محمد فیض الابرار
سینئر رکن
- شمولیت
- جنوری 25، 2012
- پیغامات
- 3,039
- ری ایکشن اسکور
- 1,234
- پوائنٹ
- 402
ابن عقیل صوفیوں کی سیاہ کاریاں بیان کرتے ہیں
" میں کئی وجہوں سے صوفیوں کی مذمت کرتا ہوں جن کے فعل کی مذمت کو شریعت نے ضروری قرار دیا ہے۔ ایک وجہ یہ ہے کہ : "انہوں نے بیکاری کے اڈے یا احدی خانے قائم کررکھے ہیں۔ اس سے مراد ان کی خانقاہیں ہیں۔ جہاں وہ مساجد کی جماعتوں سے کٹ کر پڑے رہتے ہیں۔ یہ خانقاہیں نہ تو مسجد میں نہ مکانات نہ دکانیں۔ وہ ان خانقاہوں میں اعمال معاش سے کٹ کر محض بے کار پڑے رہتے ہیں۔ اور کھانے پینے اور ناچنے گانے کے لیے جانوروں کی طرح اپنے بدن کو موٹا کرتے ہیں۔ اپنی چمک دمک دکھانے اور نگاہوں کو خیرہ کرنے کے لئے گدڑی اور پیوند پر اعتماد کرتے ہیں۔ اور عوام اور عورتوں پر اثر انداز ہونے والے مختلف رنگ کے شعبدے دکھلاتے ہیں۔ جیسے ریشم کے مختلف رنگ کے شعبدے دکھلاتے ہیں۔ جیسے ریشم کے مختلف رنگوں سے سقلاطون کی چمک دکھلائی جاتی ہے۔ یہ مختلف صورتیں بناکر اور لباس پہن کر عورتوں اور بے داڑھی مونچھ کے نوخیز لڑکوں کو اپنی طرف مائل کرتے ہیں۔ اور جس گھر میں داخل ہوتے ہیں اگر وہاں عورتیں ہوں تو یہ ان عورتوں کا دل ان کے شوہروں سے بگاڑ کر ہی نکلتے ہیں۔ پھر یہ لوگ ظالموں ، فاجروں اور لٹیروں مثلاً نمبرداروں ، فوجیوں اور جانائز ٹیکس لینے والوں سے کھانے اور غلے اور روپے پیسے قبول کرتے ہیں بے داڑھی مونچھ کے نوخیز لڑکوں کو سماع کی مجلسوں میں اپنے ساتھ لے جاتے ہیں اور شمع کی روشنی میں مجمعوں کے اندر انہیں کھینچتے ہیں۔ اجنبی عورتوں سے ملتے جلتے ہیں۔ اور اس کے لئے یہ دلیل دیتے ہیں کہ انہیں خرقہ پہنانا ہوتا ہے۔ اور حلال بلکہ ضروری سمجھتے ہیں کہ مستی میں جس شخص کے کپڑے گرجائیں اس کے کپڑوں کو آپس میں بانٹ لیں۔ یہ لوگ اس مستی کو وجد کہتے ہیں ، اور دعوت کو وقت کہتے ہیں، اور لوگوں کو کپڑے بانٹنے کو حکم کہتے ہیں۔ اور جس گھر میں ان کی دعوت کی گئی ہو وہاں سے اسی وقت نکلتے ہیں جب کہ ایک دوسری دعوت کو لازم کرلیں۔ وہ کہتے ہیں کہ یہ دعوت واجب ہوگئی۔ حالانکہ ان باتوں کا عقیدہ رکھنا کفر ، اور انہیں کرنا فسق ہے۔
" میں کئی وجہوں سے صوفیوں کی مذمت کرتا ہوں جن کے فعل کی مذمت کو شریعت نے ضروری قرار دیا ہے۔ ایک وجہ یہ ہے کہ : "انہوں نے بیکاری کے اڈے یا احدی خانے قائم کررکھے ہیں۔ اس سے مراد ان کی خانقاہیں ہیں۔ جہاں وہ مساجد کی جماعتوں سے کٹ کر پڑے رہتے ہیں۔ یہ خانقاہیں نہ تو مسجد میں نہ مکانات نہ دکانیں۔ وہ ان خانقاہوں میں اعمال معاش سے کٹ کر محض بے کار پڑے رہتے ہیں۔ اور کھانے پینے اور ناچنے گانے کے لیے جانوروں کی طرح اپنے بدن کو موٹا کرتے ہیں۔ اپنی چمک دمک دکھانے اور نگاہوں کو خیرہ کرنے کے لئے گدڑی اور پیوند پر اعتماد کرتے ہیں۔ اور عوام اور عورتوں پر اثر انداز ہونے والے مختلف رنگ کے شعبدے دکھلاتے ہیں۔ جیسے ریشم کے مختلف رنگ کے شعبدے دکھلاتے ہیں۔ جیسے ریشم کے مختلف رنگوں سے سقلاطون کی چمک دکھلائی جاتی ہے۔ یہ مختلف صورتیں بناکر اور لباس پہن کر عورتوں اور بے داڑھی مونچھ کے نوخیز لڑکوں کو اپنی طرف مائل کرتے ہیں۔ اور جس گھر میں داخل ہوتے ہیں اگر وہاں عورتیں ہوں تو یہ ان عورتوں کا دل ان کے شوہروں سے بگاڑ کر ہی نکلتے ہیں۔ پھر یہ لوگ ظالموں ، فاجروں اور لٹیروں مثلاً نمبرداروں ، فوجیوں اور جانائز ٹیکس لینے والوں سے کھانے اور غلے اور روپے پیسے قبول کرتے ہیں بے داڑھی مونچھ کے نوخیز لڑکوں کو سماع کی مجلسوں میں اپنے ساتھ لے جاتے ہیں اور شمع کی روشنی میں مجمعوں کے اندر انہیں کھینچتے ہیں۔ اجنبی عورتوں سے ملتے جلتے ہیں۔ اور اس کے لئے یہ دلیل دیتے ہیں کہ انہیں خرقہ پہنانا ہوتا ہے۔ اور حلال بلکہ ضروری سمجھتے ہیں کہ مستی میں جس شخص کے کپڑے گرجائیں اس کے کپڑوں کو آپس میں بانٹ لیں۔ یہ لوگ اس مستی کو وجد کہتے ہیں ، اور دعوت کو وقت کہتے ہیں، اور لوگوں کو کپڑے بانٹنے کو حکم کہتے ہیں۔ اور جس گھر میں ان کی دعوت کی گئی ہو وہاں سے اسی وقت نکلتے ہیں جب کہ ایک دوسری دعوت کو لازم کرلیں۔ وہ کہتے ہیں کہ یہ دعوت واجب ہوگئی۔ حالانکہ ان باتوں کا عقیدہ رکھنا کفر ، اور انہیں کرنا فسق ہے۔