• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

تصوف وہ راہ ہے۔۔۔۔۔۔

اشماریہ

سینئر رکن
شمولیت
دسمبر 15، 2013
پیغامات
2,684
ری ایکشن اسکور
751
پوائنٹ
290
تصوف دراصل شیطان کا سب سے مہلک ہتھیار ہے یہ انسان کو کسی کونے میں '' اللہ ھو '' کے وظیفے میں پنسا کر اپنا کام آسان کیے ہوئے ہے۔ ان تصوف زدہ لوگ کو کوئی فرق نہیں پڑتا اگر باطل نظام پوری امتِ مسلمہ کو اپنے شکنجے میں پوری قوت کے ساتھ گرفت میں لیے ہوئے ہو۔ پچھلے کئی سالوں سے امتِ مسلمہ جس طرح ظلم کی چکی میں پس رہی ہے وہ اس سے بے خبر نہیں ہیں وہ اس لیے میدانِ جہاد کو چھوڑ کر ( جو ایک مسلمان کا حقیقی معیار ہے ) کسی کونے میں بیٹھ کر ''سلوک '' کی منازل طے کیے جا رہی ہے۔ اور شیطان اس آڑ میں باطل نظام کو فروغ دینے میں منازل کی نمازل طے کرتاچلا جا رہا ہے اور یہ تصوف زدہ لوگ اس سے بے خبر ہیں۔ ان کو'' تجلیاتِ ربانیہ'' کا تو مشاہدہ ہوتاہے مگر ظلم کی پستی امتِ مسلمہ کا درشن نہیں ہوتا۔ کیوں کہ یہ تصوف کے مارے اتنی ہمت ہی نہیں رکھتے کہ باطل کو للکار یا اس سے مقابلہ کر سکیں اس لیے وہ اپنی اس بزدلی کو چھپانے کے لیے نت نئی منازل طے کرنے کا ڈھول پیٹے جا رہے ہیں۔ مسلمان ممالک میں مسلمانوں کی ظلم و ستم اور ان کی تضلیل سے بھلا ان کو کیا واسطہ ؟ ہمادے اپنے ملک میں کتنے مسائل ہیں بھلا ان کواس سے کیا لینا۔
محترم بھائی۔
جب تصوف کی بات کی جاتی ہے تو میں نہیں جانتا کہ آپ لوگوں کے اذہان میں کون سا تصوف ہوتا ہے یا یوں کہہ لیں کہ تصوف کا کیا مفہوم ہوتا ہے۔
دراصل یہ وہ لائن ہے جس میں اہل بدعت و باطل لوگوں نے بہت کچھ شوشے چھوڑے اور مطلب بیان کیے ہیں۔ فقط اپنی مطلب برآری کے لیے۔
اگر ان باطل نظریات کے بارے میں یہ کہا جائے تو درست ہے لیکن یہ اصل تزکیہ نفس کے لیے تصوف نہیں۔
اگر آپ درست راہ تصوف پر چلتے ہوئے افراد کے افعال کو دیکھنا چاہیں تو صرف بر صغیر میں مجدد الف ثانیؒ سے لے کر عبد المجید دین پوریؒ تک دین کی ہر خدمت میں ایسے لوگ نظر آئیں گے جو اپنے شیوخ کے ہاتھ پر بیعت تھے اور سلوک کی راہ کے راہی تھے۔ ان سب کو ایک جانب رکھ کر یہ کہنا کہ اہل تصوف جہاد وغیرہ نہیں کرتے ایک عجیب اور حیرت انگیز بات ہے۔
محترمی!
میں خود تصوف کے ایک سلسلے سے منسلک ہوں لیکن نہ تو میں کونے میں بیٹھ کر صرف ضربیں لگاتا رہتا ہوں اور نہ ہی امت مسلمہ کے آلام و مصائب سے ناواقف ہوں۔ میں علم شریعت حاصل کرتا ہوں۔ دین و دنیا کے ہر کام میں بساط بھر حصہ ڈالنے کی کوشش کرتا ہوں اور امت مسلمہ کے غم میں کڑھتا ہوں۔ میری ہر پوزیشن اور کامیابی پر میرے شیخ مجھے دعا دیتے ہیں۔
لیکن مجھے ترک دنیا کا حکم نہیں دیا گیا۔ آخر کیوں؟ اور یہ صرف میرے ساتھ خاص نہیں بلکہ میں آپ کو صرف کراچی میں موجود ہزاروں لوگ دکھا سکتا ہوں۔

بات یہ ہے کہ منازل سلوک اور اذکار و ادعیہ تو درست ہیں لیکن ان میں کسی کو بند کرنا یا ان کی غلط تشریحات میں پھنسا دینا اہل حق کا کام نہیں اور نہ وہ کرتے ہیں۔
یہ ان اہل باطل نے مشہور کیا ہے جن کا مقصد کچھ اور ہوتا ہے۔
ہاں یہ ضرور یاد رکھنے کی بات ہے کہ بسا اوقات کسی ایک بندے کو کسی خاص کام سے روکا جاتا ہے وقتی طور پر یا مستقل۔ لیکن وہ اس کے خاص حالات کی وجہ سے ہوتا ہے۔ سب کے لیے یہ نہیں ہوتا۔
ازراہ کرم تھوڑا ذہن کو وسیع کیجیے اور جو نہ معلوم ہو وہ جاننے والوں سے پوچھ لیا کریں۔ جو جس لائن کا بندہ ہوتا ہے وہ اس کی زیادہ جانکاری رکھتا ہے۔ اگر آپ اہل ظاہر سے اہل باطن کے بارے میں سوال کریں گے تو یقینا جواب درست نہیں ملے گا۔
 

محمد علی جواد

سینئر رکن
شمولیت
جولائی 18، 2012
پیغامات
1,986
ری ایکشن اسکور
1,551
پوائنٹ
304
پہلی بات یہ کہ آپ درست فرمالیں کہ جنہوں نے احسان کے متعلق سوال کیا وہ ان معنی میں صحابی رسول ﷺ نہیں جو عام طور سے سمجھا جاتا ہے بلکہ یہ اللہ تعالیٰ کے مقرب فرشتے حضرت جبرئیل علیہ السلام تھے

احسان کی شرح رسول اللہﷺ کی
رسول اللہﷺ سے عرض کی گئی
قال : يا رسول الله ! ما الإحسان ؟
رسول اللہﷺ سے عرض کی کہ یا رسول اللہﷺ مجھے بتلائیں کہ احسان کیا ہے؟
احسان کی شرح یوں بیان فرمائی
قال " أن تعبد الله كأنك تراه . فإنك إن لا تراه فإنه يراك "
رسول اللہﷺ نے ارشاد فرمایا کہ تو اللہ کی عبادت اس طرح کر کے تو اللہ کو دیکھ رہا ہے اگر اتنا نہ ہو تو یہی سہی کہ اللہ تجھے دیکھ رہا ہے

یعنی اللہ کی عبادت اس طرح کرنی ہے عبادت کرنے والا اللہ کو دیکھ رہا ہے اور جو اس درجہ پر ہوتا ہے اس کے بارے میں رسول اللہﷺ کا ارشاد ہے کہ
إنَّ من عبادِ اللهِ من لو أقسمَ على اللهِ لأبَرَّهُ
کچھ اللہ کے بندے (یعنی اللہ کی عبادت کرنے والے)ایسے ہیں کہ اگر وہ اللہ کا نام لے کرقسم کھائیں تو اللہ ان کی قسم پوری کر ہی دیتا ہے۔

اگر یہ درجہ حاصل نہ تو کم از کم اللہ کی عبادت کرنے والا اس درجے پر تو ہوتا ہی ہے کہ اللہ اس کو دیکھ رہا ہے
کم تر درجہ یعنی اللہ عبادت کرنے والے کو دیکھ رہا ہے سے اعلیٰ درجے پر اللہ کو دیکھ کر اس عبادت کرنا پر پہنچنے کی راہ تصوف کہلاتی ہے اور ایسی معنی کو نواب صدیق حسن خان کے اجرتی ملازم نے نواب صاحب کی خواہش پر صحیح مسلم کی شرح میں بیان کیا ہے احسان کو تصوف پر تعبیر کرکے کچھ اس طرح


اب اس درجہ کی عبادت الہی کے لئے جس طبقہ میں بات کی جاتی ہے وہ اصفایا کا طبقہ ہی ہے اس ہی لئے اہل حدیث کے امام بھی اس بات کے قائل ہیں کہ احسان کا مطلب فی زمانہ تصوف ہی ہے یا اگر کسی اور طبقہ میں اس درجہ کی عبادت کی بات کی جاتی ہے اور اس تک پہنچنے کی راہ بتائی جاتی ہے تو آپ میرے گوش گذار فرمادیں آپ مجھے ہم تن گوش پائیں گے ان شاء اللہ
محترم -

کیا آپ یہ بتا سکتے ہیں ہیں کہ نبی کریم صل الله علیہ و آ لہ وسلم کی اس قول سے حقیقی طور پر کیا مراد تھی کہ "تو اللہ کی عبادت اس طرح کر کے تو اللہ کو دیکھ رہا ہے"

کیوں کہ : الله کا تو قرآن میں فرمان ہے:

وَلَمَّا جَاءَ مُوسَىٰ لِمِيقَاتِنَا وَكَلَّمَهُ رَبُّهُ قَالَ رَبِّ أَرِنِي أَنْظُرْ إِلَيْكَ ۚ قَالَ لَنْ تَرَانِي وَلَٰكِنِ انْظُرْ إِلَى الْجَبَلِ فَإِنِ اسْتَقَرَّ مَكَانَهُ فَسَوْفَ تَرَانِي ۚ فَلَمَّا تَجَلَّىٰ رَبُّهُ لِلْجَبَلِ جَعَلَهُ دَكًّا وَخَرَّ مُوسَىٰ صَعِقًا ۚ فَلَمَّا أَفَاقَ قَالَ سُبْحَانَكَ تُبْتُ إِلَيْكَ وَأَنَا أَوَّلُ الْمُؤْمِنِينَ سوره الاعراف ١٤٣
اور جب موسیٰ ہمارے مقرر کردہ وقت پر آئے اور ان کے رب نے ان سے باتیں کیں تو عرض کیا کہ اے میرے رب مجھے دکھا کہ میں تجھے دیکھوں - فرمایا کہ تو مجھے ہر گز نہیں دیکھ سکتا لیکن تو پہاڑ کی طرف دیکھتا رہ اگر وہ اپنی جگہ پر ٹھہرا رہا تو تو مجھے دیکھ سکے گا- پھر جب اس کے رب نے پہاڑ کی طرف تجلی کی تو اس کو ریزہ ریزہ کر دیا اور موسیٰ بے ہوش ہو کر گر پڑے پھر جب ہوش میں آئے تو عرض کی کہ تیری ذات پاک ہے میں تیری جانب میں توبہ کرتا ہوں اور میں سب سے پہلا یقین لانے والا ہوں


یعنی الله کے برگزیدہ پیغمبر حضرت موسیٰ علیہ سلام نے جب الله کو دیکھنے کی خواہش ظاہر کی تو الله نے فرمایا کہ تم مجھے نہیں دیکھ سکتے .اور اگر دیکھنے کی کوشش کرو گے تو تمہارا وجود اس کو برداشت نہیں کر سکے گا - تو پھر نبی کریم صل الله علیہ وسلم کا امتی کیسے الله کی رویا (دیکھنے) کو کیسے برداشت کر سکتا ہے ؟؟

اور آپ یہ بھی فرما رہے ہیں کہ :

[hl]یعنی اللہ کی عبادت اس طرح کرنی ہے عبادت کرنے والا اللہ کو دیکھ رہا ہے -[/hl]
کیا موسیٰ علیہ سلام اور انبی کریم کے امتی کے دیکھنے میں فرق ہے - ؟؟؟

یہ بھی بتا دیں کہ کیا کسی امتی (آپ کے نزدیک اولیاء الله ) نے کبھی اس انداز میں الله کو دیکھ کر عبادت کی ہے- یعنی آج تک کوئی بھی امتی یا پیر یا ولی اس "اعلیٰ درجے" پر پہنچا ہے ؟؟

(گزارش ہے کہ نبی کریم صل الله علیہ و آ لہ کا معراج کے موقع پر الله کو دیکھنے یا نہ دیکھنے کے بیان پر یہاں پربات نہ کریں تو بہتر ہو گا ورنہ بات لمبی ہو جائے گی - ویسے بھی وہ ایک معجزہ تھا -) -
 

lovelyalltime

سینئر رکن
شمولیت
مارچ 28، 2012
پیغامات
3,735
ری ایکشن اسکور
2,898
پوائنٹ
436
محترمی!
میں خود تصوف کے ایک سلسلے سے منسلک ہوں لیکن نہ تو میں کونے میں بیٹھ کر صرف ضربیں لگاتا رہتا ہوں اور نہ ہی امت مسلمہ کے آلام و مصائب سے ناواقف ہوں۔ میں علم شریعت حاصل کرتا ہوں۔ دین و دنیا کے ہر کام میں بساط بھر حصہ ڈالنے کی کوشش کرتا ہوں اور امت مسلمہ کے غم میں کڑھتا ہوں۔ میری ہر پوزیشن اور کامیابی پر میرے شیخ مجھے دعا دیتے ہیں۔

۔


کیا آپ کے شیخ حاجی امداد اللہ مہاجر مکی تو نہیں ۔ اگر یہی آپ کے شیخ ہیں تو کیا آپ کا عقیدہ بھی یہی ہے جو یہاں بیان ہوا ہے​
لنک
آپ نے کہا
میں خود تصوف کے ایک سلسلے سے منسلک ہوں
یہ بتا دیں کہ امام ابو حنیفہ رحم اللہ تصوف کے کس سلسلے سے منسلک تھے
 

علی بہرام

مشہور رکن
شمولیت
ستمبر 18، 2013
پیغامات
1,216
ری ایکشن اسکور
162
پوائنٹ
105
محترم -

کیا آپ یہ بتا سکتے ہیں ہیں کہ نبی کریم صل الله علیہ و آ لہ وسلم کی اس قول سے حقیقی طور پر کیا مراد تھی کہ "تو اللہ کی عبادت اس طرح کر کے تو اللہ کو دیکھ رہا ہے"
اس سے مراد تصوف ہے اور یہ میں نہیں کہہ رہا یہ آپ کے امام کا ہی کا قول ہے جو میں آپ کی خدمت میں پیش کرچکا ہوں
ویسے اب تک کسی نے میرے اس پوائنٹ پر اظہار خیال نہیں کیا کہ
علم دین کا وہ کون سا شعبہ ہے جو اس طرح عبادت الہی کرنے کی راہ بتاتا ہے ؟؟؟

کیوں کہ : الله کا تو قرآن میں فرمان ہے:

وَلَمَّا جَاءَ مُوسَىٰ لِمِيقَاتِنَا وَكَلَّمَهُ رَبُّهُ قَالَ رَبِّ أَرِنِي أَنْظُرْ إِلَيْكَ ۚ قَالَ لَنْ تَرَانِي وَلَٰكِنِ انْظُرْ إِلَى الْجَبَلِ فَإِنِ اسْتَقَرَّ مَكَانَهُ فَسَوْفَ تَرَانِي ۚ فَلَمَّا تَجَلَّىٰ رَبُّهُ لِلْجَبَلِ جَعَلَهُ دَكًّا وَخَرَّ مُوسَىٰ صَعِقًا ۚ فَلَمَّا أَفَاقَ قَالَ سُبْحَانَكَ تُبْتُ إِلَيْكَ وَأَنَا أَوَّلُ الْمُؤْمِنِينَ سوره الاعراف ١٤٣
اور جب موسیٰ ہمارے مقرر کردہ وقت پر آئے اور ان کے رب نے ان سے باتیں کیں تو عرض کیا کہ اے میرے رب مجھے دکھا کہ میں تجھے دیکھوں - فرمایا کہ تو مجھے ہر گز نہیں دیکھ سکتا لیکن تو پہاڑ کی طرف دیکھتا رہ اگر وہ اپنی جگہ پر ٹھہرا رہا تو تو مجھے دیکھ سکے گا- پھر جب اس کے رب نے پہاڑ کی طرف تجلی کی تو اس کو ریزہ ریزہ کر دیا اور موسیٰ بے ہوش ہو کر گر پڑے پھر جب ہوش میں آئے تو عرض کی کہ تیری ذات پاک ہے میں تیری جانب میں توبہ کرتا ہوں اور میں سب سے پہلا یقین لانے والا ہوں


یعنی الله کے برگزیدہ پیغمبر حضرت موسیٰ علیہ سلام نے جب الله کو دیکھنے کی خواہش ظاہر کی تو الله نے فرمایا کہ تم مجھے نہیں دیکھ سکتے .اور اگر دیکھنے کی کوشش کرو گے تو تمہارا وجود اس کو برداشت نہیں کر سکے گا - تو پھر نبی کریم صل الله علیہ وسلم کا امتی کیسے الله کی رویا (دیکھنے) کو کیسے برداشت کر سکتا ہے ؟؟

اور آپ یہ بھی فرما رہے ہیں کہ :

[hl]یعنی اللہ کی عبادت اس طرح کرنی ہے عبادت کرنے والا اللہ کو دیکھ رہا ہے -[/hl]
کیا موسیٰ علیہ سلام اور انبی کریم کے امتی کے دیکھنے میں فرق ہے - ؟؟؟

یہ بھی بتا دیں کہ کیا کسی امتی (آپ کے نزدیک اولیاء الله ) نے کبھی اس انداز میں الله کو دیکھ کر عبادت کی ہے- یعنی آج تک کوئی بھی امتی یا پیر یا ولی اس "اعلیٰ درجے" پر پہنچا ہے ؟؟

(گزارش ہے کہ نبی کریم صل الله علیہ و آ لہ کا معراج کے موقع پر الله کو دیکھنے یا نہ دیکھنے کے بیان پر یہاں پربات نہ کریں تو بہتر ہو گا ورنہ بات لمبی ہو جائے گی - ویسے بھی وہ ایک معجزہ تھا -) -
ایک بات یاد رکھنے کی ہے کہ یہاں عبادت الہی کا ذکر ہے
اس کے لئے ذیادہ لمبی بات نہیں کروں گا صحیح بخاری کی ایک طویل حدیث کا چھوٹا سا حصہ پیش کروں گا
حضور نبی کریمﷺ نے ارشاد فرمایا کہ قیامت کے جب تمام کافروں کو جہنم میں ڈال دیا جائے گا یہاں تک کہ وہی باقی رہ جائیں گے جو خالص اللہ کی عبادت کرتے تھے نیک و بد دونوں قسم کے مسلمان ' ان سے کہا جائے گا کہ تم لوگ کیوں رکے ہوئے ہو جب کہ سب لوگ جا چکے ہیں؟ وہ کہیں گے ہم دنیا میں ان سے ایسے وقت جدا ہوئے کہ ہمیں ان کی دنیاوی فائدوں کے لئے بہت زیادہ ضرورت تھی اور ہم نے ایک آواز دینے والے کو سنا ہے کہ ہر قوم اس کے ساتھ ہو جائے جس کی وہ عبادت کرتی تھی اور ہم اپنے رب کے منتظر ہیں۔ بیان کیا کہ پھر اللہ جبار ان کے سامنے اس صورت کے علاوہ دوسری صورت میں آئے گا جس میں انہوں نے اسے پہلی مرتبہ دیکھا ہو گا اور کہے گا کہ میں تمہارا رب ہوں! لوگ کہیں گے کہ تو ہی ہمارا رب ہے اور اس دن انبیاء کے سوا اور کوئی بات نہیں کرے گا۔ پھر پوچھے گا کیا تمہیں اس کی کوئی نشانی معلوم ہے؟ وہ کہیں گے کہ "ساق" (پنڈلی) پھر اللہ تعالیٰ اپنی پنڈلی کھولے گا اور ہر مومن اس کے لیے سجدہ میں گر جائے گا۔ صرف وہ لوگ باقی رہ جائیں گے جو دکھا وے اور شہرت کے لئے اسے سجدہ کرتے تھے ' وہ بھی سجدہ کرنا چاہیں گے لیکن ان کی پیٹھ تختہ کی طرح ہو کر رہ جائے گی۔
صحيح البخاري - الصفحة أو الرقم: 7439

صحیح بخاری کی اس حدیث میں مومنوں کا اللہ تبارک تعالیٰ کو دیکھ کر ایسے پہچان لینے کا اور کیا معنی ہوسکتا ہے کہ یہ مومن اللہ کی عبادت اللہ کو دیکھ کرتے رہے ہونگے جب کہ اللہ تعالیٰ ان مومنوں کے سامنے اس صؤرت کے علاوہ اپنی شان کے لائق جلوہ افروز ہوگا جس میں انھوں نے اللہ تعالیٰ کو پہلی بار دیکھا تھا یعنی جب اللہ نے فرمایا تھا أَلست بربّكم اور سب لوگوں نے اس کے جواب میں فرمایا تھا قالوا بلي‌ ویسے ایک بات تو ہے کہ اس پہلی بار کے دیکھنے کو علم دین کے جس شعبے میں یاد دلانے کی کوشش کی جاتی ہے وہ تصوف ہی ہے آپ کا اس بارے میں کیا خیال ہے ؟؟ کیا آپ کو اس پہلی دفعہ کا دیکھنا بھی یاد ہے ؟؟؟
 

اشماریہ

سینئر رکن
شمولیت
دسمبر 15، 2013
پیغامات
2,684
ری ایکشن اسکور
751
پوائنٹ
290
کیا آپ کے شیخ حاجی امداد اللہ مہاجر مکی تو نہیں ۔ اگر یہی آپ کے شیخ ہیں تو کیا آپ کا عقیدہ بھی یہی ہے جو یہاں بیان ہوا ہے​
لنک
آپ نے کہا
یہ بتا دیں کہ امام ابو حنیفہ رحم اللہ تصوف کے کس سلسلے سے منسلک تھے
لولی بھائی۔
جو بات ہو رہی ہے اسے اوپر پڑھ لیجیے۔ اس کے مطابق بات کر سکتے ہیں تو ویلکم۔ ورنہ معذرت۔
ہر سنجیدہ موضوع میں یہ حرکات نہیں کیا کیجیے۔
 

T.K.H

مشہور رکن
شمولیت
مارچ 05، 2013
پیغامات
1,121
ری ایکشن اسکور
330
پوائنٹ
156
محترم بھائی۔
جب تصوف کی بات کی جاتی ہے تو میں نہیں جانتا کہ آپ لوگوں کے اذہان میں کون سا تصوف ہوتا ہے یا یوں کہہ لیں کہ تصوف کا کیا مفہوم ہوتا ہے۔
دراصل یہ وہ لائن ہے جس میں اہل بدعت و باطل لوگوں نے بہت کچھ شوشے چھوڑے اور مطلب بیان کیے ہیں۔ فقط اپنی مطلب برآری کے لیے۔
اگر ان باطل نظریات کے بارے میں یہ کہا جائے تو درست ہے لیکن یہ اصل تزکیہ نفس کے لیے تصوف نہیں۔
اگر آپ درست راہ تصوف پر چلتے ہوئے افراد کے افعال کو دیکھنا چاہیں تو صرف بر صغیر میں مجدد الف ثانیؒ سے لے کر عبد المجید دین پوریؒ تک دین کی ہر خدمت میں ایسے لوگ نظر آئیں گے جو اپنے شیوخ کے ہاتھ پر بیعت تھے اور سلوک کی راہ کے راہی تھے۔ ان سب کو ایک جانب رکھ کر یہ کہنا کہ اہل تصوف جہاد وغیرہ نہیں کرتے ایک عجیب اور حیرت انگیز بات ہے۔
محترمی!
میں خود تصوف کے ایک سلسلے سے منسلک ہوں لیکن نہ تو میں کونے میں بیٹھ کر صرف ضربیں لگاتا رہتا ہوں اور نہ ہی امت مسلمہ کے آلام و مصائب سے ناواقف ہوں۔ میں علم شریعت حاصل کرتا ہوں۔ دین و دنیا کے ہر کام میں بساط بھر حصہ ڈالنے کی کوشش کرتا ہوں اور امت مسلمہ کے غم میں کڑھتا ہوں۔ میری ہر پوزیشن اور کامیابی پر میرے شیخ مجھے دعا دیتے ہیں۔
لیکن مجھے ترک دنیا کا حکم نہیں دیا گیا۔ آخر کیوں؟ اور یہ صرف میرے ساتھ خاص نہیں بلکہ میں آپ کو صرف کراچی میں موجود ہزاروں لوگ دکھا سکتا ہوں۔

بات یہ ہے کہ منازل سلوک اور اذکار و ادعیہ تو درست ہیں لیکن ان میں کسی کو بند کرنا یا ان کی غلط تشریحات میں پھنسا دینا اہل حق کا کام نہیں اور نہ وہ کرتے ہیں۔
یہ ان اہل باطل نے مشہور کیا ہے جن کا مقصد کچھ اور ہوتا ہے۔
ہاں یہ ضرور یاد رکھنے کی بات ہے کہ بسا اوقات کسی ایک بندے کو کسی خاص کام سے روکا جاتا ہے وقتی طور پر یا مستقل۔ لیکن وہ اس کے خاص حالات کی وجہ سے ہوتا ہے۔ سب کے لیے یہ نہیں ہوتا۔
ازراہ کرم تھوڑا ذہن کو وسیع کیجیے اور جو نہ معلوم ہو وہ جاننے والوں سے پوچھ لیا کریں۔ جو جس لائن کا بندہ ہوتا ہے وہ اس کی زیادہ جانکاری رکھتا ہے۔ اگر آپ اہل ظاہر سے اہل باطن کے بارے میں سوال کریں گے تو یقینا جواب درست نہیں ملے گا۔
بھائی آپ کیوں لوگوں کو تصوف کے چکر میں پھنسانا چاہتے ہیں۔ سیدھی بات ہے کہ ہمارے پاس '' قرآن '' ہے وہ ہمیں ظاہر اور باطن دونوں سنوارنے کا کہتا ہے۔ کیا اللہ اور آخرت پر ایمان ہمارے باطن کو سنوارنے کےلیے کافی نہیں۔ قرآن میں حشر و نشر اور قیامت کا بیان کیا ایک مسلمان کو لرزانے کے لیے کافی نہیں یا اس کے لیے بھی کسی '' شیخ '' کی اشد ضرورت ہے ؟ میں سمجھتا ہوں انسان برائی میں مبتلا ہوتا ہی اس وقت ہے جب اس کا اعتقاد آخرت پر کمزرو ہو جاتا ہے۔ کہنے کو تو میرے پاس بہت کچھ ہے مگر اتنا سمجھ لینا کہ قرآن کے ہوتے ہوئے ہمیں کسی '' شیخ '' کی ضرورت نہیں۔ قرآن میں قیامت ، حشر و نشر ، جہنم ڈرانے کےلیے اور جنت امید پیدا کرنے کے لیے کافی ہے۔
 

اشماریہ

سینئر رکن
شمولیت
دسمبر 15، 2013
پیغامات
2,684
ری ایکشن اسکور
751
پوائنٹ
290
بھائی آپ کیوں لوگوں کو تصوف کے چکر میں پھنسانا چاہتے ہیں۔ سیدھی بات ہے کہ ہمارے پاس '' قرآن '' ہے وہ ہمیں ظاہر اور باطن دونوں سنوارنے کا کہتا ہے۔ کیا اللہ اور آخرت پر ایمان ہمارے باطن کو سنوارنے کےلیے کافی نہیں۔ قرآن میں حشر و نشر اور قیامت کا بیان کیا ایک مسلمان کو لرزانے کے لیے کافی نہیں یا اس کے لیے بھی کسی '' شیخ '' کی اشد ضرورت ہے ؟ میں سمجھتا ہوں انسان برائی میں مبتلا ہوتا ہی اس وقت ہے جب اس کا اعتقاد آخرت پر کمزرو ہو جاتا ہے۔ کہنے کو تو میرے پاس بہت کچھ ہے مگر اتنا سمجھ لینا کہ قرآن کے ہوتے ہوئے ہمیں کسی '' شیخ '' کی ضرورت نہیں۔ قرآن میں قیامت ، حشر و نشر ، جہنم ڈرانے کےلیے اور جنت امید پیدا کرنے کے لیے کافی ہے۔
قابل صد احترام بھائی۔ اس بات کا کسی حد تک جواب میں ایک گزشتہ پوسٹ میں دے چکا ہوں۔
صحیح تصوف کا اصل مقصد اس کی عملی پریکٹس ہے صرف۔ اس میں جو بے شمار مشکلات آتی ہیں کبھی معاشرے کے حوالے سے، کبھی والدین، کبھی اعزا و اقارب اور کبھی اپنے نفس کے حوالے سے ان کی رہنمائی اور ان کے خلاف اٹھنے کا حوصلہ انسان ایک ایسے شخص سے حاصل کرتا ہے جو ان راہوں سے گزر چکا ہوتا ہے۔
اسی لیے آسان الفاظ میں یوں سمجھایا جاتا ہے کہ ایک متبع سنت و شریعت فرد (شیخ) تلاش کرو۔ اس کے ساتھ لگے رہو اور خود کو اس کے جیسا بنا لو۔
لیکن اگر کوئی یہ فاصلہ بغیر شیخ کے طے کر سکتا ہے تو اسےضرورت بھی نہیں۔ شرط یہ ہے کہ کر کے دیکھے۔
یہ نہ ہو کہ جہاں وقت ہو سختی کا وہاں پھسل جائے اور جہاں وقت ہو نرمی کا وہاں اڑ جائے۔ اگر ایسا ہو تو پھر ہم الجلساء لا یشقی جلیسہم سے رہنمائی لے لے۔


یہ اسی طرح ہے جیسے ایک انسان جو علم نہیں رکھتا کسی عالم پر اعتماد کر کے اس سے علم حاصل کرتا ہے اور جہاں ضرورت ہو قرآن و حدیث کو اس سے سمجھتا ہے۔
اسی طرح جو شخص عمل میں ڈگمگاتا ہے وہ ایک شیخ کی صحبت حاصل کر لیتا ہے۔ اسے اپنی کمزوریوں کی اطلاع دیتا ہے اور اس کے مشورے پر عمل کر لیتا ہے۔
قرآن میں حشر نشر کا بیان اور احادیث میں وعد اور وعید موجود ہیں۔ لیکن کیا میں آپ کو ایسے لوگ دکھاؤں جو ان کا درس بھی دیتے ہیں اور انتہائی قبیح افعال میں مبتلا بھی ہیں؟ وہ سود بھی لیتے ہیں، عمل قوم لوط بھی ان سے سرزد ہوتا ہے اور دیگر شنیع برائیاں بھی ان میں پائی جاتی ہیں۔
ٹھیک ہے کہ انسان خطا کا پیکر ہے لیکن وہ ان افعال کو چھوڑ نہیں پاتے۔ تو ایسے وقت میں ایک مصلح کے ہاتھ میں ہاتھ دینے اور اس سے رہنمائی لینے میں حرج کیا ہے؟
آخر کیا وجہ ہے کہ اللہ پاک نے جب یا ایہا الذین آمنوا اتقوا اللہ فرمایا تو ساتھ وکونوا مع الصادقین بھی ارشاد فرمادیا؟ کیا یہ کافی نہیں تھا کہ اللہ رب العزت یوں فرمادیتے یا ایہا الذین آمنوا اتقوا اللہ و تدبروا فی الکتاب المجید؟
 

خضر حیات

علمی نگران
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 14، 2011
پیغامات
8,773
ری ایکشن اسکور
8,473
پوائنٹ
964
اس لڑی کو شروع ہوئے تقریبا 6 ماہ ہو چکے ہیں ۔ لیکن بات ابھی تک کسی نتیجے پر نہیں پہنچی ۔

اس طرح کے موضوعات دیکھ کر ایک سوچ ذہن میں آتی ہے کہ ان کو ’’ مناظرانہ ‘‘ اصول و ضوابط کے مطابق چلانا چاہیے ۔
مثلا فریقین پہلے طے کریں کہ کسی اختلافی مسئلہ میں حقیقت تک پہنچنے کے لیے بات کہاں سے شروع ہو اور کہاں پر ختم ہو ؟
پھر ایک حکم مقرر ہو جو فریقین کو شروط اور قواعد و ضوابط کی پابندی پر مجبور کرے ۔
غیر ضروری باتیں اور غیر متعلقہ باتیں نہ ہوں ۔
فریق مخالف کے دلائل کا جواب دوسرے فریق سے دلوایا جائے ۔
پھر جوں جوں بات آگے بڑھتی جائے ۔ پہلی گفتگو کا خلاصہ نکالا جائے ۔
اور اگر دو اراکین یا ایک سے زیادہ اراکین چاہیں کہ بات انہیں کے ساتھ مخصوص ہو اور کوئی تیسرا آدمی اس میں دخل اندازی نہ کرے تو اس کی بھی سہولت ہونی چاہیے ۔

مناظرے کا لفظ سن کر عموما ہونے والے مناظرات جو تقریری ( شفہی ) ہوتے ہیں ، کے تناظر میں کوئی اچھا تصور ذہن میں نہیں آتا ۔ لیکن حقیقت یہ ہے کہ ’’ تحریری مناظرہ ‘‘ تقریری سے بہت مختلف ہے ۔ اور بہت مفید بھی رہتا ہے ۔ مولانا عبد المنان نورپوری صاحب عموما اسی کو ترجیح دیا کرتے تھے اور ماشاء اللہ انہوں نے اس طریقے پر بہت کامیاب تحریری مناظرے کیے ہیں ۔
 

محمد ارسلان

خاص رکن
شمولیت
مارچ 09، 2011
پیغامات
17,861
ری ایکشن اسکور
41,093
پوائنٹ
1,155
سوال: کیا صحابہ کرام رضی اللہ عنھم اجمعین کسی تصوف وغیرہ سے منسلک تھے؟
مسلمان کا جواب: ہرگز نہیں
سوال: کیا صحابہ کرام رضی اللہ عنھم اجمعین سے بڑھ کر کوئی اِس اُمت میں نیک ہو سکتا ہے؟
مسلمان کا جواب: ہرگز نہیں
سوال: کیا موجودہ دور کے صوفی صحابہ کرام رضی اللہ عنھم اجمعین جیسے متقی ہو سکتے ہیں؟
مسلمان کا جواب: موجودہ دور کے صوفی اگر صحیح معنوں میں اللہ کی عبادت کریں اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی اتباع کریں تب بھی اگر اُحد پہاڑ جتنا سونا اللہ کی راہ میں خرچ کر دیں تو ایک صحابی کے تھوڑے سے کھجور صدقہ کئے جانے کے ثواب کو نہیں پہنچ سکتے، چہ جائیکہ صحابی کے درجے کو پہنچیں۔
سوال: تو پھر مان لینا چاہئے کہ صحابہ کرام رضی اللہ عنھم تصوف سے منسلک نہیں تھے، اور صرف قرآن و سنت پر عمل کر کے ان کو یہ درجات ملے؟
مسلمان کا جواب: بالکل
سوال: تو پھر تصوف کی کوئی ضرورت نہ رہی، اور یہ ایک بدعت ہے؟
مسلمان کا جواب: بالکل
 

T.K.H

مشہور رکن
شمولیت
مارچ 05، 2013
پیغامات
1,121
ری ایکشن اسکور
330
پوائنٹ
156
قابل صد احترام بھائی۔ اس بات کا کسی حد تک جواب میں ایک گزشتہ پوسٹ میں دے چکا ہوں۔


یہ اسی طرح ہے جیسے ایک انسان جو علم نہیں رکھتا کسی عالم پر اعتماد کر کے اس سے علم حاصل کرتا ہے اور جہاں ضرورت ہو قرآن و حدیث کو اس سے سمجھتا ہے۔
اسی طرح جو شخص عمل میں ڈگمگاتا ہے وہ ایک شیخ کی صحبت حاصل کر لیتا ہے۔ اسے اپنی کمزوریوں کی اطلاع دیتا ہے اور اس کے مشورے پر عمل کر لیتا ہے۔
قرآن میں حشر نشر کا بیان اور احادیث میں وعد اور وعید موجود ہیں۔ لیکن کیا میں آپ کو ایسے لوگ دکھاؤں جو ان کا درس بھی دیتے ہیں اور انتہائی قبیح افعال میں مبتلا بھی ہیں؟ وہ سود بھی لیتے ہیں، عمل قوم لوط بھی ان سے سرزد ہوتا ہے اور دیگر شنیع برائیاں بھی ان میں پائی جاتی ہیں۔
ٹھیک ہے کہ انسان خطا کا پیکر ہے لیکن وہ ان افعال کو چھوڑ نہیں پاتے۔ تو ایسے وقت میں ایک مصلح کے ہاتھ میں ہاتھ دینے اور اس سے رہنمائی لینے میں حرج کیا ہے؟
آخر کیا وجہ ہے کہ اللہ پاک نے جب یا ایہا الذین آمنوا اتقوا اللہ فرمایا تو ساتھ وکونوا مع الصادقین بھی ارشاد فرمادیا؟ کیا یہ کافی نہیں تھا کہ اللہ رب العزت یوں فرمادیتے یا ایہا الذین آمنوا اتقوا اللہ و تدبروا فی الکتاب المجید؟
اگر آپ شیخ کی ضرورت پر زور دیتے ہیں تو کیا نبی ﷺ کا اسوہ حسنہ شیخ سے بڑھ کر نہیں ؟ جبکہ اس بات کا سو فیصد امکان ہے کہ شیخ پر بھی شیطان کا حملہ ہو سکتا ہے وہ بھی غلطی کر سکتا ہے اس لیے اللہ تعالٰی نے ہمیں نبی ﷺ کی صورت میں ایسا نمونہ دیا ہے کہ ہمیں اب کسی شیخ کی ضرورت نہیں ہے۔ اگر کوئی قیامت ، حشر و نشر یا جہنم کا تذکرہ پڑھ کر بھی نصیحت نہیں پکڑتا تو اس میں قرآن کا نہیں بلکہ اسکا اپنا قصور ہے۔ آپ مجھے ایسے لوگ دکھانے کی زحمت نہ کریں جو نصیحت نہیں پکڑتے میں بھی ایسے لوگوں کو جانتا ہوں مذکورہ آیت میں بھی سچوں کا ساتھ دینے کا حکم ہے کسی شیخ کی صحبت اختیار کرنے کا نہیں۔ دوسری آیت قرآن میں اس طرح آئی ہے " اَفَلَا يَتَدَبَّرُوْنَ الْقُرْاٰنَ اَمْ عَلٰي قُلُوْبٍ اَقْفَالُهَا 24؀ "کیا یہ قرآن میں غورو فکر نہیں کرتے؟ یا ان کے دلوں پر ان کے تالے لگ گئے ہیں '' ۔ لیجئے اس آیت میں آپ کا جواب آگیا۔ اس آیت میں ''قرآن مجید'' ہی میں تدبر کرنے کا حکم دیا گیا ہے اور اس میں کسی کی بھی تخصیص نہیں کی گئی ہے۔ لگتا ہے آپ نے صرف شیخ کی ہی صحبت اختیار کی قرآن میں تدبر نہیں کیا۔ میں آپ کو قرآن میں غور و فکر کرنے کی دعوت دیتا ہوں۔
 
Top