- شمولیت
- اپریل 27، 2013
- پیغامات
- 26,585
- ری ایکشن اسکور
- 6,763
- پوائنٹ
- 1,207
غلط فہمی
برق صاحب تحریر فرماتے ہیں:
''ایک آدمی نے وتر کے متعلق حضرت ابوہریرہ کی روایت کردہ حدیث پڑھی ابن عمر رضی اللہ نے فرمایا: کَذَبَ اَبُوْہُرَیْرَۃَ (ابو ہریرہ جھوٹا ہے)۔ (دو اسلام ص: ۹۵)
ازالہ
کذب کے معنی اگر جھوٹ کے ہی لیے جائیں تو ''کذب ابو ہریرہ'' کے صحیح معنی یہ ہوں گے کہ ابوہریرہ نے جھوٹ کہا اس کے یہ معنی ہرگز نہیں کہ ''ابوہریرہ جھوٹا ہے'' محاورہ کے لحاظ سے ان دونوں جملوں میں بہت فرق ہے ''ابوہریرہ جھوٹا ہے'' یہ بہ نسبت ''ابوہریرہ نے جھوٹ کہا'' کے زیادہ قبیح ہے، معلوم نہیں غلط اور پھر زیادہ قبیح معنی کرنے کی کیا ضرورت پیش آئی، ہوسکتا ہے کہ غلط فہمی ہوگئی ہو۔
صدق اور کذب کا استعمال محض سچ اور جھوٹ ہی کے لیے نہیں ہوتا، بلکہ صدق کا استعمال صحیح نتیجہ پر پہنچ جانے کے لیے بھی ہوتا ہے اور کذب کا استعمال غلطی کر جانا، خطا کر جانا کے معنوں میں بھی ہوتا ہے، عرب کا محاورہ ہے، کہ اگر تیر نشانہ پر بیٹھ جائے، تو ''صدق'' استعمال کرتے ہیں اور اگر خطا کر جائے تو ''کذب'' استعمال کرتے ہیں، لہٰذا ''کذب ابوہریرہ'' کے صحیح معنی یہ ہوئے کہ ''ابوہریرہ سے خطا ہوگئی'' علامہ احمد عبدالرحمن ابن الشہیر بالساعاتی لکھتے ہیں:
ومعنی قولہ کذب ای اخطار ہو لفۃ اہل الحجاز یطلقون الکذب علی ما ہو اعم من العمد والخطاء (بلوغ الامانی علی فتح الربانی (مسند احمد) ج۳، ص۳۰۲۔
''کذب کے معنی خطا کی اور یہ اہل حجاز کی لغت ہے۔ وہ کذب کو قصد اور خطا سے بھی زیادہ عام معنوں پر محمول کرتے ہیں۔''
امام باجی کہتے ہیں:
ای وہم وغلط (بلوغ الامانی ج۴، ص۲۷۶)
''یعنی وہم ہوگیا غلطی ہوگئی۔''
برق صاحب تحریر فرماتے ہیں:
''ایک آدمی نے وتر کے متعلق حضرت ابوہریرہ کی روایت کردہ حدیث پڑھی ابن عمر رضی اللہ نے فرمایا: کَذَبَ اَبُوْہُرَیْرَۃَ (ابو ہریرہ جھوٹا ہے)۔ (دو اسلام ص: ۹۵)
ازالہ
کذب کے معنی اگر جھوٹ کے ہی لیے جائیں تو ''کذب ابو ہریرہ'' کے صحیح معنی یہ ہوں گے کہ ابوہریرہ نے جھوٹ کہا اس کے یہ معنی ہرگز نہیں کہ ''ابوہریرہ جھوٹا ہے'' محاورہ کے لحاظ سے ان دونوں جملوں میں بہت فرق ہے ''ابوہریرہ جھوٹا ہے'' یہ بہ نسبت ''ابوہریرہ نے جھوٹ کہا'' کے زیادہ قبیح ہے، معلوم نہیں غلط اور پھر زیادہ قبیح معنی کرنے کی کیا ضرورت پیش آئی، ہوسکتا ہے کہ غلط فہمی ہوگئی ہو۔
صدق اور کذب کا استعمال محض سچ اور جھوٹ ہی کے لیے نہیں ہوتا، بلکہ صدق کا استعمال صحیح نتیجہ پر پہنچ جانے کے لیے بھی ہوتا ہے اور کذب کا استعمال غلطی کر جانا، خطا کر جانا کے معنوں میں بھی ہوتا ہے، عرب کا محاورہ ہے، کہ اگر تیر نشانہ پر بیٹھ جائے، تو ''صدق'' استعمال کرتے ہیں اور اگر خطا کر جائے تو ''کذب'' استعمال کرتے ہیں، لہٰذا ''کذب ابوہریرہ'' کے صحیح معنی یہ ہوئے کہ ''ابوہریرہ سے خطا ہوگئی'' علامہ احمد عبدالرحمن ابن الشہیر بالساعاتی لکھتے ہیں:
ومعنی قولہ کذب ای اخطار ہو لفۃ اہل الحجاز یطلقون الکذب علی ما ہو اعم من العمد والخطاء (بلوغ الامانی علی فتح الربانی (مسند احمد) ج۳، ص۳۰۲۔
''کذب کے معنی خطا کی اور یہ اہل حجاز کی لغت ہے۔ وہ کذب کو قصد اور خطا سے بھی زیادہ عام معنوں پر محمول کرتے ہیں۔''
امام باجی کہتے ہیں:
ای وہم وغلط (بلوغ الامانی ج۴، ص۲۷۶)
''یعنی وہم ہوگیا غلطی ہوگئی۔''