• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

تسبیح کی شرعی حیثیت اور شیخ البانی پر اعتراضات!

شمولیت
مئی 01، 2014
پیغامات
257
ری ایکشن اسکور
68
پوائنٹ
77
محترمی ومکرمی
ان سوالات میں نہ سمجھنے والی کونسی بات ھے.
ایک طرف حال یہ ھے کہ آپ زیر بحث روایت کی سند کے ھوتے ھوئے بہی تحقیق کے بغیر اسکو قبول کرنے کے لئے تیا نہیں
اور دوسری طرف آپ ایسی بات کو دلیلا پیش فرمارہے ھیں جسکو اولا تو ابن حجر ایک حکایت کہکر رد کردیا ھے.
ثانیا اگر سند ھوتی بھی تو ابن حجر ضرور اس پر کچھ خامہ فرسائی کرتے.
تو ایسی بات پر آپ کیسے اعتماد کر رھے ھیں؟
ابن حزم نے ایک ت جو خود الفاظ کہے ہیں وہ بھی بیان کریں.
اور دوسرا ابن حزم سے ابن معین اور امام احمد تک سند بیان کریں.
امام اثرم کی امام احمد سے روایت کا اردو میں ترجمہ کریں.
اس میں کونسی بات ھے جو آپ کو سمجھ نہیں آرھی.
 

رضا میاں

سینئر رکن
شمولیت
مارچ 11، 2011
پیغامات
1,557
ری ایکشن اسکور
3,581
پوائنٹ
384
جب راوی موجود ہے تو اسکو یہ کہنا کہ وہ صحیح نہیں۔۔۔۔۔ یہ صحیح نہیں کیونکہ راوی بیان تو کرتا ہہے نا وہ الگ بات ہے کہ دونوں میں سے صحیح کیا ہے۔۔۔۔
یہ کہنا کہ وہ صحیح نہیں۔۔۔۔۔ یہ صحیح نہیں۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ وہ الگ بات ہے کہ دونوں میں سے صحیح کیا ہے


اس بات کی وضاحت مطلوب ہے واضح نہیں ہوئی یہ بات۔۔۔۔۔۔
بھائی عبد اللہ بن ابی موسی جس کا ترجمہ آپ کو نہیں ملا اس کا صحیح نام دراصل "ابو عبد اللہ بن ابی موسی" ہے اور یہ وہی احمد بن عیسی المصری ہے جس کو آپ نے ایک الگ راوی کے طور پر لکھا ہے۔ مسند سعد میں غالبا ناسخ کی غلطی سے لفظ "ابو " چھوٹ گیا ہے ورنہ دورقی کے اساتذہ میں صحیح نام "ابو عبد اللہ بن ابی موسی" لکھا ہوا ہے اور اسی طرح ابن وہب سے تلامذہ میں بھی "ابو عبد اللہ" ہے۔ مزید یہ کہ بیہقی نے یہ روایت "احمد بن عیسی المصری" سے روایت کی ہے جو وہی "ابو عبد اللہ بن ابی موسی" ہے۔ اس سے پتہ چلتا ہے کہ مسند سعد میں غلطی ہے جبکہ وہاں "ابو عبد اللہ" آنا چاہیے نہ کہ "عبد اللہ"۔


امام احمد نے اور اسکے علاوہ بقول امام ابن حزم کے یحیی (بن معین) نے اور خود امام ابن حزم نے انکو مختلط کہا ہے۔۔
لیکن میرے خیال میں انکا اختلاط عام روات والا نہیں بلکہ بہت کم ہے اور ایسی مختلف فیہ روایات میں یہ کام آئے گا ہر وقت یا ہر روایت میں نہیں جیسا کہ اوپر مذکور الفصل میں بھی امام ابن حزم نے ایک مثال پیش کی ہے۔ واللہ اعلم
اس کا جواب دے دیا گیا ہے۔ امام ابن حزم نے انہیں مختلط نہیں کہا بلکہ انہوں نے امام احمد کے قول سے حجت پکڑی ہے اس کو لیس بالقوی کہنے میں نہ کہ مختلط کہنے میں! اس سے بھی پتہ چلتا ہے کہ امام احمد کا قول اصطلاحی اختلاط پر مبنی نہیں ہے۔ مزید یہ کہ معجم المختلطین کے مصنف فرماتے ہیں:
" قلت وقول أحمد 'يخلط في الأحاديث' يعني أنه يخطي في الأحاديث، ولا يقصد أحمد وصفه بالإختلاط الإصطلاحي، فلا ينبغي التفريق بين حديث سعيد بن أبي هلال الذي حدث به في أول عمره وحديثه الذي حدث به آخر عمره، والله اعلم۔" (ص 143)
 
شمولیت
مئی 01، 2014
پیغامات
257
ری ایکشن اسکور
68
پوائنٹ
77
محترمی امام احمد نے "لیس بالقوی "کے الفاظ کہان فرمائے ہیں؟
 

محمد وقاص گل

سینئر رکن
شمولیت
اپریل 23، 2013
پیغامات
1,033
ری ایکشن اسکور
1,711
پوائنٹ
310
اور دوسری طرف آپ ایسی بات کو دلیلا پیش فرمارہے ھیں جسکو اولا تو ابن حجر ایک حکایت کہکر رد کردیا ھے.
کہاں رد کیا ہے؟؟

ابن حزم نے ایک ت جو خود الفاظ کہے ہیں وہ بھی بیان کریں.
اسی تھریڈ میں حوالے کے ساتھ مذکور ہیں۔۔۔

اور دوسرا ابن حزم سے ابن معین اور امام احمد تک سند بیان کریں.
محترم میں نے آپ کو پہلے بھی کہا ہے کہ امام ابن حزم نے ساجی سے بیان کیا ہے اور میں نے یہ بھی کہا ہے کہ ساجی کی کوئی کتاب موجود نہیں ہے جس سے ہمیں پتہ چل سکے۔۔ اور پھر اسکے بدلے میں میں نے امام اثرم کا قول انکی ہی کتاب جس میں انکے سوالات ہیں امام احمد سے وہاں سے ذکر کیا ہے۔ پھر اب کس چیز کی سند دوں؟؟

امام اثرم کی امام احمد سے روایت کا اردو میں ترجمہ کریں.
اسکی وضاحت رضا بھائی نے کر دی ہے میں ان سے اتفاق کرتا ہوں۔۔۔
 

علی بہرام

مشہور رکن
شمولیت
ستمبر 18، 2013
پیغامات
1,216
ری ایکشن اسکور
162
پوائنٹ
105
بہر صورت اس بارے میں تو کوئی اختلاف نہیں کہ افضل طریقہ ’’ انگلیوں پر گننا ‘‘ ہی ہے ۔ اگر کسی کے نزدیک اس کے علاوہ دیگر طریقے جائز بھی ہیں تو پھر بھی افضل پر عمل کرنا چاہیے ۔
http://majles.alukah.net/t58049/
جو چاہے آپ کا حسن کرشمہ ساز کرے
جب یہی بات نماز تراویح کے بارے کہی جاتی ہے کہ نماز تراویح کا اپنے گھر میں پڑھنا افضل ہے کیونکہ اس کا حکم رسول اللہﷺ دیا ہے تو اس وقت یہ اصول کیوں یاد نہیں رہتا ؟؟؟؟
 
شمولیت
مئی 01، 2014
پیغامات
257
ری ایکشن اسکور
68
پوائنٹ
77
۱
محترمی سعید کے بارے میں ابن حجر فرماتے ھیں کہ وہ صدوق ھے ابن حزم نے اسکی جو تضعیف کی ھے سلف میں سے کسی سے مجھے معلوم نہیں.البتہ ساجی نے امام احمد سے اسکے اختلاط کی حکایت کی ھے...التقریب .ابن حجر نے یہ بات واضح کردی کہ سلف نے اسکی تضعیف نہیں کی حالانکہ ساجی کی حکایت انکے سامنے تھی لیکن پہلے سعید کی توثیق ذکر کی جو اس بات کی دلیل ھے کہ انکے نزدیک اس بات کی کوئی اھمیت نہیں تھی.
میں پھلے کہچکا ھوں کہ ابن حجر نے ساجی کی اس بات کو حکایت کہا ھے.اور یہ بغیر سند کےتھی.اور اگر سند بھی ھوتی اور صحیح بھی ھوتی تو ابن حجر یہ فرماتے: صدوق اختلط.
حالانکہ انہوں نے پہلے توثیق ذکر کی پھر ساجی کی بات کو حکایت کہکر کمزور کردیا.
میرے محترم اگر اسکی سند بھی ھو تی تو بھی اتنا کافی نہیں جب تک تحقیق نہ کی جائے.آپ تو یہ فرمادیتے ھیں کہ وہ کتا ب ھے ہی نھیں تو تحقیق کیسے ھو.
تو آپ ہی بتائیں میں بھی آپ ہی کی طرح ایسی بات بیان کروں تو کیا آپ اس پرخاموش رہیںگے؟
حقیقت یہ ھے آپکی اس بات پرکوئی بھی محقق آپ سے موافقت نہیں کریگا.

۲

تو کیا لیس بالقوی سے اختلاط مراد ھے؟


۳

میں نے باربار ابن حزم سے ابن معین اور امام احمد تک اختلاط والی بات کی سند پوچھی لیکن افسوس اس بات کا ھے کہ آپ جیسے اھل علم کو اسکی کیوں سمجھ نہیں آرھی؟

۴
یعنی آپنے رجوع کرلیا؟

۵
اب آپ بتائیں سعید مختلط ھیں؟
۶
ملاقات کی شرائط بیان کریں.
 

محمد وقاص گل

سینئر رکن
شمولیت
اپریل 23، 2013
پیغامات
1,033
ری ایکشن اسکور
1,711
پوائنٹ
310
میں نے سعید کو ضعیف نہیں کہا۔یہ آپ کی غلط فہمی ہے۔۔
اور ابن حجر رحمہ اللہ نے جس طرح ابن حزم کا ضعیف کہنے میں رد کیا اس طرح اختلاط والی بات کا بھی رد کر سکتے تھے لیکن نہیں کیا۔۔ جس سے پتہ چلتا ہے کہ کچھ نا کچھ ہے۔۔۔

رہی بات سند والی تو محترم شیخ میں آپ کی قدر کرتا ہوں لیکن آپ کا یہ سوال انتہائی عجیب ہے اور بے مقصد ہے۔۔ آپ مجھے یہ بتائیں امام اثرم کون ہیں اور کیا انکے سوالات جو انہوں نے امام احمد سے کئے وہ موجود نہیں؟؟ میں نے ایک سے زائد دفعہ امام اثرم کا حوالہ دیا ہے جس کو آپ نظر انداز کر رہے ہیں۔۔۔
 
شمولیت
مئی 01، 2014
پیغامات
257
ری ایکشن اسکور
68
پوائنٹ
77
محترمی ومکرمی
میں نے آپ سے ۶ سوالات کئے تھے۔آپ نے دو پر گفتگو فرمائے باقی سے سکوت چہ معنی دار؟
۱آپ اوبر میری تمام تحریریں دیکھں میں نے آپ سے کہیں امام اثرم سے امام احمد تک والی سند کا مطالبہ نھیں کیا۔
غورآپنے نھیں کیا میری بات پر الزام مجھے دے رھے ھیں۔
اختلاط سعید۔
آپکے نزدیک اگر سعید مختلط ھے تو آپنے اوپر یہ کیوں فرمایا کہ اسکی تمام روایات رد نھیں کی جائیںگی۔بلکہ جہاں غلطی یا وھم یا مخالفت ثابت ھوجائے۔
تو آپکی اس بات کی بنیا د کیا ھے؟
حالانکہ مختلط تو وہ راوی ھوتا ھے جسکا بہت حافظہ بگڑا ھوا ھو۔
۲
جس مختلط کا یہ معلوم نہ ھو کہ اسکے اختلاط سے قبل والی روایات کونسی ھیں اور بعد والی کونسی یعنی تمیز نہ رھے۔اسکی تمام روایات رد کی جاتی ھیں۔تو سعید کی روایات کے متعلق کیا فرمئیںگے۔
حالانکہ آج تک کس بھی امام نے سعید کے اختلاط کی وجہ سے حدیث کو ضعیف نھیں کہا۔
جب کہ اسکے برعکس اسکی روایات پر تصحیح کا حکم موجود ھے۔
۳
کسی ناقابل حجت بات کو کمزور کرنے کے لئے اتنا ھی کا فی ھے کہ اسکو بیان کرکے اسی طرح چھوڑدیا جائے۔ساجی کی بات کو جب ابن حجر بے حکایت کہکر اسکو چھوڑدیا تو اس حکایت کو کمزور کرنے کے لئے اتنا ھی کافی ھے۔خصوصا ابن حجر سے اسکی روایات کی تحسین بھی موجود ھے۔اگر ساجی کی حکایت کو وہ صحیح سمجھرھے ھوتے تو کیا اسکی روایت کی تحسین کرتے؟
۴
یہ احتمال ہے کہ ساجی نے امام احمد کے وھی الفاظ بیان کئے ھوں جو امام اثرم نے امام احمد سے بیان کئے ھیں لیکن ابن حجر نے اس سے اختلاط سمجھا ھو۔
۵
یا ساجی نے ھی اسی طرح بیان کیا ھو۔
۶
یا جو ساجی اور امام احمد کے درمیان واسطہ ھو اسنے اس طرح بیان کئے ھوں۔بہرحال جو بھی ھو ابن حجر کے نزدیک اس حکایت کی کوئی قیمت نہیں تھی اس لئے اسکی احادیث کی تحسین کی ھے۔
۷
ایک طرف امام احمد سے بواسطہ امام اثرم سعید کے متعلق پختہ بات "یخلط فی الاحادیث "
موجود ھے جس سے اختلاط مراد نھیں جیسا کہ آپ بھی رجوع فرما چکے ھیں۔اور ایک طرف وہ بات ھے جسکا ھمیں کچہ بھی علم نہیں
کیا آپکے لئے مناسب ھے کہ مضبوط بات کے مقابلے ایک کمزور اور نا قابل حجت بات کو اھمیت دیں۔واللہ باللہ تاللہ یہ بات تحقیق سے بہت دور ھے۔
۸
محترم امام اثرم کی میں نے سند نہیں پوچھی بلکہ اس نے امام احمد سے جو بات نقل کی تھی جس سے آپ اختلاط مراد لے رھے تھے اسکا ترجمہ کرنے کو کہا تھا کہ تاکہ آپکو ترجمہ سے پتہ چل جائے کہ اس سے اختلاط مراد نھیں۔اب آپ میری عبارات کو غور سے نھیں پڑہیںگے تو اس میں میرا تو کو قصور نہیں۔
اور میں نے یہ کب کہا ھے ک آپ نے سعید کو ضعیف کہا ھے۔میں نے تو ابن حزم کی بات کی تھی۔
۹
آپ بتا دیں کہ اسکے بعد آپکے نزدیک سعید مختلط رھا؟ اور اسکی بھی وضاحت فرمادیں کہ آپ اسکو مختلط کہنے کے باوجود بھی اس سے مختلط جیسا سلوک نہیں کرتے۔
میرے محترم کیا جسکا وھم یا مخالفت وغیرہ ثابت ھوجائے وہ مختلط ھوتا ھے؟
یہ میں پہلی دفعہ آپ سے سن رہا ھوں۔اگر ایسا ھے تو پھر کون وھم اور مخالفت سے بچا ھے۔
امید ھے آپ میرے تمام جوابات دیکر مطمئن فرمائینگے۔
 
Top