ویسے آپس کی بات ہے امام مسلم نے صحیح مسلم میں بَاب صِحَّةِ الِاحْتِجَاجِ بِالْحَدِيثِ الْمُعَنْعَنِمیں یہ ہائی لائٹ کردہ نظریہ اپنے کس ہم عصر کی جانب منسوب کیا ہے ؟؟؟
امام مسلم فرماتے ہیں کہ ہمارے بعض ہمعصر محدثین نے سند حدیث کی صحت اور سقم کے بارے میں ایک ایسی غلط شرط عائد کی ہے جس کا اگر ہم ذکر نہ کرتے اور اس کا ابطال نہ کرتے تو یہی زیادہ مناسب اور عمدہ تجویز ہوتی اس لئے کہ قول باطل ومردود کی طرف التفات نہ کرنا ہی اس کو ختم کرنے اور اس کے کہنے والے کا نام کھو دینے کے لئے بہتر اور موزوں ومناسب ہوتا ہے تاکہ کوئی جاہل اور ناواقف اس قول باطل کو قول صواب وصحیح نہ سمجھ لے مگر ہم انجام کی برائی سے ڈرتے ہیں اور دیکھتے ہیں کہ جاہل نئی نئی باتوں کے زیادہ دلدادہ اور عجیب وغریب شرائط کے شیدا ہوتے ہیں اور غلط بات پر جلد اعتقاد کر لیتے ہیں حالانکہ وہ بات علماء راسخین کے نزدیک ساقط الاعتبار ہوتی ہے لہذا اس نظریہ کے پیش نظر ہم نے معاصرین کے قول باطل کی غلطی بیان کرنا اور اس کو رد کرنا اس کا فساد وبطلان اور خرایباں ذکر کرنا لوگوں کے لئے بہتر اور فائدہ مند خیال کیا تاکہ عام لوگ غلط فہمی سے محفوظ رہیں اور ان کا انجام بھی نیک ہو اور اس شخص نے جس کے قول سے ہم نے بات مذکور شروع کی ہے اور جس کے فکر وخیال کو ہم نے باطل قرار دیا ہے یوں گمان اور خیال کیا ہے کہ جس حدیث کی سند میں فلاں عن فلاں ہو اور ہم کو یہ بھی معلوم ہو کہ وہ دونوں معاصر ہیں اس لئے کہ ان دونوں کی ملاقات ممکن ہے اور حدیث کا سماع بھی البتہ ہمارے پاس کوئی دلیل یا روایت ایسی موجود نہ ہو جس سے قطعی طور پر یہ بات ثابت ہو سکے کہ ان دونوں کی ایک دوسرے سے ملاقات ہو اور ایک نے دوسرے سے بالمشافہ اور بلاواسطہ حدیث سنی تو ایسی اسناد سے جو حدیث روایت کی جائے وہ حدیث ان لوگوں کے ہاں اس وقت تک قابل اعتبار اور حجت نہ ہوگی جب تک انہیں اس بات کا یقین نہ ہوجائے کہ وہ دونوں اپنی عمر اور زندگی میں کم از کم ایک بار ملے تھے یا ان میں سے ایک شخص نے دوسرے سے بالمشافہ حدیث سنی تھی یا کوئی ایسی روایت ہو جس سے یہ ثابت ہو کہ ان دونوں کی زندگی میں کم از کم ایک بار ملاقات ہوئی اور اگر نہیں تو کسی دلیل سے ان کی ملاقات کا یقین ہو سکے نہ کسی روایت سے ان کی ملاقات اور سماع ثابت ہو تو ان کے نزدیک اس روایت کا قبول کرنا اس وقت تک موقوف رہے گا جب تک کہ کسی روایت آخر سے ان کی ملاقات اور سماع ثابت نہ ہو جائے خواہ ایسی روایات قلیل ہوں یا کثیر ۔ اللہ تجھ پر رحم کرے تو نے یہ قول اسناد کے باب میں ایک نیا ایجاد کیا ہے جو پیشرو محدثین میں سے کسی نے نہیں کہا اور نہ علماء حدیث نے اس کی موافقت کی ہے
السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ!
بھائی جان! علم الحدیث آپ کے بس کا روگ نہیں! ذرا غور سے یہ بات پڑھیں، اور اچھی طرح ذہن نشین کر لیں!
امام بخاری نے اپنی صحیح میں بالکل اس بات کا اہتمام کیا ہے کہ صرف معاصرت نہیں بلکہ لقاء بھی ثابت ہو، اس بناء پر صحیح بخاری کی حدیث امام بخاری کے متعین کردہ اس معیار کے مطابق ہیں، جو معیار انہوں نے اپنی صحیح میں درج کرنے کے لئے مقرر کیا تھا! امام بخاری کا اپنی صحیح میں درج کرنے کے لئے ایک معیار کو مقرر کرنا ایسا ہی ہے کہ جیسے کوئی، ایک کتاب لکھے اور اس کتاب میں درج کرنے کے لئے وہ یہ مقرر کرے کہ وہ صرف احادیث قدسیہ کو ہی اپنی کتاب میں درج کرے گا، اس کا معنی یہ نہیں کہ وہ احادیث قدسیہ کے علاوہ باقی تمام احادیث کو منکر و ضعیف قرار دے رہا ہے!
اب اس با ت کو اچھی طرح پڑھ کر ذہن نشین کر لیں، اگر ذہن نشین کرنا مشکل ہو، تو اسے موم جامہ میں باندھ کر رکھیں، اور جب کبھی اس موضوع پر کچھ لکھنا چاہو، تو اسے پڑھ لیا کریں!