرت اور معاملات کے فیصلوں میں ان کے ہاں عبادت کو کوئی عمل دخل نہیں ۔جبکہ عبادت تو مسلمان کی پوری زندگی کو شامل ہے خواہ وہ مسجد کے اندر ہو یا باہر۔

دوسرا گروہ:
عبادت کے انجام دینے میں انتہا پسندی کا شکار ہوا اس نے بہت سے مستحبات کو واجبات کا درجہ دے دیا اور مباح چیزوں کو بھی حرام قرار دے دیا اور اپنے منہج کے مخالف کو گمراہ کہا ۔حالانکہ بہترین طریقہ محمد ﷺ کا طریقہ ہے جو اعتدال کا راستہ ہے جیسا کہ اللہ تعالیٰ فرماتاہے:
{فَاسْتَقِمْ کَمَا أُمِرْتَ وَمَن تَابَ مَعَکَ وَلاَ تَطْغَوْا}(ھود :۱۱۲)
آپ جمے رہیے جیسا کہ آپ کو حکم دیا گیا ہے اور وہ لوگ بھی جو آپ کے ساتھ توبہ کر چکے ہیں ‘خبردار تم حد سے نہ بڑھنا ۔‘‘
قلبی عبادات
س:
عبادت کے تین اہم ستون کون سے ہیں؟
ج:
عبادت کے تین اہم ستون محبت ،خوف اور امید ہیں ۔لہٰذا عاجزی و انکساری کے ساتھ محبت کا اور امید کے ساتھ خوف کا عبادت کے اندر پایا جانا ضروری ہے :
{إِنَّهُمْ كَانُوا يُسَارِ‌عُونَ فِی الْخَيْرَ‌اتِ وَيَدْعُونَنَا رَ‌غَبًا وَرَ‌هَبًا وَكَانُوا لَنَا خَاشِعِينَ }(الانبیاء :۹۰)
’’یہ بزرگ لوگ نیک کاموں کی طرف جلدی کرتے تھے اور ہمیں لالچ وطمع اور ڈرو خوف سے پکارتے تھے اور ہمارے سامنے عاجزی کرنے والے تھے ۔‘‘
جو شخص اللہ سے بغض و نفرت رکھتے ہوئے اس کی تابعداری کرے گا تو وہ عبادت شمار نہیں ہو گی اور اگر کوئی اللہ سے محبت توکرے لیکن اس کی تابعداری نہ کرے تو یہ محبت بھی اسے کچھ فائدہ نہ دے گی ۔ لہٰذا وہی شخص عابد ہے جو اللہ تعالیٰ کو ہر چیز سے زیادہ محبوب رکھتا ہے ‘محبت اور مکمل تابعداری کا حقدار صرف اللہ تعالیٰ کو سمجھتا ہے ۔
 

عکرمہ

مشہور رکن
شمولیت
مارچ 27، 2012
پیغامات
658
ری ایکشن اسکور
1,870
پوائنٹ
157
س:
سب سے بڑھ کر محبت کس سے ہونی چاہئے؟
ج:
سب سے بڑھ کر محبت صرف اللہ تعالیٰ سے ہونی چاہئے' اللہ تعالی نے اپنے کلام میں ان لوگوں کو مشرک قرار دیا ہے جو اپنے بنائے ہوئے شریکوں سے اللہ کی سی محبت رکھتے ہیں فرمایا:

{وَمِنَ النَّاسِ مَنْ یَّتَّخِذُ مِنْ دُوْنِ اللّٰہِ أَنْدَاداً یُّحِبُّوْنَھُمْ کَحُبِّ اللّٰہِ وَالَّذِیْنَ اٰمَنُوْاأَشَدُّ حُبًّا لِلّٰہِ} [البقرۃ: 165]۔
''اور بعض لوگ ایسے ہیں جو دوسروں کو اللہ کا شریک ـٹھہراتے ہیں، ان سے وہ اللہ کی سی محبت کرتے ہیں اور مومن تو شدید محبت اللہ سے کرتے ہیں''۔
سوچئے جب اللہ سے بڑی محبت رکھنے کے باوجود اللہ کی بجائے دوسروں سے اتنی ہی محبت رکھنے کی بنا پر انسان مشرک ہو جاتا ہے ،تو ان کا کیا حال ہو گا جو اللہ سے بڑھ کر اپنے شریکوں سے محبت کرتے ہیں، اور وہ لوگ کہاں جائیں گے جو صرف شریکوں سے محبت رکھتے ہیں، اللہ تعالیٰ کو جانتے ہی نہیں۔

اللہ تعالیٰ کے بعد محبت کے سب سے زیادہ مستحق نبی اکرم محمد ﷺ کی ذات ہے، سیدناابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے آپ نے فرمایا:
''تم میں سے کوئی شخص اس وقت تک مومن نہیں ہو سکتا جب تک کہ مجھے اپنی اولاد' اپنے ماں باپ او ر تمام لوگوں سے زیادہ محبوب نہ سمجھے'' [بخاری: 14، مسلم: 44]۔
پھر مومنین سے اللہ کے لیے محبت کرنی چاہیے، سیدناانس رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں رسول اللہ ﷺفرماتے ہیں:
''جس شخص میں تین باتیں ہوں اس نے ایمان کی مٹھاس پائی:

[۱]سب سے زیادہ محبت اللہ اور اس کے رسول سے ہو۔
[۲]اللہ کی خاطر کسی بندے سے محبت کرے۔
[۳] کفر سے نجات پانے کے بعد کفر میں جانے کو آگ میں ڈالے جانے کے برابر سمجھے''

[بخاری: 16، مسلم: 43]۔
 

عکرمہ

مشہور رکن
شمولیت
مارچ 27، 2012
پیغامات
658
ری ایکشن اسکور
1,870
پوائنٹ
157
س:
اللہ سے محبت کا تقاضا کیا ہے؟
ج:
اللہ سے محبت کا تقاضا یہ سے کہ اللہ کے دوستوں سے محبت اور اللہ کے دشمنوں سے دشمنی کرے، فرمایا:

{مُّحَمَّدٌ رَّسُولُ اللَّہِ وَالَّذِیْنَ مَعَہُ أَشِدَّاءُ عَلَی الْکُفَّارِرُحَمَاءُ بَیْنَہُمْ} (الفتح ۲۹)
'' محمد اللہ کے رسول ہیں، اور جو لوگ ان کے ساتھ ہیں کافروں پر سخت ہیں ،آپس میں رحمدل ہیں''۔

{لَا تَجِدُ قَوْماً یُّؤْمِنُوْنَ بِاللّٰہِ وَالْیَوْمِ الْاٰخِرِ یُوَآدُّوْنَ مَنْ حَآدَّ اللّٰہَ وَرَسُوْلَہُ وَلَوْکَانُوْا اٰبَآءَ ھُمْ أَوْأَبْنَآءَ ھُمْ أَو ْإِخْوَانَھُمْ أَو ْعَشِیْرَتَھُمْ ااُولٰٓىِٕكَ کَتَبَ فِیْ قُلُوْبِھِمُ الإِیْمَانَ وَأَیَّدَھُمْ بِرُوْحٍ مِّنْہُ وَیُدْخِلُھُمْ جَنّٰتٍ تَجْرِیْ مِنْ تَحْتِھَا الْأَنْھٰرُخٰلِدِیْنَ فِیْھَا رَضِیَ اللّٰہُ عَنْھُمْ وَرَضُوْاعَنْہُ أُوْلٰٓئِکَ حِزْبُ اللّٰہِ أَ لَا إِنَّ حِزْبَ اللّٰہِ ھُمُ الْمُفْلِحُوْنَ} ۔
''جو لوگ اللہ اور روز قیامت پر ایمان رکھتے ہیں تم ان کو اللہ اور اس کے رسول کے دشمنوں سے دوستی کرتے ہوئے نہ دیکھو گے خواہ ان کے باپ' بیٹے ' بھائی یا خاندان ہی کے لوگ ہوں، یہ وہ ہیں جن کے دلوں میں اللہ نے ایمان لکھ دیا ہے اور غیب سے ان کی مدد کی ہے اور وہ ان کو ایسی جنتوں میں داخل کرے گا جن کے نیچے نہریں چل رہی ہیں وہ ان میں ہمیشہ رہیں گے،اللہ ان سے راضی اور وہ اللہ سے راضی ہیں، یہی لوگ اللہ کا لشکر ہیں، سن لو کہ اللہ کا لشکر ہی مراد پانے والا ہے'' [المجادلۃ: 22]۔
ایسی ہی بات الممتحنۃ: 4، التوبۃ: 23، المائدۃ: 51 اور النساء: 144 میں موجود ہے۔
 

عکرمہ

مشہور رکن
شمولیت
مارچ 27، 2012
پیغامات
658
ری ایکشن اسکور
1,870
پوائنٹ
157
س:
توکل اور بھروسہ کس پر کرنا چاہیے؟
ج:
جب کوئی انسان اپنا کام انجام دینے سے کمزوری محسوس کرے پھر کسی دوسرے شخص پر بھروسہ اور اعتماد کرتے ہوئے اپنا وہ کام اس یقین کے ساتھ اسے سونپ دے کہ وہ یہ کام ضرور پورا کر دے گا توکل کہلاتا ہے ۔اللہ تعالیٰ نے قرآن مجید کی بہت سی آیات میں خالص اللہ پر توکل کرنے کا حکم دیا ہے : فرمایا:
{وَعَلَی اللّٰہِ فَلْیَتَوَکَّلِ الْمُؤْمِنُوْنَ} ۔
''مومنوں کو اللہ ہی پر بھروسہ کرنا چاہیے'' [آل عمران: 122]۔

اللہ تعالیٰ نے توکل کو ایمان اور اسلام کی صحت کی شرط قرار دیا :
وَعَلَی اللّٰہِ فَتَوَکَّلُواْ إِن کُنْتُمْ مُّؤْمِنِیْن[المائدۃ:23]
''اور صرف اللہ تعالیٰ ہی پر توکل کرو اگر تم مومن ہو۔ ''

إِنْ کُنْتُمْ اٰمَنْتُمْ بِاللّٰہِ فَعَلَيْهِ تَوَكَّلُوْۤاإِنْ کُنْتُمْ مُّسْلِمِیْنَ[یونس :84]
''اگر تم اللہ تعالیٰ پر ایمان رکھتے ہو اور واقعی تم مسلمان ہو تو اسی پر بھروسہ کرو ۔''

سیدناعمران بن حصین رضی اللہ عنہ سے روایت ہے رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ''میری امت کے ستر ہزار لوگ جنت میں بلا حساب و کتاب جائیں گے، یہ وہ لوگ ہیںجو منتر نہیں پھنکواتے' نہ داغ لگواتے ہیں نہ بد فالی لیتے ہیں اور صرف اللہ تعالیٰ ہی پر بھروسہ کرتے ہیں'' [بخاری: 5705، مسلم: 220]۔
 

عکرمہ

مشہور رکن
شمولیت
مارچ 27، 2012
پیغامات
658
ری ایکشن اسکور
1,870
پوائنٹ
157
س:
غیراللہ پر توکل کی کتنی صورتیں ہیں ؟
ج:
غیراللہ پر توکل کی دو صورتیں ہیں ۔
Œ1:
اگر کوئی شخص مخلوق پر ان معاملات میں توکل کرے جن کے عطا کرنے پر صرف اللہ تعالیٰ ہی قادر ہے جیسے اولاد دینا ،صحت اور رزق دینا تو یہ شرک اکبر ہے ۔کیونکہ اس نے غیراللہ پر ان امور میں توکل کیا جن پر وہ قادر نہیں ہے ۔
2:
ظاہری اسباب کے سلسلے میں کسی امیر انسان یا بادشاہ پر بھروسہ کرنا کیونکہ اس میں ظلم دور کرنے کی طاقت ہے یا اس کے پاس مال و دولت ہے تو اگر اصل توکل اللہ پر ہو اور ان کی مدد کو بھی اللہ کی توفیق سمجھے تو یہ جائز ہے ۔
 
Top