• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

تصوف اور اس کی حقیقت

کلیم حیدر

ناظم خاص
رکن انتظامیہ
شمولیت
فروری 14، 2011
پیغامات
9,748
ری ایکشن اسکور
26,379
پوائنٹ
995
جیلی کا دعوی ربوبیت
قرآن مجیدمیں اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے:
{وَﷲِ مُلْکُ السَّمٰوَاتِ وَالأَرْضِ وَاﷲُ عَلَی کُلِّ شَیْئٍ قَدِیْرٌ}
’’زمین وآسمان کی بادشاہی اللہ ہی کے لیے ہے اور اللہ تعالیٰ ہر چیز پر قادر ہیں۔‘‘[ آل عمران:۱۸۹]
جیلی کہتا ہے:

لی الملک فی الدارین لم أر فیہما
سوای فأرجو فضله أو فأخشاہ

’’دونوں عالم میں میری حکمرانی ہے ان دونوں عالم میں،میں نے اپنی ذات کے سوا کچھ نہیں دیکھا۔لہذا میں اپنی ہی ذات سے فضل وکرم کا طلب گار ہوں اور اسی سے ڈرتا ہوں۔
وقد حضرت أنواع الکمال وإننی
جمال جلال الکل ما أنا إلا ہو
’’کمال کے جمیع مراتب میں نے طے کر لیے اور میں اس(اللہ)کی تمام جلالت وجبروت کا جمال ہوں،میں کچھ نہیں ہوں مگر وہی(اللہ)۔‘‘[ ہذہ ہی الصوفیۃازعبدالرحمن وکیل(ترجمہ:نقی ندوی)ص:۴۸]
 

کلیم حیدر

ناظم خاص
رکن انتظامیہ
شمولیت
فروری 14، 2011
پیغامات
9,748
ری ایکشن اسکور
26,379
پوائنٹ
995
ابو حمزہ کا عقیدہ حلول
ابو علی الروزباری ابو حمزہ کے بارے میں بیان کرتے ہیں کہ:
’’ وہ بہت بڑا حلولی تھا جب ہوا وآندھی ،پانی کے گرنے اور پرندوں کے چہچہانے کی آواز سنتا تو چیخ چیخ کر کہا کرتا تھا لبیک لبیک،جس پر لوگ انہیں حلولی کہتے تھے۔‘‘[تلبیس ابلیس:۱؍۲۱۰،تاریخ بغداد،۱؍۳۷۱]
اسی طرح ایک روز ابو حمزہ کوالحارث المحاسبی کے گھر جانا ہوا کہ حارث کی بکری نے مَیں مَیں کیا توابو حمزہ ہچکیاں لینے لگا اور بکری سے مخاطب ہو کر کہا لبیک یا سیدی۔الحارث المحاسبی یہ الفاظ سن کر غصے میں آ گئے اور کہا کہ اگر تو نے توبہ نہ کی تو میں تجھے ذبح کر دوں گا،تو ابو حمزہ نے جواب دیا معلوم ہوتا ہے کہ تم ابھی تصوف کے میدان میں مبتدی ہو۔
 

کلیم حیدر

ناظم خاص
رکن انتظامیہ
شمولیت
فروری 14، 2011
پیغامات
9,748
ری ایکشن اسکور
26,379
پوائنٹ
995
قرآن مجید کے بارے میں نظریۂ تصوف
قرآن مجید کے بارے میں اہل تصوف کا عظیم پیشوا تلمسانی لکھتا ہے:
’’قرآن تو پورے کا پورا شرک ہے ،توحید توہمارے کلام میں ہے۔‘‘[مجموعۃ الرسائل والمسائلاز ابن تیمیہ:۱؍۱۴۵]
نبیﷺکے بارے میں نظریۂ تصوف
محمدﷺ کی حقیقت کے بارے میں اہل تصوف کا یہ قول ہے :
’’وہ ذات جس میں پہلی بار ذات الٰہی جلوہ گر ہوئی اور اس کے اسماء حسنی ہیں اور وہی اللہ کا اسم اعظم ہے۔‘‘ [جامع الأصول فی الأولیائ:ص۱۰۷]
یعنی اہل تصوف کے ہاں محمد ﷺ بشر ہے نہ رسول بلکہ اپنے اعلی مراتب میں ذات الٰہی ہے۔محمد(ﷺ) اہل تصوف کے نزدیک اسم اعظم ہے۔اسم اعظم کیا ہے؟ تمام اسماء کا جامع یا ذات الٰہی کا نام۔اس اعتبار سے وہ وجود مطلق ہے۔ [أیضا]
 

کلیم حیدر

ناظم خاص
رکن انتظامیہ
شمولیت
فروری 14، 2011
پیغامات
9,748
ری ایکشن اسکور
26,379
پوائنٹ
995
صنف نازک میں ربِ تصوف کا حلول
صوفیا ہمیشہ صنف نازک کی زلفوں کے متوالے رہے ہیں۔ان کی تعریف میں مبالغہ سے کام لیناان کا محبوب مشغلہ رہا ہے۔ ان کا دعویٰ ہے کہ حق جل شانہ تعالیٰ کی ذات ایک فتنہ گر،کافر ادا اور عاشق عورت کے روپ میں زیادہ جلوہ گر ہوتی ہے۔(العیاذ باللہ)جو اپنی جسمانی شہوت کی آگ بجھانے کے لیے کسی مرد کی تلاش میں سر گرداں رہتی ہے۔
اہل تصوف میں حیوانی شہوت پرستی عام ہے۔اس کی وجہ یہ ہے جب اہل تصوف پر عورت سے لذت اندوزی کا بھوت سوار ہوا اور ان کے حصہ میں ناکامی آئی تو انہوں نے صنف نازک کے حسن وجمال میں قصیدے اور غزلیں کہنا شروع کر دیں مگر جب اس سے بھی ان کا یہ رذیل مقصد پورا نہ ہوا توعورت کو اللہ کاروپ بلکہ عین رب قرار دے دیا۔
عورت کو پانے کے لیے ایک اور حربہ کرتے ہیں اورکہتے ہیں:
’’اللہ کی ذات نفسانی خواہشات سے تڑپتی ہوئی عورت کے اندر پوری طرح جلوہ گر ہوتی ہے۔‘‘
ابن فارحن عورت کے متعلق خدائی تصورات پیش کرتے ہوئے کہتا ہے:

ففی النشأۃ الأولی تراء ت لآدم

بمظہر حوا قبل حکم البنوۃ
وتظہر للعشاق فی کل مظہر

من اللبس فی أشکال حین بدیعة
ففی مرۃ لبنی وأخری بثینة

وآونہ تدعی بعزۃ عزت

[ہذہ ہی الصوفیۃ،عبدالرحمن وکیل(ترجمہ:نقی ندوی)ص:۳۳،۳۵]
’’رب آدم کے لیے حوا کی شکل میں ، قیس کے لیے لبنی کی صورت میں،جمیل کے لیے بثینہ کی شکل میں اور کثیر کے عزہ کی پرفتن اداؤں میں ظاہرہوا۔‘‘
 

کلیم حیدر

ناظم خاص
رکن انتظامیہ
شمولیت
فروری 14، 2011
پیغامات
9,748
ری ایکشن اسکور
26,379
پوائنٹ
995
توحید تصوف
اَئمہ اصول اور عقیدہ اہل سنت والجماعہ کے ہاں توحید کی تین اقسام ہیں۔توحید ربوبیت،توحید الوہیت اور توحید اسماء والصفات۔ توحید کی ان تینوں اقسام پر ایک طرح بلاتفریق اور ہر وقت ایمان لانے والا مسلمان ہے۔اہل تصوف کے ہاں توحید کے تین مراتب ہیں جیسا کہ اصطلاحات صوفیہ میں ہے۔
1-توحید عامہ یعنی توحید شرعی
2-توحید خاص (جسے توحید ذوقی کہتے ہیں)
3-توحید اخص الخاص (جسے توحید ذوقی کہتے ہیں)
توحید عامہ یہ ہے کہ کلمہ طیبہ پر ایمان لائے یعنی زبان سے کہے اور دل سے اعتقاد رکھے…اور انسان توحید شرعی سے آگے بڑھ کر توحید ذوقی یعنی وحدۃ الوجود کے مزے لیتا ہے۔جس کا بیان کسی عبارت ،کسی لفظ سے ممکن نہیں۔سالک پر جب یہ معنی کھل جاتے ہیں اس کو توحید اخص الخاص ۔
پھر آگے چل کر لکھتے ہیں:
اس توحید خاص میں سالک پر وحدۃ الوجود کا انکشاف یا اس طرح ہوتا ہے کہ اس ذات واحد وجود مطلق کو ہر ذرہ میں عیاں دیکھتا ہے اس کو وحدۃ فی الکثرت کہتے ہیں۔یا اس طرح ہوتا ہے کہ اسی ذات احد میں جملہ کائنات کا مشاہدہ ہوتا ہے اس کو کثرت فی کثرت فی الوحدت کہتے ہیں۔گویا توحید خاص کے دو درجے ہیں،سالک ان دو درجوں کو طے کر کے آگے بڑھتا ہے اور توحید اخص الخاص کے مزے لیتا ہے۔تو یہ حقیقت کی آنکھ سے دیکھتا ہے کہ خدا کے وجود کے سوا کوئی دوسرا حقیقی وجود نہیں ۔سب موجودات اس کا ظل اور سایہ ہیں اور کسی قید سے مقید نہیں
آپ نے توحید صوفیا ،عقیدہ وحدۃ الوجود،الوجود فی الکثرت اور الکثرت فی الوجود،کہ خدا کے وجود کے سوا کوئی وجود نہیں اور اس پر مشائخ تصوف کے اقوال کو ملاحظہ فرمایا،جس کا مطلب یہ ہے کہ یہ جملہ کائنات مخلوق اور خالق کے درمیان کوئی تمیز نہیں ہر چیز میں خالق ہے اور خالق میں ہر چیز ہے۔
اس باطل نظریہ کی تردید میں ائمہ اصول نے بہت لکھا ہے۔طوالت کے خطرہ کے پیش نظر میں ایک آیت اور حدیث کے مختصر الفاظ پر اکتفا کرتا ہوں۔
{اﷲُ الَّذِیْ خَلَقَ السَّمٰواتِ وَالأرضَ وَمَا بَیْنَہُمَا فِیْ سِتَّة اَیَّامٍ ثُمِّ اسْتَوَی عَلَی الْعَرْشِ}
’’اللہ تعالیٰ ہی ہے جس نے آسمانوں اور زمین کو اور جو چیز ان دونوں میں ہے سب کو چھ دن میں پیدا کیا پھر وہ عرش پر مستوی ہوا۔‘‘ [ السجدۃ:۴]
 

کلیم حیدر

ناظم خاص
رکن انتظامیہ
شمولیت
فروری 14، 2011
پیغامات
9,748
ری ایکشن اسکور
26,379
پوائنٹ
995
تصوف وطریقت کے اجزائے ترکیبی کا کتاب وسنت کی روشنی میں ایک جائزہ
پروفیسر سلیم چشتی کہتے ہیں کہ:
’’اسلامی تصوف قرآن وسنت سے ماخوذ ہے اور اس کے اجزائے ترکیبی یہ ہیں:
1-توحید خالص
2-تبلیغ دین
3-اتباع شریعت
4-خدمت خلق
5-جہاد
[اسلامی تصوف میں غیر اسلامی نظریات کی آمیزش ازیوسف سلیم چشتی،ص:۹]
اگر ان مذکورہ اجزائے ترکیبی کا جائزہ لیا جائے تو یہ دین اسلام کے مبادی قواعد اور اصول ہیں جن کی تعلیم روز ازل سے جاری ہے ۔ ان کو تصوف کا رنگ دینا یا تصوف کے اصول گرداننا محض تکلف ہے۔
اسلام کے اصولوں میں ذاتی حقانیت پائی جاتی ہے جو غلط نظریات سے آلودہ ہونے میں اپنا دفاع کرنا جانتے ہیں۔چودہ سو سالہ تاریخ اس بات پر شاہد ہے کہ توحید میں الحاد کی آمیزش ،تبلیغ دین میں رکاوٹیں اور اتباع سنت کی بجائے خرافات اور دلیلوں کے مینا بازار سجائے گئے۔ جذبہ خدمت خلق کو مفاد سے آلودہ کرنے اور تنسیخ جہاد کے فتوی صادر ہو رہے مگر دین اسلام حقانیت رکھتا ہے جو لاکھ نشیب وفراز آئیں یہ بنیادی اصول آج بھی منقح منزہ ہیں۔
اَعمال صالحہ کی قبولیت کے لیے دو بنیادی شروط اخلاص اور متابعت رسولﷺ ہیں جن کا آپس میں چولی دامن کاساتھ ہے۔ آنحضرتﷺ کی پہلی دعوت "قولوا لا إلہ اﷲ تفلحوا"[مسند أحمد:۱۵۵۹۳]
اخلاص اور باطنی دنیا کو بدلنے اور توحید انقلاب لانے پر مبنی تھی۔اور دوسری طرف قرآن مجید میں اللہ تعالیٰ نے جا بجا اطاعت رسولﷺ کا حکم صادر فرمایا جس سے اعمال مقبول ومنظور ہوتے ہیں۔
{أَطِیْعُوْا اﷲَ وَأَطِیْعُوْا الرَّسُوْلَ وَلَا تُبْطِلُوْا أعْمَالَکُمْ} [محمد:۳۳]
’’اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول(ﷺ) کی اطاعت کرو اور اپنے اعمال کو ضائع نہ کرو۔‘‘
مذکورہ دو شروط کو اللہ تعالیٰ نے ایک دوسری جگہ اکٹھا بیان فرمایا ہے:
{فَمَنْ کَانَ یَرْجُوْا لِقَائَ رَبِّہِ فَلْیَعْمَلْ عَمَلًا صَالِحًا وَّلَا یُشْرِکْ بِعِبَادَۃِ رَبِّہِ اَحَدًا}[الکہف:۱۱۵]
’’جو شخص اپنے رب سے ملنے کی امید رکھے اسے چاہیے کہ عمل صالح کرے اور اپنے رب کی عبادت میں کسی کو شریک نہ بنائے۔‘‘
امام احمد بن حنبل رح فرماتے ہیں کہ:
’’فقہ اسلامی کی بنیادان چیزوں پر ہے‘‘
1-إنما الأعمال بالنیات [صحیح البخاري:۱]
’’تمام اعمال کا دارومدار نیتوں پر ہے۔‘‘
2-من أحدث فی أمرنا ہذا ما لیس منہ فہو رد [متفق علیہ]
’’جس شخص نے ہماری شریعت میں کوئی نئی چیز گھڑی جو نہ تھی وہ مردود ہے۔‘‘
اور اس معنی ایک اور حدیث ہے:
3-من عمل عملا لیس علیہ أمرنا فہورد [صحیح مسلم:۳۲۴۲]
’’جس نے کوئی ایسا عمل کیا جس پر ہماری طرف سے کوئی امر نہ تھا ،وہ مردود ہے۔‘‘
4-الحلال بین والحرام بین [صحیح البخاري:۵۲]
’’حلال بھی واضح ہے اور حرام بھی واضح ہے۔‘‘
اِن اصول ثلاثہ میں انقیاد باطنی(اخلاص)،انقیاد ظاہری(اطاعت رسولﷺ)اور تیسری اہم چیز رزق حلال مالہ وما علیہ کا اہتمام ہے۔
کلمہ توحید خالصتاً اخلاص ہے۔نماز کے بارے میں حکم ہے:
{وَأَقِیْمُوْا الصَّلٰوۃَ وَاٰتُوْا الزَّکٰوۃَ وَارْکَعُوْا مَعَ الرَّاکِعِیْنَ}[ البقرۃ:۴۳]
’’نماز پڑھا کرواورزکوۃ دیا کرو اور رکوع کرنے والوں کے ساتھ رکوع کیا کرو۔‘‘
ایک آیت چھوڑ کر آگے فرمایا:
{وَاسْتَعِیْنُوْا بِالصَّبْرِ وَالصَّلٰوۃِ وَإِنَّہَا لَکَبِیْرَۃٌ إِلَّا عَلَی الْخَاشِعِیْنَ}[البقرۃ:۴۵]
’’اور (رنج وتکلیف میں)صبر اور نماز سے مدد لیا کرو۔یقینا نماز گراں ہے مگر ان لوگوں پر گراں نہیں جو عجز کرنے اور ڈرنے والے ہیں۔‘‘
سفیان ثوری رح کہتے ہیں کہ:میں نے اعمشؒ سے خشوع کے بارے میں پوچھا تو وہ کہنے لگے :

’’اے ثوریؒ!تم لوگوں کا امام بننا چاہتے ہواور خشوع کے بارے میں نہیں جانتے؟ سنئے!غیر مرغوب کھانا کھانا اور کھردرے کپڑے پہننا اور سر ک جھکا ئے رکھنا خشوع نہیں،بلکہ خشوع یہ ہے کہ آپ حق کے معاملے میں امیر وغریب کو ایک آنکھ دیکھیں اور تمام فرائض کی بجاآوری میں اللہ تعالیٰ سے ڈرنے والے ہو جائیں۔اور خشوع ایک دلی کیفیت کا نام ہے جس کا جوارح پر اثر ظاہر ہوتا ہے اور یہ نماز کی روح ہے۔‘‘ [فتح القدیر:۱؍۱۸۲]
 

کلیم حیدر

ناظم خاص
رکن انتظامیہ
شمولیت
فروری 14، 2011
پیغامات
9,748
ری ایکشن اسکور
26,379
پوائنٹ
995
علامہ ابن قیم رح خشوع کی تعریف یوں فرماتے ہیں:
أن الخشوع ہو الإستسلام للحکمین وہو الانقیاد بالمسکنة والذل لامراﷲ وقضائہ
’’خشوع یقینا حکم دینی اور حکم قدری ہر دو قبول کرنا۔بیچارگی سے لبریز انقیاد اور اللہ تعالیٰ کے اوامر اور فیصلوں کے سامنے سر تسلیم خم کرنے کا نام خشوع ہے۔‘‘ [مدارج السالکین:۱؍۱۲۲]
اور جہاں زکوۃ وصدقات کا معاملہ ہے تو اس کے بارے میں فرمان الٰہی ہے:
{یٰاَیُّہَاالَّذِیْنَ آمَنُوْا لَا تُبْطِلُوْا صَدَقٰتِکُمْ بِالْمَنِّ وَالاَذَی کَالَّذِیْ یُنْفِقُ مَالَہُ رِئَائَ النَّاسِ وَلَا یُؤمِنُ بِاﷲِ وَالْیَوْمِ الآخِرِ} [البقرۃ:۲۶۴]
’’اے مومنو!اپنے صدقات وخیرات ،احسان رکھنے اور ایذا دینے سے اس شخص کی طرح برباد نہ کر دینا جو لوگوں کو دکھاوے کے لیے مال خرچ کرتا ہے اور اللہ تعالیٰ اور روز آخرت پر ایمان نہیں رکھتا۔‘‘
اور
{إِنْ تبُدْوُاْ الصَّدَقَاتِ فَنِعِمَّا ہِیَ وَإِنْ تُخْفُوْہَا وَتُؤتُوْہَا الْفُقَرَائَ فَہُوَ خَیْرٌ لَّکُمْ وَیُکَفِّرْ عَنْکُمْ مِّنْ سَیِّاٰتِکُمْ وَاﷲُ بِمَا تَعْمَلُوْنَ خَبِیْرٌ} [البقرۃ:۲۷۱]
’’اگر تم خیرات ظاہر کر دو تو وہ بھی خوب ہے اوراگر پوشیدہ دو اور دو بھی اہل حاجت کو تو وہ خوب تر ہے اور اس طرح کا دینا تمہارے گناہوں کو بھی مٹا دے گا اور اللہ کو تمہارے سب کاموں کی خبر ہے۔‘‘
اور روزہ تو ہے سری عبادت جو محض اللہ اور بندے کے مابین ہے۔حدیث قدسی ہے:
" الصوم لی وأنا اجزی بہ" ’’روزہ میرے لیے ہے اور اس کی جزا بھی میں ہی دوں گا۔‘‘
اسلام کا پانچواں اورآخری رکن حج ہے،جس کاآغاز بھی توحید واخلاص سے ہوتا ہے۔
{وَﷲِ عَلَی النَّاسِ حِجُّ الْبَیْتِ مَنِ اسْتَطَاعَ اِلَیْہِ سَبِیْلًا} [آل عمران:۹۷]
’’ لوگوں پر اللہ کا یہ حق ہے کہ جو اس گھر تک پہنچنے کی استطاعت رکھتا ہو وہ اس کا حج کرے ۔‘‘
جن کو مجموعی طور پر ایک آیت کے استشہاد سے یوں بیان کیا جاتا ہے:
{قُلْ إِنَّ صَلاَتِیْ وَنُسُکِیْ وَمَحْیَایَ وَمَمَاتِیْ ﷲِ رَبِّ الْعَالَمِیْنَ-لَا شَرِیْکَ لَہُ…الآیة} [الأنعام:۱۶۱،۱۶۲]
’’کہہ دیجئے کہ بیشک میری نماز،میری قربانی،میرا زندہ رہنا اور میرا مرنا اللہ ہی کے لیے ہے جو تمام جہانوں کا رب ہے اور اس کا کوئی شریک نہیں ہے اور مجھے اسی چیز کا حکم دیا گیا ہے اور میں مطیع ہونے والوں میں سے پہلا ہوں۔‘‘
 

کلیم حیدر

ناظم خاص
رکن انتظامیہ
شمولیت
فروری 14، 2011
پیغامات
9,748
ری ایکشن اسکور
26,379
پوائنٹ
995
اہل تصوف کی بیعت اور دست بوسی
تجدید تصوف وسلوک کے مؤلف عبدالباری بیان کرتے ہیں:
’’بیعت کی حقیقت یہ ہے کہ اپنے سے زیادہ واقف وماہر مصلح کے ہاتھ میں اپنے کو اس طرح سونپ دینا ، جس طرح بائع مشتری کے ہاتھ میں چیز سونپ دیتا ہے۔‘‘[تجدید تصوف وسلوکازعبدالباری،ص:۹۹]
مزید بیعت کی وضاحت کرتے ہوئے یوں کہتے ہیں:
’’بیعت ایسے معاہدے سے تعبیر ہے جس میں شیخ کی طرف سے اصلاح کاوعدہ ہوتا ہے اور طالب کی طرف سے اتباع کا۔‘‘ [ایضاً:ص۱۰۳]
رسول اللہﷺ سے مختلف احادیث میں بیعت اسلام ،بیعت جہاد، بیعت فعل الخیر وغیرہ ثابت ہیں لیکن کوئی بھی بیعت ہو اس کا ایک طریقہ عمل اور دائرہ کار ہے جس کے بارے میں ڈاکٹر صہیب حسن(لندن)فرماتے ہیں:
’’بیعت کا دائرہ امامت کبریٰ تک محدود ہے ایسے امام کی بیعت ہی کی جا سکتی ہے جو واقعی اقتدار رکھتا ہو، حدود نافذ کر سکتا ہو،صلح وجنگ کے معاہدے کر سکتا ہو۔وہ چاہے جہاد پر بیعت لے یا کسی فعل خیر پر یا کسی برائی سے رکنے پر۔بیعت لینا اس کا حق ہے ،البتہ کسی غیر اسلامی کام پر اگر وہ بیعت لینا چاہے تو اس کی بات مانی نہ جائے گی۔‘‘[ماہنامہ’ محدث‘،جون ۲۰۰۷]
صوفیا کے ہاں طریقت اور بیعت چونکہ لازم وملزوم ہیں چنانچہ اس تعلق سے بھی نئے نئے شگوفے کھلتے رہتے ہیں۔
مولانا عبدالرحمن کیلانی لکھتے ہیں:
’’بیعت کے سلسلہ میں صوفیا نے ایک اور شاندار کارنامہ سر انجام دیا ہے۔انہوں نے جب دیکھا کہ اویس قرنیؒ نے رسول اللہﷺ کو نہ دیکھا، نہ بیعت کی تو ان کی ارواح کی آپس میں بیعت کرادی اور اسے نسبت اویسیہ کا نام دیا اور راستہ کی اس رکاوٹ کو ہمیشہ کے لیے ختم کر دیا۔وہ جب جب دیکھتے ہیں کہ فلاں شخص کی فلاں شخص سے ملاقات ہی ثابت نہیں یا پیر کی وفات کے بہت عرصہ بعد مرید کی پیدائش ہو تو وہ یہی نسبت اویسیہ قائم کر کے اپنا سلسلہ جاری فرما کر کام چلا لیتے ہیں۔‘‘[شریعت وطریقت،ص:۴۳۳]
 

کلیم حیدر

ناظم خاص
رکن انتظامیہ
شمولیت
فروری 14، 2011
پیغامات
9,748
ری ایکشن اسکور
26,379
پوائنٹ
995
چلہ کشی کی ایجاد
صوفیا کے ہاں چلہ کشی کی اصطلاح بڑی عام ہے جس کو بعد میں تبلیغ کے میدان میں بھی بڑی پذیرائی حاصل ہوئی۔ لہٰذا چلہ کو متاخرین صوفیا نے ایجاد کیا جس کا مدار ایک بے اصل حدیث پر ہے کہ رسول اللہﷺنے فرمایا:
’’جو شخص چالیس روز تک اللہ تعالیٰ کے ساتھ اخلاص رکھے گا تو یوں ہوگا…وغیرہ وغیرہ۔‘‘
رسول اللہ ﷺ کی طرف ایسی لچر اور پوچ بات کا انتساب کرنا غلط اور جرات بے جا ہے کیونکہ اخلاص تو بندے پر ہمیشہ واجب ہے،چالیس روز کی شرط لگانے کی آخر کیا وجہ ہے؟ کیا چالیس روز گزر جانے کے بعد بندے کو اپنے اعمال میں ریاکاری کی اجازت ہے؟[اسلام میں بدعت وضلالت کے محرکات:ص۱۲۱]
تحریک تصوف اور عصری مسائل ومحرکات
تحریک تصوف اور عصری مسائل کا جائزہ لینے سے پہلے ہمیں تحریک تصوف کے انشائ،ظہور کی وجوہات پر نظر ڈالنی چاہیے کہ اس کے پیچھے اصل محرکات کیا ہیں؟ جبکہ اس تحریک کے ظہور اور انشاء کے اسباب آپ جان چکے ہیں لیکن دوسری طرف تصوف کے حق میں عالمی کانفرنسز اورعصری مسائل ومحرکات معرض وجود میں آ رہے ہیں۔
اس کے محرکات کیا ہیں؟اس کا صرف ایک ہی محرک ہے کہ مسلمان اعلاء کلمۃ اللہ ،جہاد اورمزاحمت مسجد کے کونوں میںبیٹھ کر چلوں مراقبوں اور حال میں بے حال ہو کر صہیونی طاقتوں کو دنیا پر حکومت کرنے اور ورلڈ آرڈر چلانے کا راستہ ہموار کریں۔
اس بات کو گمان جان کر رد کرنے سے پہلے ایک اہم سوال توجہ طلب ہے کہ اسلامی دعوت کے میدان میں بہت سے مناہج وافکار کام کر رہے ہیں۔ایسی حالت میں امریکہ کو کس منہج وفکر سے زیادہ خوف لاحق ہے؟
1۔اسلامی سیاسی تحریکوں اور پارٹیوں سے؟
2۔وہابی تحریکوں اور اداروں سے؟
3۔تصوف کے پورے عالم اسلام میں پھیلے ہوئے مختلف سلسلوں سے؟
4۔حکومت کے زیر نگرانی دینی اداروں سے؟
بہت سے امریکی تھنک ٹینک نے اس سوال کا واضح جواب دیا ہے اور اب سب کا اس امرپر اتفاق پایا جاتا ہے کہ وہابی تحریکیں ہی امریکہ کے لیے سب سے زیادہ خوف اور پریشانی کا مرکزی سبب ہیں۔
جہاد نامی ویب سائٹ کا ڈائریکٹر رابرٹ سپنسر پھیلتے ہوئے اسلامی شعور پر تبصرہ کرتے ہوئے کہتا ہے:
’’آپ اس کو اسلامی بیزاری کہیں یا تحریک اصلاح ، جو بھ کہیں اس میں ضروری ہے کہ قرآنی تعلیمات کی حرف بحرف تطبیق کے منہج کو روکا جائے اوراس کو دوبارہ ظہور پذیر نہ ہونے دیا جائے۔‘‘
 

کلیم حیدر

ناظم خاص
رکن انتظامیہ
شمولیت
فروری 14، 2011
پیغامات
9,748
ری ایکشن اسکور
26,379
پوائنٹ
995
دور جدید اور صوفی اِزم
یہ بحث بھی اپنی اہمیت کی وجہ سے قدر ے تفصیل کی متقاضی ہے۔تصوف یا صوفی ازم دین حق کے سامنے بہت بڑا چیلنج ہے۔یہ بات بہت سے دلائل سے واضح ہو چکی ہے کہ امریکی ارباب دانش کے سامنے مسلمانوں کے بڑھتے ہوئے کتاب وسنت پر مبنی دینی شعور کی موجودہ صورت حال میں صوفی ازم ایک بہترین متبادل راستہ ہے۔جس کے چند نمونے درج ذیل ہیں:
٭ ۲۰۰۳ء میں نکسن سٹڈی سنٹر ،واشنگٹن میں’’ تصوف اور امریکہ کی عالمی سیاست میں اس کا متوقع کردار‘‘کے عنوان سے ایک سیمینار منعقد ہوا۔اس سیمینار کے شرکاء میں معروف اسلام دشمن امریکی سکالر ڈاکٹر برنارڈ لوئیس سرفہرست تھا۔دوسرے شرکاء میں ترکی کے سابق صدر ترگت اوزال کے بھائی کرکوت اوزال اور امریکن اسلامک کونسل کے ڈائریکٹر محمد ہشام قبانی بھی شامل تھے۔
٭ امریکن اسلامک کونسل ،صوفی ازم یا تصوف کا نمائندہ ادارہ ہے جس کے بانی جناب ہشام قبانی ہیں۔یہ کونسل امریکی حکومت کا بڑے کھلے دل اور خلوص سے تعاون کرتی ہے اور خاص طور پر اسلام اور مسلمانوں کے بارے میں اہم معلومات فراہم کرنے سے بھی نہیں چوکتی۔
٭ یاد رہے کہ سابق امریکی نائب وزیر دفاع پال وولف کی اسلامی کونسل کے ممبران کے ساتھ باقاعدہ سلسلہ وار میٹنگز منعقد ہوتی تھیں…اراکین کونسل اسلامی خطرہ سے نمٹنے کے لیے اپنے مخلصانہ مشورے امریکی وزارت دفاع کے ذمہ داران کے سامنے پیش کرنے کا شرف بھی حاصل کیا کرتے تھے۔

اب ہم صوفی ازم کی دو عالمی شخصیات کا تذکرہ کرتے ہیں ان میں پہلی شخصیت علی جعفری اور دوسری شخصیت ہشام قبانی ہے:
1۔یمنی نژاد علی جعفری صوفیت کا سرگرم داعی ہے۔گزشتہ کچھ عرصہ سے اس نے کافی شہرت حاصل کی ہے۔اس کی شہرت کا آغاز یوں ہوا کہ مصر میں اس نے مالدار اور تاجرطبقہ میں صوفیانہ انداز میں وعظ اور سماع کی مجالس منعقد کرنا شروع کیں۔جن مجالس کی وجہ سے اس طبقہ کے افراد میں اس کا نام واعظ کی حیثیت سے مشہور ہو گیا۔لوگوں کے ذہنوں میں اس کا معتبر مقام بن گیا اور یہ عموماً صوفیوں کاطریقہ کار ہے کہ وہ عوام کو قرآنی اور نبوی تعلیمات کے قریب کرنے کی بجائے شخصیات کے گرد جمع کرتے ہیں۔
2۔صوفی اِزم کی دوسری عالمی شخصیت ڈاکٹر ہشام قبانی ہے جن کا پہلے بھی تذکرہ ہو چکا ہے۔یہ اصل لبنانی ہے اور امریکہ میں مقیم ہے جہاں پر اس نے اسلامک کونسل کے نام سے صوفی ازم کے معروف ادارے کی بنیاد رکھی ہے۔ امریکی حکومت کی زبردست حمایت حاصل ہے۔امریکی وزارت دفاع اور وزارت خارجہ میں اس کے کئی لیکچرز ہو چکے ہیں۔ان لیکچرز کے مقاصد کا اندازہ ان میں سے ایک لیکچر کے عنوان سے لگایا جا سکتا ہے، جو یہ ہے:
’’اسلامی بنیاد پرستی اور امریکی سلامتی کے لیے اس کے خطرات‘‘ [مجلہ البیان ،لندن،(ترجمہ:قاضی عبدالکریم)،بحوالہ ماہنامہ’ محدث‘،فروری ۲۰۰۷ئ،ص:۲۷تا۳۲]
 
Top