T.K.H
مشہور رکن
- شمولیت
- مارچ 05، 2013
- پیغامات
- 1,123
- ری ایکشن اسکور
- 330
- پوائنٹ
- 156
اس سے مراد تصوف ہے اور یہ میں نہیں کہہ رہا یہ آپ کے امام کا ہی کا قول ہے جو میں آپ کی خدمت میں پیش کرچکا ہوں
ویسے اب تک کسی نے میرے اس پوائنٹ پر اظہار خیال نہیں کیا کہ
علم دین کا وہ کون سا شعبہ ہے جو اس طرح عبادت الہی کرنے کی راہ بتاتا ہے ؟؟؟
ایک بات یاد رکھنے کی ہے کہ یہاں عبادت الہی کا ذکر ہے
اس کے لئے ذیادہ لمبی بات نہیں کروں گا صحیح بخاری کی ایک طویل حدیث کا چھوٹا سا حصہ پیش کروں گا
حضور نبی کریمﷺ نے ارشاد فرمایا کہ قیامت کے جب تمام کافروں کو جہنم میں ڈال دیا جائے گا یہاں تک کہ وہی باقی رہ جائیں گے جو خالص اللہ کی عبادت کرتے تھے نیک و بد دونوں قسم کے مسلمان ' ان سے کہا جائے گا کہ تم لوگ کیوں رکے ہوئے ہو جب کہ سب لوگ جا چکے ہیں؟ وہ کہیں گے ہم دنیا میں ان سے ایسے وقت جدا ہوئے کہ ہمیں ان کی دنیاوی فائدوں کے لئے بہت زیادہ ضرورت تھی اور ہم نے ایک آواز دینے والے کو سنا ہے کہ ہر قوم اس کے ساتھ ہو جائے جس کی وہ عبادت کرتی تھی اور ہم اپنے رب کے منتظر ہیں۔ بیان کیا کہ پھر اللہ جبار ان کے سامنے اس صورت کے علاوہ دوسری صورت میں آئے گا جس میں انہوں نے اسے پہلی مرتبہ دیکھا ہو گا اور کہے گا کہ میں تمہارا رب ہوں! لوگ کہیں گے کہ تو ہی ہمارا رب ہے اور اس دن انبیاء کے سوا اور کوئی بات نہیں کرے گا۔ پھر پوچھے گا کیا تمہیں اس کی کوئی نشانی معلوم ہے؟ وہ کہیں گے کہ "ساق" (پنڈلی) پھر اللہ تعالیٰ اپنی پنڈلی کھولے گا اور ہر مومن اس کے لیے سجدہ میں گر جائے گا۔ صرف وہ لوگ باقی رہ جائیں گے جو دکھا وے اور شہرت کے لئے اسے سجدہ کرتے تھے ' وہ بھی سجدہ کرنا چاہیں گے لیکن ان کی پیٹھ تختہ کی طرح ہو کر رہ جائے گی۔
صحيح البخاري - الصفحة أو الرقم: 7439
صحیح بخاری کی اس حدیث میں مومنوں کا اللہ تبارک تعالیٰ کو دیکھ کر ایسے پہچان لینے کا اور کیا معنی ہوسکتا ہے کہ یہ مومن اللہ کی عبادت اللہ کو دیکھ کرتے رہے ہونگے جب کہ اللہ تعالیٰ ان مومنوں کے سامنے اس صؤرت کے علاوہ اپنی شان کے لائق جلوہ افروز ہوگا جس میں انھوں نے اللہ تعالیٰ کو پہلی بار دیکھا تھا یعنی جب اللہ نے فرمایا تھا أَلست بربّكم اور سب لوگوں نے اس کے جواب میں فرمایا تھا قالوا بلي ویسے ایک بات تو ہے کہ اس پہلی بار کے دیکھنے کو علم دین کے جس شعبے میں یاد دلانے کی کوشش کی جاتی ہے وہ تصوف ہی ہے آپ کا اس بارے میں کیا خیال ہے ؟؟ کیا آپ کو اس پہلی دفعہ کا دیکھنا بھی یاد ہے ؟؟؟
﷽
دیدارِ الٰہی کا تصور قرآن کی نظر میں
دنیا میں دیدارِ الٰہیاللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے:-
اور جب موسیٰ علیہ السلام ہمارے وقت پر آئے اور ان کے رب نے ان سے باتیں کیں تو عرض کیا کہ اے میرے پروردگار اپنا دیدار مجھ کو کرا دیجئے کہ میں ایک نظر تم کو دیکھ لوں ارشاد ہوا کہ تم مجھ کو ہرگز نہیں دیکھ سکتے لیکن تم اس پہاڑ کی طرف دیکھتے رہو وہ اگر اپنی جگہ پر برقرار رہا تو تم بھی مجھے دیکھ سکو گے۔ پس جب ان کے رب نے پہاڑ پر تجلی فرمائی تو تجلی نے اس کے پرخچے اڑا دیئے اور موسیٰ (علیہ السلام) بےہوش ہو کر گر پڑے پھر جب ہوش میں آئے تو عرض کیا، بیشک آپ کی ذات پاک ہے میں آپ کی جناب میں توبہ کرتا ہوں اور میں سب سے پہلے آپ پر ایمان لانے والا ہوں ۔
سورت الاعراف آیت نمبر 143
اس آیت میں اللہ تعالیٰ نے حضرت موسیٰؑ کی دیدارِ الہٰی کی خواہش کا تذکرہ فرمایا ہے کہ جب اللہ تعالیٰ نے اپنی تجلی کا ظہور کوہِ طور پہاڑ پر ظاہر فرمایا تو حضرت موسٰیؑ پہاڑ کو ریزہ ریزہ دیکھ کر بے ہوش ہو گئے اس سے یہ بھی ظاہر ہوتا ہے کہ حضرت موسٰیؑ نے تجلی نہیں بلکہ پہاڑ کا مشاہدہ فرمایا تھا کیوں کہ آیت کے الفاظ ہیں'' لیکن تم اس پہاڑ کی طرف دیکھتے رہو وہ اگر اپنی جگہ پر برقرار رہا تو تم بھی مجھے دیکھ سکو گے '' یہ نہیں فرمایا کہ '' میری تجلی کی طرف دیکھو اگر تم اسکو برداشت کرگئے تو پھر میرا دیدار کر سکو گے'' کیوں کہ تجلی ظاہر فرمانے کےلیے کا اشارہ کوہِ طور پہاڑ کی طرف ہے نہ کہ حضرت موسٰیؑ کی طرف۔
اس سے مزید پتہ چلتا ہے کہ جب اللہ تعالیٰ کا دیدار براہِ راست ممکن نہیں تو بلا واسطہ کیونکر ممکن ہو سکتا ہے ؟ لہذا جب حضرت موسٰیؑ جیسا عظیم المرتبت اور جلیل القدر پیغمبر بھی تجلی کے ظہور کے وقت کوہِ طور پہاڑ کو ریزہ ریزہ دیکھ کر بے ہوش گئے تو جو لوگ '' تجلیاتِ ربانیہ '' کا بلاواسطہ مشاہدہ ہونے یا کرنے کا دعوٰی کرتے ہیں کیا اللہ تعالیٰ کے قہر و غضب سے بے خوف ہیں ؟ ورنہ اللہ تعالیٰ کا اس دنیا میں بلا واسطہ یا براہِ راست تو اور دور کی بات ہے۔
آخرت میں دیدارِ الٰہی
اللہ تعالٰی کا ارشاد ہے :-
اس روز بہت سے چہرے ترو تازہ اور بارونق ہوں گے اپنے رب کی طرف دیکھتے ہونگے۔
سورت القیامتہ آیت نمبر 23- 22
اس آیت میں اللہ تعالٰی نے قیامت والے دن اہلِ ایمان کے دیدارِ الٰہی سے مشرف ہرنے کا ذکر فرمایا ہے یہ دیدار مرنے کے بعد آخرت میں صرف اہلِ ایمان کو نصیب ہو گا اگرچہ اہلِ ایمان میں بھی کچھ گناہگار ہونگے مگر وہ کفر و شرک کی غلاظتوں سے پاک ہونگے چناچہ اللہ تعالٰی ان کو بھی اپنے دیدار سے محروم نہیں رکھے گا۔ اس آیت میں بھی دیدارِ الٰہی صرف آخرت سے مختص ہے۔
مزید فرمایا :-
اس دن جھٹلانے والوں کی بڑی خرابی ہے جو جزا اور سزا کے دن کو جھٹلاتے رہے اسے صرف وہی جھٹلاتا ہے جو حد سے آگے نکل جانے والا (اور) گناہگار ہوتا ہے جب اس کے سامنے ہماری آیتیں پڑھی جاتی ہیں تو کہہ دیتا ہے کہ یہ اگلوں کے افسانے ہیں یوں نہیں بلکہ ان کے دلوں پر ان کے اعمال کی وجہ سے زنگ (چڑھ گیا) ہے ہرگز نہیں یہ لوگ اس دن اپنے رب سے اوٹ میں رکھے جائیں گے۔
سورت المطففین آیت نمبر 15- 10
جیسا کہ اس آیت سے ظاہر ہوتا ہے کہ وہ لوگ جو روزِ آخرت کا انکار کرتے ، حد سے گزرتے ، شریعت کا مذاق اڑاتے اور گناہوں کی دلدل میں پھنسے رہتے ہیں اور اس نتیجے میں ان کے برے اعمال کا زنگ انکے دلوں پر جما رہتا ہے تو ایسے لوگ اس قابل نہیں ہونگے کہ ان کو آخرت میں دیدارِ الٰہی کے اعزاز سے نوازا جائے۔ کفر و شرک کا یہ حجاب ہی ان کو دیدارِ الٰہی سے ہمیشہ کےلیے محروم رکھے گا۔
قابلِ غور نکات
اگر ان تینوں آیات کو ملا کر پڑھا اور سمجھا جائے تو درج ذیل نکات سامنے آتے ہیں:-
دنیا میں کسی کے لیے بھی دیدارِ الٰہی ممکن نہیں قطع نظر کہ وہ ہستی چاہے نبی ، رسول، صحابی یا ولی ہی کی کیوں نہ ہو۔دیدارِ الٰہی آخرت میں صرف اہلِ ایمان کےلیے مخصوص ہے قطع نظر کہ وہ گناہگار ہوں یا نیکوکار۔صرف کفار و مشرکین آخرت میں دیدارِ الٰہی سے محروم رکھے جائیں گے۔
آخر میں یہ بات واضح ہو جاتی ہے کہ آخرت میں دیدارِ الٰہی اللہ تعالٰی کا سب سے بڑا فضل و کرم ہے یہ نہ تو ہمارے عمل کا صلہ ہے اور نہ ہی عمل اس بات کو لازم ہے کہ دیدارِ الٰہی ہو۔ لہذا اس دنیا میں کسی بھی صورت یا حالت میں دیدارِ الٰہی عقل کے بھی خلاف ہے اور قرآن سے بھی متصادم ہے۔