غلط فہمی
برق صاحب تحریر فرماتے ہیں:
جب سمرہ کی یہ حدیث '' کانت للبنی سکتتان عند تراتہ فی الصلوٰۃ'' حضور قرأت نماز میں دو مرتبہ سکتہ (ٹھہرنا، وقفہ کرنا) فرمایا کرتے تھے، حضرت عمران بن الحصین (وفات ۵۲ھ) نے سنی تو کہا ''کذب سمرۃ'' سمرہ جھوٹا ہے۔ (دو اسلام ص ۹۸)
ازالہ
یہاں بھی '' کذب سمرہ'' کا ترجمہ '' سمرہ جھوٹا ہے'' صحیح نہیں، صحیح ترجمہ یہ ہے کہ '' سمرہ سے خطا ہوگئی'' کذب کے معنی ہر جگہ جھوٹ کرنا یہی تو اصل غلط فہمی ہے، پھر اس حدیث کے صحیح الفاظ نقل نہیں کئے گئے، صحیح الفاظ درج ذیل ہے:
ان سرۃ بن جندب و عمران بن حصین تذاکرا قال سمرۃ بن جندب حفظت عن رسول اللہ ﷺ کسنتین فی الصلوۃ سکتۃ اذا اکبر الامام حتی یقرأ وسکتۃ اذا فرع من فاتحۃ الکتاب و سورۃ عند الرکوع فانکر عمران بن حصین فکتبوا فی ذلک الی ابی بن کعب فصدق سمرۃ ۔ (ابوداؤد ملخصا ج۱، ص۱۲۰)
سمرہ رضی اللہ عنہ اور عمران رضی اللہ عنہ میں مذاکرہ سمرہ رضی اللہ عنہ نے کہا مجھے یاد ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم دو سکتہ کرتے تھے، ایک تکبیر تحریمہ کے بعد اور دوسرا فاتحہ اور سورت کے بعد تو حضرت عمران رضی اللہ عنہ نے اس کا انکار کیا، پھر انہوں نے حضرت ابی بن کعب رضی اللہ عنہ کو خط لکھا حضرت ابی بن کعب رضی اللہ عنہ نے سمرہ رضی اللہ عنہ کی تصدیق کی۔
اصل واقعہ تو اس طرح ہے، اور اس میں کوئی اعتراض بھی نہیں ہے، اگر حضرت عمران نے یہ کہہ بھی دیا کہ سمرہ تم غلط کہتے ہو، تو کیا ہوا ، غلطی پر ایک ضرور تھا، اور یہاں غلطی پر وہ نکلے جو دوسرے کو غلطی پر سمجھ رہے تھے لہٰذا یہ ہوسکتا ہے کہ کوئی صحابی کسی دوسرے صحابی کو غلطی پر سمجھے اور ہو وہ خود غلطی پر، اس قسم کے اقوال سے کسی صحابی کی تکذیب نہیں ہوتی، نہ یہ کوئی دلیل ہے،کسی شخص کی غلط فہمی کی بنا پر حق والے کو ناحق سمجھنا تحقیق کا خون کرنا ہے۔