- شمولیت
- اپریل 27، 2013
- پیغامات
- 26,585
- ری ایکشن اسکور
- 6,763
- پوائنٹ
- 1,207
لہٰذا ایسا نہیں ہوسکتا کہ بغیر جرم کے اللہ تعالیٰ ایک معصوم بچے کو قتل کرا دے ، ابھی جرم واقع نہیں اور آیندہ ہونا بھی یقینی نہیں تھا، بلکہ محض اندیشہ تھا جو ''فخشینا'' کے لفظ سے ظاہر ہے لہٰذا ایک غیر یقینی جرم کے عوض قتل کرنا، کسی طرح سمجھ میں نہیں آسکتا، اور یہ اللہ تعالیٰ رحیم و کریم کی شان سے بعید ہے حضرت خضر کے الفاظ ملاحظہ فرمائیے '' وما فعلتہ عن امری'' میں نے یہ کام اپنی مرضی سے نہیں کیا بلکہ حکم الٰہی اسی طرح تھا۔ سوال یہ ہے کہ کیا اللہ تعالیٰ اس کو زندہ رکھ کرماں باپ کو کفر سے نہیں بچا سکتا تھا، کیا اس بچہ میں اتنی زبردست طاقت تھی کہ اللہ تعالیٰ نے بچپن ہی میں اس کو ہلاک کردیا کہ کہیں جوان ہو کر قابو سے باہر نہ ہو جائے پھر آخر اس میں مصلحت کیا ہے کہ پہلے اس کو پیدا کیا اور پھر تھوڑے ہی عرصہ کے بعد اس کو قتل کرا دیا، اور اپنے محبوب بندوں یعنی اس کے ماں باپ کو صدمہ پہنچایا، اور پھر قتل بھی خفیہ طریقہ پر کرایا گیا، نہ اس کے ماں باپ کو خبر نہ عزیز و اقارب کو اگر اللہ تعالیٰ کو یہ اندیشہ تھا کہ وہ گمراہی کا سبب نے گا تو اس کو پیدا ہی کیوں کیا تھا، آخر اللہ تعالیٰ کو وہ دونوں ماں باپ اتنے عزیز کیوں تھے کہ ان کی گمراہی کے خوف سے ان کے بے گناہ بچے کو قتل کرا دیا، پھر وہ ماں باپ بھی ایمان میں اتنے کمزور تھے کہ آزمائش میں پورے نہ اتر سکتے تھے، اتنی بھی استقامت نہیں تھی کہ وہ اس بچہ کے فتنہ سے بچ جاتے اتنے ضعیف الایمان ماں باپ آخر اللہ کو کیوں اتنے پیارے تھے، دنیا میں سینکڑوں نیک ماں باپ اپنے بچوں کی وجہ سے گمراہ ہوتے ہیں، لیکن اللہ تعالیٰ کبھی بھی ان کی خاطر ان کی اولاد کو قتل نہیں کراتا، یہ کہاں کا انصاف ہے اللہ تعالیٰ کبھی نا انصافی نہیں کرتا، اس کا قانون سب کے لیے یکساں ہے، پھر ایسا کیوں ہوا، ہم کچھ نہیں کہہ سکتے، برق صاحب غور فرمائیں، اللہ کی مصلحت اللہ ہی جانتا ہے، ہماری عقل کی رسائی وہاں تک نہیں ہوسکتی، حدیث زیر بحث کی اشاعت کو حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے مشورہ سے روکنا منظور تھا، اور لڑکے کو پیدا کرکے ہی قتل کرانا مقدر تھا، مصلحت وہ جانے ہم تو یہ کہتے ہیں '' اٰمنا بہ کل من عند ربنا''
مندرجہ بالا آیات تو میں نے اللہ تعالیٰ کی مصلحت اور ہمارے ظاہری اعتراض کی وضاحت کے لیے پیش کی تھیں، اب میں بتاتا ہوں کہ خود اللہ تبارک و تعالیٰ مشورہ قبول فرماتا ہے، اللہ تعالیٰ فرماتا ہے:
اِذْھَبْ اِلٰی فِرْعَوْنَ اِنَّہٗ طَغٰی
اے موسیٰ فرعون کے پاس جاؤ وہ سرکشی میں مبتلا ہے۔
موسیٰ علیہ السلام مشورہ دیتے ہیں:
وَاجْعَلْ لِیْ وَزِیْرًا مِنْ اَھْلِی ۔ ھَارُوْنَ اَخِی اشْدُدُ بِہٖ اَزْرِیْ وَاشْرِکْہُ فِیْ اَمْرِیْ۔ (سورہ طہ)
اے اللہ میرے بھائی ہارون کو میرا وزیر بنا دے اورمجھے اس کے ذریعہ قوت عطا فرما، اور اس کو میرے کام میں شریک کردے۔
بلکہ موسیٰ علیہ السلام یہاں تک کہہ گئے:
یَضِیْقُ صَدْرِیْ وَلَا یَنْطَلِقُ لِسَانِیْ فَاَرْسِل اِلٰی ھَارُوْنَ (شعرآء)
یعنی میرا سینہ تنگ ہوتا ہے میری زبان رکتی ہے اس لیے ہارون کو بھی منصب رسالت دیدے۔
اللہ تعالیٰ فرماتا ہے:
قد اُویت سولک یا موسی (طہ)
اے موسیٰ تمہاری خواہش پوری کی جاتی ہے۔
اب اس قصہ پر یہ اعتراض ہوسکتا ہے کہ کیا اللہ تعالیٰ کو پہلے سے علم نہیں تھا کہ یہ کام تنہا موسیٰ علیہ السلام کے بس کا نہیں، اس میں ہارون علیہ السلام کی وزارت اور رسالت کی بھی ضرورت ہے، جب موسیٰ علیہ السلام نے توجہ دلائی اور مشورہ دیا، تو اللہ تعالیٰ کو بھی خیال آیا کہ ہاں ٹھیک ہے، ایسا ہی ہونا چاہیے ہمارا یہ اعتراض محض ظاہری ہے، باطنی مصلحت کو اللہ ہی جانتا ہے کہ ہارون علیہ السلام کو رسول بنانا موسیٰ علیہ السلام کے مشورہ پر کیوں موقوف تھا، اور حدیث زیر بحث کی اشاعت کو حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے مشورہ سے روکنا کیوں ضروری تھا، جب اللہ تعالیٰ اپنے بندے کے صحیح مشورہ کو قبول فرما لیتا ہے تو نبی پر کیا اعتراض ہے، اگر وہ اپنے ایک امتی کے مشورے کو قبول فرما لے، لا علمی کا اعتراض نہ اللہ تعالیٰ پر صحیح ہے نہ اس کے رسول پر ( صلی اللہ علیہ وسلم )۔
خلاصہ
حدیث زیر بحث پیش کرکے برق صاحب کا یہ نتیجہ نکالنا کہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کو حدیث بیان کرنے پر مارا تھا۔ کسی طرح صحیح نہیں، نہ یہ صحیح ہے کہ حضرت ابوہریرہ حضرت عمر کے خوف سے حدیث بیان نہیں کرتے تھے بلکہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ تو خود حدیث کے متلاشی رہتے تھے اور حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ کی موجودگی میں اور بقول برق صاحب '' اکڑ کر اور چھاتی تان کر'' ۔ (دو اسلام ص۵۲) احادیث بیان کرتے تھے، سنیے:
اُتی عمر بامرأۃ تشم فقال الشدکم باللہ ھل سمع احد منکم من رسول اللہ ﷺ قال ابوھریرۃ فقمت فقلت یا امیر المومنین انا سمعتہ قال فما سمعتہ قلت سمعتہ یقول لا تشمن ولا تستوشمن۔ (نسائی۔ کتاب الزینۃ جلد دوم)
حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے پاس ایک عورت لائی گئی جو بدن گودتی تھی، حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے فرمایا میں تمہیں اللہ کی قسم دیتا ہوں، کیا تم میں کسی نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے اس سلسلہ میں کچھ سنا ہے، حضرت ابوہریرہ کہتے ہیں میں (چھاتی تان کر کھڑا ہوگیا اور میں نے کہا اے امیر المومنین میں نے سنا ہے حضرت عمر نے فرمایا تم نے کیا سنا ہے حضرت ابوہریرہ نے کہا آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ فرماتے سنا ہے نہ گودا جائے نہ گدوایا جائے۔
مندرجہ بالا آیات تو میں نے اللہ تعالیٰ کی مصلحت اور ہمارے ظاہری اعتراض کی وضاحت کے لیے پیش کی تھیں، اب میں بتاتا ہوں کہ خود اللہ تبارک و تعالیٰ مشورہ قبول فرماتا ہے، اللہ تعالیٰ فرماتا ہے:
اِذْھَبْ اِلٰی فِرْعَوْنَ اِنَّہٗ طَغٰی
اے موسیٰ فرعون کے پاس جاؤ وہ سرکشی میں مبتلا ہے۔
موسیٰ علیہ السلام مشورہ دیتے ہیں:
وَاجْعَلْ لِیْ وَزِیْرًا مِنْ اَھْلِی ۔ ھَارُوْنَ اَخِی اشْدُدُ بِہٖ اَزْرِیْ وَاشْرِکْہُ فِیْ اَمْرِیْ۔ (سورہ طہ)
اے اللہ میرے بھائی ہارون کو میرا وزیر بنا دے اورمجھے اس کے ذریعہ قوت عطا فرما، اور اس کو میرے کام میں شریک کردے۔
بلکہ موسیٰ علیہ السلام یہاں تک کہہ گئے:
یَضِیْقُ صَدْرِیْ وَلَا یَنْطَلِقُ لِسَانِیْ فَاَرْسِل اِلٰی ھَارُوْنَ (شعرآء)
یعنی میرا سینہ تنگ ہوتا ہے میری زبان رکتی ہے اس لیے ہارون کو بھی منصب رسالت دیدے۔
اللہ تعالیٰ فرماتا ہے:
قد اُویت سولک یا موسی (طہ)
اے موسیٰ تمہاری خواہش پوری کی جاتی ہے۔
اب اس قصہ پر یہ اعتراض ہوسکتا ہے کہ کیا اللہ تعالیٰ کو پہلے سے علم نہیں تھا کہ یہ کام تنہا موسیٰ علیہ السلام کے بس کا نہیں، اس میں ہارون علیہ السلام کی وزارت اور رسالت کی بھی ضرورت ہے، جب موسیٰ علیہ السلام نے توجہ دلائی اور مشورہ دیا، تو اللہ تعالیٰ کو بھی خیال آیا کہ ہاں ٹھیک ہے، ایسا ہی ہونا چاہیے ہمارا یہ اعتراض محض ظاہری ہے، باطنی مصلحت کو اللہ ہی جانتا ہے کہ ہارون علیہ السلام کو رسول بنانا موسیٰ علیہ السلام کے مشورہ پر کیوں موقوف تھا، اور حدیث زیر بحث کی اشاعت کو حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے مشورہ سے روکنا کیوں ضروری تھا، جب اللہ تعالیٰ اپنے بندے کے صحیح مشورہ کو قبول فرما لیتا ہے تو نبی پر کیا اعتراض ہے، اگر وہ اپنے ایک امتی کے مشورے کو قبول فرما لے، لا علمی کا اعتراض نہ اللہ تعالیٰ پر صحیح ہے نہ اس کے رسول پر ( صلی اللہ علیہ وسلم )۔
خلاصہ
حدیث زیر بحث پیش کرکے برق صاحب کا یہ نتیجہ نکالنا کہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کو حدیث بیان کرنے پر مارا تھا۔ کسی طرح صحیح نہیں، نہ یہ صحیح ہے کہ حضرت ابوہریرہ حضرت عمر کے خوف سے حدیث بیان نہیں کرتے تھے بلکہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ تو خود حدیث کے متلاشی رہتے تھے اور حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ کی موجودگی میں اور بقول برق صاحب '' اکڑ کر اور چھاتی تان کر'' ۔ (دو اسلام ص۵۲) احادیث بیان کرتے تھے، سنیے:
اُتی عمر بامرأۃ تشم فقال الشدکم باللہ ھل سمع احد منکم من رسول اللہ ﷺ قال ابوھریرۃ فقمت فقلت یا امیر المومنین انا سمعتہ قال فما سمعتہ قلت سمعتہ یقول لا تشمن ولا تستوشمن۔ (نسائی۔ کتاب الزینۃ جلد دوم)
حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے پاس ایک عورت لائی گئی جو بدن گودتی تھی، حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے فرمایا میں تمہیں اللہ کی قسم دیتا ہوں، کیا تم میں کسی نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے اس سلسلہ میں کچھ سنا ہے، حضرت ابوہریرہ کہتے ہیں میں (چھاتی تان کر کھڑا ہوگیا اور میں نے کہا اے امیر المومنین میں نے سنا ہے حضرت عمر نے فرمایا تم نے کیا سنا ہے حضرت ابوہریرہ نے کہا آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ فرماتے سنا ہے نہ گودا جائے نہ گدوایا جائے۔