اگر آپ کے پاس کوئی علمی بات ہے تو بتائیں۔
احسان کو تصوف سے تعبیر کیسے کریں گے؟۔جبکہ حدیث شریف میں احسان کیا ہے؟کے بارے میں صحابی رضی اللہ عنہ نے سوال کیا اور نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے جوابا احسان کی شرح کردی۔
پہلی بات یہ کہ آپ درست فرمالیں کہ جنہوں نے احسان کے متعلق سوال کیا وہ ان معنی میں صحابی رسول ﷺ نہیں جو عام طور سے سمجھا جاتا ہے بلکہ یہ اللہ تعالیٰ کے مقرب فرشتے حضرت جبرئیل علیہ السلام تھے
احسان کی شرح رسول اللہﷺ کی
رسول اللہﷺ سے عرض کی گئی
قال : يا رسول الله ! ما الإحسان ؟
رسول اللہﷺ سے عرض کی کہ یا رسول اللہﷺ مجھے بتلائیں کہ احسان کیا ہے؟
احسان کی شرح یوں بیان فرمائی
قال " أن تعبد الله كأنك تراه . فإنك إن لا تراه فإنه يراك "
رسول اللہﷺ نے ارشاد فرمایا کہ تو اللہ کی عبادت اس طرح کر کے تو اللہ کو دیکھ رہا ہے اگر اتنا نہ ہو تو یہی سہی کہ اللہ تجھے دیکھ رہا ہے
یعنی اللہ کی عبادت اس طرح کرنی ہے عبادت کرنے والا اللہ کو دیکھ رہا ہے اور جو اس درجہ پر ہوتا ہے اس کے بارے میں رسول اللہﷺ کا ارشاد ہے کہ
إنَّ من عبادِ اللهِ من لو أقسمَ على اللهِ لأبَرَّهُ
کچھ اللہ کے بندے (یعنی اللہ کی عبادت کرنے والے)ایسے ہیں کہ اگر وہ اللہ کا نام لے کرقسم کھائیں تو اللہ ان کی قسم پوری کر ہی دیتا ہے۔
اگر یہ درجہ حاصل نہ تو کم از کم اللہ کی عبادت کرنے والا اس درجے پر تو ہوتا ہی ہے کہ اللہ اس کو دیکھ رہا ہے
کم تر درجہ یعنی اللہ عبادت کرنے والے کو دیکھ رہا ہے سے اعلیٰ درجے پر اللہ کو دیکھ کر اس عبادت کرنا پر پہنچنے کی راہ تصوف کہلاتی ہے اور ایسی معنی کو نواب صدیق حسن خان کے اجرتی ملازم نے نواب صاحب کی خواہش پر صحیح مسلم کی شرح میں بیان کیا ہے احسان کو تصوف پر تعبیر کرکے کچھ اس طرح
تصوف کی تعریف
علامہ وحید الزماں حیدرآبادی صحیح مسلم کی حدیث جبرئیل میں احسان کی شرح کے تحت رقم طرز ہیں کہ خلاصہ تصوف کا یہ ہے کہ بندہ کو خدا سے محبت اور الفت پیدا ہو خدا کا خیال ہر وقت بندے کے دل میں رہے تو اعلیٰ درجہ اس کا یہ ہے بندہ خدا کی ذات کے تصور میں ایسا غرق ہوجائے کہ سوائے خدا کے کچھ نظر نہ آئے گو ظاہری آنکھ سے دنیا کی ہر چیز دیکھے اور کانوں سے سنے پر جب دل خدا سے لگا ہے تو آنکھ اور کان مردے کی آنکھ اور کان کی طرح کھلے ہیں آنکھ دیکھتی ہے اور کان سنتا ہے مگر دھیان اور لو مولیٰ کی طرف ہے اس کو وحدۃ الشہود کہتے ہیں جو اعلیٰ درجہ کے فقیروں صوفیوں اور خدا کے پاک بندوں کو حاصل ہوتا ہے ایک اور مرتبہ اس سے ادنیٰ ہے جس کو حاصل کرنے کی کوشش ہر مسلمان کو کرنی چاہئے وہ یہ کہ خدا کو ہر وقت حاضر ناظر سمجھے اور یقین کرے کہ خدا اس کی تمام حرکات و سکنات یہان تک کہ اس کے قلب کے خطرات اور خیالات کو بھی جانتا ہے پھر اس کی عبادت کے وقت دوسری چیزوں میں دل لگانا اور بیہودہ وسوسوں کو راہ دینا شیطان کا کام ہے جس سے پناہ مانگنا چاہئے ۔
اب اس درجہ کی عبادت الہی کے لئے جس طبقہ میں بات کی جاتی ہے وہ اصفایا کا طبقہ ہی ہے اس ہی لئے اہل حدیث کے امام بھی اس بات کے قائل ہیں کہ احسان کا مطلب فی زمانہ تصوف ہی ہے یا اگر کسی اور طبقہ میں اس درجہ کی عبادت کی بات کی جاتی ہے اور اس تک پہنچنے کی راہ بتائی جاتی ہے تو آپ میرے گوش گذار فرمادیں آپ مجھے ہم تن گوش پائیں گے ان شاء اللہ