• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

تجدید ایمان

عکرمہ

مشہور رکن
شمولیت
مارچ 27، 2012
پیغامات
658
ری ایکشن اسکور
1,870
پوائنٹ
157
س :
کیا مومن اللہ تعالیٰ کی رحمت سے نا امید ہو سکتاہے؟
ج:
مومن اللہ تعالیٰ کی رحمت سے نا امید نہیں ہو سکتا، فرمایا:
{وَمَنْ یَّقْنَطُ مِنْ رَّحْمَۃِ رَبِّہٖٓ إِلَّا الضَّآلُّوْنَ} ۔
''اللہ کی رحمت سے مایوس ہونا گمراہوں کا کام ہے'' [الحجر: 56]۔

سیدناابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:
''اللہ تعالیٰ نے اس کتاب میں جو اس کے پاس عرش پر ہے لکھ دیا ہے کہ بیشک میری رحمت میرے غصہ پر غالب ہے''۔[بخاری: 3194، مسلم: 2715]۔
گویا امیدیں وابستہ کرنا بھی اللہ تعالیٰ کے لیئے خاص ہے ۔جن امور پر اللہ تعالیٰ ہی قادر ہے ان میں کسی کو اس امید سے پکارنا کہ اس کا مطلوب حاصل ہو جائے گا شرک اکبر ہے ۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
س:
سب سے زیادہ خوف کس کا ہونا چاہیے؟
ج:
مومن کے دل میں سب سے زیادہ خوف اللہ کا ہونا چاہئے۔اللہ تعالیٰ فرماتا ہے:
{إِنَّمَا ذٰلِکُمُ الشَّیْطٰنُ یُخَوِّفُ أَوْلِیَآءَہ ٗفَلا تَخَافُوْھُمْ وَخَافُوْنِ إِنْ کُنْتُمْ مُّؤْمِنِیْنَ} ۔[آل عمران: 175]۔
''بلاشبہ یہ شیطان ہے جو تمہیں اپنے دوستوں سے ڈراتا ہے لہذا تم ان سے نہ ڈرنا اور مجھ ہی سے ڈرتے رہنا اگر تم مومن ہو''
{إِنَّمَایَعْمُرُ مَسٰجِدَاللّٰہِ مَنْ اٰمَنَ بِاللّٰہِ وَالْیَوْمِ الْاٰخِرِ وَأَقَامَ الصَّلٰوۃَ وَاٰتَی الزَّکٰوۃَ وَلَمْ یَخْشَ اِلَّا اللّٰہَ فَعَسٰی اُوْلٰٓئِکَ اَنْ یَّکُوْنُوْامِنَ الْمُھْتَدِیْنَ} ۔ [التوبۃ: 18]۔
''بلاشبہ اللہ کی مسجدیں وہی آباد کرتے ہیں جواللہ پر اور آخرت پر ایمان لاتے ' نماز قائم کرتے اور زکاۃ ادا کرتے ہیں اور اللہ کے سوا کسی سے نہیں ڈرتے ۔ امید ہے کہ یہی لوگ ہدایت یافتہ لوگوں میں داخل ہیں''

اس لیے مومن لوگوں کی طرف سے آنے والی تکالیف پر صبر کرتے ہوئے حق پر ثابت قدمی کے ساتھ قائم رہتے ہیں
{وَمِنَ النَّاسِ مَنْ یَّقُوْلُ اٰمَنَّا بِاللّٰہِ فَإِذَٓا اُوْذِیَ فِی اللّٰہِ جَعَلَ فِتْنَۃَ النَّاسِ کَعَذَابِ اللّٰہِ} [العنکبوت: 10]۔۔
''اور بعض لوگ ایسے ہیں جو کہتے ہیں کہ ہم اللہ پر ایمان لائے لیکن جب انہیں اللہ کی راہ میں کوئی ایذا پہنچائی جاتی ہے تو وہ لوگوں کی ایذا کو یوں سمجھتے ہیں گویا اللہ کا عذاب''

عائشہ رضی اللہ عنہافرماتی ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:
''جو اللہ کو خوش کرنا چاہے، چاہے لوگ ناراض ہوں تو اللہ تعالیٰ اسے لوگوں سے بے پروا کر دے گا، اور جو لوگوں کی خوشنودی کی خاطر اللہ تعالیٰ کو ناراض کرے اللہ اسے لوگوں کے سپرد کر دے گا'' [ترمذی: 2414]۔
 

عکرمہ

مشہور رکن
شمولیت
مارچ 27، 2012
پیغامات
658
ری ایکشن اسکور
1,870
پوائنٹ
157
س:
ڈرنا کس سے چاہئے؟
ج: نفع نقصان اللہ ہی کے ہاتھ میں ہے اس لیے ڈرنا بھی اسی سے چاہئے، لوگوں سے اس طرح ڈرنا گویا کہ وہ اپنی مشیئت اور قدرت سے نفع و نقصان پہنچانے پر قادر ہیں'شرک ہے ۔ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے:

{اَتَخْشَوْنَھُمْ فَاللّٰہُ اَحَقُّ أَنْ تَخْشَوْہُ إِنْ کُنْتُمْ مُّوْمِنِیْنَ}[التوبۃ: 13]۔
''کیا تم ان (کافروں) سے ڈرتے ہو حالانکہ ڈرنے کے لائق اللہ ہے بشرطیکہ تم ایمان رکھتے ہو''
منافقین کے بارے میں فرمایا:

{فَلَمَّاکُتِبَ عَلَیْھِمُ الْقِتَالُ إِذَافَرِیْقٌ مِّنْھُمْ یَخْشَوْنَ النَّاسَ کَخَشْیَۃِ اللّٰہِ أَوْ أَشَدَّ خَشْیَۃً} [النساء: 77]۔
''جب ان پر جنگ فرض کردی گئی تو ان میں سے ایک جماعت لوگوں سے اس طرح ڈرنے لگی جیسے اللہ سے ڈرا کرتے ہیں بلکہ اس سے بھی زیادہ''

س:
خوف کی کتنی قسمیں ہیں ؟
ج:
خوف کی دو قسمیں ہیں ۔
۱ ۔
مخفی خوف :
اللہ تعالیٰ کے سوا دوسروں سے ڈرتے رہنا کہ کہیں وہ اپنی طاقت اور قدرت سے مجھے کوئی بیماری ،تنگی یا موت نہ دے دے تو یہ شرک ہے ۔مشرکین خود بھی اپنے بنائے ہوئے معبودوں سے ڈرتے تھے اور اہل ایما ن کو بھی ان سے ڈراتے تھے ۔

إِن نَّقُوْلُ إِلاَّ اعْتَرَاکَ بَعْضُ اٰلِہَتِنَا بِسُوَءٍ قَالَ إِنِّیْ اُشْہِدُ اللّٰہِ وَ اَشْهَدُوْۤا أَنِّیْ بَرِیْء ٌ مِّمَّا تُشْرِکُونَ٭ مِن دُونِہِ فَکِیْدُونِیْ جَمِیْعاً ثُمَّ لاَ تُنظِرُونِ٭إِنِّیْ تَوَکَّلْتُ عَلَی اللّہِ رَبِّیْ وَرَبِّکُم [ھود :54,55]
'' ہم تو یہی کہتے کہ تو ہمارے کسی معبود نے تجھے برائی (خلل دماغ) میں مبتلا کر دیا ہے ۔ اس نے جواب دیا کہ میں اللہ کو گواہ کرتا ہوں اور تم بھی گواہ رہو کہ میں تو اللہ کے سوا ان سب سے بیزار ہوں 'جنہیں تم شریک بنا رہے ہو ۔پس تم مجھے نقصان پہنچانے کے لیے سب مل کر تدبیر کر لو پھر تم مجھے مہلت بھی نہ دو بے شک میں نے اللہ پر بھروسہ کیا جو میرا اور تمہارا رب ہے ۔''
شرک کرنے والوں کے دلوں میں اللہ تعالیٰ سے بڑھ کر قبروں میں مدفون لوگوں کا خوف سمایا ہوتا ہے ۔وہ کسی قبر والے بزرگ کی سچی قسم کھانے کی جرأت بھی نہیں کرتے جبکہ اللہ تعالیٰ کی جھوٹی قسم اٹھانے پر تیار ہو جاتے ہیں ۔
۲۔
طبعی خوف :
کسی دشمن یا درندے کا خو ف جو اسباب کے ساتھ نقصان پہنچا سکتاہے طبعی خوف کہلاتا ہے ۔یہ خوف قابل مذمت نہیں ہے بعض اوقات انبیاء علیہم السلام کو بھی یہ خوف لاحق ہو جاتا تھا ۔

فَخَرَجَ مِنْہَا خَائِفاً یَتَرَقَّبُ[القصص:21]
''پس موسیٰ وہاں سے ڈرتے ہوئے اور خطرے کو بھانپتے ہوئے نکلے ۔''
 

عکرمہ

مشہور رکن
شمولیت
مارچ 27، 2012
پیغامات
658
ری ایکشن اسکور
1,870
پوائنٹ
157
س:
کیا کسی کو خوش کرنے کے لیے اعمال کرنے چاہئیں؟
ج: صرف اللہ تعالیٰ کی رضا حاصل کرنے کے لیے نیک کام کرنے چاہئیں، دکھاوے کے لیے اعمال کرنا شرک ہے۔اللہ تعالیٰ فرماتا ہے:

{وَمَنْ یَّفْعَلْ ذٰلِکَ ابْتِغَآئَ مَرْضَاتِ اللّٰہِ فَسَوْفَ نُوْتِیْہِ أَجْرًا عَظِیْمًا}۔ [النساء: 114]۔
''اور جو شخص ایسے [نیک ] کام اللہ کی خوشنودی حاصل کرنے کے لیے کرے گا تو ہم اس کو اجر عظیم دیں گے''
ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ ہمارے پاس آئے اور ہم دجال کے فتنہ کا ذکر کر رہے تھے، آپ نے فرمایا: ''کیا میں تمہیں وہ چیز نہ بتا ؤں جس کا دجال سے بڑھ کر مجھے خوف ہے؟ ہم نے عرض کی ضرور فرمائیں، آپ نے فرمایا: وہ شرک خفی ہے، اور وہ یہ ہے کہ آدمی اپنی نماز کو زیادہ اچھی طرح ادا کرے جب لوگ اسے دیکھ رہے ہوں'' [ابن ماجہ: 4204]۔
 

عکرمہ

مشہور رکن
شمولیت
مارچ 27، 2012
پیغامات
658
ری ایکشن اسکور
1,870
پوائنٹ
157
قولی عبادات

س:
تعریفوں کا حقدار کون ہے؟
ج: تمام تعریفیں اللہ ہی کے لیے ہیں، کیونکہ وہ خالق ہے باقی سب مخلوق ہیں، وہ حاکم ہے باقی سب محکوم ہیں، وہ قادر ہے باقی سب محتاج ہیں غرض وہ تمام کمزوریوں سے پاک ہے ،

{اَلْحَمْدُ لِلّٰہِ رَبِّ الْعٰلَمِیْنَ} ۔[الفاتحۃ: 2]۔
''ہر قسم کی تعریف اللہ کے لیے ہے، جو تمام مخلوقات کو پالنے والا ہے''

{وَلَوْ اَنَّمَا فِی الْاَرْضِ مِنْ شَجَرَۃٍ اَقْلامٌ وَّالْبَحْرُ یَمُدُّہٗ مِنْۢ بَعْدِہٖ سَبْعَۃُ اَبْحُرٍ مَّانَفِدَتْ کَلِمٰتُ اللّٰہِ اِنَّ اللّٰہَ عَزِیْزٌ حَکِیْمٌ} ۔
''اور زمین میں جتنے درخت ہیں سب قلم بن جائیں اور سمندر سیاہی بن جائے اوراس کے بعد سات سمندر اور سیاہی بن جائیں تو اللہ کے کلمات (صفتیں) ختم نہ ہوں گی ، بے شک اللہ غالب حکمت والا ہے'' [لقمان: 27]۔

س:
حل مشکلات کے لیے دعا و پکار کا مستحق کون ہے؟
ج:
حل مشکلات کے لیے دعا و پکار کا مستحق وہ ہے جو اس کائنات کا خالق اور رازق ہے جو نفع و نقصان کا مالک ہے ۔اور ان عظیم اختیارات کا مالک اللہ اکیلا ہے اس لیے مشکلات کو حل کرنے کے لیے صرف اللہ تعالیٰ ہی کو پکارنا چاہیے ۔

وَاِنْ یَّمْسَسْکَ اللّٰہُ بِضُرٍّ فَلاَ کَاشِفَ لَهٗۤ إِلاَّ ھُوَ وَاِنْ یُّرِدْکَ بِخَیْرٍ فَلاَ رَآدَّ لِفَضْلِہِ یُصِیْبُ بِہِ مَنْ یَّشَاء ُ مِنْ عِبَادِہِ وَھُوَ الْغَفُورُ الرَّحِیْمُ( یونس:107)
''اور اگر تم کو اللہ کوئی تکلیف پہنچائے تو بجز اس کے اور کوئی اس کو دور کرنے والا نہیں ہے اور اگر وہ تم کو کوئی خیر پہنچانا چاہے تو اس کے فضل کا کوئی ہٹانے والا نہیں 'وہ اپنا فضل اپنے بندوں میں سے جس پر چاہے نچھاور کردے اور وہ بڑی مغفرت بڑی رحمت والا ہے ۔''

مَا یَفْتَحِ اللَّہُ لِلنَّاسِ مِن رَّحْمَۃٍ فَلَا مُمْسِکَ لَہَا وَمَا یُمْسِکْ فَلَا مُرْسِلَ لَہُ مِنْۢ بَعْدِہِ وَھُوَ الْعَزِیْزُ الْحَکِیْمُ ۔یَا أَیُّہَا النَّاسُ اذْکُرُوْا نِعْمَتَ اللَّہِ عَلَيْكُمْ ھَلْ مِنْ خَالِقٍ غَیْرُ اللَّہِ یَرْزُقُکُم مِّنَ السَّمَآءِ وَالْاَرْضِ لَا اِلَہَ إِلَّا ھُوَ فَأَنَّی تُؤْفَکُونَ [فاطر:2,3]
''اللہ تعالیٰ جو رحمت لوگوں کے لیے کھول دے سو اس کا کوئی بند کرنے والا نہیں اور جس کو بند کردے سو اس کے بعد اس کا کوئی جاری کرنے والا نہیں اور وہی غالب حکمت والا ہے ۔لوگو! تم پر جو انعام اللہ نے کیے ہیں انہیں یاد کرو ،کیا اللہ کے سوا کوئی اور بھی خالق ہے جو تمہیں آسمان و زمین سے روزی پہنچائے ؟اس کے سوا کوئی معبود نہیں ۔پس تم کہاں الٹے جاتے ہو؟''
صرف اللہ اکیلا ہی انسان کو پہنچنے والے دکھ درد کو جانتا ہے اسی لیئے اللہ نے یہ حکم دیا ہے کہ مشکلات میں اس کو پکارا جائے ۔اللہ تعالیٰ فرماتا ہے :

{وَإِذَاسَأَلَکَ عِبَادِیْ عَنِّیْ فَإِنِّیْ قَرِیْبٌ اُجِیْبُ دَعْوَۃَ الدَّاعِ إِذَا دَعَانِ}۔[البقرۃ: 186]۔
''اور (اے رسول!) جب میرے بندے آپ سے میرے متعلق سوال کریں تو [آپ کہہ دیں] کہ میں بے شک قریب ہوں، جب کوئی پکارنے والا مجھ سے دعا کرتا ہے تو میں اس کی دعا قبول کرتا ہوں'
'
{وَادْعُوْہُ مُخْلِصِیْنَ لَہُ الدِّیْنَ}۔[الأعراف: 29]
''اور (اے لوگو!) دین کو خالص اللہ کے لیے مانتے ہوئے اللہ ہی کو پکارو''
یہ بھی فرمایا :

{ اُدْعُوْارَبَّکُمْ تَضَرُّعًا وَّ خُفْیَۃً}۔[الأعراف: 55]۔
''(لوگو!) اپنے رب سے عاجزی سے اور چپکے چپکے دعائیں مانگا کرو''

{وَأَنَّ الْمَسٰجِدَ لِلّٰہِ فَلا تَدْعُوْامَعَ اللّٰہِ أَحَدًا} [الجن:18]۔
'' اور بے شک تمام مسجدیں اللہ [کی عبادت] کے لیے ہیں لہذا اللہ کے ساتھ کسی کو نہ پکارو'' ۔
ان آیات سے واضح ہے کہ پکار صرف اللہ کے لیے ہے، کیونکہ :


[۱] مخلوق کی تکلیف کا علم اللہ ہی کو ہے، وہ تو دلوں کے راز تک جانتا ہے۔
[۲] مخلوق پر سب سے زیادہ مہربان (رحمٰن اور رحیم) اللہ کی ذات ہے۔
[۳]مخلوق کی تکلیف دور کرنے پر قادر اللہ ہی کی ذات ہے۔
پھر اس علیم، رحیم اور قدیر ذات کو چھوڑ کر کسی اور کو کیسے پکارا جا سکتا ہے؟

اسی لیے فرمایا :
{وَمَا النَّصْرُ إِلَّا مِنْ عِنْدِاللّٰہِ}۔''اور مدد تو اللہ ہی کی طرف سے ہے'' [الأنفال: 10]۔
 

عکرمہ

مشہور رکن
شمولیت
مارچ 27، 2012
پیغامات
658
ری ایکشن اسکور
1,870
پوائنٹ
157
س:
انبیاء و اولیاء اللہ کس کو پکارتے رہے ؟

ج : انبیاء علیہم السلام اور اولیاء اللہ براہ راست اللہ ہی کو پکارتے رہے، قرآن مجید میں انبیاء اور اولیاء اللہ کی دعائیں موجود ہیں، ان میں کسی کا وسیلہ یا واسطہ نہیں ہے۔
آدم علیہ السلام کی دعا :
{قَالَا رَبَّنَا ظَلَمْنَآ أَنْفُسَنَا وَإِنْ لَّمْ تَغْفِرْ لَنَا وَتَرْحَمْنَا لَنَکُوْنَنَّ مِنَ الْخٰسِرِیْنَ}۔[الأعراف: 23]۔''دونوں نے کہا اے ہمارے رب ہم نے اپنے آپ پر ظلم کیا اگر تو نے نہ بخشا اور رحم نہ کیا تو ہم تباہ ہو جائیں گے''
نوح علیہ السلام کی دعا :

{قَالَ رَبِّ انْصُرْنِیْ بِمَا کَذَّبُوْنِ} ۔ [المؤمنون: 39]۔
''کہا اے میرے رب انہوں نے مجھے جھٹلایا پس میری مدد کر''
رسول اکرم ﷺکی دعا:

{وَقُلْ رَّبِّ زِدْنِیْ عِلْماً} ۔ [طہ: 114]۔
''اور کہہ میرے رب میرے علم میں اضافہ فرما''
اصحاب کہف کی دعا:

{رَبَّنَآاٰتِنَامِنْ لَّدُنْکَ رَحْمَۃً وَّھَیِّئْی لَنَا مِنْ اَمْرِنَا رَشَدًا} [الکہف: 10]۔
''اے ہمارے رب ہم پر اپنے پاس سے رحمت نازل فرما اور ہمارے کام میں درستگی فرما '' ۔
اعراف والوں کی دعا :

{رَبَّنَالَا تَجْعَلْنَامَعَ الْقَوْمِ الظّٰلِمِیْنَ} ۔[الأعراف: 47]۔
''اے ہمارے رب ہمیں ظالم قوم کے ساتھ شامل نہ کرنا''
معلوم ہوا کہ انبیاء اور اولیاء اللہ نے جب بھی دعا کی براہ راست اللہ تعالیٰ سے کی، نہ کسی زندہ یا مردہ کا واسطہ دیا نہ نبی کا نہ فرشتے کا، پس ہمیں انہیں کے راستے پر چلنا ہے فرمایا :

{اُوْلٰٓئِکَ الَّذِیْنَ ھَدَی اللّٰہُ فَبِھُدٰھُمُ اقْتَدِہْ} ۔[الأنعام: 90]۔
''یہی وہ لوگ ہیں جن کو اللہ نے ہدایت دی پس ان کی سیرت کی پیروی کرو''

س:
کیا پکارنا عبادت ہے ؟
ج : نعمان بن بشیررضی اللہ عنہ سے روایت ہے رسول اللہﷺے فرمایا:
''إِنَّ الدُّعَآءَ ھُوَالْعِبَادَۃُ''۔
''بیشک دعا ہی عبادت ہے''۔
پھر آپ نے اس آیت کی تلاوت کی:

{وَقَالَ رَبُّکُمُ ادْعُوْنِیْ أَسْتَجِبْ لَکُمْ، إِنَّ الَّذِیْنَ یَسْتَکْبِرُوْنَ عَنْ عِبَادَتِیْ سَیَدْخُلُونَ جَہَنَّمَ دَاخِرِیْنَ} [المومن: 60]۔
''اور تمہارے رب نے کہا مجھے پکارو میں تمہاری دعائیں قبول کروں گا جو لوگ تکبر کر کے میری عبادت سے منہ موڑتے ہیں وہ ذلیل وخوار ہو کر ضرور جہنم میں داخل ہوں گے''۔[أبوداود: 1479، ترمذی: 2969]۔
جب پکارنا عبادت ہے اور عبادت صرف اللہ ہی کی جاتی ہے۔
 

عکرمہ

مشہور رکن
شمولیت
مارچ 27، 2012
پیغامات
658
ری ایکشن اسکور
1,870
پوائنٹ
157
توحید الاسماء والصفات

س:
توحید الاسماء والصفات سے کیا مراد ہے؟
ج :ا للہ تعالیٰ کے اسماء والصفات للہ تعالیٰ کا عظیم الشان تعارف ہے ۔ان صفات کے ذریعے اس کی پہچان ہوتی ہے ۔توحید اسماء والصفات اللہ کی ذات کو یکتا اور منفرد جاننے کا ہی دوسرا نام ہے :

{اللَّہُ لَا إِلَہَ إِلَّا ھُوَ لَہُ الْأَسْمَاءُ الْحُسْنَی}(طہٰ :۸)
''وہی اللہ ہے جس کے سوا کوئی معبود نہیں 'بہترین نام اسی کے ہیں''
(۱): اس کی صفات تک رسائی کا کوئی ذریعہ نہیں سوائے وحی کے ۔لہٰذا اللہ کی کتاب یا رسول اللہﷺ کی حدیث میں اللہ تعالیٰ کے لیئے جو اسماء وصفات ثابت ہیں ان کو قبول کیا جائے۔اللہ کی صفات میں اپنے گمان سے کچھ کہہ دینا اور بغیر تحقیق کے بولنا انسان کے گمراہ ہونے کی بنیاد ہے ۔ اللہ تعالیٰ کے ان سب اسماء وصفات کا اقرار کیا جائے جن سے اللہ تعالیٰ نے قرآن مجید میں اپنے آپ کو موصوف کیا مثلاً:
علیم (سب کچھ جاننے والا )قدیر (پوری طرح قدرت رکھنے والا )سمیع ( سب کچھ سننے والا )بصیر (خوب دیکھنے والا )الحی (زندہ رہنے والا )القیوم (نظام کائنات کو سنبھالنے والا )جسے نہ تو کبھی نیند آتی ہے نہ اونگھ۔رؤوف (بہت شفقت کرنے والا )اسی طرح ذات باری تعالیٰ ان صفات سے بھی متصف ہے ۔
عرش پر بلند


- {الرَّحْمَنُ عَلَی العَرْشِ اسْتَوَی}۔ '' رحمن عرش پر مستوی ہے '' [طہ: 5]۔
صفت کلام
- {وَکَلَّمَ اللّٰہُ مُوسَی تَکْلِیْما} [النساء: 164]۔
''اللہ تعالیٰ نے موسیٰ سے کلام کیا''
صفت ید

-{قَالَ یَا إِبْلِیْسُ مَا مَنَعَکَ أَنْ تَسْجُدَ لِمَا خَلَقْتُ بِیَدَیَّ} [ص: 75]۔
''فرمایا اے ابلیس! تجھے اسے سجدہ کرنے سے کس چیز نے منع کیا جس کو میں نے دونوں ہاتھوں سے بنایا۔''
یا جن اسماء اور صفات کا ذکر احادیث صحیحہ میں ہے مثلًا:
'' اللہ تعالیٰ آسمان دنیا پر نزول فرماتا ہے'' [صحیح مسلم: 758]۔
لہٰذا ایک مسلم پر لازم ہے کہ وہ اللہ تعالیٰ کے عرش پر مستوی ہونے، اللہ کے کلام کرنے، آسمان دنیا پر نزول اور دو ہاتھوں کا اقرار کرے۔اسی طرح اللہ تعالیٰ خوش ہوتا ہے، محبت کرتا ہے ،غضبناک ہوتا ہے اور ناراض بھی ہوتا ہے ان سب صفات پر ایمان لانا لازمی ہے ۔
۲۔ اللہ تعالیٰ کی صفات ایسی ہیں جو اس کے شایان شان ہیں۔

وَلَہُ الْمَثَلُ الْاَعْلٰى فِی السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضِ وَھُوَ الْعَزِیْزُ الْحَکِیْمُ (الروم: ۲۷)
''اسی کی بہترین اور اعلیٰ صفت ہے 'آسمانوں میں اور زمین میں بھی اور وہی غلبے والا حکمت والا ہے ''
۳۔ اللہ تعالیٰ کی ذات عظیم ترین صفات سے متصف ہے ۔اس کی صفات ذاتی ہیں ،کسبی نہیں ہیں۔وہ ہمیشہ سے ان صفات سے متصف ہے اور ہمیشہ ان صفات سے متصف رہے گا۔ ذات کو صفات سے علیحدہ کر دینے کا فلسفہ گمراہی ہے

{وَ لِلّٰهِ الْاَسْمَآءُ الْحُسْنٰى فَادْعُوْهُ بِہَا وَذَرُواْ الَّذِیْنَ یُلْحِدُونَ فِیْ اَسْمَآئِہِ سَیُجْزَوْنَ مَا کَانُواْ یَعْمَلُون}(الاعراف:۱۸۰)
''اور اچھے اچھے نام اللہ ہی کے لئے ہیں سو ان ناموں سے ہی اللہ کو پکارا کرو اور ایسے لوگوں سے تعلق بھی نہ رکھو جو اس کے ناموں میں کج روی کرتے ہیں ۔''
اس آیت میں اللہ تعالیٰ نے ان لوگوں پر وعید فرمائی ہے جو اس کے ناموں میں الحاد اور کجروی اختیار کرتے ہیں اس لیئے اللہ تعالیٰ کی اسماء اور صفات کو حقیقت پر محمول کرتے ہوئے کسی تکییف، تعطیل ،تمثیل اورتاویل کے بغیر ایمان لانا توحید الاسماء والصفات ہے۔
تکییف :
یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ کی صفات کی کیفیت بیان کی جائے۔اللہ کی ذات و صفات سے متعلق معانی کی حقیقت اور کیفیت کا علم اللہ نے اپنے لیئے خاص کر رکھا ہے ۔وہ سمیع ہے اور سننے کا مطلب ہے آواز کا ادراک کرنا لیکن اس کی کیفیت اورحقیقت کے علم کے بارے میں ہم کہتے ہیں کہ یہ صفات ایسی ہیں جو اس کے شایان شان ہیں اور اس کی کیفیت کا علم اللہ کے سوا کسی کو نہیں ۔
تمثیل :۔
یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ کی صفات کو مخلوق کی صفات کی مثل قرار دیا جائے۔یہ تمام اسماء اور صفات اس کمال کو پہنچی ہوئی ہیں جو صرف اللہ تعالیٰ ہی کے لائق ہیں، کسی مخلوق کے ساتھ اللہ تعالیٰ کی صفات کو تشبیہ نہیں دی جا سکتی، کیونکہ مخلوق خالق کی صفات کی کیفیت کو جاننے سے قاصر ہے، اللہ تعالیٰ فرماتا ہے :
{لَیْسَ کَمِثْلِہٖ شَیْ ٌ }۔
''[کائنات کی] کوئی چیز اس کی مثل نہیں'' [الشورٰی : 11]۔
تعطیل :
اللہ تعالیٰ کی صفات کے انکارکو تعطیل کہتے ہیں،مثلا اللہ تعالیٰ کو صفات سے عاری قرار دینا ۔
تحریف:
تحریف کا مطلب یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ کی صفات کا مفہوم بدل دیا جائے ،مثلا غضب الہٰی کے معنیٰ ارادہ انتقام کر لیے جائیں۔
تاویل :
آیات و احادیث کے ظاہری معنوں کو دوسرے مرادی معانی کی طرف پھیرنا تاویل کہلاتا ہے مثلًا اللہ کے عرش پر مستوی ہونے کا مطلب یہ بیان کیا جائے کہ اللہ عرش پر غالب ہے، ایسی تاویل کرنا جائز نہیں۔یقینا سلف صالحین یعنی صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین ،تابعین ' تبع تابعین اورمحدثین کرام رحمہم اللہ کا مسلک ہی حق ہے کہ اللہ تعالیٰ کی اسماء اور صفات کے حقیقی معانی پر ایمان لا کر بغیر کسی تاویل و تمثیل کے ان صفات کی کیفیت کو اللہ تعالیٰ پر چھوڑ دینا چاہیے۔
 

عکرمہ

مشہور رکن
شمولیت
مارچ 27، 2012
پیغامات
658
ری ایکشن اسکور
1,870
پوائنٹ
157
شرک

س: سب سے بڑا گناہ کون سا ہے ؟
ج :
عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے رسول اللہ ﷺنے فرمایا کہ ''سب سے بڑا گنا ہ یہ ہے کہ تو اللہ کے ساتھ کسی کو شریک کرے حالانکہ اس نے تجھے پیدا کیا'' [بخاری: 4477، مسلم: 86]۔
{إِنَّ الشِّرْکَ لَظُلْمٌ عَظِیْمٌ}۔
''بے شک شرک سب سے بڑا ظلم ہے'' [لقمان : 13]۔

س :
شرک کرنے کا نقصان کیا ہے؟
ج : اللہ تعالیٰ فرماتا ہے:

{اِنَّہُ مَنْ یُّشْرِکْ بِاللّٰہِ فَقَدْ حَرَّمَ اللّٰہُ عَلَیْہِ الْجَنَّۃَ وَمَاْوٰہُ النَّارُ وَمَا لِلظّٰلِمِیْنَ مِنْ اَنْصَارٍ}۔
''جس نے اللہ کے ساتھ کسی کو شریک ٹھہرایا، اللہ تعالیٰ نے اس پر جنت کو حرام کر دیا، اس کا ٹھکانا جہنم ہے اور ظالموں کا کوئی مدد گار نہ ہوگا'' [المائدہ : 72]۔
عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ سے روایت ہے رسول اللہ ﷺ فرماتے ہیں کہ ''جو کوئی اس حال میں مرے کہ وہ اللہ کے سوا کسی اور کو پکارتا ہو تو وہ جہنم میں داخل ہو گا'' [بخاری: 4497، مسلم: 92]۔

س:
کیا شرک کرنے والے کو اس کے نیک اعمال فائدہ دیں گے؟
ج : نیک اعمال (صدقہ، خیرات، نماز، روزہ، لوگوں سے حسن سلوک) عقیدہ شرک کی موجودگی میں بے کار ہو جاتے ہیں اور اللہ کے ہاں قابل قبول نہیں رہتے چنانچہ اللہ تعالیٰ نے ۱۸ جلیل القدر انبیاء کرام علیہم السلام کا نام لیا، ان کی تعریف فرمائی پھر قانون کی انتہائی بالادستی ان الفاظ میں بیان فرمائی:

{وَلَوْ أَشْرَکُوْالَحَبِطَ عَنْھُمْ مَّا کَانُوْا یَعْمَلُوْنَ}۔
''اور اگر [بفرض محال] ان لوگوں نے شرک کیا ہوتا تو ان کے بھی سب اعمال ضائع ہو جاتے'' [الأنعام: 88]۔
 

عکرمہ

مشہور رکن
شمولیت
مارچ 27، 2012
پیغامات
658
ری ایکشن اسکور
1,870
پوائنٹ
157
س:
کیا شرک کرنے سے آدمی کا اسلام جاتا رہتا ہے؟
ج : جس طرح کلام کرنے سے نماز ٹوٹ جاتی ہے، ہوا خارج کرنے سے وضو ٹوٹ جاتا ہے، جان بوجھ کر کھانے سے روزہ ٹوٹ جاتا ہے اسی طرح شرک کرنے سے آدمی کا اسلام جاتا رہتا ہے خواہ وہ خود کو مسلمان کہے، اس کے بعد آدمی کا ہر عمل خود بخود ضائع ہو جاتا ہے، اسے عقائد کی اصطلاح میں نواقض اسلام کہتے ہیں، اسلامی فقہ کی ہر کتاب میں باب المرتد موجود ہے یعنی وہ باتیں جو کسی کلمہ گو کو کافر کر دیتی ہیں۔

س:
کیا عامۃ الناس کو کافر سمجھا جائے گا؟
ج : کسی گمان اور قیاس پر کسی کو کافر نہ کہا جائے گا کیونکہ مسلمان کو کافر کہنے والا خود کافر ہوجاتا ہے،یہ کہنے میں تو کوئی خوف نہیں ہونا چاہیے کہ جو علی رضی اللہ عنہ کو مشکل کشا جان کر مشکلات میں امداد کے لیے پکارتا ہے وہ مشرک ہے مگر فرد معین [کسی آدمی کا نام لے کراس] پر فتویٰ لگانے میں احتیاط کی ضرورت ہے کیونکہ چار وجوہات کی بنا پر فتویٰ نہیں لگتا۔


[۱]تاویل : کوئی شخص اپنے فعل کی کوئی تاویل کرے۔
[۲] اکراہ : کوئی شرکیہ عمل اپنی جان بچانے کے خوف سے کرے۔
[۳] جہالت: کوئی شخص جاہل ہے تو فتویٰ سے پہلے اس کی جہالت دور کی جائے گی۔
[۴] بلا قصد : کسی شخص کی زبان سے بلا ارادہ شرکیہ یا کفریہ کلام نکلتا ہے، وہ دل سے اس بات کا قائل نہ ہو تو بھی اس پر فتویٰ نہیں لگتا۔

یہ چار وجوہات نہ ہوں اور واضح طور پر نواقض اسلام میں سے کسی ایک بات کا مرتکب ہو تو اس کو کافر کہا جائے گا، ورنہ فقہ اسلامی میں مرتد کا باب سرے سے نہ ہوتا۔ یہاں یہ ذکر بھی ضروری ہے کہ مفتی اور جید علماء ہی کسی کی جہالت دور کر کے اور تاویل کا رد کر کے اسے مرتد قرار دے سکتے ہیں، فرد معین پر فتویٰ لگانے کی ذمہ داری عوام پر نہیں ہے بلکہ مفتی اور قاضی پر ہے۔
 

عکرمہ

مشہور رکن
شمولیت
مارچ 27، 2012
پیغامات
658
ری ایکشن اسکور
1,870
پوائنٹ
157
س:
ایک مسلم کو سب سے زیادہ خوف کس بات کا ہونا چاہیے؟
ج:
چونکہ شرک سب سے بڑا گناہ ہے اور مشرک کی نجات نہیں ہے، اس لیے ایک مسلم کو سب سے زیادہ فکر اس بات کی ہونی چاہیے کہ کہیں وہ شرک میں مبتلا نہ ہو جائے، ابراہیم خلیل اللہ علیہ السلام دعا کرتے ہیں:

{وَاجْنُبْنِیْ وَ بَنِیَّ أَنْ نَّعْبُدَ الْأَصْنَامَ} ۔
''مجھے اور میری اولاد کو بتوں کی عبادت سے بچا'' [إبراہیم: 35]۔
سیدناابراہیم علیہ السلام کے اس قول کے بعد کون ہے جو شرک کی آزمائش سے بے خوف ہو سکتا ہے۔آپ اپنے اور اپنے بیٹوں کے لیئے شرک سے محفوظ رہنے کی دعا فرماتے ہیں حالانکہ آپ خود پیغمبر ہیں اور آپ کی اولاد میں بھی اللہ نے رسالت کے سلسلے کو باقی رکھا ۔اس کے باوجود آپ کا یہ دعا کرنا اس بات کی دلیل ہے کہ آپ کے دل میں شرک کا کس قدرخوف تھا۔ جب ایک نبی علیہ السلام شرک سے اس قدر خائف ہیں تو ہمارا کیا حال ہونا چاہیے ؟۔یقینا شرک کی آفت سے وہی شخص بے خوف ہو سکتا ہے جو اس کی سنگینی سے بے خبر ہو۔جب ہر نبی علیہ السلام طاغوت سے بچنے کی دعوت لے کر آئے ہیں تو ہمیں چاہیے کہ ہم طاغوت کو پہچانیں اور اس سے بچیں۔

س:
کیا لاَ إِلٰہَ إِلَّا اللّٰہُ مُحَمَّدٌ رَّسُوْلُ اللّٰہِ پڑھنے والا مشرک ہو سکتا ہے۔
ج:
ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں رسول اللہ ﷺنے فرمایا کہ ''تم یقینا اپنے سے پہلی امتوں کی پیروی کرو گے، اور پہلی امتوں سے آپ کی مراد یہود و نصاریٰ ہیں''۔[بخاری: 3456، مسلم: 2669]۔
جب یہود و نصاری میں شرک و کفر آیا تو اس حدیث کے مطابق اس امت میں بھی لوگ شرک و کفرکریں گے۔یہود و نصاریٰ کے متعلق اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ وہ طاغوت پر ایمان لاتے تھے اور طاغوت کی بندگی کرتے تھے:

{اَلَمْ تَرَ إِلَی الَّذِیْنَ اُوْتُوْا نَصِیْبًا مِّنَ الْکِتٰبِ یُؤْمِنُوْنَ بِالْجِبْتِ وَالطَّاغُوْتِ}۔
''کیا تو نے اہل کتاب کو نہیں دیکھا کہ وہ بت اور طاغوت پر ایمان لاتے ہیں'' [النساء: 51]۔
ثوبان رضی اللہ عنہ سے روایت ہے رسول اللہ ﷺنے فرمایا کہ :
''قیامت اس وقت تک قائم نہ ہو گی جب تک میری امت کی ایک جماعت مشرکوں سے نہ جا ملے اور میری امت کے بہت سے لوگ بت پرستی نہ کریں'' [ترمذی: 2219، برقانی نے صحیح کہا]۔

س:
کیا قبر پرستی کو بت پرستی کہا جا سکتاہے؟
ج :
جب کسی قبر کی پوجا ہو گی تو اس کو بت پرستی کہا جائے گا، کیونکہ رسول اللہﷺ نے فرمایا:
''اے اللہ میری قبر کو بت نہ بنانا جس کی پوجا کی جائے، اللہ تعالیٰ کا اس قوم پر سخت غضب نازل ہوتا ہے جو اپنے نبیوں کی قبروں کو عبادت گاہ بنا لیتی ہیں'' [موطا امام مالک]۔
عائشہ رضی اللہ عنہافرماتی ہیں کہ آپﷺنے آخر وقت میں فرمایا تھا:
''یہود و نصاریٰ پر اللہ کی لعنت ہو، انہوں نے اپنے انبیاء کی قبروں کو سجدہ گاہ بنا لیا '' ۔ اگر اس بات کا خوف نہ ہوتا کہ محمد ﷺکی قبر کو بھی سجدہ گاہ بنا لیا جائے گا تو آپ کو بند حجرہ میں دفن نہ کیا جاتا اور آپ کی قبر بھی کھلی ہوتی [بخاری : 1390، مسلم: 529]۔
 

عکرمہ

مشہور رکن
شمولیت
مارچ 27، 2012
پیغامات
658
ری ایکشن اسکور
1,870
پوائنٹ
157
شرک پھیلنے کی اہم وجہ اولیاء اللہ سے محبت میں غلو

س:
معاشرے میں شرک کیسے پھیلتا ہے؟
ج : شرک پھیلنے کی ایک اہم وجہ یہ ہے کہ شیطان اولیاء اللہ سے محبت کو آڑ بنا کر غلو کرواتا ہے، قوم نوح کو دیکھئے، عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں کہ:
''ود، سواع، یغوث، یعوق اور نسر، نوح (علیہم السلام) قوم کے صالحین تھے'' [بخاری: 4920]۔
اللہ نے ان کے تقویٰ کی بدولت انہیں لوگوں کا محبوب بنا دیا، ملعون شیطان نے اولیاء اللہ سے محبت کا رخ اندھی عقیدت کی طرف موڑ دیا اور لوگ ان کی عبادت کرنے لگ گئے، جب نوح( علیہ السلام) ان لوگوں کو ڈرانے کے لیے بھیجے گئے تو قوم کے سرداروں کے پاس سب سے کارگر حربہ یہی تھا کہ یہ نبی تمہیں تمہارے بزرگوں سے باغی کرنے آیا ہے:

{وَقَالُوْالَا تَذَرُنَّ اٰلِھَتَکُمْ وَلَا تَذَرُنَّ وَدًّا وَّلَا سُوَاعًا وَّلَا یَغُوْثَ وَ یَعُوْق وَ نَسْرًا}۔
''اور انہوں نے کہا کہ تم اپنے معبودوں کو ہرگز نہ چھوڑنا اور ود، سواع، یغوث، یعوق اور نسر کو کبھی نہ چھوڑنا'' [نوح : 23]۔
شیطان نے یہ حربہ ہر قوم میں استعمال کیا اور انبیاء کو یہی جواب ملا:

{ اِنَّا وَجَدْنَاۤ اٰبَآءَنَا عَلٰۤى اُمَّةٍ وَّ اِنَّا عَلٰۤى اٰثٰرِهِمْ مُّقْتَدُوْنَ }۔
''ہم نے اپنے باپ دادا کو ایک راہ پر پایا ہے اور ہم قدم بقدم ان ہی کے پیچھے چل رہے ہیں'' [الزخرف: 23]۔
معلوم ہوا کہ انسانوں کا انبوہ کثیر اپنے بڑوں کی اندھی محبت میں جہنم رسید ہوا اور جو راستہ انہوں نے بزرگوں کا سمجھ کر اختیار کیا تھا حقیقتاً وہ شیطان کا راستہ تھا۔

س:
کیا شیطان نے یہ داؤ امت محمدیہ کے ساتھ بھی کھیلا؟
ج :
شیطان نے امت محمدیہ پر بھی اس کا بھرپور وار کیا، اس نے انتہائی خطرناک انداز میں جھوٹ کو احادیث رسول بنانے کی کوشش کی، امام مسلم رحمہ اللہ فرماتے ہیں ہم نے صالحین سے بڑھ کر جھوٹ بولنے والا کسی کو نہیں پایا، یہ جھوٹ کا ارادہ نہ بھی کریں تو بھی جھوٹ بے ساختہ ان کی زبانوں پر جاری ہو جاتا ہے [مقدمہ صحیح مسلم]۔
(صالحین اس زمانے میں صوفی قسم کے لوگوں کو کہا جاتا تھا)
معلوم ہوا کہ پھر شیطان نے اپنا کام ان لوگوں سے کروانے کی کوشش کی جو صالحین کے پیارے نام سے پکارے جاتے تھے مگر ان کے مقابلے میں اللہ کے مخلص بندے محدثین اٹھے اور انہوں نے برملا ان راویوں کو کذاب' دجال اور وضاع کے القاب سے نوازا جنہوں نے رسول اللہ ﷺپر جھوٹ باندھا تھا۔
شیطان کا یہ وار آج بھی جاری ہے بہت سے شرکیہ نظریات اس لیے اسلامی قرار دیئے جا رہے ہیں کہ ان کی نسبت ان لوگوں کے ساتھ ہے جو پاک و ہند میں مشاہیر امت کے طور پر مشہور ہیں، ان مشرکانہ نظریات کو ان ہستیوں سے علیحدہ کردیا جائے تو ان کا انکار کرنے والوں کی یہاں کمی نہیں مگر جونہی یہ نظریات ان شخصیات کے نام پر سامنے آتے ہیں تو کئی ایک توحید کے دعویدار بھی انتہائی بودی تاویلات کا سہارا لے کر ان باطل نظریات کی تائید کرنا شروع کر دیتے ہیں۔

س:
شیطان کے اس وار سے بچنے کے لیے قرآن و سنت نے ہماری کیسے تربیت فرمائی؟
ج :
شرک کی تردید میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے :

{إِنَّ اللّٰہَ لَا یَغْفِرُ أَنْ یُّشْرَکَ بِہٖ وَ یَغْفِرُمَادُوْنَ ذٰلِکَ لِمَنْ یَّشَآءُ}۔[النساء: 48]۔
''بے شک اللہ تعالیٰ اس بات کو معاف نہیں فرمائے گا کہ اس کے ساتھ کسی کو شریک کیا جائے اور اس کے علاوہ باقی گناہ جس کے لیے چاہے گا معاف کر دے گا''
ایسی بہت سی آیات شرک کی تردید میں کافی تھیں مگر اس شیطانی وار سے بچنے کے لیے ہماری نظریاتی مشق یوں کروائی گئی کہ سید البشر' امام الانبیاء محمدﷺ پر یہ وحی کی :

{لَئِنْ أَشْرَکْتَ لَیَحْبَطَنَّ عَمَلُکَ وَلَتَکُوْنَنَّ مِنَ الْخٰسِرِیْنَ} [الزمر: 65]۔
''اگر آپ نے شرک کیا تو آپ کے اعمال بھی ضائع ہو جائیں گے اور آپ خسارہ پانے والوں میں سے ہو جائیں گے''
محمد رسول اللہﷺرحمۃ للعالمین ہیں، یہ ممکن ہی نہیں کہ آپ اللہ کی نافرمانی کریں مگر چونکہ انسانوں کی اکثریت اپنے بزرگوں کی اندھی محبت میں جہنم رسید ہوئی اس لیے قانون کی انتہائی بالادستی بیان کر دی گئی تاکہ لوگوں کو پتہ چل جائے کہ کسی بھی شخصیت کی وجہ سے اللہ کی نافرمانی فرمانبرداری نہیں کہلوا سکتی،ایک دفعہ سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہماسے کسی نے چند مسئلے پوچھے تو آپ نے سیدنا علی رضی اللہ عنہ کے فیصلے منگوائے، ان فیصلوں کو پڑھ کر سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما فرمانے لگے کہ سیدنا علی رضی اللہ عنہ نے یہ فیصلے نہیں کیے اگر وہ ایسا کرتے تو بھٹک جاتے [مقدمہ صحیح مسلم]۔
کیا یہ کہہ دینا کافی نہ تھا کہ سیدناعلی رضی اللہ عنہ نے یہ فیصلے نہیں کیے مگر سبائی فتنے نے سیدنا علی رضی اللہ عنہ کے ساتھ مسلمانوں کی محبت کو غلو میں بدل کر بہت سا جھوٹ اور بد عقیدگی اسلام میں داخل کرنے کی کوشش کی، سیدناابن عباس رضی اللہ عنہما مفسر قرآن اور رسول اللہ ﷺکے تربیت یافتہ تھے، غالبًا انہوں نے ایسا اس لیے فرمایاکہ جو سیدنا علی رضی اللہ عنہ سے اللہ کی طرح محبت کرنے لگ گیا ہے وہ سن لے کہ علی رضی اللہ عنہ بھی اللہ کی مخلوق ہیں بفرض محال اگر علی رضی اللہ عنہ اللہ کی نافرمانی کرتے تو وہ بھی گمراہ ہو جاتے، نافرمانی ان کے لیے فرمانبرداری نہیں کہلوا سکتی، دوسرا یہ بھی معلوم ہوا کہ کوئی بھی شریعت سے آزاد نہیں ہوسکتا چاہے ولی ہو یا نبی!

س:
کیا قیامت کے دن لوگوں کا یہ عذر قبول کیا جائے گا کہ انہوں نے اپنے بزرگوں کی پیروی کی تھی؟
ج:
اللہ تعالیٰ فرماتا ہے :

{وَ اِذْ اَخَذَ رَبُّكَ مِنْۢ بَنِيْۤ اٰدَمَ مِنْ ظُهُوْرِهِمْ ذُرِّيَّتَهُمْ وَ اَشْهَدَهُمْ عَلٰۤى اَنْفُسِهِمْ اَلَسْتُ بِرَبِّكُمْ قَالُوْا بَلٰی شَھِدْنَااَنْ تَقُوْلُوْایَوْمَ الْقِیٰمَۃِ إِنَّاکُنَّاعَنْ ھٰذَاغٰفِلِیْنَ۔۔اَوْ تَقُوْلُوْۤا اِنَّمَاۤ اَشْرَكَ اٰبَآؤُنَا مِنْ قَبْلُ وَکُنَّاذُرِّیَّۃً مِن بَعْدِھِمْ أَفَتُھْلِکُنَا بِمَا فَعَلَ الْمُبْطِلُوْنَ}۔
'' اور جب تمہارے رب نے بنی آدم کی پشت سے اس کی اولاد نکالی اور انہیں خود ان پر گواہ بنایا [یعنی ان سے پوچھا کہ] کیا میں تمہارا رب نہیں ہوں، وہ کہنے لگے کیوں نہیں ہم گواہ ہیں [کہ تو ہمارا پروردگار ہے] [ یہ اقرار ہم نے اس لیے کرایا تھا تاکہ] تم لوگ قیامت کے دن [یوں نہ] کہنے لگو کہ ہم تو اس [توحید] سے بالکل بے خبر تھے یا یوں کہنے لگو کہ شرک تو ہمارے بڑوں نے کیا تھا اور ہم تو ان کی اولاد تھے جو ان کے بعد [پیدا ہوئے] تو کیا جو کام اہل باطل کرتے رہے تو اس کے بدلے ہمیں ہلاک کرے گا'' [الأعراف :173'172]۔
معلوم ہوا کہ قیامت کے دن غفلت اور بزرگوں کی پیروی کا عذر قبول نہ کیا جائے گا۔
 
Top