- شمولیت
- اپریل 27، 2013
- پیغامات
- 26,585
- ری ایکشن اسکور
- 6,763
- پوائنٹ
- 1,207
غلط فہمی
برق صاحب تحریر فرماتے ہیں:
ایک مرتبہ امام اعمش نے طلبہ حدیث سے کہا مجھے حدیث حنظل سے بھی زیادہ کڑی معلوم ہوتی ہے تم جس شخص کے قریب جاتے ہو، اسے جھوٹ بولنے (یعنی احادیث پڑھنے) کی ترغیب دیتے ہو۔ (دو اسلام ص ۶۸)
ازالہ
امام اعمش کے اصل الفاظ یہ ہیں:
لْد رود تموہ حتی صارفی حلقی امر من العلقم ما عطفتم علی احدا لا حما تموہ علی الکذب ۔ (برق اسلام ص ۱۲۵)
یعنی تم نے اس بات کو رد کرکے میرے حلق کو اندرائن سے بھی زیادہ تلخ بنا دیا ہے، تم جس شخص کا رخ کرتے ہو اسے جھوٹ بلوا کر ہی چھوڑتے ہو۔
یعنی اصحاب الحدیث نے ان کی وہ روایت جس میں انہوں نے تدلیس کی تھی رد کردی، تو انہوں نے کہا کیا تحدیث کرکے جھوٹ بولوں، تم تو مجھ سے جھوٹ بلوانا چاہتے ہو، یہ بات مجھے بہت کڑوی معلوم ہوتی ہے، بہرحال اہلحدیث نے تدلیس کی وجہ سے امام اعمش پر اعتراض کیا، تو اس وقت انہوں نے یہ فرمایا کہ جو کچھ ہے وہ یہ ہے میں جھوٹ تو بول نہیں سکتا کہ اپنی بات کی خاطر تحدیث کردوں، اور تم ضد دلا کر ایسا کرنے پر مجبور کرتے ہو (نوٹ: مدلس کی روایت بغیر تحدیث کے ناقابل اعتبار ہوتی ہے) پھر اس کی سند میں احمد بن فضل منکر الحدیث ہے (جامع بیان العلم جلد ۲ ص ۱۳۲) لہٰذا یہ روایت ہی جھوٹی ہے۔
غلط فہمی
برق صاحب تحریر فرماتے ہیں:
سعید القطان نے اپنے بیٹے سے کہا کہ یہ صوفی و زاہد لوگ احادیث کے معاملہ میں سب سے بڑے جھوٹے واقع ہوئے ہیں۔ (دو اسلام ص ۶۹)
ازالہ
یہ تو فن حدیث کی کرامت ہے کہ ان صوفی اور زاہد لوگوں کو بھی نہ چھوڑا، ان کے زہد نے محدثین کو مرعوب نہیں کیا، بلکہ محدثین نے ان کو پوری طرح جکڑ لیا، یہ لوگ زہد و تقویٰ کی وجہ سے مرجع انام ہوسکتے تھے اور ان کی طرف مشکل سے تحریف کا گمان ہوسکتا تھا، لہٰذا یہ لوگ دین کے لیے بڑے خطرناک تھے۔
برق صاحب تحریر فرماتے ہیں:
ایک مرتبہ امام اعمش نے طلبہ حدیث سے کہا مجھے حدیث حنظل سے بھی زیادہ کڑی معلوم ہوتی ہے تم جس شخص کے قریب جاتے ہو، اسے جھوٹ بولنے (یعنی احادیث پڑھنے) کی ترغیب دیتے ہو۔ (دو اسلام ص ۶۸)
ازالہ
امام اعمش کے اصل الفاظ یہ ہیں:
لْد رود تموہ حتی صارفی حلقی امر من العلقم ما عطفتم علی احدا لا حما تموہ علی الکذب ۔ (برق اسلام ص ۱۲۵)
یعنی تم نے اس بات کو رد کرکے میرے حلق کو اندرائن سے بھی زیادہ تلخ بنا دیا ہے، تم جس شخص کا رخ کرتے ہو اسے جھوٹ بلوا کر ہی چھوڑتے ہو۔
یعنی اصحاب الحدیث نے ان کی وہ روایت جس میں انہوں نے تدلیس کی تھی رد کردی، تو انہوں نے کہا کیا تحدیث کرکے جھوٹ بولوں، تم تو مجھ سے جھوٹ بلوانا چاہتے ہو، یہ بات مجھے بہت کڑوی معلوم ہوتی ہے، بہرحال اہلحدیث نے تدلیس کی وجہ سے امام اعمش پر اعتراض کیا، تو اس وقت انہوں نے یہ فرمایا کہ جو کچھ ہے وہ یہ ہے میں جھوٹ تو بول نہیں سکتا کہ اپنی بات کی خاطر تحدیث کردوں، اور تم ضد دلا کر ایسا کرنے پر مجبور کرتے ہو (نوٹ: مدلس کی روایت بغیر تحدیث کے ناقابل اعتبار ہوتی ہے) پھر اس کی سند میں احمد بن فضل منکر الحدیث ہے (جامع بیان العلم جلد ۲ ص ۱۳۲) لہٰذا یہ روایت ہی جھوٹی ہے۔
غلط فہمی
برق صاحب تحریر فرماتے ہیں:
سعید القطان نے اپنے بیٹے سے کہا کہ یہ صوفی و زاہد لوگ احادیث کے معاملہ میں سب سے بڑے جھوٹے واقع ہوئے ہیں۔ (دو اسلام ص ۶۹)
ازالہ
یہ تو فن حدیث کی کرامت ہے کہ ان صوفی اور زاہد لوگوں کو بھی نہ چھوڑا، ان کے زہد نے محدثین کو مرعوب نہیں کیا، بلکہ محدثین نے ان کو پوری طرح جکڑ لیا، یہ لوگ زہد و تقویٰ کی وجہ سے مرجع انام ہوسکتے تھے اور ان کی طرف مشکل سے تحریف کا گمان ہوسکتا تھا، لہٰذا یہ لوگ دین کے لیے بڑے خطرناک تھے۔