- شمولیت
- اپریل 27، 2013
- پیغامات
- 26,585
- ری ایکشن اسکور
- 6,763
- پوائنٹ
- 1,207
غلط فہمی
برق صاحب تحریر فرماتے ہیں:
دل کے دو حصے ہیں... دل ایک پمپ ہے... یہ صرف گوشت کا ایک لوتھڑا ہے، جو ہاتھ پاؤں کی طرح لذت والم کا احساس نہیں نہیں کرتا، نہ ہی وہ خیر و شر کا محرک، تمام افکار، جذبات، خیالات اور تصورات کا مرکز دماغ ہے ، خیر و شر کی تحریک یہیں پیدا ہوتی ہے ، اور ارادے یہیں بندھتے ہیں اگر جبریل کا مقصد نبع شر کو مٹانا تھا ، تو دماغ کو چیرتا نہ کہ دل کو ... اور دماغ کا مسکن کھوپری ہے، نہ کہ سینہ۔ (دو اسلام ص ۵۔۷۶)
ازالہ
ڈاکٹر سید محمد جمیل اور محمد فاروق قریشی لکھتے ہیں:
دل انسانی جسم میں سرمایہ حیات ہے، اگر کسی چوٹ کی وجہ سے دل کی حرکت بند ہو جائے، تو فوراً موت واقع ہوجاتی ہے۔ (علم الابدان ص ۱۹۲)
ایسا کبھی نہیں ہوتا کہ دل کی حرکت بند ہو جائے، اور انسان زندہ رہے ، اور اس کا دماغ رنج والم، غصہ و گھبراہٹ وغیرہ کا احساس کرتا رہے، ہاں ایسا ہوتا ہے کہ دماغ بے کار ہو جائے لیکن دل اپنا کام کرتا رہے، اور انسان ایک عرصہ تک زندہ رہے۔
قرآن مجید کی تائید
{ قُلْ مَنْ کَانَ عَدُوًّا لِّجِبْرِیْلَ فَاِنَّہٗ نَزَّلَہٗ عَلٰی قَلْبِکَ بِاِذْنِ اللہِ } (البقرۃ)
کون شخص جبریل کا دشمن ہوسکتا ہے ، کیونکہ جبریل تو وہ ہے جس نے یہ قرآن تیرے دل پر اللہ کے حکم سے نازل کیا۔
بتائیے جب تمام افکار، خیالات اور تصورات کا مرکز دماغ ہے، تو قرآن کا نزول دماغ پر ہونا چاہیے تھا، نہ کہ دل پر جب دل کو لذت و الم کا احساس نہیں ہوتا، نہ وہ خیر و شر کا محرک ہے، اور محض گوشت کا ایک لوتھڑا ہے تو اس پر قرآن کا نزول کیا معنی رکھتا ہے، جو اعتراض حدیث پر تھا، وہی قرآن پر ہوگا ہاں اگر تاویل کرکے آیت میں دل کے معنی دماغ کئے جائیں، تو پھر انصافاً بتائیے، کیا اس قسم کی تاویل حدیث میں نہیں ہوسکتی، لیکن اس تاویل سے حقیقت کو نہیں بدلا جاسکتا، کیونکہ دوسری آیت میں اس سے زیادہ صراحت ہے، ارشاد باری ہے:
{ اِنَّ اللہَ عَلِیْمٌ بِذَاتِ الصُّدُوْرِ } (اٰل عمران)
اللہ سینہ کی پوشیدہ باتوں سے واقف ہے۔
ایک اور آیت ملاحظہ فرمائیے:
{ وَاِنَّ رَبَّکَ یَعْلَمْ مَاتِکن صُدُوْرُھُم وَمَا یُعْلِنُوْنَ } (نمل)
اور بے شک تیرا رب جانتا ہے جو ان کے سینہ چھپاتے ہیں اور جو وہ ظاہر کرتے ہیں۔
برق صاحب تحریر فرماتے ہیں:
دل کے دو حصے ہیں... دل ایک پمپ ہے... یہ صرف گوشت کا ایک لوتھڑا ہے، جو ہاتھ پاؤں کی طرح لذت والم کا احساس نہیں نہیں کرتا، نہ ہی وہ خیر و شر کا محرک، تمام افکار، جذبات، خیالات اور تصورات کا مرکز دماغ ہے ، خیر و شر کی تحریک یہیں پیدا ہوتی ہے ، اور ارادے یہیں بندھتے ہیں اگر جبریل کا مقصد نبع شر کو مٹانا تھا ، تو دماغ کو چیرتا نہ کہ دل کو ... اور دماغ کا مسکن کھوپری ہے، نہ کہ سینہ۔ (دو اسلام ص ۵۔۷۶)
ازالہ
ڈاکٹر سید محمد جمیل اور محمد فاروق قریشی لکھتے ہیں:
دل انسانی جسم میں سرمایہ حیات ہے، اگر کسی چوٹ کی وجہ سے دل کی حرکت بند ہو جائے، تو فوراً موت واقع ہوجاتی ہے۔ (علم الابدان ص ۱۹۲)
ایسا کبھی نہیں ہوتا کہ دل کی حرکت بند ہو جائے، اور انسان زندہ رہے ، اور اس کا دماغ رنج والم، غصہ و گھبراہٹ وغیرہ کا احساس کرتا رہے، ہاں ایسا ہوتا ہے کہ دماغ بے کار ہو جائے لیکن دل اپنا کام کرتا رہے، اور انسان ایک عرصہ تک زندہ رہے۔
قرآن مجید کی تائید
{ قُلْ مَنْ کَانَ عَدُوًّا لِّجِبْرِیْلَ فَاِنَّہٗ نَزَّلَہٗ عَلٰی قَلْبِکَ بِاِذْنِ اللہِ } (البقرۃ)
کون شخص جبریل کا دشمن ہوسکتا ہے ، کیونکہ جبریل تو وہ ہے جس نے یہ قرآن تیرے دل پر اللہ کے حکم سے نازل کیا۔
بتائیے جب تمام افکار، خیالات اور تصورات کا مرکز دماغ ہے، تو قرآن کا نزول دماغ پر ہونا چاہیے تھا، نہ کہ دل پر جب دل کو لذت و الم کا احساس نہیں ہوتا، نہ وہ خیر و شر کا محرک ہے، اور محض گوشت کا ایک لوتھڑا ہے تو اس پر قرآن کا نزول کیا معنی رکھتا ہے، جو اعتراض حدیث پر تھا، وہی قرآن پر ہوگا ہاں اگر تاویل کرکے آیت میں دل کے معنی دماغ کئے جائیں، تو پھر انصافاً بتائیے، کیا اس قسم کی تاویل حدیث میں نہیں ہوسکتی، لیکن اس تاویل سے حقیقت کو نہیں بدلا جاسکتا، کیونکہ دوسری آیت میں اس سے زیادہ صراحت ہے، ارشاد باری ہے:
{ اِنَّ اللہَ عَلِیْمٌ بِذَاتِ الصُّدُوْرِ } (اٰل عمران)
اللہ سینہ کی پوشیدہ باتوں سے واقف ہے۔
ایک اور آیت ملاحظہ فرمائیے:
{ وَاِنَّ رَبَّکَ یَعْلَمْ مَاتِکن صُدُوْرُھُم وَمَا یُعْلِنُوْنَ } (نمل)
اور بے شک تیرا رب جانتا ہے جو ان کے سینہ چھپاتے ہیں اور جو وہ ظاہر کرتے ہیں۔