لیکن معنی کے لحاظ سے تو قاتلا فاعل بنے گا نا؟مارنے والا اور یہ تو فاعل ہی ہے اور مقتول بر وزن مفعول کے ہے تو یہ مفعول ہوگا نا؟
جزاک اللہ بہنا آپ کو سٹیپ بائی سٹپ دوسرے طریقے سے سمجھاتا ہوں
1-
فاعل کا معنی ہوتا ہے کام کرنے والا
2-کسی جملہ میں جو بھی کام آتا ہے اسکا ایک کرنے والا ہوتا ہے یعنی ہر کام کا علیحدہ فاعل ہوتا ہے
3-آپ ذرا غور کریں کہ اوپر جملے میں کتنے مادے کام کے لئے آئے ہیں
4-ایک ضرب (مارنا) کا مادہ ہے یہ بطور فعل استعمال ہوا ہے
5-دوسرا قتل (قتل کرنا) کا مادہ ہے یہ بطور اسم استعمال ہوا ہے (تفصیل آگے پڑھیں گے)
6-اب مارنا کا بھی ایک فاعل ہو گا یعنی مارنے کا کام کس نے کیا
7-اسی طرح قتل کا بھی ایک فاعل ہو گا یعنی قتل کرنے کا کام کس نے کیا
اب آپ کے اعتراض کو دیکھتے ہیں کہ
مارنے والا اور یہ تو فاعل ہی ہے اور مقتول بر وزن مفعول کے ہے تو یہ مفعول ہوگا نا؟
بہنا جب ہم اکیلا ترجمہ کریں گے تو اکیلے قاتل اور اکیلے مقتول کو دیکھیں گے
پس قاتل (مارنے والا) بے شک فاعل ہے مگر اسکا فعل قتل کرنا ہے اور مقتول بے شک مفعول ہے مگر اسکا فعل بھی قتل کرنا ہے
دوسرے مرحلے میں جب الفاظ کو ملائیں گے تو ضرب بھی تو ایک فعل پڑا ہے اسکا فاعل کہاں سے آئے گا تو چونکہ اب ہم ملانے کا کام کر رہے ہیں جس میں نحو استعمال ہوتی ہے تو سبق کی حد تک رہتے ہوئے ہم کہیں گے کہ اسکا مارنے کے کام کا فاعل وہ ہو گا جس پر پیش ہے پس پیش کے لحاظ سے مقتول فاعل بن جائے گا اور زبر کی وجہ سے قاتل مفعول بن جائے گا
یہی بات میں نے اوپر سمجھائی ہے کہ جس کا فاعل ہونا سانچے سے پتا چلے وہ صرف کا اسم فاعل ہوتا ہے اور جس کا پتا سانچے کی بجائے آخری حرکت سے چلے وہ نحو کا فاعل ہوتا ہے (تفصیل اگلے اسباق میں آ جائے گی)
اسکو دوسری مثال سے دیکھتے ہیں
ضرب زیدُُ سعیداََ
یہاں ایک ہی فعل ہے یعنی مارنا تویہاں مارنے کا فاعل کون بنے گا
قتل داودُ جالوتَ
یہاں بھی ایک ہی فعل آ رہا ہے یعنی قتل کرنا تو قتل کرنے کا فاعل کون بنے گا
اسی طرح میں جملہ بدلتا ہوں
قتل ضاربُُ مضروباََ
اب یہاں دو فعل نظر آ رہے ہیں تو یہاں قتل کا فاعل کون بنے گا اور ضرب یعنی مارنے کا فاعل کون بنے گا
آپ ذرا ان کے جوابات دیکھ لیں تاکہ مزید سمجھا سکوں جزاک اللہ خیرا